Wednesday, November 24, 2010

NOVEMBER-2010 مرکزی جمعیت اہل حدیث نیپال

شمیم احمدندوی


مرکزی جمعیت اہل حدیث نیپال

اقدار کی پامالی اوراسباب زبوں حالی

ایک زمانہ تھا کہ ملک نیپال میں دینی مدارس توتھے لیکن آپس میں ربط کا فقدان تھا، صحیح عقیدہ وفکرپر کاربند لوگ توتھے لیکن ان کی کوئی پہچان نہ تھی، تعلیمی اداروں کا ایک محدود دائرہ کارتوتھا لیکن ان کے سامنے کوئی صحیح لائحہ عمل نہ تھا، منہج سلف پرقائم علمائے اہل حدیث توتھے لیکن ان کے سامنے اپنی فکری دعوت کو عام کرنے کا کوئی مربوط نظام نہ تھا، لوگوں کے اندرکام کرنے کا جذبہ توتھا لیکن ان کے سامنے کوئی منصوبہ بندی نہ تھی، ہرطرح کی تعلیمی ودعوتی صلاحیتوں سے لیس افراد توتھے لیکن ایک جماعت بننے کا تصور ان میں دوردورتک موجود نہ تھا، غرض کہ ایک انتشار تھا جوملک کے اہل حدیث افراد پرمسلط تھا اورایک افراتفری تھی جس کی بناپر مدارس بھی بہتر نتائج پیداکرنے سے قاصرتھے اورخطرہ پیدا ہوچلاتھا کہ من حیث الجماعۃ اس ملک سے ہمارا وجود مٹ جائے گا، اہل حدیث نوجوان دوسری تنظیموں سے وابستہ ہوکراپنی شناخت اورانفرادیت کو کھوتے جارہے تھے اور آپسی اتحاد واتفاق اورتعاون علی البر والتقوی کی صفات سے محروم ہوکرنظام گلشن بدل ڈالنے کی صلاحیت سے عاری ہوچکے تھے، یہ تشتت وافتراق اوریہ بدنظمی وانتشار ہمارے وجود کے لئے سم قاتل کی حیثیت رکھتا تھا، دوسرے افکار ونظریات سے وابستہ افراد ملک میں اپنی شناخت کے لئے نئی نئی تنظیمیں پرکشش ناموں سے قائم کررہے تھے ،بالخصوص نوجوان طبقہ کو ان کی طرف راغب کرنے کے لئے مختلف ہتھکنڈے آزمارہے تھے اور ان کی اجتماعی کوششیں قابل ذکر نتائج بھی پیدا کررہی تھی، جب کہ ملک کے اہل حدیثوں میں اجتماعیت کا فقدان تھا اوروہ زمانہ شناسی کی صفات سے محروم اورعالمانہ بے خبری کا شکار اوراپنی سطحی وانفرادی کوششوں میں مست و مگن تھے، وہ ’’خورشید مبین‘‘ بننے کی صلاحیت تورکھتے تھے لیکن بکھرے ہوئے ذرات کی شکل میں ان کی افادیت ختم ہوچکی تھی، ان کی ضرورت تھی کہ کوئی اولوالعزم اورزمانہ شناس شخص اسی خاک سے اٹھے اور تسبیح کے ان بکھرے ہوئے دانوں کو ایک لڑی میں پروئے، اوراپنی پرجوش ومخلصانہ قیادت کے ذریعہ ان علماء جماعت، فارغین مدارس اور ذمہ داران مدارس کوصحیح سمت عطا کرے جواپنی بعض انفرادی کامیابیوں اورچھوٹی چھوٹی حصولیابیوں پرقانع ہوچکے تھے، لیکن پوری جماعت کو ساتھ لے کرآگے بڑھنے کاجذبہ اورپوری جماعت کو تعلیمی ودعوتی میدان میں ترقی کرتے ہوئے دیکھنے کی خواہش ان میں دم توڑچکی تھی۔
ایسے میں خطیب الاسلام علامہ عبدالرؤف رحمانی جھنڈانگری رحمہ اللہ کی شخصیت مایوس و دل شکستہ اہل حدیثان نیپال کے لئے مرکز امید تھی، اورنامساعد حالات کی کڑی دھوپ میں ان کی حیثیت شجرسایۂ دارکی تھی ،جوعلم وعمل کے ضروری اسلحوں سے لیس بھی تھے اورملک کے ہرحلقہ کو ان کی مخلصانہ جہود ومساعی اورتعلیمی ودعوتی خدمات کا اعتراف بھی تھااور جن کی شخصیت پرملک کے مشرق ومغرب اورمیدانی و پہاڑی سبھی خطوں کے لوگوں کا اعتماد تھا، اوراسی وجہ سے وہ سب کو ساتھ لے کر چلنے کی صلاحیت رکھتے تھے اورجن کا اخلاص بے داغ اوربے نفسی ہر شک وشبہ سے بالاتر تھی، اس جماعت کی قیادت کا حق بھی انھیں کا تھا اورفرض بھی، یہ عظیم ذمہ داری بھی انھیں کی تھی اورمنصب بھی، کہ وہ رابطہ عام اسلامی کی مجلس تاسیسی کے ممبرہونے کی حیثیت سے پورے ملک کے مسلمانوں کی نمائندگی کررہے تھے اورملک کے مسلمانوں کی دینی وتعلیمی حالت سے واقفیت حاصل کرنے کے لئے حتی المقدور کوشاں تھے ۔
رابطہ عالم اسلامی میں مسلمانان نیپال کی نمائندگی کی بناپرانھیں بسااوقات مدارس دینیہ اور شخصیات اسلامیہ کے بارے میں استفسار کئے جانے پر اپنی رپورٹ اور رائے بھی بھیجنی پڑتی تھی، ملک کے طول وعرض اورمشرق ومغرب میں پھیلے ہوئے چھوٹے بڑے مدارس ومکاتب کے بارے میں معلومات بہم پہونچانا، ان کے بارے میں درست حقائق کا مہیاکرنا اوران کی تازہ ترین صورت حال اورسرگرمیوں سے باخبر رہنا ایک مشکل کام تھاجسے محض ذاتی طورپر اورانفرادی سطح پرانجام دیناممکن نہ تھا، اورپھراس میں غلطیوں کے امکان کو نظراندازنہیں کیا جاسکتاتھا، ان کے بعض مخلص احباب اورجمعیت وجماعت کا تجربہ رکھنے والے لوگوں نے مشورہ دیا کہ آپ اگر اس ملک میں مرکزی جمعیت اہل حدیث کی تاسیس کرکے ملک کے اضلاع میں اس کی شاخیں قائم کردیں توکاموں میں بہت سہولیت بھی ہوجائے گی اورجماعت کے لوگوں کوباہم مربوط کرنے میں بھی مددملے گی، اوربعض لوگوں نے اس پراظہارتعجب بھی کیا کہ آپ لوگ جمعیت واجتماعیت کے بغیر ابھی تک زندہ کیسے ہیں، بہرحال ہرکام کے لئے ایک وقت متعین ہوتا ہے، انھوں نے اللہ کی مددکے بھروسہ پر اوراپنے بعض معاونین کے تعاون واشتراک سے اس ظلمت کدۂ نیپال میں ’’مرکزی جمعیت اہل حدیث نیپال‘‘ کی بنیادڈال دی، اس وقت وسائل کے نام پر صرف ان کا عزم وحوصلہ تھا، ایک نومولود تنظیم کو ملک گیرپیمانہ پر متعارف کرانے کے لئے درکارضروری سازوسامان کی جگہ پر محض ان کے آہنی ارادے تھے اورجمعیت کے لئے مرکزی صدر دفترکی جگہ پرصرف ان کی سعی پیہم اورجہدواخلاص تھا، انھوں نے بے سرو سامانی کے عالم میں جمعیت کی داغ بیل ڈال کر یہ ثابت کردیا کہ اللہ کے مخلص بندے مادی وسائل سے زیادہ اس کی مدد ونصرت اوراپنے عزم وہمت پربھروسہ کرتے ہیں اور ان ٹمٹماتے چراغوں میں اپنے اخلاص کا تیل ڈال کر انھیں روشن رکھتے ہیں، مرکزی جمعیت اہل حدیث نیپال کا قیام جامعہ سراج العلوم السلفیہ،جھنڈانگر کی عظیم الشان جامع مسجد میں عمل میں آیا ،اس وقت اس کے پاس آفس کے نام پر کھلے آسمان کی چھت تھی، لیکن اس کی خوش قسمتی تھی کہ اسے خطیب الاسلام رحمہ اللہ کی بیدارمغز قیادت اوردینی بصیرت سے پررہنمائی میسرتھی جواس بڑھاپے میں بھی عزم جواں کے مالک تھے اوراپنی بے لوث خدمات کے ذریعہ محض اپنے دم پراسے ملک گیرپہچان دے سکتے تھے، اورآگے چل کرہوا بھی یہی کہ ملک کا ہروہ فرد جومسلک اہل حدیث پرکاربندہے ،اتباع سنت کاجذبہ رکھتا ہے اورسلفیت کے فروغ کے لئے کوشاں ہے، اس تنظیم سے جذباتی طورپروابستہ ہوگیا، کیونکہ ان کی ایک شجرسایہ دارسے وابستگی فصل بہار کی نوید جاں فزاتھی ،جن کی حیثیت ابھی تک صرف شاخوں کی تھی انھیں ایک مضبوط وتناور درخت مل گیا اورانھیں اپنی صلاحیتوں کے اظہارکے لئے بھی بہترمواقع میسرآگئے۔
مرکزی جمعیت اہل حدیث نیپال نے جوش وخروش کے ساتھ اپنا دعوتی سفرشروع کیا،اس کوکچھ مخلص کارکن ضرور ملے لیکن ابتداہی سے بعض ایسے لوگ اس میں شامل رہے جن کی نیت واخلاص پرمکمل بھروسہ نہیں کیاجاسکتا تھا ،جوبظاہرتو بڑے چاق وچوبند اورفعال نظرآتے تھے اوراپنی لچھے دارگفتگو سے مخاطب کومتاثرو مرعوب کرنے کا ہنرجانتے تھے لیکن وہ ابتدا سے ہی اپنی شخصیت کو نمایاں کرنے اورملک میں اپنا تعارف کرانے کے لئے جمعیت کوایک سیڑھی کے طورپر استعمال کرناچاہتے تھے، ان میں بعض ایسے لوگ بھی تھے جن کے اندرنہ توعالمانہ شان اوروقار تھا اورنہ ہی کوئی فضل وکمال ،اخلاص و دیانت داری سے تووہ قطعا عاری تھے، صرف اپنی ظاہری سج دھج اورکروفر اوراپنی سرگرمی ونشاط کے اظہار کے ذریعہ جمعیت میں ایک نمایاں مقام بنائے رکھنے کے خواہش مند تھے جس میں بدقسمتی سے وہ ہمیشہ کامیاب بھی رہے، کیونکہ اس ملک کے سادہ لوح اوربالعموم کم تعلیم یافتہ عوام انھیں کو جمعیت وجماعت کابے لوث خادم سمجھتے رہے اورباربار دھوکہ کھاتے رہے ، ان کی اونچی اونچی گفتگو سے بھی، ان کے فلک بوس منصوبوں سے بھی ، ان کے عالیشان پروگراموں سے بھی، ان کی تیزگامی وسرعت رفتارسے بھی اور جمعیت وجماعت کے لئے اپنی دردمندی وفکرمندی کے اظہار سے بھی، غرض کہ دھوکہ دینے کے ہتھیار توان کے پاس بہت تھے لیکن ایسے لوگوں کوسمجھنے کے لئے عوام کی سادہ لوحی وسادہ مزاجی کے سامنے کوئی دفاعی تدبیرنہ تھی اس لئے دھوکہ دینے ودھوکہ کھانے کا عمل تسلسل کے ساتھ جاری رہا اورباربار ایسے ہی لوگوں کو جمعیت کی نمائندگی کے مواقع ملتے رہے جوموقع پرستی وابن الوقتی میں اپناجواب نہیں رکھتے تھے، جوجمعیت کو اپنے ذاتی مفادات اورمادی فوائد کے حصول کا آسان ذریعہ سمجھتے تھے اورجواپنے حقیر دنیاوی مفادات کی قربان گاہ پرپوری جمعیت کوذبح کرنے میں بھی شرم نہیں محسوس کرتے تھے، ایسے لوگوں کی نیت شروع سے یہی تھی کہ جمعیت کے ذریعہ سستی شہرت اور نام ونمود حاصل کریں ،پورے ملک میں گھوم گھوم کراپنے جبہ ودستار اورکروفر کی نمائش کریں اورسادہ مزاج عوام کو اپنی طرف مائل اوران سے خراج تحسین حاصل کریں، ایسے لوگوں نے ہمیشہ جمعیت کا استغلال واستحصال کیا اورکمال یہ ہے کہ اس کے سب سے بڑے ہمدردبھی بنے رہے، اوراس کی زبوں حالی پراپنی تکلیف اورگہرے رنج وغم کا اظہاربھی کرتے رہے۔
خطیب الاسلام علامہ جھنڈانگری رحمہ اللہ اس کرب کے ساتھ دنیا سے رخصت ہوگئے کہ وہ اپنی زندگی میں جمعیت کو پھلتا پھولتا نہ دیکھ سکے اور انھوں نے جودرخت اپنی زندگی میں لگایا تھا اوراسے اپنے خون جگر سے سیراب کیا تھا اسے بعض طالع آز ماؤں اورمفادپرستوں کی خود غرضیوں کی بناپر ثمربارہوتے اورخوشگوارنتائج دیتے دیکھنے کی تمنا ان کے دل ہی میں رہی، ان کے ہم رکاب چلنے والے مفاد پرست ٹولہ نے اس بوڑھے ناتواں کے کندھوں پراس کی طاقت واستطاعت سے زیادہ بوجھ لاددیا اورخود تماشائی کاکردار اداکرتا رہا ،اور جب جمعیت کی کشتی گرداب میں پھنسی توکوئی اسے اس طوفان سے نکالنے کے لئے تیار نہ ہوا ،جماعت کے دردمندوں نے وہ روزبھی دیکھا کہ جمعیت کے سابق ناظم اعلیٰ اس کاسارا سامان اورکل اثاثہ ٹرک پر لاد کرمراجعت فرمائے وطن ہوئے، جمعیت کی آفس میں تالا لگ گیااورایک طرح سے جمعیت اپنی آخری ہچکیاں لے کرخاموش ہوگئی، لیکن اسی بوڑھے ناخدا نے جواپنی عمرکے آخری پڑاؤ پرپہونچ کر نقل وحرکت سے بھی معذورہوگیا تھا ایک بارپھر پتوار سنبھالی اورجمعیت کی کشتی کو منجدھار سے نکالنے اوراس کو حیات نوبخشنے کے لئے تیار ہوگیا اورصحت کی خرابی اور پیروں کی معذوری کے باوجود اس کے جذبہ صادق اورولولہ شوق نے ایک بارپھر زبان حال سے یہ کہا ؂
گوہاتھ میں جنبش نہیں آنکھوں میں تودم ہے
رہنے دو ابھی ساغرومینا میرے آگے

لیکن اسی طالع آزماٹولہ نے ایسے مخلص شخص کے جذبات سے پھرمذاق کیا اور اس کو قیادت سے محروم کرنے کے لئے گہری سازش کی، حالانکہ وہ جمعیت کے لئے باعث برکت اورقابل فخرتھا، اس میں کوئی شک نہیں کہ بعض دل آویزشخصیات ایسی ہوتی ہیں جن سے عہدوں کوعزت ملتی ہے ،نیپال کی نومولود اورغیر معروف جمعیت ہرگز ایسی چیز نہ تھی جس سے خطیب الاسلام کی مقبول خاص وعام شخصیت کی دل فریبی وجاذبیت میں کوئی اضافہ ہوتا، رابطہ عالم اسلامی جیسی عظیم تنظیم کی مجلس تاسیسی کی رکنیت کا منصب مرکزی جمعیت اہل حدیث نیپال کی امارت سے بدرجہا بلند وبالااور باعث شرف وافتخار تھا، جمعیتیں توروزبنتی بگڑتی ہیں لیکن وہ تاحیات اس عظیم منصب پرفائز تھے، جہاں کسی بھی جماعت سے کوئی بھی شخص نہ توان کو چیلنج کرسکتا تھا نہ ان کی ہمسری کا دعوی کرسکتا تھا، اس کے ذریعہ ان کو عالم اسلام میں جووقار واعتبار ملا مرکزی جمعیت کے امراء ونظماء اس مقام تک پہونچنے کا تصوربھی نہ کرسکتے تھے اوربعدمیں جوامراء جمعیت اس منصب پرسازشوں کے ذریعہ فائز ہوئے ان کو بخوبی اس بات کا ادراک ہوگیا ہوگا کہ اس لولی لنگڑی جمعیت سے ان کی شخصیت کے وقارمیں کتنا اضافہ ہوا، عامۃ الناس میں ان کو کتنی مقبولیت حاصل ہوئی اور خودجمعیت کو ان کی ذات والا صفات سے کس قدرفائدہ ہوا۔
اب مرکزی جمعیت اہل حدیث نیپال سازشوں کی آماجگا ہ،اختلافات ونزاعات کے اظہار کا ایک ذریعہ اورشخصیات کی کردارکشی کا ایک وسیع پلیٹ فارم ہے ،جس جمعیت کوقائم کیاگیا تھا جماعت میں اتحاد واتفاق قائم کرنے اورمنتشر لوگوں کوایک مرکز پرجمع کرنے کے لئے وہ اس کے برعکس تشتت وافتراق کا ایک نمونہ اورخود اپنے آپ میں ایک المیہ بن کررہ گئی، کہنے کواس کا ایک دستور بھی ہے اورمطبوعہ اصول وضوابط بھی، سرکاری دفاتر میں یہ رجسٹرڈ بھی ہے اوراس کا منظورشدہ’’وِدھان بھی‘‘ہے، لیکن شاید ہی کبھی اس کی یادکسی کو آتی ہو اور اس کی ورق گردانی کی ضرورت کسی کومحسوس ہوتی ہو،اس لئے بے اصولی پن کے مظاہرعام ہیں اوردستور کواٹھاکر طاق نسیاں پررکھ دیاگیا ہے، اس کی ضلعی جمعیتوں اورمرکزی جمعیت کے انتخابات کے لئے وہ تمام ہتھکنڈے اپنائے جاتے ہیں جودنیاوی مناصب کے لئے ہونے والے انتخابات کے لئے رواسمجھ لئے گئے ہیں، وہی جوڑ توڑکی سیاست ،وہی ووٹوں کی جمع تفریق ،اپنے خامیوں ومخالفین کے اعداد وشمارپر گہری نظر، اپنے مؤیدین وحامیوں کی تعداد میں اضافہ کے لئے ہرسطح پرکوششیں، اپنے مخالفین کا منہ بند کرنے کی تمام ممکنہ تدبیریں اور رائے عامہ ہموارکرنے کے لئے ہرطرح کی چالوں کا استعمال ، اپنے لئے ایک باراورموقع کی تلاش اوراس کے لئے خوشامدیں ،کسی کواس کے مدرسہ کی تعمیروترقی میں مدددینے کا سبزباغ، کسی کومختلف مشاریع کے ہدایا وتحائف حتی کہ کسی کے ایمان اور ضمیر کاسودابھی کرنے میں کوئی ہچکچاہٹ نہیں، اوراگریہ سب نہ بھی ہوتوکم ازکم جمعیت کوترقی کی معراج پرپہونچانے کے لئے مختلف اونچے اورپرکشش منصوبوں کاتذکرہ جس سے جمعیت کے لئے مخلصانہ جذبات رکھنے والا بھی متاثر ہوجاتا ہے یایوں کہیں کہ دام تزویر کاشکارہوجاتا ہے اورجمعیت وجماعت کی ترقی کے لئے اپنی ناگواری خاطر کے باوجود ایسے لوگوں کوموقع دینے کے لئے تیارہوجاتا ہے جس سے اسے جمعیت کاکچھ بھی بھلا ہونے کی امید ہوتی ہے، بارباریہی ہوتارہا ہے اوراگرجمعیت کے اندر کوئی انقلابی تبدیلی نہ آئی توآئندہ بھی یہی ہوگا۔
ووٹوں کی جمع و تفریق کا کھیل یہاں ہرسطح پرجاری ہے جس کی ابتدا اضلاع سے ہی ہوجاتی ہے، ضلعی جمعیتیں نام کوقائم توہیں لیکن ان کا استعمال۵؍سال میں صرف ایک بارایک دن کے لئے ہوتا ہے، اوراس کے بے شعورممبران جوعموماً نامزد ہوتے ہیں وہ اس وقت اپنے کو خوش نصیب سمجھتے ہیں جب ۵؍سال میں ایک بارانھیں ضلعی کمیٹی کے انتخاب کی دعوت دی جاتی ہے ،یہ انتخاب بھی ایک ڈھکوسلہ ہوتا ہے جب کہ سب کچھ پہلے سے طے ہوتا ہے، آخرانھیں نامزد بھی تواسی لئے کیا جاتا ہے اوربعضوں پرنوازشات کی بارش کی جاتی ہے کہ وہ ایسی من پسند باڈی چن کرمرکزمیں بھیجیں گے جوان کے آقاؤں کی خواہشات کی تکمیل کرسکے اورانھیں کرسی امارت یانظامت یا ان دونوں کی نیابت کے مناصب پرفائزکرسکے، میں یہ کہنے کی جسارت ہرگز نہیں کرسکتا کہ سبھی ممبران’ان‘ کے زرخرید غلام ہوتے ہیں لیکن جوہوتے ہیں وہ حق نمک اداکرتے ہیں اورجونہیں ہوتے ہیں وہ حق گوئی کی پاداش میں رسوا کرکے کنارے لگادئے جاتے ہیں ، اظہار رائے کی آزادی توکتابی باتیں ہیں، یہاں صرف چند بقلم خود دانشوروں کی رائے اورمرضی کے بغیرپتہ بھی نہیں ہلتا، آخرکس اصول وضابطہ کے تحت ضلع کے ممبران کو فرد واحد کی طرف سے دعوت نامے جاری کئے جاتے ہیں اوران کے لئے وسیع دسترخوان سجاکر اور لذت کام ودہن کا سامان کرکے ان سے ان کی رائے طلب کی جاتی ہے جوکسی نہ کسی درجہ میں ان کے احسان مند ہوتے ہیں اورآزادانہ اپنی رائے کے اظہار سے معذورہوتے ہیں ،حق تویہ ہے کہ ان میں اکثریت ایسے لوگوں کی ہوتی ہیں جونہ تو جمعیت کے اغراض ومقاصد سے واقف ہوتے ہیں نہ انھیں اس سے سروکارہوتا ہے کہ اسے کس مقصد کے لئے قائم کیاگیا ہے، حتی کہ یہ روح فرسا حقیقت بھی ہمارے علم میں لائی گئی کہ ایسے ایسے لوگوں کو بعض اضلاع سے جمعیت کی نمائندگی کے لئے منتخب کیاگیا ہے کہ اس کا علم اگرافراد جماعت کو ہوجائے تو وہ اسی دن جمعیت پر اناللہ پڑھ لیں گے بشرطیکہ ان کے اندرذرابھی ملی غیرت اورجماعتی حمیت ہو، چنانچہ ضلع جھاپا سے ایک ایسے شخص کوجمعیت کاممبر بنایاگیا جس کے اندرچار ایسے شرعی وسماجی عیوب تھے جن میں سے صرف ایک کا ہونا اسے جمعیت وجماعت سے خارج کرنے کے لئے کافی ہے،(۱) وہ اس ماؤنواز تحریک کا سرگرم رکن تھا جس کے ہاتھ بے گناہوں کے خون سے رنگین ہیں (۲)وہ جواری تھا(۳) شرابی تھا(۴) سب سے سنگین مذاق یہ ہے کہ وہ سڑا ہوا بریلوی تھا، لیکن یہ سارے عیوب ونقائص اس لئے قابل برداشت تھے کہ وہ بعض سربرآوردہ لوگوں کے لئے ایک مضبوط ووٹرکی حثییت رکھتا تھا اوراس شخص کوجمعیت میں لانے کے لئے جمعیت کے ایک تاسیسی رکن اورعالم دین کو صرف اس لئے میدان سے ہٹانا پڑاکہ ان سے انھیں اپنی مخالفت کا اندیشہ تھا۔
بے اصولیوں اوربے ضابطگیوں کے تذکرہ سے بات کافی لمبی ہوجائے گی اورہمدردان جمعیت وجماعت کے لئے دل خراش اورمایوس کن بھی ثابت ہوگی، ورنہ ناچیز کے پاس بعض حقائق کے تفصیلی اعداد وشمار اوربعض ذمہ داران کے غبن وخیانت کی پوری روداد موجود ہے،لیکن ان صفحات میں اس کا تذکرہ میں جماعتی مصالح کے خلاف سمجھ کر اسے قصداً نظرانداز کررہاہوں، پھربھی ؂
کبھی فرصت میں سن لینا بڑی ہے داستاں میری

کہنے کواس مرکزی جمعیت کی ایک مجلس شوریٰ بھی ہے، لیکن اس کے ممبران اپنی اسی عزت افزائی پرقانع ومطمئن ہیں کہ پوری پنج سالہ میقات میں انھیں ایک بارووٹ دینے کے لئے طلب کرلیاجاتا ہے، گویا کہ وہ اپنے کو ایک معمولی ووٹرسمجھنے کے بجائے بادشاہ گر کے غیرمعمولی عہدہ پرفائز سمجھ کرخوش ہولیتے ہیں اوریہ سوچنے کی نہ توزحمت کرتے ہیں اور نہ ضرورت سمجھتے ہیں کہ آخرجمعیت کے کام کاج کو چلانے کے لئے کبھی ان سے رائے کیوں نہیں لی جاتی، اس کی کم ازکم دووجہیں میری سمجھ میں آتی ہیں، ایک تو ان میں سبھی لوگ اصحاب الرائے ہوتے بھی نہیں وہ تومختلف لوگوں کے مفادات کی تکمیل کے لئے جمعیت میں لائے جاتے ہیں اوردوسرے اس جمعیت میں کچھ عرصہ سے جوڈکٹیٹرشپ کا مزاج بن چکا ہے اس میں کسی کی رائے کا کوئی مطلب ہی نہیں، حالانکہ ہماری جمعیت کا جورجسٹرڈ ودھان (دستور) ہے اس میں اس بات کی صراحت بلکہ تاکید ہے کہ’’سادھا رن سبھا‘‘ یعنی مجلس شوریٰ کی سال میں کم ازکم دومیٹنگیں ہونی چاہئے، ایک بارجب میں نے سختی کے ساتھ اس کی طرف توجہ دلائی توجواب ملاکہ ضروری نہیں کہ ہم ساری قانونی ہدایات پرعمل کریں ،جب اس طرح کی کسی باز پرس کی نوبت آئے گی تو ہم کسی نہ کسی طرح بات بنادیں گے اورجواب دے لیں گے، یعنی ہرمسئلہ کی بنیاد دروغ گوئی وبددیانتی پر ہی رکھنے کا جومزاج بن چکا ہے اس کے نمونے ہرطرف دیکھے جاسکتے ہیں، حالانکہ میرے فاضل دوستوں نے اس وضاحت کی ضرورت نہیں سمجھی کہ آخر مجلس شوریٰ کی میٹنگ بلانے میں قباحت ورکاوٹ کیا ہے اورکن راز ہائے سربستہ سے پردہ اٹھنے کا اندیشہ۔
تقریباگذشتہ دس برسوں میں میں نے محسوس کیا کہ جمعیت کے عالی مرتبت ذمہ داران کو اس کے بنیادی اغراض ومقاصد کی تکمیل سے زیادہ پیسہ کے حصول میں دل چسپی ہے، جہاں سے بھی ملے جیسے بھی ملے اورجس کام کے لئے بھی ملے، اس کا میں نے ہر قدم پر نہ صرف مشاہدہ کیا بلکہ ابتداء میں جب تک ان کی نیتیں واضح نہیں ہوئی تھی ان کا آلہ کار بھی بنا، اس حقیقت کے اعتراف میں مجھے کوئی باک نہیں کہ بعض ذمہ داروں میں بڑھتی ہوئی پیسہ کی ہوس ،حرص وطمع اوردنیاطلبی ہی میرے اوران ارباب حل وعقد کے درمیان وجہ اختلاف بھی بنی۔
میں نے یہ بھی محسوس کیاکہ اکثرلوگوں کے پاس ایک نکاتی پروگرام صرف یہ تھا کہ کسی نہ کسی طرح جمعیت کا ایک آفس ہوجائے یعنی اس کے لئے کٹھمنڈو میں زمین خریدی جائے اورکروڑوں کی لاگت سے اس کا عالیشان آفس تعمیرہو، خواب برانہیں لیکن اس کی تعبیر جب روزاول سے ہی بددیانتی، بدنیتی، دھوکہ وفریب، حیلہ ومکر، اورغبن وخیانت کے وسیع پروگراموں کی شکل میں سامنے آنے لگے توکوئی بھی ذی ہوش آدمی اس سے اتفاق نہیں کرسکتا۔
آج بھی ملک کی راجدھانی کٹھمنڈو میں ایک بہترین وکشادہ اورہرطرح سے آراستہ وپیراستہ آفس موجود ہے، ہرطرح کی ضروری سہولیات اورآسائشوں سے لیس بھی ہے،آفس گرچہ کرایہ پرہے لیکن اس کا کرایہ ایک ہی جگہ سے پورے سال کا یکمشت بغیر کسی تگ ودو اورجدوجہد کے آرہا ہے ،یہ سلسلہ برابر ۸؍سالوں سے جاری ہے، اس آفس کے تحت صرف راجدھانی میں کام کرنے کے لئے کم ازکم ۴؍دعاۃ کی خدمات بھی حاصل ہیں جن کی تنخواہوں پرجمعیت کو کچھ نہیں صرف کرنا ہے، لیکن افسوس یہ آفس کٹھمنڈو میں بھی اتناگم نام اورغیرمعروف ہے جتنا ملک کے دیگرخطوں کے باسیوں کے لئے ،صرف جمعیت سے تعلق رکھنے والے بعض لوگ پتہ پوچھتے پوچھتے کبھی کبھار پہونچ جاتے ہیں ،یاپھربعض لوگوں کے ہم وطن وہ لوگ جنھیں کٹھمنڈو میں کوئی ذاتی کام ہوتا ہے اور انھیں مفت کا جائے قیام درکارہوتا ہے، لیکن ان کا جمعیت کے بعض ذمہ داران کا رشتہ دارہونا شرط ہے ورنہ یہ اضافی سہولت ہرکس وناکس کونہیں حاصل ہوتی ہے، اوردوسری شرط یہ ہے کہ آفس کا مرکزی دروازہ انھیں کھلا مل جائے ،اورایساکبھی کبھار ہی ہوتا ہے، ورنہ بالعموم بڑا ساتالا لٹک رہاہوتا ہے ، میں بہرحال ان خوش نصیبوں میں شامل نہیں رہا ہوں جنھیں ہمیشہ آفس کا دروازہ کھلاملتارہا ہو، بلکہ کم ازکم چار بار میں ایک ہی دوبارایسے مواقع دستیاب ہوئے ہیں ورنہ عموماً بے نیل ونرام واپس لوٹنا پڑاہے، اب یہ سوال توان’’اہل نظر‘‘ سے ہی کیا جانا چاہئے جنھیں جمعیت کا مفاد ہم سے زیادہ عزیز ہے کہ آخرآج تک جمعیت کی اس آفس کے ذریعہ اورجمعیت کو دستیاب ۴؍دعاۃ کے ذریعہ کون ساکام انجام دیاگیا ہے کہ آئندہ ہم اس سے بہترنتیجہ اورکارکردگی کی توقع کرلیں جس کے لئے ایک اورموقع دئے جانے کی دہائی دی جارہی ہے، واضح ہوناچاہئے کہ جمعیت کے دستورمیں ایک شق اغراض ومقاصد کی بھی ہے جو ہرتنظیم کی گویا ریڑھ کی ہڈی ہوتی ہے، لیکن ارباب جمعیت نے اسے بالکل ہی نظرانداز کر رکھا ہے بلکہ سب کچھ پس پشت ڈال کر جمعیت کی زمین اورآفس کی تعمیرکے منصوبہ ہی کو اصل مقصد قرار دے لیا ہے ، یہ سوچ اس وقت تعمیری کہی جاسکتی تھی جب جمعیت کی مجلس عاملہ کی میٹنگوں میں اس کے اغراض ومقاصد میں کسی ایک پر عمل کرنے کی بات کبھی کی گئی ہوتی یااس پربحث کرائی گئی ہوتی، لیکن یہاں توہرمیٹنگ آفس کی تعمیرسے شروع ہوکر اسی پرختم ہوجاتی ہے، اورسفرکی تکالیف برداشت کرکے دوردراز سے آئے ہوئے لوگوں کے حصہ میں ’’نشستندوخوردندوبرخاستند‘‘ہی آتا ہے۔
مرکزی جمعیت کے لئے پرشکوہ آفس کی تعمیر کا جومنصوبہ ہرمجلس میں زیربحث آتا ہے اس سے جمعیت وجماعت سے تعلق رکھنے والے کسی شخص کو اختلاف نہیں ہوسکتا، لیکن اس کے پس پردہ مادی منفعتوں کے حصول کے جومذموم مقاصد ہیں ان سے بہرحال اتفاق نہیں کیاجاسکتا، مصالح اس کی اجازت نہیں دیتے ورنہ اس کو شرح وبسط سے بیان کیاجاسکتا تھا جس سے نیتوں کا فتورواضح ہوتا اوراسے صرف بدگمانی پرمحمول نہیں کیاجاسکتا، مرکزی جمعیت کی موجودہ مجلس عاملہ کے فاضل ممبران کے درمیان بھی سطحی اختلافات موجودہیں لیکن ان میں سے بعض جوکلیدی مناصب پر فائز ہیں وہ سب کچھ نظرانداز کرکے ’’مشترک مفاد باہم‘‘ کی پالیسی پرعمل پیراہیں ،اس لئے ساراکارخانہ انتہائی خوش اسلوبی اورکامیابی کے ساتھ رواں دواں ہے، اس لئے اس کے منصب بردار اورعالی وقار حضرات اس کے ذریعہ کامیابی وکامرانی کی سیڑھیاں چڑھتے جارہے ہیں لیکن جمعیت کو تحت الثری میں دفن کرتے جارہے ہیں۔
ان خوش بختوں میں ایک حضرت تووہ ہیں جن کی زبان پر ہمیشہ درہم ودینار یعنی زرومال جہاں کاوردجاری رہتا ہے، ان کی مجلس میں گزاری ہوئی چند ساعات آپ پریہ حقیقت منکشف کردیں گی کہ کہاں سے کتنا روپیہ جمعیت کوملنے جارہا ہے یامل چکا ہے یاکہاں سے کتنی رقم کس مشروع کے لئے دستیاب ہورہی ہے،ان پیسوں کا استعمال کہاں ہوا یاہونے والا ہے،اس کا حقیقی علم توصرف علام الغیوب کی ذات کوہی ہے لیکن مجلس شوریٰ بلکہ مجلس عاملہ کے ممبران کوبھی یہ جاننے کا حق نہیں ہے، رہ گئے ملک کے عام اہل حدیث خواہ وہ کتنے ہی بڑے عالم دین ہوں ،یا ان کی دعوتی وتعلیمی خدمات کتنی ہی نمایاں ہوں انھیں جمعیت کے کاموں میں مداخلت یعنی کچھ جاننے کی خواہش کابھی حق نہیں ہے، کیونکہ ؂

رموز مملکت خویش خسرواں دانند

اب جن لوگوں کا تعلق اس مملکت اوراس کے بے تاج بادشاہوں سے نہیں ہے انھیں کیوں کریہ حق دیاجاسکتا ہے کہ وہ جمعیت کی سرگرمیوں کے بارے میں کچھ جاننے کی خواہش کا اظہارکریں، گویاکہ وہ خارج عن الجماعت یعنی خوارج ہیں، کیونکہ اہل حدیثیت یاسلفیت کا سارٹیفکٹ بانٹنے کا حق جوانھیں حاصل ہوگیا اور اب اس کے بانی ومؤسس کے جانشینوں کوبھی یہ حق نہیں رہا کہ جمعیت کے بارے میں کچھ اظہارخیال کریں، ورنہ جا معہ سراج العلوم کی جس عالیشان جامع مسجد کے صحن میں اللہ کے ایک مخلص بندہ کے ہاتھوں اس کی بنیاد پڑی تھی، اسی جامعہ کی نمائندگی سے جمعیت کے محروم ہونے کے بعد اس المیہ پراظہار مسرت نہ کیاجاتا بلکہ یہ احساس کیاجاتا کہ یہ تومقام ماتم ہے، اورسوال صرف جامعہ کا نہیں ہے بلکہ پورے جھنڈانگر کاہے جہاں کی سرزمین اس کی تاسیس اور وجود کی گواہ ہے، اسے سازشوں وریشہ دوانیوں کے ذریعہ جمعیت میں کوئی فعال کرداراداکرنے سے محروم کردینا ان کی نہیں جمعیت کی حرماں نصیبی ہے ، ورنہ صرف جھنڈانگر میں ہی نہیں ملک کے دیگرخطوں میں بھی مخلص علماء اورقیادت کے بارگراں کواٹھانے اور اس کا حق اداکرنے والی شخصیات کاقحط الحمدللہ ابھی نہیں پڑا ،یہاں نہ تواعلیٰ تعلیم یافتہ افراد کی کمی ہے نہ ماہرین تعلیم کی ،تعلیمی میدانوں میں بہترخدمات انجام دینے والی شخصیات کی کمی ہے نہ بالغ نظر ذی شعور افراد کی، اور ذی علم ہی نہیں بلکہ اخلاص ودردمندی کی صفات سے متصف لوگ بھی گرچہ کم ہیں لیکن ناپیدنہیں، لیکن افسوس کہ جمعیت ان سب کا اعتماد حاصل کرنے میں ابھی تک کامیاب نہ ہوسکی ہے، یہ ان علماء ومقتدر شخصیات کے لئے کسی سعادت سے محرومی کامقام نہیں بلکہ جمعیت کے لئے ایک بہت بڑا نقص ہے کہ ملک کے ذی ہوش وبابصیرت علمائے دین اس کے قریب آنے سے گھبراتے ہیں، لیکن اگراسباب وعوامل پرگہرائی سے غورکیا جائے تویہ حقیقت آشکارا ہوگی کہ جمعیت کی موجودہ باڈی میں جوحضرات ہیں ان کے بعض عمل وکردار کو دیکھتے ہوئے ان کی نیتوں پربھروسہ کرنے کے لئے کوئی بآسانی تیارنہیں ہے، یہی اس کا مرض ہے جس کا درماں ہم سب کو مل کرتلاش کرناہوگا، کیونکہ جمعیت پرسب کاحق ہے اورسب اسے پھلتے پھولتے پروان چڑھتے اورتعمیر وترقی کی راہ پرگامزن ہوتے دیکھناچاہتے ہیں ،اب پھر انتخابات کابگل بج چکاہے اورجوڑتوڑ کی سیاست کا آغاز بھی، قارئین تک یہ شمارہ پہونچنے تک اس سے فراغت بھی ہوچکی ہوگی ہم صرف اس کی ترقی وکامرانی اوراغراص ومقاصد کی تکمیل میں کامیابی کے لئے دعاہی کرسکتے ہیں ( لعل اللہ یحدث بعدذالک أمرا)

***


NOVEMBER-2010شفاعت کا اسلامی عقیدہ

ڈاکٹرسیدسعیدعابدی

جدہ ،سعودی عرب

شفاعت کا اسلامی عقیدہ

مسئلہ: ایک صاحب میرے نام اپنے خط میں لکھتے ہیں:

مسلمانوں میں ‘چاہے وہ علماء ہوں یا عوام‘ شفاعت کا یہ عقیدہ عام ہے کہ اس دارالعمل۔دنیا۔ کے بعد دارالجزاء۔آخرت۔ میں جب لوگوں کا حساب کتاب ہوگا اس دن رسول اکرمﷺ اپنے گنہگار اورمعصیت کار امتیوں کو اوربزرگان دین، صلحائے امت اورپیرومرشد اپنے خطاکار پیروکاروں اور مریدوں کواللہ سے سفارش کرکے عذاب اورسزاسے بچالیں گے، بلکہ سلوک اورتصوف کی کتابوں میں تویہاں تک لکھا ہوا ملتا ہے کہ جب حساب کتاب کے موقع پر بزرگانِ دین اورمرشدوں اورپیروں کی بخشش کااعلان کردیاجائے گا اورفرشتوں کوحکم ہوگا کہ ان کو ان کے حسبِ مراتب جنتوں میں داخل کردیں تووہ اس وقت تک جنت میں اپنے گھروں میں جانے سے انکار کردیں گے جب تک کہ ان کے پیروکاروں اورمریدوں کے حق میں بھی وہی فیصلہ نہیں کردیاجائے گا اورجس طرح وہ اس دنیا میں ان کے ساتھ تھے اسی طرح ان کوجنت میں بھی ان کی معیت کا حق نہیں دے دیاجائے گا۔
جواب: شفاعت سے متعلق سائل نے مسلمانوں میں زبان زداور پھیلے ہوئے جس عقیدے کے بارے میں سوال کیاہے وہ کتاب وسنت سے مأخوذ اسلامی عقیدہ نہ ہونے کے باوجود مسلمانوں میں عام ہے اوران کی گمراہی کا بہت بڑا سبب بناہوا ہے ،اس مسئلے میں صحیح اسلامی عقیدہ جاننے سے پہلے ہمارے لئے چند نہایت اہم اوربنیادی باتوں کا جان لینا ضروری ہے۔
۱۔رسول اکرمﷺ سے پہلے مبعوث ہونے والے انبیاء اوررسولوں کا عمومی طورپر اورنبیﷺ کا خصوصی طورپر اپنی امت کے بعض خطاکاروں کے لئے اللہ تعالیٰ سے شفاعت اورسفارش کرنااللہ کی کتاب اوراس کے رسولﷺ کی حدیثوں سے ثابت ہے اور یہ اسلامی عقیدہ کا ایک حصہ ہے، لیکن یہ شفاعت اللہ تعالیٰ پران کا حق نہیں‘ بلکہ اللہ کی طرف سے ان کی تکریم اوراس کے فضل وانعام سے عبارت ہے۔
۲۔کتاب وسنت میں اللہ کے نبیوں اوررسولوں کے علاوہ اس کے نیک اورصالح بندوں کو بھی اس تکریم اورانعام سے نوازے جانے کی خبردی گئی ہے۔
۳۔اللہ کے جن گنہگاراورخطا کاربندوں کو ان کے نبیوں، رسولوں اورنیک وصالح لوگوں کی شفاعت سے سرفراز کیاجائے گا ان کے لئے مؤحد ہوناشرط ہے، کسی بھی درجے میں کسی شرک کامرتکب اس حق کا مستحق نہیں ہوگا، کیونکہ یہ اللہ کا اٹل اوردوٹوک فیصلہ ہے کہ’’ مشرک کی بخشش نہیں‘‘۔
۴۔نبیوں اوررسولوں کے علاوہ ہرامت کے ان نیک اورصالح لوگوں کا تعین خوداللہ تعالیٰ کرے گا جن کو شفاعت کرنے کی اجازت دی جائے گی، ہرکوئی اپنے آپ کسی بھی شخص کے حق میں شفاعت کرنے کا مجازنہیں ہوگا، اسی طرح وہ اپنے علم اور معرفت کی روشنی میں کسی بھی انسان کی شفاعت کے لئے منہ کھولنے کاحق دار بھی نہ ہوگا بلکہ خود اللہ تعالیٰ ان لوگوں کا تعین کرے گا جن کے حق میں اسے سفارش کی اجازت دی جائے گی۔
شفاعت سے متعلق اوپر جن اہم اوربنیادی باتوں کاتذکرہ کیاگیا ہے، وہ قرآن پاک اور ارشادات رسول ﷺ میں پوری تفصیل سے بیان کردی گئی ہیں، چنانچہ سورۃ البقرہ کی آیت نمبر۲۲۵میں‘جوآیۃ الکرسی کے نام سے معروف ہے، ارشاد الٰہی ہے:(من ذالذی یشفع عندہ إلا بإذنہ یعلم مابین أیدِ یھم وماخلفھم)کون ہے جواس کی جناب میں اس کی اجازت کے بغیرشفاعت کرسکے وہ توجانتا ہے جوکچھ لوگوں کے سامنے ہے اورجوکچھ ان کے پیچھے ہے۔(۲۵۵)
آیت کے آخری فقرے سے ضمناً یہ بات بھی معلوم ہوئی کہ کسی شخص کے حق میں شفاعت اورسفارش کرنے والے کے لئے یہ بھی ضروری ہے کہ وہ اس کے عقیدے اورعمل کے بارے میں مکمل علم رکھتا ہو، جبکہ حقیقت یہ ہے کہ یہ علم صرف اللہ تعالیٰ کوحاصل ہے اوراس کے بندوں میں سے کوئی بھی اس علم سے موصوف نہیں، حتی کہ اس کے برگزیدہ بندے اور آخری رسول محمدﷺ کوبھی یہ علم حاصل نہیں تھا، جیساکہ حوض کوثر کی حدیث سے بصراحت معلوم ہوتاہے، حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبیﷺ نے فرمایا:
’’میں حوض کوثر پرتمہارا پیش روہوں گا، تم میں سے کچھ لوگوں کواٹھایاجائے گا پھرمجھ سے دور کردیا جائے گا، تومیں عرض کروں گا:’’اے میرے رب! یہ تومیرے اصحاب ہیں‘‘ ،جواب دیاجائے گا:’’تجھے نہیں معلوم کہ تیرے بعدانھوں نے کیاکیا نئی چیزیں دین میں داخل کردی تھیں‘‘ ۔
(بخاری :۶۵۷۶ ، مسلم۲۲۹۷)
اس مضمون کی حامل بکثرت احادیث حدیث کی مستند کتابوں میں منقول ہیں جن میں سے بعض میں یہ صراحت ہے کہ رسول اللہﷺ وضوکے روشن نشانات سے اپنی امت کے افراد کوپہچان لیں گے اوران کوکوثر سے بھرے پیالے پیش کرنے کاارادہ ہی کریں گے کہ فرشتے آپ کے اوران کے درمیان حائل ہوجائیں گے اورآپ کو خبردیں گے کہ انھوں نے آپ کے بعد آپ کے دین کوبدل ڈالا اس پر رسول اللہ ﷺ فرمائیں گے:’’جنھوں نے میرے دین کو بدل ڈالا ان کو دور ہٹاؤ‘‘۔
اسلام سے نسبت کا دعوی کرنے والوں کی ایک بہت بڑی تعداد ایسی ہے جوغیراللہ کے آستانوں پر نذریں اورنیاز یں چڑھاتی ہے، قبروں پر سجدے کرتی ہے اوراللہ تعالیٰ کو چھوڑکر یا اس کے ساتھ اولیاء اللہ اوربزرگان دین سے استعانت کرتی ہے اوراس خودفریبی میں مبتلا ہے کہ یہ اللہ کے ہاں بڑا اثرورسوخ رکھتے ہیں، یہ اللہ کے چہیتے اور مقرب بندے ہیں، قیامت کے دن یہ ان کو بحشوا لیں گے اورجنت میں داخل کرواکے ہی چھوڑیں گے، ایسے فریب خوردہ لوگوں کو قرآن پاک کی اُن آیات پرایک نظرڈال لینی چاہئے جن میں روزقیامت کی ہولناکیاں بیان کی گئی ہیں جودن بچوں کو بوڑھا بنادے گا(المزمل:۱۷)جس دن کسی کو بات کرنے کی مجال نہ ہوگی(ہود :۱۰۵) اورجس دن آدمی اپنے بھائی اوراپنی ماں اوراپنے باپ اوراپنی بیوی اوراپنی اولاد سے بھاگے گا(عبس:۳۴،۳۶) اس دن اللہ کی اجازت کے بغیر کوئی متنفس زبان تک نہ کھول سکے گا، سب کواپنی پڑی ہوگی ۔
اوپر جوکچھ عرض کیاگیا ہے اس کا مقصد شفاعت کا عمومی طورپر اوررسول اللہﷺ کی شفاعت کا خصوصی طورپر انکارنہیں ہے ،کیونکہ یہ شفاعت عقیدہ میں داخل ہے اورہمارے اسلاف نہ صرف رسول اکرمﷺ بلکہ دیگرانبیاء، ملائکہ اورمومنین کی شفاعت پرمتفق رہے ہیں، ہم جوکچھ عرض کرنا چاہتے ہیں، وہ صرف یہ ہے کہ شفاعت کسی کا ذاتی استحقاق نہیں ہے، بلکہ یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے بندوں کی تکریم ہے اورقیامت کے دن کوئی بھی اللہ کے اذن کے بغیر کسی کے لئے شفاعت نہیں کرسکتا، اس حکم سے رسول اکرمﷺ بھی مستثنی نہیں ہیں، اس مسئلے میں نبیﷺ کوجوامتیازی خصوصیت حاصل ہے وہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ تمام انبیاء اوررسولوں میں صرف نبیﷺ کواس شفاعت سے سرفراز فرمائے گا جو آپ اللہ تعالیٰ سے لوگوں کاجلد ازجلد حساب کتاب کرکے ان کو حشرکی ہولناکیوں سے نجات دینے کے لئے کریں گے،قرآن پاک میں اس شفاعت کو’’مقام محمود‘‘ سے تعبیرکیاگیا ہے ارشاد ربانی ہے:
اوررات کے ایک حصہ میں تہجد پڑھو جوتمہارے لئے نفل ہے قریب ہے کہ تمہارا رب تمہیں قابل تعریف مقام پر کھڑاکرے۔(اسراء:۷۹)
یہی وہ مقام محمود ہے جس کے لئے ہم اذان کے بعدکی جانے والی دعائے ماثورہ میں اللہ تعالیٰ سے آپ کے لئے درخواست کرتے ہیں، جیساکہ حضرت جابربن عبداللہ رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا ہے:
’’جوشخص اذان سننے کے وقت کہے:’’اللھم ربّ ھذہ الدعوۃ التأمۃ والصلاۃ القائمۃ، آت محمد اً الوسیلۃ والفضیلۃ وابعثہ مقاماً محموداً الذی وعدتہ‘‘
اے اللہ جواس مکمل دعا اوراس قائم ہونے والی نماز کا رب ہے تومحمد ﷺ کو وسیلہ اورفضیلت عطافرما اورجس مقام محمود کا تونے ان سے وعدہ کیاہے اس پرسرفراز فرما، توقیامت کے دن اس کے لئے میری شفاعت واجب ہوجائے گی‘‘۔(بخاری ۴۷۱۹)
واضح رہے کہ مذکورہ بالاحدیث میں جس ’’وسیلہ‘‘ کاذکرآیا ہے اس سے مراد جنت کاایک خاص درجہ ہے، جیساکہ حضرت عبداللہ بن عمروبن عاص رضی اللہ عنہما سے مروی حدیث میں اس کی صراحت ہے،کہتے ہیں کہ انھوں نے نبیﷺ کوفرماتے ہوئے سناہے کہ:
’’جب تم مؤذن کوسنوتوتم بھی وہی کہوجووہ کہتا ہے،پھرمیرے اوپردرود پڑھو، کیونکہ جوکوئی میرے اوپرایک بار درود پڑھے گا اللہ اس کے بدلے اس پر ۱۰؍ رحمتیں نازل فرمائے گا، پھرتم میرے لئے اللہ سے ’’وسیلہ‘‘ مانگو، جوجنت میں ایک درجہ ہے اور وہ اللہ کے بندوں میں سے صرف ایک بندے کے لئے مناسب ہے اورمجھے یہی امید ہے کہ وہ بندہ میں ہی ہوں، اورجس نے میرے لئے وسیلہ مانگا اس کے لئے میری شفاعت واجب ہوجائے گی‘‘۔(مسلم ۳۸۴)
قرآن پاک اورحدیث میں نبیﷺ کے جس مقام محمود کا ذکرآیا ہے اس پرآپ خود سرفراز نہیں ہوجائیں گے اورنہ وہ شفاعت خود کرنے لگیں گے، بلکہ اللہ تعالیٰ آپ کو اس پرسرفراز فرمائے گا اوراس کی اجازت سے آپ وہ شفاعت کریں گے، چنانچہ متعدد احادیث میں اس مقام محمود یاشفاعت کی جوتفصیلات بیان ہوئی ہیں ان کا خلاصہ درج ذیل ہے:
’’قیامت کے دن تمام خلقت ایک ایک کرکے ہرنبی سے شفاعت کی درخواست کرے گی، مگرسب پراللہ تعالیٰ کا اس قدرخوف طاری ہوگا کہ وہ اللہ سے کچھ عرض کرنے سے معذرت کردیں گے، آخرمیں لوگ رسول اللہﷺ کی خدمت میں حاضرہوں گے، اورآپ سے درخواست کریں گے کہ آپ اللہ تعالیٰ سے دعافرمائیں کہ وہ ان کا حساب کتاب کرکے ان کو اس ہولناک مصیبت سے نجات دے، رحمۃ للعالمین فداہ ابی وامی ﷺ تیارہوجائیں گے، آپ اللہ تعالیٰ سے اذنِ باریابی طلب فرمائیں گے اورجب آپ کواذن مل جائے گا توآپ اپنے رب کو دیکھتے ہی سجدے میں گرجائیں گے اورجب تک آپ کا رب چاہے گا آپ سجدے میں پڑے رہیں گے، پھراللہ تعالیٰ آپ سے فرمائے گا، محمد! سراٹھاؤ اورجوکہنا ہے کہو، تمہاری بات سنی جائے گی، تم شفاعت کروتمہاری شفاعت قبول کی جائے، اورتم مانگوتم کو عطاکیاجائے گا، نبی اکرمﷺ فرماتے ہیں:
’’اللہ تعالیٰ میرے دل میں اپنی حمدوثنا کے ایسے کلمات ڈال دے گا جومجھے اس وقت معلوم نہیں ہیں ،اورمیں انہی الہامی کلمات کے ذریعہ اپنے رب کی حمدوثنا بیان کروں گا‘‘۔(بخاری ۷۵۱،مسلم ۴۷۹،۴۸۰)
اس نہایت واضح حدیث سے یہ بات معلوم ہوگئی کہ رسول اللہﷺ اللہ تعالیٰ کے اذن کے بعدہی شفاعت کے لئے زبان کھولیں گے۔
اوپر جوکچھ عرض کیاگیا ہے اس کا تعلق شفاعت کبری یامقام محمود سے ہے، رہی گنہگار مومنین کی بخشش کے لئے نبی اکرمﷺ کی شفاعت، تویہ بدرجہ اولیٰ اللہ تعالیٰ کے اذن کے بغیر نہیں ہوسکتی، کیونکہ براہ راست اوربلااجازت شفاعت اورسفارش اللہ تعالیٰ کے فیصلوں میں مداخلت سے عبارت ہے، اورایسا اعتقاد شرک ہے، جومشرکین رکھتے تھے ان کا دعویٰ تھاکہ وہ اللہ کے ساتھ جن معبودوں کی عبادت کرتے ہیں وہ قیامت کے دن ان کے لئے شفاعت کریں گے اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب عزیز میں ان کے اس اعقتاد کوباطل قراردیاہے، اوریہ بتایا ہے کہ اس کے ہاں کسی بھی شخص کوشفاعت کاحق اوراختیارنہیں حاصل ہے چاہے وہ نبی ہو یاولی۔
آخرت سے متعلق ایک اورنہایت اہم بات ذہن میں تازہ رکھنی چاہئے اوروہ یہ کہ اس عالم الاسباب اوردارالجزاء میں اللہ تعالیٰ نے انسانوں کو امتحان اور آزمائش کے طورپر جواختیارات دے رکھے ہیں وہ سب آخرت میں لے لئے جائیں گے قرآن پاک میں حشرکا نقشہ کھینچتے ہوئے فرمایاگیا ہے:
جس دن سب لوگ ظاہر ہوجائیں گے اوراللہ پران کی کوئی بات چھپی ہوئی نہ ہوگی، آج بادشاہی اوراقتدار کس کاہے؟ ایک اللہ کے لئے جوسب پرغالب ہے آج ہرمتنفس کواس کی کمائی کا بدلہ دیاجائے گا، آج ظلم کاکوئی وجود نہیں ہوگا ،بیشک اللہ حساب لینے میں بہت تیز ہے ۔(المؤمن:۱۶،۱۷)
سورۃ الزمرمیں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
لوگوں نے اللہ کی ویسی قدرنہ کی جیسی قدراس کا حق تھی، قیامت کے دن پوری زمین اس کی مٹھی میں ہوگی اورآسمان اس کے دست راست میں لپٹے ہوئے ہوں گے، پاک اوربالا ترہے وہ اس شرک سے جولوگ کرتے ہیں۔(۶۷)
اورحضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہﷺ کوفرماتے ہوئے سناہے کہ اللہ زمین کواپنی مٹھی میں لے لے گا اورآسمانوں کواپنے داہنے ہاتھ میں لپیٹ لے گا، پھرفرمائے گا میں بادشاہ ہوں کہاں ہیں زمین کے بادشاہ؟ ۔(بخاری ۴۸۱۲،مسلم ۲۷۸۷)
سورۃ الزمر کی مذکورہ بالا آیت مبارکہ کی تفسیر میں حضرت عبداللہ بن عمررضی اللہ عنہما سے جوحدیث مروی ہے اس میں وہ فرماتے ہیں:
رسول اللہﷺ نے منبرپریہ آیت تلاوت فرمائی، اورفرمایا :اللہ فرمائے گا:میں ہوں جبار،میں ہوں متکبر،میں ہوں بادشاہ، میں ہوں بلند وبالا، وہ یہ اپنی ذات کی بڑائی بیان کرتے ہوئے فرمائے گا اوررسول اللہﷺ مسلسل یہ دہراتے رہے یہاں تک کہ منبرآپ کو لے کر لرزنے لگا اورہمیں یہ گمان ہونے لگا کہ وہ آپ کو لے کرگرپڑے گا۔(مسندامام احمد ۵۴۱۴، ۵۶۰۸)
قرآن پاک کی مذکورہ بالا آیات مبارکہ اوراحادیث شریفہ کی روشنی میں قیامت کے دن کی ہولناکی کو چشم تصورسے دیکھئے اورپھر ان لوگوں کے دعؤوں پرغورکیجئے جویہ کہہ کرلوگوں کوگمراہ کررہے ہیں کہ بزرگان دین عموماً اورنبی اکرمﷺ خصوصاً تمام گنہگاروں اورمعصیت کاروں کو ایک ایک کرکے بخشوالیں گے۔
دراصل قرآن اورحدیث میں شفاعت کا جوتصور دیاگیا ہے وہ یہ ہے کہ جہاں یہ شفاعت اللہ تعالیٰ کے اذن سے ہوگی وہیں اس گنہگار کے حق میں ہوگی جومؤحد ہوگا اورجس کا عقیدہ شرک کی ہرطرح کی آلائش اورآمیزش سے پاک ہوگا جیساکہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث میں صراحت ہے، انھوں نے عرض کیا:اے اللہ کے رسول! لوگوں میں آپ کی شفاعت سے کون بہرہ مندہوگا؟ فرمایا: میری شفاعت سے وہ بہرہ مند ہوگا جس نے اس طرح ’’لاإلٰہ إلا اللہ‘‘کہا ہوگا کہ اس کا دل اس عقیدے میں شرک سے پاک ہوگا۔(بخاری ۹۹،۶۵۷۰)
اورجب یہ بات معلوم ہوگئی کہ قیامت کے دن کوئی بھی اللہ تعالیٰ کے اذن کے بغیرشفاعت نہیں کرسکے گا بلکہ جس کواللہ اجازت دے گا اورجس کے حق میں اجازت دے گا وہی کرسکے گا اورصرف اسی کے حق میں کرے گا جس کے لئے اجازت دی جائے گی،ایسی صورت میں اسلامی عقیدہ یہ ہے کہ صرف اللہ تعالیٰ سے یہ دعا کی جائے کہ اے اللہ! توقیامت کے دن اپنے محبوب رسول ﷺ اوربندے کی شفاعت کا مجھے مستحق بنائیو!۔

***

NOVEMBER-2010 دارالعلوم ندوۃ العلماء فکرونظرمیں تبدیلی کا سفر

شمیم احمدندوی

دارالعلوم ندوۃ العلماء

فکرونظرمیں تبدیلی کا سفر

(دوسری قسط)

گذشتہ سطور( پہلی قسط) میں مذہبی تعصب کی ستم رانیوں اورمسلکی منافرتوں کے تلخ نتیجوں کا کچھ تذکرہ اختصار کے ساتھ ہوا جس سے اس وقت کے ملکی حالات وماحول کا کسی قدر اندازہ ہوجاتا ہے اوراس پس منظر کوجاننے میں مددملتی ہے جودارالعلوم ندوۃ العلماء جیسے ایک منفرد ادارہ کے قیام کا محرک ہوئے، تاریخ ندوۃ العلماء کے حوالہ سے استاذ الاساتذہ مولانا لطف اللہ علیگڈھی کو زہردئے جانے کے ایک افسوسناک واقعہ کا ذکربھی انھیں شرمناک حالات کے ضمن میں ہوا،اس کی حقیقت کیا ہے؟ راقم سطور کو اس کا تفصیلی علم نہیں، اورزہرخورانی کے اس واقعہ میں کون سی جماعت ملوث تھی اس کا علم نہ ہوسکا، لیکن مذہبی تعصب اوراندھے بغض وعناد کے نتیجہ میں جماعتوں کے اعیان واکابر پر قاتلانہ حملوں کا ہونا ہرگز ناقابل یقین نہیں ہوناچاہئے کہ مذہبی تعصب نے جس طرح لوگوں کی عقلوں پرپردہ ڈال رکھا تھا اورمسلکی گروہ بندیوں نے جس طرح خیروشرمیں تمیز کرنے کی صلاحیتیں سلب کررکھی تھی اس سے کچھ بھی بعیدنہ تھا ۔
جماعت اہل حدیث کے سرخیل، اوربرصغیر میں مرکزی جمعیت اہل حدیث (اس وقت کے آل انڈیا اہل حدیث کانفرنس) کے بانی ومؤسس فاتح قادیان مولاناثناء اللہ امرتسری رحمہ اللہ پر جان لیوا قاتلانہ حملہ انھیں متعصبانہ کارروائیوں کے سلسلہ کی ایک کڑی ہے، لیکن مولانانے اس حملہ کے بعدجس اعلیٰ ظرفی، حلم وبردباری اورعفوودرگزرکا مظاہرہ کیا اس کی مثالیں ضرورنایاب ہیں، نیزتعصب وتنگ نظری کا زہربونے والوں کے لئے تازیانۂ عبرت بھی، اس اجمال کی تفصیل یہ ہے کہ ۱۹۳۷ء ؁ میں مولانا امرتسری کے آبائی وطن شہرامرتسرمیں نومبرکے ابتدائی ہفتہ میں ایک مخصوص فرقہ کی جانب سے ایک جلسہ عام منعقد کیا گیا جس میں اس زمانہ کے دستورکے مطابق بعض مقررین نے اہل حدیثوں کے خلاف بغض وعناد اوراشتعال انگیزی کامظاہرہ کیا، بالخصوص مولانا ثناء اللہ امرتسری رحمہ اللہ کے خلاف زبردست ہرزہ سرائی کی، جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ قمر بیگ نامی ایک جاہل شخص نے مولانا کے قتل کو کارثواب سمجھ کر راستہ میں ایک دھاردار اسلحہ سے ان پرقاتلانہ حملہ کردیا ،جس سے ان کونہایت شدید زخم آئے، اللہ کے فضل اوربروقت طبی امداد مل جانے سے ان کی زندگی تومحفوظ رہی لیکن اس سے ان کو سخت اذیت پہونچی، حملہ آورمذکور اس کے بعد روپوش ہوگیا ،مولانا نے اس موقع پراپنی کشادہ ظرفی کامظاہرہ کرتے ہوئے اس کے خلاف کسی بھی طرح کا مقدمہ اورکاروائی کرنے سے انکارکردیا، لیکن ہندوستان کی مختلف تنظیموں کے بے حداصرار اورپرزورمطالبہ پرپولس حرکت میں آئی اوراسے گرفتار کرکے جیل بھیجاگیا، عدالت سے اسے ۴؍سال کی سزاسنائی گئی، اس موقع پر مولانانے جس اعلیٰ اخلاق اوربلندئ کردار کامظاہرہ کیا اس نے زمانۂ نبوت کی یادتازہ کردی، مولاناکوجب یہ معلوم ہوا کہ اس کے اہل خانہ کاکوئی دیگرذریعہ معاش نہیں ہے اوروہاں فاقوں کی نوبت آگئی ہے توخاموشی کے ساتھ اس کے بچوں کی خبرگیری کرتے رہے اوراپنے جانی دشمن کے اہل خانہ کی کفالت کے طورپر ماہانہ خرچے خاموشی کے ساتھ بھجواتے رہے، کسی ہمدردنے اس پراعتراض کیا توایمان افروز جواب دیا کہ غلطی اس شخص نے کی ہے اس کے بچوں کا کیا قصور کہ وہ پریشانی اور مصیبت میں مبتلاہوں۔
اس فعل شنیع اورحرکت قبیح کی تھوڑی سی تفصیل (کافی اختصار کے ساتھ) آگئی جس سے یہ جاننے میں ضرورمدد مل سکتی ہے کہ نوبت یہاں تک آچکی تھی کہ جماعتوں کے قائدین اورملی رہنماؤں پرجان لیواحملے ہونے لگے تھے جوایمان فروش مولویوں اورمذہب کے ٹھیکہ داروں کی غلط تربیت اور گمراہ کن بیانات کی بدولت سامنے آرہے تھے(اور آج کا اسلامی معاشرہ بھی اس سے محفوظ نہیں ہے)
عقائد میں معمولی اختلافات یا ترجیحات میں تھوڑے سے فرق یا عمل میں ایک دوسرے سے قدرے مختلف ہونے کا نتیجہ بسااوقات کافی سنگین صورت میں ظاہر ہوتاتھا جس نے پوری ملت اسلامیہ ہندیہ کوکئی گروہوں میں تقسیم کررکھاتھا،پھر گروہی عصبیت اس قدر عروج پرپہونچی ہوئی تھی کہ افراد وجماعتیں ایک دوسرے کے خون کی پیاسی ہورہی تھیں اوران حرکتوں نے ان اسلام کے نام لیواؤں کوبرادران وطن کی نظروں میں بہت ذلیل کررکھا تھا اورملک کے ہندوؤں وانگریزوں کوان کے استخفاف واستہزاء کا موقع فراہم کررکھا تھا، ایک ایسے ملک میں جہاں کی اقوام مختلف ذات برادریوں میں منقسم اوررنگ ونسل کی مختلف عصبیتوں کاشکار تھیں اورجن کی گذشتہ نسلیں اسلام کے درس مساوات، اسلام کی پاکیزہ وسچی تعلیمات اورمسلمانوں کے اتفاق و اتحاد کو دیکھ کردائرہ اسلام میں داخل ہوئی تھیں اب موجودہ مسلمانوں میں انتشار وافتراق اورآپسی اختلافات کودیکھ کر حیران وششدر تھیں اورجن خامیوں اورفرقہ بندیوں کومسلمان معمولی مسئلہ سمجھ کرنظرانداز کئے ہوئے تھے اس نے اہل اسلام کی دعوتی مساعی وجہود کوکس قدرنقصان پہونچایا اور تسخیرقلوب کی جانب اس کے بڑھتے قدموں کے لئے کتنا رکاوٹ بنا ،اس پر غورکرنے کی بھی کسی کو فرصت نہ تھی، کیونکہ وہ اپنے اپنے مسلک کے اثبات کو اس سے بڑی دینی خدمت سمجھتے ہوئے اسی میں مصروف تھے،یہ بات پورے ملک کے ملی قائدین اورمذہبی رہنماؤں کے لئے شرم وندامت سے ڈوب مرنے کی ہے کہ جب بھیم راؤ امبیڈکر۔جوکہ اپنے ہم مذہبوں کے ساتھ ملک میں مذہبی استحصال کا شکارتھے۔نے اسلام ودیگر مذاہب کاتقابلی مطالعہ کیا تووہ اسلام کی پاکیزہ وسادگی پرمبنی تعلیمات اوراس کے درس اخوت ومساوات سے بہت متاثر ہوئے اورانھوں نے اپنی پوری قوم کے ساتھ اسلام قبول کرنے کاارادہ کرلیا، مہاتماگاندھی کو خبرہوئی توانھوں نے امبیڈکر کویہ کہہ کر ورغلایا کہ آپ کون سا اسلام قبول کرناچاہتے ہیں؟ سنی اسلام یاشیعہ اسلام؟ پھرسنی اسلام میں دیوبندی اسلام یابریلوی اسلام یاوہابی اسلام؟ توامبیڈکرنے پوچھا کہ کیااسلام میں بھی فرقہ بندیاں ہیں؟ مہاتماگاندھی کاجواب تھا کہ مسلمانوں میں متعدد فرقے اورذات برادریوں کی تفریقات ہیں جیسے کہ ہندوؤں میں ،امبیڈکرکاذہن انتشارکاشکار ہوااور اسلام کے بارے میں مثبت خیالات منفی میں تبدیل ہوگئے اورنتیجہ یہ ہواکہ اپنے ۲۰؍لاکھ متبعین وپیروکاروں کے ساتھ انھوں نے بدھ مذہب اختیار کرلیا اسلام کی نشرواشاعت اور دعوت وتبلیغ کے لئے یہ بہت بڑا جھٹکا تھا جومحض مسلکی اختلافات کی وجہ سے لگا، بقول علامہ اقبال ؂
فرقہ بندی ہے کہیں اورکہیں ذاتیں ہیں
کیا زمانے میں پنپنے کی یہی باتیں ہیں

ملک کے دینی مدارس میں نہ صرف یہ کہ ۵؍سو سالہ پرانا اورفرسودہ نصاب تعلیم رائج تھابلکہ نظام تربیت بھی قدیم ہی آزمایا جارہا تھا، یورپ کی نشأۃ ثانیہ اوروہاں برپا صنعتی انقلاب اوربرق وبخارات کی ایجادات کے بعد جس طرح مغرب نے اپنی طویل غفلت کے بعدانگڑائی لی اوربرق رفتار ترقی سے دنیا کو روشناس کرایا، اس سے فطری طورپردنیا ان سے مرعوب ومتاثرہوئی اوران کے قدم سے قدم ملاکرچلنے اوران کے افکار ونظریات اوران کے فکروفلسفہ کو من وعن قبول کرنے کی طرف مائل ہوئی، اب دنیا میں ان کی حیثیت غالب کی اورعالم اسلام کی حیثیت مغلوب کی اوران کی حیثیت حاکم کی اورمسلمانوں کی حیثیت محکوم کی ہوچکی تھی، حاکم وغالب کا فلسفہ ہمیشہ طاقتور سمجھاجاتا ہے اوراس کے برعکس محکوم قومیں احساس محرومی اوراحساس شکست کا شکارہوتی ہیں اوران کا اپنے عقائد ونظریات اورمذہبی رجحانات پرسے بھی اعتماد متزلزل ہوجاتا ہے، ایسے میں اپنے دینی افکار ونظریات پرنئی نسل کا اعتمادبحال کرنے کے لئے ضرورت تھی کہ نصاب میں تعمیری اصلاحات کرکے اسے زمانہ کے چیلنجوں کامقابلہ کرنے کے لائق بنایاجائے ،تاکہ ان کی نشونما اورذہنی تعمیر وارتقاء کی صلاحیتیں بحال ہوں، جبکہ قدیم نصاب تعلیم فکروعمل کے لئے کسی وسیع میدان کے فراہم کرنے سے قاصرتھا جس کانتیجہ یہ ہواکہ جو صلاحیتیں زیادہ بہتر خدمت اوراعلیٰ قیادت کا مظاہرہ کرسکتی تھیں ‘ باہمی اختلافات، تکفیروتفسیق، فروعی بحثوں اور فلسفیانہ موشگافیوں کی نذر ہونے لگیں۔
جس وسیع وہمہ گیر مقصداورجس آفاقی ہدف کولے کرندوۃ العلماء کا قیام عمل میں آیاتھا وہ ملت اسلامیہ ہندیہ کے لئے عزت وسربلندی اورمسلمانوں کی عظمت رفتہ کی بحالی کا راستہ تھا ،یہ مقصد اس قدردوررس نتائج کا حامل تھا جس کا آج کے اس دوراختلاف وانتشار میں تصوربھی نہیں کیاجاسکتا، اورآج ذمہ داران دارالعلوم اوروابستگان ندوہ جس طرح چھوٹی چھوٹی فروعی بحثوں میں الجھے ہیں اورجس طرح مسلکی منافرت کو پھیلانے میں دوسری متشدد تنظیموں یا افراد کا آلہ کاربنے ہوئے ہیں ‘ یہ ندوہ کے اساسی مقصد سے کسی طرح میل نہیں کھاتا،ندوۃ العلماء کے قیام کا پس منظربیان کرتے ہوئے اس کے گل سرسبد اورہونہار فرزند مولاناسید سلیمان ندوی رحمہ اللہ نے اپنے گہربارقلم سے صفحہ قرطاس پر جو حقیقت نگاری کی ہے اس سے بھی انھیں خیالات کااظہار ہوتا ہے جوناچیز نے گذشتہ سطورمیں پیش کی ہیں اورجنھیں مولانااسحٰق جلیس ندوی رحمہ اللہ نے ’’تاریخ ندوۃ العلماء ‘‘مرتب کرتے ہوئے اس کے صفحات میں نمایاں جگہ دی ہے، مولانا سید سلیمان ندوی فرماتے ہیں:
’’انقلاب وحوادث کے جوطوفان ملک میں اٹھ رہے تھے ان سے حساس مسلمانوں کے دل مضطرب تھے، مدارس ومکاتب کاپرانا سلسلہ ٹوٹ رہا تھا، انگریزی اسکول اورکالج میں مسلمان لڑکے کھنچ رہے تھے، سلطنت کے اثرسے عیسائیت کاچرچا تھا، مشنریوں کے جال ہرجگہ پھیلے ہوئے تھے، ان کے یتیم خانے ہرجگہ قائم تھے، مسلمانوں اورعیسائیوں میں مناظروں کی گرم بازاری تھی، دونوں طرف رسائل لکھے جارہے تھے، یورپ کے نئے خیالات سیلاب کی طرح امڈ ے چلے آرہے تھے، عام علماء زیادہ ترپڑھنے پڑھانے میں مصروف، کچھ معمولی چھوٹی چھوٹی باتوں میں الجھے تھے اورخواص تقلید اورعدم تقلید، قرأت فاتحہ (خلف الامام)، آمین بالجہر، اورفع یدین کے مسئلوں میں ایسے گھستے تھے کہ مناظرہ مجادلہ اورمجادلہ مقاتلہ بن گیا تھا، خدا کے گھر لڑائی کے میدان بن گئے تھے ایک دوسرے کی تفسیق اورتکفیرپربڑی مہریں صرف ہورہی تھیں، مدرسوں میں پرانا فرسودہ طریقہ درس جاری تھا جوزمانہ کے انقلاب سے بے کاراورنئے زمانہ کے لئے قوم کے نئے رہبر اوررہنما پیداکرنے سے قاصرہورہا تھا‘‘۔
اس موقع پر مناسب معلوم ہوتاہے کہ اس تقریر کا حوالہ بھی دیا جائے جونواب محسن الملک نے ندوۃ العلماء کے پہلے اجلاس میں کی تھی، جس میں انھوں نے ندوہ کے قیام کی ضرورت واہمیت پرروشنی ڈالتے ہوئے انتہائی دردمندی ودل سوزی کا اظہار کیاتھا (واضح ہوکہ اس تقریر کے اقتباسات روداد ندوۃ العلماء میں موجود ہیں جس کاقلمی نسخہ دارالعلوم ندوۃ العلماء کی عظیم الشان لائبریری میں محفوظ ہے اوراس ناچیز کو اسے دیکھنے کا اتفاق ہواہے)
اس تقریر کاوہ حصہ ہمارے لئے توجہ کا طالب ہے جس میں انھوں نے ندوۃ العلماء کے قیام کی ضروت کا اعتراف کرتے ہوئے کہاتھا :
’’الحمدللہ مدت مدید کے بعد ہماری قوم بھی خواب غفلت سے بیدارہوئی جودنیا میں بڑے بڑے کارنمایاں کرکے تھکی ماندی ہوکرسوگئی تھی اورایسی سوئی تھی کہ اس عرصہ میں وہ قومیں جومیدان ترقی میں صدہا کوس پیچھے تھیں ‘ بہت آگے نکل گئیں اورنکلی چلی جارہی ہیں‘‘
آگے مزید اس نکتہ کواجاگر کرتے ہوئے اس حقیقت پرسے پردہ اٹھاتے ہیں جس پرقیام ندوۃ العلماء کی اساس ہے اورجوہماری قوم کی اصل بیماری ہے ،فرماتے ہیں :
’’حضرات غفلت ونااہلیت سے بڑھ کر قوم کی خرابی کا بڑا سبب اختلاف ہے اس کی برائی ندوۃ العلماء نے اس طور ظاہر کی کہ جس سے ہمارے علماء کی عالی دماغی، بلندخیالی اورپاک دلی ظاہر ہوتی ہے، اس جلسہ میں وہ پاک الفاظ نکلے جواس قابل ہیں کہ ہرایک مسلمان صفحۂ دل پرلکھے اور عمل کرے‘‘
اپنے خطاب میں آگے چل کر وہ ندوہ کی ان برکتوں کااعتراف کرتے ہیں جن کامشاہدہ پہلے ہی اجلاس سے کیاجانے لگا، اوروہ برکتیں یہ تھیں کہ ندوہ نے فرقہ واریت اوراس سے پیداشدہ تنازعات اورمسلکی اختلافات کومٹاکر مختلف افکار وخیالات کے لوگوں کوایک اسٹیج پرجمع کرنے میں کامیابی حاصل کی وہ فرماتے ہیں:
’’اول برکت ندوۃ العلماء کی یہ ہے کہ اس نے مقلدین اوراہل حدیث، قدیم وجدید، تعلیم یافتہ اورمختلف اذواق کے لوگوں کوایک جگہ جمع کردیا ہے،امید ہے کہ جیسا قوائے مختلفہ کے اکٹھا ہونے سے ایک کیفیت متشابہ پیداہوجاتی ہے جس کومزاج کہتے ہیں‘ ان طبائع مختلفہ کے اجتماع سے ایک دوسری حالت پیدا ہو جوقریب قریب’’ اعتدال حقیقی‘‘ کے ہوجائے‘‘

یہ’’ اعتدال حقیقی‘‘ اور ’’رواداری‘‘ہی دراصل وہ گوہرمقصود تھا جس کے حصول کے لئے ندوۃ العلماء جیسے مکتب فکرکی تلاش ہوئی، اوراس اعتدال وتوازن کی حصولیابی اس وقت تک ممکن نہ تھی جب تک تعصب وتنگ نظری، مسلکی انتہا پسندی فقہی جمود، بغض وعناد،رشک ورقابت اوردین میں بے سبب فلسفیانہ موشگافیوں کوترک کرکے مشترک مفاد باہم اوروسیع ترملی مفادات کے لئے اتحاد ویکجہتی کا مظاہرہ نہ کیا جائے اور اپنی ضد وہٹ دھرمی اورصرف اپنے مسلک کے حق ہونے پربیجا اصرار کو چھوڑ کر دوسرے مسلک کے ساتھ فراخ دلی اورکشادہ ظرفی کی روش نہ اپنائی جائے، اس میں کسی شبہ کی گنجائش نہیں کہ اس وقت کے حالات اسی بات کے متقاضی تھے کہ فکرونظرمیں وسعت پیداکی جائے ،دوسرے مسلک کے قائدین ورہنماؤں کااحترام کیاجائے، اوراپنی صلاحیتوں کوملت کی بقا کی خاطر تعمیری مقاصد میں استعمال کیاجائے نہ کہ دوسروں کوزیر کرنے اورنیچا دکھانے اوراپنے مسلک کی حقانیت وبرتری ثابت کرنے میں۔
اس زمانہ کے ایمان فروش مولوی، مساجد کے ائمہ اورمسند درس وافتاء پرقابض علماء اپنے مسلک کے لئے چھوٹی چھوٹی حصولیابیوں پرقانع ہوچکے تھے اورپوری ملت کی قیادت ورہنمائی اورامت مسلمہ کی امامت کا وسیع ترمفہوم سمجھنے سے بھی قاصر تھے، اسی بات کو علامہ اقبال نے یوں کہا ہے ؂
قوم کیا چیز ہے قوموں کی امامت کیاہے
یہ کیاجانیں بے چارے دورکعت کے امام

اسی طرح دین متین کے شیدائیوں اوراسلام کے فرزندوں کوان کا بھولا ہوا اخلاقی فریضہ اورفراموش کیاہوا سبق یاددلاتے ہوئے اس وسیع امامت وقیادت کے تصور کوزندہ کیاہے جس کو اختیار کرنے کے بعدپوری دنیاہمارے قدموں میں ہوگی اورہمارے اشارۂ چشم وابروکی محتاج ہوگی ارشاد ہوا ؂

سبق پڑھ پھر صداقت کاعدالت کاشجاعت کا
لیاجائے گا تجھ سے کام دنیا کی امامت کا

اگراس وسیع تخیل کو دولفظوں میں بیان کرناممکن ہو توکہاجاسکتا ہے کہ دنیاکی امامت کا جوتصوراسلامی شعراء اوردانشوروں نے پیش کیاہے وہ تعصب وتنگ نظری کوترک کرکے اپنی صفوں میں اتحاد پیداکئے بغیر اور قدامت پرستی اورجہالت وبے خبری کو چھوڑکر دنیا کے بارے میں وسیع ترتخیل کواختیار کئے بغیر ممکن نہ تھا، اس لئے دینی مدارس کے ازکار رفتہ نصاب اورتعلیم وتربیت کے قدیم نظام کے ہوتے ہوئے ایک نئے ادارہ کی ضرورت پڑی جس کانظام پرانے ڈگر سے ہٹ کرہو اورجس کا نصب العین ایساہو جوزمانہ میں انقلاب برپا کرنے کی صلاحیت رکھتا ہو۔ (جاری)

***

NOVEMBER-2010 عہدوں کی ہوس اوراسلامی احکام

مولانا محمد انورمحمد قاسم سلفی

داعی لجنۃ القارۃ الہندیۃ، کویت

عہدوں کی ہوس اوراسلامی احکام
عہدوں کی حرص کی ممانعت

رسول اکرم  نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی تربیت، قرآن وسنت ، ایمان داری، سچائی اوراخلاص پرکی آپ نے سیاسی اسلوب نہیں اپنایا، لوگوں کو بلند عہدوں کا لالچ نہیں دیا، جس کانتیجہ یہ نکلاکہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے اسلام سے پہلے بھی اورمسلمان ہونے کے بعدبھی کسی عہدے کی تمنا نہیں کی، صحابہ کرام میں حضرت عمربن خطاب رضی اللہ عنہ نمایاں مقام کے حامل ہیں آپ ﷺ نے انھیں بھی عہدے کالالچ نہیں دیا اورنہ ہی منصب پانے کی خواہش ان کے دل میں کبھی ابھری، ہاں زندگی میں ایک مرتبہ بعثتِ نبوی کے بیسویں سال جنگِ خیبر کے دن یہ خواہش ان کے دل میں ابھری،جب سرورِ کائنات  نے یہ اعلان فرمایا:
ترجمہ: میں کل جنگ کا جھنڈاایسے شخص کودوں گا جواللہ اوراس کے رسول ﷺسے محبت کرتا ہے، اللہ اس کے ہاتھوں فتح دلائے گا، وہ اوردیگر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے ساری رات یہ سوچتے ہوئے گذاری کہ وہ خوش نصیب کون ہوگا جس کو کہ جھنڈادیاجائے گا؟ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ’’میرے دل میں امارت کی خواہش صرف اسی دن پیداہوئی‘‘(مسلم:فضائل علی، حدیث33)
ان صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے دل میں یہ خواہش کیا کسی دنیوی امارت کو حاصل کرنے کے لئے ابھری، یا اللہ اوراس کے رسول  کی محبت کے عظیم مقام کو حاصل کرنے کے لئے؟ اگرآپ  صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے لئے امارت کواچھاسمجھتے انھیں اس کی ترغیب دلاتے تو پھر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کیوں دنیوی امارت کی خواہش نہیں کی؟حقیقت تویہ ہے کہ آپ ﷺ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو عہدوں سے نفرت دلاتے اوراس کی حرص رکھنے سے ڈرایا کرتے تھے۔
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں:رسول اللہ  نے فرمایا:
’’تم میں عنقریب امارت کی حرص پیداہوگی جوقیامت کے دن ندامت کا باعث بنے گی، دودھ پلانے والی کیا ہی اچھی اوردودھ چھڑانے والی کیاہی خراب ہے۔(بخاری: حدیث نمبر۷۱۴۸،مسند احمد۲؍۴۰۴۸)
نیز آپ ﷺ نے عہدے کی طلب اور اس کی حرص سے منع کرتے ہوئے حضرت عبدالرحمن بن سمرہ رضی اللہ عنہ سے فرمایا:
’’اے عبدالرحمن! کبھی امارت طلب نہ کرو، کیونکہ اگر یہ تم کو تمہاری مانگ پردی جائے توتم اسی کے حوالے کردئے جاؤ گے، اگر بغیرطلب کے تمہیں عطاہو تواللہ کی مددتمہارے شامل حال ہوگی۔(بخاری: حدیث نمبر۷۱۴۷)
یہ اسلامی قانون ہی بنادیا گیا کہ جوعہدے کی خواہش رکھتا ہے اسے عہدہ نہ دیاجائے۔
حضرت ابوموسی اشعری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: میں اورمیرے دوچچیرے بھائی رسول اللہﷺ کی خدمت میں حاضرہوئے ان میں سے ایک نے کہا:’’اے اللہ کے رسولﷺ !اللہ نے آپ کو جس چیز کا والی بنایا ہے اس میں سے کچھ پرآپ ہمیں امیربنادیں‘‘ دوسرے نے بھی یہی کہا، آپ ﷺ نے فرمایا:’’ہم اس کام پرایسے شخص کو متعین نہیں کرتے جواسے مانگتا یااس کی حرص رکھتا ہو‘‘۔(بخاری: حدیث نمبر۷۱۴۹)
صحیح مسلم کے الفاظ یہ ہیں:’’اے ابوموسی یا اے عبداللہ بن قیس! اس معاملے میں تم کیا کہتے ہو؟ میں نے کہا : اس ذات کی قسم جس نے آپ کو دین حق کے ساتھ مبعوث کیا، میں نہیں جانتا تھا کہ ان کے دل میں کیا ہے؟ اورنہ ہی مجھے یہ احساس تھا کہ یہ آپ سے (حکومتی) کام مانگیں گے‘‘ کہتے ہیں کہ میں آپ ﷺکے سُکڑے ہوئے ہونٹ کے نیچے مسواک کی طرف دیکھ رہا تھا، آپ ﷺ نے فرمایا، ’’ہم اس معاملے میں اس شخص کو عامل نہیں بنائیں گے جو اس کاخواہش مند ہو، لیکن اے ابوموسی تم جاؤ، آپ نے انھیں یمن کا عامل بناکر بھیجا، پھران کے پیچھے معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کو روانہ کیا ‘‘۔(مسلم:باب النہی عن طلب الإمارۃ، حدیث ۱۴،۱۵۔النسائی۸؍۱۹۸)
مسیلمہ کذاب کی ہوس اقتدار
مسیلمہ کذاب رسول اکرمﷺ کی حیات طیبہ میں اپنے متبعین کے ایک بڑے گروہ کے ساتھ مدینہ طیبہ آیا اوراس خبیث کی خواہش تھی کہ رسول اکرمﷺ کی وفات کے بعد وہ عرب کابادشاہ بنے، رسول اللہﷺ اپنے خطیب حضرت ثابت بن قیس رضی اللہ عنہ کے ساتھ اس سے اوراس قوم سے ملاقات فرمائی، اس نے آپ سے اس بات کامطالبہ کیا کہ اگر آپ کی وفات کے بعد زمام حکومت اس کے سپرد کی جائے تو وہ اپنے گروہ کے ساتھ آپ کے دین میں داخل ہوگا، اس وقت رسول اللہ ﷺ کے دست مبارک میں کھجورکی ایک شاخ تھی، آپ نے اسے مخاطب کرتے ہوئے فرمایا:’’اگرتومجھ سے اس شاخ کابھی مطالبہ کرے گا تویہ بھی میں تجھے نہیں دوں گا، اورمجھے یقین ہے کہ تواللہ کے اس (قتل کے) حکم کو پارنہیں کرسکے گا جورب العالمین نے تیرے حق میں مقدرکررکھا ہے اورمیں سمجھتا ہوں کہ تووہی شخص ہے جسے میں خواب دکھایا گیا ہوں، اوریہ ثابت بن قیس رضی اللہ عنہ ہیں جومیری جانب سے تجھے جواب دیں گے‘‘۔(متفق علیہ)
رہی بات اس خواب کی جسے رب العالمین نے رحمۃ للعالمین ﷺ کو مسیلمہ کذاب کے متعلق دکھایا تھا، اس کے متعلق حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ:’’میں نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے پوچھا: رسول اللہ ﷺ نے جومسیلمہ کذاب سے کہاتھا:’’میں سمجھتا ہوں کہ تووہی شخص ہے جسے میں خواب دکھایا گیا ہوں‘‘ ذرا بتلایئے وہ خواب کیا تھا ؟انھوں نے جواب دیا کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:’’میں نے حالت خواب میں دیکھاکہ میرے ہاتھوں میں سونے کے دوکنگن ہیں، یہ دیکھ کر مجھے حیرانی ہوئی اوریہ مجھے بہت برے لگے، تواللہ تعالیٰ نے حالت خواب میں مجھے وحی بھیجی کہ ان دونوں پرپھونک ماریئے، میں نے پھونک مارا تووہ دونوں کنگن اڑگئے ،میں نے اس کی یہ تعبیرلی یہ دونو ں نبوت کے جھوٹے دعویدارہیں جومیری وفات کے بعدنکلیں گے۔(اور وہ دونوں اسود عنسی اورمسیلمہ کذاب ہیں)(متفق علیہ)
ان دونوں نے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے دورمیں خروج کیا اوردونوں قتل کئے گئے، اسود عنسی کو فیروز نے یمن میں قتل کیا اورمسیلمہ کذاب کوقتل کرنے والے، سید الشہداء حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کے قاتل حضرت وحشی رضی اللہ عنہ ہیں جنھوں نے فتح مکہ کے دن اسلام قبول کیا، انھوں نے اسی نیزے سے اس خبیث کو واصل جہنم کیا جس سے انھوں نے سید الشہداء حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کو شہید کیا تھا،اوراعلان فرمایا کہ:میں نے حالت کفرمیں ایک بہترین انسان کو شہید کیا تھا، اب حالت اسلام میں ایک بدترین شخص کو واصل جہنم کرکے اس کا کفارہ اداکردیا ہے‘‘۔(البدایۃ والنہایۃ)
مال اورعہدے کی حرص دین کی تباہی ہے
حضرت کعب بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا :’’ اگردوبھوکے بھیڑئے کسی بکریوں کے ریوڑمیں گھس جائیں تواس قدر تباہی نہیں برپاکریں گے جتنی کہ کسی انسان میں مال دار اورعہدے کی حرص پیدا ہوجائے تویہ دونوں چیزیں اس کے دین کو تباہ کردیتی ہیں‘‘۔(ترمذی)
ایک بزرگ نے کسی چرواہے سے دریافت کیا کہ رسول اللہﷺ نے اپنی اس حدیث میں دوبھوکے بھیڑیوں کاتذکرہ فرمایا ہے، حالانکہ بھیڑیا اگر ایک بھی ہوتو وہ بکریوں کی تباہی کے لئے کافی ہے، چرواہے نے جواب دیا: محترم! حدیث شریف میں دوبھیڑیوں کاتذکرہ اس لئے آیا ہواہے کہ بھیڑیا شکارکے لئے کبھی تنہا نہیں نکلتا، جب بھی نکلتا ہے اپنے ایک دوساتھیوں کو، یااپنی مادہ کو ضرورساتھ رکھتا ہے اوربھوکے بھیڑیوں کاتذکرہ اس لئے فرمایا کہ جب بھیڑیا کاپیٹ بھرارہتا ہے توصرف ایک بکری کوپکڑتا ہے اورا سکا خون پی جاتا ہے، لیکن جب وہ بھوکارہتا ہے توکھاتا ایک بکری کو ہے لیکن مارتاتمام بکریوں کوہے، توگویا کہ دوبھوکے بھیڑیئے بھی بکریوں میں اس قدرتباہی نہیں پھیلاتے جتنی کہ کسی انسان کے دل میں مال اورعہدے کی ہوس اس کے دین کو تباہ وبرباد کردیتی ہے۔
دینی جماعتوں میں اقتدارکی ہوس
(1) پچھلے چند سالوں سے دینی جماعتوں میں طلب اقتدار اورعہدوں کے لئے حرص میں قابل لحاظ ترقی ہوئی ہے اور اس کی ایک بدترین مثال برادر اسلامی ملک افغانستان ہے ،جب کمیونزم کے سرخ ریچھ نے گرم سمندرکے حصول کے لئے اس اسلامی ملک پراپنے پنچے گاڑے، توبلاتفریق مسلک تمام مذہبی جماعتوں نے اس ملک کی آزادی کے لئے اپنا تن، من، دھن سب کچھ قربان کردیا، یہاں تک کہ وہ دن بھی آیا کمیونزم کو ذلت ورسوائی کے ساتھ اس ملک سے بھاگنا پڑا، اوراللہ رب العالمین نے مظلوموں کواس ملک کا حاکم بنایا، مذہبی جماعتوں نے اس ملک کا اقتدار سنبھال لیا، لیکن افسوس کہ جلد ہی عہدوں کی تقسیم نے اختلاف پھرانتشار اورپھرجنگ برپا کردیا اور آپس میں جہاد کے نام پر فساد برپاہوگیا، اوراس ملک کے شہری جواب اسلامی حکومت کی چھترسایہ میں امن وامان کی امید کئے ہوئے تھے، اس قدرتباہ وبربادہوئے جتنا کہ کمیونزم دورحکومت میں بھی نہیں ہوئے تھے۔
اس صورت حال میں کچھ عسکری ایجنسیوں کی مدد سے ایک اورمذہبی ٹولے نے اقتدارحاصل کرلیا، اگرچہ انھوں نے ملک میں امن وانتظام توقائم کیا، لیکن اپنی تنگ نظری کی وجہ سے دیگرمذہبی جماعتوں پرظلم وستم کے پہاڑ توڑنے شروع کردئے ، دیگرجماعتوں کے کئی علماء کے ہاتھ پیرانھوں نے صرف اس جرم میں کٹوادئے کہ وہ اپنے مسلک کی اشاعت میں مصروف ہیں اوراپنے عجیب وغریب فتوؤں سے انھوں نے خواتین کے لئے پڑھنا جائز اور لکھنا ناجائز قراردے دیا تھا، ساتھ ہی جبال ہندوکش نے قدیم غاروں اورپہاڑوں پرگوتم بدھ کے تراشے گئے قدیم مجسمے بھی ان کے مفتی حضرات کی چیرہ دستیوں سے محفوظ نہیں رہ سکے، انھوں نے ان مجسموں کو توڑنے اور غاروں کو تباہ کردینے کی ٹھان لی، دنیا کے تاریخی وثقافتی ورثے کے تمام ماہرین ،جاپان اورچین سے لے کرسری لنکا کے بدھ مذہب کے سارے پیرورکارچیختے چلاتے رہ گئے، لیکن مفتی صاحبان نے اپنی ضدپوری کرکے دکھلائی، اس طرح بیٹھے بٹھائے ساری دنیا کی مخالفت مفت میں مول لی، اوردنیا کی بڑی طاقتیں جومسلم ممالک پرہلہ بولنے کے لئے بہانوں کی تلاش میں تھیں، انھیں یہ بہانہ تومل ہی گیا، باقی بہانے انھوں نے خود گڑھ لئے، نتیجہ یہ ہوا کہ برسراقتدارٹولہ منظرسے پس منظر میں چلاگیا،بقول علامہ اقبال ؂
قوت فکر وعمل پہلے فناہوتی ہے
پھرکسی قوم کی شوکت پہ زوال آتاہے
حالانکہ افغانستان حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے دورمیں فتح ہوا تھا، اوردور صحابہ سے لے کرآج تک وہ مختلف مسلم حکومتوں کے ماتحت رہا، خود سلطان محمود غزنوی، جنھیں بت شکن کے طورپر بڑی شہرت حاصل ہے، انھوں نے بھی اس سے کوئی تعرض نہیں کیا، توجس سے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم بھی خاموش رہے، لیکن ہمارے مفتی صاحبان نے اسے بت پرستی قراردیا۔
مشہوراسلامی ملک مصرحضرت عمررضی اللہ عنہ کے زمانے میں فتح ہوا اس وقت سے لے کرآج تک فرعونوں کی یادگار’’اہرام‘اور’’ابو الہول‘‘کابت وغیرہ موجود ہیں، کسی نے بھی انھیں بت شکنی کے شوق میں ہاتھ نہیں لگایا، بلکہ عباسی خلیفہ ’’ہارون رشید اورمامون الرشید‘‘ نے انھیں توڑنے کا عزم کیا اس وقت کے علمائے کرام نے ان کی اس سعی کو فضول قراردیتے ہوئے اس سے روک دیا۔
(2)ایک اورمسلمان ملک بنگلہ دیش جس میں مدت سے دوخواتین باری باری حکومت کرتی ہوئی چلی آرہی ہیں ، گذشتہ عام انتخابات میں اس ملک کی جماعت اسلامی نے، عورت کی سربراہی کے متعلق تمام اسلامی احکامات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے ،ایک خاتون کا ساتھ دیا اوراس کی سربراہی میں اقتدارمیں شریک ہوگئی، اقتدارکا نشہ چڑھتے ہی اس نے دیگر اسلامی جماعتوں سے انتقام کی پالیسی اپنائی، ان کے سربراہوں پر مختلف الزامات لگاکر جیل بھجوایا اورعالم یہ ہوگیا کہ دیگر مذہبی جماعتوں کوجوسہولتیں گذشتہ سیکولر حکومت میں مہیا تھیں، اسلام پسندوں کی موجودہ حکومت میں ان کا اسی قدرقحط ہوگیا، جب ظلم حد سے بڑھ گیا تونتیجہ یہی نکلا کہ فوج کی حمایت ومددسے ایک سویلین حکومت قائم ہوگئی، جوکہ ملک میں امن قائم کرکے گذشتہ حکومت میں ملک کو پہنچنے والے نقصان کے مداوامیں لگی ہوئی ہے۔
(3)اورافسوس کہ یہی حال فلسطین سمیت ان تمام ممالک کاہے جن میں کسی مذہبی جماعت کو اقتدارمیں شرکت کاموقعہ ملا ہے، اب جماعتوں کے بجائے افراد اورائمہ، مساجد نے بھی اقتدار کے لئے ہاتھ پیرمارنے شروع کردئے ہیں، اوراپنی اپنی مساجد سے سارے ملک پرحکومت واقتدار کے خواب دیکھ رہے ہیں، اورگذشتہ دنوں پاکستان میں اس طرح کی کوششوں سے زبردست فسادظاہر ہوا، اوراللہ تعالیٰ کے گھرکے تقدس کے ساتھ ساتھ کئی مسلمانوں کی قیمتی جانوں کا ضیاع ہوا، اس فساد کے ذمہ دارمذہبی افراد نے اپنے ساتھ ساری دنیا میں اسلام کے نام لیواؤں کوجس طرح ذلیل کیا اورجگ ہنسائی کاموقع دیا افسوس ناک ہی نہیں شرمناک ہے ؂
کس قدر ہیں خطیبان حرم بے توفیق

خود بدلتے نہیں قرآں کو بدل دیتے ہیں

ہوس اقتدار خانہ جنگی کی اصلی وجہ

حافظ ابن حجررحمہ اللہ فرماتے ہیں:مہلب رحمہ اللہ کہتے ہیں:

’’اقتدار کی حرص خانہ جنگی کی اصل وجہ ہے، جس کے سبب خون بہتا ہے اورعصمتیں حلال کرلی جاتی ہیں اوراسی کی وجہ سے زمین میں عظیم فساد برپا ہوتا ہے اوریہ باعثِ ندامت اس لئے ہے کہ صاحبِ اقتدار کے لئے قتل یا موت یا معزول کردئے جانے کی بعدکی زندگی میں داخلہ باعثِ ندامت ہے، کیونکہ اس کے بعداس کے کئے ہوئے جرائم کا تاوان وصول کیاجائے گا ،اقتدارکے مزے عہدے سے علاحدگی کے فوراً بعدختم ہوجاتے ہیں، ہاں اس سے اس حالت کو مستثنیٰ قراردیا جائے گا اگرکسی کو حکمران کی موت کا خدشہ لاحق ہو اواس کے علاوہ کوئی شخص ایسا نہ ہو جو اس شخص کی طرح لائق اورذمہ داری کے بوجھ کو اٹھانے والا ہو‘‘۔(فتح الباری۱۳؍۱۲۶)
بہرحال حکومت اورعدالت یہ ایسے ضروری امورہیں جن کے بغیر مسلمانوں کی زندگی قائم نہیں رہ سکتی، انہیں کے ذریعے مال اورجان کی حفاظت ہوتی ہے ،لیکن اُمراء اورقضاۃ کے تقرر میں رسول اللہﷺ کے طریقے کی پیروی ضروری ہے، یہ مناصب ان لوگوں کو نہ دئے جائیں جوطلب کرتے ہوں، اس کی خواہش رکھتے ہوں اوراپنے آپ کو بطورِ امیدوار کھڑا کرتے ہو، یہ تمام صورتیں عہدے کی رغبت کے زمرے میں آتی ہیں بلکہ ان لوگوں کومنتخب کیاجائے جوعلم، زہد اورتقویٰ کے اعتبارسے ممتازہوں، دینی جماعتوں کے لئے ضروری ہے کہ وہ انبیاء کرام علیہ السلام کے تربیتی اصول سے استفادہ کریں ان کے لئے یہ زیب نہیں دیتا کہ وہ نوجوانوں کی تربیت، قیادت، صدارت اورامارت کی طلب پر کریں، اگرانھوں نے یہ کیا توآپ ﷺ کی ہدایت کی مخالفت کی اورنوجوانوں کوہلاکت میں ڈال دیا اور سب سے بڑھ کریہ کہ رسول اللہﷺ کے منہج کی مخالفت کرکے وہ دنیا وآخرت کی کون سی کامیابی کی امید کررہے ہیں؟۔

***

NOVEMBER-2010ایک متدین،خداترس،حددرجہ امین اور بزرگ عالم دین مولانا ابوالبرکات رحمانی رحمہ اللہ کا سانحۂ ارتحال

شمیم احمدندوی

ایک متدین،خداترس،حددرجہ امین اور بزرگ عالم دین
مولانا ابوالبرکات رحمانی رحمہ اللہ کا سانحۂ ارتحال

جامعہ سراج العلوم السلفیہ جھنڈانگرکے بانی ہمارے داداالحاج نعمت اللہ خاں رحمہ اللہ نے جب اس مدرسہ کی بنیادڈالی تو جھنڈانگر میں ہندوآبادی کی اکثریت تھی، جب کہ مضافات کے مسلم مواضعات میں زیادہ تر بریلوی مکتب فکر کے لوگ آباد تھے،ہمارے داداکی خواہش تھی کہ مسجد ومدرسہ کے جوارمیں راسخ العقیدہ متبع سنت اہل حدیث حضرات آباد ہوں، انھیں کی کوششوں سے بعض اہل حدیث خاندان جھنڈانگر میں آکر مستقل طورسے سکونت پذیرہوئے اوربعض لوگ دادامرحوم کی فیاضی ،سیرچشمی ، دریادلی اوردینداری کو دیکھ کر یہاں رہنے پرآمادہ ہوئے، اس طرح مدرسہ ومسجد کے پڑوس میں صحیح العقیدہ ، کتاب وسنت پرکاربند اوردین پسندلوگوں کی خاصی تعدادہوگئی۔
اسی طرح دادا الحاج نعمت اللہ خاں رحمہ اللہ نے مسجد کی تعمیرکے ساتھ جب یہاں ایک چھوٹا مکتب قائم کیا تواس میں تعلیم وتربیت کا فریضہ انجام دینے کے لئے آپ کی نظرانتخاب ایک ولی صفت بزرگ میاں محمدزکریا رحمہ اللہ پرپڑی جوگرچہ بہت زیادہ تعلیم یافتہ اورسندیافتہ عالم دین تونہ تھے مگرتقوی، خشیت الٰہی ،دین داری اوراتباع سنت کے سبب اپنے ہم عصروں میں ممتاز تھے، میاں محمد زکریا رحمہ اللہ کا آبائی وطن ضلع سدھارتھ نگر کے جنوب مغربی حصہ میں واقع موضع بیت نارتھا، دادا کی خواہش پر میاں صاحب رحمہ اللہ اپنے اہل وعیال کے ساتھ جھنڈانگر نیپال میں آبسے اورمدرسہ کے بالکل پڑوس میں انھوں نے ایک گھرکی تعمیر کی اور پھرمیاں صاحب کے علمی اورروحانی فیوض کا دریا جاری ہواجوساٹھ پینسٹھ سال تک مسلسل روانی کے ساتھ بہتارہا،اس خاندان کی آمد سے مسجدبھی اچھی طرح آبادہوئی اورمدرسہ کو بھی کافی تقویت ملی کہ یہ خاندان دینداروتقوی شعار اوراہل علم کا قدردان تھا، اورخوداس خاندان میں دینی تعلیم کو ہمیشہ اولیت حاصل رہی، ملک گیرشہرت کے حامل مشہور ومعروف عالم دین مولانا عبداللہ مدنی جھنڈانگری انھیں میاں محمدزکریا صاحب رحمہ اللہ کے پوتے ہیں جومرکزالتوحید کے رئیس اورمدرسہ خدیجۃ الکبریٰ کے مؤسس وناظم ہیں اور جو ملک وبیرون ملک اپنی دینی بصیرت ،مسلکی حمیت اوربلند افکار وخیالات کی وجہ سے عوام و خواص دونوں حلقوں میں معروف و مقبول ہیں۔
مولاناابوالبرکات رحمہ اللہ میاں محمدزکریا صاحب رحمہ اللہ کے پانچ بیٹوں میں سب سے بڑے تھے، انھوں نے ابتدائی تعلیم مدرسہ سراج العلوم میں اپنے والد بزرگوار میاں محمدزکریا رحمہ اللہ سے اورفارسی اورعربی کی ابتدائی تعلیم مولانا محمدزماں رحمانی رحمہ اللہ سے حاصل کی، پھرحصول علم کے لئے دارالحدیث رحمانیہ د ہلی تشریف لے گئے مگر اسی سال تقسیم ہند کے سانحہ کے سبب جب دہلی اجڑ گئی تورحمانیہ بھی بند ہوگیا، اس کے بعدموصوف نے جامعہ رحمانیہ بنارس میں داخلہ لیا اوروہیں سے سند فراغت حاصل کی ،فراغت کے معاً بعدمدرسہ سراج العلوم جھنڈانگر میں ابتدائی درجات میں تدریس کے لئے ان کی تقرری ہوئی ،مکتب وابتدائی درجات میں پڑھانے کے لئے جوصلاحیت ،صبرواستقلال اورمحنت درکارتھی وہ ان میں بدرجۂ اتم موجودتھی، اس زمانہ میں ایسے باصلاحیت ،فرض شناس اور محنتی اساتذہ کی بدولت ہی مکتب کی تعلیم کا معیار کافی بلند تھا ،طلبہ سے ان کو اس درجہ محبت تھی کہ میں نے خودمشاہدہ کیاہے کہ تعلیمی وقت ختم ہونے کے بعدبھی بچے ان کو گھیرے رہتے تھے اورمرحوم ان کو کچھ نہ کچھ پڑھاتے یاسمجھاتے ہی رہتے تھے،لیکن بلامعاوضہ، آج کل کی طرح اس وقت بہت زیادہ ٹیوشن پڑھانے کا رواج نہیں تھا، اور ان کو پیسہ کی بہت لالچ بھی نہ تھی ، صرف بچوں کی تعلیم اوراس سے زیادہ تربیت کی فکر تھی جوان کو ہمہ وقت رواں دواں رکھتی تھی۔
اللہ کے فضل و کرم اور میاں محمد زکریا رحمہ اللہ کے بعض بیٹوں کے مختلف طرح کی تجارت اور کاروبار سے وابستہ ہونے کے نتیجہ میں ان کے یہاں جب آسودگی وخوشحالی آئی نیزافراد خانہ کی تعداد میں اضافہ کے باعث قدیم مکان میں تنگی کا احساس ہوا تو ان میں سے کئی ایک نے چند برسوں قبل جھنڈانگر کے دیگرعلاقوں میں زمینیں خرید کر وہاں رہائشی مکانوں کی تعمیر کی اورمدرسہ کاپڑوس ترک کرکے وہاں جا کر آبادہوگئے‘ لیکن مولانا ابوالبرکات صاحب نے ہرآرام وراحت پرمسجد کے پڑوس کو ترجیح دی اوردم واپسیں تک مسجد سے دوری گوارہ نہ کی، ان کا مکان مدرسہ کی شمالی آخری دیوارسے بالکل متصل ہے ،کچھ عرصہ قبل تک ان کے گھر سے ایک وسیع داخلی راستہ سیدھے مدرسہ کے صحن میں آکرنکلتا تھا، لیکن بعدمیں جب اس راستہ سے کچھ شرپسندوں، اوباشوں اورتخریبی عناصر کی آمدورفت شروع ہوئی اورلوگوں کے اسے ایک عام گزرگاہ کی طرح استعمال کرنے کے سبب جب اس سے مدرسہ کا تعلیمی ماحول متاثرہونے لگا تو مدرسہ کی مجلس انتظامیہ کو اسے مجبوراً بند کرنے کافیصلہ کرناپڑا، جس سے واقعتاً سب سے زیادہ تکلیف چچا ابوالبرکات صاحب کو پہونچی، کیونکہ مسجد میں آمدورفت کے لئے ان کا آسان راستہ بندہوگیا تھا اوراب انھیں ایک لمباچکر کاٹ کرمسجد میں آنا پڑتا تھا، واضح ہوکہ مدرسہ کا ایک ذیلی دروازہ انھیں مصلیان مسجد کے لئے صرف نماز کے اوقات میں کھول دیا جاتا تھا، ابتدامیں اس تکلیف وپریشانی کی انھوں نے کئی بارشکایت کی لیکن پرانا راستہ دوبارہ کھولنا مدرسہ کے تعلیمی مصالح کے خلاف تھا اس لئے ان کی اس شکایت کا ازالہ تو نہیں کیا جاسکاپھربھی وہ برابر آخروقت تک جب اعضاء وجوارح میں حرکت اورجسم وجان میں طاقت تھی برابر پنچ وقتہ نماز باجماعت مسجدمیں ہی اداکرتے رہے اور جماعت کے ثواب سے محروم ہونا گوارہ نہ کیا، چندبرسوں قبل ایک بارانھوں نے مجھ سے اپنی اس تکلیف کا ذکرکیا کہ جس راستہ سے میں چکرکاٹ کر مسجد میں آتاہوں اس میں جگہ جگہ گڈھے،گندگی اورپانی ہے نیزروشنی کابھی معقول نظم نہیں ہے جس سے عشاء وفجر کی نمازکے لئے آمدورفت میں مجھ بوڑھے ناتواں کو بڑی زحمت ہوتی ہے، الحمدللہ میں نے صرف ان کی تکلیف کو دیکھ کراس کا ازالہ کردیا، راستہ بھی درست کرایا اورروشنی کا بھی انتظام کیا اورسارا کام اپنی ذاتی نگرانی میں کرایا جس سے اوردیگر راہ گیروں کوبھی سہولت ہوگئی، اگر خدمت خلق کے اس کام میں کوئی ثواب ہے توحقیقتاً اس کے مستحق چچا ابوالبرکات صاحب ہیں جنھوں نے مجھ کواس طرف توجہ دلائی۔
مولانا ابوالبرکات رحمانی کا شمار مدرسہ کے بہت پرانے مدرسین میں ہوتا تھا، ۵۴برسوں تک مدرسہ سراج العلوم میں تدریس کا ان کاطویل المیعاد ریکارڈ ہے جو اب تک ان کے ساتھ خاص ہے،ان کی تعلیم وتربیت سے کئی نسلیں مستفید ہوئی ہیں، اپنے ضعف وپیرانہ سالی کی بناپرمدرسہ سراج العلوم سے سبک دوش ہونے کے بعدبھی ایک عرصہ تک مدرسہ خدیجۃ الکبریٰ کی طالبات کو پڑھاتے رہے، اس طرح گویا کہ بچے اوربچیاں سب ان کے حلقۂ درس میں الگ الگ اوقات میں شامل رہے ہیں اوران کی تعلیم وتربیت سے مستفید ہونے والوں کا ایک بڑاحلقہ پیداہوگیا تھا ۔
اپنے ذاتی رہائشی مکان میں منتقلی سے قبل وہ مدرسہ سے متصل ہمارے ذاتی آبائی مکان کے ایک حصہ میں رہائش پذیر تھے، مجھے اچھی طرح یادہے کہ اپنے بچپن میں جب ہم جھنڈانگر آتے تھے توان کو اور ان کے اہل خانہ کواپنے سے بہت قریب پاتے تھے، اوراکثرایسا ہوتا تھا کہ جب جھنڈانگر میں واقع ہمارے اس گھرمیں ہماری کوئی چچی یادادی مرحومہ نہیں ہوتی تھیں توہم کئی کئی روزتک انھیں کے گھرکھاناکھاتے تھے اور ان کی اہلیہ (والدہ محمودومنظور) مرحومہ بڑی محبت وبڑے اہتمام سے ہمیں کھلاتی پلاتی تھیں، بچپن کے ابتدائی دورمیں‘ میں یہ نہیں جانتا تھا کہ یہ لوگ ہمارے قریبی عزیز نہیں ہیں، پھرہمارے بزرگوں نے اس مکان کوبھی فی سبیل اللہ مدرسہ پروقف کردیا اس طرح آمد ورفت کایہ سلسلہ موقوف ہوگیا۔
مدرسہ کے علاوہ ہمارے خاندان سے بھی ان کے بڑے قریبی روابط تھے، مجھ سے کئی بارذکر کیا کہ ’’آپ کے والد ’’بھیہ عبدالرحیم مرحوم ‘‘اور میں نے ایک ہی دن ایک ساتھ بسم اللہ کی اوراپنی مکتبی تعلیم کا آغاز قاعدہ بغدادی سے کیا، آپ کے والد میرے بچپن کے دوست تھے‘‘ دوسری کسی مجلس میں بھی جب کبھی میراتذکرہ آجاتا توکہتے کہ میرے دوست کا لڑکا ہے، میرے اوپران کا احسان بھی ہے کہ میرے والد مرحوم کی بیماری میں موصوف نے ان کی بڑی خدمت کی تھی، اس کا علم مجھے اپنی والدہ مرحومہ سے ہواتھا اوروہ شروع میں بڑی پابندی سے ان کے لئے عیدمیں جوڑااورکچھ تحائف بھیجا کرتی تھیں اور میں بھی کبھی کبھار ان کی چھوٹی موٹی ضرورت پوری کر دیاکرتا تھا، لیکن بہرحال اس احسان کا حق نہیں اداکرسکا جوانھوں نے میرے والد مرحوم کی خدمت ودیکھ بھال کے ذریعہ کی تھی، اللہ تعالیٰ ان تمام مرحومین کو غریق رحمت کرے۔(آمین)
میرے خاندان اوردادا مرحوم سے انتہائی قریبی مراسم کی بناپر ہی مجھے اپنے خاندان کے بزرگوں، ان کے دینی وعلمی کمالات اورخاندانی کوائف وحالات کا بیشترعلم انھیں کی زبانی ہوا، اسی طرح ابتدا ہی سے مدرسہ کی تعمیروترقی سے ان کو دلی لگاؤ تھا، مدرسہ کے تمام نشیب وفراز اوراس پرپڑنے والی افتاد کا بھی انھیں تفصیلی علم تھا اوراس کے مسائل کے حل میں بھی حتی المقدور ان کی شرکت رہی ہے، مدرسہ اورہمارے خاندان کے ماضی کے حالات سے جس قدر ان کی واقفیت گہری تھی اور بیشترحالات وواقعات کے وہ چشم دید گواہ تھے اسی قدر ان حوادث وواقعات کو سنانے سے بھی ان کوبڑی دلچسپی تھی، مدرسہ کی کون سی عمارت کب تعمیرہوئی؟کون سی عمارت کب گرائی گئی؟ حاجی صاحب مرحوم(ہمارے ولی صفت دادارحمہ اللہ)نے کون کون سی زمین یاعمارت کب وقف کی؟ مدرسہ میں عربی تعلیم کا کب آغاز ہوا؟ مدرسہ کے سالانہ جلسوں میں جماعت کے کن کن اکابرکی شرکت ہوئی؟یہ اوراس طرح کے دیگرکئی واقعات کے متعلق وہ چلتی پھرتی تاریخ تھے اوراپنی ان تاریخی معلومات سے دوسروں کوبھی بڑے ذوق وشوق سے مستفید کیاکرتے تھے۔
وہ جہاں سادگی‘ جفاکشی‘ زہد وورع اوراخلاص وللہیت کاپیکرتھے وہیں قناعت کابھی اعلیٰ نمونہ تھے، ان کی ضروریات بڑی محدود تھیں، مالی حالات کے بہتربنانے کی تمنا، عیش وآرام کی خواہش اور دنیاداری اورحرص وطمع سے ان کا کوئی تعلق نہیں تھا، معمولی موٹا جھوٹا کھانا اورچند سادہ سے جوڑے ان کے لئے کافی ہوتے تھے، غالباً چچامرحوم خطیب الاسلام مولانا عبدالرؤف رحمانی رحمہ اللہ نے اپنی آخری بیماری میں اپنی کوئی شیروانی یا چند جوڑے بطور یادگار ان کو عنایت کئے تھے لیکن میں نے کبھی ان کو شیروانی زیب تن کرتے ہوئے نہیں دیکھا، تاہم اپنے سادہ لباس میں بھی بڑے باوقار لگتے تھے۔
آخری وقت ان کا کافی عسرت وتنگی میں گزرا ،ان کے دونوں بیٹے محمود اورمنظور کسی منافع بخش پیشہ سے وابستہ نہ ہونے کی بناپر بقدر گزارہ بھی آمدنی نہیں کرپاتے تھے، لیکن اپنے آرام کے لئے کبھی حرف شکایت زبان پرنہیں لائے، البتہ بیٹوں کے لئے عزت کی روٹی اورضروریات زندگی کی فراہمی کے خواہشمند ضرورتھے اور کبھی کبھار ان کی نااہلی یا آرام طلبی کی شکایت اپنوں سے کردیا کرتے تھے ۔
اب آخرمیں میں ان تعزیتی سطور میں ان کی امانت ودیانت کی ایک اعلی وارفع مثال کے ذریعہ ان کی سیرت وکردار کی ایک ایسی خوبی کاذکر کرناچاہتا ہوں جوفی زمانہ نایاب نہیں توکمیاب ضرورہے، اورحقیقت یہ ہے کہ اسی خوبی کے اظہاروبیان کے لئے میں نے یہ تعزیتی مضمون قلمبند کرنے کا فیصلہ کیا ہے جس کا علم شاید کم لوگوں کو ہو۔
جامعہ سراج العلوم جھنڈانگر کے متعلق جن قارئین کو تھوڑا بہت بھی علم ہے وہ اس بات سے بخوبی واقف ہوں گے کہ ہمارے جدامجد الحاج نعمت اللہ خاں رحمہ اللہ نے جب اپنے حقیقی بھائیوں کی مددسے ابتدامیں چھوٹا سامدرسہ سراج العلوم کے نام سے قائم کیا تواسی وقت ایک وسیع قطعہ آراضی بلکہ پورا ایک گاؤں سونپور اس مدرسہ پر وقف کردیا تھا جو ان کے تمام ۸؍مواضعات پرمشتمل وسیع زمینداری میں سب سے زرخیز تھا، گویا کہ اسی وقت ان کے ذہن میں یہ خاکہ تھا کہ اس مدرسہ کو ترقی دے کرعالمیت وفضیلت تک تعلیمی سہولیات والے ایک معیاری ومثالی تعلیمی ادارہ میں تبدیل کرناہے ورنہ ایک مکتب کی ضروریات محدود ہوتی ہیں اورانھیں پورا کرنے کے لئے اس قدروسیع وعریض اورزرخیز قطعہ آراضی کی مطلق حاجت نہیں تھی جس کا رقبہ تقریباً ڈھائی سوایکڑہو، لیکن اس سے بانئ مدرسہ ہمارے دادا مرحوم کی عالی ظرفی و سیرچشمی اورمستقبل کے بلند تعلیمی منصوبوں اورعزائم کا علم ضرور ہوجاتا ہے۔
جس وقت اس گاؤں کی خریداری مکمل ہوئی اس وقت نیپال میں اصلاح آراضی(بھومی سدھار) کا کوئی محکمہ اورزمین کی حد بندی کا کوئی قانون نہیں تھا، ہمارے جدامجد، ان کے دوبھائیوں اورمختصرسے خاندان کے چند افراد کے نام ۸؍گاؤں پرمشتمل ہزاروں ایکڑزمین تھی، جب دادا مرحوم نے اس گاؤں یعنی موضع سونپور کو مدرسہ پروقف کرنے کا ارادہ کیا تواسی وقت اس کی ضرورت محسوس ہوئی تھی کہ مدرسہ کے نام اس کی رجسٹری ہوجائے، لیکن مدرسہ اس وقت تک رجسٹرڈ نہ تھا اس لئے یہ کام عملاً ممکن نہ ہوسکا، اس لئے خاندان سے باہر ایک ایسے قابل اعتماد اورامانت دارشخص کی تلاش ہوئی جس پراس وسیع آراضی اورقیمتی زمینوں کے متعلق بھروسہ کیاجاسکے اورزمین کو مامون ومحفوظ کیاجاسکے، خاندان میں سے کسی فرد کے نام کرنا اس وجہ سے مناسب نہ تھا کہ اول توان کے نام زمینیں بہت تھیں اور ملک میں کبھی تحدید آراضی کا قانون بننے کے بعدان کے بحق حکومت ضبط ہونے کا خطرہ تھا، دوسرے آگے چل کرخاندان کے کسی فرد کا دانستہ یا غلط فہمی کی بنیاد پر ان زمینوں پراپنی دعویداری پیش کرنے کا بھی موہوم سا امکان تھا، اس لئے دادا مرحوم نے ان تمام خطرات کے سدباب کے لئے مدرسہ کے تدریسی اسٹاف یاکارکنان میں سے ایک ایسے شخص کی تلاش شروع کی جوپوری طرح سے امین اورقابل اعتماد ہو، ایسے میں ان کی نظرانتخاب چچاابوالبرکات رحمانی پرپڑی جوان کے تمام تدریسی وغیرتدریسی اسٹاف اورقصبہ میں موجود ان کے دوست احباب میں سب سے زیادہ معتمد تھے او رجودادا مرحوم حاجی صاحب رحمہ اللہ کی امانت ودیانت،نیک نفسی، خداترسی اور راست گوئی کے کڑے اصولوں پربارہا اپنے کو کھراثابت کرچکے تھے اورہرطرح کی حرص وطمع اوراستغلال کے مذموم خصائص سے بہت دورتھے، اس لئے ذمہ داران مدرسہ نے یہ قیمتی وزرخیز زمین اوروسیع آراضی ان کے نام بلا ترددکردی جس کی مالیت آج پچیسوں کروڑروپئے سے زائد ہے، انھوں نے بھی زندگی کے ہرمرحلہ میں اپنے کواس بھروسہ کا اہل ثابت کیا اورذمہ داران جامعہ کے اعتماد پر ان کی توقعات سے زیادہ کھرے اترے، اس موقوفہ آراضی کی اپنی ایک تاریخ ہے جوکئی بارنشیب وفراز سے گذری ہے اوراس پرخطرات کے بادل منڈلائے ہیں ،یہ ملک نیپال کی تاریخ کا سب سے بڑا وقف ہے ،یہاں پرہندؤوں کے قدیم مندر، بدھشٹوں کے مٹھ وگمبا، ہندؤوں کی پاٹھ شالا ئیں اورعیسائیوں کے گرجاگھر ومشنری اسکول بڑی تعدادمیں ہیں، اوران میں سے اکثر کے لئے اوقاف (گوٹھی) بھی ہیں،لیکن اتنی وسیع آراضی یاغیرمنقولہ جائداد کسی کے پاس نہیں ہے، ملک میں جب تحدید آراضی یا اصلاح آراضی (بھومی سدھار) کاقانون نافذ ہوا توازروئے قانون ایک نام سے ۲۵؍ بیگہ228۳؍بیگہ پختہ یعنی ۵۶ ۱؍ایکڑ زمین سے زائد نہیں ہوسکتی تھی، جب کہ اس موقع پرچچا ابوالبرکات (جن کا سرکاری کاغذات میں نام ابوالبرکات مومن تھا) کے نام سے 127بیگہ پختہ زمین تھی، اس زمین کی بحق حکومت نیپال ضبطی کا آرڈرآگیا اورکارروائی کاآغاز بھی ہوگیا، کسی طرح ہمارے خاندان کے بزرگوں کو اس کا علم ہوا، ان کے پیروں کے نیچے سے زمین نکل گئی، بھومی سدھار منترالیہ یعنی وزارت اصلاح آراضی کا موقف یہ تھا کہ سیلنگ کا قانون نافذ ہونے کے بعد اب ایک نجی نام سے 28بیگہ پختہ (156ایکڑ) سے زائد جوبھی زمین ہوگی اسے لازماً ضبط کیاجائے گا اورچچا ابوالبرکات کے نام تنہا127؍بیگہ پختہ زمین درج تھی جو معرض خطر میں تھی۔
اس موقع پرہمارے خاندان کے بزرگوں اورمعاملہ فہم افراد نے انتہائی سوجھ بوجھ اوراپنی بیدارمغزی کا ثبوت دیا اورکافی جدوجہد کے بعد مدرسہ کی زمین کو تحفظ فراہم کیا، ان میں ہمارے بڑے چچا عبداللہ مرحوم اوربھائی عبدالرشید خاں صاحب کی خدمات وقربانیاں قابل ذکرہیں، ان میں اول الذکرکو زمینداری کے معاملات اورزمینوں کی نگہداشت کاوسیع تجربہ تھا اورثانی الذکر جواس وقت کلیہ عائشہ صدیقہ جھنڈانگر کے ناظم ہیں اورمسائل کے حل میں غیرمعمولی صلاحیت واہلیت کے حامل ہیں، انھیں دونوں کی کوششوں سے مدرسہ کی آراضی کو خرد برد اورضائع ہونے سے بچایا جاسکا،فللہ الحمد والمنۃ۔
بہرحال یہ زمین ایک عرصہ تک ایک موقوفہ آراضی(جسے نیپالی زبان میں گوٹھی کہتے ہیں) کی حیثیت سے ابوالبرکات مومن کے نام سے سرکاری کاغذات میں درج رہی ہے اورگٹھیا(وقف کنندہ) کی حیثیت سے سرکاری متعلقہ محکموں میں وہی جانے جاتے رہے ہیں جو ایک بڑا منصب بھی تھا اور قانون انھیں وسیع اختیارات کا مالک بنا رہا تھا، لیکن انھوں نے اپنے اس اعلیٰ منصب اوروسیع اختیارات کاکبھی ناجائز استعمال نہیں کیا، نہ ہی کبھی بلیک میلنگ کا راستہ اپنایا جوکہ ان حالات میں اکثردیکھنے میں آتا ہے، بلکہ اس کے برعکس جامعہ کی تعمیروترقی، اس کی تزئین وآرائش، تعلیمی معیار کی بلندی، خرابیوں کی اصلاح اورصفائی ستھرائی سے متعلق ہمیشہ بہی خواہانہ اور ناصحانہ مشورہ دیتے رہے ،اوراپنی کسی رائے پرعمل کرانے کے لئے کبھی اپنی اس حیثیت کا حوالہ نہیں دیا،اورشاید انھیں یہ یادبھی نہ رہا ہوکہ قانونی طورپر ٹرسٹ کے صدرکی حیثیت سے ان کوپوری کمیٹی پرفوقیت حاصل ہے، بلکہ ہمیشہ اس بوجھ کو ایک ملی امانت سمجھتے ہوئے خوشی خوشی اٹھائے رہے، پھرجب جامعہ سراج العلوم رجسٹرڈ ہوگیا اوراس کی کمیٹی بھی رجسٹرڈ ہوگئی اورگوٹھی کے مالکان وٹرسٹیان کی حیثیت سے جامعہ کی اس زمین کو ان کے نام کرنے میں کوئی رکاوٹ نہ رہی توانھوں نے ازخود اس پرزوردینا شروع کیا کہ اب آپ لوگ اس امانت کو واپس لے کرمجھے اس ذمہ داری سے آزاد کردیں کیونکہ میں عمرطبعی کو پہونچ چکاہوں، میری زندگی نہ رہنے پرقانوناً اس ٹرسٹ کی ملکیت میرے بچوں کو منتقل ہوجائے گی اوران کا رویہ آئندہ کیا ہوکچھ کہا نہیں جاسکتا ،اس لئے آپ لوگ میری زندگی ہی میں مجھے اس بارامانت سے سبکدوش کردیں، چنانچہ ضروری کاروائی کی گئی اوراب اس کے ٹرسٹی الحاج نعمت اللہ خاں رحمہ اللہ کے اہل خاندان ہیں جواس زمین کے فی سبیل اللہ وقف کرنے والے تھے۔
اس موقع پر ان کی امانت ودیانت اورصفائی قلب کا نمونہ بخوبی دیکھنے میں آیا کہ انھوں نے نہ تواس سے ناجائز فائدہ اٹھایا، نہ ہی کسی قسم کی مراعات کے طلب گار ہوئے، نہ اپنی کسی خواہش کا اظہارکیا بلکہ مدرسہ کے قانونی مشیرو وکیل نے جہاں کہا وہاں خاموشی کے ساتھ دستخط کردئے یا نشان انگشت ثبت کردیئے اور کبھی بھولے سے بھی اپنی اس حیثیت کا ذکرنہیں کیا کہ کبھی احسان جتانے کے انداز میں کہا ہو کہ میں نے ایسے وقت جامعہ کی کروڑوں کی آراضی کی حفاظت کی جب اس پرخطرات کے بادل منڈلا رہے تھے ،جب کہ ان مواقع پراچھے اچھوں کا ایمان ڈگمگاجاتا ہے اوروہ اپنی شرائط پیش کرنے لگتے ہیں یا مطالبات ومراعات کی فہرست تھمادیتے ہیں، ایسے ہی مواقع پر آدمی کی نیکی وپارسائی اورخداترسی و بے نفسی کی آزمائش ہوجاتی ہے جس پرچچاابوالبرکات رحمانی رحمہ اللہ پورے اترے۔
بہرحال وہ نیک نفس ،فرشتہ سیرت اورریا ونمود سے پاک شخصیت اس دارفانی سے کوچ کرکے خود تاریخ کا حصہ بن چکی ہے جس کی حیثیت جامعہ سراج العلوم السلفیہ،جھنڈانگر اورہمارے خاندانی حالات کے بارے میں ایک چلتی پھرتی تاریخ کی سی تھی۔
اللہ تعالیٰ ان کی طویل تعلیمی ،تدریسی، دعوتی اورتربیتی خدمات قبول فرماکر ان کے درجات بلند کرے اوران کے پسماندگان کوصبرجمیل کی توفیق عطافرماتے ہوئے انھیں ان کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق بخشے۔(آمین)

***

NOVEMBER-2010 ایک مشفق استاد کی رحلت

راشد حسن فضل حق مبارکپوری

طالب جامعہ سلفیہ بنارس
ایک مشفق استاد کی رحلت

رمضان المبارک کی چھٹی گذارنے کے بعد جب مادر علمی جامعہ سلفیہ واپس پہونچا توقدرے تاخیرسے’’سراجی اخوان‘‘ نے استاد محترم مولانا خیراللہ اثری رحمہ اللہ کے سانحۂ ارتحال کی خبردی، یہ خبراہل علم وفضل کے لئے عموماً اوروابستگان دامن جامعہ سراج العلوم السلفیہ،جھنڈانگر کے لئے خصوصاً بڑی المناک اورہوش رباتھی، بہت ساری آنکھوں کو رُلاگئی اوربہت سے دلوں کو تڑپاگئی، کچھ دیرتک یقین کرنامشکل تھا کہ ایک شخص جس نے ابھی جوانی کی دہلیز سے پوری طرح قدم بھی نہیں نکالاتھا کیونکر اس نے اپنی جان جان آفریں کے حوالہ کردی، پھراس خبر کو بھی اسی طرح قبول کرنا پڑا جس طرح آج سے تقریبا ایک سال قبل استادالاساتذہ علامہ ڈاکٹرمقتدیٰ حسن ازہری رحمہ اللہ کے سلسلے میں یقین کرچکے تھے، پرانے بادہ کشوں کا یہ سلسلۂ سفر آخرت جمعیت وجماعت بلکہ امت مسلمہ کے لئے افسوسناک والم انگیز بھی ہے اورناقابل تلافی بھی، ساتھ ہی ساتھ قرب قیامت کی نشانی بھی۔موت کی حقیقت سے انکارنہیں کیاجاسکتا ،لیکن ناگہانی اوراچانک کی اموات‘ وہ بھی ایسے لوگوں کی جو دین کی خدمت میں لگے ہوئے ہوں، جن سے امت کی توقعات وابستہ ہوں، اور جن سے کوئی انسان قریب ہوتا ہے تواس کا اثرانسان کے قلب وضمیرپرپڑنا یقینی اور فطری ہے، مولاناخیراللہ اثری رحمہ اللہ جامعہ اثریہ دارالحدیث مؤ کے فارغ التحصیل تھے، اورجامعہ سراج العلوم السلفیہ جھنڈانگر کے باوقار، بااخلاق اورباصلاحیت استاد تھے، جامعہ کے انتظامی امورسے بھی دلچسپی رکھتے تھے، مجلہ’’السراج‘‘ کے آفس سکریٹری،پروف ریڈر اور سرکولیشن مینیجر بھی تھے، دہلی میں ’’عظمت صحابہ‘‘کے موضوع پر منعقدہ آل انڈیا اہل حدیث کانفرنس میں آپ سے آخری ملاقات ہوئی تھی، خودہی بڑھ کر آپ نے مصافحہ کیا، کیا معلوم تھا یہ آخری دیدار وملاقات ہے، انسان قضاء وقدر کے سامنے کس قدر بے بس ولاچار ہے کہ اسے کچھ نہیں معلوم کل کیا ہونے والا ہے ،کچھ دیرگفتگو ہوتی رہی، پھرہم جدا ہوگئے، شاید ہمیشہ کے لئے۔
مجھے آپ کا ایک ادنی شاگرد ہونے کا فخر حاصل ہے، آپ اساتذہ وطلبہ دونوں کے مابین مقبول و محترم تھے، پر مزاح بھی تھے اورشفیق ومہربان بھی، ان کی شفقت وعنایت تمام طلبہ کے لئے عام تھی، انداز تدریس ممتاز تھا، مشکل مسائل کو طلبہ کے ذہن میں آسانی سے اتارنے کا سلیقہ تھا، ایک بات کو تکرارکے ساتھ سمجھاتے تاکہ ذہن کے نہاں خانوں میں محفوظ ہوجائے، مجھے یادہے کہ آپ نے ہمیں ابتدائی کتابوں میں، تقویۃ الایمان،کتاب الصرف، اوردیگر صرف ونحو کی کتابیں پڑھائی ہیں، صرف ونحو اردو وفارسی ادب کا خاصامذاق رکھتے تھے، طلبہ انھیں صرفی اورفارسی ادب کا ماہرکہتے تھے، پڑھاتے وقت طلبہ کی لیاقت وطبیعت کا خاص لحاظ رکھتے تھے، کبھی کبھی مسائل کو دیہاتی زبان میں سمجھاکر ماحول کو پُرلطف وخوشگوار بنادیتے،دوران درس مختلف قسم کے لطیفوں کے ذریعہ طبیعت میں انبساط پیداکرنے کا گُرانھیں معلوم تھا، راقم ان کا ایک قریبی شاگرد ہونے کی حیثیت سے کہہ سکتا ہے کہ اس وقت عربی زبان میں ترکیبی حیثیت سے جوآسانی محسوس ہورہی ہے وہ اسی تخم اول کا نتیجہ وثمرہ ہے، ’’متوسطہ ثانیہ‘‘ میں جب میراپہلا مضمون مجلہ’’السراج‘‘ میں شائع ہوا، اس وقت خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہ تھا، اس کی تصحیح آپ ہی نے کی تھی، اس کے بعدآپ رحمہ اللہ کا اعتماد مجھ پربہت بڑھ گیا، سایۂ شفقت بھی دوسروں کے مقابلے میں درازہوگیا، اعتماد ویقین کی دیوار اس قدراونچی کہ اگرکبھی کسی دفتری اور انتظامی مصروفیت کی وجہ سے خود کلاس میں نہ آتے توکہہ دیتے کہ راشد لویہ نوٹ طلبہ کو لکھوادینا ،اورکچھ غموض ہوگا تواس کو سمجھادینا، یہ ایک چھوٹے طالب علم کے لئے بہت بڑی بات تھی، ایک مرتبہ میں مولاناابوالحسن علی ندوی رحمہ اللہ کی کوئی کتاب پڑھ رہا تھا ،اس میں فارسی کا ایک شعر گذرا، میں اسے لے کر شیخ کے پاس گیا، توانھوں نے شفقت سے بٹھاکر سمجھایا، وہ کوئی بھی بات سمجھاتے جب تک انھیں یقین نہ ہوجاتا کہ میں سمجھ گیا تب تک وہ سمجھاتے رہتے، سوالات پربہت خوش ہوتے ،مخاطب کرتے تواس سے پہلے بیٹا ضرور لگاتے۔
مادرعلمی جامعہ سراج العلوم جھنڈانگر کے اکثراساتذہ کا ذہن اسی طرح سلجھا ہوا سنجیدہ تھا، سب کے اندرابھی بھی بہت زیادہ سادگی ،تواضع، عاجزی وانکساری پائی جاتی ہے، آج کے دورمیں علم کے ساتھ ساتھ عمل بہت ہی اہم اورغیرمعمولی ہے، صلاحیت کے ساتھ صالحیت کا درجہ بہت بلند ہے، ساتھ ہی ساتھ اخلاق واطوار اگرمشفقانہ وکریمانہ ہوں توپھر کیاکہنا، افسوس کہ آج جہاں مدارس میں اساتذہ وطلبہ میں بہت ساری برائیاں وخرابیاں جنم لے رہی ہیں،وہیں غیبت وچغل خوری، حسد وعداوت ،نفرت وتعصب جیسی خبیث بیماریاں ان کے شجرہائے اخلاق وکردار کو دیمک کی طرح کھاکر کھوکھلا کررہی ہیں، مگرشاید ہی کسی کو اس کا احساس ہو، اللہ کا شکر ہے کہ جامعہ کے اساتذہ ’’ولاازکی علی اللہ أحدا‘‘ کافی حد تک ان سب چیزوں سے محفوظ ہیں، دوران درس یاتقریر ہم نے متعدد کبار اساتذہ کی آنکھوں میں آنسو د یکھے ہیں ،وہاں کے اساتذہ رحیم وشفیق بھی تھے، ہماری بہت ساری طفلانہ شرارتوں سے صرف نظر کیاہے، درس وغیرہ میں بیجاسوالات کوبہت انگیز کیاہے، یہ سب باتیں جب یاد آتی ہیں تواپنی نادانی پر افسوس ہوتا ہے اوران تمام مخلص اساتذۂ کرام کے لئے دل کی گہرائیوں سے دعائیں نکلتی ہیں، اس تحریر کے ذریعہ ہم ان تمام سے اپنے روشن مستقبل کے لئے دعاکی درخواست کرتے ہیں،بہرکیف ذہن کے اوراق پریادوں کے بہت سارے نقوش مرتسم ہیں ،جن کے تذکرے کایہاں موقع نہیں، کسی اورمناسبت سے ان کاتذکرہ کیاجائے گا ،ان شاء اللہ۔
اخیرمیں ہم اپنے مرحوم استاد محترم کے لئے دعاگو ہیں کہ اللہ تعالیٰ ان کی بشری کوتاہیوں اور انسانی لغزشوں کو درگذر کرکے جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام دے، پسماندگان کو صبرجمیل عطاکرکے اورمادرعلمی کوہمیشہ قائم ،دائم اورسرسبز وشاداب رکھے۔(آمین)

NOVEMBER-2010چندنورانی ایام

عبدالمنان سلفی


چندنورانی ایام
جامعہ میں سہ روزہ ریفریشرکورس کا انعقاد

جامعہ سراج العلوم السلفیہ،جھنڈانگر بلا استشنانیپال کا قدیم ترین مرکزی تعلیمی ودعوتی ادارہ ہے جوکم وبیش ایک سوسال سے نیپال میں اپنی تعلیمی ودعوتی ذمہ داری موثر اندازمیں انجام دے رہاہے، پرائمری سے لے کر درجات عالمیت وفضیلت تک طلبہ وطالبات کی تعلیم وتربیت کے اہتمام کے ساتھ دعوتی اوررفاہی میدانوں میں بھی اس کی اپنی علیحدہ پہچان ہے اوراپنے محدود وسائل کے مطابق اپنی خدمات نہایت خاموشی کے ساتھ جاری رکھے ہے، انہی تعلیمی و تربیتی مقاصد کو بروئے کار لاتے ہوئے جامعہ کے موجودہ ناظم اعلیٰ مولانا شمیم احمدندوی حفظہ اللہ وقتاً فوقتاً علمی ودعوتی پروگرام منعقد کرتے رہے ہیں، چنانچہ ماضی قریب میں جامعہ کے اندرمدارس اسلامیہ کے اساتذہ ومعلمین کے لئے متعددریفریشر کورسز کے انعقاد کے ساتھ کل نیپال پیمانہ پرحفظ قرآن اورحفظ احادیث نبویہ کے مسابقوں کااہتمام کیا گیاہے۔
چنانچہ نیپال کے مرکزی تعلیمی ادارہ کی حیثیت سے جامعہ کے ذمہ داران خصوصاً ناظم اعلیٰ مولانا شمیم احمدندوی حفظہ اللہ نے ۲۴تا ۲۶؍اکتوبر ۲۰۱۰ء ؁ پورے نیپال کے مدارس اسلامیہ کے اساتذہ ومعلمین کے لئے ایک ریفریشرکوس کااہتمام جامعہ کی نوتعمیر بلڈنگ ’’رحمانی کمپلیکس‘‘ کے وسیع وعریض ہال میں کیاجس میں نیپال کے ہرخطہ اورعلاقہ کے ایک سوچاراساتذہ نے شرکت کی اوراس پروگرام سے بھر پور استفادہ کیا۔
ریفریشرکورس کے انعقاد کا مقصدیہ تھا کہ مدارس میں تعلیم وتربیت کافریضہ انجام دینے والے اساتذۂ کرام کوان کی اہم ذمہ داری کا احساس دلایاجائے اورحالات حاضرہ کے تقاضوں کے پیش نظر انھیں تعلیم وتربیت کے اصولوں سے بھی واقف کرایاجائے تاکہ وہ اپنے مفوضہ فرائض زیادہ بہتراندازمیں انجام دے سکیں، الحمدللہ یہ تعلیمی وتربیتی پروگرام اپنے مقصدمیں پوری طرح کامیاب رہا اورتینوں دن کی مختلف نشستوں میں تعلیم، تربیت اوردعوت واصلاح کے مختلف گوشوں پرمدعومحاضرین کرام نے لیکچرز پیش کئے یامقالات پڑھے۔
ریفریشرکورس کی افتتاحی نشست کا آغاز ۲۴؍اکتوبر ۲۰۱۰ء ؁ بروزاتوار صبح ۳۰۔۸ بجے ہوا، جس کی صدارت جامعہ کے ناظم اعلیٰ مولاناشمیم احمدندوی حفظہ اللہ نے فرمائی،تلاوت قرآن کریم کے بعد ناظم جامعہ نے اپناصدارتی خطبہ پیش کرتے ہوئے مہمانان گرامی اورتمام شرکاء کی خدمت میں سپاس نامہ بھی پیش کیا جس میں آپ نے ریفریشرکورس کے انعقاد کی غرض وغایت بتاتے ہوئے تمام لوگوں کاوالہانہ استقبال کیا اورجامعہ سراج العلوم السلفیہ،جھنڈانگر کی تعلیمی سرگرمیوں کامختصر ذکربھی فرمایا، اس کے بعدکو یت سے تشریف لانے والے مہمان خصوصی جناب ڈاکٹرعبدالسلام فیلکاوی حفظہ اللہ نے افتتاحی خطاب فرمایا اوراس پروگرام کے تئیں اپنی نیک خواہشات کا اظہارکرتے ہوئے دعوت واصلاح کی اہمیت وضرورت پرروشنی ڈالی،اس کے بعدبعض مہمانوں اورشرکاء نے اس پروگرام کے سلسلہ میں اپنے تاثرات پیش کئے اورجامعہ کی تعلیمی خدمات کوسراہا، افتتاحی پروگرام تقریباً ۴۵۔۱۰بجے ختم ہوگیا، اس کے بعد۱۱؍بجے سے ایک بجے(اذان ظہر) تک محاضرات کا سلسلہ جاری رہا۔
اس سہ روزہ ریفریشرکورس میں اوسطاً ہر دن ۴؍محاضرات پیش ہوئے، ہرمحاضرہ کے بعد ۱۵؍منٹ سوال وجواب کے لئے رکھے گئے تھے، ڈاکٹر فیلکاوی کے کل چھ محاضرات عربی میں ہوئے جن کی تلخیص وترجمانی جامعہ کے سینئراساتذۂ کرام نے کی۔
اختتامی پروگرام ۲۶؍اکتوبر ۲۰۱۰ء ؁ بروزمنگل بعدنماز مغرب منعقدکیاگیا جس کی صدارت جامعہ کے ناظم مولاناشمیم احمدندوی حفظہ اللہ نے فرمائی، تلاوت قرآن کریم اورحمد کے بعدصدرمجلس نے اس پروگرام کے کامیاب اختتام پر اللہ کا شکراداکیا اورتمام شرکاء ،محاضرین اورکارکنان کومبارکباد دیتے ہوئے ان کا بھی شکریہ اداکیا، اس کے بعد مہمان خصوصی سمیت بعض دیگر علماء واساتذہ نے اس پروگرام کے سلسلہ میں اپنے تاثرات پیش فرمائے، آخرمیں مہمان خصوصی جناب ڈاکٹرعبدالسلام فیلکاوی ،ناظم جامعہ مولاناشمیم احمدندوی اورکلیہ عائشہ صدیقہ کے ناظم جناب بھیہ الحاج عبدالرشید خاں صاحب خلف الصدق خطیب الإسلام علامہ عبد الرؤوف رحمانی رحمہ اللہ اور جامعہ کے سینئراساتذۂ کرام کے ہاتھوں شرکاء کو توصیفی اسناد اوریادگار تحائف دئے گئے۔
ریفریشرکورس کے دوران چارپانچ دنوں تک ’’رحمانی کمپلیکس‘‘ میں بڑی رونق ور چہل پہل رہی اوراس کی نوتعمیر عمارتیں اورمسجد پورے طورپر آبادرہی، جلد ہی جامعہ کا شعبۂ عربی (کلّیۃ الشریعۃ) جامعہ کے اس مقرجدید پرمنتقل ہونے والا ہے،پھروہاں کے دروبام قال اللہ وقال الرسول ﷺ کی صدائے دلنواز سے گونجنے لگیں گے،ان شاء اللہ،اللہ آسانی پیدافرمائے۔(آمین)

***

OCTOBER-2010بابری مسجد ملکیت مقدمہ کافیصلہ عدالتی روایات اورقانونِ انصاف کی شکست

شمیم احمدندویؔ


بابری مسجد ملکیت مقدمہ کافیصلہ
عدالتی روایات اورقانونِ انصاف کی شکست

۶۰؍سال کی طویل عدالتی کاروائیوں، اکتادینے والے انتظار، ثبوت وشواہد کے نام پر ہونے والی دھاندلیوں، تضییع اوقات پرمبنی فضول سماعتوں اوردو دو بارکے التواء کے بعدآخرکاربابری مسجد ملکیت مقدمہ کا فیصلہ ۳۰؍ستمبر کو الہ آباد ہائی کورٹ کی لکھنؤ بنچ نے ہزاروں میڈیا اہل کاروں اورمشتاقان دیدوشنیدکی موجودگی میں سخت حفاظتی بندوبست کے درمیان سنادیا، یہ مقدمہ جس پر ملک کے ایک ارب ۲۵ کروڑافراد کی نگاہیں مرکوز تھیں ملک کا سب سے تاریخی مقدمہ ، سب سے دوررس نتائج کا حامل اورنہ صرف موجودہ بلکہ آئندہ کئی نسلوں کو متاثرکرنے والا قضیہ ثابت ہوسکتا ہے،آئندہ کئی مہینوں بلکہ برسوں تک اس پرتبصرے ہوں گے، اس فیصلہ کے ہرپہلو کا تجزیہ کیاجائے گا، ٹی وی ٹاک شو منعقد کرکے ماہرین قانون اورارباب سیاست کی رائیں لی جائیں گی، اوراس فیصلہ سے متاثرہ فریق آئندہ کا لائحہ عمل اورحکمت عملی طے کرے گا، غرض کہ وہ سب کچھ ہوگا جواس فیصلہ کے مضمرات سے متعلق ہوگا۔
سماعتوں کی روداد ۱۴؍ہزارصفحات میں بند ہے توفیصلہ کی تفصیلات بھی ہزاروں صفحات پرمشتمل ہے، ۳۰؍ستمبر کو پورا ملک گوش برآواز تھا،بازاروں میں موت کا سکوت طاری تھا، دونوں فریقوں کے جذبات میں ہلچل تھی توفیصلہ کے تئیں امید وبیم کی کیفیات حاوی تھیں، تین فاضل ججوں کی بنچ نے فیصلہ میڈیا کے حوالہ کیا، اورپھران کے واسطہ سے پورے ملک تک آنافانا پہونچ گیا، مسلمانوں کواس فیصلہ سے بے حد مایوسی ہوئی اور وہ قلق واضطراب اورحزن وملال کے شکار ہوئے تودوسرا فریق خلاف توقع ملنے والی خوشی سے سرشاراور احساس فتح وکامرانی سے ہمکنار ہوا، یہ فیصلہ قوم مسلم کی امیدوں کے خلاف اوران کے مذہبی جذبات پرایک کاری وارتھا اوران کے قلب وجگر پرایسا زخم لگایاگیا جو شاید برسوں مندمل نہ ہو۔
مسلمانان ہند کو اس ملک میں طرح طرح کے مسائل ومشکلات کاسامنا کرناپڑتا ہے،فرقہ وارانہ منافرت وتشددکاشکار ہونا پڑتا ہے، حکومتوں کی جانبداری اور دوہرے معیار کا تماشا دیکھنا پڑتا ہے، دہشت گردی وانتہا پسندی کا بے سروپا الزام سہنا پڑتاہے، قدم قدم پر حب الوطنی کا سارٹیفکٹ پیش کرنا پڑتا ہے، پھربھی غداروطن کہلائے جانے کا حقدار چاروناچار بننا پڑتا ہے، اوروقتاً فوقتاً یہاں کی سرزمین کو ان بے گناہ مسلم نوجوانوں کی گرفتاریوں کا گواہ بننا پڑتا ہے، جن کے خلاف ’’تہمتوں کے تراشے جانے کاعمل‘‘ اور ’’ان کے سروں پرآرے چلائے جانے‘‘کا فعل روز کامعمول ہے لیکن مسلمانوں کو ان سب زیادتیوں کو نظرانداز کرکے صبر کاتلخ گھونٹ بھی پیناپڑتا ہے۔

ملک کی ریاستی ومرکزی حکومتیں، اضلاع کی انتظامیہ وپولیس ،ملک وریاستوں کی سیکورٹی فورسز، ہردوجگہوں کی تفتیشی ایجنسیاں، اکثریتی طبقہ کی نمائندگی کرنے والا ذرائع ابلاغ، الیکٹرانک وہندی انگریزی پرنٹ میڈیا، ملک کی فضاؤں کواپنے زہرآلود بیانات سے مسموم کردینے والے لیڈران، فرقہ پرست پارٹیاں اورفسطائی طاقتیں، اشتعال انگیزحرکتیں کرنے والے اوراشتعال انگیز عزائم رکھنے والے مٹھی بھروہ لوگ جنھیں اکثریتی طبقہ کی نمائندگی کاجھوٹا دعوی ہے اورملک میں انتہا پسندانہ اوردہشت گردانہ کا روائیاں انجام دے کر یہاں کی فرقہ وارانہ یکجہتی کے ماحول کو سبوتاژکرنے والی بعض تنظیمیں وافراد اورتمام ثبوت وشواہد کو نظرانداز کرکے آنکھ بند کرکے مسلمانوں کو اس کے لئے ذمہ دار ٹھہرانے والی سرکاری وغیرسرکاری ایجنسیاں، مسلمانوں کی بدقسمتی پرمہرثبت کرنے والے مذکورہ بالا کردار اوریہاں کی بساط سیاست پرکھیلی جانے والے شطرنج کے یہ مہرے ایسے تھے جن سے مسلمانوں نے کبھی بھی خیرکی امید نہیں کی اوراپنے دگرگوں حالات میں تبدیلی کے لئے کبھی آس نہیں لگائی، لیکن مذکورہ بالا ساری زیادتیوں وناانصافیوں کے بعدمسلمانوں کی آخری امیدیہاں کی عدلیہ سے وابستہ تھی اورعدلیہ پر جانب داری اورحق تلفی کا انھوں نے کبھی الزام نہیں عائد کیا، کتنے ہی معاملات کا تصفیہ ان کی توقعات کے مطابق ہوا اورکتنے مقدمات کا فیصلہ ان کے حق میں ہوا، کتنے ہی بے قصورنوجوانوں کی بے گناہی ثابت ہوئی اورکتنوں کوانہی عدالتوں نے باعزت بری کیا اورکتنے جھوٹے مقدمات کو اپنے سخت ریمارکس کے ساتھ خارج کیا، کتنی آراضی کافیصلہ ان کے حق میں ہوا اورفریق مخالف کا دعوی مسترد ہوا، مسلمانوں کے قاتلوں ،ان کے خلاف فسادبرپا کرنے والوں، ان کے خون کی ہولی کھیلنے والوں ،ان کی املاک کوتباہ وبرباد کرنے والوں اورفرضی انکاؤنٹروں میں انھیں ہلاک کرنے والوں کوسلاخوں کے پیچھے پہونچایا گیا اور کتنی ہی اونچی شخصیتوں اوراونچی کرسیوں کے مالکوں کوکٹہروں میں کھڑا کیاگیا، غرض کہ نچلی واونچی عدالتوں نے بارہا اپنا فرض غیر جانبدارانہ طریقہ سے اداکیا اورملک کی جمہوریت کی لاج رکھی اور جمہوری قدروں اورآئین ودستور کو پامال ہونے سے بچایا، اورآج اگراس ملک میں جمہوریت زندہ ہے توجیوڈیشری کی اسی آزادی کی بدولت۔
عدلیہ کے اس منصفانہ کردار کا اعتراف کرلینے کے بعد ہم اپنے کو اس کا اہل نہیں پاتے کہ بابری مسجد رام جنم بھومی ملکیت مقدمہ میں الہ آباد ہائی کورٹ کے لکھنؤ بنچ کی جانب سے آئے ہوئے اس فیصلہ پر حرف گیری یانکتہ چینی یہ کہہ کر کریں کہ اس فیصلہ سے دانستہ طورپر انصاف کا خون ہواہے، لیکن حالات کا منصفانہ وغیر جانبدارانہ تجزیہ ہمیں اس نتیجہ پر پہونچنے میں ضرورمدد دے سکتا ہے کہ اس معاملہ میں انصاف کے تقاضے پورے نہیں ہوئے، اورملک وبیرون ملک کے مسلمانوں کو اس سے بڑی مایوسی ہوئی ہے ، مناسب معلوم ہوتا ہے کہ اس فیصلہ سے متعلق دوپہلوؤں کا ذکر اختصار کے ساتھ کردیاجائے تاکہ ماہنامہ ’’السراج‘‘ کے ان صفحات میں محفوظ ہوکرآئندہ کبھی بوقت ضرورت بطور سند کام آسکے۔
ایک تو معززعدالت نے یہ فیصلہ’’آستھا‘‘ اورعقیدت کو بنیاد بناکر کیاہے یااکثریتی طبقہ کی ’’آستھا‘‘ اوران کے جذبات کا اس فیصلہ میں احترام کیاہے، جوتمام دنیا کے عدالتی نظام اورآئینی تقاضوں کے خلاف ہے، عدالتوں کا کام ثبوت و شواہد اورگواہوں وبیانات کی بنیاد پرفیصلہ کرناہے نہ کہ خود اپنے دل یا کسی فریق کے دل کی گواہی کی روشنی میں ،معزز جیوری کا دل کیا کہتا ہے یا اکثریت کے جذبات کا احترام ان سے کس فیصلہ کا مطالبہ کرتا ہے؟ اس کو قطعاً نہ زیربحث لایاجانا چاہئے اورنہ فیصلوں پرجذبات کو اثرانداز ہونے دینا چاہئے، اس سے عدالت کی غیرجانبداری بھی مجروح ہوگی اورآئین کا احترام بھی مشکوک ہوگا، عقیدت واحترام یاذاتی رائے وخیال کا عدالتی فیصلوں میں کس حد تک دخل ہونا چاہئے اس سے متعلق اسلامی تاریخ سے صرف ایک مثال پیش ہے جو اسلامی قانون انصاف کو بخوبی واضح کرتا ہے اورجسے دنیا کے نظام عدالت کے لئے مشعل راہ بنایا جانا چاہئے۔
واقعہ نہایت معروف ہے لیکن اس موقع پراس کا پیش کیاجانا معقول ہے، چوتھے خلیفۂ راشد، داماد رسول اللہﷺ ،یکے ازعشرۂ مبشرہ ،سابقین اولین میں بھی اسبق ترین ،جن کی شجاعت اورصداقت ضرب المثل اورجن کی شرافت وامانت کا دوست دشمن سب کو اعتراف ،یہ ذات گرامی تھی حضرت علی رضی اللہ عنہ کی، انھیں کا زمانۂ خلافت تھا،خودان کی زرہ گم ہوجاتی ہے، تلاش بسیار کے بعدایک یہودی کے پاس سے برآمد ہوتی ہے، یہ طلب کرتے ہیں ،وہ انکارکرتا ہے ،حکومت وسلطنت کے یہ مالک ہیں ،طاقت واختیارات کا سارا وزن ان کے پلڑے میں ہے، اس یہودی سے اپنی زرہ زبردستی چھین لینے میں کوئی چیز مانع نہیں ہے، لیکن ایک ادنیٰ شخص کی طرح قانون کے سبھی تقاضے یہ پورے کرتے ہیں، اپنی زرہ کی ملکیت کا دعویٰ قاضی شریح رحمہ اللہ کی عدالت میں دائر کرتے ہیں، قاضی صاحب اپنی ’’آستھا‘‘ اور اس عقیدت واحترام کی بنیاد پرکوئی فیصلہ نہیں کرتے ہیں جو ان کو خلیفۂ رابع کی ذات سے تھی اورنہ ہی خلیفۂ وقت کی حکومت اوروسیع اختیارات کے مالک ہونے کی فکر اورپرواہ کرتے ہیں، اسلامی قانون انصاف کی ایک شق ہے: ’’البیّنۃ علیٰ من ادَّعی والیمین علی من انکر‘‘یعنی ثبوت مدعی کے ذمہ ہے اورمدعاعلیہ کے اوپرصرف قسم ہے، قاضی صاحب نے اس زریں اصول عدل وانصاف کے تحت حضرت علی رضی اللہ عنہ سے ثبوت وگواہ طلب کیا، حضرت علی رضی اللہ عنہ نے ایک گواہ نواسۂ رسول اوراپنے لخت جگرحضرت حسن رضی اللہ عنہ کو پیش کیا اوردوسرا اپنے غلام قنبررضی اللہ عنہ کو ،قاضی صاحب نے دونوں کی گواہی مسترد کردی یہ کہہ کرکہ میرے نزدیک باپ کے حق میں بیٹے کی گواہی اورآقا کے حق میں غلام کی شہادت قابل قبول نہیں اوراسی کے ساتھ حضرت علی رضی اللہ عنہ کا مقدمہ خارج کردیا، یہ تھا اسلام کاقانونِ انصاف جس میں قاضی شریح نے انصاف کے تمام تقاضے پورے کئے اوراپنے دلی جذبات اورذاتی رائے کوانصاف کے آڑے نہیں آنے دیا ،ورنہ وہ بخوبی جانتے تھے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ جیسی مہتم بالشان شخصیت جواتنی بڑی حکومت وسلطنت کے مالک، عدالت وصداقت کا پیکر اورامانت ودیانت کا جیتا جاگتا نمونہ تھے، ایک حقیرسی زرہ کے لئے جھوٹ نہیں بول سکتے تھے، لیکن پھربھی انھوں نے ثبوت وشواہد کی بنیادپر ان کے خلاف فیصلہ صادرکرنے میں ذرابھی تذبذب وہچکچاہٹ کا مظاہرہ نہیں کیا ،گرچہ ثبوت بھی اپنی جگہ مکمل ودرست تھے لیکن اسلام کا نظام عدل کچھ اورکہتا تھا، فیصلہ ضرورحضرت علی رضی اللہ عنہ کے خلاف ہوا لیکن دنیا میں اسلامی نظام عدل کا بول بالا ہوگیا اوراس جرأت مندانہ فیصلہ کو دیکھ کر یہودی اسیراسلام ہوکرمشرف بہ اسلام ہوگیا، اب بھی اسلام کا نظام عدل عالم انسانیت کے لئے مشعل راہ ہے اورابھی بھی دنیا کواسلام کے عالمگیر مساوات اورعادلانہ نظام حیات سے بہت کچھ سیکھنے کی ضرورت ہے۔
تاریخ اسلام کے روشن صفحات میں ثبت اس منصفانہ فیصلہ کے ذکرسے یہاں محض اسلام کے نظام عدل کا بیان اوراسلام کی برتری کا بکھان مقصودنہیں ہے ،بلکہ دوباتیں بتانا چاہتاہوں اوّل توعدالتوں کے فیصلے اگرآستھا اورعقیدت کی بنیادپر ہونے لگیں تودنیا کا سارا عدالتی نظام چرمراجائے گا اورہندوستان کے ایک ہائی کورٹ کے ذریعہ دئے گئے اس تاریخی فیصلہ کو اگرمن وعن باقی رکھاجائے گا تواقلیتوں کا عدالتوں پرسے بھی بھروسہ اٹھ جائے گا اوردنیا کے لئے ایک ایسی غلط نظیرقائم ہوگی جوثبوت وشواہد کے سارے عمل کو دفتربے معنی بناکر چھوڑے گی اورہندوستانی عدلیہ کی ایک ایسی تصویر سامنے آئے گی جواسے مضحکہ خیز بنادے گی۔
آستھا کی بنیاد پرکیا گیا یہ فصیلہ ایسانہیں ہے جسے صرف مسلمانوں نے ہدف تنقید بنایا ہو بلکہ جہاں تک میں نے سمجھا ہے مسلمانوں سے زیادہ سیکولرمزاج اورانصاف پسند ہندوؤں نے ہی اس کے خلاف صدائے احتجاج بلند کیا ہے، اورمیرے علم واطلاع کے مطابق سب سے پہلے سماج وادی پارٹی کے صدرملائم سنگھ یادو نے اس پر اپنا احتجاجی بیان درج کرایا اوریہ انھیں کو زیب بھی دیتا تھا کہ مسلمانوں میں ان کی شہرت ومقبولیت اسی بابری مسجد کی حفاظت کی وجہ سے ہوئی اوران کی طرف سے عتاب کا نشانہ بھی وہ اسی مسئلہ پر بنے جب بابری مسجد کے قاتل کلیان سنگھ کو گلے لگایا ،لیکن موجودہ حقیقت پسندانہ بیان دے کر انھوں نے اس غفلت وکوتاہی اوراس جرم عظیم کی تلافی کردی جوانھوں نے بابری مسجد کے قاتلوں سے تعلقات استوار کرکے کی تھی، مسلمانوں میں ان کے اس بیان کی عمومی پذیرائی بھی ہوئی اوراستقبال بھی ،یہ بتانے کی مطلق ضرورت نہیں کہ یہ قضیہ ۶۰سال سے زائد عرصہ سے عدالتوں میں زیرسماعت تھا اور’’متنازعہ عمارت‘‘ جسے سوچے سمجھے منصوبہ کے تحت ’’ووادت ڈھانچہ‘‘ مشہور کیاگیا ہمیشہ سے متنازعہ نہیں تھی اورصرف ہندوستان ہی نہیں بیرونی دنیا میں بھی اسے ’’بابری مسجد‘‘کے نام سے جاناجاتا تھا، اس کے لئے کسی گواہ اورثبوت کی ضرورت نہیں تھی، اوریہ بحث بھی بالکل فضول وبے معنیٰ تھی کہ اسے مغل حکومت کے بانی ’’ظہیر الدین بابر‘‘نے بنایا یا اس کے حکم پر اس کے سپہ سالار یاوزیر’’ میر باقی‘‘نے، اوراسے ۱۵۲۵ء ؁ میں تعمیر کیا گیا یا ۱۵۲۸ء ؁ میں، معمار کانام اورسن تعمیر میں اختلاف سے نفس مسئلہ پر کوئی اثر نہیں پڑتا جب کہ معزز عدالتوں نے اپنے قیمتی وقت کا ایک بڑا حصہ اس ’’عقدہ‘‘ کوسلجھانے میں صرف کیا ،جہاں تک میں سمجھتا ہوں کہ عدالتِ عالیہ نے اپنے فیصلۂ حالیہ میں اس نکتہ پر بلاضرورت کافی زوردیا کہ سنی وقف بورڈ یہ ثابت کرنے میں ناکام رہا کہ اس مسجدکو بابر نے ۱۵۲۸ء ؁ میں تعمیرکیا تھا، تعمیرکسی نے بھی کی ہو اور کسی بھی سن میں کی ہو لیکن اس مسئلہ میں کوئی اختلاف کبھی نہیں رہا کہ وہ مسجد تھی اورمسلمان اس میں ۱۹۴۹ء ؁ کی ۲۲؍دسمبر تک باقاعدہ وباضابطہ اور باجماعت نمازپڑھتے رہے ہیں، یعنی اس وقت تک جب تک رات کی تاریکی اور خاموشی میں اس میں بت رکھ کر’’ رام للا‘‘ کے ’’پرکٹ‘‘ ہونے کا ڈرامہ نہیں رچایا گیا تھا، اس کا اعتراف ہندوؤں کوبھی ہے اورسرکاری کاغذات بھی اس کی گواہی دیتے ہیں، عدالتی تفصیلات سے قطع نظریکم جولائی ۱۹۵۱ء ؁ کو ڈپٹی کمشنرفیض آباد نے جوجواب دعوی داخل کیاتھا اس میں اس نے صاف لکھا تھاکہ’’یہ جائداد نزاعی’ بابری مسجد‘کے نام سے مشہور ہے اور۱۵۲۸ء ؁ سے ۱۹۴۹ء ؁ تک اس مسجد میں مسلمان پنج وقتہ نمازپڑھتے آئے ہیں، اس کا استعمال ’’رام چندرجی‘‘ کے مندر کی حیثیت سے کبھی نہیں ہوا،جب کہ ۲۲؍دسمبر ۱۹۴۹ء ؁ میں ’’رام چندرجی ‘‘کی مورتی چوری اورغلط ڈھنگ سے مسجد میں رکھی گئی ہے جوکہ ایک غلط اورغیرقانونی واقعہ ہے جس سے مسلمانوں میں بے چینی پیدا ہوگئی ہے اورنقض امن کاخطرہ ہے‘‘ ایس.پی. فیض آباد’’ کرپال سنگھ‘‘ نے بھی دفعہ 145کے جواب میں اپنی تحقیقاتی رپورٹ میں لکھا’’یہ زمانۂ قدیم سے’ بابری مسجد‘ہے اوریہاں مسلمان ہمیشہ نماز پڑھتے آئے ہیں، ہندوؤں کا اس سے کوئی واسطہ یاسروکارنہیں‘‘۔
میں نے یہاں بطورمثال صرف دوہندوآفیسران کے بیانات درج کئے ہیں ورنہ مسلمانوں کے دعوی کے حق میں ثبوت وشواہد کی کمی نہیں ہے، عدالتی کا روائی کے ۱۵؍ہزار صفحات میں ان کی تفصیلات مل جائے گی اوریہاں ہمیں ان تفصیلات سے اس وقت غرض بھی نہیں، بلکہ اس کے برعکس میں جوبات یہاں کہنا چاہتا ہوں اس کا لب لباب یہ ہے کہ یہ ثابت کرنا مسلمانوں یا سنی وقف بورڈ کاکام اصولی طورپرہے کہاں کہ وہ زمین جہاں بابری مسجد قائم تھی ان کی ملکیت ہے ؟اگر’’متنازعہ عمارت‘‘ بابری مسجد نہیں تھی تو اسے ہندو جنونیوں نے منہدم کیوں کیا؟ پوری دنیا اس عمارت کو بابری مسجدہی کے نام سے جانتی تھی اور وہ مکمل طورپر مسلمانوں کے قبضہ میں اورانھیں کے زیراستعمال تھی ،تواگراچانک ہندوؤں نے اس پراپنا دعوی پیش کردیا تو عدالتی اصولوں کے مطابق اس کا ثبوت بھی توانھیں کے ذمہ ہے، یہ توپوری دنیا کا قانون کہتا ہے اورہندوستان تواس معاملہ میں ایک قدم اورآگے ہے کہ کسی کے ذاتی مکان ودوکان پراگرکوئی کرایہ دار چندسال تک قبضہ جماکر بیٹھ جائے تومالک مکان کو اسے خالی کرانے اوراپنا ثابت کرنے میں ناکوں چنے چبانے پڑجاتے ہیں ،جب کہ بابری مسجد پر ۴۲۱ ؍سال تک مسلمانوں کا قبضہ رہا جنھیں بیک جنبش قلم بے دخل کردیا گیا اورپھر انھیں سے یہ مطالبہ کیاجانا کہ اسے ثابت کریں کہ وہ زمین ان کی تھی، کہاں کا انصاف ہے ؟بابری مسجد کی زمین مسلمانوں کی تھی یاہندوؤں کے دعوؤں کے مطابق رام جنم بھومی تھی یہ مسئلہ ایک تفصیلی مضمون کا طالب ہے اوران صفحات میں یہاں اب اتنی گنجائش نہیں ہے اس لئے ان شاء اللہ اگلے شمارہ میں کسی مستقل مضمون میں اس پر اظہار خیال کیاجائے گا، فی الحال یہ موضوع یہیں چھوڑتے ہوئے اسی سے متعلق دوسرے پہلوپر چند امور کی طرف آتے ہیں۔
استخلاص وطن کے لئے عدیم المثال قربانیاں دینے، ملک کے لئے اپناسب کچھ لٹادینے، سرحدوں کی حفاظت کے لئے سردھڑکی بازی لگادینے اورملک کی تعمیروترقی کے لئے بیش بہا خدمات انجام دینے کے باوجود مسلمان ہمیشہ شک وشبہ کی نظرسے دیکھاجاتا رہا اوراس کی حب الوطنی پرسوالیہ نشان لگایاجاتا رہا ،خاص طورسے حالیہ برسوں میں بے دریغ اس کا رشتہ دہشت گردی اورتشددپسندی اورجارحانہ رجحانات سے جوڑا جاتا رہا ،لیکن حقیقت کیا ہے اس کوجاننے کے لئے حقیقت کو سننے کا حوصلہ بھی چاہئے۔
بابری مسجد ملکیت مقدمہ کا فیصلہ آنے کے بعد اوراس فیصلہ کی روسے سنی وقف بورڈ کا دعوۘ? ملکیت خارج کئے جانے کے بعدپورے ملک کا مسلمان غم واندوہ کے اتھاہ سمندرمیں ڈوب گیا، اس پر رنج والم کے پہاڑ ٹوٹ پڑے ،اس پرحزن وملال کے بادل چھاگئے، اس کے آرزوؤں کا کمل مرجھاگیا، اس کی تمناؤں کا گلاگھونٹ دیاگیا اوروہ خوداپنی شکست کی آوازبن گیا ،لیکن یہ سب کچھ صرف اس کے دلی جذبات کی عکاسی تھی، اس نے کھل کر اپنے غموں کا اظہار بھی نہیں کیا اورذہنی صدمات سے نڈھال ہونے کے باوجود اس فیصلہ پرعلانیہ تبصرہ سے بھی گریز کیا کہ کہیں اس پرتوہین عدالت یاملک کے آئین سے بغاوت کا الزام نہ لگ جائے، مسلمان نہ توجذباتی ہوا،نہ سڑکوں پرنکلا، نہ احتجاجی نعرے لگائے اورنہ کسی توڑپھوڑ کا حصہ بنا،نہ تشددپرآمادہ ہوا،نہ احتجاج کی کوئی بے ضررسی بھی صورت اپنائی ،غرض کہ پوری طرح ملک کا امن پسند شہری ہونے کا ثبوت دیا، اور اپنے ملی قائدین اورمذہبی رہنماؤں کی اپیلوں کاہرطرح احترام کیا، پھربھی ان پر بدامنی پھیلانے اوردہشت گردی میں ملوث ہونے کے الزامات لگتے رہے ہیں، اس کے دل نے آستھا کی بنیادپر کیا گیا یہ فیصلہ توقبول نہیں کیا لیکن اس کی زبان پر تالے پڑے رہے ، وہ حسرت ویاس کی تصویر توبنا لیکن حیران وششدراورمہربہ لب بنارہا، اس کے دماغ میں ہلچل لیکن ہونٹوں پرقفل ،اوراس نے اپنے ایک ایک عمل سے ثابت کردیاکہ وہ عدلیہ کا احترام اورملک کے آئین ودستور کا اکرام کرنا جانتا ہے، ورنہ آستھا اور عقیدت واحترام صرف ہندوؤں کی میراث نہیں، مسجد کے تئیں اس کے جذبات اوراس کے احساسات بھی کسی سے کم نہیں تھے جس کا لحاظ نہیں رکھا گیا، ملک کے مسلمانوں کی تصویر مسخ کرکے انھیں امن وامان کا دشمن قرار دینے کی سازشیں اورسرکاری وغیرسرکاری سطح پر کوششیں ہوتی رہی ہیں لیکن اس حساس ونازک موقع پر انھوں نے صبروتحمل کا مظاہرہ کرکے یہ تصویر پھاڑ کر پھینک دی اور اس تصورکو پیروں کے نیچے پامال کردیا جوان کے بارے میں غلط طورسے قائم کرلیا گیا، انھوں نے ہمیشہ پہلے بھی کہا تھاکہ وہ عدالت کے ہرفیصلہ کا احترام کریں گے اوربعدمیں علانیہ احتجاج نہ کرکے انھوں نے دنیا کو دکھادیا کہ ان کے دل میں عدلیہ کاکیا مقام ہے ، اپنی اس امن پسندی کے لئے وہ اجتماعی طورپر امن کے نوبل پرائز کے حقدار ہیں ،لیکن خیریہ توبہت بڑاعالمی تمغۂ امن ہے، خود ملک نے سرکاری یاغیرسرکاری سطح پر ان کی اس امن پسندی کی کوئی ستائش نہیں کی اوران کی اس خوبی کا کسی طورپراعتراف نہیں کیا، حالانکہ ملک نے شہروں وقصبات، گاؤں ودیہات، چھوٹے بڑے مواضعات اورملک کے حساس مقامات کے لئے غیرمعمولی سیکورٹی اقدامات اورحفاظتی انتظامات کئے تھے اوران پر خطیررقم کے مصارف بھی یقیناًہوئے ہوں گے پورا ملک خدشات اوراندیشہ ہائے فسادات کا شکار بھی اس عرصہ میں رہا ،جس کا ثبوت اسکولوں کالجوں میں چھٹیوں کے اعلانات اورلوگوں کا اسفار میں احتیاط وریزوریشن ٹکٹوں کی بڑے پیمانہ پر واپسی میں دیکھا جاسکتا ہے، اس عرصہ میں پوراملک دہشت زدہ اور غیر یقینی کیفیات کا شکار رہا اورکاروباری حلقوں میں بے چینی واضطراب کا اثرصاف محسوس ہوتا تھا، لیکن داد دینا ہوگا مسلمانوں کی امن پسندی کو اورسارٹیفکٹ دینا چاہئے انھیں محب وطن اور پرامن شہری ہونے کا کہ انھوں نے سارے خدشات کو بے معنی ثابت کردیا اورپورے ملک میں کسی ایک خطہ یامقام پر فساد اور اشتعال انگیزی کا ایک بھی واقعہ رونما نہیں ہوا،اس موقع پرکہاجاسکتا ہے کہ اگرملک میں فرقہ وارانہ فسادات نہیں ہوئے تواس کا کریڈٹ یک طرفہ طورپر صرف مسلمانوں کو کیوں ملے؟ توعرض ہے کہ یہاں پران دونوں کے دوبنیادی فرق کو نظرانداز نہیں کیاجاسکتا، اولا تو فساد یا انتشار یامسلح وپرتشدد احتجاج کا اندیشہ مسلمانوں کی طرف سے ہی ہونا چاہئے تھا کہ فیصلہ ان کے خلاف اورغیرمنصفانہ ڈھنگ سے آیا تھا اوردوسرے فریق کو اپنی توقعات سے بڑھ کر مل گیا تو اسے خاموشی میں ہی عافیت نظرآئی، دوسرے ہندوؤں کے ایک طبقہ نے عدالتی فیصلہ کوماننے سے انکارکیاتھا بلکہ اس جذباتی ایشومیں عدالت کے فیصلہ دینے کے حق کوبھی مستردکردیاتھا، لیکن جب فیصلہ ان کے حق میں آیا تو وہ کون سا احتجاج کرنے کا حق رکھتے تھے، اب کیاحکومت یاپروپیگنڈہ کی دنیا مسلمانوں کی امن پسندی کو خراج تحسین پیش کرے گی اوراس کی خوبیوں کا اعتراف کرے گی ؟آثار وامکانات تونہیں،اسی عدالتی فیصلہ کے بعد بعض اخبارات نے سرخی جمائی’’نہ کسی کی ہارنہ کسی کی جیت‘‘ میں اس میں صرف اتنا اضافہ کرناچاہتا ہوں کہ ہاروجیت کا تجزیہ توپھرکیا جاسکتا ہے لیکن فوری طورپرعام آدمی کے جواحساسات ہیں وہ یہ ہیں کہ عدالتی روایات سے ہٹ کرجویہ فیصلہ کیاگیا اس میں شکست صرف آئین ودستور اورقانونِ انصاف کی ہوئی ہے اوریہی میرے اس اداریہ کا عنوان ہے۔ ***

مولاناابوالبرکات رحمانی کا سانحۂ ارتحال

زیرنظرشمارہ مرتب ہوکر پریس میں جانے کے لئے تیار تھاکہ خانوادۂ میاں محمدزکریا رحمہ اللہ کے گل سرسبد ،عظیم مصلح، بے لوث داعی اور معلم ‘عم گرامی مولاناابوالبرکات رحمانی رحمہ اللہ علم و عمل سے بھر پور ایک طویل اور قابل رشک زندگی گذار کرکم وبیش ۹۰؍برس کی عمرمیں مختصرعلالت کے بعد۶؍اور ۷؍ اکتوبرکی درمیانی شب میں تقریبا سوا گیارہ بجے انتقا ل فرماگئے، اناللہ واناالیہ راجعون۔
عم محترم مولانا ابوالبرکات رحمانی رحمہ اللہ جھنڈانگر کے ایک معروف علمی و دعوتی خانوادہ کے چشم و چراغ اوریہاں کے ولی صفت بزرگ اورمصلح و مربی میاں محمد زکریا رحمہ اللہ کے سب سے بڑے فرزند تھے، شرافت، تقوی، خلوص، للہیت، خود داری،خلق حسن،مہمان نوازی اورذوق عبادت و ریاضت والد بزرگوار سے وراثت میں پائی تھی، پوری زندگی تعلیم و تربیت اور دعوت و اصلاح میں گذار دی، جامعہ سراج العلوم جھنڈانگر میں طویل المدت خدمت کا ریکارڈ قائم کیا اور پورے تسلسل کے ساتھ کم و بیش ۵۲؍ برسوں تک اس سے وابستہ رہ کر تدریس کے ساتھ انتظام و انصرام کی ذمہ داری بھی نبھائی، بڑھاپے کی منزل میں قدم رکھنے کے بعد تقریبا دس برسوں تک مدرسہ خدیجۃ الکبری جھنڈانگر میں بھی بچیوں کو تعلیم و تربیت سے آراستہ کرتے رہے۔ یقیناًآپ کے انتقال سے جھنڈانگر اور مضافات سے ایک طرح برکت اٹھ گئی اور یہاں کے مسلمان ایک ولی صفت بزرگ سے محرو م ہوگئے، اللہم اغفر لہ و ارحمہ و عافہ و اعف عنہ ۔
وفات کی خبر بجلی کی طرح علاقہ میں پھیل گئی اور بڑی تعداد میں آپ کے شاگردوں اور عقیدت مندوں نے نمازجنازہ اور تدفین میں شرکت کی سعادت حاصل کی، ۷؍اکتوبر کو بعد نماز ظہر آپ کی نماز جنازہ آپ کے بھتیجے اور مرکز التوحید کے صدر جناب مولانا عبد اللہ مدنیؔ کی امامت میں جامعہ کی جامع مسجد میں ادا کی گئی جسے آپ نے کم و بیش ۸۰؍ برسوں تک اپنے سجدوں سے آباد رکھا تھا، جنازہ میں ایک ہزار سے زائد فرزندان توحید نے شرکت کی، اس کے بعد مدرسہ خدیجۃ الکبریٰ کی مسجد میں دوبارہ آپ کی نمازجنازہ پڑھی گئی اور آپ کے بھائی جناب مولانا عبد الوہاب ریاضی ؔ صاحب کی امامت میں سیکڑوں طالبات و معلمات سمیت عامۃالمسلمین نے شرکت کی ۔اللہ تعالیٰ آپ کی بال بال مغفرت فرمائے ،آپ کی خدمات کو رفع درجات کا ذریعہ بنائے اور پسماندگان کو صبر جمیل کی توفیق بخشے۔ آمین۔
نوٹ: مولانا رحمانی کی حیات و خدمات پر تفصیلی مضمون آئندہ شمارہ میں ملاحظہ فرمائیں، ان شاء اللہ۔

غم زدہ: عبد المنان سلفی