Sunday, June 20, 2010

Monthly Al-seraj Apr-Jul 2010, Dr. Muqtada Hasan Azhari Speacial Issue


ڈاکٹرمقتدیٰ حسن ازہری کی خدمات کو خراج تحسین apr-jul 2010

عبدالمنان سلفیؔ
ڈاکٹرمقتدیٰ حسن ازہری
کی خدمات کو خراج تحسین
۲۰۰۹ء ؁ میں ملت وجماعت کو جن گراں قدراور عظیم علمی و دعوتی شخصیتوں کی وفات کا غم سہناپڑا ان میں مفکرجماعت استاذمحترم جناب ڈاکٹرمقتدیٰ حسن ازہری رحمہ اللہ جیسی عبقری شخصیت کاسانحۂ وفات سب سے غم انگیز،دل فگاراور افسوس ناک رہا کہ آپ کے اٹھ جانے سے علم و ادب کی مجلسیں سونی ہوگئیں، دعوتی، تدریسی، تصنیفی اور صحافتی میدانوں میں زبردست خلا پیدا ہوگیا اورملت کو ناقابل تلافی خسارہ سے دوچار ہونا پڑا، اللہ تعالیٰ آپ کو غریق رحمت فرمائے اور آپ کی جملہ خدمات کو شرف قبول عطا فرماتے ہوئے آپ کے درجات بلند کرے، آمین۔
ڈاکٹرمقتدیٰ حسن ازہری کی شخصیت بڑی ہمہ گیر اور ان کی خدمات بڑی متنوع اورہمہ جہت تھیں، علمی اورادبی دنیا میں ان کا نام بڑا معتبر اور محترم ماناجاتا تھا اوراہل علم کے دلوں میں ان کی بڑی قدرومنزلت تھی، تدریس وتربیت سے لے کر تصنیف وتالیف، ترجمہ وتحقیق ،صحافت وانشاء پردازی اورانتظام وانصرام تک موصوف نے جس میدان میں بھی قدم رکھا اپنی صلاحیت وقابلیت کالوہا تومنوایا ہی ، ہرمیدان میں اپنی ایک الگ پہچان بنائی اورچالیس بیالیس سال کی عملی زندگی میں ان میدانوں میں ایسے نمایاں کارنامے انجام دئے جن کی مثال عصرحاضر کے علماء میں نایاب نہ سہی تو کمیاب ضرورہے، موصوف بیک وقت کہنہ مشق مدرس، مشفق مربی، منجھے ہوئے صحافی وقلم کار، اور تحقیقی وادبی ذوق سے سرشار اعلیٰ پایہ کے مصنف ومترجم تھے، یہ تمام خوبیاں ایک ساتھ کسی ایک شخص کے اندرمشکل سے جمع ہوتی ہیں، اورسچی بات تویہ ہے کہ انھیں اوصاف و اعمال نے آپ کو عبقری اور نابغۂ روزگار بنادیا۔
جامعہ سراج العلوم السلفیہ،جھنڈانگر(نیپال) کا تعلق شہربنارس، اہالیان بنارس،جامعہ سلفیہ، ذمہ داران جامعہ اور اساتذۂ جامعہ خصوصاً ڈاکٹرمقتدیٰ حسن ازہری رحمہ اللہ سے بڑا قدیم اورگہرا رہاہے، جامعہ سراج العلوم کے سابق ناظم خطیب الاسلام علامہ عبدالرؤف رحمانی جھنڈانگری رحمہ اللہ نے جامعہ رحمانیہ بنارس میں اپنے زمانۂ طالب علمی کے چند برس گذارکر مولانا محمد منیرخاں بنارسی اور قاری احمد سعید بنارسی رحمہما اللہ جیسے یگانۂ روزگار علماء و فضلاء سے کسب فیض کیاہے اور دارالحدیث رحمانیہ دہلی سے فراغت کے بعدکئی سال تک اپنے مادر علمی جامعہ رحمانیہ میں تدریسی خدمت انجام دیتے ہوئے ملا حسن،شرح تہذیب اور دیوان متنبی جیسی اہم اور فنی کتابوں کا درس دیا ہے، اس کا تذکرہ علامہ جھنڈانگری نے اپنے ایک خود نوشت میں کیا ہے اور اپنے نامور تلامذہ میں مولانا محمد یحیٰ ،مولانا محمد الیاس ،مولانا محمد موسی،مولانا عبید الرحمن اور مولانا عبد العظیم کے اسماء بہ طور خاص ذکرفرمائے ہیں،(ماہنامہ السراج ،خطیب الاسلام نمبر ص ۴۱۱)
اسی طرح یہ تاریخی حقیقت بھی ہے کہ علامہ جھنڈانگری رحمہ اللہ جامعہ سلفیہ کے محرک اول اور اس کے مؤسسین میں سے تھے،اس اجمال کی تفصیل یہ ہے کہ آپ ہی نے نوگڈھ کانفرنس منعقدہ ۱۹۶۱ء میں اپنے خطبۂ استقبالیہ کے اندر اس کی پرزور تحریک فرمائی تھی اور جماعت کو ایک مرکزی تعلیمی ادارہ کے قیام کی ضرورت کا احساس دلایا تھا، چنانچہ آپ نے اپنے تحریری استقبالیہ خطبہ میں لکھا تھاکہ:
’’ ایک ایسا مرکزی دارالعلوم بھی قائم کیا جانا ضروری ہے جس کے تعلیم یافتہ افاضل ملک و ملت کی خدمت اور اس کی بہترین رہنمائی کی اہلیت و صلاحیت سے بہرہ ور ہوں‘‘
پھر اس کی افادیت و اہمیت اور ضرورت کا ذکر کرتے آپ نے آگے مزید لکھا کہ:
’’اس لئے ایک ایسے مرکزی دارالعلوم کی ضرورت ہے جہاں کی تعلیم و تربیت سے طلبہ مزید اختصاص و امتیاز اور ایسے اوصاف حاصل کریں کہ ملک و ملت کی خدمت و رہنمائی کے قابل بن سکیں، صدر محترم سے گذارش ہے کہ ایسے دارالعلوم کے قیام کے مسئلہ پر ہر ممکن توجہ دے کر اس کے لئے اقدام فرمائیں‘‘ ۔
اس حوالہ سے خطیب الاسلام رحمہ اللہ نے اپنے ایک تحریری انٹرویو میں فرمایاکہ:
’’ میری اس گذارش کایہ اثرہوا کہ دوسرے دن نوگڈھ کانفرنس ہی میں جو میٹنگ ہوئی اس میں فوری طور پر ایک مرکزی درسگاہ کے قیام کی منظوری متفقہ طور پر ہو گئی‘‘ ( ماہنامہ السراج خطیب الاسلام نمبر ص ۴۳۹)
جامعہ سلفیہ بنارس کے موجودہ ناظم مولانا عبد اللہ سعود سلفی نے خطیب الاسلام کی وفات پربھیجے گئے اپنے تعزیتی خط میں اس حقیقت کا کھلے لفظوں میں اعتراف کیا ہے اور مولانا جھنڈانگری کے جامعہ سلفیہ سے اس تعلق کا ذکر ان الفاظ میں کیا ہے:
’’مولانا کا اہل بنارس سے بہت پرانا ربط تھا، وہ جامعہ سلفیہ کے مؤسسین میں سے تھے، نوگڈھ کے اجلاس میں آپ نے خطبۂ استقبالیہ میں جس طرح سے ایک مرکزی ادارہ کی ضرورت کو اجاگر کیا ہے وہ آپ کے جماعتی درد اور اصلاح و ترقی کی تڑپ کی غماز ہے، مولانا کاجامعہ سے دلی لگاؤ تھا اور وہ اسے ہمیشہ قدر کی نگاہ سے دیکھتے تھے‘‘ ( ماہنامہ السراج خطیب الاسلام نمبر ص ۶۱۵)
جامعہ سلفیہ بنارس کے وکیل الجامعہ اور صدر جناب ڈاکٹر مقتدی حسن ازہری رحمہ اللہ نے بھی خطیب الاسلام پر لکھے گئے اپنے گراں قدر مضمون میں اس کا ذکر کیا ہے بلکہ ’’مرکزی دارالعلوم سے خطیب الاسلام کا تعلق‘‘کے عنوان سے اس ربط و تعلق کو اجاگر فرمایا ہے، موصوف جامعہ سلفیہ بنارس کے قیام میں نوگڈھ کانفرنس اور اس کے خطبۂ استقبالیہ کے کردارکا تذکرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’یہیں سے عملی طور پر مرکزی درس گاہ کے وجود و ترقی میں آپ کی حصہ داری شروع ہوئی اور حیات مستعار کے اختتام تک یہ سلسلہ جاری رہا، اہل حدیث کانفرنس کے اپنے اجتماعات اور قیام کے بعد جامعہ سلفیہ کے اجتماعات میں بالالتزام آپ کی شرکت ہوتی تھی اور آپ کی گفتگو اور مشوروں سے یہ اجتماعات کامیاب ہوتے تھے، وقت گذرنے کے ساتھ ساتھ مرکزی دارالعلوم سے تعلقات مضبوط تر ہوتے گئے، حتی کہ صحت کی بعض مجبوریوں کے باوجود آپ دارالعلوم کے اجتماعات میں برابر شریک ہوئے اور ہر موقع پر ادارہ کی بہی خواہی کو مقدم رکھا، بیرون ملک آپ سے ملاقات کے مواقع حاصل رہے، وہاں بھی آپ نے ہمیشہ ادارہ (جامعہ سلفیہ)کے مفاد کو مقدم رکھا، مجلس منتظمہ کی میٹنگ میں شرکت کے لئے یا اپنی کسی ضرورت کے لئے بنارس تشریف لاتے تو دارالعلوم میں اساتذہ و طلبہ کو خطاب فرماتے اور نام لے لے کر لوگوں کی تعریف کرتے اور طلبہ کو استفادہ کی تلقین کرتے، یہاں سے شائع ہونے والے اردو مجلہ کو آپ کا قلمی تعاون برابر حاصل رہا اور بعض بے حد اہم مضامین بھی آپ نے پرچہ کو مرحمت فرمائے‘‘ ( ماہنامہ السراج خطیب الاسلام نمبر ص ۳۷)
جامعہ سلفیہ کے قیام کے فیصلہ کے بعداس کی تعمیر وترقی میں بھی مولانا جھنڈانگری نے زبردست عملی جدوجہد فرمائی ہے اوربجٹ کی فراہمی کے سلسلہ میں کئی دورے کئے ہیں،چنانچہ مولانا نے اپنے تحریری انٹرویو میں خود لکھا ہے کہ:
’’میں نے اور مولانا عبد الجلیل رحمانی نے جو پانچ ہزار(۱۹۶۳ء میں یہ ایک خطیر رقم تصور کی جاتی تھی) دینے کا عہد کیا تھا اپنے وقت پر پورا کردیا تھا،سخت گرمیوں میں ہم لوگ رکشہ پر نکلتے تھے اور جہاں کہیں سڑک پر نل مل جاتا رکشے سے اتر کر پانی پیتے اور پھر آگے بڑھ جاتے ، ایسے ہی سفر کرتے رہے، کئی روز سفر کر کے ہم لوگوں نے پانچ ہزار کی رقم اکٹھا کی اور ناظم جامعہ کے پاس بھیج دیا، اس کے علاوہ کئی مقامات پر مولانا عبد الوحید صاحب ناظم مرکزی دارالعلوم کے ساتھ چندہ کے لئے میں نکلا، جہاں ہم لوگ پہنچتے وہاں تقریر کا پروگرام ہوتا، تقریر کے اختتام پر میں چندہ کی تحریک کرتا اور مولانا عبد الوحید صاحب ناظم جامعہ چندہ کا استقبال کرتے، الحمد للہ اسی وقت دارالعلوم کے لئے اچھا خاصا چندہ جمع ہوگیا تھا‘‘(ماہنامہ السراج خطیب الاسلام نمبر ۴۳۹)۔
جامعہ سلفیہ کے قیام کے بعددسیوں برس تک خطیب الاسلام علامہ جھنڈانگری رحمہ اللہ جامعہ کی مجلس شوریٰ کے ممبربھی رہے، اوراس کی میٹنگوں میں پوری پابندی کے ساتھ شریک ہوتے رہے، ان تمام حوالوں سے ان کا بنارس آنا جاناکثرت سے ہوتاتھا، رؤساء مدن پورہ بھی آپ کی بڑی قدرکرتے تھے، ناظم جامعہ مولاناعبدالوحید سلفی، الحاج محمدصدیق، مولانا محمدیحی بنارسی ،مولانامحمدزبیراورمولانا عبدالقدوس نسیمؔ بنارسی رحمہم اللہ جیسے مخلص اورذمہ دارقسم کے لوگ خصوصاً مولاناجھنڈانگری کی بیحد توقیر وتکریم فرماتے تھے۔
۱۹۷۷ء ؁میں خطیب الاسلام علامہ عبدالرؤف رحمانی رحمہ اللہ جب رابطہ عالم اسلامی مکہ مکرمہ کی مجلس تأسیسی کے رکن منتخب ہوئے اورعرب دنیا سے آپ کا رابطہ مستحکم ہواتواپنے مضامین ،رپورٹس و تقاریر ا ور خطوط ورسائل کی تعریب کے لئے آپ نے ڈاکٹرازہری رحمہ اللہ سے مددلی، مولاناجھنڈانگری باوجویکہ مختلف علوم وفنون کے ماہر تھے اوراردومیں ان کا قلم بڑا سیال تھا تاہم خاص ماحول اور مشق ومزاولت کے فقدان کے سبب فصیح وبلیغ عربی لکھنے پر قادر نہ تھے، اس لئے جب انھیں کوئی اہم خط لکھنا ہوتا یا کسی خاص موضوع پرانھیں تقریر ورپورٹ پیش کرنی ہوتی تواس کی تعریب کے لئے خودجامعہ سلفیہ تشریف لے جاتے اورڈاکٹر ازہری صاحب کی خدمت میں اپنا مدعا پیش فرماتے، ازہری صاحب خطیب الاسلام کے بڑے قدرداں تھے اوران کا غایت درجہ احترام واکرام فرماتے، اپنے ضروری کاموں کو چھوڑکر خطیب الاسلام کے خطوط ورسائل اور دیگرچیزوں کی خود تعریب کرتے اور پھرانھیں اپنے ہاتھ سے ٹائپ کرتے یا کمپوز کراتے، تعاون باہمی کا یہ سلسلہ برسوں چلتا رہا، کم ازکم ۱۹۸۲ء ؁ تک تواس کا مشاہدہ میں نے خود کیاہے۔
جامعہ سلفیہ بنارس اور جامعہ سراج العلوم السلفیہ جھنڈانگر نیپال کے درمیان اس گہرے ربط و تعلق کا نتیجہ تھا کہ جب جامعہ سلفیہ بنارس کے روح رواں اور صدر جناب ڈاکٹر مقتدیٰ حسن ازہری رحمہ اللہ کی وفات کا سانحہ پیش آیا اوراس کی خبرجامعہ میں پہونچی توسراج العلوم نے اسے اپنا غم تصور کیا اور یہاں کے درودیوار پر سوگواری کے اثرات ظاہر ہوگئے، ناظم جامعہ مولاناشمیم احمد ندوی حفظہ اللہ قطرکے سفرپر روانہ ہونے کے لئے لکھنؤ پہونچ چکے تھے اور راقم خود سفر حج کے سلسلہ میں لکھنؤمیں موجود تھا،جنازہ میں شرکت نہ کرپانے پر ہم دونوں ہی دل مسوس کے رہ گئے ،تاہم ناظم محترم نے بذریعہ موبائل فون اساتذۂ جامعہ کو جنازہ میں شرکت کی ہدایت فرمائی اوراس کے لئے گاڑی کا انتظام کیا اوراساتذہ کی ایک بڑی تعداد نے نماز جنازہ میں شرکت کی سعادت حاصل کی، اورسفر سے واپسی کے بعد نومبر ۲۰۰۹ء ؁ کے شمارہ میں ناظم جامعہ ومدیرمسؤل ماہنامہ ’’السراج‘‘ مولانا شمیم احمدندوی نے ایک تعزیتی مضمون لکھ کرازہری صاحب کی خدمات کو خراج تحسین پیش کیا اورآپ کی علمی ودعوتی خدمات کو سراہا۔
ہند و نیپال کے ان دونوں بڑے جامعات کے مابین اس گہرے ربط و تعلق کی بنیاد پر اور نئی نسل کوڈاکٹرازہری رحمہ اللہ کی قدآور،نابغۂ روزگارشخصیت سے واقف کرانے اورآپ کی ہمہ جہت علمی، ادبی، تعلیمی،تصنیفی، دعوتی و صحافتی خدمات کو خراج تحسین پیش کرنے کے لئے ماہنامہ’’السراج‘‘ نے ایک خصوصی نمبر شائع کرنے کا فیصلہ کیااور ناظم جامعہ کے مشورہ سے بہ عجلت ایک خاکہ بنایاگیا اورمحدود پیمانہ پرعلاقہ اورآس پاس کے بعض اہل قلم حضرات کوازہری صاحب کی خدمات کے کسی اہم گوشہ پر لکھنے کی زحمت دی گئی، ہمیں خوشی ہے کہ ہمارے بعض احباب اوربزرگوں نے ہماری درخواست کوشرف قبول بخشا اوراپنے گراں قدرمضامین سے ہمیں نوازکر ہمارا حوصلہ بڑھایا، ہم ان کے شکرگذار ہیں نیز جنھوں نے خاموشی اختیارکی یا معذرت کرلی ہم انھیں معذورتصورکرتے ہیں۔
میرے بعض دعوتی اسفار اور تدریسی،دعوتی و دفتری مصروفیات کے باوجود خصوصی اشاعت کے لئے مضامین کی کمپوزنگ مارچ کے اوائل میں مکمل ہوچکی تھی، اورارادہ تھا کہ مارچ ، اپریل اور مئی کے مشترکہ شمارہ کو خصوصی اشاعت کے طورپرنذر قارئین کردیاجائے گا،مگر بعض وجوہات سے ایسا نہ ہوسکا، اورایک ماہ کی مزید تاخیر ہوگئی تاہم اس کا فائدہ یہ ہوا کہ چند قیمتی مضامین ہمیں مزید دستیاب ہوگئے۔
خصوصی اشاعت کو منظر عام لانے کے لئے جب کہ ساری تیاریاں مکمل ہوچکی تھیں اور ناظم جامعہ و مدیر مسؤل ماہنامہ السراج مولانا شمیم احمد ندوی حفظہ اللہ اس کے لئے اپنا گراں قدر اداریہ لکھنے کا ذہن بناچکے تھے کہ اچانک عارضۂ قلب میں مبتلا ہونے کے سبب موصوف کی طبیعت ناساز ہوگئی اور چیک اَپ و علاج کے لئے آپ کو ہفتہ عشرہ لکھنؤ میں قیام کرنا پڑا،پھر جامعہ واپس تشریف لانے کے بعد بھی معالج کے مشورہ کے مطابق کچھ دنوں کے لئے آپ کو اپنی علمی و دعوتی سرگرمیاں موقوف کرنا پڑیں ،اس طرح ہمارے باذوق قارئین کرام آپ کے گراں قدر ادارتی مضمون سے محروم رہ گئے، اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ اپنے فضل خاص سے موصوف کوشفاء کاملہ وعاجلہ سے نوازے اورصحت وعافیت کے ساتھ دیرتک اپنے دین کی خدمت کی توفیق بخشے۔(آمین)
آخر میں ایک بات کی وضاحت ضروری ہے کہ ترتیب مضامین کے سلسلہ میں پہلے یہ بات ذہن میں تھی کہ استاد محترم کی حیات،اخلاقیات اور خدمات وغیرہ عناوین کے تحت مضامین ترتیب دئے جائیں مگر ایسا اس لئے نہ ہوسکا کہ ہمیں موصول ہونے والے مضامین میں اکثر تاثراتی تھے، گو کہ بعض اہل قلم حضرات نے آپ کی علمی خدمات کو اجاگر کرنے کوشش کی ہے اور آپ کی بعض کتابوں اور ترجموں کے تعارف پر مشتمل مضامین قلم بند فرمائے ہیں،لیکن بد قسمتی سے آپ کے مکمل سوانحی خاکہ پر ہمیں کوئی مضمون نہ مل سکا، میں آپ کے اخلاقیات کے سلسلہ میں ایک مضمون لکھ چکا تھا مگر اس کمی کی تلافی کے لئے موصوف کی حیات و خدمات کے حوالہ سے ایک اورمضمون مرتب کرنا پڑا جس میں آپ کی بعض اہم خدمات کی جانب صرف اشارہ ہی ہوسکا ہے، باقی تاثراتی قسم کے مضامین میں اہل قلم حضرات نے اپنے مشاہدات اور ذاتی تاثرات کی روشنی میں ازہری صاحب کے اخلاقی پہلؤں کو نمایاں کرنے کی کوشش کی ہے، اس طرح اس خصوصی اشاعت میں ڈاکٹر ازہری رحمہ اللہ جیسی ہمہ جہت شخصیت کی زندگی اور خدمات کے چند ہی گوشے نمایاں کئے جاسکے ہیں اور استطاعت بھر آں رحمہ اللہ کو خراج تحسین پیش کرنے کی کوشش کی گئی ہے، اس کوشش میں ہم کس قدر کامیاب ہیں اس کا فیصلہ باذوق قارئین فرمائیں گے،تاہم اہل نظر حضرات سے یہ گذارش ہے کہ اپنے گراں قدر تاثرات اور خیالات سے ضرور آگاہ فرمائیں اور اگر کوئی علمی یا تاریخی فروگذاشت انھیں نظر آئے تو اس سے ہمیں باخبر کریں، اللہ تعالی جزاء خیر عطا فرمائے گا۔
آخر میں دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ استاد محترم کی بال بال مغفرت فرمائے، ان کی بشری لغزشوں اور کوتاہیوں کو معاف کرے اور ان کی جملہ خدمات کو قبول کرتے ہوئے آپ کے درجات بلند فرمائے اور ان کے علمی و دعوتی کاموں کو صدقۂ جاریہ اور ذخیرۂ آخرت بنائے اور ان پر اپنی رحمتوں کی بارش برساتا رہے، اللہم اغفر لہ و ارحمہ و عافہ و اعف عنہ و أکرم نزلہ و وسّع مدخلہ و أدخلہ الفردوس الأعلیٰ۔(آمین)

ملت وجماعت کا گنجینۂ گراں مایہ apr-jul 2010

شمیم احمدندویؔ
ملت وجماعت کا گنجینۂ گراں مایہ
۲۹؍اکتوبر۲۰۰۹ء کی رات میں بیرون ملک کے ایک سفر کے سلسلہ میں میراقیام لکھنؤ میں تھا، کہ رات تقریباً دس بجے مولانا عبدالمنان سلفی کا فون آیا جوکہ سفر حج کے سلسلہ میں خودبھی لکھنؤ ہی میں مقیم تھے اورجامعہ سے لکھنؤ تک کا ان کا سفراسی دن میرے ہمراہ ہی ہواتھا، فون پرانھوں نے یہ المناک خبردی کہ ڈاکٹرمقتدیٰ حسن ازہری صاحب نے داعی اجل کو لبیک کہا، اس خبر وحشت اثرسے دل پر غم والم کی عجیب کیفیت طاری ہوئی اورجماعت کے ایک مقتدرعالم دین اورعلم وادب کے گنجینۂ گراں مایہ سے مالامال شخصیت کی ناگہانی وفات دل کو تڑپاگئی، میں نے بیماری اوروفات کی تفصیلات جاننی چاہی توفوری طورپر صرف اتنا معلوم ہواکہ بغرض علاج دلی لے جائے گئے تھے کہ وہیں پر وقت موعود آپہونچا، دورحاضرکی اس عظیم علمی وادبی شخصیت سے جماعت کی محرومی اورملت کے ناقابل تلافی زیاں وخسارہ کا احساس قلب پردیرتک طاری رہا، لیکن کچھ دیر بعد دوبارہ مولانا عبدالمنان سلفی کے ذریعہ ہی اس خبرکی تردید کا فون موصول ہوا اورانھوں نے بتایا کہ وفات کی خبردرست نہیں تھی البتہ دلی میں واقع بتراہاسپٹل میں جہاں ان کا علاج چل رہاتھا وہاں کے ڈاکٹروں نے ہرممکن تدبیر کرنے اورہرطرح کی دوائیں آزمانے کے بعداپنی بے بسی کااظہار کردیا ہے اورمرض میں کوئی افاقہ نہ دیکھ کرشفایابی سے مایوسی ظاہرکردی ہے اورجواب دیتے ہوئے ان کے تیمارداروں کوانھیں گھرلے جانے کی تلقین کردی ہے، چنانچہ ان کے اقرباء ان کو دلی سے واپس لے کرگھرآرہے ہیں، لیکن حالت تشویشناک ہے اورمرض سے صحت یابی کی کوئی امیدباقی نہیں رہی، پھر ۳۰؍اکتوبر کی صبح مولانا عبد المنان سلفی نے یہ اندوہناک خبر دی کہ ازہری صاحب کاکانپورکے قریب انتقال ہوگیا، اس کی تصدیق پھرجامعہ سے آئے ہوئے ایک فون کے ذریعہ بھی ہوگئی جس میں جامعہ کے اساتذہ ۔جن میں ایک بڑی تعداد ان کے تلامذہ اورشاگردوں کی بھی ہے۔ یہ دریافت کرناچاہ رہے تھے کہ جنازہ میں شرکت اوراپنے ہردل عزیز استاد کی آخری رسومات کی ادائیگی میں اپنی موجودگی کی خواہش کو کیوں کرعملی جامہ پہونچاسکتے ہیں، میں نے وہیں سے گاڑی کا انتظام کرکے زیادہ سے زیادہ تعداد میں اساتذہ کے شریک جنازہ ہونے کی ہدایت کردی اورخودسفر پرہونے کی بناپر جنازہ میں شریک نہ ہوسکنے کے لئے دل مسوس کررہ گیا، پتہ یہ چلاتھا کہ رات میں بعدنماز مغرب یاعشاء نمازجنازہ ہوگی جب کہ اسی رات میں قطرکے لئے میری فلائٹ تھی۔
دارالعلوم ندوۃ العلماء لکھنؤ سے اپنی فراغت کے بعداور جامعہ سراج العلوم السلفیہ جھنڈانگر کی مجلس عاملہ کاممبراورنائب ناظم منتخب ہونے کے مختصرعرصہ میں جب میں نے جامعہ کے معاملات میں بعض چھوٹے موٹے کاموں اورخطوط وغیرہ تحریر کرنے کے سلسلہ میں عم محترم خطیب الاسلام مولانا عبدالرؤف رحمانی جھنڈانگری رحمہ اللہ کا ہاتھ بٹانا شروع کیا اسی وقت سے وقتاً فوقتاً ڈاکٹرمقتدیٰ حسن ازہری رحمہ اللہ کانام کانوں میں پڑتا رہا اورغائبانہ طورپر ان کی شخصیت سے تعارف ہوتارہا اورگزرتے وقت کے ساتھ ان کے متعلق واقفیت بڑھتی رہی، پھرجب ہمارے جامعہ نے جامعہ سلفیہ کے بعض فارغین کی تدریسی ودعوتی خدمات حاصل کیں توان میں موصوف مرحوم کے بعض ہونہار شاگرد بھی تھے جواپنی علمی وادبی صلاحیتوں کی وجہ سے جامعہ میں ممتاز تھے، تو ان کے ذریعہ بھی ازہری صاحب کی مورخانہ بصیرت اورادبی صلاحیت کاتذکرہ کبھی کبھی سنتارہا، لیکن ان کا مکمل تعارف اوران کی شخصیت کے مختلف گوشے اس وقت میرے سامنے نمایاں ہوکرآئے جب جامعہ کی مکمل ذمہ داری مجھ ناتواں کے کندھوں پرآگئی، اس مرحلہ میں ان سے خط وکتابت بھی رہی اورٹیلی فونی رابطہ بھی اور انھوں نے جامعہ کو رواں دواں رکھنے ،خطیب الاسلام رحمہ اللہ کے خون جگرسے سیراب کردہ پودے کی آبیاری کرنے اوران کی یادگاروں کوباقی رکھنے کے سلسلہ میں کچھ مفید مشورے بھی دئے اور ان کی سوانح حیات کتابی شکل میں شائع کرنے کا گراں قدرمشورہ بھی دیا اوراپنے قلبی تعلق اوردلی لگاؤ کابے تابانہ اظہاربھی کیا، یہ چیزیں غائبانہ طورپرجاری رہیں لیکن ملاقات اوربالمشافہ گفتگو کے لئے کوئی موقع نہ مل سکا، اس عرصہ میں میں نے جامعہ کے بعض پروگراموں میں ان کوشرکت کی دعوت بھی دی لیکن وہ اپنی عدیم الفرصتی سے زیادہ غیر معمولی احتیاط پسندی کی بناپرنیپال آنے سے ہچکچاتے رہے اورہمیشہ تذبذب کاشکاررہے اوراس دوران نیپال کے سیاسی حالات بھی ماؤنوازوں کی دہشت گردانہ سرگرمیوں کی بناپرکافی دگرگوں اورابترتھے، لوگوں کی جان ومال اورعزت وآبرو کاکوئی محافظ نہیں تھا، ملکی حالات بہت ہی مخدوش اورتشویشناک ہوچکے تھے اورہندوستانی اخبارات میں بھی یہاں کے حالات موضوع بحث تھے، اس لئے اس دوران محتاط لوگ ویسے بھی یہاں کا سفر کرتے ہوئے گھبراتے تھے، بہرحال ہم نے ان کو دعوت تودی لیکن غیریقینی حالات کے پیش نظراس پرزیادہ اصرارکرنا مناسب نہ سمجھا اس طرح میں عرصہ تک اس عدیم المثال علمی وادبی شخصیت کی زیارت اوران کے علم وفضل سے استفادہ کرنے سے محروم رہا۔
مئی ۲۰۰۷ء ؁ میں جامعہ سلفیہ بنارس میں’’نواب صدیق حسن خاں: حیات وخدمات‘‘کے موضوع پرایک سمینار کا انعقاد ہوا اس میں جماعت کے مقتدرعلماء کے ساتھ مجھ ناچیز کوبھی شرکت کادعوت نامہ ملا اوراس کی سعادت حاصل ہوئی، میں دیگر مہمانوں کے ساتھ جامعہ کے مہمان خانہ میں مقیم تھا کہ مہمانوں سے ملاقات کے لئے ڈاکٹر مقتدیٰ حسن ازہری صاحب تشریف لائے ،میں نے دیکھاکہ شیروانی میں ملبوس ایک وجیہ وبارعب شخصیت ہال میں داخل ہوئی، وقارو تمکنت کاپیکر،علمی وجاہت سے معمور، آنکھوں میں ذہانت کی چمک اورپیشانی پرعلوم نبوت کا نور، ظاہری وضع قطع عالمانہ اورگفتگو فاضلانہ لیکن انداز فقیرانہ اورچال ڈھال سے تواضع وخاکساری کااظہار یہ سارے اوصاف بحیثیت مجموعی ان کو اوروں سے ممتاز بنارہے تھے، انھوں نے سب کے پاس تھوڑی تھوڑی دیررک کرخیریت دریافت کی اوران کو دیکھ کرلوگ احتراماً کھڑے ہوگئے، میرا تعارف ان سے صرف غائبانہ تھا میں ان کی صورت سے آشنانہ تھا ،چنانچہ میں نے غیرمعمولی طورسے ان کے احترام وتوقیر کودیکھتے ہوئے اپنے ساتھ کھڑے ہوئے مولانا عبدالمنان سلفی سے بہت آہستگی سے دریافت کیا کہ یہ کون صاحب ہیں؟ توانھوں نے اتنی ہی خاموشی سے جواب دیا کہ ازہری صاحب یہی ہیں، پھر وہ ہماری طرف بڑھے توانھوں نے دوطرفہ تعارف کا باقاعدہ فریضہ اداکیا، یہی میری ان سے پہلی ملاقات تھی، کچھ وقفہ کے بعدجامعہ سلفیہ بنارس کے وسیع وعریض ہال میں پروگرام شروع ہوا توان کے علمی جوہر نمایاں ہوئے اور انھوں نے نہایت ہی شستہ زبان میں نہ صرف پروگرام کی غرض وغایت اوراس کی اہمیت وافادیت پرروشنی ڈالی بلکہ نواب صدیق حسن خاں کی زندگی کے بعض گوشوں اوران کے کارہائے نمایاں پراور ان کی علمی خدمات پرنہایت ہی فاضلانہ تقریرکی، اوراپنے مقالہ کے اقتباسات پیش کئے، اس سے ان کے مطالعہ کی گہرائی اورمتعلقہ موضوع پر معلومات کی وسعت کاخوب خوب اندازہ ہوا، اپنے بلیغ انداز بیاں اوروقیع معلومات کے دریابہانے کی بناپر وہ ہال میں موجود سامعین کی توجہ کا مرکز بنے رہے اورپروگرام کی کامیابی میں ان کا کردارنمایاں رہا۔
گذشتہ سال اکتوبر کے مہینہ میں مرکزی جمعیت اہل حدیث ہند نے ملک کی راجدھانی دہلی میں ایک عظیم الشان تاریخی کانفرنس منعقد کرنے کافخر واعزاز حاصل کیا، اس کانفرنس کے لئے جب اعلانات وتیاریوں کاآغاز ہوا توصدراستقبالیہ کے لئے ذمہ داران جمعیت کی نظرانتخاب ڈاکٹرمقتدیٰ حسن ازہری رحمہ اللہ پرہی پڑی، کیونکہ جماعت میں ان سے زیادہ ذی علم اورمعتبر ومستند شخصیت کوئی اورنظرنہیں آتی تھی اوراس منصب کاحق اداکرنے اوراس کے ساتھ پوری طرح انصاف کرنے کے لئے کوئی اورشخص موزوں نہ معلوم ہوا جوجمعیت کی پوری تاریخ سے واقفیت بھی رکھتا ہو اورجماعت کی تعمیر وترقی سے دلچسپی بھی، ملت کا دردبھی اس کے سینہ میں پنہاں ہواورملت وجماعت کا رمز شناس بھی ہو، ساتھ ہی ملک میں موجود متوازی تحریکات ونظریات کے فوائد ونقصانات پربھی اس کی گہری نظرہو اورجو مورخانہ بصیرت سے مالامال اورعلم وعرفان کی بلندیوں پرفائز ہو، انھوں نے اس منصب وذمہ داری کو شرح صدرسے قبول کیا، اجلاس کو کامیابی سے ہمکنار کرنے کے لئے اپنے اوقات کو فارغ کیا اورایک بلیغ ووقیع اورپراز معلومات خطبہ استقبالیہ تحریر کیا، میری ان سے دوسری ملاقات جوشومئی قسمت سے آخری بھی ثابت ہوئی، اسی اسٹیج پرہوئی، وہاں انھوں نے اپنے طویل خطبۂ استقبالیہ کے اقتباسات پیش کئے جس میں جمعیت وجماعت کی پوری تاریخ اوراس کے نشیب وفراز اورسردوگرم کردار کو کہیں اختصار اورکہیں شرح وبسط سے پیش کیا، چنانچہ جمعیت وجماعت کی تاریخ جب بھی مستقبل کا منصف مورخ لکھے گا توان کاتذکرہ کئے بغیر یہ تاریخ نہ مکمل رہے گی، جس طرح مرکزی جمعیت اہل حدیث جوماضی میں آل انڈیا اہل حدیث کانفرنس کے نام سے جانی جاتی تھی، ملک کی آزادی کے بعدنشاۃ ثانیہ کا ذکرہوگا تونوگڈھ کانفرنس کے بغیر یہ ذکرمکمل نہیں ہوسکتا اورجب نوگڈھ کانفرنس کا تذکرہ ہوگا توخطیب الاسلام علامہ عبدالرؤف رحمانی رحمہ اللہ کے تاریخی خطبۂ استقبالیہ کے بغیر اورمولانا عبدالجلیل رحمانی کے اخلاص اور بے مثال لگن اورجدوجہد کے بغیر یہ تذکرہ ادھورا ہوگا۔
اسی طرح جماعت اہل حدیث نے آزادی ہند کے بعدجن نابغہ روزگار اورعبقری شخصیات کوپیداکیا ان کا جب تذکرہ ہوگا تو ڈاکٹرمقتدیٰ حسن ازہری کو اس میں نمایاں مقام حاصل ہوگا کیونکہ کم ہی شخصیات ایسی ہوتی ہیں جوبیک وقت کئی طرح کی صلاحیتوں اورمختلف طرح کی خوبیوں سے مالا مال ہوں، وہ انھیں نادرالوجود شخصیات میں شامل تھے جوبیک وقت داعی ومبلغ، مایہ ناز خطیب، ماہرقلمکار ومصنف، حالات حاضرہ سے واقف صحافی ،سیال قلم کامالک، سیاسی مسائل کا ناقدومبصر، اخاذ ذہن ودماغ کاحامل، وسیع مطالعہ سے مالا مال، قوت حافظہ وقوت استحضار سے بہرہ ور، تجربہ کارمدرس ومربی بلکہ مسند درس کی رونقیں جس کے دم سے آباد اوراسٹیج کی رونقیں جس کے دم سے معمورہوں، اسی طرح عربی زبان وادب کی باریکیوں سے واقف اوراردوزبان پرمکمل عبور، دونوں زبانوں کا ماہرانشاء پرداز اورعربی زبان کا صاحب طرز ادیب، فکروفن کی بلندیوں پرفائز اوربحرحدیث کا شناور غرض کہ ایسی لازوال خوبیوں کی مالک شخصیت جس پرکسی بھی قوم کو بجاطورپر نازہوسکتا ہے۔
مشرقی یوپی میں مؤ واعظم گڈھ ایسے مردم خیز اضلاع ہیں جنھیں کئی مایہ ناز شخصیات کا مولدومسکن ہونے کا اعزاز حاصل ہے، انھیں میں ڈاکٹرمقتدیٰ حسن ازہری کا اسم گرامی بھی شامل ہے اوروہیں جماعت اہل حدیث کے تین بڑے ومعروف ادارے ہیں، جب کہ کئی دیگر چھوٹے وپرائمری ادارے ودینی مکاتب ہیں ،ڈاکٹر صاحب مرحوم نے ان تینو ں اداروں سے کسب فیض کیا، جامعہ عالیہ عربیہ سے ابتدائی دینی تعلیم حاصل کی، جب کہ اس سے قبل دارالعلوم جومرزاہادی پورہ میں واقع ہے وہیں سے تعلیم کا آغاز بھی ہوگیا تھا اورحفظ کی تکمیل بھی وہیں سے کی، جامعہ عالیہ عربیہ کے بعدمؤ کے معروف دینی ادارہ جامعہ اسلامیہ فیض عام میں داخل ہوئے ،جہاں گرچہ عالمیت تک کی تعلیم ہوتی ہے اوراس کے فارغین کو فیضی کہاجاتاہے وہاں عربی زبان وادب اور مروجہ علوم اسلامیہ حدیث وفقہ اورتفسیر وغیرہ میں بڑی حد تک رسوخ وکمال حاصل کیا، لیکن یہاں ان کی تعلیم ثانویہ کے بعد منقطع ہوگئی اورفراغت کی سند انھوں نے یہاں سے نہیں حاصل کیا، بلکہ اس کے لئے انھوں نے مؤ کے تیسرے بڑے ادارہ جامعہ اثریہ دارالحدیث کارخ کیا اوراپنی عالمیت تک کی تعلیم مکمل کرکے سند فراغت یہیں سے حاصل کی، اس طرح مؤ کے تینوں اداروں کے ماہرین فن اورمعروف اساتذہ سے اکتساب فیض کیا اوران کے دروس سے بھرپور فائدہ اٹھایا، جامعہ اثریہ دارالحدیث میں تعلیم کے دوران ہی انھوں نے یوپی بورڈ سے مولوی.عالم اورفاضل کی اسناد بھی حاصل کیں، ان کے ذہن رسا کی منزل صرف عالمیت کی سند نہ تھی بلکہ حصول علم کی حرص وطمع نے ان کو حدپرواز سے آگے جانے کا حوصلہ عطاکررکھا تھا، اس لئے وہ کسی ایک سند پر قانع نہ ہوسکتے تھے، چنانچہ جہاں انھوں نے عالمیت کی سند جامعہ اثریہ دارالحدیث سے حاصل کی وہیں مروجہ سرکاری اسناد میں اعلیٰ ترین سندوں سے اپنی صلاحیت اورعلم وفضل میں چار چاند لگائے، ان کی علمی منزل یہاں بھی نہ تھی بلکہ ان اسناد کی حیثیت توصرف ایک مستقر کی تھی ، جہاں وہ تھوڑی دیرتک سستانے کے لئے رکے اوراس استراحت کے دوران درس وتدریس کا سلسلہ بھی جاری رہا لیکن آپ کی منزل مقصود آپ کو مزید بادیہ پیمائی کے لئے آوازدے رہی تھی، جس کو انھوں نے یہ کہتے ہوئے لبیک کہا ؂
مل ہی جائے گی کبھی منزل لیلیٰ اقبال
کوئی دن اورابھی بادیہ پیمائی کر
چنانچہ ۱۹۶۳ء ؁ میں دنیا کی قدیم ترین اسلامی یونیورسٹی جامعہ ازہر مصرکے تعلیمی وظیفہ پرآپ سوئے ازہر روانہ ہوئے، وہاں آپ نے فیکلٹی آف اصول الدین میں داخلہ لے کروہاں سے M.A.کی باوقار سند حاصل کی، پھریہیں سےP.H.D.کے لئے رجسٹریشن کرایا اور ساتھ ہی دوسال تک قاہرہ ریڈیو کی اردوسروس میں مترجم واناؤنسر کے فرائض بھی انجام دئے، لیکن کچھ وطنی حالات سے مجبورہوکر یاکسی اوروجہ سے پی.ایچ.ڈی. کی تکمیل وہاں سے ممکن نہ ہوئی، وطن واپسی ہوئی لیکن قدرت کو یہ منظور نہ تھا کہ علم وادب کے اس مایہ ناز سپوت کا طویل علمی سفریہیں پایہ اختتام کو پہونچے ،اسناد سے ان کا کمرہ ضرور آراستہ ہوگیا تھا جس میں حفظ، منشی، مولوی، عالم، فاضل، عالمیت اورایم.اے. کی اسناد شامل تھیں اور یہ اسناد آپ کے دستار فضیلت میں جگمگارہی تھیں، لیکن طلب علم کی پیاس ابھی بھی نہیں بجھی تھی، ۱۹۶۷ء ؁ میں ہندوستان واپس ہونے کے بعدجامعہ سلفیہ بنارس میں مسند درس پر رونق افروز ہوئے ساتھ ہی تحقیق وتصنیف کا سلسلہ بھی شروع کیا، اس وقت علمی دنیا میں ان کی شہرت ہوچکی تھی اوران کی آراء کو قدرکی نگاہ سے دیکھاجانے لگاتھا ،فکروفن کی دنیا میں ایک مفکر ودانشور کی حیثیت سے بھی ان کا چرچا ہونے لگاتھا، لیکن پھربھی افتا وطبع نے علم کے میدان میں قناعت کا سبق نہیں سیکھاتھا، ابھی انھیں اس میدان میں اورہفت خواں سرکرنے تھے، چنانچہ مزید حصول علم کے لئے اورملک کی مایہ ناز اسلامی یونیورسٹی علی گڈھ مسلم یونیورسٹی کے ناموراساتذہ سے اکتساب فیض کرکے اپنی علمی صلاحیتوں کومزید نکھارنا تھا اوراپنی اسناد کی فہرست میں کچھ اور وزن دار اورباوقار ڈگریوں کااضافہ کرناتھا، اس مقصدکے حصول کے لئے پھر ۱۹۷۲ء ؁ میں علی گڈھ کا رخ کیا اوروہاں سے ایم.فل. کی ڈگری حاصل کی پھراس سے تین سال بعد وہیں سے ادب عربی میں پی.ایچ.ڈی. کیا ،واپس پھرجامعہ سلفیہ کارخ کیا، وہاں پر ان کو ہاتھوں ہاتھ لیاگیا اوران کی غیرمعمولی پذیرائی ہوئی، اس سے قبل انھیں ۱۹۶۹ء ؁ ہی میں جب جامعہ سلفیہ بنارس سے ایک عربی مجلہ’’صوت الامۃ‘‘ نکالنے کافیصلہ کیاگیا تھا تواس کا مدیرمسؤل بنایا گیا تھا، کیونکہ جامعہ سلفیہ کے ذمہ داران کو اس عربی مجلہ کو ملک وبیرون ملک اور بلاد عربیہ میں مقبول بنانے کے لئے اس سے بہتر اور معتبرنام نہیں مل سکتا تھا، انھوں نے اپنی خداد اد علمی وادبی صلاحیتوں سے مجلہ کودنیائے علم وادب میں روشناس کرایا اوراس کی مقبولیت کوچارچاند لگائے۔
جامعہ سلفیہ کے سابق ناظم اعلیٰ مولانا عبدالوحید سلفی رحمہ اللہ نے ایک ماہر وکامیاب جوہری کی طرح اس نایاب ہیراکی قدروقیمت کابروقت اندازہ کرلیاتھا لہذا ۱۹۸۷ء ؁ میں ان کو جامعہ کا ریکٹر بنادیاگیا، انھوں نے اپنے اس منصب سے جامعہ کو بہت فائدہ پہونچایا اورملک وبیرون ملک اس کے تعارف کوبہت وسیع کیا اوراس کی نیک نامی وشہرت میں گراں قدراضافہ کیا، ان کو بھی جامعہ سے جولگاؤ تھا اس کوناپنے کے لئے ابھی تک کوئی پیمانہ نہیں بناہے، عمرعزیز کا ایک بڑا حصہ انھوں نے جامعہ سلفیہ کی خدمت میں صرف کیا، جامعہ کے شعبہ نشرواشاعت ۔ جہاں سے سینکڑوں اہم کتابیں شائع ہوچکی ہیں ۔ کے بھی نگران اعلیٰ بنائے گئے اوراس طرح اپنے وقت کا ایک ایک لمحہ جامعہ سلفیہ کی خدمت اوراس کی تعمیر وترقی میں صرف کیا، فاضل وقت کو کتابوں کی تصنیف وتالیف ،ترجمہ وتبییض،کتابوں کے مقدمات تحریرکرنے اور’’صوت الامۃ‘‘ کا افتتاحیہ لکھنے میں صرف کیا، اس طرح ان کا وقت بہت ہی مصروف اورعلمی مشاغل سے معمور گذرا۔
اللہ تعالیٰ نے ان کے وقت میں بھی بہت برکت عطاکی تھی اورہمت وحوصلہ اورجوش وولولہ سے بھی نوازاتھا، کسی بڑے سے بڑے علمی کام سے وہ نہیں گھبرائے ،نہ ہی ذمہ داریوں کے قبول کرنے سے ہراساں ہوئے اورنہ ہی نامساعد حالات سے دل شکستہ وحواس باختہ ہوئے، غرض کہ ایسی شخصیات کسی بھی قوم وجماعت کا قابل فخر سرمایہ ہوسکتی ہیں اورصدیوں میں کبھی کبھی پیداہوتی ہیں اورایسی بے نظیر صلاحیتوں کی حامل لوگوں کے لئے ہم بجاطورپر کہہ سکتے ہیں ؂
اولئک آبائی فجئنی بمثلھم
اذا جمعتنا یاجریر المجامع
***

ڈاکٹرازہریؔ ۔۔۔چند یادیں apr-jul 2010

مولانا عبدالحنان فیضیؔ ؍حفظہ اللہ
مفتی و شیخ الحدیث جامعہ سراج العلوم السلفیہ،جھنڈانگر
ڈاکٹرازہریؔ ۔۔۔چند یادیں

جو بادہ کش تھے پُرانے وہ اٹھتے جاتے ہیں
کہیں سے آبِ بقاء دوام               لا ساقی!
بخاری شریف ’’کتاب العلم‘‘ میں قیامت کی علامات میں سے ایک علامت یہ ذکرکی گئی ہے کہ آخری زمانہ میں علوم دین ختم ہوجائیں گے اورجہالت کا دوردورہ ہوگا ،کتا ب العلم ہی میں ایک باب’’کیف یقبض العلم‘‘قائم کرکے امام بخاری رحمہ اللہ نے واضح کیا ہے کہ علم دین ختم ہونے کی کیا صورت ہوگی اور اس سلسلہ میں حضرت عبداللہ بن عمروبن العاص رضی اللہ عنہ کی وہ حدیث ذکرکی ہے جس میں بیان کیاگیا ہے کہ ’’علم دین کا اٹھایا جانا علماء دین کی وفات کے ذریعہ ہوگا ‘‘،اسی نظام کے تحت عرب وعجم کے بہت سارے ائمہ محدثین، فقہاء مجتہدین اور علماء کبار موت کے آغوش میں چلے گئے اورجاتے رہتے ہیں اورآئندہ بھی یہ سلسلہ تاقیامت قائم رہے گا، ڈاکٹر مقتدیٰ حسن ازہری رحمہ اللہ کا سانحۂ ارتحال بھی اسی سلسلہ کی ایک کڑی ہے، ڈاکٹرصاحب کی وفات کا حادثہ بلاشبہ ملک وملت اور جماعت کے لئے باعث رنج وغم توہے ہی مگر آپ کی جدائی سے جامعہ سلفیہ کو ناقابل تلافی خسارہ پہونچا ہے، اللہ تعالیٰ اپنے فضل وکرم سے ان کا نعم البدل عطافرمائے اورڈاکٹرصاحب کوجنت الفردوس میں جگہ دے کر ان کی دینی وملی اورجماعتی خدمات کو قبول فرمائے اوران کی بشری کوتاہیوں سے درگذرکرے ۔(آمین)
مرحوم کا تعلق شہر مؤ ناتھ بھنجن سے تھا جو کچھ برسوں پیشتر تک ضلع اعظم گڈھ کے زیرانتظام تھا ، اعظم گڈھ متعدد خصوصیات و امتیازات کے ساتھ ساتھ بڑامردم خیزواقع ہواہے، اس کی سرزمین سے بڑے بڑے اور نامورعلماء وفضلاء، محدث ومفسر، صحافی ومؤرخ ،ادیب وشاعر اورمدرس ومربی پیداہوئے جن کی علمی،دعوتی اوراصلاحی خدمات کے اثرات ہمیشہ محسوس کئے جاتے رہیں گے ،ان عبقری شخصیتوں میں مولانا محمد عبدالرحمن محدث مبارکپوری ،شیخ الحدیث مولاناعبیداللہ رحمانی مبارکپوری اورمولانا شبلی نعمانی وغیرہ کا نام بہ طور مثال لیا جاسکتا ہے، اورخاص وہ شہر’’ مؤ‘‘ جہاں ہمارے ممدوح ڈاکٹر ازہری رحمہ اللہ کی ولادت ہوئی اس کی خاک سے مولانا ابوالمکارم،مولانا محمداحمد ،مولانا عبدالعلی ،مولانا عصمت اللہ رحمانیؔ ، مولانا عبداللہ صاحب شائق،مولانا مفتی عبدالعزیز ،مولانا مفتی حبیب الرحمن،مولانا فیض الرحمن اور اردوکے نامورشاعر فضا ابن فیضی جیسی عبقری شخصیتیں پیدا ہوئیں جنھوں نے علوم وفنون کی بے مثال خدمات انجام دیں، اللہ تعالیٰ ان سب پررحم فرمائے اوران کی قبروں کو نورے سے بھردے۔(آمین)
ڈاکٹرصاحب رحمہ اللہ کی تعلیم کاآغاز انھیں کے محلہ ڈومن پورہ سے ہوا،جہاں بہت سارے اکابر علماء پیداہوئے ،ڈاکٹرصاحب رحمہ اللہ نے سب سے پہلے حفظ کلام اللہ کا شرف حاصل کیااوراس کی برکت سے مختلف علوم وفنون میں عروج وارتقاء کے منازل نہایت برق رفتاری سے طے کرتے ہوئے علم و فضل کے بلند وبالامقام پرپہونچ گئے، اورقلیل مدت میں تصنیف وتالیف، تدریس وتربیت اور بحث وتحقیق میں یکتائے روزگار ہوگئے، خودکئی اہم علمی ،ادبی اوراصلاحی کتابیں لکھیں عربی واردوکی متعدداہم کتابوں کے ترجمے کئے،تقریباً چالیس برسوں تک عربی واردومیں مسلسل مضامین لکھتے رہے اورساتھ ہی سیکڑوں کتابوں پر مقدمات وتقریظات تحریرفرمائے، اکابراہل علم موصوف سے اپنی کتاب کامقدمہ لکھانے میں فخرمحسوس کرتے تھے اورموصوف بھی ایسے علماء کی خواہشات پوری کرنے میں کسی حیل و حجت سے کام نہ لیتے تھے۔
میں ڈاکٹر ازہری رحمہ اللہ کوزمانہ طالب علمی سے جانتاہوں، جس زمانہ میں راقم مدرسہ فیض عام مؤ میں زیرتعلیم تھا ازہری صاحب بھی اس وقت وہیں طالب علمی کی زندگی گذاررہے تھے اورمجھ سے جونیئر تھے، ان دنوں مؤطلبہ کا مرجع اور علماء کا مرکزتھا، مولاناعبداللہ شائق، شیخ الحدیث مولانا شمس الحق سلفی، مولانامصلح الدین اعظمی، مولانا عبدالمعیدبنارسی،مولانا محمداحمد مؤی، مفتی حبیب الرحمن رحمہم اللہ جیسے نامور مدرسین وہاں موجودتھے اورپورے آب وتاب کے ساتھ علم کی روشنی بکھیررہے تھے۔
میرے فیض عام کے رفقاء درس میں مولانا مظہرحسن ازہری،مولانا امان اللہ فیضیؔ ( بہار) ، مولانا ابو مظہر اور مولانا ابوالمظفر وغیرہم قابل ذکر ہیں، جب کہ معاصرین میں مولانا عبد الرحمن مبارکپوری حفظہ اللہ مولانا صفی الرحمن مبارکپوری رحمہ اللہ ، شیخ محمد عطاء الرحمٰن مدنیؔ ،مولانا عبد الحمید رحمانیؔ اورڈاکٹرحافظ عبدالعلی مؤی وغیرہم لائق ذکرہیں، ان میں مولانا عبد الرحمن مبارکپوری کے سوا سب مجھ سے جونیئر تھے بلکہ مؤخر الذکر دونوں قابل قدر شخصیات مجھ سے کئی جماعت نیچے کی جماعتوں میں پڑھتے تھے، اس زمانہ میں ذہین، باذوق اورمتفوق طلبہ ہندوستان میں مدرسوں سے فراغت کے بعد مزید علمی تشنگی بجھانے کے لئے جامعہ ازہر مصرکارخ کرتے تھے، میرے بعض ساتھیوں اور معاصروں نے بھی ازہرجانے کا منصوبہ بنایا، مگرجن خوش بختوں کی قسمت نے یاوری کی اورجوازہرگئے وہ تینوں ہی اتفاق سے مؤ کی سرزمین سے تعلق رکھتے تھے(۱)ڈاکٹرمقتدی حسن ازہری رحمہ اللہ(۲) مولانامظہرحسن ازہری(۳)ڈاکٹر حافظ عبدالعلی ؍ حفظہما اللہ، میرے دل میں بھی حصول علم کا شوق تھا اورازہرجانے کی خواہش رکھتا تھا مگرزادِراہ میسرنہ ہونے کے سبب میری یہ آرزوپوری نہ ہوسکی، باقی میرے ان تینوں معاصر رفقاء کواللہ نے موقعہ دیا اورانھوں نے ازہر پہونچ کر اپنی صلاحیتوں کوچارچاند لگایا اورپھر علمی میدان میں نمایاں خدمات انجام دیں۔
ہمارے ممدوح ڈاکٹرازہری رحمہ اللہ جامعہ ازہرسے جب واپس وطن آئے توجامعہ سلفیہ بنارس کے بالغ نظر اورمردم شناس ناظم مولاناعبدالوحید سلفی رحمہ اللہ نے آپ کی خدمات حاصل کرنے میں کامیابی حاصل کی اور علمی، تدریسی، دعوتی، قلمی اورانتظامی صلاحیتوں کوپوری آزادی کے ساتھ اجاگر کرنے کے لئے انھوں ڈاکٹر صاحب کوجامعہ سلفیہ کا وقیع پلیٹ فارم دیا اورمحترم ازہری صاحب ناظم مرحوم کی آرزؤں کے مطابق جامعہ کی خدمت میں لگ گئے اور آخری سانس تک جامعہ کی متنوع خدمت انجام دیتے رہے۔
جس وقت ڈاکٹر مقتدی حسن ازہری جامعہ سلفیہ تشریف لائے وہ جامعہ کا بالکل ابتدائی دور تھا، ابھی اس کے قیام پرچند برس ہی گذرے تھے، علم و ادب کے اس گلشن کو ایک ہونہار ،جفاکش اور مخلص مالی کی ضرورت تھی اور اللہ نے اس کا انتظام ازہری صاحب کی شکل میں کرادیا،بلا شبہ جامعہ سلفیہ بنارس کوان کی تشریف آوری سے ایک نئی زندگی ملی اوراس کے عروج وترقی میں غیرمعمولی اضافہ ہوا ،موصوف نے عرب وعجم کے اندر جامعہ سلفیہ کومتعارف کرانے میں انتہائی نمایاں کرداراداکیا، عرب وعجم کی بہت ساری کانفرنسوں اورعلمی مجالس میں تشریف لے جاکر جامعہ کے شایانِ شان نمائندگی فرمائی،اور اس کے علمی شعبہ’’ادارۃ البحوث العلمیۃ‘‘ کی سرپرستی فرماکر اور عربی،اردب،انگریزی اور ہندی زبانوں میں سیکڑوں علمی،دعوتی اور تحقیقی کتابوں کی اشاعت کراکے جامعہ کے علمی وقار میں اضافہ کیا، اوریہ حقیقت ہے کہ جامعہ سلفیہ کو بام عروج تک لے جانے میں محترم ازہری صاحب کارول بڑااہم رہا ہے اور ان کے احسانات سے جامعہ کبھی بھی سبکدوش نہیں ہوسکتا۔
جامعہ سلفیہ میں چارسالہ قیام اوروہاں تدریسی فریضہ انجام دینے کے دوران ڈاکٹرصاحب رحمہ اللہ نے مجھ ناچیز کو اپنی عظیم عنایتوں اوراحسانوں سے نوازا جس کا میں صدق دل سے معترف ہوں اورآئندہ بھی تاحیات معترف واحسان مندرہوں گا اوران احسانات وعنایات کاشکریہ دعاکے ذریعہ کرتارہتاہوں ، غالبا ۱۹۷۳ ء کی بات ہوگی جب جامعہ سلفیہ بنارس نے تدریسی خدمت انجام دینے کیلئے مجھے اپنے یہاں آنے کی دعوت دی، جامعہ سراج العلوم جھنڈانگر کے ناظم اور میرے مشفق استاد خطیب الاسلام علامہ عبد الرؤف رحمانی رحمہ اللہ نے ایثار کرکے مجھے وہاں جانے کی اجازت اس شرط کے ساتھ دی کہ جب بھی بنارس سے آپ واپس ہوں گے تو جامعہ سرا ج ا لعلوم میں ہی آنا ہوگا، بہر حال میں جامعہ سلفیہ بنارس گیا مگر وہاں کی آب و ہوا مجھے راس نہ آسکی،بلڈ پریشر کاعارضہ لاحق ہوگیا اور جسم میں فیلیا کااثر بھی ظاہر ہوا اور بالآخر چار سال کے بعد مجھے بنارس سے جھنڈانگر واپس آنا پڑا،جامعہ سلفیہ میں چار سالہ قیام کے دوران ڈاکٹر صاحب ہمہ وقت میری ہمت افزائی کرتے اور میرا حوصلہ بڑھاتے رہتے ، چنانچہ تفسیر بیضاوی اور منطق کی قدرے مشکل کتاب قطبی پڑھانے کے لئے اساتذہ جلدی تیار نہ ہوتے تھے، ازہری صاحب نے میرا نام لیا ،میں پرانے مدرسین جن میں کئی ایک میرے استادبھی تھے ان کے سامنے ان کتابوں کے پڑھانے کی حامی کیسے بھرتا لیکن ازہری صاحب نے پورے اعتماد اور وثوق سے جب یہ کہا کہ’’ کیا آپ وہی عبد الحنان نہیں ہیں جو فیض عام میں تھے‘‘ تو ان کی اس بات سے مجھے قوت ملی اور ان کتابوں کی تدریس اپنے ذمہ لی اور تفسیر بیضاوی چاروں سال پڑھاتا رہا اور پھر جب جامعہ سراج العلوم واپس آیا تو تقریبا بائیس چوبیس سال تک اسے پڑھاتا رہا، تین چار سال قبل جب تفسیر بیضاوی نصاب سے خارج کی گئی تو اس کی تدریس کا سلسلہ موقوف ہوا۔
جامعہ سلفیہ میں علالت کے دوران ڈاکٹر صاحب میری ہرطرح سے ہمہ وقت ہمت افزائی فرماتے اوربرابر مجھے تسلی ودلاسہ دیتے، کبھی کبھار کلاس میں آجاتے اورفرماتے تھوڑا پڑھایئے، زیادہ محنت نہ کیجئے، اگرمشکل معلوم ہوتوکلاس ہی میں نہ آیئے،ایک بارکسی امتحان کے بعد چھٹی ہورہی تھی، جامعہ کے ذمہ داران نے اساتذہ پر پابندی عائد کررکھی تھی کہ کوئی بھی استادامتحانی کاپیاں چیک کئے بغیر گھر نہ جائیں گے، اس فیصلہ سے مجھے سخت الجھن تھی ، میں اپنی علالت کے سبب جلد از جلد گھر اپنے بچوں میں پہونچنا چاہتا تھا،اس کی خبر ازہری صاحب کو ہوئی، انھوں نے کہا کہ اپنی ساری کاپیاں مجھے دیجئے اور آپ اطمینان سے گھر جائیے، چنانچہ میرے اس محسن نے سیکڑوں کی تعداد میں میری امتحانی کاپیاں چیک کیں، اللہ تعالیٰ انھیں جزائے خیر دے، اہل علم کی قدر دانی،ہمت افزائی اور ان کی معاونت درحقیقت ازہری صاحب کی زندگی کا ایک نمایاں باب ہے۔
ڈاکٹرازہری کے خسراورحضرت مولانا محمدصاحب حفظہ اللہ کے والدمحترم مولانا عبدالعلی رحمہ اللہ چھ سال تک میرے ممتحن رہے ہیں، جماعت ثالثہ سے ثامنہ تک میراامتحان لیتے رہے،موصوف انتہائی باصلاحیت اورلائق وفائق استاذاورجامع العلوم والفنون تھے ،مولانا محمد صاحب بھی اکابرعلماء اہل حدیث میں سے ہیں اورخوشی ہے کہ ان کے فرزندگرامی مولانااسعد اعظمی بھی علم وتحقیق کے میدان میں نمایاں مقام حاصل کرچکے ہیں اور جامعہ سلفیہ میں اپنے ماموں ازہری صاحب کے کاموں کو دیکھ رہے ہیں۔
یہ چندتاثرات تھے جوبہ مشکل ضبط تحریرمیں لے آئے گئے، اللہ تعالیٰ ازہری صاحب کی مغفرت کرے اوران کی خدمات کوان کے لئے صدقۂ جاریہ بنائے۔(آمین)
***

ڈاکٹرمقتدیٰ حسن ازہری کی حیات وخدمات کا مختصرجائزہ apr-jul 2010

عبدالمنان سلفیؔ
ڈاکٹرمقتدیٰ حسن ازہری کی حیات وخدمات کا مختصرجائزہ
۱۴۳۰ھ ؁ مطابق ۲۰۰۹ء ؁ کو مادرعلمی جامعہ سلفیہ بنارس اوراس کے ذمہ داران،اساتذہ،طلبہ اورفارغین کے لئے اگر عام الحزن قراردیا جائے توشاید بیجانہ ہوکہ اس سال جامعہ کے کے تین باکمال اورنامور اساتذہ یکے بعد دیگرے رحلت فرماگئے، سب سے پہلے ۹؍مئی ۲۰۰۹ء ؁ کو رئیس المصنفین والمحققین حضرۃ الاستاد مولانا محمدرئیس ندوی رحمہ اللہ کی رحلت کا سانحہ پیش آیا اورکچھ دنوں بعد جامعہ کے قدیم اور علوم عقلیہ ونقلیہ کے ماہر مدرس استاذ گرامی مولانامحمدعابد رحمانی رحمہ اللہ کی وفات کے صدمہ سے ہم دوچارہوئے اور۳۰؍اکتوبر ۲۰۰۹ء ؁ بروزجمعہ جامعہ سلفیہ کے صدر، وکیل الجامعہ، مشفق مدرس ومربی اورآسمان صحافت کے نیرتاباں اورمیدان تصنیف وتالیف وترجمہ کے شہسوار مفکرجماعت علامہ ڈاکٹر مقتدیٰ حسن ازہری رحمہ اللہ کی وفات کا صدمہ ہم سب کو سہناپڑا، یہ تینوں گرامی قدر شخصیات اپنے اپنے طورپر ملت وجماعت کا قیمتی سرمایہ تھیں، ان کی زندگی میں ممکن ہے کچھ لوگ ان کی اہمیت پورے طورپر محسوس نہ کرسکے ہوں مگر اب ہرچہارجانب دوردورتک نظردوڑانے پر ان کا نعم البدل توکجا بدل بھی دکھائی نہیں دیتا، اللہ تعالیٰ ان سب کی بال بال مغفرت فرمائے۔(آمین)
استاذمحترم ڈاکٹرمقتدیٰ حسن ازہری رحمہ اللہ کی شخصیت بڑی ہمہ جہت اوران کی خدمات کادائرہ بڑا وسیع ہے، اس لئے اس مختصر مضمون میں ان کی زندگی کے تمام پہلوؤں پرروشنی ڈالنا اورتمام خدمات کا مفصل تذکرہ ناممکن ہے ،تاہم اختصار کے ساتھ آپ کی حیات وخدمات کا ایک جائزہ پیش کرنے کی کوشش کی جارہی ہے ،واللہ الموفق۔
ولادت ،تاریخ پیدائش اورخاندانی پس منظر:۔ڈاکٹر ازہری رحمہ اللہ کی پیدائش شمال مشرقی ہندوستان کے معروف صنعتی قصبہ مؤ ناتھ بھنجن میں ۸؍اگست ۱۹۳۹ء ؁ میں ہوئی، مؤناتھ بھنجن اولاً ضلع اعظم گڈھ کے تحت ایک معمولی قصبہ تھا پھربہت جلد صنعت وحرفت میں ترقی کرکے اس نے ایک بڑے قصبہ کی حیثیت پائی اورتھوڑے ہی دنوں بعدیہ ایک شہر کے طورپر متعارف ہوا اوراسے اعظم گڈھ سے علیحدہ کرکے ضلع کی حیثیت دے دی گئی۔
مؤناتھ بھنجن شروع ہی سے مختلف امتیازات وخصوصیات کا حامل رہا ، یہ مقام کپڑوں کی بُنائی خصوصاً ساڑیوں کی صنعت میں عالم گیر شہرت رکھتا رہا ہے، یہاں ہرمسلک اورنظریہ کے عربی اوراسلامی مدرسوں کی کثرت ہے، تیس چالیس برس قبل جب اس کی حیثیت ایک قصبہ سے زیادہ نہ تھا تب بھی یہاں صرف اپنی جماعت اہل حدیث کے کم ازکم تین ادارے پورے آب وتاب کے ساتھ علم کی نشر واشاعت میں مصروف تھے اورہرسال یہاں سے سیکڑوں علماء دستار فضیلت لے کر اپنے اپنے گھروں کو واپس جاتے تھے، اوراب توجماعتی اورغیرجماعتی تعلیمی اداروں کی تعداد پہلے سے بھی زیادہ ہے، ان مدارس کی برکت سے مؤناتھ بھنجن ماضی قریب میں جماعت کے نامور مدرسین کامرکز رہا ہے اورجس زمانہ میں اس سرزمین پرمولاناعبداللہ شائق مؤی، مولاناشمس الحق سلفی، مولانا عبدالمعید بنارسی اورمولانا مصلح الدین اعظمی رحمہم اللہ جیسے اساطین فن اپنے علمی فیوض کی سوغات لٹارہے تھے واقعی یہ قصبہ’’ بغداد ہند‘‘ کہلانے کا مستحق تھا، مؤناتھ بھنجن اوریہاں کے مسلمانوں کی اپنی ایک علیحدہ شناخت رہی ہے وہ اپنی تہذیب وثقافت ،بول چال، وضع قطع اور رکھ رکھاؤ میں ایک خاص پہچان بنائے ہوئے تھے، لنگی ،کرتا اورخاص قسم کی ٹوپی ان کی پوشاک تھی اوراپنے اس خاص لباس کے سبب یہ ہرجگہ پہچان لئے جاتے تھے، ان جملہ خصوصیات کے ساتھ مؤناتھ بھنجن مردم خیز بھی رہا ہے اوراس کی خاک سے بڑے بڑے علماء فضلاء، محدثین ومفسرین،محققین ومصنفین، ادباء وشعراء نے جنم لیاہے اورعلم کی خدمت میں ان کے نام سرفہرست لکھے جاتے ہیں۔
گوناں گوں امتیازات کے حامل اس مردم خیز شہرمیں ڈاکٹرازہری رحمہ اللہ نے ایک سیدھے سادے موحد خاندان میں آنکھیں کھولیں، آپ کے والد الحاج محمدیٰسین رحمہ اللہ کوئی عالم فاضل شخص تونہ تھے مگردین پسندی اورعلماء نوازی کی خوبی ان کے اندر ضرورتھی،مجھے یاد پڑتاہے کہ مولانا مختاراحمد ندوی رحمہ اللہ سابق امیرمرکزی جمعیت اہل حدیث ہند نے ایک موقعہ پر ’’البلاغ‘‘ کے خصوصی کالم ’ ’مشاہدات‘‘ میں مؤ اور اہالیان مؤکاتذکرہ کرتے ہوئے ایک جلسہ کا بھی ذکرکیا تھا جس میں شیرپنجاب فاتح قادیان علامہ ثناء اللہ امرتسری رحمہ اللہ کی تشریف آوری ہورہی تھی، اسٹیشن سے قیام گاہ تک مولانا کو لانے کے لئے اس زمانہ میں کسی معقول سواری کا انتظام نہ تھا تو ایک بگھی تلاش کی گئی اورمولانامختاراحمد ندوی کے والد اورڈاکٹر ازہری کے والد (رحمہم اللہ) نے گھوڑے کے بجائے خوداسے کھینچ کراسٹیشن پہونچایا اوراس پرسوار کرکے مولاناکو قیام گاہ تک لائے۔
ڈاکٹرصاحب کے دادیہال میں توکوئی عالم دین نہ تھے تاہم آپ کے نانا مولانا محمدنعمان رحمہ اللہ شیخ الکل فی الکل میاں سیدنذیرحسین محدث دہلوی رحمہ اللہ کے آخری دورکے تلامذہ میں سے تھے نیزاردو کے پہلے ناول نگار ڈپٹی نذیر احمد کے شاگردتھے اورجنوبی ہندکے عمرآبادکو جنھوں نے اپنی دعوت وتعلیم کا مرکز بنایا تھا، والدہ بھی کسی حد تک تعلیم یافتہ ،وسیع المطالعہ اور دوراندیش خاتون تھیں، انھیں بزرگوں کے زیرسایہ ازہری رحمہ اللہ کی نشوونما ہوئی۔
تعلیم:۔ازہری صاحب کی تعلیم کا آغاز ان کے محلہ میں واقع جماعت کے قدیم ترین ادارہ جامعہ عالیہ عربیہ سے ہوا، اورحفظ قرآن کی تکمیل ۱۹۵۲ء ؁ میں مرزاہادی پورہ مؤمیں واقع معروف دیوبندی تعلیمی ادارہ دارالعلوم مؤکی شاخ سے کیا، اورعربی کی ابتدائی جماعتوں کی تعلیم مدرسہ عالیہ عربیہ میں حاصل کی، اس دورمیں فیض عام بڑے بڑے مشائخ اورنامور مدرسین کا مرکز تھا، آپ نے فیض عام کا رخ کیا اوروہاں کے اساتذہ سے کسب فیض کیا مگرتکمیل ۱۹۶۲ء ؁ میں مولانا عبداللہ شائق مؤی کے زیر تربیت جامعہ اثریہ دارالحدیث سے کیا جسے مولاناشائق نے فیض عام سے علیحدہ ہونے کے بعد قائم کیا تھا، اسی دوران موصوف نے عربی فارسی بورڈ الہ آباد سے مولوی، عالم اور فاضل وغیرہ کے امتحانات بھی اچھے نمبرات سے پاس کئے۔
جامعہ ازہرمصرکا رخ:۔ ازہری صاحب نے فراغت کے بعدکچھ دنوں تک مؤمیں تدریسی خدمت انجام دی، اور۱۹۶۳ء ؁ میں آپ نے جامعہ ازہرمصر کا رخ کیا، ان دنوں سعودی عرب اوردیگر خلیجی عرب ممالک میں اس انداز کے جامعات نہ تھے جیسے اب ہیں، اس لئے ہندوستان کے ذہین اورباذوق طلبہ مزید علمی تشنگی بجھانے کے لئے اپنے خاص اخراجات پر جامعہ ازہر مصرجاتے تھے، بہرحال ڈاکٹر ازہری رحمہ اللہ کو مصر جانے میں کامیابی ملی، جامعہ ازہر کے کلیہ اصول الدین میں آپ کا داخلہ ہوا اوروہاں رہ کرآپ نے ایم. اے.کی سند حاصل کی، دوبرس تک آپ نے قاہرہ ریڈیوکے شعبۂ اردومیں اناؤنسر اورمترجم کے فرائض بھی انجام دئے، آپ ازہر ہی سے ڈاکٹریٹ کا کورس بھی مکمل کرناچاہتے تھے مگربعض اسباب کی وجہ سے آپ کی یہ خواہش پوری نہ ہوئی اور۱۹۶۷ء ؁ میں آپ ہندوستان واپس تشریف لے آئے، اورجامعہ سلفیہ بنارس جوابھی نیانیا قائم ہواتھا اس سے وابستہ ہو کر علمی، دعوتی اورتدریسی خدمات کی انجام دہی میں لگ گئے۔
ڈاکٹریٹ کی ڈگری:۔ جامعہ سلفیہ بنارس میں اپنی دعوتی، صحافتی اورتصنیفی خدمات انجام دینے کے دوران ۱۹۷۲ء ؁ میں مسلم یونیورسٹی علی گڈھ کے شعبہ عربی میں ایم.فل. میں داخلہ لیا اوراس کی تکمیل کے بعد ۱۹۷۵ء ؁ میں ڈاکٹریٹ کی اعلیٰ ڈگری حاصل کی، ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کرنے کے لئے آپ نے ابن عبدالبر قرطبی کی ’’أحادیث بہجۃ المجالس‘‘ جلدثانی کی تخریج وتحقیق کی اور۷۰۰ صفحات پرمشتمل اس مقالہ میں کتاب کی تحقیق وتخریج کے ساتھ کتاب کی دونوں جلدوں کی فہرست سازی کی۔
ممتازاساتذہ:۔ ڈاکٹرازہری رحمہ اللہ نے اپنے تعلیمی مراحل میں جن اساتذہ کرام سے کسب فیض کیا ان میں چندممتاز اورنامور اساطین علم وفن کے اسماء یہ ہیں :مولانا عبدالعلی صاحب،مولانا عبدالمعید بنارسی، مولانا عبدالرحمن صاحب، مولانامفتی حبیب الرحمن فیضی، مولانا عبداللہ شائق ،مولانا شمس الحق سلفی، مولانا عظیم الدین مؤی، ڈاکٹرعلی عبدالواحد وافی، ڈاکٹر شوقی ضیف وغیرہم۔
عملی زندگی اورہمہ جہت خدمات:۔ ۱۹۶۷ء ؁ میں ڈاکٹر ازہری رحمہ اللہ جب مصرسے ہندوستان واپس آئے توجامعہ سلفیہ بنارس میں تعلیمی افتتاح کا یہ دوسرا سال تھا، جامعہ سلفیہ بنارس کے بالغ نظرناظم مولانا عبدالوحید سلفی رحمہ اللہ کی مردم شناس نگاہ نے ڈاکٹر ازہری کی خفیہ صلاحیتوں کو تاڑلیا اوراس گلشن رسول کی آبیاری کے لئے آپ کو منتخب کرلیا اورآپ کی خدمات حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئے، ڈاکٹر ازہری رحمہ اللہ کو بھی اپنی صلاحیتوں کو اجاگر کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ نے جامعہ سلفیہ بنارس کی شکل میں ایک باوقار پلیٹ فارم عطاکیا اور موصوف جامعہ سلفیہ کی خدمت میں جی جان سے جٹ گئے، تدریس کے ساتھ تصنیف وتالیف اورترجمہ کا سلسلہ بھی شروع ہوا، اورجب ۱۹۶۹ء ؁ میں جامعہ سے عربی ماہنامہ نکالنے کافیصلہ ہوا توآپ کو اس کا مدیرمسؤل منتخب کیا گیا اورشیخ الجامعہ استاذ محترم مولانا عبدالوحید سلفی رحمہ اللہ آپ کے معاون مقررکئے گئے، پھرجب آپ کی سربراہی میں علمی کاموں کااورجامعہ سے کتابوں کی اشاعت کا سلسلہ شروع ہوااوراس مقصدسے ادارۃ البحوث العلمیہ کا قیام عمل میں آیا توآپ اس کے ڈائریکٹر اورنگراں مقررکئے گئے،اسی طرح جامعہ کے تعلیمی وتربیتی نظام کو بہترسے بہتربنانے اورملک وبیرون ملک جامعہ کے تعارف کے لئے آپ کو وکیل الجامعہ کا منصب تفویض کیا گیا، اس طرح اپنی زندگی کا ایک ایک لمحہ ڈاکٹرصاحب نے جامعہ کی خدمت کے لئے وقف کردیا، ذیل میں آپ کی بعض نمایاں خدمات پر روشنی ڈالی جارہی ہے۔
تدریسی خدمت:۔ ڈاکٹر ازہری رحمہ اللہ نے ۱۹۶۸ء ؁ سے باقاعدہ جامعہ سلفیہ بنارس میں عربی ادب کے استاد کی حیثیت سے تدریس کا آغاز کیا اورپورے تسلسل کے ساتھ عالمیت فضیلت اورتخصص کے مراحل میں اہم کتابوں کادرس دیتے رہے، تاریخ الادب العربی ،البلاغۃ الواضحۃ، مقدمہ ابن خلدون اور المعلقات السبع جیسی کتابیں ہم لوگوں نے آپ سے پڑھی ہیں، آپ کے اندر ایک اچھے مدرس کی تمام ترصلاحیتیں موجودتھیں، وقت کی پابندی آپ کا امتیازی وصف تھا، مختلف علمی وانتظامی امورکے ہجوم کے باوجود گھنٹی کا وقت ہوتے ہی درس گاہ میں تشریف لے جاتے، پورے عالمانہ وقارسے طلبہ کو پڑھاتے ،تساہلی اورغفلت پر طلبہ کی سرزنش کرتے اور وقتاً فوقتاً نصیحت کے موتی لٹاتے،تقریباً ۴۰؍برسوں تک موصوف تدریس سے وابستہ رہے، دارالحدیث سے فراغت کے بعدفیض عام میں بھی کچھ دنوں تک اورڈاکٹریٹ کا مقالہ لکھنے کے دوران مسلم یونیورسٹی میں بھی کم وبیش ایک برس تدریس کا فریضہ انجام دیا۔
علمی ،فکری اورعملی تربیت:۔ جامعہ سلفیہ بنارس میں طویل المیعاد تدریسی فریضہ کی انجام دہی کے ساتھ ڈاکٹرازہری نے طلبہ کی علمی وعملی تربیت پر خصوصی توجہ دی اورطلبہ کی خفیہ صلاحیتوں کو بیدارکرنے کی قابل قدرکاوش فرمائی، کلاس روم سے لے کر مسجد تک آپ طلبہ کی نقل وحرکت پرنظررکھتے تھے،طلبہ کی انجمن ’’ندوۃ الطلبہ‘‘ کی کارکردگی کو زیادہ سے زیادہ موثر بنانے کے لئے آپ نے روایتی خطابت وصحافت کے ساتھ ساتھ ثقافتی پروگرام منعقد کرنے پر بھی توجہ دلائی اوراس کے خوش گوار اثرات سامنے آئے، طلبہ کو عربی لکھنے اوربولنے کی ہمیشہ نصیحت فرماتے اوراس سلسلہ میں حوصلہ افزائی فرماتے، جن طلبہ کا میلان صحافت وانشاء پردازی کی جانب ہوتا انھیں باقاعدہ تربیت دیتے، لکھنے کا سلیقہ سکھاتے، ان کے عربی واردومضامین شائع کراتے، ازہری صاحب کے حوالہ سے بعض لوگوں نے یہ لکھ دیا ہے کہ وہ سخت گیرتھے لیکن میرے خیال میں وہ سخت گیر نہیں بلکہ ایک اصول پسند اورمشفق استاد ومربی تھے اورسب کو وہ بااصول زندگی گزارتے دیکھنا پسند کرتے تھے، یہی وجہ ہے کہ جب کوئی ان کے سامنے اصول سے انحراف کرتا توفطری طورپرانھیں یہ ناگوارخاطرگزرتا اورپھر کسی قدرخفگی کابھی مظاہرہ ہوجاتا اورہم طلبہ کو خاص طورسے ’’پڑھے لکھے جاہل ہونے ‘‘کی سندمل جاتی ۔
ڈاکٹر ازہری رحمہ اللہ طلبہ کی فکری تربیت کے لئے بھی ہمیشہ کوشاں رہے، کتاب وسنت سے منحرف جماعتوں اور تحریکوں کے مسموم اثرات سے اپنے طلبہ کو محفوظ رکھنے کے لئے وقتاً فوقتاً محاضرات اوردروس بھی دیتے، درسگاہ میں کبھی اس تعلق سے کوئی بات آجاتی تو ان نظریات کی فکری کج روی کی وضاحت تفصیل کے ساتھ طلبہ کے سامنے پیش کرتے، انھیں ایسی کتابوں کے مطالعہ کرنے کی ترغیب دیتے جن سے منہج سلف کی وضاحت ہوتی۔
طلبہ کی عملی تربیت میں ازہری صاحب بلاشبہ سخت گیرتھے ،وہ علم کے میدان طلبہ کی جانب سے ہونے والی سستی اورغفلت کو کسی حد تک انگیز کرلیتے تھے مگران کی عملی کمزوری کو کسی قیمت پر گوارہ کرنے کے قائل نہ تھے،ان کا کہنا تھا چند باعمل علماء تیار کرنا بے عمل مولیوں کی کھیپ تیار کرنے سے بدرجہا بہترہے، ازہری صاحب نماز باجماعت کے سخت پابند تھے اذان کے معاً بعد مسجد میں تشریف لے آتے، تکبیراولیٰ کے ساتھ وہ نماز اداکرتے، وہ چاہتے تھے کہ سارے طلبہ بھی اسی کا التزام واہتمام کریں۔
دعوت وتبلیغ:۔دعوت وتبلیغ کے وسیع مفہوم کے اعتبارسے ازہری صاحب کی پوری زندگی تدریس، مضمون نگاری اور تصنیف وتالیف میں گذری تاہم جلسہ جلوس اوردعوتی پروگراموں کی شرکت کے اعتبارسے بھی موصوف کبھی کبھاراس کے لئے وقت نکال لیتے تھے، اس میدان میں سرگرم شمولیت کے سبب چونکہ آپ کے علمی کاموں کے متاثرہونے کا اندیشہ تھا اس لئے وقتاً فوقتاً بعض اہم اہم دعوتی جلسوں میں شرکت فرماتے تھے، اورموقعہ کی مناسبت سے خطاب کرتے تھے، آپ کا خطاب مدلل اورعلمی ہونے کے باوجود عام فہم ہوتا تھا اور عوام وخواص سبھی مستفید ہوتے تھے۔
زمانہ طالب علمی میں استاذ محترم مولانا محمدرئیس ندوی رحمہ اللہ کے گاؤں بھٹیا ضلع سدھارتھ نگر میں ایک جلسہ تھا جس میں شرکت کی منظوری ڈاکٹرصاحب نے دے رکھی تھی، جلسہ کے انتظام وانصرام کے لئے ندوی صاحب رحمہ اللہ دوایک روز قبل گھرچلے آئے تھے اورڈاکٹرازہری رحمہ اللہ اوربعض بنارسی بزرگوں کو جلسہ میں لانے کی ذمہ داری میرے سپرد تھی، غالباًیہ ۱۹۷۸ء ؁ یا اس کے آس پاس کی بات ہوگی، بذریعہ بس ہم نے بنارس سے سفر شروع کیا، جس بس پرہم بیٹھے وہ براہ راست بھٹیا سے متصل قصبہ بلوہا ہوتے ہوئے بانسی اورککرہوا جاتی تھی مگر اعظم گڈھ سے پہلے ہی وہ بس خراب ہوگئی، دوسری بس سے گورکھپور اورپھروہاں سے تیسری بس سے ہم شب کو۸،۹ بجے بلوہا پہونچے، استقبال کرنے والے مایوس ہوکرجاچکے تھے ،وہاں سے بھٹیا کی مسافت چھ سات کیلو میٹر سے کم نہ تھی، راستہ بھی نامانوس اورانجانا تھا، تاہم ڈاکٹر صاحب پیدل چلنے کے لئے تیار تھے ، مگر راستہ کی رہنمائی کرنے والا کوئی نہ تھا، میں چہل قدمی کرتے ہوئے سڑک پرآگے بڑھا توپولیس اسٹیشن نظرآیا صحن میں تھانہ انچارج کرسی لگائے بیٹھے تھے ،میں بلا جھجھک ان کی خدمت میں حاضرہوگیا، اورآداب عرض کرنے کے بعد انھیں جب صورت حال سے آگاہ کیا اوربتایا کہ ایک بڑے عالم کو میں بھٹیا جلسہ میں لے جاناچاہتا ہوں اوراس کے لئے آپ سے مددکی درخواست کررہا ہوں توکمال مروت کا مظاہرہ کرتے ہوئے ایس. او.صاحب میرے ہمراہ ازہری صاحب کے پاس آئے اور علیک سلیک کے بعدکہا کہ مجھے افسوس ہے کہ اس علاقہ میں آپ کو زحمت ہورہی ہے اگر آپ یہاں رات گذارنا چاہیں توآپ حضرات کے لئے قیام وطعام کا مناسب انتظام کیا جاسکتاہے، اس لئے کہ ہمارے پاس کوئی سواری نہیں ہے اوراگر پیدل ہی جانا چاہتے ہیں تومیں آپ کی رہنمائی اورحفاظت کے لئے دوہوم گارڈ س کو آپ کے ہمراہ کردیتاہوں وہ آپ کو آپ کی منزل تک چھوڑآئیں گے، ازہری صاحب نے ایس. او. صاحب کا شکریہ اداکیا اورفرمایا کہ مجھے اپنے لوگوں کے ہمراہ ہی جانے دیجئے ،چنانچہ فوراً ہمارے سامان ہوم گارڈس نے سائیکلوں پر باندھا اورشب کے ۹؍بجے کے بعد ہمارا قافلہ بھٹیا روانہ ہوا ازہری صاحب کے علاوہ اس قافلہ میں ندوی صاحب رحمہ اللہ کے دو بنارسی عقیدت مند بزرگ بھی تھے ان میں ایک تو جامعہ کے مخلص کارکن تھے جنھیں لوگ ماما کہہ کرپکارا کرتے تھے جو بلامعاوضہ جامعہ کی دیکھ بھال میں بڑے سرگرم تھے، دوسرے بزرگ کا نام ذہن میں نہیں ہے،بہرحال ازہری صاحب اوریہ دونوں بزرگ رات کے اندھیرے میں پیدل بھٹیا کی جانب چل پڑے، ہوم گارڈس آگے آگے چلے اورہمارے ممدوح اوربنارسی بزرگان درمیان میں ہوئے اورمیں ان کے پیچھے چلتارہا ،کچھ دورچلنے کے بعد اتفاق سےP.W.D. کا ایک ٹرک ہمارے ہی راستے پر جاتے ہوئے مل گیا، ہوم گارڈس نے اس پرہمیں سوار کرادیا اور ہم کسی طرح افتاں وخیزاں ناہموارراستہ پر ٹرک کے پچھلے حصہ میں کھڑے ہچکولے کھاتے بھٹیا کے قریب پہونچ گئے اور اتر کرجلسہ گاہ کا رخ کیا اورہمارے رہنما ہوم گارڈس حضرات ہمارے سامان کے ساتھ کچھ دیر بعد وارد ہوئے ، اس دعوتی سفرمیں ہمارے ممدوح ڈاکٹر ازہری رحمہ اللہ کوظاہرسی بات ہے بے پناہ زحمت ہوئی مگر آپ نے اس کا اظہار نہ کیا بلکہ سیدھے جلسہ گاہ اوراسٹیج پر پہونچے ،اگلے دن آپ نے جلسہ گاہ میں جمعہ کا خطبہ اسلام کی آفاقیت کے موضوع پر دیا ،خطبہ بڑا وقیع اوربلیغ تھا اورہرعام وخاص کو متاثرکرنے والاتھا، شام کو اجلاس عام کی صدارت بھی فرمائی اور بڑی پُرمغز تقریرفرمائی۔
جیساکہ پہلے لکھا گیاہے کہ ازہری صاحب جلسہ جلوس کے آدمی نہ تھے تاہم کبھی کبھار دعوتی اجتماعات اور تبلیغی جلسوں میں شرکت بھی فرماتے تھے، میرے اپنے علم کے مطابق اس سلسلہ میں موصوف نے بہار،بنگال، جھارکھنڈمہاراشٹر(ممبئی) اوریوپی کے متعدد خطوں اورعلاقوں کا سفر کیاتھا۔
جون ۲۰۰۹ء ؁ میں جمعیت اہل حدیث ممبئی کے امیرمحترم مولانا عبدالسلام سلفی نے اپنے آبائی ضلع سدھارتھ نگر(نوگڈھ) کی تین بستیوں میں یکے بعددیگرے سلسلہ وار دعوتی جلسوں کا اہتمام کیاتھا، ڈاکٹرازہری نے موہانہ چوراہا اورمسلم انٹرکالج مہدیا میں منعقدہوئے پروگراموں میں بہ حیثیت صدرشرکت کی تھی اور بڑا جاندارخطاب کیا تھا۔
دعوتی اجتماعات کے علاوہ آپ جمعہ اور عیدین کے خطبات کا بھی اہتمام کرتے تھے، جمعہ کے خطبات کسی خاص مسجد میں بالالتزام دینے کا اہتمام تونہ تھا تاہم عیدین کے خطبات آپ اپنے آبائی وطن مؤکے محلہ ڈومن پورہ کی عیدگاہ میں پابندی سے دیاکرتے تھے۔
علمی کانفرنسوں اورسمیناروں میں شرکت:۔ ڈاکٹر ازہری رحمہ اللہ بالغ نظرعالم دین تھے اس لئے انھیں قومی اوربین الاقوامی علمی کانفرنسوں اورسمیناروں میں مدعوکیا جاتاتھا اورآپ ان پروگراموں کی اہمیت کے پیش نظر ملک وبیرون ملک سفر کی زحمت بھی گوارہ فرماتے تھے اوراپنے محاضرات ومقالات کے ذریعہ شرکاء کو فیض پہونچاتے تھے، اکثرکانفرنسوں میں آپ میر مجلس مقررہوتے اورصدر کی باوقار کرسی کی زینت بنتے، شیخ اسعداعظمی حفظہ اللہ نے صوت الامۃ کے جلد نمبر(۴۱)شمارہ نمبر(۱۱) میں دودرزن سے زائداہم مؤتمرات وندوات کا ذکرکیاہے جن میں آپ کی شرکت ہوئی۔
تصنیف وتالیف وترجمہ:۔ ڈاکٹرازہری رحمہ اللہ کا اصل میدان تصنیف وتالیف ہی تھا، موصوف نے مکمل تخطیط اورمنصوبہ بندی کے ساتھ یہ علمی خدمت انجام دی اور اپنی گراں قدر تصنیفات وتالیفات کے ساتھ ساتھ ناموراہل علم کی کتابوں کے ترجمے بھی کئے، یہ موضوع تفصیل طلب ہے بلکہ اس لائق ہے کہ اس پرباقاعدہ کتابیں اورتحقیقی مقالات لکھے جائیں، لہذا اس تعلق سے زیادہ کچھ نہ کہتے ہوئے صرف آپ کی تصنیفات وتالیفات اورتراجم کا اجمالی تذکرہ کیاجارہا ہے اس سے آپ کی قدآور علمی شخصیت کا اندازہ اہل نظر لگاسکیں گے۔
ڈاکٹرازہری رحمہ اللہ کے بھانجے اورتربیت یافتہ برادر فاضل جناب شیخ اسعدالاعظمی نے ’’صوت الامۃ‘‘کے ذوالقعدہ ۱۴۳۰ھ کے شمارہ میں آپ کی تصنیفات، تحقیقات اورعربی واردو ترجموں کا اجمالی ذکرکیاہے اس کے مطابق آپ کی مستقل عربی واردو تصنیفات کی تعداد (۱۷) تحقیقات وتعلیقات وتہذیبات کی تعداد(۵) اورفارسی یا اردوکی معرب کتابوں کی تعداد(۱۴) اورعربی سے اردومیں مترجم کتابوں کی تعداد(۸) ہے،اس طرح ڈاکٹرصاحب کے علمی انتاجات کی مجموعی تعداد (۴۴) ہوئی، ان میں آپ کی تالیف تاریخ ادب عربی(پانچ جلدیں) خاتون اسلام،نیز ابن تیمیہ کی ’’اقتضاء الصراط المستقیم‘‘ شیخ محمد بن عبدالوہاب نجدی کی ’’مختصر زادالمعاد‘‘، علامہ قاسمی کی ’’اصلاح المساجد‘‘ کے اردوترجمے نیز قاضی محمد سلیمان سلمان منصورپوری کی اردوتالیف’’ رحمۃ للعالمین ‘‘،شاہ ولی اللہ محدث دہلوی کی’’ قرۃالعینین بتفضیل الشیخین أبی بکروعمر‘‘ او رنواب صدیق حسن خاں کی’’ الاکسیرفی اصول التفسیر‘‘ مولانامحمداسماعیل گجرانوالہ کی کتاب تحریک آزاد�ئ فکر اورشاہ ولی اللہ کی تجدیدی مساعی نیز حجیت حدیث کے عربی ترجمے بڑی اہمیت کے حامل ہیں اورمحققین اہل علم نے ان خدمات کو خراج تحسین پیش کیا ہے۔
ان تصنیفات ،تحقیقات وتراجم کے علاوہ آپ نے ۸۰۰ سے زائد علمی مقالات تحریر فرمائے ہیں جن میں تقریباً ۴۰۰سے زائد کتابوں پر آپ کے لکھے گئے مقدمے بھی شامل ہیں۔
آپ کے ان ٹھوس علمی کاموں کو دیکھ کرتعجب ہوتاہے کہ تدریسی وانتظامی امورمیں باقاعدہ مصروف رہنے والی شخصیت کو ان کاموں کی فرصت کیسے ملی ہوگی، لیکن جس نے آپ کوقریب سے دیکھا ہے وہ اس بات کی شہادت دیں گے کہ اللہ کے فضل وکرم کے بعداس میں سب سے زیادہ دخل آپ کی مسلسل محنت اورمنصوبہ بندکاوش کا ہے، آپ پوری پلاننگ اور تخطیط کے ساتھ اپناہرکام انجام دیتے تھے اور کبھی ایک لمحہ بھی ضائع نہ کرتے تھے۔
صحافت:۔ مستقل تصنیف وتالیف وعربی اردوترجموں کے ساتھ ساتھ آپ نے طویل المدت صحافتی خدمات بھی انجام دیں اورعربی واردو دونوں زبانوں میں آپ نے کم وبیش ۴۱برسوں تک پورے تسلسل کے ساتھ لکھا اورخوب لکھا، جامعہ سلفیہ بنارس پہونچنے کے ساتھ ہی آپ نے عربی زبان میں ایک ماہنامہ نکالنے کا آغاز کیا، پہلے یہ ’’صوت الجامعہ‘‘ کے نام سے کئی سالوں تک نکلتارہا، پھربعض قانونی دشواریوں کے سبب اس کا نام’’مجلۃ الجامعۃ السلفیہ ‘‘رکھا گیا اورآخرمیں یہ ’’صوت الأمۃ‘‘ کے نام سے شائع ہوتارہا ،شعبان۱۳۸۹ھ مطابق نومبر ۱۹۶۹ء ؁ سے شوال ۱۴۳۰ھ مطابق اکتوبر ۲۰۰۹ء تک یہ عربی مجلہ پوری پابندی کے ساتھ اپنے علمی وتحقیقی معیار کو برقرار رکھتے ہوئے آپ کی ادارت میں شائع ہوتا رہا ،ڈاکٹر ازہری رحمہ اللہ اہم حساس اور سلگتے موضوعات پر ہرشمارہ میں اداریہ تحریر فرماتے ،مضامین لکھتے، جامعہ سلفیہ بنارس کے نشاطات قلمبند کرتے اوراہم کانفرنسوں اورسمیناروں کی روئیداد مرتب کرکے شائع فرماتے، اس فضیلت میں بھی معاصرعلماء میں شاید ہی کوئی آپ کا شریک قرارپاسکے۔
عربی کے علاوہ جامعہ سلفیہ بنارس کے اردو ماہنامہ ’’صوت الجامعہ‘‘ اردو اور’’محدث‘‘ میں بھی آپ نے بکثرت مضامین لکھے ہیں، بلکہ استاد مکرم مولانا صفی الرحمن مبارکپوری رحمہ اللہ کے جامعہ سلفیہ سے مدینہ منورہ چلے جانے کے بعد’’ محدث‘‘ کے اکثر ادارئے ازہری صاحب ہی کے قلم سے ہیں، محدث کے اداریوں اورمضامین کے علاوہ آپ کے گراں قدر مضامین ندوۃ الطلبہ کے سالنامہ ’’المنار‘‘اوردیگر جرائد ومجلات میں بھی گاہے گاہے شائع ہوتے رہے ہیں،اس طرح ہزاروں صفحات پرمشتمل یہ مضامین ومقالات مسلمانان عالم کی دینی ،علمی ودعوتی اورمعاشرتی رہنمائی کرتے رہے ہیں۔
ادارۃ البحوث الاسلامیہ:۔ تدریس، تصنیف، ترجمہ، تحقیق اوردعوت وارشاد کے ساتھ ڈاکٹرازہری رحمہ اللہ صاحب کاایک علمی کارنامہ یہ ہے کہ انھوں نے جامعہ سلفیہ بنارس میں اشاعتی شعبہ’’ ادارۃ البحوث الاسلامیہ ‘‘کے نام سے قائم کیا اوراس کے زیراہتمام عربی، اردو، ہندی اورانگریزی زبانوں میں چارسوسے زائد علمی، ادبی، دینی ،دعوتی، تاریخی اور تحقیقی کتابیں شائع کرائیں، اس شعبہ کے قیام کے پہلے روز سے آخری سانس تک آپ اس کے نگراں اورذمہ داررہے اورتمام چھوٹی بڑی مطبوعات پرگرامی قدر علمی مقدمے تحریر فرمائے، میرے اپنے علم کی حدتک اتنی ساری کتابوں پر تقریظات اورمقدمات لکھنے کا اعزاز بھی شاید کسی کے حصہ میں آیا ہو، اس سے موصوف کے مطالعہ کی وسعت کا اندازہ ہوتاہے ،کہ آپ نے ہرفن کی کتابوں پرمقدمات لکھے اورمتوازن انداز میں اس موضوع کا تعارف اوراس کی اہمیت قارئین کی خدمت میں پیش فرمائی۔
تعلیمی اداروں کی تاریخ میں محض چالیس برس کی مدت میں چارسو سے زائد کتابوں کی اشاعت اپنی جگہ خود ایک ریکارڈ ہے ،جامعہ سلفیہ بنارس کو یہ سعادت اللہ کے فضل کے بعد استاذ محترم ہی کے کاوشوں سے حاصل ہوئی ہے۔وذلک فضل اللہ یؤتیہ من یشاء۔
جمعیت وجماعت سے وابستگی:۔ ڈاکٹر مقتدیٰ حسن ازہری رحمہ اللہ چونکہ منہج سلف کے مخلص علم بردار تھے اسی لئے اس منہج کی حامل جماعت اہل حدیث کے منصوبوں اور پروگراموں سے انھیں قلبی لگاؤ تھا، موصوف جمعیت وجماعت کے بڑے بڑے پروگراموں میں اکثرصدر، کنوینر، مجلس استقبالیہ کے صدر یا کسی اہم ذمہ دار کے طورپر شرکت فرماتے اورپروگرام کو آرگنائزکرتے، گذشتہ کئی برسوں سے آپ کی حیثیت جمعیت کے پالیسی سازکی تھی، جمعیت کے تعلیمی، دعوتی اوررفاہی پروگراموں کی تخطیط کرتے اوراس میں رنگ بھرنے کے لئے ذمہ داران کی مکمل رہنمائی فرماتے، آپ کے اندر مسلکی حمیت کوٹ کوٹ کر بھری تھی، عقائد سے لے کرعبادات ومعاملات اوراخلاقیات تک میں وہ سلفی منہج سے سرموانحراف کے قائل نہ تھے، رواداری کا جذبہ ان میں بلاشبہ پایاجاتا تھا مگر منہج سے ہٹ کر صلح کلّی کی پالیسی کے وہ سخت خلاف تھے، اسی مسلکی غیرت وحمیت نے انھیں جماعت کی آنکھوں کا تارا بنادیا اوراہل حدیثان ہند کے دلوں کی دھڑکن بن چکے تھے۔
ازہری صاحب اورجامعہ سلفیہ:۔ یہ عنوان اہم بھی ہے اورنازک بھی، اہم اس معنٰی میں کہ اس حوالہ سے کچھ لکھے بغیر آپ کا سوانحی خاکہ مکمل ہی نہیں ہوسکتا کہ آپ کی تمام ترعلمی ،دعوتی، تدریسی اورتصنیفی سرگرمیوں کا محور ومرکز جامعہ سلفیہ ہی رہا ہے اور آپ نے اپنی ساری خدمات اسی کے پلیٹ فارم سے انجام دیں اورنازک بایں طورکہ اس حوالہ سے بعض ایسے تلخ حقائق ہیں کہ جن کاذکر بعض لوگوں کی دل آزاری کا باعث ہوگا، خیر میں اس بحث میں پڑنانہیں چاہتا، عقلمند اں را اشارہ کافی است۔
حقیقت یہ ہے کہ تقریباً ۴؍دہوں تک جامعہ سلفیہ اورڈاکٹر ازہری دونوں لازم وملزوم رہے ہیں، یعنی کسی ایک کا ذکردوسرے کے بغیر تشنہ اورنامکمل قرارپائے گا، ازہری صاحب جب جامعہ سلفیہ تشریف لائے تو یہ ننھا منا پودا تھا، وہاں تعلیمی سلسلہ شروع ہوئے محض دو برس ہی گذرے تھے، ازہری صاحب نے آنے کے بعد اس ننھے منے پودے کو اپنے خون جگرسے سیراب کرکے اسے ایک تناور درخت کی شکل دی، اپنی ساری توانائیاں اورصلاحیتیں اس کے فروغ وترقی کے لئے وقف کردیں، سوتے جاگتے ،اٹھتے بیٹھتے، سفر وحضر ہروقت اور ہرموقعہ پر جامعہ کے علمی ارتقاء کے منصوبے تیار کرتے، بالغ نظر اورمردم شناس ناظم جامعہ مولانا عبدالوحید سلفیؔ رحمہ اللہ سے تبادلۂ خیالات کرتے اورمل جل کر انھیں عملی جامہ پہناتے، ناظم صاحب رحمہ اللہ بھی ڈاکٹر صاحب پر پورا اعتماد کرتے، ان کے مشوروں کو اہمیت دیتے اور ان کی تجاویز اور منصوبوں کو عملی جامہ پہنانے کی کوشش کرتے، اس میں ادنی بھی مبالغہ نہیں کہ جامعہ سلفیہ بنارس نے چند برسوں میں ترقی اور عروج کے جس مقام پر قدم رکھا تھا اس میں سب سے بڑا دخل انھیں دونوں بزرگوں کی مخلصانہ کوشش اورعمل پیہم ہی کا تھا۔
جامعہ سلفیہ بنارس اوراس کے ذمہ داران نے بلاشبہ ڈاکٹر ازہری کو اپنے علمی، فکری، دعوتی اورانتظامی جوہر دکھانے کا موقعہ اورپلیٹ فارم دیاتھا مگر یہ حقیقت ہے کہ ازہری صاحب نے جامعہ سلفیہ کو اس سے کہیں زیادہ لوٹایا اورایک وقت وہ بھی آیا کہ بعض حساس اورذمہ دار حضرات نے برملاکہا کہ ازہری صاحب جامعہ سلفیہ سے نہیں بلکہ جامعہ ازہری صاحب سے ہے، ممکن ہے اس میں کوئی مبالغہ ہومگر اس حقیقت کو تسلیم کرنے میں شاید ہی کسی کو تامل ہو کہ جامعہ سلفیہ کی تعمیروترقی میں سب سے اہم رول ڈاکٹرمقتدیٰ حسن ازہری رحمہ اللہ ہی کا ہے جنھوں نے اپنی بھاری بھرکم اورقدآور علمی شخصیت ،اپنے ذاتی اثرورسوخ اورجہدپیہم سے جامعہ کو ترقی کے اعلیٰ مقام پر پہونچایا اور دیکھتے دیکھتے اسے برصغیر کے نمایاں اورچنیدہ تعلیمی، دعوتی اور نشریاتی اداروں کی فہرست میں ممتاز مقام دلایا۔
بدقسمتی سے ہمارے یہاں دینی اداروں کی تاریخ میں اکثروبیشتر اس قسم کے تاریخی گھپلے اور گھٹالے ہوتے رہے ہیں کہ خون جگر کسی نے جلایا، محنت اورجدوجہد کسی نے کی اورسہرا کسی اورکے سرباندھ دیاجاتا ہے اور ایسے مخلصین اوران کی مساعی جمیلہ کوبھول کربھی یادنہیں کیاجاتا، امیدکہ جامعہ سلفیہ اپنے اس محسن عظیم کے حوالہ سے اس غلطی کااعادہ نہ ہونے دے گا۔
اولاد واحفاد: ۔ہزاروں روحانی اولاد کے علاوہ آپ کے پسماندگان میں آپ کی بیوہ اوردوبیٹے اوردوبیٹیاں قابل ذکرہیں، یہ سارے بال بچوں والے ہیں، آپ کے بڑے صاحبزادے جناب سلمان احمد دمام کے ایک کمپنی میں ملازمت کرتے ہیں اوروہیں اقامت پذیرہیں جب کہ دوسرے صاحبزادے ڈاکٹر فوزان احمد جامعہ ملیہ اسلامیہ نئی دہلی کے شعبۂ عربی میں لیکچرار کی حیثیت سے خدمت انجام دے رہے ہیں اورکسی حد تک اپنے والدبزرگوارکے علمی کاموں کے وارث ہیں۔
مرض ووفات:۔ ازہری صاحب کی صحت قابل رشک تھی اوروہ کسی مزمن بیماری سے محفوظ تھے، اچانک اکتوبر ۲۰۰۹ء ؁ کے اوائل میں جسم کے بالائی اور بائیں حصہ میں دردکا احساس ہوا، بنارس کے اطباء اورڈاکٹروں سے علاج ہوا مگرجب افاقہ نہ ہوا توڈاکٹرفوزان سے مشورہ کے بعد آپ کو بذریعہ طیارہ ۱۸؍اکتوبر کوبتراہاسپٹل دہلی لے جایاگیا، متعدد چیک اپ اورجانچ کے بعدعلاج شروع ہوا، مگرایک ہفتہ بعدڈاکٹروں نے آپ کی صحت سے متعلق مایوسی کا اظہارکیا اورآپ کوگھرلے جانے کا مشورہ دیا ،چنانچہ ۲۹؍اکتوبرکو ایمولینس کے ذریعہ آپ کو آپ کے وطن مؤ لایاجارہا تھا کہ۳۰؍اکتوبر ۲۰۰۹ء ؁ بروزجمعہ بوقت سواپانچ بجے راستہ میں آپ کی روح قفس عنصری سے پرواز کرگئی، اناللہ واناالیہ راجعون۔
آپ کی وفات کی خبربجلی کی سرعت کے ساتھ پورے ہندوستان میں پھیل گئی، اعلان کے مطابق ۳۰؍اکتوبر کو بعدنماز مغرب ڈومن پورہ کی بڑی عیدگاہ میں ہزاروں تلامذہ، عقیدت مندوں، اورسوگواروں نے جامعہ سلفیہ بنارس کے نائب صدر استاذمحترم مولاناشاہد جنیدسلفی کی امامت میں نماز جنازہ اداکی اورپھر آپ کے آبائی قبرستان میں سپرد خاک کردیاگیا۔
اللہ تعالیٰ استاذمحترم کی بال بال مغفرت فرمائے اورآپ کے جملہ علمی ودعوتی اورتصنیفی خدمات کو قبول فرماتے ہوئے انھیں رفع درجات کاذریعہ بنائے۔(آمین)
***

ڈاکٹر مقتدیٰ حسن ازہریؒ عمل پیہم۔۔۔۔۔ مثبت تحریک ap- jul 2010

مولاناخورشید احمدسلفیؔ
شیخ الجامعہ جامعہ سراج العلوم السلفیہ،جھنڈانگر

ڈاکٹر مقتدیٰ حسن ازہریؒ
عمل پیہم۔۔۔۔۔ مثبت تحریک
ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ہے
بڑی مشکل سے ہوتاہے چمن میں دیدہ ورپیدا
جماعت اہل حدیث ہندکے گوہرشاہوار، جامعہ سلفیہ بنارس کے یکے قافلہ سالار، شہرعلم وادب، شعروسخن اور مرکز صنعت وہنر مؤناتھ بھنجن کے درتابدار علامہ ڈاکٹر مقتدیٰ حسن ازہری رحمہ اللہ پرجب کچھ لکھنے کا خیال ہوا تواول دوامورکی طرف دھیان گیاکہ ان کی ذات کو خراج عقیدت پیش کرنے کے لئے کسی ایسے شعرکا انتخاب کروں جوان کی بلند وبالا شخصیت اورمثبت فکروفن کے لئے موزوں ہو،بہرحال اس کے لئے مندرج صدرشعر منتخب کیا۔
دوسرے یہ کہ ان کی شخصیت کثیرالجہات، ان کی سرگرمیاں وسیع اوران کی خدمات رنگا رنگ تھیں توپھر ان کے کس گوشہ کو اپناؤں اوراس کو کون ساعنوان دوں،اس دوسرے امرکے لئے عنوان بالا پسندکیا۔
ڈاکٹر ازہری رحمہ اللہ ذہین و فطین، قدآور اونچی فکر کے آدمی اورفعال وباکردارانسان تھے، ان کی پرورش وپرداخت مؤجیسے علمی، تعلیمی وتدریسی قصبہ میں ہوئی، وہاں کے معیاری تعلیمی اداروں میں ابتدائی تعلیم پھرقواعد صرف ونحو، عربی ادب، تفسیر وحدیث کی تعلیم حاصل کی، پھرمزید علمی تشنگی بجھانے کے لئے بفضل رب دنیائے اسلام کی شہرہ آفاق یونیورسٹی جامعہ ازہر قاہرہ میں وہاں کے ماہر علم وفن مصری اساتذہ کے سامنے زانوئے تلمذ تہ کیا، جہاں ان کے فکروفن سے کسب فیض اورمصرکے ادبی ماحول میں ڈھلنے وسنورنے کاموقع ملا، وہاں سے واپسی کے بعد ۱۹۶۸ء ؁ میں جامعہ سلفیہ بنارس سے وابستہ ہوئے، اسی وابستگی کے دوران علی گڈھ مسلم یونیورسٹی میں ایم.فل وپی.ایچ.ڈی.کرنے کا سنہری موقع ملا جہاں انسان سازی ہوتی ہے اوربلند پروازی عطاکی جاتی ہے، جہاں تعمیروترقی کے آداب ورموز سکھائے جاتے ہیں، اس طرح ڈاکٹرازہری کو خالص دینی ماحول، پھرمصر کا آزاد ماحول نیز علیگڈھ مسلم یونیورسٹی کا ؂


کاسنجیدہ تعمیری وتحقیقی ماحول میسرہوا، اس طرح مختلف رنگوں کے ملنے سے ان کی شخصیت قوس وقزح میں ڈھل گئی، مختلف منبع خیال دریاؤں کے دھاروں کے ملنے سے ان کی شخصیت ایک جھیل کی شکل اختیار کرگئی تھی،جس میں ہررنگ وبولی کے پرندوں کے بسیرے کی وسعت تھی، وہ کسی حد تک قدیم وجدید کے سنگم کہے جاسکتے تھے، وہ عصری ماحول ومزاج اور اس کے مسائل کاادراک رکھتے تھے، مختلف ماحول میں پرورش وپرداخت وخوشہ چینی کا اثرتھا کہ وہ ابلہ مسجدتھے نہ تہذیب کے فرزند بلکہ وہ ایک تجربہ کارمفکر اوربحرعلم وتحقیق کے شناور،معیاری صحافت کے علمبردار ،تحریک اصلاح نصاب کے بابصیرت قائد، بالغ نظر منتظم اورصف اول کے رہنماتھے بقول علامہ اقبالؒ ؂
نابے چہ باید مردرا طبع بلندے مشرب نالے دل گرمے، نگاہ پاک بینے، جان بیتابے
ان کے عمل پیہم اورمثبت تحریک کے پہلو کواجاگر کرنے کے لئے چارنقاط پر مختصرخامہ فرسائی کروں گا(۱)تعلیم وتربیت (۲)صحافت(۳)تصنیف وترجمہ(۴) تعلیمی ودعوتی سمینار وکانفرنس۔
(۱)تعلیم وتربیت:۔موصوف ازہری رحمہ اللہ کی زندگی تعلیم وتربیت کے میدان میں گذری، ان سے ہزاروں خوش نصیب طلبہ نے استفادہ کیا، درس وتدریس کا ان کا خاص انداز تھا، وہ زیردرس موضوع پرتوجہ مرکوز رکھتے تھے، افہام وتفہیم کا بھرپور ملکہ انھیں حاصل تھا، طلبہ کے ذہنوں میں مضمون اتارنے کی مہارت انھیں حاصل تھی، چونکہ وہ عربی کے ان چند ادباء میں سے تھے جن کے وجود پر ہندوستان کوناز تھا اوروہ انگلیوں پرگنے جاسکتے ہیں ،اس لئے اکثرعربی ادب کے مضامین ہی وہ اپنے زیردرس رکھتے تھے۔
جامعہ سلفیہ بنارس کے طلبہ وفارغین کوایک بڑا امتیاز یہ حاصل رہاہے کہ وہ فصیح عربی بولنے ولکھنے پربڑی حدتک قدرت رکھتے ہیں اوران میں ایک اچھی خاصی تعداد توایسی ہے بھی جسے عربی پربڑا عبور حاصل ہے، وہ کج مج زبان کے بجائے عربی میں اعلیٰ ومعیاری انشاء پردازی کرتے ہیں، ان کے قلم سے نکلے ہوئے جملے ڈھلے ڈھلائے ہوتے ہیں، ان میں ادب کی چاشنی اورعربیت کی لطافت ہوتی ہے، ان کی قلمی کاوشیں،عربی میں مضامین ومقالات اس دعوے پرشاہدہیں، اسی طرح کانفرنس و سمیناروں میں ان کے لکچرس وخطبات واناؤنسری، بروقت تجزیئے وتبصرے ان کی عربی قوت گویائی پردال ہیں، یہ ثمرہ ہے جامعہ سلفیہ کے ادبی ماحول اوردرس وتدریس میں عربی ادب وانشاء پرخصوصی زور کا، یہ ماحول بنانے میں جہاں وہاں کی انتظامیہ،ماہرفن اساتذہ کا دخل ہے وہیں اس میں محترم ازہری رحمہ اللہ کا بڑا حصہ ہے، موصوف صرف عربی درسیات سے ہی دلچسپی نہیں لیتے تھے بلکہ طلبہ کو عربی سکھانے اورٹریننگ دینے میں اہم رول اداکرتے تھے، چنانچہ جس زمانہ میں ،میں جامعہ سلفیہ میں زیرتعلیم تھا موصوف اکثرعربی خطابت کے شعبہ میں صدارت کے لئے اپنا وقت دیتے تھے، مقررین کی تقریروں کو بغورسنتے، غلطیوں کونوٹ کرتے، آخر میں تقریروں پرتبصرہ کرتے، غلطیوں کی نشاندہی کرکے ان کی اصلاح کرتے، الفاظ،افعال کے مناسب استعمال کا موقع بتاتے ، جدید عربی سے روشناس کراتے، ایک مرتبہ میں نے خود سے عربی میں تقریر تیار کرکے بیان کیا، اس تقریر میں حکومت کی طرف سے مسلمانوں کے ساتھ ناانصافیوں کاذکر اورکانگریسی حکومت پرنکتہ چینی تھی توانھوں نے بھانپ لیا اورکہا لگتاہے کہ خودہی سے تیار کیاہے ،بہرحال بڑے مناسب ومفید انداز میں تبصرہ واصلاح کیا، ان کی صدارت کا انداز وقت گذاری اوررسمی خانہ پُری کاہرگز نہ ہوتا، بلکہ پوری یکسوئی ودلچسپی کے ساتھ جم کربیٹھا کرتے تھے اورپوری کوشش کرتے کہ طلبہ میں بے تکلف وبے جھجھک بولنے ولکھنے کاملکہ پیداہو، یہی نہیں بلکہ انجمن کے ہفتہ واری پروگراموں کے علاوہ بعدنماز عصر کبھی کبھار مجلس کا انعقاد کراتے، اس کا طریقہ یہ ہوتا کہ پہلے سے کسی موضوع کا اعلان کردیتے، باذوق طلبہ تیاری کرکے شریک ہوتے،کوئی طالب مرکزی خطاب کرتا اس کے بعدمباحثہ ومناقشہ شروع ہوتا ،طلبہ اس پراظہار خیال کرتے، جب کسی طرف سے کوئی آواز نہیں آتی تووہ خود ہی سامنے یادائیں وبائیں متوجہ ہوکر انھیں بولنے اورکچھ کہنے کی ترغیب دیتے اورسوالات کے لئے ابھارتے، مقصد یہ تھاکہ لڑکے پوری آزادی کے ساتھ کھلے ماحول میں سوال وجواب کریں تاکہ عربی زبان میں نکھار آئے، میرا احساس ہے کہ اس طرز تربیت سے ہم لوگوں کوبڑا فائدہ ملتاتھا،چونکہ وہ ایک ماہرتعلیم، درسیات کے رموز اورنصاب تعلیم کی خوبیوں ،خامیوں پرگہری نظر رکھتے تھے، جامعہ سلفیہ کے نصاب کو معیاری ونفع بخش بنانے میں قابل قدر کوشش صرف کی، نصاب تعلیم میں رائج کچھ قدیم کتابیں جو عصری اسلوب تعلیم سے میل نہیں کھارہی تھیں ان کو خارج کراکے جدید کتابیں داخل کرائیں، کچھ کتابیں جو مطول تھیں خودہی ان کا اختصاروانتخاب تیار کیا اورانھیں ادارۃ البحوث الاسلامیہ کی طرف سے شائع کراکے داخل نصاب کیا ،علامہ سیدنواب صدیق حسن خاں بھوپالی رحمہ اللہ کی حصول المامول،مشہور مصری ادیب احمدحسن زیات کی تاریخ الادب العربی کو بطورمثال ذکرکیا جاسکتاہے۔
برصغیر کے مدارس عربیہ میں جوکتابیں شامل نصاب ہیں ان میں سے بہت سی کتابیں زمانہ کے لحاظ سے اپنی افادیت کھوچکی ہیں کچھ کتابیں ایسی ہیں جوعصری طریقہ تعلیم سے میل نہیں کھارہی ہیں ،کسی بھی چیز میں جمودنہیں ہے ساری چیزیں متحرک ونموپذیر ہیں، اب طریقہ تعلیم میں بھی بہت کچھ بدلاؤ آچکا ہے ،ازہری صاحب نے اس کوشدت سے محسوس کیا، جماعتی سطح پر ارباب مدارس علماء وفضلاء کو اس موضوع پرغور وخوض کے لئے اصلاح نصاب کے بینرتلے جامعہ کے اندرمدعو کرکے اجلاس کیا اورمناسب بحث ومباحثہ اورگفتگو کے بعدتجاویز وسفارشات مرتب کرایا، غالباً اس قسم کی کوشش دومرتبہ ہوچکی ہے اس طرح ازہری صاحب مثبت وصالح انداز فکر وتحریکی رجحان رکھتے تھے۔
(۲)صحافت:۔صحافت بالخصوص عربی صحافت میں انھیں بڑا مرتبہ حاصل تھا، ۱۹۶۹ء ؁ میں جامعہ سلفیہ کی جانب سے عربی مجلہ بنام’’صوت الجامعہ‘‘ نکالنے کا فیصلہ ہواتوذمہ داران جامعہ کی نظر انتخاب آپ ہی پرپڑی، جماعت کی طرف سے یہ پہلا عربی مجلہ تھاجس کے اجراء کا فیصلہ ہواتھا، اس کے لئے مطلوبہ معیار بنانا اورمرکزی تعلیم گاہ کے شایان شان اس کوچلانا، عرب دنیا میں جامعہ وجماعت اہل حدیث کی عربیت کے معاملہ میں وقار قائم رکھنا ایک مشکل کام تھا، ازہری صاحب اس امتحان وآزمائش میں کھرے اترے اورذمہ داران کا یہ انتخاب بارآورثابت ہوا، ڈاکٹرصاحب نے پوری ذمہ داری کے ساتھ پورے چالیس سال اپنی آخری سانس تک اس کو انجام دیا، قانونی پیچیدگیوں انتظامی دشواریوں کامقابلہ کرتے ہوئے پوری شان وبان کے ساتھ اس کو نکالتے رہے اوروقت پرنکالتے رہے، وقت بے وقت کا سوال پیدا ہی نہیں ہوا، مجھے یہ تونہیں معلوم کہ کب اورکیا پریشانیاں پیداہوئیں لیکن ناموں کی تبدیلی سے اس نتیجہ پرپہونچا کہ ضرورکچھ موانع ہیں، ایک عرصہ تک ’’صوت الجامعۃ‘‘ کے نام سے نکالا، پھر’’مجلۃ الجامعۃ السلفیۃ‘‘کیا، پھر ’’صوت الامۃ‘‘ کے نام سے نکالا جواب تک جاری ہے۔
رہی بات مضامین ومقالات کی تووہ بحث وتحقیق، انشاء پردازی، مقالہ نگاری کے اصول وضوابط پرپورے کھرے اورکامل عیار ہوتے تھے، کم عیار وکھوٹے نہیں ہوتے کہ اہل علم ردی کی ٹوکری میں ڈال دیں، ان میں منہجیت ومعیار ہوتاتھا، وہ عقائد صحیحہ کے بیان، عقائد فاسدہ وخیالات باطلہ کے ردوابطال، اسلام کے محاسن وخوبیوں، دینی احکام ومعاملات کی تفہیم وتشریح، ان کی معنویت اوررموز ونکات پر مشتمل ہوتے تھے ،اسی طرح اسلام کے خلاف اٹھنے والے فتنوں اورمنہج سلف ومسلک محدثین کے خلاف پیداہونے والے اعتراضات وشبہات ورکیک حملوں کا دنداں شکن ومسکت جوابات ہوتے تھے، حالات حاضرہ سے متعلق سلگتے مسائل کے جائزہ وتبصرے پر محیط ہوتے تھے، اسلامی تاریخ کی اہم علمی ودعوتی شخصیات وان کے کارناموں کے تعارف کی سنجیدہ تحریریں ہوتی تھیں، ان مضامین ومقالات کے حسن انتخاب وترتیب میں ازہری صاحب کی علمی بصیرت، جماعتی ومسلکی غیرت اورصحافتی بیدارمغزی کاجوہر کارفرماہوتاتھا، اصحاب قلم سے تعلقات قائم کرنے میں گوہر جگمگاتاتھا، یہ مضامین ومقالات اوررشحات قلم عالم اسلام وعالم عرب کی نہایت نمایاں وچوٹی کی علمی ودینی شخصیات کی ہواکرتی تھیں، غورکیجئے !سماحۃ الشیخ علامہ عبدالعزیز بن باز رحمہ اللہ ،علامہ ڈاکٹر تقی الدین ہلالی مراکشی رحمہ اللہ، فضیلۃ الشیخ محمدبن عبداللہ السبیل حفظہ اللہ، فضیلۃ الشیخ عبدالرحمن السدیس حفظہ اللہ، فضیلۃ الشیخ الدکتور صالح بن غانم السدلان، فضیلۃ الشیخ دکتور ضیاء الرحمن حفظہ اللہ،فضیلۃ الشیخ علی الشبل حفظہ اللہ یہ ایسے نام ہیں کہ ان کی علمی وجاہت ومعتبریت کازمانہ قائل وگواہ ہے، یہ آسمان علم وفضل ،دعوت وارشاد کے آفتاب وماہتاب ہیں، ان حضرات کی تحریریں مجلہ کی زینت ہواکرتی تھیں، اسی طرح ہمارے برصغیر کے صف اول کے نامورومستند اصحاب قلم۔ بلاد عرب میں مقیم یا اپنے وطن میں سرگرم عمل۔ کے قلمی جواہر پاروں سے مجلہ کے صفحات جگمگاتے تھے بطورنمونہ چند نام یہ ہیں گرامی قدرحضرت مولانا عبدالحمید صاحب رحمانی حفظہ اللہ (صدرمرکز ابوالکلام آزاد نئی دہلی) حضرت مولاناصفی الرحمن مبارکپوری رحمہ اللہ،حضرت مولاناعبدالوحید رحمانی رحمہ اللہ (سابق شیخ الجامعہ) ڈاکٹر عبدالعلیم بستوی حفظہ اللہ(مکہ مکرمہ) فضیلۃ الشیخ صلاح الدین مقبول حفظہ اللہ (کویت) ڈاکٹر محمد عزیرشمس حفظہ اللہ (مکہ مکرمہ)ڈاکٹر عبدالعلی ازہری حفظہ اللہ(لندن) فضیلۃ الشیخ عبدالقیوم بستوی حفظہ اللہ (قطر) ڈاکٹر عبدالرحمن پریوائی حفظہ اللہ( ریاض) فضیلۃ الشیخ عبدالمعید مدنی حفظہ اللہ علیگڈھ ،فضیلۃ الشیخ عبدالکریم محفوظ(بنگال) شیخ عبدالقادر شیبۃ الحمدوغیرہ۔
ڈاکٹرازہری رحمہ اللہ کے مقالات واداریئے بذات خود بڑے باوزن وبصیرت افروز ہواکرتے تھے جوہزاروں صفحات میں پھیلے ہوئے ہیں وہ ان کے ذریعہ ہندی مسلمانوں کے مسائل ومشکلات سے اہل عرب کو آشناکراتے تھے، اہل عرب کے مسائل وخیالات ونظریات کے تئیں ہندی مسلمانوں کے احساسات وجذبات یاتائید وتوثیق کو ان تک پہونچاتے تھے، عرب علماء کے افکار وخیالات اورقلمی شہ پاروں سے ہندوستان کے علماء وعربی داں کو واقف کراتے تھے، غرضیکہ آپ کی ادارت میں نکلنے والا یہ پرچہ ہند وعرب کے مابین ایک مضبوط ومستحکم پل کاکام دیتا تھا۔
محترم ازہری رحمہ اللہ کے اداریوں پراگرایک نظر ڈال لیں توان سے ان کی اہمیت وقیمت کاپتہ چلتاہے کہ وہ وقت کے نازک وحساس گوشوں پرخامہ فرسائی کرتے تھے اوران کے مالہ وماعلیہ کوپورے شرح وبسط کے ساتھ لکھتے تھے جس سے قاری اس کا ادراک کرلیتا، خلاصہ یہ کہ یہ اداریئے بصیرت افروز ،برمحل ومبنی برحقائق اورچشم کشا ہوتے تھے، چونکہ ان کی زبان عربی ہے لہذا ہم ان کے اقتباسات دینے سے گریز کررہے ہیں اورمع ترجمہ ومتن دیناباعث طوالت ہے صرف ایک اقتباس مع ترجمہ پراکتفا کررہے ہیں:
۱۴۰۹ھ ؁ میں ایران نے اپنے فوجیوں کوحجاج کی شکل میں مکہ مکرمہ بھیج کرگڑبڑکرایا، ان کے ذریعہ کئی بم دھماکے ہوئے ،بلدامین میں بدامنی وخوف پھیل گیا اورحج کا تقدس خطرے میں پڑگیا، بہت سے بے گناہ مسلمان جاں بحق ہوگئے ،سعودی گورنمنٹ نے بڑی حکمت ودانائی کے ساتھ اس فتنے کامقابلہ کیا اس کی تفصیل کایہ موقع نہیں، مجرمین میں سے ۱۶کو عدالتی فیصلہ کے بموجب سزائے موت دی گئی، ضرورت تھی کہ سعودی گورنمنٹ کے اس عمل وکارروائی کی تائید کی جائے، چنانچہ جامعہ سلفیہ کے ناظم اعلیٰ مولانا عبدالوحید سلفی رحمہ اللہ کی طرف سے تائید ی ٹیلیگرام گیا، ازہری صاحب نے اس واقعہ پر اداریہ لکھا جس کا عنوان قائم کیا’’ھکذا تخمد الفتنۃ‘‘ یعنی فتنہ کی آگ اس طرح بجھائی جاتی ہے، موصوف نے اس مضمون میں ایران کے شیعی انقلاب کے تعلق سے جماعت اہل حدیث اورجامعہ سلفیہ بنارس کے موقف کاذکر کرتے ہوئے لکھا:
اصرح بأن الجامعۃ السلفیۃ منذ أن تأسست کانت۔بعون اللہ وتوفیقہ۔ علیٰ بصیرۃ تامۃ فی أمر ھولاء الضالین، ولذلک رکزت فی موتمراتھا ومنشوراتھا علی العنایۃ بتصحیح عقائد المسلمین وتبصرھم باحوال الفرق الضالۃ والطوائف المنحرفۃ التی حاولت النیل من الإسلام والمسلمین فی کل زمان ومکان،حتی یعرف المسلمون أھداف المنحرفین ویاخذوا حذرھم من الفتن والشرور التی تثار ضدھم فی مجالات الدین والسیاسۃ والاجتماع والاقتصاد.
نحمداللہ تعالیٰ علیٰ أن الجامعۃ السلفیۃ لم تضم صوتھا قط إلیٰ أصوات الجماعات التی بارکت ثورۃ إیران وظنت انھا ثورۃ إسلامیۃ، وأن اتباع الخمینی برزوا إلی الساحۃ لاقامۃ الحکومۃ الالٰھیۃ.
ترجمہ: میں صراحت کررہا ہوں کہ اللہ کی توفیق ومددسے جامعہ سلفیہ کو اپنے قیام ہی سے ان گمراہیوں کی بابت مکمل بصیرت حاصل ہے، بنابریں اس نے اپنی کانفرنسوں ومطبوعات میں مسلمانوں کے عقائد کی اصلاح وچشم کشائی کے لئے اسلام سے ان منحرف گمراہ فرقوں پرتوجہ مرکوز کیاہے جن فرقوں نے ہرجگہ وہرزمانے میں اسلام ومسلمانوں پردست درازی کی ہے تاکہ ان گمراہوں کے ٹارگیٹ سے واقف رہیں اوران فتنوں سے ہوشیار رہیں جوان کے خلاف دینی، سیاسی، سماجی واقتصادی میدانوں میں ابھارے جارہے ہیں۔
الحمدللہ جامعہ سلفیہ نے کبھی بھی اپنی آواز ان جماعتوں کی آوازوں کے ساتھ نہیں ملایا جنھوں نے ایرانی انقلاب کو مبارک گردانا اوراسے اسلامی انقلاب سمجھا نیز خمینی اوراس کے پیروکاروں کو حکومت الٰہیہ قائم کرنے والا خیال کیا۔
سلسلہ کلام جاری رکھتے ہوئے آگے لکھتے ہیں:
وضمن الإجراٰت الرادعۃ التی قامت بھا حکومۃ خادم الحرمین الشریفین ضدالمجرمین الذین عبثوا فی البلد الحرام ایام الحج وقاموا بتفجیرات عدیدۃ لترویح ضیوف الرحمن وإزھاق أرواحھم:إعدام(۱۶) من المجرمین الذین ثبتت جریمتھم بالقضاء الشرعی وتم اعترافھم بالجریمۃ وبکونھم مستخدمین من الفءۃ الباغیۃ المفسدۃ للإلحاد فی الحرم الشریف۔(صوت الأمۃ جمادی الأولیٰ ۱۴۱۰ھ)
ترجمہ: دوران حج بلدامین میں جن مجرموں نے متعددبم دھماکے کئے تھے جن سے اللہ کے مہمانوں کی جانیں ضائع ہوئی تھیں ان کے خلاف خادم حرمین شریفین کی حکومت نے جودرست کارروائیاں کیں اس میں ان سولہ لوگوں کی سزائے موت بھی ہے جن کا جرم عدالت کے ذریعہ ثابت ہوگیا اورانھوں نے خود اس کا اقراربھی کیا کہ حرم شریف میں فساد والحاد برپا کرنے کے واسطے ان کا استعمال ہوا۔
ازہری صاحب نے اپنی خداداد صلاحیت کا استعمال کرتے ہوئے اسلامی صحافت کومعیاری وبامقصد بنانے کے لئے بھی جدوجہد کی، چنانچہ اس سلسلہ میں بھی دوصحافتی مجالس کا انعقاد ہوا، جس میں سے ایک جامعہ سلفیہ بنارس میں ہوا، اس پروگرام میں بھی موجودہ صحافت کاجائزہ لے کر اس کی خامیوں کودورکرنے اوراس کوبہتر سے بہتر سمت دینے کی تجاویز پاس ہوئیں، اس پروگرام میں بھی آں رحمہ اللہ نے اپنا کر دار انجام دیا، دوسرا پروگرام غالباً مؤ میں ہواتھا اس میں بھی شرکت وشمولیت رہی۔
تصنیف وترجمہ:۔علامہ ازہری ایک بہترین ومعتبر قلم کارتھے، ان کے نوک قلم میں دریا کی روانی بادصبا کی سبک خرامی، نسیم سحر کی خنکی، موسم بہار کی تازگی وشادابی، گلوں کی خوشبو وتازگی تھی، آفتاب نصف النہار کی روشنی اوربدرکامل کااجالاتھا، ان کی تحریریں فکرانگیز وپیغام آفریں، دل آزاری ومنفی رجحانات سے دورہواکرتی تھیں بقول علامہ اقبالؒ ؂
میری زبان قلم سے کسی کا دل نہ دُکھے
کسی سے شکوہ نہ ہوزیرآسماں مجھ کو
قلم کا انھوں نے برمحل استعمال کیا اورپوری زندگی رواں دواں رہا جس سے جماعت اہل حدیث واسلامیان ہند کی لائبریریوں کو بصورت تصنیف وترجمہ ۲۴ کی تعداد میں گرانمایہ ہدیہ عطا کیا، ہمارے اس زمانے میں متعدد ایسے لوگ ہیں جوبے پناہ قلمی قوت کے مالک ہیں لیکن وہ اس کا استعمال نہیں کررہے ہیں یا کرتے بھی ہیں توبہت کم، لیکن ازہری صاحب نے اپنی وقیع تالیفات کے ذریعہ جماعت کووقار بخشا اور کتابوں کی نمائش ومیلے میں ایک پوزیشن دی۔
یہاں یہ پہلو واضح کروں کہ ان کی تصنیفات وترجموں میں خاص معنویت ،ومقصدیت ہے، وہ یہ کہ یا تواس سے تعلیمی وتدریسی میدان میں کوئی خلاء پرہوتا ہے یا سلف کے عقیدہ ومنہج کی ترویج واشاعت ہورہی ہے ساتھ ہی عالم عرب کوبرصغیر کے ناموروسرتاج علماء کے افکار وتحقیقات علمیہ سے متعارف کرانا پیش نظرہوتاہے، غورکریں انھوں نے منتخب کیا توتاریخ ادب عربی کو اوردیکھتے دیکھتے تاریخ ادب عربی کے نام سے پانچ جلدیں منظر عام پہ آگئیں، اسلام کا دفاع کرنے کے لئے خاتون اسلام جیسی عمدہ تالیف لطیف مرتب کیا، اسی طرح تربیت اولاد جیسے موضوع پروالدین کوایک تحفہ دیا،جس میں بچوں کی عمر ونفسانیات کالحاظ کرکے تربیت کے آداب دگربتائے، تراجم پرنظر ڈالئے توحضرت مولانا محمداسماعیل سلفیؔ گجرانوالہ رحمہ اللہ کی تحریک آزادی فکر اورشاہ ولی اللہ کی مساعی کاترجمہ ’’حرکۃ الانطلاق الفکری وجھود الشاہ ولی اللہ‘‘کے نام سے، حضرت مولانا عبدالسلام صاحب مبارکپوری کی سیرۃ البخاری اورعلامہ قاضی محمد سلیمان سلمان منصورپوری کی رحمۃ للعالمین جیسی حب رسول میں ڈوبی ہوئی کتاب کاترجمہ کیا،بلاشبہ یہ ایسی کتابیں ہیں جن کی نظیر کسی دوسری زبان میں نہیں ملتی، ان کتابوں سے برصغیرسے باہری دنیا بالخصوص اہل عرب اوراردو سے ناواقف دنیاکے اہل علم کی آنکھیں ان کے مطالعہ سے روشن ہوئی ہوں گی اوربرصغیر کے علماء کا علمی وزن اوراعتقادی وفکری پختگی وبالغ نظری کالوہا تسلیم کیا ہوگا، غرضیکہ ترجمہ کا یہ کام ایک مثبت ومفید تحریک تھی جس کوانھوں نے آگے بڑھایا۔
کانفرنس وسمینار:۔جامعہ سلفیہ کے پہلے ناظم اعلیٰ مولاناعبدالوحید صاحب سلفی ایک باعظمت،باحوصلہ ،بابصیرت واعلیٰ انتظامی دماغ کے آدمی تھے انھوں نے جماعتی ومسلکی مصالح کے مدنظر اپنی زندگی میں کانفرنس،سمینارومذاکرے کروائے ،پروگراموں کامنصوبہ توموصوف ہی بناتے رہے ہوں گے لیکن اس کے خاکوں میں رنگ بھرنے کاکام ڈاکٹر ازہری ہی کیاکرتے تھے،دورے کرنا، اہم شخصیات سے روابط بنانا انھیں شرکت پرآمادہ کرنا یہ سب کام وہی کرتے تھے،مجھے کوئی ان پروگراموں کی تاریخ لکھنانہیں ہے بلکہ مقصدیت دکھانا ہے ،جامعہ سلفیہ نے ۱۹۸۰ء ؁ میں ایک عظیم الشان تاریخی کانفرنس مؤتمرالدعوۃ والتعلیم کے نام سے منعقد کی، اس کانفرنس کاموضوع اتنا شاندار تھاکہ کوئی بھی باشعورآدمی اس کی اہمیت ومعنویت کاانکارنہیں کرسکتا تھا، سوچئے تعلیم ودعوت یہ دوبنیادی چیزیں ہیں جن کے بغیرکوئی قوم من حیث قوم زندہ نہیں رہ سکتی اورنہ امت کاکوئی مستقل تصورقائم ہوسکتاہے، اس کانفرنس میں امام وخطیب حرم مکی فضیلۃ الشیخ محمدبن عبداللہ السبیل کی تشریف آوری سے چارچاند لگ گیاتھا۔
اسی طرح مختلف اوقات میں ،موسم ثقافی، شیخ الاسلام ابن تیمیہ کی حیات وخدمات ،علامہ نواب سید صدیق حسن خاں بھوپالی کی حیات وخدمات پرسمینار ہوئے جس میں ازہری صاحب کابڑا رول رہا۔
مرکزی جمعیت اہل حدیث ہند کے تحت منعقد ہونے والی کانفرنسوں یعنی ۱۹۹۵ء ؁ میں بمقام مؤ، ۲۰۰۴ء ؁ میں بمقام پاکوڑ جھارکھنڈ ،۲۰۰۸ء ؁ میں بمقام دہلی کوآپ نے بحیثیت صدر استقبالیہ کمیٹی ہرطرح کامیاب بنانے کی سعی بلیغ فرمائی اورخطبہ استقبالیہ سے جمعیۃ کو تقویت پہونچانے کے ساتھ احباب جماعت کومناسب پیغام دیا۔
خلاصہ کلام اینکہ ان کی زندگی جہد مسلسل، عمل پیہم، حرکت وتحریک سے عبارت تھی، ایسا عمل اورایسی حرکت جس سے موجودہ اورآنے والی نسلیں مستفید ہوں۔
ایسی بامقصد وباکمال شخصیت کی جدائی علمی وجماعتی سطح پر بہت بڑانقصان ہے، اللہ پاک سے دعاہے کہ ان کے درجات بلند کرے اورانھیں جنت الفردوس میں جگہ بخشے۔(آمین)
***

استاذمحترم کی علمی پہچان apr-jul 2010

مولاناعبدالمعید مدنیؔ
استاذمحترم کی علمی پہچان
جناب ڈاکٹر مقتدیٰ حسن ازہری رحمہ اللہ نے اپنے پیچھے ایک معتدبہ علمی ترکہ چھوڑاہے اردو زبان میں بھی اورعربی زبان میں بھی، ان کا یہ علمی ترکہ ہزاروں صفحات پرپھیلاہواہے، انھوں نے درجنوں کتابیں تالیف اورترجمے کی شکل میں ملت وجماعت کودی ہیں، ہزاروں صفحات پرپھیلے کتابوں کے مقدمے ہیں ،ہزاروں صفحات پرمشتمل عربی اوراردومضامین اورمقالے ہیں۔
یہ سب کیسے ہوپایا اورانھوں نے اتناکچھ کیسے لکھا؟ اپنی علمی کارکردگی کے حساب سے وہ اپنے ہمعصروں میں سب سے آگے نگل گئے، ایسابھی ہے کہ ان کے مقابلے میں ان کے دوسرے بہت سے ہمعصرعلمی اور ذہنی قابلیت میں ان سے کہیں آگے تھے لیکن وہ اپنی علمی سرگرمیوں میں ازہری صاحب سے کہیں پیچھے ہیں، اس تقدم، سبقت اورنمایاں کارکردگی کا سبب کیاہے؟ ہمیں اس کے تین نمایاں اسباب نظرآتے ہیں(۱) انضباط وقت(۲)انضباط حیات(۳) اورانضباط عمل۔
میں نے انھیں جب سے جانا اورجب بھی دیکھا کہ ان کی ترجیحات میں مطالعہ اورتصنیف وتالیف داخل ہے ،اسی طرح آفس کے کاموں کوانجام دینے میں بھی مکمل نظم وضبط کااہتمام، انھیں کبھی مشکل سے بلاضرورت جامعہ کی چہاردیواری سے باہرجاتے ہوئے دیکھا گیا، سارا وقت ضروریات حیات کے بعد صرف تحریری کاموں کے لئے وقف۔
ڈاکٹررحمہ اللہ نے انضباط وقت کااہتمام کیااورانضباط حیات کا بھی اور دونوں میں کامیاب رہے، انضباط وقت کا اتنااہتمام کہ جامعہ میں جب بھی ان کی آفس سے گذرہوا لکھنے پڑھنے میں مصروف، ۸بجے سے ۲بجے تک، پھرعصرکے بعدسے مغرب تک، اوربسااوقات عشاء کے بعدبھی، انھوں نے وقت کی پابندی کی اورجامعہ کی تسہیلات سے بھرپور استفادہ کیا اورجامعہ کے رہنما ورہبربن گئے اوراپنی اسی قیادت کے سبب ملک وبیرون ملک علمی وجماعتی حلقوں میں اپنی پہچان بنالے گئے، کیا اورکیوں سے بحث نہیں، بحث اس سے ہے کہ انضباط وقت سے انسان کیا کچھ حاصل کرلیتا ہے اورکہاں تک وہ پرواز کرسکتاہے، ان کوجامعہ نے پہچان دی اوراسٹیج بھی، اخذ وعطاکا یہ سلسلہ آخری لمحے تک جاری رہا، اس پہچان کے سبب انھیں دنیا کے بے شمار خطوں میں بارہاجانے کا اورافادہ واستفادہ کاموقعہ ملا۔
وقت کے انضباط کا ان کواتنا اہتمام تھا کہ کبھی انھیں لوگوں نے وقت ضائع کرتے نہیں دیکھا ، ان کے انضباط وقت پرنہ موسم اثرانداز ہوتا تھا نہ گھریلو اورشخصی ضرورتیں، وقت کے انضباط کے لئے بڑی قربانی دینی پڑتی ہے، بہت سی خواہشوں کو ختم کرناپڑتا ہے، زندگی کی سرگرمیوں میں ترجیحی رویہ اپناناپڑتاہے، انہماک اورتوجہ کو کام میں لاناپڑتا ہے، ازہری رحمہ اللہ نے یہ سارے جتن کئے اوروقت کی پابندی کا پورا نظم قائم کیا۔
انضباط وقت سے انسان کے کام میں سلیقہ مندی اورسوچ میں نظم وترتیب آجاتی ہے، یہ ایسی حقیقت ہے کہ اسے ہرشخص محسوس کرسکتا ہے، اس انضباط کے نتیجے میں ازہری رحمہ اللہ کے ہرکام میں سلیقہ مندی اورسوچ میں نظم وترتیب موجودتھی، ان کی آفس میں قدم رکھ کرکوئی بھی اس خوبی کو محسوس کرسکتا تھا، صفائی ستھرائی، نظم وضبط اورترتیب وتہذیب ہرشئے میں نمایاں، بدنظمی، پھوہڑ پن اوربے ذوقی کا کہیں کسی جگہ نام ونشان نہیں، ان کی ایک سطری تحریر میں بھی صفائی، نظم اورسلیقہ مندی بولتی تھی۔
انضباط وقت کی طرح انضباط حیات میں بھی وہ منفرد تھے اور اپنے ہم عصروں میں سب سے نمایاں تھے، انضباط حیات میں خود انسان کی اپنی طرز زندگی ،روزمرہ سرگرمیاں خاص کرآتی ہیں پھراس سے منسلک گھریلو وسماجی سرگرمیاں ہوتی ہیں، انضباط حیات کے تحت انھوں نے اپنی ذہنی صلاحیت سے بڑھ کر کامیابی حاصل کی اوراپنی گھریلو زندگی کی کشتی ایسی مہارت سے کھیتے رہے کہ آل اولاد، بھائی رشتہ دار جس کے اوپرسایہ فگن رہے سب ساحل بکنارہوگئے اوراعلیٰ تعلیم سے مزین ہوگئے، اس دورمیں کم ہی ایسے لوگ ملتے ہیں جواپنوں کواس خوش اسلوبی سے کامیابی کی راہ پر گامزن کرسکیں، یہ آسان کام نہیں ہے بڑی پتہ ماری کا کام ہے ،یہ بات مشاہدہ میں ہوگی کہ بڑے بڑے گھن گرج کے لوگ ہوتے ہیں مگرچراغ تلے اندھیرا،انسان ذاتی اورگھریلو کامیابی حاصل کرتے ہوئے خود اعتمادی حاصل کرلیتاہے اورپھر عویصات کے حل کرنے میں اسے ماہرسمجھا جاتاہے اورسماج میں اسے وقعت حاصل ہوجاتی ہے، انھیں انضباط حیات ،فکر وخیال اورطرز زندگی میں ٹھہراؤ کے سبب اوردیگرمعاون اسباب کی بناء پر اورجامعہ سلفیہ کی قیادت کی بناء پر ازہری رحمہ اللہ کی حیثیت جماعتی حلقوں میں تسلیم شدہ بن گئی تھی اورپھرآج کے دورمیں جوجمالے جائے وہ جم جاتا ہے پھرکسی کو کیا اورکیوں کرنے کی فرصت نہیں ہوتی ہے۔
ازہر مرحوم کی ایک اہم خوبی یہ بھی تھی کہ وہ لگاتار اورمسلسل محنت کے عادی تھے اوراس قدرمحنت کرتے تھے کہ جوکام اپنے ذمہ لے لیتے تھے اسے حتی الامکان خوش اسلوبی سے پورا کرتے تھے، مسلسل محنت اورلگاتار جدوجہد ان کی زندگی کی پہچان تھی، محنت سے انسان سرخروہوتا ہے اورلگاتار محنت سے وہ کامیابیوں کی سیڑھیاں چڑھتا چلاجاتا ہے اورمحنت کے شیریں پھل اسے مل جاتے ہیں۔
چالیس سالوں تک ان کی لگاتار اورمسلسل محنت کا ثمرہ سامنے ہے، وہ اپنے کازمیں کامیاب ہیں اورشاندارانداز میں کامیاب ہیں، آدمی دولت جمع کرلے، بہت کتابیں لکھ ڈالے، بڑانام کمالے یہی کامیابی نہیں، انسان کی سب سے بڑی کامیابی یہ ہے کہ وہ جس کام میں لگاہے اورجس ماحول میں رہ رہا ہے ان میں اس کے اثرات قائم ہوجائیں اوراس کے اچھے نتائج سامنے آئیں، اس ناحیے سے ازہری صاحب مرحوم اپنے ہم عصروں میں سب سے زیادہ کامیاب تھے اورکامیابی ان کی ذات، ان کے گھر اوران کے متعلقین تک پھیلی ہوئی ہے۔
ازہری صاحب کی زندگی کی سب سے نمایاں کارکردگی ان کی نگارشات ہیں، اورنگارشات بھی اردواورعربی دوزبانوں میں ہیں، اورقریب قریب دونوں زبانوں کی تحریرحجم میں بھی یکساں ہیں، اوراسلوب ولب ولہجے میں بھی یکساں رنگ رکھتی ہیں، تحریریں انسان کی علمی، فکری اوراخلاقی صلاحیتوں کاآئینہ ہوتی ہیں، عموما ان کی طبیعت پرسکون ہوتی تھی ٹھہراؤ اور دھیمے پن کی حامل تھی، وہ ہرشئے میں بڑا نپا تلا سوچاسمجھا قدم اٹھانے کے عادی تھے، اس عادت کی آئینہ دارہیں ان کی تحریریں ان کی معروف انتظامی سرگرمیوں کے برعکس ہرقسم کے تنازع سے پاک اورصلح کل والی ہواکرتی تھیں، ان کا تال میل دانشورطبقہ سے بنارہتا تھا نیز ان کی منصبی ذمہ داری بھی تھی اورانسان کے اپنے اہداف ومقاصد حیات بھی ہوتے ہیں، اس لئے ان کا اپنا رویہ بن گیاتھا اوردائرہ فکرونظر اورتحریر نگارش بھی، ان تمام کی چھاپ ان کی تحریروں پرہوتی ہے۔
فکری وفنی اعتبارسے اگردیکھاجائے توان کی تحریریں قابل قدرہیں، ان کی تحریرفنی اعتبارسے سادگی اورپرکاری کے دائرے میں آتی ہے حشو وزوائدسے پاک صاف ستھری تحریر، دونوں زبانوں کی تحریروں میں ان کا اپنا خاص انداز ہے اورپوری جماعت میں ان کی الگ پہچان، جماعت میں ان کی طرح کسی کی الگ متعین پہچان نہیں ہے اوریہ انھیں کثرت مہارت اورتوجہ واہتمام سے حاصل ہوئی ہے، ان کی دونوں زبانوں کی تحریروں میں پختگی پائی جاتی ہے اورعلمی کاموں کے لئے مناسب طرز تحریر، ان ناحیوں سے ہم ہمیشہ ان کے قدردان رہے اوران کے تمام دوسرے ہم عصروں پرانھیں ترجیح دیتے رہے۔
ہندوستان میں دیگرعربی قلمکار بھی ہیں اورمختلف حلقوں میں ہیں، ندوۃ العلماء کا حلقہ ہے اوردیوبند کے اکاد کاعربی قلم کارہیں، ندوہ کے عربی قلم کاروں میں علی میاں کو چھوڑکردیگر قلم کاروں میں معتبرسعید اعظمی، واضح رشید ندوی اوررابع ندوی صاحبان ہیں، بقیہ سب دیگرعربی ندوی قلم کارزبردستی کے قلم کارہیں، ازہری صاحب کا اگران سے مقابلہ کیا جائے تو یہ ضرورنظر آئے گا کہ ندوی صاحبان کی تحریروں میں بھاری بھرکم الفاظ ہیں، گھن گرج ہے اورترادف کی بھیڑ ہے مگران کے مقابلے میں ازہری رحمہ اللہ کی عربی تحریروں میں جوسلاست، روانی، سادگی اورحقیقت نگاری پائی جاتی ہے وہ ان کی تحریروں میں موجودنہیں ہے، ازہری رحمہ اللہ کی عربی تحریریں واضح اورنمایاں ہوتی ہیں اورمتنوع تعبیرات کی حامل ہوتی ہیں ایسا لگتا ہے جیسے انھوں نے احمد امین کی تحریروں کا اثرزیادہ قبول کیاہے، ندوہ کی عربی تحریریں عجمیت اورانشائیت کی طرف مائل ہوتی ہیں اورانشائیت کے چکرمیں تحریریں بناوٹ، تکلف، کھوکھلاپن اورابہام کا شکار ہوجاتی ہیں اور تعبیرات میں تنوع کے بجائے یکسانیت اورمحدودیت پائی جاتی ہے، چونکہ یہاں عربیت نقل اورمشق کی بنیاد پرزیادہ چلتی ہے نحو اوربلاغت میں مہارت یا کم ازکم معتدبہ معرفت کی بنیادپر نہیں چلتی ہے اس لئے تعبیراتی خلا بشدت محسوس کیا جاتا ہے اورپھرایک مصیبت پندارکا ہے، پندارعربی قواعد اسلوب اورتعبیرات میں گہرائی پیداکرنے کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہوتاہے، قواعد اوربلاغت میں مہارت کوثانوی درجہ دینے کے بعد کوئی شخص کھوکھلی عربی لکھ سکتا ہے اس کے اندر عمق اورگہرائی نہیں آسکتی، ابہام وثقالت کی چھاپ اس پرضرور رہے گی۔
اہل حدیث علماء میں اس وقت جس قدرعربی قلم کار ہیں اورجس قدراچھی عربی لکھ سکتے ہیں دوسرے حلقوں میں نہ ان کے مقابلے میں اچھے عربی قلمکارہیں نہ ان سے زیادہ قلم کارہیں، لیکن ان خبایا کو سامنے آنے،نکھرنے اورسنورنے اوراپناکام کرنے کا نہ کوئی پلیٹ فارم ہے نہ ان کے لئے کوئی راستہ ہے نہ منزل، ساری تسہیلات علمیہ جگلروں کے ہاتھ میں ہیں جوان پر کنڈلی مارے بیٹھے ہوئے ہیں۔
استاذمحترم نے چالیس سال تک عربی تحریرنگاری کا شغل بہ تسلسل جاری رکھا اس میں کبھی ناغہ نہ ہوا، جامعہ کی ساری سہولتیں ان کے ساتھ تھیں، انھیں ہرطرح کی علمی ومادی سہولتیں حاصل تھیں، جامعہ کے ثقل سے انھیں عالمی وعربی پلیٹ فارم ملا ہوا تھا ان کے پاس حوصلہ اورجذبہ تھا کام کرنے کا سلیقہ بھی تھا، انھوں نے ان سب کا بھرپورفائدہ اٹھایا، اس طرح زندگی بھران کی تحریریں شاداب رہیں اوران کے عزم وحوصلے بھی تاباں رہے، اورمخالف ماحول میں بھی انھیں کام کرنے کا یارارہا، یہ بڑی خوبیاں ہیں جوانسان کو باکار،کارآمد اورزندہ وسرسبز بنادیتی ہیں اورلوگ قدردان بھی بنتے ہیں، انھوں نے عظیم علمی مقاصد کی خاطر خون دل جلایا ہے، وقت کی قربانی دی ہے، ساری صلاحیتوں کو جھونک دیاہے تب ان کی شخصیت مسلم ہوئی ہے اوریہ عظیم کام سب کے بس کانہیں ہے۔
چالیس سال کی عربی تحریر یں اور اداریئے، مقالات، کا نفرنسوں کے لئے تحریر کردہ بحوث، کتابوں کے عربی ترجمے اورعربی کتابوں کے مقدمے ہزاروں صفحات پرپھیلے ہوئے ہیں، ان کی اہمیت کے کئی پہلو ہیں، عجمی ماحول میں عربیت کی شمع جلائے رکھنا صحرا میں چراغ جلانے کے مترادف ہے، ہندوستانی ثقافت سے عرب دنیا کو آگاہ رکھنا، کتاب وسنت کی زبان کو رواج دینا اورقابل نمونہ بن جانا بڑی بات ہے، اس وقت مختلف موضوعات پرعربی زبان میں ان سے زیادہ کس کی صحافتی تحریر ہوگی کم ازکم ہندوستانی اہل حدیثوں میں وہ سب پرفائق ہیں۔
استاذ محترم ڈاکٹر مقتدی حسن ازہری کی علمی وادبی نگارشات مختلف موضوعات پرہیں لیکن اصلا ان کا رجحان تعلیم اورادب کی طرف تھا، اورادب وزبان سے ملاجلاکام ترجمے کا ہے، ان کی زیادہ ترتحریریں تعلیم وادب پرہیں اورترجمہ ہیں انھوں نے کئی اردو کتابوں کوعربی کا اورکئی عربی کتابوں کو اردو کا لباس پہنایا ہے اورفارسی کی ایک کتاب کو عربی کا لباس پہنایا ہے، انھیں ترجمہ کرنے میں بڑی مہارت ہوگئی تھی، زندگی بھرکا یہ مشغلہ ان کے لئے بہت دلچسپ مشغلہ تھا، اصحاب بصیرت قلم کاروں اورمصنفوں کی کتابوں کا ترجمہ بسا اوقات تصنیف سے زیادہ کارآمد ہوتا ہے، استاذمحترم نے جن علماء کرام کی کتابوں کا ترجمہ ایک زبان سے دوسری زبان میں کیا ہے وہ اعاظم علماء سلف میں ہیں ان کی فہرست ملاحظہ ہو علامہ ابن تیمیہ،علامہ قاسمی،شیخ الاسلام محمد بن عبدالوہاب اورعربی میں جن علماء کی کتابوں کاترجمہ ہواوہ ہیں علامہ گجرانوالہ، شاہ ولی اللہ محدث دہلوی اور قاضی صاحب منصورپوری رحمہم اللہ، ادب میں انھوں نے شوقی ضیف کو اپنارہنما بنایا اوران کے ادبی افکار وآراء کو اردوقالب میں ڈھالا۔
ان کے سواکچھ ناقابل ذکرلوگوں کی کتابوں کو عربی یا اردوزبان میں ڈھالا جیسے عبدالحلیم عویس، نثارفاروقی، یٰسین مظہر صدیقی ،تقی امینی اورعباس محمد عقاد، یہ کتابیں جن کا اردو یا عربی میں ترجمہ کیا گیا وہ رعایت ومروت کے تحت ہوگیا ورنہ وہ قابل اعتنا نہ تھیں، ہوتاہے انسان کی زندگی میں ایسے مراحل آتے ہیں اورایسے لمحات بھی اورناقابل ذکر اسباب ہوتے ہیں جن کے تحت مرضی کے خلاف بھی انسان کو کام کرناپڑتا ہے یا انسان کو رہنا پڑتاہے، ہرانسان کی زندگی کے ساتھ ایسے واقعات جڑے ہوتے ہیں لیکن اس سے انسان کے دیگر کمالات کی نفی نہیں ہوتی ہے۔
بہرحال ازہری مرحوم کا ترجمہ اردومیں ہویا عربی میں صاف ستھرا اورواضح ہوتا تھا، ترجمہ توبہت سے لوگ کرتے ہیں، لیکن مستند ترجمہ سب کا نہیں ہوتاہے، مستند ترجمہ مستندعلم والوں کا ہی ہوسکتا ہے اورپھرمزاولت، ریاضت اورمحنت اسے نکھاردیتی ہے اوریہ سب ترجمہ کے لئے ضروری ہیں اوروہ ان سے بہرہ مند تھے، کتابوں کے سواانھوں نے بے شمارمضامین کابھی اردوسے عربی اورعربی سے اردومیں ترجمہ کیاہے، عموما ان کے ترجموں کو پسند کیاگیا اورانھیں قبولیت کا درجہ بھی ملا اور اوربہت سی علمی وثقافتی چیزیں جواردو میں تھیں ان سے اہل عرب آگاہ ہوئے۔
ترجمہ کے سواانھوں نے ادب اورتعلیم پربہت کچھ لکھا، ہند وستانی عصری جامعات کے سمیناروں کے لئے انھوں نے عربی یا اردو میں ادب پر بہت سے مقالے تیار کئے، شعرفہمی کابھی انھیں ذوق ملا ہواتھا انھوں نے کئی شعراء کے مجموعہ کلام پرتبصرہ کیااورمقدمہ لکھاہے۔
تعلیم کے مسائل پران کی خاص توجہ تھی، تعلیمی کانفرنسوں میں انھوں نے بہت سے مقالے لکھے ہیں اورخود جامعہ سلفیہ کے نصاب تعلیم کی ترتیب، اہل مدارس کے ذمہ داروں کے ساتھ تعلیمی میٹنگیں، جامعہ سلفیہ کے ساتھ الحاق مدارس کا خاکہ اوران کے لئے تعلیمی رہنمائی کا انھوں نے مسلسل اہتمام کیا، تعلیمی مسائل ان کی ترجیحات میں داخل تھے، ان کے تعلیمی افکارکیا تھے اورموجودہ صورت میں وہ کیا چاہتے تھے تفصیلی طورپر کچھ زیادہ کوئی چیز موجود نہیں ہے لیکن یہ چیز نمایاں ہے کہ جماعتی مدارس میں اصلاح نصاب اورترتیب نصاب کے لئے انھوں نے انتھک محنت کی اورخودبھی اصول فقہ کے لئے ارشاد الفحول کی تلخیص حصول المامول کے نام کی اورعلوم القرآن پر سیوطی کی مشہورکتاب الاتقان کی ترتیب وتہذیب کی، اور بڑی حدتک جامعہ کے اساتذہ کی مشترکہ کوششوں سے جامعہ سلفیہ کا نصاب تیارکیا، اکثراہل حدیث مدارس میں جامعہ ہی کا نصاب چلتا ہے، اس سے ہمیں بحث نہیں کہ نصاب کیساہے؟ اورکس قدرجاندارہے، لیکن بہرحال ان کی محنت شاہکارتھی البتہ جب سے اس نصاب میں دانشوری شروع ہوئی ہے اس کو خچر نصاب تعلیم بنادیا گیا، جامعہ فیض عام مؤکے ایک اجلاس میں ۲۰۰۷ء ؁ میں جوان کی صدارت میں ہوا تھا میں نے خچر نصاب تعلیم کے نقصانات پرتقریر کی تھی، بڑی خوشی کا اظہارکیا اورشکریہ بھی اداکیا۔
ملت کے تعلیمی بحران پر وہ بڑی دلسوزی سے غورکرتے تھے اوراس موضوع پربھی برابر لکھتے رہتے تھے، عربی اردومیں ان کے مقالات کا فی لمبے لمبے شائع ہوچکے ہیں، مسائل تعلیم پر غورکرنا اوران پرکچھ نہ کچھ لکھتے رہنا ان کا علمی رویہ بن گیاتھا۔
عربی مدارس میں بکثرت تعلیم اورنصاب پر پروگرام ہوئے عموما ان میں ڈاکٹر صاحب کی شرکت ہوتی تھی اوراپنی تحریروں کے ساتھ ان میں بھرپورحصہ لیتے تھے،بلکہ قیادت کرتے تھے، جہل وابلہی کے ماحول میں لوگ ان کی ذات کو بساغنیمت جانتے تھے اوراپنے تعلیمی مسائل میں ان سے رہنمائی حاصل کرتے تھے۔
ادب پربھی انھوں نے لکھا ہے، پانچ جلدوں میں تاریخ ادب عربی پر ان کا کام اس وقت اردومیں سب سے بڑا کام ہے اوریونیورسٹیوں میں عربی ادب کے طلباء اس پرکافی انحصارکرتے ہیں، عربی شاعری پربیٹے کا کام بھی انھیں کا سمجھنا چاہئے، اس طرح اگردیکھاجائے توسب سے زیادہ ان کی تحریر ادب کے موضوع پرہی ہوگی، یعنی کم ازکم بیس فیصد ان کی تحریریں ادب کے موضوع پرہوں گی۔
ترجمے کے بعد اردواورعربی میں ان کی تصنیفات بھی کئی ایک ہیں، ان کا علمی پایہ کیساہے اس سے قطع نظریہ حقیقت ہے کہ ان ساری تحریروں میں ان کی محنت کا رنگ نمایاں رہتاہے، ان کی محنت اورجدوجہد کا یہ عالم تھا کہ ہم جب بھی انھیں یاد کرتے ہیں توان کا یہ امیج ذہن میں سب سے پہلے بنتا کہ تنہائی میں قلم لئے بیٹھے ہیں، تفکرمیں غرق ہیں، افکارکو شکارکرنے میں لگے ہوئے ہیں اورجوں ہی افکارپکڑمیں آئے فوراً انھیں قلمبند کرلیا، ایک اندازے کے مطابق کم وبیش انھوں نے دس ہزار صفحات لکھے ہوں گے۔
کام کی نوعیت کے اعتبارسے دیکھاجائے تو انھوں نے ایک طرح سے منصوبہ بندطریقے سے مستقل نوعیت کا کام کیاہے۔
(۱) صوت الامۃ کی ادارت: چالیس سالوں تک یہ کام مستقلا انھوں نے کیا، چالیس سال کی فائلیں ہی چارسو سے زیادہ شماروں پر مشتمل ہیں، کچھ دنوں سہ ماہی کو اگرالقط کردیں توکم ازکم ان شماروں کی تعداد ساڑھے چارسوبنے گی، ان کا اداریہ مستقلا انھوں نے ہی لکھا ،چندسال گیپ ہوا ہوگا جب وہ علی گڈھ پی .ایچ.ڈی. مکمل کرنے کے لئے مقیم تھے، اس اثناء میں مولانا عبدالحمید رحمانی نے کچھ شماروں کو ترتیب دیاہے، ڈاکٹر صاحب کے تحریر کردہ اداریوں کوہی اگرشمارکیا جائے توادارتی تحریریں دوہزارصفحات سے کم نہ ہوں گی۔
(۲) ڈاکٹر صاحب ادارۃ البحوث کے نگراں تھے، انھوں نے اپنی نگرانی میں چارسو سے زیادہ کتابیں چھپوائی ہیں اور ان کا مقدمہ لکھا ہے، کتابوں پر پیش لفظ بھی دوہزارصفحات سے زیادہ ہوں گے۔
(۳) ادب پربھی ان کی تحریریں اصل یا ترجمہ کی صورت میں کم وبیش دوڈھائی ہزارصفحات پرپھیلی ہوئی ہیں، اگرمیں یہ کہوں کہ عربی ادب پراردومیں ان کی تحریریں ہندوستان میں سب سے زیادہ ہیں توشاید بات غلط نہ ہوگی، شاید یہ امتیاز انھیں حاصل ہے، عصری جامعات میں شعبہ عربی سے وابستہ حضرات کے لئے یہ ادبی کارگردی قابل رشک ہے۔
(۴) مقامی وعالمی سمیناروں میں ان کی دوامی شرکت، صدارت اورمقالہ خوانی میں وہ اپنے سارے ہم عصروں سے آگے تھے، ان پروگراموں میں ان کے افکار وکلمات اورخطبات کا حجم بھی بہت بڑا ہے، ان کو اگراکٹھا کیاجائے تویہ بھی ہزاروں صفحات پر پھیلے ہوئے ہوں گے ،ان کی ایک خوبی یہ بھی تھی کہ چند منٹ کے خطاب کے لئے بھی وہ نوٹس تیار کرلیتے تھے۔
(۵) مقالہ نگاری:اردواورعربی میں ہمیشہ ڈاکٹرصاحب مجلات کے لئے لکھتے رہتے تھے، میں نے ۱۹۶۷ کے ’’معارف‘‘ کے دوشماروں میں سب سے پہلے ان کا ایک مضمون دیکھا پھرمختلف جماعتی اور غیر جماعتی مجلات وجرائد میں ان کے مضامین چھپتے رہے اورجامعہ سلفیہ کے ماہنامہ ترجمان’’محدث‘‘ کے ہرشمارے میں بالالتزام ایک مضمون رہتا تھا، یہ سارے مضامین معتدبہ تعدادمیں ہیں اوراگرانھیں اکٹھا کیاجائے تویہ بھی کئی جلدوں میں آئیں گے۔
(۶) ڈاکٹر صاحب نے جامعہ سلفیہ میں اپنے چالیس سالہ دورمیں کئی علمی ادبی اورعالمی محفلیں سجائی ہیں، یہ کتنا کامیاب تھیں اس سے قطع نظر ان سے جامعہ میں علمی چہل پہل قائم رہی، اورعلمی بہاریں آتی رہتی تھیں، ان کے سجانے بنانے اوران کے پیچھے تحریری کاموں کوانجام دینے میں سب سے بڑا ہاتھ ڈاکٹرصاحب ہی کارہتا تھا، اوریہ بھی توہے کہ جامعہ کے سارے تصنیفی وتالیفی ترجمے کے پروگرام انھیں کے بنائے ہوئے توہیں، کم وکیف سے قطع نظر سارا علمی ڈھانچہ اوراس کا سارا رابا ڈھابا انھیں کا ہوتا تھا۔
(۷) ترجمہ کا کام: ڈاکٹرصاحب کی سب سے بڑی پہچان ایک مترجم کی حیثیت سے ہے، ان کے کاموں کا سب سے بڑا حجم ترجمے کا ہے، ابتکار اورتخلیق کے مقابلے میں ترجمہ کا حجم ان کی تحریروں پر حاوی ہے ،یہ ترجمہ کا کام مقصدیت اورعزائم کے برخلاف نہیں ہے، اگرمقصدیت ہے اورانفرادی وسماجی عزائم سے ہم آہنگ ہے توترجمہ کی اہمیت اپنی جگہ برقرار ہے، اوراس گلوبل ایج میں ترجمہ کی اہمیت میں بہت کافی اضافہ ہوچکا ہے، بسا اوقات ترجمہ اصل سے زیادہ اہمیت کا حامل بن جاتا ہے اوراسے زیادہ پذیرائی مل جاتی ہے، علامہ شکیب ارسلان نے حاضرالعالم الاسلامی کو وہ رفعت عطاکی جواصل کو اس کا عشرعشیربھی نہ ملا، ابوزہرہ کے سلسلہ اعلام کو علامہ بھوجیانی نے اردو قالب میں وہ مقام عطاکیا اوراس کی علمی حیثیت ایسی بلند کی جو اصل کو عربی میں میسر نہیں ہے اور اردودانوں کے لئے جس طرح اسے لائق استفادہ بنادیا عربی اصل کی وہ بات نہیں ہے۔
ترجمہ کے سلسلے میں بتایا گیا کہ ڈاکٹر صاحب کو اس فن میں امتیاز حاصل تھا اورانھوں نے اس فن کو نکھارابنایا، اکثردیکھاگیا ہے کہ ترجمے میں بھاری بھرکم الفاظ استعمال ہوتے ہیں تولوگوں کے لئے وہ بڑا جاذب نظرہوتا ہے اوراس کی رجاحت کو لوگ تسلیم کرنے لگتے ہیں بغیریہ جانے کہ مؤلف کے مفاہیم کی صحیح ترجمانی ہوئی ہے یا نہیں، ترجمہ ایک فن ہے جس کو ادبی وعلمی ذوق نہ ملا ہو، قواعد وبلاغت کے اصولوں سے آگاہ نہ ہو، لسانی تعبیرات پرپکڑنہ ہو،لسانی شعورو ادراک نہ ہو،ڈکشن مضبوط نہ ہو، وہ صحیح ترجمہ نہیں کرسکتا ہے، وہ عبارتوں پراڑسکتا ہے اورمصنف کی عبارتوں کو ذبح کرسکتا ہے اوراس کے معانی ومفاہیم کو ریت اور مٹی بناسکتا ہے، ترجمہ نام ہے معانی اور مفاہیم کو ایک قالب سے دوسرے قالب میں ڈھالنے کا، ایک لباس بدل کر دوسرا لباس پہنانے کا، اگرلباس حروف ہیکل معانی پر استوارنہ ہوں اوردیدہ زیب نہ بن سکیں اورہیکل معانی کوبرقرار نہ رکھاجاسکے بلکہ اس کے اندر توڑپھوڑ مچ جائے تواسے ترجمہ نہیں تخریب کہیں گے، ایک زبان سے دوسری زبان میں حرف ومعنی کی تشکیل بڑا لطیف اورلطف اندوز کام ہے اورمشکل بھی ، یہ جام وسندان باختن کا کام ہے یہ کام ہرایک سے نہیں ہوسکتا۔
اگرترجموں کے غلطی ہائے مضامین کے عنوان پرکام ہو توایک چشم کشا کام ہوگا، عقیدے کی ایک کتاب کا اردوترجمہ چھپاہے، عربی زبان میں عقیدہ کی تعریف میں ایک عبارت ہے’’العقیدۃ ہی القضایا، المسلمۃ عندالعقل والنقل‘‘ اس کا ترجمہ اس طرح کیاگیا ہے، ’’عقیدہ ایسے فیصلوں کانام ہے جسے عقل ونقل کے ذریعہ کیاجاتاہے’’مترجم بیچارے نے قضایا کو اقضیہ سمجھ لیا ہے اورعقیدہ اس کے نزدیک عقل سے بھی طے ہوتا ہے، سب جانتے ہیں عقیدہ توقیفی مسئلہ ہے اس میں عقل کو دخل نہیں، نصوص الٰہیہ نبویہ موثقہ محکمہ اس کی بنیاد ہوتی ہے اورمشکل یہ ہے کہ اس کتاب کے ترجمے کی توثیق علماء کبار کی ایک ٹیم نے کی اورترجمہ چھپ گیا، بہت سی ایسی مثالیں اورعجائبات ترجمے کی دنیا میں موجودہیں، ایک تفسیر’’اردوئے مبین‘‘ میں ہے اوراس کے پڑھنے والے اس کے مصنف کو دنیاکا امام اکبر سمجھتے ہیں کہ اس جیسا باکمال مصنف دنیا میں پیدانہیں ہوامگر اس کے ترجمہ قرآن میں ہرسطر میں شاید غلطی مل جائے۔
ترجمہ ایک فن ہے یہ کام سب کے بس کانہیں ہے، فن کا ماہرہی یہ کام کرسکتا ہے، ڈاکٹر صاحب اس فن کے ماہر تھے اورمزاولت نے ان کے اس فن کونکھاردیاتھا۔
(۸) تالیف کا کام:ڈاکٹر مقتدی حسن ازہری رحمہ اللہ نے تصنیف وتالیف کا کام بھی کیا اورعربی اردودونوں زبانوں میں یہ کام کیا اوردونوں زبانوں میں قریباڈیڑھ درجن کتابیں ان کی یادگار ہیں، یہ کتابیں قضایا معاصرہ، سماجی اوردینی مسائل پر ہیں اوراپنے موضوع پر معلومات افزاہیں۔
(۱۰) مکتوبات: ڈاکٹرصاحب نے اپنی عمرکا بیش بہا حصہ جامعہ سلفیہ میں لگایا اوراس کے پالیس ساز منتظم کاراوراندورنی وبیرونی دنیا سے تعلق برقرار رکھنے کے لئے وکیل بنے رہے، جامعہ کے چالیس سالوں کی دستاویزات(قانونی کے استثناء کے ساتھ) نوشتے، سندات، مکاتبات، مذاکرات، نوٹس، تنبیہات، فرمودات، فرامین سب کچھ وہی تیار کرتے رہے ہیں، جامعہ سلفیہ کی تاریخ میں اورمصادر تاریخ میں یہ سارے نوشتے کئی ہزار صفحات کو گھیرے ہوئے ہیں، یہ ایک مثالی اورعظیم کا رنامہ ہے اسے شاہکارکام سمجھئے، یہ کام جس سلیقے، امانت، توجہ اورذمہ داری سے انجام پایا میری معلومات کی حدتک ہندوستان کے کسی دوسرے ادارے میں اس کی نظیرنہیں مل سکتی ہے، جب وہ باحیات تھے تب اس کام کو ڈھنگ ڈھنگ نام دیاجاتا رہاہوگا مگراب اس کی اہمیت سمجھ میں آتی ہے۔
انھیں قربانیوں، سلیقہ مندیوں، محنت، انضباط وقت اورانضباط حیات کا نتیجہ تھا کہ ان کے ہم عصروں میں بہت سے اسپہائے تازی زندگی کی دوڑمیں کئی میدانوں میں ان سے پیچھے رہ گئے اورپوری جماعت میں ان کی حیثیت سب سے نمایاں بن گئی جسے ان کا دشمن بھی تسلیم کرنے پرمجبور ہوگا، انھوں نے اپنے تشخص کوجیسابھی تھا اورجوبھی تھی بچایانکھارا اوربے جا امور میں الجھایا نہیں ،انھوں نے اپنی صلاحیت کوبھرپور طورپر نکھارابنایا،انھوں نے ہرشئے میں سلیقہ مندی کو اپنایا، لباس، نشست وبرخاست، گفتگو، تحریر، تقریر، گھر،آفس، روزانہ تصرفات غرضیکہ ہرشئے سے سلیقہ مندی ٹپکتی تھی۔
دراصل ان کی علمی شخصیت کی تشکیل وتعمیرمیں مصری اساتذہ کا سب سے بڑاہاتھ تھا، ان کو جوماحول اورسرکل ملاوہ علمی تھا، ہندوستان میں ان کو اپنے علمی وطبعی رجحان کے سبب یونیورسٹی طبقہ سے زیادہ قرب حاصل تھا گویہ حلقہ عیاری، جہالت اور سخن سازی میں طاق ہے، اس حلقے سے ا نھیں مادی منفعت جوبھی ملی ہو علمی منفعت کم ہی ملی، بلکہ ان کا استحصال ہوا اورساتھ ہی جامعہ کا بھی، یونس نگرامی، مختار الدین آرزواور نثارفاروقی جیسے شاطر لوگ ازہری جیسے بامروت لوگوں کو چٹکیوں میں اڑانے والے ہوتے ہیں۔
ان کی علمی شخصیت کا ثقل جامعہ سلفیہ کے پلڑے میں کتنا پڑا اس بحث میں نہیں پڑتا، اس سلسلے میں میری رائے ڈھکی چھپی نہیں ہے اس کے اعادہ کی ضرورت نہیں ہے، لیکن اس کا ذکر ضروری ہے کہ جامعہ میں جوکچھ علمی چہل پہل تھی انھیں کی ذات سے تھی ،اس بزم کے دولہا وہی تھے اورجوعلمی ساکھ جامعہ کی بنی اس میں ان کا قیادی رول ہے، یہ الگ بات ہے کہ اس کے اندر بہت سی چھوت چھات کی بیماریاں لگ گئیں جن کی کسی کے پاس کوئی دوانہیں ہے، یہ بیماریاں کس کے سبب متعدی ہوئیں یہ بھی عالم آشکاراہیں، ان بیماریوں کے سبب جامعہ کی حیثیت مرگئی اوراس کی کارگردی سردپڑگئی۔
لوگوں کے عزائم، ارادے، مقاصد، سرگرمیاں اورنیتیں الگ الگ ہوتی ہیں، ذہنیت اوررویہ بھی الگ الگ ہوتا ہے، اس تفاوت کو مد نظررکھیں اوردیکھیں تو بھی ڈاکٹر صاحب اپنے ہم عصروں میں ممتاز نظرآئیں گے، میں نے ہمیشہ ان کی قدرکی ہے اورانھیں دوسروں پر فوقیت دی ہے اورآج بھی دل سے انھیں تسلیم کرتا ہوں، میں شاگرد وہ استاذ ،میں خوردوہ بزرگ، میں چھوٹا وہ بڑے لیکن ہماری یہ برائی سمجھئے یا خوبی میرا مزاج کسی کی آقائیت تسلیم کرنے کانہیں ہے، میں اپنے بزرگوں کا احترام لازمی سمجھتاہوں اوران کے احترام کواسلامی تہذیب کی بنیاد مانتاہوں اگرخوردوں اوربزرگوں کے درمیان شفقت ومحبت اوراحترام کاتعلق برقرار نہ رہے توپھرسارے علمی دھاگے ٹوٹ جاتے ہیں، کبرورعونت کے پھلنے پھولنے کا ماحول بن جاتا ہے، استاذو شاگرد کے تعلق کا تقدس پامال ہوجاتا ہے، میں آج بھی صمیم قلب سے اپنے استاذ اور بزرگ کی قدرکرتا ہوں،مسئلہ یہ ہے جب بزرگوں کی طرف سے بالتواتر بے ضابطگیاں نظرآئیں اورخوردوں کو بلڈوزکیاجانے لگے اورخوردوں کوہرمحفل میں زیربحث بناکرانھیں ڈسکارڈ کرنے کی غیرشعوری کوشش ہوتویہ ناقابل برداشت ہوجاتا ہے ،بیماری کی طرف ایسی حالت میں اشارہ کرناہی پڑتا ہے لیکن پھربھی صبروتحمل کا رویہ ہرحال میں قابل ستائش ہے، اورکسی کا اس طرح کا تصرف اس کی حیثیت کو گرانہیں دیتا ہے نہ اس کے کمالات، مجہودات اورامتیازات کوکم کرتا ہے، زندگی کے بہت سے رخ ہوتے ہیں جن رخوں کے ہوتے انھیں نظر انداز کرنا پڑتا ہے، ان سلبیات اورروگ کے علاج کی بات ہوتو بہت سے باؤلے اسے جامعہ کی حرمت پردست درازی سمجھتے ہیں، ایسی سوچ احمقانہ سوچ ہے۔
ڈاکٹرمقتدی حسن ازہری رحمہ اللہ ہمارے استاذ تھے ،دورطالب علمی میں انھوں نے میرے اوپربہت شفقت فرمائی ہے، بہت کم لوگوں کوایسی شفقت ملی ہوگی، اوریہ اعتراف بجاہوگا کہ کئی اہم موڑپرانھوں نے ہمارا ہاتھ تھاما ہے، میری تعلیمی زندگی میں اس ناحیے سے وہ ہمارے بہت بڑے محسن ہیں اورجامعہ کے دورتدریس میں ناظم جامعہ مولانا عبدالوحید رحمہ اللہ کے بقول انھوں نے میری نازبرداری کی ہے، اورکہنا بھی صحیح ہوگا کہ تحریرونگارش کی دنیا میں انھوں نے میرے اوپر بڑا اعتبار بھی کیا ہے اورہماری تحریروں اورفکر وخیال کے بڑے قدردان بھی تھے، ایسا بھی ہواہے کہ اگرکبھی عربی وفارسی کی عبارت غیرمفہوم ہوتی تو بلاتکلف تبادلہ خیال کرتے تھے، اورجب بھی ملاقات ہوتی توعمومابڑی محبت اورتوجہ سے باتیں کرتے اورمسلک وجماعت اور علم وادب سے متعلق گفتگو کرتے اورغورسے سنتے، اورعلمی وذاتی امورمیں بھی شفقت ومحبت سے مشورے دیتے، کم ازکم مجھے اپنے بزرگوں میں کسی سے ایسی نصیحت اورشفقت نہیں ملی، ہمارے ان کے درمیان غلط فہمی کے اسباب کئی ایک اکٹھاہوگئے، جامعہ کا نظام میرے لئے نظام جبرتھاجسے میں کبھی نہ جھیل سکا اس کے ساتھ اوردیگرقباحتیں جڑی تھیں جومیرے نزدیک سخت ناپسندیدہ تھیں اوروہ جامعہ کی قوت محرکہ تھے اورقائدانہ رول پلے کرتے تھے، پھربہت سے مسائل میں نقطہائے نظرمیں بڑا بعدبھی تھا، اوربات زیادہ یہ کھلتی تھی کہ فاسقوں، فاجروں، چھوٹے بھیوں اورفسادیوں کو ان کا تقرب حاصل ہوگیا تھا یا ان کی طرف ان کا میلان ہوگیا تھا،جومیرے لئے خلش کا باعث تھا۔
بہرحال وہ جماعت کے ایک ممتاز عالم تھے اوراپنے ہم عصروں میں بہت سے اعتبارسے فائق ان کی محنت قابل رشک، ان کی جہود علمیہ فراواں، ان کی شخصیت موثر اوران کے انداز واطوارخوشنما، اللہ تعالیٰ انھیں غریق رحمت فرمائے، ان کی لغزشوں کومعاف کرے اورانھیں کروٹ کروٹ جنت نصیب فرمائے۔(آمین)
***