Tuesday, September 28, 2010

حضرت زیدبن ثابت aug-sep 2010

محمود احمد غضنفر

حضرت زیدبن ثابت

سنہ۲ ہجری ہے،مدینہ منورہ میں چہل پہل دکھائے دے رہی ہے، مجاہدین غزوۂ بدرکی تیاری میں ہمہ تن مصروف ہیں، نبی کریمﷺ اپنی قیادت میں جہاد کے لئے روانہ ہونے والے پہلے لشکر پرطائرانہ نگاہ ڈال رہے ہیں کہ اچانک ایک تیرہ سالہ لڑکا جس کے چہرے پرذہانت ،متانت، شرافت اورخودداری کے نقوش نمایاں نظر آرہے تھے ہاتھ میں اپنے قدسے بھی لمبی تلوار پکڑے رسول اللہﷺ کے قریب آیا اورعرض کی یا رسول اللہﷺ میں آپ پہ قربان جاؤں، مجھے اپنے ساتھ لے لیجئے تاکہ میں آپ کے جھنڈے تلے جہاد کی سعادت حاصل کرسکوں۔

رسول اکرم ﷺ نے اسے خوشی اورتعجب سے دیکھا اوراس کے کندھے پرمحبت وشفقت بھرے انداز میں تھپکی دی، اس کے دل کو خوش کیا اورکم عمری کی بناپراسے واپس لوٹادیا۔

یہ نوعمرلڑکا اپنی تلوار زمین پرگھسیٹتا ہواغم واندوہ کی تصویر بناہوا واپس لوٹاکیونکہ وہ پہلے غزوے میں رسول کریمﷺ کی رفاقت حاصل کرنے سے محروم ہوگیاتھا، اس کے پیچھے ان کی والدہ محترمہ نواربنت مالک غم واندوہ سے نڈھال واپس لوٹیں، کیونکہ ان کے دل کی یہ تمنا تھی کہ میرالخت جگر رسول کریمﷺ کے جھنڈے تلے مجاہدین کے شانہ بشانہ دادِ شجاعت دے اور مجھے یہ منظردیکھ کرآنکھوں کی ٹھنڈک نصیب ہو، کاش کہ آج اس کا باپ زندہ ہوتا توضروررسول کریمﷺ کی قیادت میں اس غزوے میں شمولیت کی سعادت حاصل کرتا۔

لیکن جب اس انصاری بچے نے اپنی نوعمری کی بناپر میدان جہاد میں رسول اقدس ﷺ سے قرب حاصل کرنے میں اپنی ناکامی دیکھی تواس کے ذہن رسا میں نبی کریمﷺ کا تقرب حاصل کرنے کا ایک اورطریقہ آیا جس کا عمرکے ساتھ کوئی تعلق نہیں تھا، بلکہ اس کا تعلق علم اورقرآن مجیدکے حفظ سے تھا، جب اس نے اپنی والدہ سے اس کا تذکرہ کیا تووہ بہت خوش ہوئیں اوریہ طریقہ آزمانے کے لئے مستعد وچوکس ہوگئیں۔

والدہ محترمہ نے اپنی قوم کے چیدہ افرادسے اپنے لختِ جگرکی رائے اوراندازِ فکر کاتذکرہ کیا تووہ اسے اپنے ہمراہ رسول کریم ﷺ کی خدمت اقدس میں لے گئے، اورعرض کی:یا رسول اللہ ﷺ ہمارے بیٹے زید بن ثابت کوقرآن مجید کی سترہ سورتیں زبانی یادہیں اوریہ اس طرح درست پڑھتاہے جس طرح آپ کے قلب مبارک پہ نازل کی گئی تھیں، علاوہ ٓمیں یہ بڑاذہین ہے اورلکھناپڑھنا بڑی اچھی طرح جانتا ہے، ان خوبیوں کی وجہ سے وہ آپ کا قرب اورآپ کے دامن سے لپٹناچاہتاہے، آپ چاہیں تو اس سے سن لیں،رسول اکرمﷺ نے اس ہونہارلڑکے زید بن ثابت رضی اللہ عنہ سے کچھ سورتیں سنیں توالفاظ کی عمدہ ودرست ادائیگی اورخندہ پیشانی ،شیریں کلامی سے آپ بہت متاثر ہوئے اس کے ہونٹوں پرقرآنی کلمات اس طرح چمکتے تھے جس طرح آسمان پر تارے چمکتے ہیں،اس کی تلاوت اپنے اندربے پناہ جاذبیت رکھتی تھی، تلاوت کا ٹھہراؤاس کے تروتازہ حافظے اورفہم وفراست پر دلالت کرتا تھا،رسول کریمﷺ اس ہونہار بَروے میں یہ خوبیاں دیکھ کربہت خوش ہوئے اورآپ کو زیادہ خوشی اس سے ہوئی کہ وہ عربی زبان عمدہ انداز میں لکھنا بھی جانتا ہے، نبی کریمﷺ نے اس کی طرف محبت بھرے انداز سے دیکھا اور ارشاد فرمایا:’’اے زید! میرے لئے یہودکی زبان عبرانی لکھنا بھی سیکھو،مجھے ان پر اعتماد نہیں‘‘۔

انھوں نے کہا: حاضریارسول اللہﷺفوراً عبرانی زبان سیکھنا شروع کردی اورتھوڑے ہی عرصہ میں اس زبان میں مہارت پیداکرلی، رسول اللہ ﷺ یہودکی طرف کوئی پیغام لکھ کربھیجنا چاہتے تو توجناب زید بن ثابت تحریر کرتے اورجب وہ کوئی خط بھیجتے تویہ آپ کو پڑھ کرسناتے۔

پھررسول اللہﷺ کے حکم کے مطابق عبرانی کی طرح سریانی زبان بھی سیکھ لی، اوریہ نوجوان زید بن ثابت رضی اللہ عنہ،رسول اقدس ﷺ کا ترجمان بن گیا اوراس طرح انھیں آپ کا قرب حاصل ہوا۔

جب نبی کریمﷺ کوحضرت زید کی متانت، دیانت، امانت اورمعاملہ فہمی پرمکمل اعتماد ہوگیا تو انھیں خدائی پیغام ضبط تحری رمیں لانے کے لئے ’’کاتب وحی‘‘کے اہم منصب پرفائز کردیاگیا، جب قرآن مجیدکی کوئی آیت آپ کے قلب مبارک پرنازل ہوتی توحضرت زید کوبلاتے اوراسے لکھنے کا حکم دیتے، تووہ اسے لکھ دیتے، حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ ،وقتا فوقتا رسول کریمﷺ سے قرآنی تعلیمات حاصل کرتے اوراس طرح دن بدن ان کی دینی معلومات میں اضافہ ہونے لگا اوروہ آپ کے ذہن مبارک سے تازہ ترین دینی احکامات سنتے، ان کے اسبابِ نزول معلوم کرتے جن سے ان کے دل میں انوارِ ہدایت سے چمک پیداہونے لگی، اوران کی عقل اسرارشریعت سے منورہونے لگی یہاں تک کہ یہ نوجوان قرآن مجیدکا ماہراوروصال رسول علیہ السلام کے بعدامت محمدیہ کے لئے مرجع اوّل بنا، حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ ،کے دورِ خلافت میں جن صحابہ کرام کو قرآن مجید جمع کرنے کا فرض سونپاگیاان میں یہ سرفہرست تھے۔

حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے دورِ خلافت میں جن صحابہ کرام نے قرآن مجید کے متعددنسخوں کویکجا کیا ان میں بھی ان کی حیثیت نمایاں تھی، کیا اس سے بڑھ کربھی کوئی مرتبہ ہوسکتا ہے جس کی کسی کوتمناہو؟۔

قرآن مجید کی برکت سے حضرت زیدبن ثابت رضی اللہ عنہ کے لئے ایسے کٹھن مراحل میں صحیح سمت اختیار کرنے کے راستے روشن ہوجاتے جب کہ بڑے بڑے عقل مندحیران وپریشان ہوجایاکرتے تھے۔

مہاجرین نے کہا: رسول اقدس ﷺ کی خلافت کاحق ہمارا ہے،انصارمیں سے چندایک نے کہا: خلافت کے حقدار ہم ہیں،اوربعض انصارکہنے لگے کہ ایک خلیفہ ہم میں سے ہواورایک مہاجرین میں سے ہو، کیونکہ رسول اقدس صلی اللہ علیہ وسلم جب کبھی کسی علاقے میں مہاجرین میں سے اپناکوئی نمائندہ بناکربھیجتے تواس کے تعاون کے لئے ایک انصاری کوساتھ ملادیا کرتے تھے، قریب تھاکہ یہ فتنہ سنگین صورت اختیار کرجاتا، حالانکہ اللہ کے نبیﷺ کفن میں ملبوس ان کے سامنے تھے ابھی آپ کے جسداطہر کودفن نہیں کیاگیا تھا،ایسے نازک ترین موقع پرضروری تھاکہ قرآن مجید کی برکت سے کوئی ایسی اچھوتی، حیرت انگیز اورمحتاط بات سامنے آئے جس سے یہ فتنہ فوری طورپردب جائے، یہ بات حضرت زیبد بن ثابت انصاری رضی اللہ عنہ ،کی زبان مبارک سے نکلی جب انھوں نے اپنی قوم کی طرف دیکھا توارشاد فرمایا اے خاندان انصار! رسول کریمﷺ مہاجرین میں سے تھے، آپ کا خلیفہ بھی مہاجر ہوگا۔

ہم جس طرح رسول اللہ ﷺ کے انصارومددگار تھے اسی طرح ان کے خلیفہ کے بھی انصارومددگار ہوں گے،پھراپناہاتھ حضرت صدیق رضی اللہ عنہ ، کی طرف بڑھایا بیعت کی اورفرمایا یہ تمہارے خلیفہ ہیں ان کی بیعت کرو۔

حضرت زیدبن ثابت رضی اللہ عنہ ،قرآن مجید کی برکت اورطویل زمانہ رسول کریمﷺ کی صحبت کی بناپر مسلمانوں کے لئے مینارۂ نور اوران کے ہادی ومرشدبن گئے۔

خلفائے عظام مشکل ترین مسائل کے حل کرنے میں ان سے مشورہ لیتے، عوام الناس فقہی مسائل میں ان سے فتویٰ لیتے، خاص طورپروراثت کی تقسیم کے سلسلہ میں ان سے زیادہ ماہراورکوئی نہ تھا، فتح دمشق کے موقع پر خلیفۃ المسلمین سیدنا حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے جابیہ نامی بستی میں مجاہدین سے خطاب کرتے ہوئے ارشاد فرمایا:’’لوگو!جو تم میں سے قرآن مجید کی متعلق معلومات حاصل کرناچاہے، وہ زیدبن ثابت کے پاس جائے ،جوتم میں سے کوئی فقہی مسئلہ پوچھنا چاہے وہ معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کی طرف رجوع کرے اورجس کسی کو مال چاہئے وہ میرے پاس آئے کیونکہ مجھے مسلمانوں کے مال کی نگرانی اوراس کی تقسیم کا اختیاردیا گیاہے۔

صحابۂ کرام اورتابعین ذی وقارمیں سے علم حاصل کرنے والوں نے حضرت زیدبن ثابت رضی اللہ عنہ، کی صحیح معنوں میں قدرپہچانی، اورعلمی مرتبہ اورفضل وشرف کی بناپر ان کی تعظیم بجالائے۔

وہ حیرت انگیز منظر کا مشاہدہ کروکہ علم کابحربے کنار حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ، حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کی تعظیماً سواری کی لگام پکڑے کھڑے ہیں، حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ نے کہا: رسولِ اقدس ﷺ کے چچازاد بھائی گھوڑے کی لگام چھوڑیئے مجھے شرمندہ نہ کیجئے۔

حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ ،نے ارشاد فرمایا: اسی طرح اپنے علماء کی عزّت کرنے کاحکم دیا گیاہے۔

حضرت زیدبن ثابت رضی اللہ عنہ نے حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے کہا: مجھے اپناہاتھ دکھلایئے انھوں نے اپناہاتھ ان کی طرف کیا، توانھوں نے اسے پکڑکر چوم لیااورفرمایا: ہمیں اپنے پیارے نبیﷺ کے اہل بیت کے ساتھ اسی طرح محبت کرنے کاحکم دیاگیاہے۔

حضرت زیدبن ثابت رضی اللہ عنہ، اپنے رب کو پیارے ہوئے تومسلمان زاروقطار روئے کہ آج علم کا خزانہ مٹی میں دفن ہوجائے گا، حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ، نے فرمایا: آج اس امت کامتبحرعالم دنیا سے کوچ کرگیا، کاش اللہ تعالیٰ عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کواس کا نعم البدل بنادے۔

***

Saturday, September 4, 2010

علمی خیانت اورتحریری سرقہ کی بدترین مثال

عبد المنان سلفیؔ
علمی خیانت اورتحریری سرقہ کی بدترین مثال
اورنام نہاد مؤلف محمد عمارسلفی(مؤ) کی مزعومہ کتاب
’’تحفۂ رمضان المبارک ‘‘کی حقیقت

علمی خیانت اور تحریری سرقہ کا معاملہ کوئی نیا نہیں، ہردورمیں سستی شہرت کے دلدادہ اورمصنف ومؤلف کہلانے کے ایسے شوقین پائے جاتے رہے ہیں جنھوں نے دوسروں کی تالیفات وتصنیفات اورتحریروں کو معمولی ردوبدل کے بعد اپنے نام سے شائع کراکے علمی دنیا کی آنکھ میں دھول جھونکنے کی ناپاک جسارت کی ہے اورراتوں رات محقق، مصنف، مؤلف اورمترجم بن کر شہرت کی بلندیوں کو چھونے کی لاحاصل سعی کی ہے، مگر شاید ایسا کم ہوا ہوگا کہ نام سمیت پوری کی پوری کتاب کسی نے اپنے نام سے شائع کرلی ہو، مگر اس ترقی یافتہ اور علمی دورمیں یہ انہونی بھی ہوگئی اور ایک نام نہاد مولف نے ۴۱؍موضوعات پرمشتمل اپنی خودساختہ کتاب میں میری کتاب ’’تحفۂ رمضان المبارک‘‘ کے تیس عناوین مکمل اور من وعن نقل کرکے دنیا کو حیرت زدہ کر دیاہے ۔
اس اجمال کی تفصیل یہ ہے کہ میں نے تقریباً دس برس قبل ’’تحفۂ رمضان المبارک ‘‘کے نام سے رمضان المبارک کے تیس دروس واسباق مرتب کرکے اس مقصدسے شائع کرائے تھے کہ ماہِ رمضان المبارک میں ائمہ مساجددروس کے سلسلہ میں اس کتاب سے استفادہ کرسکیں اور جو ائمہ کرام خود سے درس نہیں دے سکتے وہ کم از کم روزانہ اس کا ایک درس مصلیوں کو پڑھ کرسنادیاکریں، اللہ کے فضل و کرم سے کتاب دعوتی وعلمی حلقوں میں مقبول ہوئی، اوردیکھتے دیکھتے چند مہینوں میں اس کے نسخے ختم ہوگئے میں ،دوسرے ایڈیشن کے لئے تیاری کرہی رہا تھا کہ خبرملی کہ مکتبہ الفہیم، مؤنے اس کتاب کو چھاپ کر فروخت کرنا شروع کردیاہے، تعجب توضرور ہوا کہ بغیراجازت ایک ذمہ دار ناشرنے یہ حرکت کیسے کی مگریہ سوچ کرخاموش رہا کہ چلو دعوت کاکام جس طریقہ سے بھی ہوجائے بہتر ہے ،تاہم مذکورہ مکتبہ نے کتاب میرے ہی نام سے چھاپی اور اس میں کوئی تحریف نہ کی، پھرمیں نے کتاب کا تیسرا اورچوتھا ایڈیشن اپنے تجارتی مکتبہ ’’رحمانی کتاب گھر‘‘بڑھنی ، ضلع سدھارتھ نگر سے شائع کیا، میری یہ مختصرکتاب دس برسوں سے اہل علم کے درمیان جانی جاتی ہے۔
گذشتہ سال ماہنامہ’’ نوائے اسلام ‘‘دہلی کے رمضان والے شمارہ میں ’’تحفۂ رمضان المبارک‘‘ نام کی ایک کتاب کا اشتہار دیکھ کر چونکا کہ میرے کرم فرماؤں نے بغیر کچھ کہے اورلکھے اشتہار کیسے دے دیا؟ مگرجب یہ دیکھا کہ اس کے مؤلف مؤ کے عمارسلفی ہیں توقدرے استعجاب دورہوا، مگراسی شمارہ میں جب مشتہرکتاب تحفۂ رمضان المبارک کے حوالہ سے ایک مضمون پر نظر پڑی تو یہ دیکھ کر میں دنگ رہ گیاکہ پورا مضمون میری کتاب’’ تحفۂ رمضان المبارک‘‘ ہی سے من وعن منقول تھا۔میں نے اس کا ذکر بعض احباب سے کیا اوراس کتاب کے حصول کے لئے مؤ کے بعض دوستوں سے رابطہ بھی کیا مگر یہ مل نہ سکی اورمیرے ذہن سے یہ موضوع نکل گیا۔ پھر مرکزی جمعیت اہل حدیث ہند کی عظمتِ صحابہ کانفرنس، دہلی، منعقدہ ۱۰؍۱۱؍ اکتوبر ۲۰۱۰ء ؁ کے موقعہ پر رام لیلاگراؤنڈ میں لگے بک اسٹالوں سے گذرتے ہوئے مکتبہ نعیمیہ مؤ کے اسٹال پر اچانک یہ کتاب نظر آگئی تواسے دیگر کتابوں کے ساتھ خرید لیا اورمکتبہ نعیمیہ کے ذمہ دار ارشدجمال صاحب سے دبی زبان میں شکایت بھی کردی کہ یہ کیا ہورہا ہے؟ وہ جواب کیا دیتے، منہ بنا کے خاموش رہ گئے۔
کتاب کے ٹائٹل کی تحریر کے مطابق اس کتاب پرنظرثانی جماعت کے ایک معتبر صاحب قلم اوربزرگ عالم دین مولانا عزیز الحق عمری ؔ صاحب نے فرمائی ہے اورکتاب مکتبہ نعیمیہ جیسے ذمہ داراور معروف اشاعتی ادارہ کی جانب سے طبع ہوئی ہے،مجھے حیرت اس بات پر ہے کہ کسی کی نظرمیں یہ بات نہ آئی کہ پوری کتاب چربہ نہیں سرقہ ہے اورصرف مصنف کا نام تبدیل کرکے اسے شائع کردیاگیا ہے۔
مولانا عمری ؔ کے سلسلہ میں مجھے حسن ظن رہا کہ اگرسچ مچ مولانا کی نظرسے یہ کتاب گذری ہوتی توشاید وہ اس کی طباعت کی اجازت نہ دیتے، مگربعدمیں پتہ چلا کہ محمدعمارسلفی مولانا عمریؔ صاحب ہی کے فرزند ہیں، اصل حقیقت کیا ہے؟ اللہ ہی کو معلوم ہے ،مگراب بھی مجھے یہی لگتا ہے کہ مولانا عمری کو حقیقت حال کا شایدپتہ نہیں اور’فرزندگرامی‘ نے والد بزرگوار کانام استعمال کرکے ان کے وقار واعتبار کو ٹھیس پہونچانے اور ان کے نام پر بٹہ لگانے کی حماقت کر ڈالی ہے،البتہ ’’مکتبہ نعیمیہ‘‘ کو اس علمی خیانت سے بری کرنے میں مجھے تامل ہے بلکہ لگتا ہے کہ یہ کام مکتبہ کے ذمہ دار کے اشارہ ہی پر ہوا ہوگاجنھوں نے مکتبہ الفہیم ۔ جس کے ذمہ داران میری یہ کتاب کئی سالوں سے چھاپ کر فروخت کرہے ہیں۔ کے مقابلہ میں اس قسم کی کتاب ترتیب دینے کی فرمائش محمد عمار صاحب سے کی ہوگی اور میری کتاب بھی انھیں نمونہ اوررہنمائی کے لئے دی ہوگی، واللہ اعلم۔
بہر حال محمدعمارسلفی کے نام سے منسوب یہ پوری کتاب علمی خیانت اورتحریری سرقہ کا بدترین نمونہ ہے، عرض مؤلف سے لے کرآخرکتاب تک شایدہی کوئی جملہ نام نہاد مؤلف کے قلم سے ہو، ۴۱عناوین میں سے ۳۰؍تو میری کتاب’’ تحفۂ رمضان المبارک‘‘ سے من وعن منقول ہیں جنھیں میں نے رمضان المبارک کے تیس دنوں کی مناسبت سے مختلف موضوعات پر لکھے تھے،نقل میں صحت کا اس قدر خیال رکھا گیا ہے کہ میں نے ہردرس کے شروع میں حمد وصلاۃ کے جوصیغے استعمال کئے تھے اورآخر میں درس کی مناسبت سے جو دعائیہ جملے تحریر کئے تھے ان میں بھی کوئی تبدیلی نہیں کی گئی ہے۔۴۱؍عناوین میں سے ایک توعرض مؤلف ہے، وہ بھی کسی صاحب قلم کی تحریر کا مکمل سرقہ ہے، اس لئے کہ اس میں موضوع اورکتاب کے تعلق سے کوئی بات ذکرنہیں ماہ رمضان المبارک کے اندر حرم شریف کے پُرکیف مناظر کا ذکرہے ، باقی ۱۰؍عناوین معروف اہل حدیث مصنف شیخ اقبال کیلانی کی ’’کتاب الصوم‘‘ سے من وعن منقول ہیں۔
بدقسمتی سے اس کتاب کے ساتھ علمی خیانت اورسرقہ کا ایک سانحہ اس سے قبل بھی پیش آچکا ہے جب جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ کے فاضل اورمرکز توعیۃ الجالیات، دمام (سعودی عرب) سے وابستہ ایک داعی۔جن کے مضامین جماعت کے اخبار وجرائد میں کبھی کبھار چھپتے رہے ہیں۔ نے میری اس کتاب کے کئی دروس ایک نقطہ کی تبدیلی کئے بغیر بلا حوالہ من وعن اپنے ایک مضمون میں نقل کیا اوراسے ماہنامہ ’’ صراط مستقیم‘‘ برمنگھم، لندن بھیج کر شائع کرادیا، پھراسی مضمون کو اگلے سال ماہنامہ ’’الفرقان‘‘، ڈمریا گنج، سدھارتھ نگر (بھارت) نے شائع کیا، اس موقعہ پر برادر عزیز شیخ وصی اللہ عبدالحکیم مدنی نے میری اجازت سے اس پرماہنامہ ’’السراج‘‘ ماہ ستمبر ۲۰۰۸ء کی اشاعت میں نوٹس لیا، اوربات آئی گئی ہوگئی۔
۱۶۰؍صفحات پرمشتمل اس نام نہاد تالیف کے آغاز میں عرض مؤلف کے بعد ’’روزہ کی فرضیت‘‘ اورچاند کے مسائل کے تحت ۵صفحات کے مواد معروف اہل حدیث مصنف شیخ اقبال کیلانی کی کتاب الصیام ے نقل کئے گئے ہیں ،اور عناوین وغیرہ لکھنے کا انداز بالکل وہی ہے جو شیخ کی کتابوں کے سلسلہ میں اہل علم کے مابین معروف ہے کہ موصوف عناوین عربی اور اردو دونوں زبانوں میں لکھتے ہیں پھر موضوع کی مناسبت مختلف عناوین کے تحت حدیثوں کا متن نقل کرکے نیچے ان کا ترجمہ تحریر فرماتے ہیں۔
محمد عمار سلفی نے اپنی اس نام نہاد کتاب میں ایک اورعجیب گل کھلایا ہے اور خودہی اپنے’کارنامہ‘کا پول اہل نظر کے سامنے کھول کر خود کو بالکل ہی برہنہ کردیاہے ، چاند کی رؤیت کے سلسلہ میں شیخ کیلانی صاحب نے حدیثیں نقل کرنے کے بعد آخر میں ایک عنوان قائم کیاہے کہ: ’’ابرکی وجہ سے شوال کا چاند دکھائی نہ دے اورروزہ رکھ لینے کے بعد معلوم ہوجائے کہ چاند نظر آچکاہے توروزہ کھول دیناچاہئے‘‘ اس عنوان کے نیچے کیلانی صاحب نے حسب معمول حدیثیں ذکر نہیں کیں بلکہ یہ وضاحت تحریر فرمادی کہ: ’’حدیث مسئلہ نمبر ۱۷۷ کے تحت ملاحظہ فرمائیں‘‘ عمار صاحب نے اپنی کتاب کے صفحہ نمبر(۱۳) پراسے بھی نقل کرلیا اور انھیں اتنی بات بھی نہ سوجھی کہ اس نوٹ کو یا توحذف کردیں یا کم ازکم اصل کتاب کھول کر مسئلہ نمبر ۱۷۷ کے تحت ذکرکی گئی حدیث ہی نقل کردیں، العیاذ باللہ۔
’’روزہ کی فرضیت‘‘ اورچاند کے مسائل‘‘ کے عنوان سے مسروقہ مواد نقل کرنے کے بعد کتاب کے صفحہ ۱۴؍ سے مسلسل میری کتاب کے ۲۳دروس من وعن منقول ہیں، اور جیسا کہ پہلے میں لکھ چکاہوں کہ ہردرس کومیں نے مختصر حمدوصلاۃ سے شروع کیا ہے اورموضوع کی مناسبت سے دعاؤں پر ختم کیا ہے، محمدعمارسلفی نے اس میں بھی کسی تبدیلی کی زحمت نہ فرمائی، ہاں صرف درس نمبر حذف کردیا ہے ۔
میرے ۲۳؍دروس من وعن نقل کرنے کے بعد محمدعمار سلفی نے پھرشیخ اقبال کیلانی کی کتاب کو کھول کررکھ لیا ہے اورنفلی روزہ کے احکام نقل کرنے کے بعد زکاۃ کے مختلف مسائل ان کی مذکورہ کتاب سے نقل کردئے ہیں۔
پھرصفحہ نمبر۱۳۷ سے آخرکتاب تک میری کتاب کے باقی ۷؍دروس بالترتیب نقل کردیئے ہیں، اور میرے تیسویں درس ’’ماہ صیام کا پیام اہل ایمان کے نام‘‘پر کتاب کو ختم کردیا ہے۔
اس طرح گویا تقریباً ۱۶۰ ؍صفحات پر مشتمل اس نام نہاد تالیف میں دوتہائی سے زائد مواد میری کتاب ’’تحفۂ رمضان المبارک ‘‘سے چوری کرکے نقل کئے گئے ہیں اورباقی ایک تہائی شیخ اقبال کیلانی کی ’’کتاب الصیام‘‘ سے سرقہ کئے گئے ہیں۔
غیر ذمہ دار اشاعتی ادارہ مکتبہ نعیمیہ ،مؤاورنام نہاد مؤلف محمد عمار سلفی کے خلاف قانونی کارروائی کا مشورہ متعدد احباب نے دیاہے، مگراحباب کے مشورہ پر عمل کرنے سے قبل میں اپنامقدمہ ذمہ داران جمعیت وجماعت خصوصاً مؤ اوربنارس کے علماء کی عدالت میں پیش کررہا ہوں کہ وہ اس گھناؤنی حرکت پر ناشر اور مولف دونوں کا مواخذہ کرکے انھیں قرارواقعی سزادیں تاکہ حقیقی مؤلفین،مصنفین ومحققین کی علمی کاوشیں اس قسم کی سازشوں سے محفوظ رہ سکیں ورنہ کچھ دنوں بعد یہی جھوٹے مولفین اصل مؤلف جانے جائیں گے اورحقیقی مصنفین کو لوگ خائن تصور کربیٹھیں گے۔

بعض احباب کوصدمات

عبد المنان سلفیؔ
بعض احباب کوصدمات
مولانا شہاب الدین مدنی کی والدہ کی رحلت:
صوبائی جمعیت اہل حدیث مشرقی یوپی کے امیر جناب مولانا شہاب الدین مدنی ؍حفظہ اللہ کی والدہ محترمہ کا قدے طویل علالت کے بعد ۸؍جولائی ۲۰۱۰ء ؁ بروزجمعرات بوقت فجرانتقال ہوگیا،انا للہ واناالیہ راجعون۔
والدہ محترمہ رحمہا اللہ مومنہ، موحدہ ، متبعہ کتاب وسنت اورپابند صوم وصلاۃ خاتون تھیں، تقریباً ایک سال قبل ایک موذی مرض میں مبتلاہوئیں، جملہ اہل خاندان خصوصاً صاحبزادگان وبالاخص مولاناشہاب الدین مدنی نے علاج اورخدمت میں کوئی کسرنہ اٹھائی، نماز جنازہ آبائی وطن بتنار ضلع سدھارتھ نگرمیں موصوفہ کے صاحبزادے مولانا شہاب الدین مدنی کی امامت میں پڑھی گئی، جامعہ سراج العلوم جھنڈانگر سے ایک وفدشریک جنازہ ہوا، جس میں راقم کے علاوہ جامعہ کے متعدد اساتذہ وکارکنان و منتسبین مولانا وصی اللہ مدنیؔ ،مولانا خیراللہ اثریؔ ،مولانا قمر اعظم سراجیؔ ،ماسٹر عبد الحسیب دفتری،عزیزم مولوی سعود اختر سلفیؔ اور عزیزم حمود سلمہ شامل تھے ، اللہ تعالیٰ والدہ محترمہ کی مغفرت فرمائے اورپسماندگان کوصبرجمیل کی توفیق بخشے۔(آمین)
جناب فضل الباری صاحب پسرشیخ الحدیث مبارکپوری کا انتقال:
یہ خبربڑے دکھ کے ساتھ سنی گئی کہ شیخ الحدیث علامہ عبیداللہ رحمانی مبارکپوری رحمہ اللہ کے بڑے صاحبزادے جناب فضل الباری صاحب تقریباً ۸۸ ؍برس کی عمرمیں ۱۵؍جولائی بروزجمعرات بوقت فجر مبارکپور میں انتقال فرماگئے، اناللہ واناالیہ راجعون۔
جناب فضل الباری صاحب محترم شیخ الحدیث رحمہ اللہ کے سب سے بڑے فرزندتھے، تعلیم توزیادہ نہ تھی تاہم شیخ الحدیث رحمہ اللہ کی حسن تربیت کے سبب تقوی، خشیت الٰہی،عبادات میں ذوق وشوق اوراعلیٰ اخلاق جیسے اوصاف سے متصف تھے، آپ کی وفات سے خانوادۂ شیخ الحدیث کا ایک ستون گرگیا، اللہ تعالیٰ آپ کی مغفرت فرمائے اور پسماندگان کو صبرکی توفیق بخشے،آمین۔
شیخ الحدیث علامہ مبارکپوری رحمہ اللہ کے دوسرے صاحب زادے بقیۃ السلف جناب مولانا عبدالرحمن رحمانی مبارکپوری ؍حفظہ اللہ بھی مختلف عوارض وامراض کے سبب بیحد ضعیف ہوچکے ہیں، قارئین سے موصوف کی صحت کے لئے دعاء کی درخواست ہے۔
قاری عبدالخالق صاحب کے والد کی وفات:
جامعہ سراج العلوم السلفیہ،جھنڈانگر، میں شعبۂ حفظ کے استاد قاری و حافظ عبدالخالق شنکرنگری کے والدبزرگوار جناب عثمان غنی صاحب کا اچانک ۲۰؍جولائی ۲۰۰۲ء ؁ کو ان کے آبائی وطن شنکرنگر میں انتقال ہوگیا، انا للہ و انا إلیہ راجعون۔
موصوف صوم وصلاۃ اور تلاوت قرآن کریم نیز شریعت کے دیگر احکام کے سخت پابند اور نہایت سیدھے سادے انسان تھے، اللہ تعالیٰ ان کی مغفرت کرے اورپسماندگان کو صبرجمیل کی توفیق بخشے۔(آمین)
مولانا محمدنسیم مدنی کی والدہ کی رحلت:
مرکز السنۃ ایکلا، روپندیہی، نیپال کے رئیس جناب مولانا محمدنسیم مدنی؍حفظہ اللہ کی والدۂ محترمہ ۲۲؍جولائی ۲۰۱۰ء ؁ کو صبح انتقال کرگئیں، اناللہ واناالیہ راجعون،موصوفہ پابندصوم وصلاۃ اوردین پسند خاتون تھیں، تقریباً ایک سال قبل مولانا محمدنسیم مدنیؔ کے والد محترم رحمہ اللہ کا بھی انتقال ہوچکاہے، والدہ کی انتقال سے مولانامدنیؔ اوران کے خانوادہ کو زبردست صدمہ پہونچاہے، اللہ تعالیٰ سب کو صبرکی توفیق بخشے،اور والدہ کی مغفرت فرمائے۔
مولانا وصی اللہ مدنی کے خسر محترم کا انتقال:
کلیہ عائشہ صدیقہ جھنڈانگر کے استاد براد رعزیز مولاناو صی اللہ عبدالحکیم مدنیؔ کے خسر محترم جناب مولانامحمد حسن قاسمی کا ایک طویل علالت کے بعد حیدرآباد (آندھراپردیس) میں ۲۲؍جولائی ۲۰۱۰ء ؁ کو بعدنماز مغرب انتقال ہوگیا،اناللہ وانا الیہ راجعون ،موصوف ایک اچھے عالم دین اور کہنہ مشق مدرس تھے اورعرصہ سے حیدرآباد کے دارالعلوم الرحمانیہ میں تدریسی فریضہ انجام دے رہے تھے ،شوگر اوربلڈپریشرکے عارضہ میں عرصہ سے مبتلا تھے، تقریباً ایک سال قبل وہ بالکل صاحب فراش ہوگئے اور جسم کی حس وحرکت ختم ہوگئی ،مسلسل علاج چلتارہا مگروقت موعود آپہونچا ،اللہ تعالیٰ آپ کی خدمات قبول فرمائے اوربال بال مغفرت کرے نیز جملہ پسماندگان خصوصاً ان کے صاحبزادے حافظ محمدنعمان صاحب وغیرہ اوران کی والدہ کو صبرجمیل کی توفیق بخشے۔(آمین)
قارئین کرام سے جملہ متو فیان کے لئے دعاء مغفرت کی درخواست ہے۔، اللہم اغفر لہم و ارحمہم و عافہم و اعف عنہم ۔ ***

جامعہ کے روزوشب

جامعہ کے روزوشب
  عبدالمنان سلفی

نئے تعلیمی سال کا آغاز: ۔الحمدللہ جامعہ کے نئے تعلیمی سال کا آغاز اعلان شدہ پروگرام کے مطابق ۳؍جولائی ۲۰۱۰ء ؁ بروز سنیچر ہوگیا، پہلا مکمل ہفتہ قدیم وجدید طلبہ کے داخلہ کی کارروائی ، ضمنی امتحان ،تقسیم اسباق اورلائبریری سے درسی کتب جاری کرنے جیسے امورمیں صرف ہوا ، اور۱۰؍ جولائی ۲۰۱۰ء ؁ سنیچر سے باقاعدہ تعلیم کا آغاز ہوگیا اور جامعہ کے دروبام قال اللہ و قال الرسول کی صدائے دلنواز سے گونجنے لگے، فالحمدللہ علی ذلک۔
تقسیم کارکی نشست:۔ نئے تعلیمی سال کے آغاز پر بتاریخ ۲۵؍جولائی ناظم جامعہ مولانا شمیم احمدندوی؍حفظہ اللہ کی صدارت میں اساتذۂ کرام کی ایک میٹنگ ہوئی جس میں تعلیم وتربیت کے نظام کو مزید بہتربنانے کے مقصد سے طلبہ کی تعلیم وتربیت سے متعلق مختلف اضافی ذمہ داریاں متعدد اساتذۂ کرام کوتفویض کی گئیں، اس موقعہ پر ناظم جامعہ نے اساتذہ کرام کوان کے فرائض کی یاددہانی کے ساتھ انھیں جامعہ کے تعلیمی وتربیتی نظام کو مزید فعال بنانے کی تاکید فرمائی، اللہ تعالیٰ سب کو اپنے فرائض اخلاص واحساس ذمہ داری کے ساتھ انجام دینے کی توفیق بخشے۔(آمین)
کلیہ عائشہ صدیقہ میں امتحان سالانہ وتعطیل کلاں:۔کلیہ عائشہ صدیقہ جھنڈانگر میں سالانہ امتحان مورخہ۱۸؍جولائی ۲۰۱۰ء ؁ شروع ہوکر بتاریخ ۲۷؍جولائی۲۰۱۰ء ؁کو اختتام پذیر ہوا،فالحمدللہ علی ذلک۔امتحان ختم ہونے کے بعد تعطیل کلاں کا اعلان کیاگیا، ان شاء اللہ کلیہ کا نیا تعلیمی سال ۱۰؍شوال ۱۴۳۱ھ ؁ سے شروع ہوگا۔
کلیہ عائشہ صدیقہ میں جلسۂ تقسیم اسناد وردائے فضیلت:۔ الحمدللہ اس سال کلیہ عائشہ صدیقہ سے ۳۷؍طالبات نے فضیلت کا کورس مکمل کرنے کی سعادت حاصل کی،چنانچہ امتحان سالانہ کے نتائج تیارہونے کے بعدانھیں سند فضیلت دینے کے مقصد سے مورخہ ۳۱؍جولائی ۲۰۱۰ء ؁ بروزہفتہ ایک سادہ تقریب منعقدکی گئی جس میں جامعہ سراج العلوم اورکلیہ عائشہ صدیقہ کے سینئر اساتذۂ کرام کے ہاتھوں فارغ ہونے والی ۳۷؍خوش نصیب طالبات کو سند فضیلت، ردائے فضیلت اورکتابوں کی شکل میں یادگار قیمتی انعامات دے گئے، اس موقعہ پر شیخ الجامعہ مولاناخورشید احمدسلفی،راقم عبدالمنان سلفی، مولانا مختاراحمد مدنی، مولاناعبدالرشید مدنی( اساتذۂ جامعہ) اورمولانا مطیع اللہ مدنی استاد مدرسہ خدیجۃ الکبریٰ کرشنانگر، نے فارغات کو گراں قدر پندونصائح سے نوازا، اورآخر میں کلیہ کے بزرگ استاد مولانا عبدالغنی سلفی کے کلمات نصائح ودعاپر پروگرام کا اختتام ہوا، پروگرام کی نظامت کلیہ کے استاد مولانااحسان اللہ رحمانی نے فرمائی۔
***

تقویمِ جامعہ برائے تعلیمی سال11-2010

تقویمِ جامعہ برائے تعلیمی سال11-2010


تعطیل رمضان المبارک و عید: ۲۸؍شعبان ۱۴۳۱ھ مطابق ۱۰؍اگست ۲۰۱۰ء تا

آغاز تعلیم بعد تعطیل رمضان : ۸؍شوال ۱۴۳۱ھ مطابق ۱۸؍ستمبر ۲۰۱۰ء
تعطیل عید الأضحی : ۸؍ ذی الحجہ ۱۴۳۱ھ مطابق ۱۵؍نومبر ۲۰۱۰ء تا

وقفہ برائے تیاری امتحان : ۱۰؍محرم الحرام ۱۴۳۲ھ مطابق ۱۷؍نومبر ۲۰۱۰ء تا

امتحان ششماہی : ۱۳؍محرم الحرام۱۴۳۲ھ مطابق ۲۰؍ دسمبر۲۰۱۰ء تا

تعطیل موسم سرما : ۳۱؍دسمبر ۲۰۱۰ء تا ۱۴؍جنوری ۲۰۱۱ء
آغاز تعلیم بعدتعطیل : ۱۵؍جنوری ۲۰۱۱ء بروز سنیچر
وقفہ برائے تیاری امتحان : ۵؍مئی۲۰۱۱ء تا ۸؍مئی ۲۰۱۱ء
امتحان سالانہ : ۹؍مئی ۲۰۱۱ء تا ۱۹؍مئی ۲۰۱۱ء
تعطیل سالانہ : ۲۰؍مئی ۲۰۱۱ء تا ۱۰؍جون ۲۰۱۱ء
آغاز تعلیمی سال ۱۲۔۲۰۱۱ء : ۱۱؍جون ۲۰۱۱ء
داخلہ وغیرہ کی کارروائی : ۱۱؍جون ۲۰۱۱ء تا ۱۶؍جون۲۰۱۱ء
آغاز تعلیم : ۱۸؍جون ۲۰۱۱ء
۳۲۔۱۴۳۱ھ مطابق ۱۱۔۲۰۱۰ء ۷؍شوال ۱۴۳۱ھ مطابق ۱۷؍ستمبر ۲۰۱۰ء ۱۹؍ذی الحجہ ۱۴۳۱ھ مطابق ۲۶؍نومبر ۲۰۱۰ء ۱۲؍محرم الحرام ۱۴۳۲ھ مطابق ۱۹؍نومبر ۲۰۱۰ء ۲۳؍ محرم الحرام۱۴۳۲ھ مطابق ۳۰؍دسمبر۲۰۱۰ء