Tuesday, October 5, 2010

جنّتِ ارضی کا حالیہ اضطراب اورحکومت ہندکا دوہرامعیار Editorial Aug.Sep 2010

شمیم احمدندوی

جنّتِ ارضی کا حالیہ اضطراب اورحکومت ہندکا دوہرامعیار

کشمیر جنت نظیر اپنی گلپوش وادیوں میں چھائی ہوئی خاموشی اورامن وسکون کے ایک طویل وقفہ کے بعد ایک بارپھر خبروں کی سرخیوں میں ہے، ایک بار پھراس کی فضاؤں میں بارودکی بوہے اورسڑکوں پر فوجی جوتوں کی دھمک، ایک بارپھر اس کے پُررونق بازاروں میں کرفیو کا سناٹا ہے اوراحتجاج کرتے معصوموں کے ہاتھوں میں پتھر، ایک بار پھراس کے چنارکے درختوں پرچھائی ہوئی خزاں ہے اورزعفران زارکھیتوں پر ماتم کاسماں اور ایک بارپھر اس کے ترنم ریز جھرنے المیہ نغمے سنارہے ہیں تواس کی جھیلوں پرساکنان جنت ارضی کی بے بسی کا سکوت طاری ہے جن کی قوت گویائی کو سلب کرلیا گیا ،جن سے اپنے معصوموں وبے گناہوں کے سفاکانہ قتل پراحتجاج کا حق چھین لیاگیا، جن کی ظلم وبربریت کے خلاف اٹھنے والی آوازوں کا گلا گھونٹ دیاگیا ،جن کی خواہشات وتمناؤں اورآزادی کی فضاؤں میں سانس لینے کے حق کو دفن کردیاگیا ،جہاں سانسوں کی آمد ورفت پر پہرے بٹھادئے گئے اوراپنی مرضی کے مطابق جینے کی آزادی سے محروم کردیاگیا اورانھیں زندہ رہنے کے لئے حکومت وفوج کی اجازت کا محتاج بنادیاگیا اورجہاں متلاشیان علم وحکمت معصوم طلباء کے ہاتھوں سے کتابیں چھین کر ان میں احتجاج کے پتھرتھما دئے گئے، جہاں ظلم وناانصافی اورشقاوت قلبی کے مظاہرعام ہیں، جہاں بے ضرر پتھروں کے جواب میں رائفلوں کی گولیاں ہیں اوراندھا فائرنگ میں معصوموں کی ہلاکتوں کے لرزہ خیز مناظرہیں، جہاں لٹتی ہوئی عصمتوں کی روح فرساداستانیں ہیں توبے بس ماؤں کی اجڑتی ہوئی گودوں کی المناک کہانیاں جوصرف چند بدنصیب افراد کا دردوالم نہیں بیان کرتی ہیں بلکہ پوری ایک قوم کی بے بسی وحرماں نصیبی کی مکمل تصویر پیش کرتی ہیں، جہاں اس کے علاوہ اوربہت کچھ ہے جوفراعنۂ وقت کے ظلم وجور اورناانصافی کو عیاں کرتی ہے اور ایک قوم کی نسل کشی کے اس کے عزائم کو طشت ازبام کرتی ہے، جہاں بے لگام سی .آر.پی.ایف. ہے توقہر ڈھاتی فوج کے جوا ں جنھیں نہ دس گیارہ سال کے معصوموں پررحم آتاہے نہ بزرگوں کے احترام کا ان کے نزدیک کوئی مطلب ہے، وہ معصوم طلباء جنھیں ان کے والدین اپنی آغوش محبت میں بڑی آرزوؤں وتمناؤں سے پالاتھا اور جنھوں نے خوداپنے مستقبل کے سہانے خواب دیکھے تھے جن کی آنکھوں میں آرزوؤں اور تمناؤں کی ایک دنیا آباد تھی ان کو گولیوں سے بھون کر ان کے خوابوں کوپامال کردیاگیا ان کی ماؤں کی آنکھوں کو ویران کردیا گیا اوران کو حسرت ویاس کی ایک ایسی تصویر بنادیا گیا جن کے لئے اب دنیا کی ہرخوشی بے معنی ہے، ان کو اس احتجاج کی سزادی گئی جو دنیا کے ہرجمہوری ملک کے شہریوں کا آئینی حق ہے، اور یہ سب اسی ہندوستان میں ہورہا ہے جو ’’کشمیر کو بھارت کا اٹوٹ انگ‘‘ ہونے کا دعویٰ کرتے نہیں تھکتا، اورجس ہندوستان میں احتجاج کے ایسے ایسے طریقے رائج ہیں جنھیں آئین وقانون کی حکمرانی والاکوئی ملک گوارہ نہیں کرسکتا نہ ایسی بے لگام آزادی کی اجازت دے سکتا ہے، اس وقیع وعریض ملک میں اپنے اپنے معمولی مطالبات کو لے کرجب دیگرقومیں اٹھتی ہیں توہڑتال واحتجاج کے جوش میں بسا اوقات تشدد وخوں ریزی کا ایسا بے لگام راستہ اختیار کرلیتی ہیں جس میں ملک وقوم کا کتنا بڑا ناقابل تلافی نقصان ہوا اس کا حساب رکھنے کی نہ کسی کو فرصت ہے نہ ضرورت، کبھی کبھی تشدد اپنی انتہاؤں پر ہوتا ہے، سرکاری املاک کی توڑپھوڑ، آتش زنی، آمد ورفت میں جبراً رکاوٹ کھڑی کرنا، کاروباری مراکز کی سرگرمیاں جبری طورپر معطل ومفلوج کرنا، سرکاری بسوں اورٹرین کی بوگیوں بلکہ پوری پوری ٹرینوں کو نذرآتش کرنا، ریلوے اسٹیشنوں کو آگ کے حوالہ کرنا اور ریل کی پٹریوں کو اکھاڑنا، سرکاری دفاترکو آگ لگادینا اوران کے ہڑتال کاحصہ نہ بننے والے اورغیر جانبدار رہنے والے لوگوں کو زدوکوب کرنا اوربسااوقات موت کے گھاٹ اتاردینا غرض کہ کون سا ایسا طوفان بدتمیزی ہے جونہیں مچایا جاتا اورایسا تماشا شب وروز ہمارے سامنے ہوتا ہے اورمرکزی وصوبائی حکومتیں ان سب کو عوام کا جمہوری حق سمجھ کر بڑی ہی کشادہ ظرفی کا مظاہرہ کرتے ہوئے نظرانداز کردیتی ہیں، بھلے ہی ان ہڑتالوں اوراحتجاج کی ان بھونڈی شکلوں اورپرتشدد صورتوں سے ہونے والانقصان کروڑوں نہیں اربوں میں ہولیکن اس کے انجام دینے والے ہندوستانی آقاؤں کے بھائی بند ہوتے ہیں اس لئے گوارہ ہے، دوسال قبل مئی ۲۰۰۸ء ؁ میں ہندوستان کی ایک چھوٹی سی گمنام قوم ’’گوجروں‘‘ نے سیاست وملازمت میں ریزوریشن کی مانگ کولے کرہڑتال کی تھی۔ ایسی ہڑتالیں چونکہ ہماری روزمرہ کی زندگی اورحکومت کے معمول کا ایک حصہ ہیں اس لئے بہت جلد ہمارے حافظہ سے بھی یہ محوہوجاتی ہیں اورکسی کو اتنی فرصت نہیں کہ ان سے ہونے والے نقصانات کا حساب کتاب رکھے۔ یہ ہڑتال ملک کے ایک چھوٹے سے حصہ پنجاب ہریانہ راجستھان اورگجرات ویوپی کے بعض حصوں میں ہی ہوئی تھی اورملک کا بیشترحصہ اس کی زدمیں آنے سے محفوظ تھا کیونکہ مذکورہ بالا اس قوم کی بیشترآبادی انھیں علاقو ں میں پائی جاتی ہے، لیکن ریلوں وبسوں کا راستہ روکنے، ریل کی پٹریوں کو نقصان پہونچانے اوربوگیوں کو آگ لگانے جیسی پرتشدد کاروائیوں میں صرف محکمہ ریلوے کا ڈیڑھ سے دوہزارکروڑروپئے کابھاری نقصان ہوا تھا اوریہ صرف ایک محدود علاقہ کی چند روزہ ہڑتال کے نتیجہ میں ہواتھا، اور۱۵سے ۲۰ارب روپئے کے نقصانات کا یہ تخمینہ صرف ریلوے کا ہے جو اس وقت کے وزیر ریل لالو پرشاد یادوکے کسی بیان کے ذریعہ سامنے آیاتھا باقی دیگرمحکموں کے نقصانات کا اندازہ اس کے سواہے جومزید ہزاروں کروڑمیں ہوسکتا ہے لیکن نہ تواس ہڑتال کو جبراًختم کرایا گیا نہ ان خطیرنقصانات کا ان سے کوئی تاوان وصول کیاگیا اورنہ ہی ان ہڑتالیوں کے خلاف کاروائی کے لئے فوج طلب کی گئی جوکہ لاٹھی ڈنڈوں اورلوہے کے سریوں اوردیگرآلات تخریب سے لیس تھے، بلکہ کاروائی کے برعکس حکومت نے ان کے مطالبات کو تسلیم کرکے دیگر پسماندہ قوموں کے لئے مزید ہڑتالوں کاراستہ صاف کردیا، یہ بات صرف دوسال پرانی ہے اورحکومتی نقصانات کے حساب سے انتہائی سنگین ہے لیکن شاید ہی کسی کے حافظہ میں موجود ہو، چندبرسوں قبل مہاراشٹر میں واقع بال ٹھاکرے کی ماں میناتائی کے مجسمہ پرکسی نے کیچڑ پوت دی یا کسی غلطی سے لگ گئی اس کے خلاف پورے مہاراشٹرمیں تین دن تک انتہائی پرتشدد ہڑتال کا وہ بازار گرم کیاگیا تھا کہ الامان والحفیظ ،ٹرینوں وبسوں میںآگ لگائی گئی سڑکوں پر شیوسینکوں کی غنڈہ گردی کا ننگا مظاہرہ ہوا، ٹی وی پردیکھنے والوں نے کئی کئی اسٹیشنوں پرایک ساتھ ایکسپریس ولوکل ٹرینوں کی بوگیوں کو دھڑادھڑ جلتے ہوئے دیکھاہوگا، حکومتی املاک کا اربوں روپیہ کانقصان ہوا اورپوے مہاراشٹرکی کاروباری زندگی اورمعاشی راجدھانی ممبئی کی دل کی دھڑکنیں رک سی گئی لیکن فسادات وہڑتالوں پر،قابو پانے کے لئے کوئی سی آرپی ایف نہیں، کوئی فوج نہیں، کوئی فائرنگ نہیں ،کوئی آنسوگیس نہیں، کوئی گرفتاری نہیں اورکوئی سزانہیں، سب کچھ معمول کے مطابق رواں دواں ہوگیا کیونکہ فسادی وہڑتالی اپنے بھائی بند ہیں کوئی کشمیری یا مسلمان نہیں، پھراسی ممبئی ومہاراشٹرکے دیگرحصوں میں کبھی راج ٹھاکرے اورکبھی بال ٹھاکرے کے پالتوغنڈوں کے ذریعہ جو قہربرپاکیاجاتا ہے کبھی مسلمانوں کے خلاف اورکبھی شمالی ہند کے باسیوں کے خلاف ان پرتشدد کاروائیوں میں کتنے سرکاری ونجی املاک کا نقصان ہوا اورکس قدر اتلاف جان ہوا اورکتنے لوگ اسپتال پہونچ گئے اورزندگی سے محروم ہوئے اورکتنی بسوں وٹرینوں کو نذرآتش کیاگیا ان جانی ومالی نقصانات کا حساب لگانے کی فرصت کسی کو نہیں، وہاں فوج کا توگذر نہیں البتہ پولیس وانتظامیہ بھی اکثر خاموش تماشائی کاکردار اداکرتی ہے اور ساری اودھم بازیوں میں صرف ایک چشم دیدگواہ کی حیثیت رکھتی ہے،کچھ دنوں قبل یوپی میں بھی امبیڈ کر کے کسی مجسمہ کی بے حرمتی کی گئی تھی تویوپی کے بعض اضلاع میں یہی منظردیکھنے میں آیاتھاصوبائی حکومت کا ہونے والا نقصان کروڑوں میں تھا اورفسادی وہڑتالی ڈاکٹر امبیڈکر کے عقیدت مند اورایک خاص ذات وفرقہ کے افراد تھے لہذا کوئی کاروائی کیوں ہوتی؟ کیونکہ حکومت اترپردیش ان کی ہے اورپولیس وفوج ان حاکموں کے اشارہ چشم وابرو کی محتاج ہے۔

شاید کسی کی یادداشت میں ڈیرہ سچا سودا نام کے عجیب وغریب مذہبی گروہ یافرقہ کانام محفوظ ہو جس کے مٹھی بھر متبعین نے چند برسوں قبل اپنے مذہبی پیشوا کی گرفتاری کے خلاف جوطوفان برپا کیاتھا اورآتش زنی توڑپھوڑ اورتشدد کا جوبازار گرم کیاتھا اس نے حکومت کو ہلادیاتھا اورچند گھنٹوں میں زندگی کی گاڑی روک دی تھی، ان کا میدان کارزار صرف ہریانہ وپنجاب کے کچھ علاقوں تک محدود تھا لیکن پورے ہندوستان کی اور ذرائع ابلاغ کی توجہ مبذول کرانے میں کامیاب ہوئے تھے ،کروڑوں کے سرکاری نقصان کے باوجود ان کے خلاف کوئی تادیبی کاروائی نہیں ہوئی ان کو منتشر کرنے کے لئے آنسوگیس وربرکی گولیوں تک کا استعمال نہیں ہوا ، جب کہ ان کے ہاتھوں میں کرپان وتلوار اوردیگر جان لیوا ہتھیار تھے اورآگ زنی کے سامانوں سے وہ لیس تھے ،لیکن ان کشمیری نوجوانوں اور ۱۰و۱۲ سال کے معصوموں کو نشانہ سادھ کر رائفل سے گولی ماری گئی جن کے ہاتھ سنگ وخشت کا بوجھ اٹھانے کے بھی لائق نہ تھے ابھی صرف دوہفتہ قبل اپوزیشن پارٹیوں نے مشترکہ طورپر کمرتوڑ مہنگائی کے خلاف ملک گیر ہڑتال کا اہتمام کیا تھا اس سے مہنگائی پرقابو پانے میں توکیا مددملتی البتہ صرف اس ایک ہڑتال سے ملک کی معیشت کواربوں روپیہ کا نقصان ہوا جس کا خمیازہ بھی بالواسطہ طورپر غریب عوام کو بھگتنا پڑرہا ہے لیکن ان غریب عوام کی فکرکسے ہے نہ ہی ان ہڑتالوں کے ذریعہ سے ان کی پریشانیوں کوکم کرنے سے کوئی واسطہ ہرپارٹی کو صرف اپنی طاقت دکھانے سے مطلب ہے صرف ٹرکوں کی ہڑتال سے 500کروڑ کا نقصان ملکی معیشت کو برداشت کرناپڑا جس سے دیگر شعبوں میں ہونے والے نقصانات کا اندازہ بخوبی لگایا جاسکتا ہے، لیکن جمہوریت میں اس طرح کی ہڑتالوں ومظاہروں کی اجازت ہے لیکن نہیں اجازت ہے تومظلوم مسلمانوں کو اپنے اوپرہونے والے مظالم کے خلاف صدائے احتجاج بلند کرنے کی، یہ پورے ملک کے مسلمانوں کی تقدیر ہے جوان کے آنسوؤں سے لکھی جارہی ہے یہ تنہا کشمیر کا درد نہیں، کشمیر کے نہتے نوجوانوں یاہاتھوں میں پتھراٹھائے کم عمر بچوں پربے دریغ پولیس وحفاظتی دستوں کی فائرنگ کا منظر دیکھ کر فلسطینی بچوں کے خلاف اسرائیلی جارحیت وصہیونی درندگی کے مناظر یادآجاتے ہیں بلاشبہ دونوں مناظرمیں بڑی یکسانیت ہے، وہاں بھی کم سن بچوں اورنوجوانوں کے ہاتھوں میں اپنے دفاع کے لئے صرف ڈھیلے اورغلیل ہوتے ہیں اوراسرائیلی درندوں کے ہاتھوں میں خودکاررائفلیں اوربسااوقات بکتر بند گاڑیوں اورٹینکوں وتوپوں کے ذریعہ کمزور ونہتے فلسطینوں کو مرعوب کرنے کی کوششیں جن میں ان کو کامیابی تو کم ملتی ہے لیکن اتلاف جان بہت ہوتا ہے۔

ہندوستان نے گذشتہ چندبرسوں میں نہ صرف اسرائیل سے دفاعی سازوسامان اتنے بڑے پیمانہ پر خریدے کہ وہ اسرائیلی اسلحہ اورآلات حرب وضرب کا سب سے بڑا خریداربن گیا بلکہ ساتھ ہی آئیڈیا لوجی ونظریات بھی درآمد کئے اورمظلوموں کو دبانے اورنہتوں کو کچلنے کا صہیونی طریقہ کار اور انداز بھی سیکھ لیا اب اس معاملہ میں اسرائیل ہی ہندوستان کا استاد ہے اورصہیونیت ہی اس کا آئیڈیل جس کے مظاہر باربار مختلف مواقع پرسامنے آتے رہتے ہیں اس کی پروپیگنڈہ مشنریاں یہاں سرگرم ہیں اورمسلمانوں کی کردار کشی کرنے اور دہشت گردی سے ان کا رشتہ جوڑنے میں اگرحکومت ہند کو خاطرخواہ کا میابی ملی ہے تواس کے پیچھے اسرائیلی کوششوں اور منصوبہ بندیوں اورپروپیگنڈہ مشنریوں کا سب سے بڑا دخل ہے، اسرائیل کا طریقہ واردات ہندوستانی مسلمانوں کے تناظرمیں یہ ہے کہ پہلے ملک کے کسی حساس علاقہ میں دہشت گردانہ حملہ ہونے کی پیشین گوئی جاتی ہے اورلشکرطیبہ ،انڈین مجاہدین یا کسی بھی فرضی یا اصلی مسلم نام کی تنظیم کے بارے میں خبردار کیاجاتا ہے کہ اس علاقہ میں اس کی سرگرمیاں مشکوک ہیں پھر ہندوستانی خبررساں ایجنسیاں اورٹی.وی. چینل ’’خفیہ سوتروں سے ملی جان کاری‘‘کا حوالہ دیتے ہوئے اس خبرکو اتنے وثوق سے نشرکرتے ہیں گویا کہ سارے پختہ شواہد ان کی جیب میں ہیں اوردہشت گردانہ حملوں کا منصوبہ جس مجلس ومیٹنگ میں بنایاگیا اس میں یہ بازی گر حضرات بنفس نفیس شریک رہتے ہیں، پھر اس خبرکے نشر کرنے کے چندہی دنوں کے اندر واقعی ایسا دہشت گردانہ حملہ ہوجاتا ہے اورہندوانتہا پسند تنظیمیں اس دانستہ بنائے گئے ماحول کا فائدہ اٹھاکر اپنا کام کرجاتی ہیں توشک کی سوئی کسی نہ کسی مسلم تنظیم یا فرد کی طرف ہی اشارہ کرتی ہے اوراصلی مجرم بچ نکلنے میں کامیاب بھی ہوجاتے ہیں اوربے گناہ مسلمان ملوث بھی کردئے جاتے ہیں، یہی اسرائیلی گیم پلان ہوتا ہے جس میں موساد کے ایجنٹ، ہندوانتہا پسند تنظیمیں، بھارتی سیکورٹی ایجنسیاں، تفتیشی ادارے اورملکی میڈیا سب برابر کے شریک ہیں اور امداد باہمی کے اصولوں پر مبنی کامیابی کے ساتھ جاری ہے اوریہ سب مشترک مفادات کا کھیل ہے جس میں قدرمشترک صرف مسلم دشمنی ہے، حالیہ برسوں میں ہوئے بعض دہشت گردانہ حملوں اوربم دھماکوں کے تارکسی فرضی یا نام نہاد مسلم تنظیم یا تنظیموں سے جوڑاجاتا رہا اور پورے وثوق کے ساتھ میڈیا چیخ چیخ کراس میں مسلمانوں کے ملوث ہونے کا اعلان کرتا رہا، لیکن اب جب ان میں سے کئی بلکہ بیشتر دھماکوں کے پیچھے ہندودہشت گردوں اورہندوانتہا پسندتنظیموں کا ہاتھ ہوناپایہ ثبوت کو پہونچ چکا ہے تواس میڈیا کو سانپ سونگھ گیا، یہ ایک الگ موضوع ہے اس پر تفصیلی اظہار خیال پھرکبھی لیکن سردست اتناجان لینا کافی ہے کہ میڈیا اور ذرائع ابلاغ کی دہشت گردی کے یہ بعض نمونے ہیں جس میں پیش امام اورمربی واستاد کا کردار اسرائیل اداکررہا ہے، جوواقعی پروپیگنڈہ کے اس فن میں ماہر اوراستاد کی حیثیت رکھتاہے،واپس لوٹتے ہیں کشمیرکی طرف اور ساتھ ہی حکومت ہند کی جانب داری وناانصافی اورتعصب وتنگ نظری پرمبنی اصولوں کی طرف۔

گذشتہ سطورمیں بھارت میں ہونے والے احتجاجات ومظاہروں اوران میں برپاہونے والے تشدد اوران سے ہونے والے نقصانات کی طرف ہلکا سا اشارہ کیا گیا ان احتجاجات کو فراخ دلی کے ساتھ حکومتوں نے اظہار رائے کی آزادی کا نام دے رکھا ہے جب کہ اظہار رائے زبان وقلم کے ذریعہ ہوتا ہے ہاتھوں وپیروں ولاٹھی ڈنڈوں اورکرپالوں وتلواروں سے نہیں ہوتا، لیکن یہاں سب رواہے اور ملک میں اپنے مطالبات کو منوانے کا یہ غیر آئینی طریقہ شہریوں کا جمہوری حق سمجھ کر تسلیم کیا جاچکا ہے لیکن اس حق کا استعمال کشمیر میں ممنوع ہے ،کیونکہ ان کی بدقسمتی یہ ہے کہ وہ نہ صرف مسلمان ہیں بلکہ جبری طورپر یا پروپیگنڈہ کی طاقت سے ان کا رشتہ دہشت گردی سے جوڑدیا گیا ہے، کشمیر میں ایسے بعض گروپوں کی موجودگی سے انکار نہیں کیاجاسکتا جو آزادی کشمیر کے لئے اور اپنے جذبہ حریت کی تسکین کے لئے دہشت گردانہ طریقے اختیار کرتے ہیں، لیکن ایسے لوگوں کی تعداد انگلیوں پرگنی جاسکتی ہے اورریاست میں ایسے لوگوں کی حرکات کو وسیع پیمانہ پر حمایت قطعاً حاصل نہیں ہے بلکہ اکثریت ان سے شاکی ونالاں ہے لیکن ان چند لوگوں کی حرکتوں کی پاداش میں پوری ریاست کے عوام کو ماخوذ کرنا اور ان کو ناکردہ گناہوں کی سزا دینابلکہ پوری وادی کشمیر کو ایک وسیع جیل میں تبدیل کرنا اورفوجیوں وسی آرپی ایف کے جوانوں کو غیرمعمولی اختیارات تفویض کرکے اسے ایک وسیع وعریض شکارگاہ بنادینا کسی طرح قرین انصاف نہیں قراردیاجاسکتا، ان مظلوم مسلمانوں کے زخموں پر مرہم رکھنے کی صوبائی ومرکزی حکومت میں سے کسی کو توفیق توکیا ملتی جنھیں اپنے جگرپاروں کی جدائی اوران جگرگوشوں کی شہادت کا غم منانے کی بھی اجازت نہیں جن پرایسے غنچوں کا گمان ہوتا ہے جوبن کھلے مرجھاگئے الٹے ان کے زخموں پر یہ کہہ کرنمک پاشی کی جاتی ہے کہ یہ مظاہرین کرایہ کے ٹٹوہیں پڑوسی ملک سے ان کو سنگ باری کے لئے پیسے دئے جاتے ہیں ، کشمیر میں مظاہروں کا اوراپنے غم وغصہ کے اظہار کا یہ ایک روایتی انداز ہے اور سطوربالا میں پیش کئے گئے بعض حقائق اورمثالوں کی روشنی میں اگرجائزہ لیا جائے تو اس کی جارحیت یاسنگینی کسی درجہ میں نہیں ٹھہرتی جہاں ایک ایک مظاہرہ میں حکومتی املاک کے اربوں روپیہ کی مالیتوں کو جلاکر خاکستر کردیاجاتا ہے لیکن امن وقانون نافذ کرنے والے اداروں اورسیکورٹی فورسز کو اس مشتعل بھیڑ کے جذبات کو سمجھنے، اشتعال انگیزی کے اسباب ومحرکات کاجائزہ لینے اوراس غم وغصہ کی وجوہات کاپتہ لگانے کے بجائے اس کی فکرزیادہ ہوتی ہے کہ یہ سب کس کے اشارہ پرہورہا ہے، سوال یہ نہیں ہوناچاہئے کہ اس کے پیچھے سرحد پارکی سازش ہے یا مقامی تنظیموں کا ہاتھ بلکہ یہ ہوناچاہئے کہ اس بے قابو مظاہرہ کا موقع کس نے فراہم کیا اوربزورطاقت اس کو کچلنے کی پالیسی کیونکر اپنائی گئی، کہاجاتا ہے کہ سرحد پارسے سنگ باری کے لئے قوم مہیا کرائی جاسکتی ہے، کہیں کسی درجہ میں محدود پیمانہ پر یہ بات درست ہوسکتی ہے لیکن اتنے بڑے پیمانہ پر عوام کا سڑکوں پرنکل آنا اوردوسروں کا آلہ کاربن جانا قرین عقل نہیں ہے، دوتین سوروپیوں اورچند ٹکوں کی خاطر کوئی ذی ہوش شخص اپنے جگر پاروں کو جان کی بازی لگانے کی اجازت نہیں دے سکتا، جن لوگوں نے اپنے جگرگوشوں کو پولیس وفوج کی گولیوں سے چھلنی ہوتے دیکھا ہے اورجنھوں نے اپنے کندھوں پر اپنے معصوموں کی لاشیں اٹھائی ہیں یہ ان کے جذبات واحساسات کا بہت بڑا مذاق ہے اوران کے زخموں پرنمک پاشی کی کوشش ،صوبائی وزیراعلیٰ عمرعبداللہ، مرکزی وزیرداخلہ پی.چدمبرم اورپولیس وفوج کے سربراہان اعلیٰ نے کسی بھی فرضی یادرست شہادتوں کی بنیاد پر یہ دعویٰ کیوں نہ کیا ہو کہ پتھربازی کے لئے سرحد پارسے پیسہ آتا ہے لیکن اس کی حقیقت ومحرکات کاجائزہ لینا بھی ضروری ہے کہ ان کو اس غیظ وغضب، جوش انتقام اوراشتعال انگیزی پرآمادہ کس نے کیا کہ وہ زندگی وموت سے بے نیاز ہوکربے خطرآتش نمرود میں کودپڑے اورسنگینوں کے سامنے سینہ سپر ہو گئے اور اگریہ سب کچھ صرف چند ٹکوں کے لئے ہورہا ہے اور اسے درست مان بھی لیاجائے توملک میں دیگرقوموں اورگروہوں کی جانب سے آئے دن پرتشدد ہڑتال ومظاہرے جو کئے جاتے ہیں ان کے لئے پیسہ کہاں سے آتاہے۔

اگرحکومت ہند اوراس کے وزیر داخلہ پی چدمبرم کے تعصب وتنگ نظری اورجانبدارانہ پالیسی کامشاہدہ کرنا ہو توتھوڑی سی فرصت نکال کر اس حقیقت پربھی غورکریں کہ جن دنوں کشمیر کے عوام وادی کی سڑکوں پر فوجی جوتوں کی دھمک سن رہے تھے، شہروں میں موت کا سناٹا طاری کرنے والے کرفیوکا سامناکررہے تھے اورفوجی سنگینوں کے سایہ میں زندگی کو ایک عذاب وجرم کی طرح جی رہے تھے ٹھیک اسی وقت چھتیس گڈھ میں ایک بارپھر ماؤوادیوں نے سی.آر.پی. ایف کی ایک ٹکڑی پرحملہ کرکے اس کے ۲۶ جوانوں کو نہ صرف موت کے گھاٹ اتار دیا بلکہ اپنی روایتی وحشت وبربریت اورسنگ دلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ان کی لاشوں کا مثلہ کردیا۔جیسا کہ اپنی دسترس میں آئے لاشوں کے ساتھ ان کا یہ سلوک ایک عام بات ہے۔ اس سے قبل چند مہینوں کے اندرانجام دی گئی ان کی صرف حالیہ وارداتوں کا جائزہ لیاجائے تویہ روح فرسا حقیقت طشت ازبام ہوگی کہ انھوں نے اپنے زیراثرصوبائی حکومتوں اورمرکزی فورسز کو تگنی کاناچ نچارکھا ہے، جون کے آخری ہفتہ میں انھوں نے ۲۶ جوانوں کو موت کے گھاٹ اتار اتو اس سے چند روز قبل ہاوڑہ ممبئی ایکسپریس (گیا نیشوری ایکسپریس) کو ریل کی پٹریاں اکھاڑکر حادثہ کاشکاربنایا اور۱۵۰ بے گناہوں کی ہلاکت کا سبب بنے، اس سے چند روز قبل جوانوں اور عام شہریوں پرمشتمل ایک بس کو دھماکہ سے اڑاکر ۵۰آدمیوں کو ہلاک کیا، دنتے واڑہ میں انجام دی گئی ان کی وہ واردات تواب تک کی سب سے بڑی اورسنگدلانہ واردات میں شمار ہوتی ہے جس میں سی.آر.پی.ایف کے ۷۰جوانوں سمیت ۸۰ لوگ ہلاک ہوئے پھراس وحشت خیز کاروائی سے مطمئن نہ ہوتے ہوئے اگلے چند دنوں کے بعد مزید ۱۷ جوانوں کو موت کے گھاٹ اتارا، اوردوچار بے گناہ شہریوں یا پولیس کے جوانوں کی ہلاکتیں توتقریباً روز کامعمول ہیں، اپنی ہڑتالوں سے روز مرہ کی زندگی کو مفلوج بنادینا، ریل کی پٹریوں کو اکھاڑ دینا، اسٹیشنوں کو بموں سے اڑادینا، سڑکوں پرلینڈ مائن بچھادینا اورسرکاری املاک کو تباہ کردینا ان کے روزمرہ کے معمول کا حصہ ہے، انھوں نے حکومت ہند کو اکھاڑ پھینکنے کا عزم کررکھا ہے اوران کا وجود ملک کے لئے سنگین خطرہ اورایک چیلنج کی حیثیت رکھتا ہے ،پھربھی وہ دہشت گرد اس لئے نہیں ہیں کہ وہ ان کے ہم مذہب ہیں جو ہندوستان پرحکومت کررہے ہیں اورسیکولر حکومت چلانے کا دعویٰ کررہے ہیں، خیربات کشمیر کے تناظر میں ہورہی تھی، وہاں احتجاجوں وہڑتالوں کا جوسلسلہ چل رہا تھا اسی دوران جب دنتے واڑہ میں سی.آر.پی.ایف کے ۲۶ جوانوں کی ہلاکت ماؤوادیوں کے ہاتھوں ہوئی توان کے خلاف فوج کے استعمال کا مطالبہ ایک بارپھر زورپکڑنے لگا لیکن پی.چدمبرم نے حسب معمول ایک مرتبہ پھر ان کے خلاف فوج کے استعمال کو خارج ازامکان قراردیا اوراس مطالبہ کو سختی سے مسترد کردیا، دوسری طرف ٹھیک اسی وقت کشمیر کی سڑکوں کے چپہ چپہ پرفوج وسی.آر.پی.ایف تعینات تھی اوروہ مظاہرین پرآنسو گیس اورگو لیاں برساکر اپنی طاقت کا اندھا مظاہرہ کررہی تھی اورکشمیر کے تمام شہریوں کے ساتھ وہی سلوک کررہی تھی جو عام دہشت گردوں کے ساتھ کیاجاتا ہے ،کیا اس جانبدارانہ روش کاکوئی جواز ہے ؟کیا اسے تعصب وتنگ نظری کے سوا کوئی اورنام دیاجاسکتا ہے؟ اورکیا حالات کو سمجھنے اور انھیں کنٹرول کرنے کا یہ دوہرا معیارنہیں ہے؟ اورکیا ایک غیرجانبدار شخص یہ نتیجہ اخذ کرنے میں حق بجانب نہیں ہے؟ کہ دونوں معاملات میں فرق صرف مذہب کا ہے ورنہ کیا وجہ ہے کہ کشمیریوں کے جس بے ضرر مظاہرہ میں ایک بھی فوجی یا سی.آر.پی.ایف وپولیس کاجوان ہلاک نہیں ہوا اورشاید سیریس طورپر زخمی بھی نہیں ہوا اس کو روکنے کے لئے طاقت کا ایسا بے دریغ استعمال اور جن کے ہاتھوں شہریوں کی جان ومال اورسرکاری املاک بلکہ ملک کا اتحاد وسالمیت بھی محفوظ نہیں ان پردہشت گردی کا لیبل لگاتے ہوئے بھی شرم آئے اوران کے خلاف فوج کا استعمال بھی خارج ازامکان قرارپائے، اس دوہرے پیمانہ اوردوہرے معیار پرسنجیدگی کے ساتھ غور کرنے کی ضرورت ہے۔

***



Aug.Sep-2010 رسول اکرم پرنازل ہونے والی پہلی آیات

ڈاکٹر سید سعید عابدیؔ

رسول اکرم  پرنازل ہونے والی پہلی آیات

مسئلہ: ایک صاحب اپنے خط میں لکھتے ہیں کہ سیرت کی کتابوں میں یہ پڑھتاآرہا ہوں کہ رسول اکرمﷺ پر غارحرامیں جوپہلی آیات نازل ہوئی تھیں وہ سورۃ العلق کی ابتدائی 5آیتیں تھیں لیکن موجودہ دورکے ایک صاحب تفسیر نے اس حدیث کا انکار کیاہے جس میں یہ خبردی گئی ہے کہ حضرت جبریل امین علیہ السلام غارحرامیں سورۃ العلق کی مذکورہ آیتیں لے کرنازل ہوئے تھے اورآپ ﷺ سے انھیں پڑھوائی تھیں، ان کی دلیل یہ ہے کہ اس سورہ کا انتہائی غضب آلود انداز بیان اس امر پردلالت کرتا ہے کہ ایسی سورہ ابتدائی مکی دورمیں نازل نہیں ہوسکتی تھی، ان کا خیال ہے کہ (اِقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّکَ )کے الفاظ موجود پاکر کسی راوی نے سورۃ العلق کی 5آیتیں پڑھ دیں۔

جواب: اوپرجس مفسرقرآن کے قول کا حوالہ دیاگیا ہے اس کا ذکرانھوں نے سورۃ العلق کی تفسیرکے ضمن میں نہیں کیا ہے البتہ یہ خیال ضرور ظاہر کیاہے کہ ’’یہ پوری سورت بالکل ہم آہنگ وہم رنگ ہے، اس کی ابتدائی 5آیتوں کا مزاج بھی بعد کی آیتوں سے کچھ مختلف نہیں، سورہ کا انداز خطاب اتنا تیز وتند ہے کہ بالکل پہلی ہی سورہ میں یہ اندازسمجھ میں نہیں آتا کہ کیوں اختیار فرمایا گیا۔

انھوں نے کسی راوی پریہ الزام نہیں لگایا کہ اس نے آغازوحی کی حدیث کے شروع میں یہ 5آیتیں اپنی طرف سے جوڑدیں بلکہ یہ بات ان کی طرف منسوب کرکے ان کے ایک شاگرد نے لکھی ہے جنھوں نے شاید ان کی آڑمیں اپنے دل کی بھڑاس نکالی ہے، میں سورۃالعلق کی ابتدائی5آیتوں کے اسلوب بیان سے ان کے پہلی وحی الٰہی ہونے کو دکھانے سے قبل اس حدیث پرعلمی بحث کرناچاہتاہوں جوآغاز وحی سے متعلق۔ صحیحین بخاری اورمسلم ۔میں آئی ہے۔

امام بخاریؒ آغاز وحی کی حدیث مختلف ابواب کے تحت لائے ہیں، جن میں سے 3ابواب کے تحت اس کا مکمل متن نقل کیاہے جبکہ بقیہ ابواب کے تحت اس کے بعض فقروں کے ذکرپراکتفاکیا ہے جن ابواب کے تحت اس کا مکمل متن بعض معمولی لفظی اختلاف کے ساتھ نقل کیاہے وہ یہ ہیں:

1۔باب اول : رسول ﷺ پرنزول وحی کا آغاز کس طرح ہوا۔

2۔باب96:تفسیر سورۃ العلق(ح495)

3۔کتاب التعبیر،باب اول’’رسول ﷺ پروحی کاآغاز صالح خواب سے ہوا‘‘۔ (ح6982)

مذکورہ مقامات پرانھوں نے یہ حدیث5سندوں سے نقل کی ہے اورہرجگہ پہلے اس سند کا اعادہ کیاہے جو اس کی پہلی سند ہے، اس کے بعددوسری سندیں لائے ہیں جس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ ان کے نزدیک یہ سند سب سے زیادہ قوی تھی اوروہ سند درج ذیل ہے۔

ہم سے یحیٰ بن بکیر نے بیان کیا، کہا: ہم سے لیث نے عقیل سے، انھوں نے ابن شہاب سے ،انھوں نے عروہ بن زبیر سے اور انھوں نے ام المؤمنین حضرت عائشہ سے کہ انھوں نے فرمایا: ’’پہلے پہل وحی کی ابتدا اچھے خوابوں سے ہوئی، آپ ﷺ جو خواب بھی دیکھتے وہ صبح کے اجالے کی مانند ہوتا پھرآپ ﷺ تنہائی پسند ہوگئے اورغارحرا میں تنہا کئی کئی راتیں تحنث، عبادت میں گزارنے لگے، اس کے لئے آپ ﷺ اپنے ساتھ ضروری توشہ لے جاتے پھرحضرت خدیجہ کے پاس واپس آتے اوروہ اسی طرح سامان ضرورت ساتھ کردیتیں یہاں تک کہ ایک دن اسی غارحرا میں اچانک حق ،وحی کا ظہور ہوگیا اورآپ ﷺ کی خدمت میں فرشتہ حاضرہوااورکہا پڑھو!نبی ﷺنے فرمایا میں پڑھنے والانہیں ہوں، میں پڑھنا نہیں جانتا، اس نے مجھے پکڑ کراس طرح بھینچا کہ میری قوت برداشت جواب دے گئی پھراس نے مجھے چھوڑدیا اورکہا پڑھو، میں نے کہا میں پڑھنا نہیں جانتا، اس نے دوبارہ مجھے پکڑکر بھینچا یہاں تک کہ میری قوت برداشت جواب دے گئی پھراس نے مجھے چھوڑدیا اورکہا پڑھو، میں نے کہا میں پڑھنانہیں جانتا، اس نے تیسری بار مجھے پکڑ کربھینچا یہاں تک کہ میری قوت برداشت جواب دے گئی ،پھراس نے مجھے چھوڑدیا اورکہا(اِقْرأ بِاسْمِ رَبِّکَ الَّذِیْ خَلَق)پڑھو! اپنے رب کے نام سے جس نے پیداکیا ، یہاں تک کہ ’’عَلَّمَ الإنْسَانَ مَالَمْ یَعْلَمْ‘‘اس نے انسان کو وہ علم سکھایا جسے وہ نہیں جانتا تھا، تک پہنچ گیا‘‘۔

یہ حدیث ام المؤمنین حضرت عائشہؓ نے روایت کی ہے اوران سے ان کے بھانجے حضرت عروہ بن زبیرؓ نے، حضرت عروہ کا شمار مدینہ منورہ کے فقہائے سبعہ میں ہوتا ہے، اپنے زمانے میں وہ سیرت پاک اورمغازی کے امام تھے، ان کے والد ماجد حضرت زبیر بن عوامؓ رسول اکرمﷺ کے حواری اوریکے ازعشرہ مبشرہ بالجنہ اوران کی والدہ ماجدہ حضرت اسماء بنت ابی بکر ذات النطاقین تھیں۔

حضرت عروہ سے یہ حدیث اپنے زمانے کے امام اورحافظ حدیث، کتاب وسنت کے علوم کے جامع اورسیرت پاک کے منفرد عالم محمد بن مسلم بن شہاب زہریؓ نے روایت کی ہے، امام زہری نے سید التابعین حضرت سعیدبن مسیب کی خدمت میں رہ کر علم حدیث حاصل کیا، ان کے حافظے کا یہ حال تھا کہ جو حدیث ایک بارسن لیتے وہ ان کے لوحِ قلب پرنقش ہوجاتی، ان کے غیرمعمولی حافظہ اورروایت حدیث میں ان کی حددرجہ امانت ودیانت کی وجہ سے پانچویں خلیفہ راشد حضرت عمربن عبدالعزیزؒ نے تدوین حدیث کی ذمہ داری ان کے سپرد کی تھی۔

امام زہری سے یہ حدیث روایت کرنے والے حدیث کے امام اورحافظ حضرت عقیل بن خالد بن عقیلؒ ہیں جوامام زہری کی حدیثوں کے سب سے بڑے راوی شمارہوتے ہیں اوران سے یہ حدیث شیخ الاسلام ،امام وحافظ حدیث اورمایہ ناز فقیہ حضرت لیث بن سعد بن عبدالرحمن نے روایت کی ہے جن کے بارے میں امام شافعی فرماچکے ہیں کہ لیث مالک بن انس سے بڑے فقیہ تھے، اورامام لیث بن سعد سے یہ حدیث روایت کرنے والے امام بخاری کے استاد امام، محدث اورحافظ حضرت یحی بن عبداللہ بن بکیر ہیں، یحیٰ بن بکیر نے امام مالک سے متعدد بارمؤطا سنی اور اس دورکے اساطین علم حدیث کی خدمت میں رہ کر یہ مقدس علم حاصل کیا۔

آغازِ وحی کی حدیث کی سند کے راویوں کی جو مختصر تفصیل اوپر پیش کی گئی ہے اس کی روشنی میں بجاطورپر یہ کہاجاسکتا ہے کہ یہ سند ’’سلسلۃ الذہب‘‘ ہے، یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ ’’صاحب تدبرقرآن‘‘ کے لائق شاگرد نے جویہ دعویٰ کیاہے کہ غارحرا میں حضرت جبریل علیہ السلام کے نزول اورنبی اکرمﷺ سے ان کی ملاقات کا جو واقعہ پیش آیا تھا اس موقع پر سورۃ العلق کی کوئی آیت نازل نہیں ہوئی تھی بلکہ اپنے سوال:’’اِقْرأ‘‘کا نبی اکرمﷺ کے جواب:’’مَا اَنَا بِقَارِئٍ‘‘کو سن کر وہ واپس چلے گئے تھے کیونکہ جبریل امین علیہ السلام کی یہ آمدوحی پہنچانے کے لئے تھی ہی نہیں بلکہ’’اِقْرأبِاسْمِ رَبِّک‘‘کے الفاظ موجودپاکرکسی راوی نے سورہ علق کی 5آیتیں پڑھ دیں اوران کے پہلی وحی ہونے کا تصورقائم ہوگیا‘‘۔

سوال یہ پیداہوتا ہے کہ اوپرحدیث کے راویوں کی جوفہرست پیش کی گئی ہے ان میں سے کس نے اس ’’جرم عظیم‘‘ کا ارتکاب کرڈالا اور 14سوسال تک مفسرین ،محدثین، فقہاء اورسیرت نگار اس بھول میں مبتلا رہے کہ حضرت جبریل علیہ السلام جب پہلی بار غارحرا میں رسول اکرمﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے تھے تو اپنے ساتھ اللہ تعالیٰ کا کوئی کلام بھی لائے تھے جوسورۃ العلق کی ابتدائی 5آیتوں سے عبارت تھا۔

’’صاحب تدبرقرآن‘‘ نے سورۃ العلق کے اسلوب بیان سے یہ استدلال کیاہے کہ یہ سورہ اپنے تیزوتند انداز خطاب کی وجہ سے پہلی وحی ہونے کے قابل نہیں، ’’موصوف کو فہم قرآن میں جوملکہ اور مہارت حاصل تھی، اس سے انکارنہیں مگران کا یہ دعویٰ کہ’’اس سورہ کی ابتدائی5آیتوں کا مزاج بھی بعدکی آیتوں سے کچھ مختلف نہیں‘‘۔

فہم قرآن میں ان کی شہرت سے میل نہیں کھاتا بلکہ شاید آغاز وحی کی حدیث کی صحت کے بارے میں ان کے تذبذب اور شک نے ان کو ایسی بات لکھنے پرمجبورکردیا ،ورنہ ان5آیتوں کا مزاج، اسلوب بیان اور انداز تخاطب سورت کی بقیہ آیتوں سے بالکل مختلف ہے، اس میں وہ گھن گرج ۔جو مکی سورتوں میں نمایاں ہے۔ چھٹی آیت سے شروع ہوتی ہیں، رہی ابتدائی 5آیتیں توان میں نہایت نرم، ٹھنڈے اوردل کو چھولینے والے انداز بیان میں اللہ تعالیٰ کے اس فضل واحسان کو بیان کیاگیا ہے جو اس نے علم کی نعمت سے نواز کر انسانوں پرکیاہے، ارشاد ربانی ہے’’پڑھواپنے رب کے نام کے ساتھ جس نے پیداکیا ،جس نے انسان کو جمے ہوئے خون کے لوتھڑے سے پیداکیا، پڑھو اورتمہارا رب وہ بزرگ وکریم ہے جس نے قلم کے ذریعے علم سکھایا، انسان کو وہ علم سکھایا جسے وہ نہ جانتا تھا‘‘کس قدرپیارا، دلنواز اورموثرانداز بیان ہے اوران نہایت شیریں اورمیٹھے بولوں میں اللہ تعالیٰ کی جونعمت بیان ہوئی ہے وہ ایک بدیہی حقیقت ہے جس کو سمجھنے کے لئے کسی دلیل کی ضرورت نہیں لیکن بعدکی آیتوں میں جوسختی اورغضبناکی پائی جاتی ہے وہ اس کے پہلے ہی لفظ کلا(ہرگزنہیں) سے بالکل عیاں ہے،پھرفرمایا گیاہے، ترجمہ:بیشک انسان سرکشی کرتاہے جب اپنے آپ کو مستغنی دیکھتا ہے۔(6-7)

مطلب یہ ہے کہ جب انسان اللہ تعالیٰ کے فضل وتوفیق سے دولتمند یا صاحب اقتداریا طاقتورہوجاتا ہے توسرکشی پراترآتا ہے اوریہ بھول جاتا ہے کہ اس کی تخلیق خون کے ایک جمے ہوئے لوتھڑے سے ہوئی ہے اورجب وہ اپنی ماں کے پیٹ سے نکلا تھا اس وقت اس کے پاس نہ علم تھا نہ مال ودولت اورنہ عزت وجاہ، اس طرح اس سورہ کی ابتدائی 5آیتوں کاپہلی وحی الٰہی ہونااپنے مضمون اورحدیث دونوں کے بالکل مطابق ہے۔

درحقیقت حدیث رسول ﷺ سے عموماً اوراحکام القرآن سے متعلقہ حدیثوں سے خصوصاً ’’صاحب تدبرقرآن‘‘ کو جو’’تحفظات‘‘ تھے ان کی بنیاد پراسلام کے اس دوسرے بنیادی ماخذ سے متعلق وہ مستشرقین اورکسی حد تک منکرین حدیث کی صف میں کھڑے نظر آتے ہیں چنانچہ انھوں نے مشہور تابعی اورامام حدیث محمدبن مسلم بن شہاب زہری کو جس طرح مورد طعن بنایا ہے اس سے جہاں یہ معلوم ہوتاہے کہ اولا انھوں نے اس علم کا گہرا مطالعہ نہیں کیا تھا اور جتنا مطالعہ کیا بھی تھا وہ ’’تشکیکی‘‘ ذہن ودماغ سے کیاتھا، ثانیا وہ محدثین کو ’’حفاظ، کی ایسی جماعت خیال کرتے تھے جوعلم وفہم سے کورے ہونے کے ساتھ ساتھ روایت حدیث میں امانت ودیانت کی صفت سے بھی عاری تھے اورثالثا امام زہری کا نقد واحتساب کرنے میں منکرین حدیث کے اصولوں کو بنیاد بنایا ہے، ایک عجیب بات یہ ہے کہ مستشرقین نے امام زہری پر بنوامیہ کا پٹھو اورہمنواہونے کا الزام لگایا جبکہ صاحب تدبرقرآن نے ان پریہ الزام لگایا کہ انھوں نے شیعیت کو دین بنانے کے لئے خاصاکام کیاہے۔

یہاں ایک نہایت اہم سوال یہ پیداہوتا ہے کہ اگرامام زہری اتنے ناقابل اعتبارتھے اوران کی شخصیت میں اتنی متضادصفات جمع تھیں توسید التابعین امام سعید بن مسیب ،امام دارالہجرہ امام مالکؒ ، ناصرالسنہ امام شافعی، امام اہل السنہ احمدبن حنبلؒ اورعلم الرجال اورعلم الاسناد کے متفق علیہ امام علی مدینیؒ جیسے اکابرامت کی نگاہ تحقیق میں کیوں نہ آسکے اوراگر یہ سب ان کو سمجھنے میں دھوکا کھاگئے تواس امت کے سب سے پہلے مجدد اورپانچویں خلیفہ راشد حضرت عمربن عبدالعزیزؒ جیسے محدث ،فقیہ اور خلیفہ عادل کی حقیقت شناس نگاہ سے کس طرح بچ گئے کہ تدوین حدیث کی نازک ذمہ داری امام زہریؒ کے سپردکردی؟

اوپرامام زہریؒ کے بارے میں صاحب تدبرقرآن کے جن خیالات کاذکرآیا ہے وہ رسول اللہﷺ پرنازل ہونے والی پہلی آیات قرآنی کے تعین کے ضمن میں آیا ہے ورنہ یہ اس ضمن کا موضوع نہیں تھا اورانھوں نے ان پر جوالزامات لگائے ہیں ان کا علمی جواب مشکل نہیں بلکہ بہت آسان ہے لیکن اس کے لئے خاص مضمون درکار ہے البتہ اتنی وضاحت توبہرحال ضروری ہے کہ انھوں نے نبی اکرمﷺپرغارحرا میں نازل ہونے والی سورۃ العلق کی ابتدائی 5آیتوں کا انکار صرف اس وجہ سے کیاہے کہ اس واقعہ سے متعلق صحیح احادیث کی سندوں میں اما م زہریؒ بھی شامل ہیں اوربعدکے مفسرین ، محدثین، فقہاء اورسیرت نگاروں کے درمیان اس مسئلے میں جواختلاف ملتا ہے اس کا سبب حضرت جابربن عبداللہ کی وہ حدیث ہے جس میں انھوں نے نبی اکرمﷺ پرنازل ہونے والی پہلی آیات سورۃ المدثر کی ابتدائی آیات کو قراردیاہے لیکن اگراس موضوع سے متعلق تمام احادیث کو ایک ساتھ جمع کرکے ان پر غورکیا جاتا تویہ بات واضح ہوجاتی کہ حضرت جابرنے سورۃ المدثرکی ابتدائی آیتوں کو علی الاطلاق پہلی وحی نہیں قراردیا بلکہ غارحرامیں نازل ہونے والی پہلی وحی کے بعدنزول وحی میں توقف ، فترہ کے بعدنازل ہونے والی پہلی وحی قراردیاہے ،چنانچہ وہ خودفرماتے ہیں۔

انھوں نے رسول اللہﷺ کو فرماتے ہوئے سناہے’’پھر ایک مدت کے لئے مجھ پرنزول وحی کا سلسلہ رک گیا یہاں تک کہ ایک روز میں چلاجارہا تھا کہ یکایک میں نے آسمان سے ایک آواز سنی اورآسمان کی جانب نگاہ اٹھائی تودیکھا کہ وہی فرشتہ جوغارحرامیں میرے پاس آیاتھا آسمان اورزمین کے درمیان ایک کرسی پربیٹھا ہواہے، میں یہ دیکھ کرسخت دہشت زدہ ہوگیا اورزمین پر گرپڑا اورگھرجاکرکہا مجھے کمبل اڑھاؤ مجھے کمبل اڑھاؤ،گھروالوں نے مجھے کمبل اڑھادیا‘‘اورپھر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت۔(ترجمہ) اے کمبل یا چادر میں لپٹے ہوئے اٹھو اورڈراؤ اوربرائی سے دوررہو۔ تک نازل فرمایا۔

یہ حدیث یہ صراحت کررہی ہے کہ سورۃ المدثر کی ابتدائی آیات رسول اللہﷺ پرنازل ہونے والی پہلی آیات تھیں، اسی حدیث میں حدیث کے راوی ابوسلمہ بن عبدالرحمٰن کا یہ قول نقل ہوا ہے کہ’’پھرلگاتار وحی کا نزول شروع ہوگیا‘‘۔(صحیح بخاری ح4926،صحیح مسلم ح407)

***





ماہِ رمضان المبارک کی خصوصیات Aug-Sep 2010

ڈاکٹرحافظ محمد اسحاق زاہدؔ
باحث علمی جمعیۃ إحیاء التراث الإسلامی کویت
ماہِ رمضان المبارک کی خصوصیات
اللہ تعالیٰ کے فضل وکرم سے ماہِ رمضان المبارک کا آغاز ہوچکا ہے، اس لئے ہم سب کو اللہ تعالیٰ کا شکراداکرناچاہئے کہ اس نے ہمیں زندگی میں ایک بار پھریہ مبارک مہینہ نصیب فرمایا، ایک ایسا مہینہ کہ جس میں اللہ تعالیٰ جنت کے دروازے کھول دیتا ہے، جہنم کے دروازے بند کردیتا ہے اورشیطان کو جکڑدیتا ہے تاکہ وہ اللہ کے بندوں کواس طرح گمراہ نہ کرسکے جس طرح عام دنوں میں کرتا ہے، ایسا مہینہ کہ جس میں اللہ تعالیٰ سب سے زیادہ اپنے بندوں کو جہنم سے آزادی کا انعام عطا کرتا ہے، جس میں خصوصی طورپر اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کی مغفرت کرتا اور ان کی توبہ اوردعائیں قبول کرتا ہے تو ایسے عظیم الشان مہینہ کا پانا یقیناًاللہ تعالیٰ کی بہت بڑی نعمت ہے، اوراس نعمت کی قدرومنزلت کا اندازہ آپ اسی بات سے کرسکتے ہیں کہ سلف صالحین رحمہم اللہ چھ ماہ تک یہ دعا کرتے تھے کہ یا اللہ! ہمیں رمضان المبارک کا مہینہ نصیب فرما ،پھرجب رمضان المبارک کامہینہ گذرجاتا تووہ اس بات کی دعا کرتے کہ اے اللہ! ہم نے اس مہینے میں جوعبادات کیں توانھیں قبول فرما، کیونکہ وہ اس بات کو جانتے تھے کہ یہ مہینہ کس قدر اہم ہے! (لطائف المعارف ص:۲۸۰)
لہذا ہمیں بھی اس مہینہ کو غنیمت سمجھتے ہوئے اس کی برکات سے بھرپور فائدہ اٹھاناچاہئے، حضرت طلحہ بن عبیداللہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ دوآدمی رسول اللہﷺ کی خدمت میں حاضرہوئے اوردونوں نے بیک وقت اسلام قبول کیا ،اس کے بعد ان میں سے ایک آدمی زیادہ عبادت کرتا تھا اوروہ اللہ کی راہ میں شہید ہوگیا، جبکہ دوسرا آدمی جوپہلے آدمی کی نسبت کم عبادت گذارتھا اس کی شہادت کے ایک سال بعد فوت ہوا، حضرت طلحہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے خواب دیکھا کہ یہ دوسرا آدمی شہادت پانے والے آدمی سے پہلے جنت میں داخل ہواہے، اورجب صبح ہوئی تومیں نے یہ خواب لوگوں کو سنایا جس پرانھوں نے تعجب کااظہار کیا، چنانچہ رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا:’’أَلَیْسَ قَدْ مَکَثَ ھٰذَا بَعْدَہُ سَنَۃً فَأَدْرَکَ رَمَضَانَ فَصَامَہُ، وَصَلّٰی کَذَا وَکَذَا سَجْدَۃً فِیْ السَّنَۃِ، فَلَمَا بَیْنَھُمَا أَبْعَدُ مِمَّا بَیْنَ السَّمَاءِ وَالْأَرْضِ‘‘۔(ابن ماجہ:۳۹۲۵، صحیح ابن حبان:۲۹۸۲، صحیح الجامع الصغیر للألبانی:۱۳۱۶)
’’کیا یہ(دوسرا آدمی) پہلے آدمی کے بعد ایک سال تک زندہ نہیں رہا؟ جس میں اس نے رمضان کامہینہ پایا، اس کے روزے رکھے اورسال بھراتنی نمازیں پڑھیں؟ توان دونوں کے درمیان( جنت میں) اتنافاصلہ ہے جتنا زمین وآسمان کے درمیان ہے‘‘۔
اس حدیث میں ذرا غورفرمائیں کہ دوآدمی اکٹھے مسلمان ہوئے، ان میں سے ایک دوسرے کی نسبت زیادہ عبادت گذارتھا اوراسے شہادت کی موت نصیب ہوئی، جبکہ دوسرا آدمی پہلے آدمی کی نسبت کم عبادت کرتا تھا اوراس کی موت عام موت تھی لیکن کیاوجہ ہے کہ یہ جنت میں پہلے داخل ہوا؟ اس کی وجہ یہ تھی یہ پہلے آدمی کی شہادت کے بعدایک سال تک زندہ رہا اوراس دوران اسے رمضان المبارک کامہینہ نصیب ہوا، جس میں اس نے روزے رکھے اورسال بھر نمازیں بھی پڑھتا رہا، توروزوں اورنمازوں کی بدولت وہ شہادت پانے والے آدمی سے پہلے جنت میں چلاگیا....یہ اس بات کی دلیل ہے کہ رمضان المبارک کاپانا اور اس کے روزے رکھنا اللہ تعالیٰ کی بہت بڑی نعمت ہے۔
اورآپ ذرا غور کریں کہ ہمارے کتنے رشتہ داراورکتنے دوست احباب پچھلے رمضان المبارک میں ہمارے ساتھ تھے لیکن اس رمضان المبارک کے آنے سے پہلے ہی وہ اس دنیائے فانی سے رخصت ہوگئے اورانھیں یہ مبارک مہینہ نصیب نہ ہوا، جبکہ ہمیں اللہ تعالیٰ نے زندگی اورتندرستی دی اوریہ مبارک مہینہ نصیب فرماکرہمیں ایک بارپھر موقعہ دیا کہ ہم تمام گناہوں سے سچی توبہ کرلیں اوراپنے خالق ومالک اللہ تعالیٰ کو راضی کرلیں توکیا یہ اللہ تعالیٰ کی بہت بڑی نعمت نہیں؟
اوریہ بھی ہوسکتا ہے کہ یہ رمضان المبارک ہماری زندگی کا آخری رمضان ہو اور آئندہ رمضان کے آنے سے پہلے ہی ہم بھی اس جہانِ فانی سے رخصت ہوجائیں !توہمیں یہ موقعہ غنیمت تصورکرکے اس کی برکات کوسمیٹنے کی بھرپورکوشش کرنی چاہئے۔
یہی وجہ ہے کہ جب رمضان المبارک کامہینہ شروع ہوتا تورسول اکرمﷺ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کو اس کے آنے کی بشارت سناتے اورانھیں مبارکباد دیتے، جیساکہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے رمضان المبارک کی آمد کی بشارت سناتے ہوئے فرمایا:’’أَتَاکُمْ رَمَضَانُ، شَھْرٌ مُبَارَکٌ، فَرَضَ اللّٰہُ عَزَّوَ جَلَّ عَلَیْکُمُ صِیَامَہُ، تُفْتَحُ فِیْہِ أَبْوَابُ الْجَنَّۃِ، وَتُغْلَقُ فِیْہِ أَبْوَابُ الْجَحِیْمِ، وَتُغَلُّ فِیْہِ مَرَدَۃُ الشَّیَاطِیْنِ، لِلّٰہِ فِیْہِ لَیْلَۃٌ خَیْرٌ مِنْ أَلْفِ شَھْرٍ،مَنْ حُرِمَ خَیْرَھَا فَقَدْ حُرِمَ‘‘
’’تمہارے پاس ماہِ رمضان آچکا جوکہ بابرکت مہینہ ہے، اللہ تعالیٰ نے تم پر اس کے روزے فرض کئے ہیں، اس میں جنت کے دروازے کھول دئے جاتے ہیں اورجہنم کے دروازے بند کردئے جاتے ہیں، اوراس میں سرکش شیطان جکڑدئے جاتے ہیں اوراس میں اللہ کی ایک رات ایسی ہے جوہزار مہینوں سے افضل ہے جوشخص اس کی خیر سے محروم رہ جائے وہی دراصل محروم ہوتا ہے‘‘۔
(النسائی: ۲۱۰۶، صحیح الجامع الصغیر للألبانی :۵۵)
خصائص رمضان المبارک:
اس مبارک مہینہ کی متعدد خصوصیات ہیں جن کی بناء پر اسے دیگر مہینوں پرفضیلت حاصل ہے، ان میں سے چند خصوصیات یہ ہیں:
(۱)نزولِ قرآن مجید
اللہ تعالیٰ نے آسمانی کتابوں میں سے سب سے افضل کتاب( قرآن مجید)کو مہینوں میں سے سب سے افضل مہینہ( رمضان المبارک) میں اتارا، بلکہ اس مبارک مہینہ کی سب سے افضل رات (لیلۃ القدر) میں اسے لوحِ محفوظ سے آسمان دنیاپر یکبارگی نازل فرمایا اوراسے بیت العزۃمیں رکھ دیا، فرمان الٰہی ہے:(شَھْرُ رَمَضَانَ الَّذِیْ أُنْزِلَ فِیْہِ الْقُرْآنُ ھُدًی لِّلنَّاسِ وَبَیِّنَاتٍ مِّنَ الْھُدٰی وَالْفُرْقَانِ)(البقرہ:۱۸۵)
’’وہ رمضان کامہینہ تھا جس میں قرآن نازل کیاگیا جولوگوں کے لئے باعثِ ہدایت ہے اور اس میں ہدایت کی اور(حق وباطل کے درمیان)فرق کرنے کی نشانیاں ہیں‘‘۔
اورفرمایا:(إِنَّا أَنْزَلْنَاہُ فِیْ لَیْلَۃِ الْقَدْرِ)(القدر:۱)
’’ہم نے اسے لیلۃ القدرمیں نازل کیا‘‘۔
(۲)جہنم سے آزادی
اس مبارک مہینہ کی دوسری خصوصیت یہ ہے کہ اس میں اللہ تعالیٰ اپنے سارے بندوں کو جہنم سے آزادی نصیب کرتا ہے، جیساکہ حضرت جابر رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا’’إِنَّ لِلّٰہِ تَعَالٰی عِنْدَ کُلِّ فِطْرٍ عُتَقَاءُ مِنَ النَّارِ، وَذَلِکَ فِیْ کُلِّ لَیْلَۃٍ‘‘
’’بے شک اللہ تعالیٰ ہرافطاری کے وقت بہت سے لوگوں کو جہنم سے آزادکرتا ہے اورایسا ہر رات کرتا ہے۔(ابن ماجہ: ۱۶۴۳،صحیح الجامع الصغیر للألبانی:۲۱۷۰)
اورحضرت ابوسعید الخدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا:’’إِنَّ لِلّٰہِ تَبَارَکَ وَتَعَالٰی عُتَقَاءُ فِیْ کُلِّ یَوْمٍ وَلَیْلَۃٍ، یَعْنِیْ فِیْ رَمَضَانَ، وَإِنَّ لِکُلِّ مُسْلِمٍ فِیْ کُلٍّ یَوْمٍ وَلَیْلَۃٍ دَعْوَۃً مُسْتَجَابَۃٌ‘‘(البزار:صحیح الترغیب والترھیب للألبانی:۱۰۰۲)
’’بے شک اللہ تعالیٰ( رمضان المبارک میں) ہردن اورہررات بہت سے لوگوں کو جہنم سے آزاد کرتا ہے اورہردن اورہررات ہرمسلمان کی ایک دعا قبول کی جاتی ہے‘‘۔
ان احادیث کے پیشِ نظر ہمیں اللہ تعالیٰ سے خصوصی طورپر یہ دعاکرنی چاہئے کہ وہ ہمیں بھی اپنے ان خوش نصیب بندوں میں شامل کرلے جنھیں وہ اس مہینہ میں جہنم سے آزاد کرتا ہے کیونکہ یہی اصل کامیابی ہے۔
جیساکہ اللہ تعالیٰ کافرمان ہے:(فَمْنْ زُحْزِحَ عَنِ النَّارِ وَأُدْخِلَ الْجَنَّۃَ فَقَدْ فَازَ وَمَا الْحَیَاۃُ الدُّنْیَا إِلاَّ مَتَاعُ الْغُرُوْرِ)(آل عمران:۱۸۵)
’’پھر جس شخص کو آگ سے دورکردیاجائے گا اوراسے جنت میں داخل کردیا جائے گا یقیناًوہ کامیاب ہوجائے گا، اوردنیا کی زندگی تومحض دھوکے کاسامان ہے۔
( ۳)جنت کے دروازوں کا کھولاجانا
(۴) جہنم کے دروازوں کا بندکیاجانا
(۵)سرکش شیطانوں کا جکڑاجانا
یہ تینوں اموربھی رمضان المبارک کی خصوصیات میں سے ہیں،جیساکہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا:’’إِذَا کَانَ أَوَّلُ لَیْلَۃٍ مِنْ شَھْرِ رَمَضَانَ صُفِّدَتِ الشَّیَاطِیْنُ وَمَرَدَۃُ الْجِنِّ، وَغُلَّقَتْ أَبْوَابُ النَّارِ، فَلَمْ یُفْتَحْ مِنْھَا بَابٌ، وَفُتِحَتْ أَبْوَابُ الْجَنَّۃِ فَلَمْ یُغْلَقُ مِنْھَا بَابٌ ،وَیُنَادِی مُنَادٍ، یَا بَاغِیَ الْخَیْرِ أَقْبِلْ، وَیَا بَاغِیَ الشَّرِّ أَقْصِرْ‘‘(الترمذی وابن ماجہ، صحیح الترغیب والترھیب للألبانی:۹۹۸)
’’جب ماہِ رمضان کی پہلی رات آتی ہے توشیطانوں اورسرکش جنوں کو جکڑدیاجاتا ہے، جہنم کے دروازے بند کردئے جاتے ہیں اوراس کاکوئی دروازہ کھلانہیں چھوڑا جاتا، اورجنت کے دروازے کھول دئے جاتے ہیں اوراس کا کوئی دروازہ بند نہیں چھوڑاجاتا، اورایک اعلان کرنے والا پکارکرکہتا ہے:’’ اے خیرکے طلبگار!آگے بڑھ، اوراے شرکے طلبگار!اب تورُک جا‘‘۔
(۶) ایک رات.....ہزارمہینوں سے بہتر
ماہِ رمضان المبارک کی خصوصیات میں سے ایک خصوصیت یہ ہے کہ اس میں ایک رات ایسی ہے جوہزارمہینوں سے بہترہے، فرمان الٰہی ہے:(لَیْلَۃُ الْقَدْرِ خَیْرٌ مِّنْ أَلْفِ شَھْرٍ)(القدر:۳)
’’لیلۃ القدرہزار مہینوں سے بہترہے‘‘۔
اورحضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ جب ماہِ رمضان شروع ہوا تورسول اللہ ﷺ نے فرمایا:’’إِنَّ ھَذَا الشَّھْرَ قَدْ حَضَرَکُمْ، وَفِیْہِ لَیْلَۃٌ خَیْرٌمِّنْ أَلْفِ شَھْرٍ، مَنْ حُرِمَھَا فَقَدْ حُرِمَ الْخَیْرَ کُلَّہُ،وَلَا یُحْرَمُ خَیْرَھَا إِلاَّ مَحْرُوْمٌ‘‘۔
(ابن ماجہ:۱۶۴۴،صحیح الترغیب والترھیب:۱۰۰۰)
’’بے شک یہ مہینہ تمہارے پاس آچکا ہے، اس میں ایک رات ایسی ہے جوہزارمہینوں سے بہترہے اورجوشخص اس سے محروم ہوجاتا ہے وہ مکمل خیرسے محروم ہوجاتا ہے، اوراس کی خیرسے توکوئی حقیقی محروم ہی محروم رہ سکتاہے‘‘۔
(۷) رمضان میں عمرہ حج کے برابر
اس عظیم الشان مہینہ کی ساتویں خصوصیت یہ ہے کہ اس میں عمرہ حج کے برابرہوتاہے،جیسا کہ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے ایک انصاری خاتون کو فرمایا: ’’فَإِذَا جَاءَ رَمَضَانُ فَاعْتَمِرِیْ، فَإِنَّ عُمْرَۃً فِیْہِ تَعْدِلُ حَجَّۃً‘‘۔(البخاری:۱۷۸۲،مسلم:۱۲۵۶)
’’جب ماہِ رمضان آجائے تو تم اس میں عمرہ کرلینا کیونکہ اس میں عمرہ حج کے برابرہوتا ہے‘‘۔
ایک روایت میں اس حدیث کے الفاظ یہ ہیں کہ رسول اللہﷺ نے ایک انصاری خاتون سے ۔جسے ام سنان کہاجاتا تھا۔کہا: تم نے ہمارے ساتھ حج کیوں نہیں کیا؟ تواس نے سواری کے نہ ہونے کا عذر پیش کیا، اس پررسول اللہﷺ نے فرمایا:’’فَإِنَّ عُمْرَۃً فِیْ رَمَضَانَ تَقْضِیْ حَجَّۃً مَّعِیْ‘‘۔
(البخاری:۱۸۶۳، مسلم:۱۲۵۶)
’’رمضان میں عمرہ کرنا میرے ساتھ حج کی قضا ہے‘‘۔یعنی جوشخص میرے ساتھ حج نہیں کرسکا وہ اگررمضان میں عمرہ کرلے توگویا اس نے میرے ساتھ حج کرلیا۔

Monday, October 4, 2010

رمضان المبارک کے بعض احکام ومسائل Aug- Sep 2010

وصی اللہ عبدالحکیم مدنیؔ
استادکلیہ عائشہ صدیقہ جھنڈانگر
رمضان المبارک کے بعض احکام ومسائل
چاندکے احکام:
*چاند دیکھ کر ہی روزہ رکھو اورچاند دیکھ کرہی روزہ چھوڑو اگرانتیس شعبان کو آسمان ابرآلود ہواورچاند نظرنہ آئے توشعبان کے تیس دن پوری کرلو۔(متفق علیہ)
*رمضان کے چاند کے لئے موحد مسلمان کی شہادت ورویت کاہی اعتبار کیاجائے گا۔ (صحیح؍ سنن ابی داؤد)
*چاند دیکھنے کی دعا:’’اَللّٰہُ اَکْبَرُ! اَللَّھُمَّ اَھِلَّہُ عَلَیْنَا بِالْأَمْنِ وَالْاِیْمَانِ وَالسَّلَامَۃِ وَالْاِسْلَامِ وَالتَّوْفِیْقِ لِمَا تُحِبُّ رَبَّنَا وَتَرْضٰی رَبِّیْ وَرَبُّکَ اللّٰہُ‘‘۔(حسن بشواہدہ؍سنن دارمی)
ترجمہ:اللہ بہت بڑا ہے، اے اللہ! اس کو ہم پرامن وایمان سلامتی واسلام اوراس چیز کی توفیق کے ساتھ ظاہر فرماجسے توپسند فرماتا ہے اورجس سے توخوش ہوتاہے، اے چاند میرا اورتیرا رب اللہ ہے۔
*رمضان کے چاندکی بابت ایک مسلمان کی شہادت کافی ہے جب کہ عید کے چاند کے بارے میں کم ازکم دومسلمانوں کی شہادت ہونی چاہئے۔(صحیح ؍سنن أبی داؤد)
*جو علاقے مطلع کے اعتبارسے قریب قریب ہیں ان علاقوں میں ایک علاقہ کی رؤیت دوسرے علاقوں کے لئے کافی ہے۔
صوم کامعنیٰ ومفہوم:
صوم اور صیام یہ صَام یصوم کامصدرہے اورصوم کا لغوی معنی رکنا اورشرعی معنی صبح صادق سے لے کرغروب آفتاب تک روزہ کی نیت سے اللہ کی رضا حاصل کرنے کے لئے کھانے پینے، بیوی سے ہم بستری کرنے اور سارے مفطرات صوم سے رکے رہناہے۔
رمضان کا روزہ کن لوگوں پر فرض ہے؟:
رمضان کاروزہ ہر عاقل، بالغ، روزہ رکھنے پر قادر اورمقیم مسلمان مرد وعورت (جوحیض ونفاس سے پاک ہو)پر فرض ہے جسے کوئی شرعی عذرلاحق نہ ہو جیساکہ ارشاد ربانی ہے(یٰا اَیُّھَا الَّذِیْنَ آمَنُوْا کُتِبَ عَلَیْکُمُ الصِّیَامُ کَمَاکُتِبَ عَلَی الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِکُمْ لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْنَ)( البقرۃ:۱۸۳)
ترجمہ: اے ایمان والو! تم پر روزے رکھنا فرض کیا گیا جس طرح تم سے پہلے لوگوں پرفرض کئے گئے تھے تاکہ تم تقویٰ اختیار کرو۔
رمضان کا روزہ کن لوگوں پر فرض نہیں ہے؟
رمضان کا روزہ نابالغ بچہ تاوقتیکہ بالغ نہ ہوجائے، مجنون، مریض، مسافر، حیض ونفاس والی عورت، بوڑھے مردیا بوڑھی عورت ،حاملہ اوردودھ پلانے والی عورت پر فرض نہیں ہے، ان میں بعض وہ ہیں جن پر روزہ فرض نہیں ہے لیکن ان کے لئے روزہ رکھنا مستحب ہے، بعض کوروزہ چھوڑنا اوراس کی قضاء ضروری ہے، بعض کو روزہ چھوڑنے کی اجازت ہے ،لیکن اس کی قضاء یا فدیہ ضروری ہے ہر ایک کی تفصیل آگے آرہی ہے۔
رمضان کے روزوں کی فرضیت:
(۱)ماہ رمضان کے روزوں کی فرضیت کتاب وسنت اور اجماع امت سے ثابت ہے۔ (المغنی:۴؍۳۲۴)
(۲)ماہ رمضان کا روزہ ۲ھ ؁میں فرض ہوا۔(نیل ا لأوطار؍۳؍۱۵۱)
رمضان کے روزوں کاحکم:
*رمضان کے روزوں کی فرضیت کاانکارکرنے والا انسان کافر اوربغیر کسی عذرشرعی اس کا چھوڑنے والا سخت گنہگار اورفاسق ہے۔
رمضان کاروزہ رکھناکب واجب ہوتاہے؟
*رمضان کا چاند دیکھنے سے یا شعبان کا مہینہ تیس دن پوراہوجانے پر رمضان کا روزہ رکھنا واجب ہوتاہے۔
ماہ رمضان کی فضیلت:
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ’’جب رمضان کا مہینہ آتاہے توجنت کے دروازے کھول دئے جاتے ہیں اورجہنم کے دروازے بند کردئے جاتے ہیں اور شیطانوں کوباندھ دیاجاتاہے‘‘۔(بخاری ومسلم)
رزوں کی فضیلت:
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ ’’اللہ تعالیٰ فرماتاہے کہ انسان کا ہرعمل اس کے لئے ہے سوائے روزہ کے، اس لئے کہ روزہ میرے لئے ہے اوراس کا بدلہ میں ہی دوں گا‘‘۔(متفق علیہ)
نیت:
*رمضان کے فرض روزے کی نیت رات ہی میں طلوع فجر سے پہلے کرنا واجب ہے۔(صحیح ؍سنن ابی داؤد)
*نفلی روزوں کی نیت طلوع فجرکے بعدظہر سے پہلے بھی کی جاسکتی ہے، بشرطیکہ طلوع فجر کے بعد کچھ کھایا پیانہ ہو یا جماع نہ کیا ہو۔
*ہرشرعی کام کے لئے نیت ضروری ہے۔(صحیح بخاری)
* زبان سے نیت کرنا ضروری نہیں ہے بلکہ اس کے لئے دل میں ارادہ کرلینا کافی ہے۔(امام ابن تیمیہ)
*نیت اورروزہ رکھنے کے لئے کوئی مخصوص دعا آپ ﷺ سے ثابت نہیں ہے۔
*رمضان کا روزہ رکھنے والے کے لئے رمضان کی ہرشب میں نیت کرنے کی حاجت نہیں ہے جبکہ امام شوکانی کے بقول ہردن کے لئے نیت کرنی چاہئے۔
*ہر وہ روزہ جو واجب ہے جیسے قضاء وکفارہ اس کے لئے نیت بھی شرط ہے۔
افطار:
*غروب آفتاب کے بعد فوراً افطار کرلینا چاہئے تاخیر درست نہیں ہے(متفق علیہ)
*تاخیر سے افطارکرنا یہود ونصاریٰ کی مشابہت ہے۔(حسن ؍سنن أبی داؤد)
*نفلی روزہ انسان جب چاہے افطار کرسکتاہے۔(صحیح مسلم)
* افطار کرتے وقت ’’بسم اللہ‘‘ کہے اورکھانا کھاچکے تو ’’الحمدللہ‘‘ کہے اوریہ دعا پڑھے’’ذَھَبَ الظَّمَاءُ وَابْتَلَّتِ الْعُرُوْقُ وَثَبَتَ الْاَجْرُاِنْ شَآءَ اللّٰہُ ‘‘۔
(حسن ؍سنن أبی داؤد،سنن دارقطنی)
کس چیز سے افطار کیاجائے؟
*تازہ طاق کھجوروں سے افطار کرناافضل ہے اگریہ میسرنہ ہوں توپانی سے افطار بہترہے ویسے کسی بھی حلال اورپاکیزہ چیز کو کھاپی کرروزہ افطار کیاجاسکتا ہے اوراگرکبھی کھانے پینے کی کوئی چیز نہ مل سکے توصرف افطارکی نیت کرلینے سے افطار ہوجائے گا۔
سحری:
*سحری کھانا باعث برکت اورہمارے نبی ﷺ کی سنت ہے۔(متفق علیہ)
* اگر کھانے کی خواہش کم ہو توتھوڑا سامیٹھاکھالے اگربالکل خواہش نہ ہو تودوچارگھونٹ پانی ہی پی لے۔
*اگررات کوسوجانے کی وجہ سے سحری نہ کھاسکے تب بھی روزہ رکھناچاہئے۔
*بغیرسحری کھائے ہوئے بھی روزہ رکھنا درست ہے البتہ سنت کی پیروی افضل ہے۔
*عہد نبوی میں سحری کی اذان حضرت بلال رضی اللہ عنہ اورفجر کی اذان عبداللہ بن ام مکتوم دیتے تھے۔(متفق علیہ)
*سحری کی اذان کی جگہ سائرن بجانا، نقاروں، پٹاخوں، توپوں اورہری بتیوں کااستعمال بدعت اورخلافِ سنت ہے۔
*حالتِ جنابت میں سحری کھانا درست ہے۔(متفق علیہ)
*سحری بالکل آخر وقت میں کھاناافضل اورسنت نبوی ہے ۔(بخاری ومسلم،الفتح الربانی)
*سحری دیرسے کھانا انبیاء کی خصلت اورایمان کی علامت ہے۔
*جوشخص فجرکی اذان سنے اور برتن اس کے ہاتھ میں ہوتووہ کھاپی لے۔(حسن صحیح؍سنن ابی داؤد)
نمازتراویح(قیام رمضان)
*رمضان المبارک کاچاند دیکھتے ہی ہرمسلمان مردوعورت کے لئے عشاء کی نماز کے بعدآٹھ رکعت تراویح پڑھنا سنت مؤکدہ ہے۔
*صلاۃ تراویح کے بعد یا ہردورکعت کے بعدکوئی مخصوص دعا آپ ﷺ سے ثابت نہیں ہے۔
*قیام اللیل یاصلاۃ تراویح وِترسمیت گیارہ رکعت ہی پڑھنا مسنون ہے، آٹھ رکعت تراویح اورتین رکعت وتر۔(صحیحین)
*ایک ہی رات میں نماز تراویح وتہجد پڑھنا درست ہے بایں طور اول شب میں تراویح اورآخری رات میں نماز تہجد لیکن ایک ہی رات میں دوبار وتراداکرناجائز نہیں ہے۔
*تراویح کے ائمہ کرام قرأت ٹھہر ٹھہر کر کریں اورصاف صاف پڑھیں، قرآن پاک ختم کرنے کے لئے جلد بازی ہرگز درست نہیں ۔
* تراویح کی نماز تنہا پڑھنی بھی جائز ہے مگراسے باجماعت اداکرنا افضل ہے۔
*شرعی حجاب اوراسلامی آداب واخلاق کالحاظ کرتے ہوئے عورتیں بھی مردوں کے ساتھ تراویح کی نماز باجماعت میں شریک ہوسکتی ہیں، بشرطیکہ ان کے لئے نماز کا علیحدہ انتظام ہو۔
*کوئی پڑھی لکھی عورت علیحدہ عورتوں کی امامت بھی کراسکتی ہے۔
مفسدات صوم:
رمضان کے دن میں قصداً کھاناپینا ،قصداً بیڑی سگریٹ پینا یا کسی اورطرح سے دھواں منہ میں لینا،عمداً قے کرنا، حیض ونفاس کے خون کا آنا، مرتد ہوجانا،( یعنی اسلام سے پھرجانا )رمضان کے دن میں مقوی انجکشن لینا، روزہ توڑنے کی نیت کرنا، منھ کے راستے سے دواؤں کا نگلنا، خون چڑھانا،بیداری کی حالت میں منی کانکلنا چاہے وہ مباشرت سے ہو یا بوسہ لینے سے یا ویسے ہی نکل جائے اوررمضان کے دن میں بیوی سے جماع کرنا اس میں قضاء کفارہ دونوں لازم ہے۔
مکروھاتِ صوم:
روزہ دار کے لئے کلّی کرنا ،ناک میں پانی ڈالنے میں مبالغہ کرنا، بغیر ضرورت کھانا چکھنا اوراگر پچھنا لگوانے سے کمزوری آئے توپچھنا لگوانابھی مکروہ ہے۔
مباحات صوم:
درج ذیل امورسے روزہ فاسد نہیں ہوتاہے۔
سرمہ لگانا، غیر مقوی انجکشن لگوانا، آدمی کے پیشاب کے سوراخ میں دواٹپکانا،زخموں کی مرہم پٹی کرنا، خوشبو سونگھنا،تیل لگانا، دھونی دینا، ہاتھ وپیرمیں مہندی لگانا، آنکھ ،کان اور ناک میں دواکا قطرہ ڈالنا،قے ہونا، سینگی (پچھنا)لگوانا،(اس مسئلے میں علماء کے مابین شدید اختلاف ہے اس لئے احتیاط ہی برتنا بہترہے) رِگ کھلوانا، خون نکلوانا، نکسیر پھوٹنا، زخموں سے خون نکلنا،شدید درد کی وجہ سے دانت نکلوانا،دانت میں دوالگانا، مذی اورودی کانکلنا ،دمہ میں اسپرے(spray)کااستعمال کرنا،خشک وتر میٹھی وکڑوی مسواک کرنا،ہروہ ٹوتھ پیسٹ استعمال کرنا جس میں ممنوع اشیاء شامل نہ ہوں، طلوع فجرکے بعد غسلِ جنابت کرنا، بیوی سے بوس وکنارہونا اورپردے کے اوپرسے مباشرت کرناگرچہ اس کی شہوت حرکت میں آئے، کلی کرنا اورناک میں پانی ڈالنا، استحاضہ کاخون آنا، وقتِ ضرورت کسی چیز کا چکھنا، بھول کر کھاپی لینا،گرمی یاپیاس کی وجہ سے سرپر پانی ڈالنا،نہانا،چیک اپ کروانا،غرغرہ کی دواستعمال کرنا ،محتلم ہونا، بھول کر بیوی سے جماع کرنا، وکس یا دوسری سونگھنے والی دواؤں کا استعمال کرنا،تھوک اورگردوغبار حلق کے اندرجانا، صائم کا اپنا تھوک نگلنا،کڈنی اورگردہ کی دھلائی کرنا۔
قضاء وکفارہ:
*بحالت روزہ قصداً اپنی بیوی کے ساتھ ہمبستری کرنے سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے اوراس حالت میں قضاء اورکفارہ دونوں ضروری ہے اورکفارہ یہ ہے کہ ایک غلام آزاد کرے اگر اس کی استطاعت نہ ہو تودومہینے کا مسلسل روزہ رکھے اوراگر اس کی بھی طاقت نہ ہو توساٹھ مسکینوں کوکھانا کھلائے۔
*جمہورائمہ کے نزدیک یہ کفارہ مردوعورت دونوں پر ضروری ہے، لیکن اگرمرد نے عورت کو اپنے ساتھ زبردستی شریک کیا تو اس کا کفارہ بھی مرد کے ذمہ ہوگا۔(الفتح الربانی)
*جمہورائمہ کے نزدیک کفارہ میں ترتیب ضروری ہے۔(الفتح الربانی)
*اگرکسی شخص نے روزہ توڑنے کی نیت کرلی تواس کا روزہ ٹوٹ جائے اوراس پرقضاء ہے۔(فقہ السنۃ)
*جمہورعلماء کے نزدیک اگرکسی کو طلو ع فجرکے بعد رمضان کے آنے کی اطلاع ملے تواس پر واجب ہے کہ دن کا باقی حصہ روزہ کی حالت میں گزارے اوربعدمیں اس دن کی قضاء کرے۔
*جس شخص نے رمضان کے دن میں اپنی حائضہ بیوی سے جماع کرلیا تواس پر کفارہ اورقضا دونوں ضروری ہے۔
*اگرروزہ دارمنی نکالے تووہ گنہگار ہوگا لیکن نہ اس پر کفارہ ہے اورنہ ہی قضاء۔
*اگرکسی شخص نے رمضان کے دن میں اپنی بیوی سے ایک ہی دن میں کئی بار جماع کیا توایک ہی کفارہ اوراس کی قضا ہے۔
*اگرکسی نے نفلی روزہ یانذر کاروزہ رکھا یاکوئی روزہ قضاء کررہا تھا اوراسی بیچ میں اپنی بیوی سے جماع کربیٹھا تواس پرقضاء ہے کفارہ نہیں ۔
*رمضان کے روزوں کی قضاء تاخیر سے بھی درست ہے(صحیح ؍سنن أبی داؤد) ویسے امام البانی کے بقول اگراستطاعت ہو توجلدی قضا ء کرنا واجب ہے۔(تمام المنۃ)
*رمضان کے روزوں کی قضاء مسلسل اورالگ الگ کی جائے دونوں طریقہ درست ہے۔
*جوشخص قصداً بلاعذر روزہ نہ رکھے تواس کے لئے قضا ء مشروع نہیں اوراس کا قضا ء کرنا درست نہ ہوگا۔(البانی)
*اگرکسی شخص کو روزہ رکھنے کی وجہ سے اپنی جان جانے کا خطرہ لاحق ہوتووہ روزہ توڑدے بعدمیں اس کی قضاء کرے۔
*اگر کسی شخص نے کسی ڈوبنے والے کو بچانے کے لئے یا آگ بجھانے کے لئے روزہ توڑدیا تو اس کے لئے قضاء ہے۔
*دائم المریض شخص پر روزہ کی قضاء نہیں ہے بلکہ اس کے ذمہ فدیہ ہے۔
*اگرکسی شخص کو جماع کرنے پر مجبور کیاگیا اوروہ مسئلہ نہیں جانتا تھا یا بھول کرجماع کرلیا تواس کا روزہ صحیح ہوگا اوراس پر قضاء اورکفارہ عائد نہیں ہوگا۔
*اگرکوئی شحص اپنی بیوی کی رضامندی سے جماع کرتاہے تواس عورت کوبھی فدیہ، قضاء اورکفارہ دیناپڑے گا۔
*اگرکسی آدمی نے رات سمجھ کر کچھ کھاپی لیا یااپنی بیوی سے مباشرت کربیٹھا پھرمعلوم ہواکہ فجرہوچکی ہے تواس کا روزہ صحیح ہوگا اوراس پر کوئی کفارہ عائد نہیں ہوگا۔
*اگرکسی شخص کو روزے کی حالت میں خودبخود قے آجائے تواس پر قضاء نہیں ہے۔(صحیح؍سنن أبی داؤد)
*اگرکوئی حاملہ عورت حمل کے پانی آنے کے دوران روزہ رکھتی ہے تواس کے روزے صحیح ہیں اس پرقضا ء نہیں۔
*اگرحاملہ اوردودھ پلانے والی عورتیں اپنے نفس پر، جنین یا اپنے نومولود کی صحت کے بارے میں خوف محسوس کریں تورمضان میں روزے نہ رکھیں بعدمیں قضاء کرلیں اس صورت میں صرف قضاء لازم ہے صدقہ نہیں ۔
*حائضہ اورنفاس والی عورتوں کے لئے روزہ رکھنا منع ہے، یہ روزہ نہ رکھیں، بلکہ بعدمیں قضاء کریں۔
*اگرحائضہ اورنفاس والی عورتیں دن میں پاک ہوجائیں توان کے لئے اس دن کا کھانا پینا درست ہے۔
* منہ کے علاوہ کسی اورذریعے سے قصداً معدہ یا دماغ میں کوئی غذا پہونچا دی جائے توروزہ ٹوٹ جائے گا قضا ء واجب ہوگی۔
*نفلی روزوں کی قضاء لازمی نہیں ہے۔
*قضاء روزے نفلی روزوں کے قائم مقام نہ ہوں گے۔
*جوشخص مرجائے اوراس پر رمضان کے روزے ہوں اگروہ مرض کی وجہ سے معذور ہے تواس کی طرف سے قضاء ضروری نہیں اورنہ کھانا کھلانا ضروری ہے اوراگروہ قضاء پرقادرتھا لیکن غفلت کی بنا پرقضاء نہیں کیایہاں تک کہ مرگیا تواس کا ولی اس کی طرف سے روزہ رکھ لے۔
*کوئی عورت اپنے شوہرکی موجودگی میں اس کی اجازت کے بغیر نفلی روزہ نہ رکھے البتہ رمضان کے روزے اوررمضان کی قضا ء بغیر شوہرکی اجازت سے کرلے۔
*اگرکوئی مسلمان رمضان کے دن میں بھول کرکھالے یاپی لے یا اپنی بیوی سے جماع کرلے تواس کا روزہ صحیح ہوگا بشرطیکہ یاد آتے ہی فوراً اس کام کو چھوڑ دے ایسے روزوں کی نہ قضا ہے نہ کفارہ۔
*اگرکسی شخص نے یہ سمجھا کہ سورج غروب ہوگیا اورافطارکرلیا اس کے بعدسورج نمودارہوگیا تواسے اس دن کی قضاء کرنی ہوگی۔(صحیح؍سنن ابی داؤد)
نفلی روزہ:
*غیرشادی شدہ عورت بغیراجازت نفلی روزہ رکھ سکتی ہے۔
*مرد کا اپنی بیوی کو نفلی روزہ سے منع کرنا درست ہے۔
*اگرکسی عورت کا شوہر اس کے پاس موجودنہ ہو تواس کے لئے نفلی روزہ رکھنا مستحب ہے۔
میت کا روزہ:
*میت کی طرف سے میت کا ولی اس کے رمضان اورنذرکے روزے رکھ سکتاہے اور اس میں نیابت درست ہے کیونکہ صحیح حدیث اس پر شاہد ہے۔(متفق علیہ)
*جولوگ کسی ایسے ملک میں مقیم ہوں جہاں چھ مہینے دن اورچھ مہینے رات ہو تووہ نماز اورروزہ اپنے قریبی ملک کے مطابق اداکریں۔
خواتین کے لئے دواؤں کا استعمال:
*عورت روزہ رکھنے اورحج کرنے کے لئے وہ دواستعمال کرسکتی ہے جو حیض کوبند کردے۔
غسل:۔اگرکسی مسلمان مردوعورت کوروزہ کی حالت میں احتلام ہوجائے تواس کا روزہ صحیح ہوگا اوراس پر غسل واجب ہے اوراس پر کوئی گناہ نہیں۔
*گرمی اورپیاس کی شدت کم کرنے کے لئے روزہ دار غسل کرسکتاہے۔
*اگرکسی عورت نے حیض کی وجہ سے روزہ چھوڑدیا اوررات کے وقت اس کا خون بندہوگیا تواس کو فوراً روزہ کی نیت کرلینی چاہئے اگراس وقت غسل نہ کرسکے تودن میں غسل کرلے۔
*اگرغسل جنابت یاغسل حیض ونفاس کو روزہ دارطلوع فجرتک مؤخر کردے توجائز ہے اوراس کا روزہ صحیح ہے لیکن مسلمان کے لئے بہتر ہے کہ وہ ہمیشہ پاک رہے۔
*نفاس والی عورت کو اگرچالیس دن کے بعدبھی خون آتا ہے تو وہ غسل کرے گی اورروزہ رکھے گی اورنماز پڑھے گی اوراپنے آپ کو مستحاضہ تصورکرے گی۔
مسافرکاروزہ:
*مسافرکے لئے سفرمیں مطلقاً روزہ نہ رکھنا افضل ہے۔(متفق علیہ)
* اگرمسافر کوسفرمیں روزہ رکھنا سخت دشوار ہو تواس کے لئے روزہ نہ رکھنا واجب ہے البتہ اگرروزہ رکھنے میں کوئی تکلیف نہ ہو تو روزہ رکھنا بھی جائز ہے۔
*دوران سفرروزہ رکھنا اورچھوڑنا دونوں طرح جائز ودرست ہے۔(متفق علیہ)
*اگرمسافر روزہ نہ رکھ کر اپنے شہرمیں اس دن پہونچے جس دن اس کی بیوی حیض یا نفاس سے پاک ہورہی ہو تواس سے جماع کرسکتاہے۔
*اگرمسافردن میں روزہ نہ رکھ کر اپنے شہرمیں داخل ہو تواس کے لئے کھانا پینا مباح اورجائز ہے ۔
فدیہ:
ہرمرد وعورت جوبڑھاپے کی وجہ سے یاایسے مرض کی وجہ سے۔ جس سے شفاء پانے کی امید نہ ہو۔ روزہ نہ رکھ سکتا ہوخواہ وہ مقیم ہو یامسافراسے روزہ چھوڑنے کی اجازت ہے البتہ ہردن کے بدلے(فدیہ) ایک مسکین کوکھانا کھلاناضروری ہے۔(مسند امام احمد، نیل الاوطار)
*وہ بوڑھا شخص جو نہ ہی روزہ رکھنے کی طاقت رکھتا ہے اورنہ ہی فدیہ دینے کی تواس سے روزہ اورفدیہ دونوں معاف ہیں ۔(فتاویٰ علمائے اہل حدیث)
جن ایام کا روزہ رکھنا حرام ہے:
عیدین،ایام تشریق اوررمضان کے استقبال کے لئے ایک یا دودن پہلے روزہ رکھنا حرام ہے۔(متفق علیہ، مسنداحمد)
روزہ نہ رکھنے کی اجازت:
مریض، مسافر، حاملہ، مرضعہ اورحیض ونفاس والی عورتوں کوروزہ نہ رکھنے کی اجازت ہے لیکن بعدمیں فوت شدہ روزوں کی قضاء لازمی ہے ۔(کتب ستہ)
شب قدر:
*رمضان المبارک کے آخری عشرہ کی طاق راتوں میں یہ بابرکت رات آتی ہے صرف ستائیسویں رات شب بیداری اورخصوصی پکوان کا اہتمام کرنا درست نہیں ہے۔
*(اِنا انزلنا ہ فی لیلۃ مبارکۃ)میں’’ لیلۃ مبارکۃ‘‘سے مراد شب قدرہے نہ کہ شب برأت۔
*شب قدر کی مخصوص دعا’’اللھم! إِنَّکَ عَفُوٌ کَرِیْمٌ تُحِبُّ الْعَفْوَ فَاعْفُ عَنِّی‘‘کو بکثرت پڑھنی چاہئے۔(صحیح؍ سنن ترمذی)
خطبۃ الوداع:
*رمضان المبارک کے آخری جمعہ کو الوداعی خطبہ پڑھنا بدعت ہے۔
مسائل اعتکاف:
*اعتکاف سنت ہے لیکن اگرکوئی شخص اسے نذرکے ذریعے اپنے اوپرلازم کرلے توپھریہ واجب ہوجائے گا۔
*اعتکاف خواہ مرد کرے یا عورت اس کا مسجد میں ہوناضروری ہے۔(المغنی، الفتح الربانی)
*روزے کے بغیراعتکاف جائز ہے لیکن روزے کے ساتھ افضل ہے ۔(صحیح بخاری، زادالمعاد)
*اعتکاف کے لئے روزہ شرط نہیں ہے کیونکہ رات کو روزہ نہیں رکھا جاتاہے۔
*اعتکاف بیٹھنے والا شخص کسی سخت حاجت ناگزیر انسانی ضرورت کے وقت ہی باہرنکل سکتاہے۔(متفق علیہ)
*اعتکاف کرنے والا شخص بغیر شہوت کے اپنی بیوی کوچھوسکتاہے۔(متفق علیہ)
*اعتکاف کرنے والے کے لئے مریض کی عیادت اورجنازے میں شرکت جائز نہیں ہے۔(صحیح؍سنن أبی داؤد)
*اعتکاف کی جگہ میں چارپائی اوربستر بھی رکھا جاسکتا ہے بشرطیکہ دوسرے نمازیوں کو تکلیف نہ ہو۔(سنن ابن ماجہ)
*خواتین بھی اعتکاف بیٹھ سکتی ہیں اس میں شادی شدہ اورکنواری کی تفریق نہیں ہے۔(الفتح الربانی)
*عورتوں کے لئے گھروں میں اعتکاف بیٹھنا درست نہیں ہے۔
*عورت اپنے شوہرکے بغیراجازت اعتکاف نہیں بیٹھ سکتی ہے۔
*حائضہ عورتوں کے لئے اعتکاف بیٹھنا درست نہیں ہے۔
*مستحاضہ عورت اعتکاف کرسکتی ہے۔صحیح بخاری)
*بیوی کا اپنے معتکف شوہرکی زیارت کے لئے مسجد آنا، اس کے بالوں میں کنگھی کرنا اوراس کا سردھلناجائز ہے۔(متفق علیہ)
*معتکف اپنی بیوی کو رخصت کرنے کے لئے اپنی جائے اعتکاف سے نکل سکتا ہے(صحیح؍ سنن أبی داؤد)
صدقۂ فطر:
*صدقۂ فطر عیدکے ایک یادودن پہلے نکالنا ہی عین سنت ہے۔(صحیح بخاری)
*صدقہ فطر جنس طعام سے ہی اداکرنا چاہئے۔(بخاری ومسلم)
*صدقہ فطر میں قیمت اداکرنے کا ثبوت احادیث نبوی میں نہیں ہے۔
*بعض علماء کے نزدیک بدرجہ مجبوری اورکسی معقول عذرکی وجہ سے صدقۂ فطر میں قیمت بھی دی جاسکتی ہے۔(مرعاۃ المفاتیح،تحفۂ رمضان المبارک)
*صدقۂ فطر کے وجوب کے لئے نصاب شرط نہیں ہے،کیونکہ یہ ایک بدنی صدقہ ہے مالی صدقہ نہیں ۔(نیل الاوطار)
*صدقہ فطرکا پیشگی جمع کرنا جائز ہے۔(بخاری ،تحفۃ الأحوذی)
*جنین کی طرف سے صدقۂ فطر نکالنے کے سلسلے میں اللہ کے رسول ﷺ سے کوئی صحیح حدیث ثابت نہیں ہے اوررہی یہ حدیث’’عن عثمان رضی اللہ عنہ انہ کان یعطی صدقۃ الفطرۃ عن الحبلٰی‘‘تواس کی سند ضعیف ہے سویہ حدیث ضعیف ہے۔
*صدقۂ فطرکافرکی طرف سے نہیں نکالاجائے گا کیونکہ حدیث میں’’..من المسلمین‘‘ کی قید ہے ۔
احکام وآداب عیدین:
*عید کی رات اوریوم عید کی صبح کو تکبیرات پڑھنے کا خاص اہتمام کرناچاہئے۔
*نماز عید سے پہلے غسل کرنا ،عمدہ لباس زیب تن کرکے خوشبولگاکر گھرسے نکلناچاہئے۔ (مؤطاء)
*عید الفطر میں گھرسے نکلنے سے پہلے طاق عددمیں کھجوریں کھانا مسنون ہے۔(بخاری)
*عیدگاہ پیدل جانا اوروہاں سے پیدل آنا مسنون ہے۔(حسن؍سنن ابن ماجہ)
*مرد اورعورت سب کو صلاۃ عیدین عیدگاہ ہی میں اداکرنا چاہئے کیونکہ یہی ہمارے نبی ﷺ کی سنت ہے۔(متفق علیہ)
*تکبیرات عیدین یہ ہیں’’اَللّٰہُ اَکبَرُ، اَللّٰہُ اَکبَرُ، لَا اِلٰہَ اِلاَّ اللّٰہُ،وَاللّٰہُ اَکبَرُ ،اَللّٰہُ اَکبَرُ وَلِلّٰہِ الْحَمْدُ‘‘۔(اسنادہ صحیح؍ مصنف ابن ابی شیبہ)
*صلاۃ عید سے پہلے اوراس کے بعد کوئی سنت اورنفل نماز نہیں ہے۔(متفق علیہ)
*صلاۃ عیدین میں نہ تواذان ہے اورنہ ہی اقامت۔(مسلم)
*اگرامام تکبیرزوائد میں سے کوئی تکبیر بھول جائے اورقرأت شروع کردے تووہ تکبیر ساقط ہوجائے گی اس لئے کہ وہ سنت ہے اوراس کا موقع ومحل فوت ہوچکاہے۔
*عیدگاہ میں منبر نہیں لے جانا چاہئے کیونکہ اس باب میں وارد حدیث منکرہے۔ *صلاۃ عید ین کے بعدخطبہ دینا مشروع ہے۔
*عیدین میں جمعہ کی طرح دوخطبے نہیں ہیں صرف ایک ہی خطبہ مسنون ہے۔
*اگربغیر عذرشرعی عورتیں مسجد میں اورمرد عیدگاہ میں عید کی نماز اداکرتے ہیں تویہ خلاف سنت ہے اوریہ تفریق شرعی نہیں من مانی ہے۔
*ماہ شوال کے چھ روزے سنت ہیں فرض نہیں۔
*شوال کے چھ روزے پے درپے اورمتفرق دونوں طریقے پر رکھے جاسکتے ہیں کیونکہ حدیث کے الفاظ ’’من صام رمضان ثم اتبعہ ستاً من شوال کان کصیام الدھر‘‘مطلق ہے۔
*جس پررمضان کی قضاء ہو اسے چاہئے کہ پہلے رمضان کے روزوں کی قضا ء کرے پھرشوال کے چھ روزے رکھے۔(فتویٰ شیخ ابن عثیمین؍رحمہ اللہ)
*شوال کے چھ روزوں کی قضا ماہ شوال ختم ہوجانے کے بعدمشروع نہیں ہے خواہ وہ کسی عذر کی بنا پر چھوڑے گئے ہوں یابغیر کسی عذر کے۔

تفسیر،زمانۂ تدوین میں aug-sep 2010

مولاناعبدالصبورندویؔ
مدیر’’ترجمان السنۃ‘‘ رچھا
تفسیر،زمانۂ تدوین میں
تفسیر عہدرسول ﷺ ،عہدصحابہؓ اورتابعین کے زمانے میں روایت اورتلقین کے ذریعے رائج تھی، یہ علم سینہ بہ سینہ منتقل ہوتارہا لیکن اسے کاغذی پیراہن عطانہیں کیاگیا، یابہت کم تدوین عمل میں آئی، پہلی صدی ہجری کے اواخرمیں تفسیرنے رفتہ رفتہ تدوینی شکل اختیار کرنا شروع کیا، یہ وہ زمانہ تھا جب احادیث نبویہ کے مختلف ابواب وموضوعات کی ترتیب وتدوین کا کام ہورہاتھا، تفسیر کی تدوین متعددمراحل سے گذرتے ہوئے کتابی رنگ حاصل کیا، آیئے ان مراحل پرایک نظر ڈالتے ہیں:
پہلا مرحلہ:۔ اس مرحلے میں تفسیر کی تدوین احادیث کے مجموعے میں ایک باب کی حیثیت سے ہوئی، جیسے باب الطہارۃ، باب الصلاۃ، باب الزکاۃ، باب الحج وغیرہ ،تفسیر کی علیحدہ مستقل تالیف سامنے نہیں آتی جس میں اول قرآن سے لے کر اخیر تک ہرآیت کی تفسیر وتوضیح کی گئی ہو، جن علماء نے تفسیر کی تدوین حدیث کے ایک باب کی حیثیت سے کی، ان کے نام درج ذیل ہیں:
*یزید بن ہارون السلمی (وفات:۱۱۷ھ)
*شعبہ بن حجاج (وفات:۱۶۰ھ)
*وکیع بن الجراح (وفات:۱۹۷ھ)
*عبدبن حمید (وفات:۲۴۹ھ)وغیرہم
یہ مرحلہ کچھ خصوصیات بھی رکھتا ہے ،ملاحظہ ہو:
۱۔سندوں کا غایت درجہ اہتمام تھا۔
۲۔ تفسیرکومستقل فن کی حیثیت نہیں ملی، صرف مجموعۂ احادیث کا ایک جزء بن کرشامل رہی۔
۳۔ رسول اکرمﷺ کے علاوہ صحابہ اورتابعین کی تفسیریں شامل کتاب رہیں۔
دوسرامرحلہ:۔ اس مرحلے میں تفسیر نے مستقل علم وفن کی حیثیت اختیار کرلی، جہاں قرآن کی تمام آیتوں کی تفسیر مرتب تھی مصحف کی ترتیب پر۔
علامہ ابن تیمیہؒ اورابن خلکان کاکہنا ہے کہ تفسیر کے باب میں جو پہلی باضابطہ تصنیف سامنے آئی، وہ عبدالملک بن جریج(۸۰۔۱۴۰ھ) کی تفسیر ہے۔(مجموع الفتاوی۲۰؍۳۲۲،وفیات الأعیان۲؍۳۳۸)
اس مرحلے میں جومشہور تفسیریں(تالیفی شکل میں) منظرعام پرآئیں، ان کے مؤلفین علماء کے نام درج ذیل ہیں۔
*ابن ماجہ (وفات،۲۷۳ھ)
*ابن جریر الطبری (وفات:۳۱۰ھ)
*ابوبکرالمنذر النیسابوری (وفات:۳۱۸ھ)
*ابن ابی حاتم (وفات:۳۲۷ھ)
*ابن حبان (وفات:۳۶۹ھ)
*الحاکم (وفات:۴۰۵ھ)
*ابن مردویہ (وفات:۴۱۰ھ)وغیرہم
دوسرے مرحلے کی خصوصیات درج ذیل ہیں:
۱۔تفسیر بالماثورکا اہتمام، جورسول اکرمﷺ ،صحابہ اورتابعین سے منقول ہے۔
۲۔سندوں کا اہتمام، ہرصاحب تفسیر تک متصل سندبیان کی گئی۔
۳۔روایت احادیث میں جرح وتعدیل کا عدم اہتمام، تفسیری مرویات میں صحت وضعف کا خاص خیال نہیں رکھاگیا، صرف سند بیان کرکے آگے بڑھتے گئے، جیسے ابن جریج نے محض سندوں کے ذکرپراکتفاء کیا، راوی کے معیار اوردرجے کی فکرنہ رہی، اورلگتا ہے کہ اس قول پرعمل کیا، جس میں کہاگیا ہے ’’من أسند فقد أبرأذمتہ‘‘جس نے سند بیان کردی وہ بری الذمہ ہوگیا۔
تیسرا مرحلہ:تفسیر کی تاریخ کا یہ المناک مرحلہ رہا ہے جب بعض مفسرین نے سندوں کا اہتمام ترک کردیا یا اختصارسے کام لیا، سلف سے منقول آثار کو لاپروائی کے ساتھ بیان کرتے چلے گئے، قائل کانام اوراس کی وضاحت کی ضرورت محسوس نہیں کی گئی، صحیح، ضعیف اورموضوع اس طرح باہم مل گئے کہ اس وقت ان کی تمیز مشکل ہوگئی، دشمنان اسلام اس تاک میں تھے کہ دین اسلام کی بنیادوں کو متزلزل کیاجائے اور اس کے مبادیات میں خطرناک ہفوات داخل کردئے جائیں جومسلمانوں کو تعلیمات حقہ سے دستبردار کردیں،مگراللہ کا بہت بڑا کرم اس دین اوران کے متبعین پررہا، جس نے علمائے اسلام کی ایک جماعت کو اسی کام کے لئے تیارکیا، جنھوں نے دسیسہ کاروں اورفتنہ پردازوں کی ایک نہ چلنے دی، من گھڑنت روایتوں کے ایک بڑے ڈھیر کا انکشاف کیا، صحیح اورضعیف کا فرق واضح کیا، اس طرح اللہ تعالیٰ نے اس دین کو امت محمدیہ کے لئے شفافیت کے ساتھ محفوظ کردیا۔
اسی دور میں رائے اورعقل کا خوب سہارالیا گیا، کبھی وہ رائے محمود ہوجاتی اورکبھی مذموم،بعض مفسرین نے بغیر علم کے تفسیر کرنا شروع کردیا، خواہشات نفسانی کا ایک طومار کھڑا کردیا، اورپھر ایک ہی آیت کے تحت بلاوجہ کثرت کے ساتھ اقوال کا ذکر کرنا پھراس کے مرجع کی عدم تحقیق نے بعدوالوں کے لئے مسئلہ کھڑا کردیا، بعدوالوں نے مفسرکے احترام میں سند وصحت وضعف سے لاپرواہوکر کامل اعتماد کرنے لگے۔(الاتقان للسیوطی۲؍۱۹۰)
اس دورمیں اسرائیلی روایات نے بھی خوب ترقی کی، اورمفسرین کامیلان بھی بڑھا کہ اسرائیلیات کو وسعت دی جائے اوراس کے اندر غوروخوض کیاجائے، حالانکہ انھوں نے بے فائدہ چیزوں کی معرفت میں اپنا بے پناہ وقت بربادکیا، اورافسوس کہ انھوں نے یہ ساری محنت دینی کام سمجھ کرکیا، انا للہ واناالیہ راجعون۔
چوتھامرحلہ:۔ گذشتہ مرحلے میں جوکچھ ہوا، اس کا حتمی نتیجہ لے کریہ مرحلہ آیا، تفسیر کا دروازہ کھل چکاتھا، جس کی جومرضی تھی اس کے مطابق قرآن کی تفسیر کرتا رہا، صحت وعلت کی تمیز نہ رہی، جس کے مَن میں جوآتا لکھ ڈالتا، کبھی موضوع روایتوں کوبالائی اورمکھن لگاکرتفسیری سرمائے کو نقصانات پہونچایا گیا، توکبھی مسلکی حمیت وتعصب میں قرآن کے معانی ومفاہیم کو مروڑدیاگیا، انسانی رائے اورعقل نے اسلامی عقیدے کی دھجیاں اڑادیں، تفسیر بالرأی نے تومتعدد فرقوں ومسالک کو جنم دے ڈالا، اب ہرشخص تقلیدی مذاہب ومسالک کا پیروکاربن کر، تعصب کا لبادہ اوڑھ کر، سنت سے ہٹ کر مسلکی حمایت میں قرآنی آیتوں کی بے جاتاویل کرنے لگا۔
اسی طرح ارباب علم وفن جس علم میں ماہر ہوتے، تفسیر کرتے وقت ان کا فن تفسیر پرغالب آجاتا، فقہ کا متخصص اگرتفسیر کو ہاتھ لگاتا توموضوع سے ہٹنا اورفروع کے دلائل پیش کرنا نیز مخالفین پرنقدوردّ اس کاشیوہ بن جاتا ہے، جیسے قرطبی ، جصاص اور اخباری کی تفسیریں گواہ ہیں، ثعلبی ونحوی کی تفسیر کو دیکھیں تواعراب اوروجوہ اعراب سے پوری تفسیربھری ہے، علوم عقلیہ اورحکماء وفلاسفہ کے اقوال، شبہات اوران کے ازالے کے لئے تفسیر دیکھنی ہے توفخرالدین رازی کی تفسیر ملاحظہ فرمائیں۔(الإتقان للسیوطی۲؍۱۹۰)
زمانۂ تدون جاری وساری ہے اورآج بھی ہرصاحب فن یا صاحب مسلک قرآن کی تفسیر اپنے فن یا مسلک کے مطابق کررہا ہے، قرآن کے عظیم ترین مقاصد سے آنکھیں موند کراس الیکٹرانک دورمیں جبکہ دودھ کا دودھ اورپانی کا پانی الگ ہوچکا ہے ،تعصب کی دبیزچادروں کے سائے میں سنت صحیحہ کا گلا گھونٹا جارہا ہے۔
یہ وہ مراحل ہیں، جن سے مل کر یہ تدوینی زمانہ وجودمیں آتا ہے ،خیال رہے یہ مراحل ایک دوسرے سے علیحدہ نہیں ہیں، بلکہ ایسا بہت ممکن ہے کہ جس مرحلے کی ہم بات کررہے ہوں اس کی بنیاد سابقہ مرحلے میں پڑچکی تھی۔
زمانۂ تدوین میں اہم تالیفات:
یہ کسی کے لئے بھی آسان نہ ہوگا کہ زمانۂ تدوین ۔جوپہلی صدی ہجری کے اواخر سے عہد حاضرتک محیط ہے۔ ہرلکھی گئی تفسیر کا ذکر ممکن ہوسکے، اس کا شمار یقیناًمشکل امرہے، یہاں اجمالی طورپہ مشہور تفاسیر کاذکر کررہے ہیں۔
تفسیر بالماثور:
۱۔جامع البیان فی تفسیر القرآن(تفسیر طبری)للطبری،۲۔بحرالعلوم ابواللیث سمرقندی،۳۔الکشف والبیان عن تفسیر القرآن ثعلبی،۴۔معالم التنزیل بغوی،۵۔المحررا لوجیزفی تفسیر الکتاب العزیزابن عطیہ،۶۔الدرالمنثور فی التفسیر بالماثورسیوطی،۷۔تفسیر القرآن العظیم(تفسیر ابن کثیر)ابن کثیر، ۸۔الجواھر الحسان فی تفسیر القرآن الثعالبی،۹۔فتح القدیر الشوکانی،۱۰۔أضواء البیان فی ایضاح القرآن بالقرآن الشنقیطی۔
تفسیر بالرأی:
۱۔الکشاف،الزمخشری،
۲۔مفاتیح الغیب،الرازی
۳۔مدارک التنزیل وحقائق التأویل، النسفی
۴۔لباب التأویل فی معانی التنزیل،الخازن
۵۔البحر المحیط، ابوحیان
۶۔انوارالتنزیل وأسرار التأویل، البیضاوی
۷۔تفسیر الجلالین، جلال الدین المحلی وجلال الدین السیوطی
۸۔ إرشاد العقل السلیم إلی مزایا الکتاب الکریم، أبو السعود
۹۔روح المعانی فی تفسیر القرآن العظیم والسبع المثانی،الآلوسی
۱۰۔تفسیر المنار، محمد رشید رضا
۱۱۔فی ظلال القرآن، سید قطب ***

دعوت دین میں اقتدار کی حیثیت Aug-Sep 2010

محمدانور محمدقاسم سلفیؔ

دعوت دین میں اقتدار کی حیثیت
حکومت اوراقتدار کی طلب ہرزمانے میں بڑی ہی پُرکشش چیز رہی ہے ،دنیائے حرب وضرب کی تاریخ اقتدار چھیننے والوں اوراقتدارکھونے والوں سے بھری پڑی ہے، اس سے قطع نظردعوت دین میں اقتدار کی کیا حیثیت ہے؟ اگراس پرغورکیا جائے توپتہ چلتا ہے کہ انبیاء کی دعوت حکومت واقتدار کی طلب اورعہدوں کی ہوس سے پاک دعوت ہے، جوگمراہ انسانیت کو رب سے جوڑنے اورانھیں شرک کی گندگی سے پاک کرکے جنتی بنانے والی ہے، انبیاء علیہم الصلوۃ والسلام کی ربانی تعلیمات میں سب سے اہم چیز توحیدِ الوہیت ہے، یہی چیز پیغمبروں اوران کے دشمنوں کے درمیان معرکہ کا باعث بنی اوراس مقدس گروہ نے باطل اورضلال کے ہر معرکہ پرمشرکو ں اورکافرں سے چومکھی جنگ لڑی اورمشرکین نے انبیاء علیہم السلام سے جس باطل دین کے دفاع کے لئے ٹکرلیا وہ قبرپرستی، بت پرستی، انبیاء اورصالحین کی پرستش، ان کے لئے نیاز، چڑھاوے، ان سے خوف اورامید ،اللہ کے پاس ان کی شفاعت کی امید اوراپنی مرادوں کے پوری ہونے کے لالچ پرمشتمل تھی، یہی وہ شرکِ اکبرہے جو کبھی بخشانہیں جائے گا ، اسی کے خلاف تمام پیغمبر تادمِ زیست کمربستہ رہے۔
لیکن کچھ دینی جماعتو ں نے دعوت دین کے نام پر طلب اقتدار کواپنا مقصود بنالیا او رکچھ اسی لیلٰی کے فراق آہیں بھررہے ہیں اوراس کے لئے وہی سارے حربے اورگُرکچھ زیادہ ہی استعمال کرنے لگے جودنیا داروں کا خاصہ رہے ہیں، اوربقول علامہ اقبال عالم یہ ہوگیا ہے ؂
خداوندا یہ تیرے سادہ دل بندے کدھرجائیں
کہ درویشی بھی عیاری ہے سلطانی بھی عیاری
جس کی وجہ سے ان کی دعوت میں وہ خیروبرکت نہیں رہی جو انبیاء علیہم السلام اور بالخصوص رسول کائنات جناب محمدﷺ کی دعوت میں تھی، آیئے سیرت رسول میں جھانک کردیکھیں کہ کیا انبیاء علیہم السلام کی دعوت اوران کی ساری تگ وتاز حصول اقتدارکے لئے تھی؟
آپ ﷺ کو حکومت کی پیشکش:
اللہ کے رسول ﷺ پرمکہ کی بادشاہت پیش کی گئی ،لیکن آپ نے اسے ٹھکرادیا ،توحید کی دعوت اورشرک کی مخالفت برابرجاری رکھی، جب قریش آپ کے معاملے میں پریشان ہوگئے تو انھوں نے عتبہ کو آپ کی خدمت میں بھیجا، جس نے آپ سے اس طرح گفتگوکی۔
’’بھتیجے !ہماری قوم میں جوتمہارا مقام ومرتبہ اوربلند پایہ نسب ہے وہ تمہیں معلوم ہی ہے، اب تم اپنی قوم میں ایک بڑا معاملہ لے کر آئے ہو ،جس کی وجہ سے تم نے ان کی جماعت میں پھوٹ ڈال دیا، ان کی عقلوں کو حماقت سے دوچار بتلایا، ان کے معبودوں اوران کے دین کی عیب چینی کی اورجوان کے آباء واجداد گذرچکے ہیں انھیں کافرٹھہرایا، لہذا میری بات سنو، میں تم پرچند باتیں پیش کرتاہوں ان پر غورکرو شاید کہ کوئی بات قبول کرلو‘‘،رسول اللہﷺ نے فرمایا:ابوالولید!کہومیں سنوں گا۔
ابوالولید نے کہا:’’بھتیجے!یہ معاملہ جسے تم لے کرآئے ہو اگراس سے مال حاصل کرناچاہتے ہو توہم تمہارے لئے اتنامال جمع کئے دیتے ہیں کہ تم ہم میں سب سے زیادہ مالداربن جاؤ، اگرتم یہ چاہتے ہوکہ اعزاز ومرتبہ حاصل کرو توہم تمہیں اپنا سردار بنائے لیتے ہیں یہاں تک کہ تمہارے بغیر کسی معاملہ کا فیصلہ نہ کریں گے، اوراگرتم یہ چاہتے ہو کہ بادشاہ بن جاؤ توہم تمہیں اپنا بادشاہ بنائے لیتے ہیں اوراگریہ جو تمہارے پاس آتا ہے کوئی جن بھوت ہے، جسے تم دیکھتے ہو لیکن اپنے آپ سے دفع نہیں کرسکتے، توہم تمہارے لئے اس کاعلاج تلاش کئے دیتے ہیں اوراس سلسلے میں ہم اتنامال خرچ کرنے کے لئے تیارہیں کہ تم شفایاب ہوجاؤ، کیونکہ کبھی کبھی ایساہوتا ہے کہ جن بھوت انسان پرغالب آجاتا ہے اوراس کاعلاج کرواناپڑتاہے‘‘۔
عتبہ یہ باتیں کہتا رہا اوررسول اللہﷺ خاموشی سے سنتے رہے، جب وہ فارغ ہوچکا توآپ نے فرمایا:’’ابوالولید تم فارغ ہوگئے؟ ‘‘ اس نے کہا:’’ہاں ‘‘آپ ﷺ نے فرمایا:’’اچھا! اب میری سنو‘‘ کہا:’’ ٹھیک ہے سنوں گا‘‘ آپ ﷺ نے فرمایا:بسم اللہ الرحمن الرحیم :پھرآپ نے سورہ حٰم السجدۃ کی کچھ آیتیں تلاوت فرمائیں۔
رسول اللہﷺ آگے پڑھتے جارہے تھے اورعتبہ اپنے دونوں ہاتھ پیچھے زمین پر ٹیکے چُپ چاپ سنتاجارہا تھا، جب آپ سجدہ کی آیت پر پہنچے تو آپ نے سجدہ کیا،پھرفرمایا :’’ابوالولید! تمہیں جوکچھ سنناتھا سن چکے، اب تم جانو اورتمہارا کام جانے‘‘، عتبہ اٹھا اورسیدھے اپنے ساتھیوں کے پاس آیا ،تولوگوں نے پوچھا:’’ابوالولید!پیچھے کی کیاخبرہے‘‘اس نے کہا:’’پیچھے کی خبریہ ہے کہ میں نے ایسا کلام سناہے کہ ویساکلام واللہ میں نے کبھی نہیں سنا، اللہ کی قسم! وہ نہ شعرہے نہ جادواورنہ کہانت ،قریش کے لوگو!میری بات مانو اوراس معاملے کو مجھ پر چھوڑدو ،میری رائے یہ ہے کہ اس شخص کو اس کے حال پر چھوڑ کرالگ تھلگ بیٹھے رہو ،اللہ کی قسم! میں نے جوقول سناہے اس سے کوئی زبردست واقعہ رونما ہوکررہے گا، پھراگر اس شخص کو عرب نے مارڈالا توتمہارا کام دوسروں کے ذریعے انجام پاجائے گا اور اگریہ شخص عرب پرغالب آگیا تواس کی بادشاہت تمہاری بادشاہت اوراس کی عزت تمہاری عزت ہوگی اور اس کا وجود تمہارے لئے سب سے بڑھ کرسعادت کا باعث ہوگا ‘‘لوگوں نے کہا:’’اس شخص کے بارے میں میری رائے یہی ہے، اب تمہیں جو ٹھیک معلوم ہوکرو‘‘۔(سیرت ابن ہشام:۱؍۲۹۴)
ابن اسحاق حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت کرتے ہیں کہ: ’’قریش کے کچھ لوگ رسول الٹہﷺ کے پاس آئے تقریباً وہی پیش کش کی جو عتبہ آپ ﷺ کو کرچکا تھا، آپ ﷺ نے انھیں جواب دیتے ہوئے فرمایا:
’’تمہاری اس پیش کش کی مجھے کوئی ضرورت نہیں، میں تم سے نہ مال مانگنے آیا ہوں اورنہ عزت طلب کرنے اورنہ ہی مجھے تم پر اپنی بادشاہت قائم کرنے میں کوئی دلچسپی ہے، بلکہ اللہ نے مجھے پیغمبر بناکر بھیجا ہے ،مجھ پر کتاب اتاری ہے، مجھے حکم دیا کہ میں تمہیں خوشخبری دوں اورڈراؤں ،میں نے تمہیں میرے رب کے احکامات پہنچادئے ہیں ،تمہاری خیرخواہی کی ہے، اگرتم نے میرے دین کو قبول کرلیا تویہ تمہاری دنیوی اوراخروی سعادت ہے ،اگرتم نے ٹھکرادیا تومیں اللہ کا حکم آجانے تک انتظار کروں گا یہاں تک کہ وہ میرے اورتمہاری درمیان فیصلہ کردے‘‘۔(سیرت ابن ہشام :۱؍۲۹۵،۲۹۶)
طالبینِ اقتدار کے لئے کوئی جگہ نہیں:
رسول اللہﷺ نے بعض قبائل کی اس طلب کو ٹھکرادیا کہ آپ کی وفات کے بعدحکومت انھیں سونپی جائے، ابن اسحاق کہتے ہیں:
’’مجھ سے زہری نے بیان کیا: اللہ کے رسول ﷺ بنوعامربن صعصعہ کے پاس گئے اورانھیں اللہ کی طرف بلایا اوران پراپنے آپ کو پیش کیا، ان میں سے ایک شخص بحیرہ بن فراس نے کہا:اگراس جوان کو میں قریش سے حاصل کرلوں تواس کے ذریعے سارے عرب کو نگل جاؤں گا‘‘ اس نے آپ سے کہا: ’’اگرہم آپ کے ہاتھ پربیعت کرتے ہیں اورآپ کو اللہ اپنے مخالفین پرغلبہ عطاکرے توکیا آپ کے بعدحکومت ہماری ہوگی‘‘؟ آپ نے فرمایا:’’حکومت اورسلطنت اللہ کے ہاتھ میں ہے وہ جسے چاہے گا عطاکرے گا‘‘، اس نے یہ کہتے ہوئے آپ کی دعوت ٹھکرادی کہ’’ہم سارے عرب کے مقابلے میں اپنے سینوں کوآپ کے لئے سپربنائیں، پھرجب اللہ آپ کو غلبہ عطاکرے گا توکیا اقتدار ہمارا نہیں دوسروں کا ہوگا؟ پھرہمیں اس دین کی کوئی ضرورت نہیں‘‘۔(سیرت ابن ہشام: ۱؍۴۲۴، ۴۲۵، السیرۃ النبویۃ للذھبی:۱۸۹؍۱۹۰)
خلاصۂ کلام یہ ہے کہ انبیاء علیہم السلام کسی حکومت کوگرانے اوراس کی جگہ کسی نئی حکومت کو قائم کرنے کے لئے نہیں آئے ہیں اورنہ ہی انھوں نے بادشاہت کی خواہش کی اورنہ اس کے حصول کے لئے پارٹیاں بنائیں، بلکہ وہ انسانیت کو گمراہی سے بچانے، اندھیرے سے روشنی کی طرف لانے اوراللہ کی پکڑسے ڈرانے کے لئے آئے تھے، اگرکبھی انھیں بادشاہت کی پیشکش بھی ہوئی توانھوں نے ٹھکرادیا، اپنی دعوت کے راستے پرگامزن رہے، قریش نے آپ کو بادشاہ بناناچاہا لیکن آپ نے ردکردیا ،اللہ نے آپ کو بادشاہ نبی، یا، بندہ رسول، دونوں میں سے کسی ایک کوپسند کرلینے کا اختیار عطاکیا، لیکن آپ ﷺ نے بندہ رسول بننا ہی پسند کیا۔
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ :حضرت جبریل علیہ السلام نبی ﷺ کے پاس بیٹھے ہوئے تھے پھرآپ نے آسمان کی طرف دیکھا تو ایک فرشتہ اتررہا تھا، جبریل نے کہا: اے محمد! یہ فرشتہ جب سے پیداہوا ہے آج تک زمین پرنہیں اترا اور نہ ہی قیامت تک اترے گا‘‘جب وہ آیا توکہنے لگا: اے محمد !آپ کے پروردگار نے مجھے یہ پیغام دیاہے کہ وہ آپ کو بادشاہ نبی بنائے یا بندہ رسول بنائے؟ جبریل نے کہا: ’’اے محمدﷺ ! آپ اپنے رب کے لئے تواضع اختیار کیجئے‘‘آپ ﷺ نے فرمایا:’’میں توبندہ اوررسول ہی رہوں گا‘‘۔(مسند احمد:۲؍۲۳۱)
اقتدارکے بجائے جنت:
رسول اللہﷺ نے انصار سے صرف جنت کے وعدہ پر بیعت لی ،حالانکہ انصارنے بڑے ہی سخت اورنازک حالات میں بیعت کی تھی ،آپ نے ان سے عہدوں،بادشاہت، مال، حکومت یا اس جیسی دنیوی مرغوبات کا وعدہ نہیں کیا، حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ کہتے ہیں:’’میں ان نقیبوں میں سے ایک تھا جنھوں نے رسول اللہﷺ کے دستِ مبارک پربیعت کی تھی، ہم نے جن باتوں پربیعت کی تھی وہ یہ تھیں:اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہیں کریں گے، چوری زنا کاری نہیں کریں گے، نہ کسی کو ناحق قتل کریں گے، نہ ڈاکہ ڈالیں گے نہ ہی اللہ اوراس کے رسول کی نافرمانی کریں گے، اس کے عوض ہمیں جنت ملے گی۔
حضرت ابومسعودانصاری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں:رسول اللہﷺ اپنے چچا حضرت عباس رضی اللہ عنہ کے ساتھ بیعتِ عقبہ کے وقت درخت کے نیچے تشریف لائے ،آپ نے فرمایا: تمہاری جانب سے ایک آدمی بات کرے اوربات کو طول نہ دے، کیونکہ مشرکین نے تم پرجاسوس چھوڑرکھا ہے، اگروہ جان لیں گے توتم کو تنگ کریں گے ،انصار کی جانب سے ابوامامہ رضی اللہ عنہ کھڑے ہوئے اورکہا:’’اے محمدﷺ !آپ اپنے رب کے لئے اپنی ذات کے لئے اور اپنے ساتھیوں کے لئے جو کچھ مانگنا ہومانگیں، پھر ہمیں بتائیں کہ اس کا ثواب اللہ کی جانب سے ہمیں کیاملے گا؟آپ نے فرمایا:’’میں اپنے رب کے لئے تم سے یہ مطالبہ کرتا ہوں کہ تم صرف اسی کی عبادت کروگے اوراس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کروگے، میں اپنی ذات اوراپنے اصحاب کے لئے تم سے یہ مانگتا ہوں کہ تم ہم کو پناہ دوگے، مدد کروگے اورہماری ہراس چیز سے حفاظت کروگے جس سے تم اپنے آپ کی حفاظت کرتے ہو‘‘انصار نے کہا:’’اگرہم نے یہ کیا توہمارے لئے کیاثواب ہے؟‘‘ آپ ﷺ نے فرمایا:’’تمہارے لئے جنت ہے‘‘انصارنے کہا:’’جب توہم تیار ہیں‘‘۔(مسند احمد:۴؍۱۱۹،۱۲۰)
حضرت جابربن عبداللہ رضی اللہ عنہماکہتے ہیں:’’رسول اللہﷺ مکہ میں نبوت کے بعدتیرہ سال رہے،آپ عکاظ اور مجنّہ کے میلوں میں اورحج کے موقع پر منیٰ کے میدان میں لوگوں کے خیموں میں جاتے اور فرماتے: ’’ کون ہے جو مجھے ٹھکانہ دے اور میری مددکرے؟ میں اپنے رب کا پیغام عام کرسکوں اور اس کے بدلہ میں اس کے لئے جنت ہے‘‘ یہاں تک کہ یمن کا مضری آدمی آتا توآپ کی قوم کے لوگ اس کے پاس آکرکہتے:’’ذرا اس قریش زادے سے بچنا، کہیں وہ تمہیں بھی فتنہ میں نہ ڈالے‘‘ آپ بازارمیں نکلتے تولوگ اپنی انگلیاں آپ پراٹھاتے ،یہاں تک کہ اللہ نے یثرب سے ہمیں آپ کی خدمت میں بھیجا، ہم نے آپ کو پناہ دی اورآپ کو سچا جانا، ہماراکوئی آدمی آپ کے پاس مکہ جاتا اورآپ پرایمان لاتا، آپ اسے قرآن سکھاتے، وہ اپنے گھر واپس لوٹتا اوراس کے گھر والے اس کی وجہ سے مسلمان بن جاتے، یہاں تک کہ انصارکے گھروں میں کوئی بھی ایساگھر نہیں بچا جس میں اسلام پرعلانیہ عمل نہ ہوتاہو، پھرہم نے آپس میں یہ طے کیا کہ ہم کب تک رسول اللہﷺ کومکہ کے پہاڑوں میں چکر کاٹتے، ٹھوکریں کھاتے اورخوف زدہ کئے جاتے ہوئے چھوڑ رکھیں گے؟(اس لئے آپ کو یثرب آنے کی دعوت دیں گے )ہم ستر آدمی موسمِ حج میںآپ کے پاس گئے، ہم عقبہ(گھاٹی) میں وعدہ کے مطابق جمع ہوئے ،آپ ایک یادوآدمیوں کے ساتھ تشریف لائے، ہم نے آپ سے کہا :’’اے اللہ کے رسول ﷺ !ہم آپ سے بیعت کریں گے‘‘ آپ نے فرمایا:’’تم مجھ سے اس بات پربیعت کروکہ چستی اورسستی ہرحال میں سنوگے اورمانوگے ،تنگی اورخوشحالی ہرحال میں خرچ کروگے، بھلائی کاحکم دوگے اوربرائی سے روکوگے، اللہ کے بارے میں اٹھ کھڑے رہوگے اوراس کے بارے میں کسی ملامت گرکی ملامت کی پرواہ نہ کروگے اورجب میں تمہارے پاس آجاؤں تومیری مدد کروگے اورجس چیز سے اپنی جان اوراپنے بال بچوں کی حفاظت کرتے ہواس سے میری حفاظت کروگے اورتمہارے لئے جنت ہے‘‘۔
ہم آپ ﷺ سے بیعت کے لئے لپکے، مگرعین اسی وقت حضرت اسعدبن زرارہ رضی اللہ عنہ۔ جوہم تمام میں کم عمرتھے نے آپ علیہ السلام کا ہاتھ پکڑ لیا اورکہا:’’اے اہلِ یثرب! ذرا ٹھہرجاؤ! ہم آپ کی خدمت میں اونٹنیوں کا کلیجہ مارکر(یعنی لمبافاصلہ طے کرکے) اس یقین کے ساتھ حاضر ہوئے ہیں کہ آپ اللہ کے رسول ہیں،آج آپ کو یہاں سے لے جانے کا کیا معنی ہے؟ سارے عرب سے دشمنی، اپنے چیدہ سرداروں کاقتل اورتلواروں کی مار، اب اگرآپ لوگ یہ سب کچھ برداشت کرسکتے ہیں توانھیں لے لیں اورآپ کا اجراللہ پرہے اوراگرآپ لوگ اپنے متعلق کوئی اندیشہ رکھتے ہیں توانھیں ابھی سے چھوڑدیں ،یہ اللہ کے نزدیک زیادہ قابلِ عذر ہوگا‘‘۔
لوگوں نے کہا: ’’اسعد! اپناہاتھ ہٹاؤ، واللہ ہم اس بیعت کو نہ چھوڑسکتے ہیں اورنہ توڑسکتے ہیں‘‘۔ اس کے بعدایک ایک آدمی نے اٹھ کربیعت کی۔(مسند احمد:۳؍۳۲۲،صحیح ابن حبّان) (جاری)

خواصِ امت اورہماراسماج agu-sep 2010

نا خالد سیف اللہ رحمانیؔ
خواصِ امت اورہماراسماج

گنّے کی پہچان اس کی مٹھاس اورمرچ کی شناخت اس کی تیزی ہے، اگرگنا مٹھاس سے اورمرچ تیزی سے خالی ہوجائے توبجاطورپر انسان کو حیرت ہوتی ہے ،اسی طرح علماء، حفاظ، مذہبی قائدین، دعوتی کارکنان دینی اعتبارسے امت کے خواص ہیں، لوگ بجاطورپرتوقع رکھتے ہیں کہ ان کی دینی سطح عام لوگوں سے بہترہوگی، دینداری ہی سے ان کی شناخت ہوتی ہے اوراسی نظرسے لوگ انھیں دیکھتے ہیں، ایسے لوگ اگرکھلے عام احکام شریعت کو پامال کریں اورسنتِ نبوی کوقابلِ اعتناء نہ سمجھیں ،توبجا طور پر لوگوں کو حیرت ہوتی ہے اوروہ حیرت کرنے میں حق بجانب بھی ہیں، انسان چاہتا ہے کہ اس کی زندگی کیسی بھی ہو، لیکن اس کے مقتداکی زندگی بہترہو، کیوں کہ عام افراد سے صرف اس کا عمل متعلق ہوتا ہے اورجولوگ قوم کے رہنما اوررہبرہوتے ہیں، ان سے پوری قوم کی زندگی متعلق ہوتی ہے،ان کی حیثیت قبلہ نماکی ہے، انھیں دیکھ کرلوگ اپنی دینی زندگی کے لئے نقشہ بناتے ہیں، رسول اللہﷺ نے مقتدیوں کے لئے کوئی معیارنہیں فرمایاکہ نمازکامقتدی وہی ہوسکتا ہے، جوسنت کا عالم ہو، بہترطورپرقرآن پڑھ سکتاہو، اس کے اندرورع وتقوی ہو، وغیرہ، لیکن امام کے لئے آپ ﷺ نے ضروری معیارات مقررکئے، آپ ﷺ نے فرمایاکہ امامت کا سب سے زیادہ مستحق وہ ہے جو قرآن سے زیادہ واقف ہو،پھروہ ہے،جوورع وتقویٰ میں بڑھا ہوا ہو....۔(صحیح مسلم، کتاب المساجد ومواضع الصلاۃ، باب من أحق بالإمامۃ ،حدیث نمبر:۲۹۰؍۶۷۳)
افسوس کہ معاشرہ کی عام سطح توگرتی ہی جارہی ہے، خواصِ امت کاحال بھی بہترنہیں ہے ،بلکہ ان کے اندرجواخلاقی انحطاط پیدا ہورہاہے، وہ معاشرہ کے انحطاط کاایک اہم سبب ہے، اس وقت مسلم سماج کاایک سلگتا ہوا مسئلہ نکاح کی تقریبات میں فضول خرچی ہے، قرآن مجید میں باربارفضول خرچی سے منع کیاگیاہے، بلکہ یہاں تک فرمایا گیا کہ فضول خرچی کرنے والے شیطان کے بھائی ہیں:(إن المبذرین کانوا إخوان الشیاطین)۔(الإسراء:۲۷)
یوں توپوری زندگی میں سادگی ہونی چاہئے ،رسول اللہﷺ نے خود اس کا عملی نمونہ امت کے سامنے رکھ دیا، لیکن نکاح کے بارے میں خاص طورپرارشاد ہوا کہ اس میں جس قدرسادگی ہوگی اورجتناکم خرچ کیاجائے گا ،اتنی ہی برکت ہوگی:’’إن اعظم النکاح برکۃ أیسرہ مؤنۃ‘‘۔(احمد بن حنبل،حدیث نمبر:۲۴۵۷۳)
لیکن اس وقت اسراف ،فضول خرچی ،نمائش اوراس میں مسابقت کاسب سے بڑا موقع نکاح بن گیاہے، عام لوگوں کا اس موقعہ پرجورویہ ہوتا ہے، وہ مخفی نہیں ہے،لیکن مذہبی شخصیتیں بھی اب بعض اوقات عوام ہی کی سطح پر آجاتی ہیں، یہ بہت افسوس ناک اورقابلِ فکرمسئلہ ہے ،مجھے اورمجھ جیسے کئی لوگوں کوچند سال پہلے ایک ایسی تقریب میں شرکت کا موقع ملا ،جس میں شہر کی کئی اہم مذہبی شخصیتیں اسی مسئلہ پرغورکرنے کے لئے بیٹھی تھیں،ایک معروف شخصیت جن سے بہت سے لوگ ارادت کا تعلق رکھتے ہیں، انھوں نے نکاح کے بارے میں بڑاعمدہ خطاب فرمایا اوراس بات پرزوردیاکہ جن تقریبات نکاح میں فضول خرچی سے کام لیاجارہا ہو، علماء ومشائخ کا فریضہ ہے کہ وہ ہرگزاس نکاح میں شریک نہ ہوں، اس کے چندہی دنوں کے بعدان کی صاحبزادی کا عقدتھا، یہ حقیربھی ان کی دعوت پرشریک ہوا، وہاں مذہبی، سیاسی وسماجی قائدین، معززین شہراورعلماء ومشائخ کی بڑی تعدادا شریک تھی، لیکن افسوسناک بات ہے کہ فضول خرچی کا جومظاہرہ وہاں دیکھنے میں آیا، کم ہی اس درجہ تزک واحتشام اوراسراف دیکھنے میں آیاہوگا، ظاہرہے کہ جب رہبروں کا یہ حال ہواوران کا عمل ان کی زبان کا رفیق نہ ہو، توبیچارے عوام کوکیا قصوروارٹھہرایئے؟
ابھی چند دنوں پہلے روزنامہ منصف حیدرآباد میں ایک حافظِ قرآن کی تقریب نکاح کی داستان آئی ہے،مجھے نہیں معلوم کہ یہ کس حد تک مبنی برحقیقت ہے؟خداکرے کہ یہ افسانہ ہونہ کہ حقیقی داستان، لیکن اس مضمون کے مطابق مضمون نگارنے آنکھوں دیکھاحال لکھاہے اورنہ صرف الفاظ کے ذریعہ واقعہ کی عکاسی کی ہے، بلکہ اسٹیج کی تصویربھی دے دی ہے، جس میں لڑکے اورلڑکیاں ایک دوسرے سے چھیڑچھاڑ کررہے ہیں، بیان کے مطابق ایک حافظِ قرآن نے اپنی شادی میں اپنے والد کے منع کرنے کے باوجود چاررقاصاؤں کو مدعوکیا ،دومرد اوردوخاتون گلوکار بھی بلائے گئے، یہ سب ایسے مختصرلباس میں تھے کہ گویا ان کے لئے کپڑے کابوجھ اٹھانا مشکل ہورہا ہو، نوشہ کی خواہش پرگلوگارنے پہلے حمد، پھرنعت، پھرتہنیتی نظم پڑھی، اس کے بعدبیہودہ نغموں کا دوراوراس پررقص کاسلسلہ شروع ہوگیا، جوس اورکھانے کی سپلائی کے لئے بھی بطورویٹرنوجوان لڑکیوں کوبلایا گیا تھا، غرض کہ زیادہ سے زیادہ بے حیائی اوربے ہودگی جوایسی تقریبات میں کی جاسکتی ہے، ان سب کا سروسامان کیاگیا تھا، ان نوشہ صاحب نے پہلے حفظِ قرآن کریم کی تکمیل کی، پھرتجارت شروع کی، ایسالگتا ہے کہ انھوں نے اس تجارت میں اسباب دنیا ہی کونہیں بیچا، بلکہ متاع دین، غیرتِ علم اورحمیتِ ایمانی کوبھی فروخت کردیا، فیاعجباہ ویااسفاہ!!
غورکیاجائے کہ جب علماء، مشائخ، حفاظ اوردینی کام کرنے والے لوگ اس سطح پر آجائیں توعوام سے کیاشکایت ہو؟ بعض علماء نے نقل کیاہے کہ اگرعلماء مستحبات وآداب پرعمل کرنے لگیں توعوام اپنے آپ کوجائز اورمباح پرقائم رکھے گی اور حرام سے بچ سکے گی، اوراگرعلماء مباح اور جائز پر قناعت کرلیں گے توعوام مکروہ اور حرام میں پڑ جائے گی ،کیوں کہ اقتدارکرنے والوں کی سطح بہرحال ان لوگوں سے کم ترہوتی ہے، جن کی اقتداکی جاتی ہے ،اب اگرخواص حرام میں پڑجائیں توعوام کا جوحال ہوگا، وہ ظاہرہے غرض کہ خواص امت کی حیثیت امت کے لئے آئینہ کی ہے، جن زندگی میں جھانک کرعوام اپنے لئے زندگی کا نقشہ بناتی ہے اوراگرآئینہ ہی غبار آلود ہوتواس کوسامنے رکھ کر کیسے چہرے کے خط وخال درست کئے جاسکتے ہیں؟
رسول اللہﷺ نے علماء کا بڑا اونچادرجہ بیان فرمایا ہے،آپ ﷺ کا ارشاد ہے کہ علماء کی زمین پر وہی حیثیت ہے، جوآسمان پر ستاروں کی، ’’إن مثل العلماء فی الأرض کمثل النجوم فی السماء، یھتدی بھا فی ظلمات البر والبحر، فإذا انطمست النجوم أوشک أن تضل الھداۃ‘‘۔(مسندأحمد بن حنبل، حدیث نمبر:۱۲۶۲۱)
قرآن مجید نے ستاروں کے تین کرداربتائے ہیں:
ایک یہ کہ ستارے رات کی تاریکیوں میں راستے بتاتے ہیں:(وَعَلٰمٰتٍ وَبِالنَّجْمِ ھُمْ یَہْتَدُوْنَ)
دوسرے:ستارے آسمان کے لئے زینت وآرائش کا ذریعہ ہیں:(إنَّا زَیَّنَّاالسَّمَاءَ الدُّنْیَا بِزِیْنَۃِنِ الْکَوَاکِبِ)(الصافات:۶)
تیسرے:یہ ستارے شیاطین کو بھگاتے ہیں، اوران کے شروفتنہ سے دنیاکوبچاتے ہیں:
(وَلَقَدْزَیَّنَّا السَّمَاءَ الدُّنْیَا بِمَصَابِیْحَ وَجَعَلْنٰھَا رُجُوْماً للشَّیَاطِیْنِ...)(الملک:۵)
اس سے معلوم ہواکہ علماء وخواص کی تین بنیادی ذمہ داریاں ہیں، ایک یہ کہ وہ امت کی رہنمائی کا فریضہ انجام دیں، دوسرے وہ امت کے لئے دین کے اعتبارسے زینت کا درجہ رکھتے ہیں، یعنی ان کی زندگی اس قدرپاکیزہ ،صاف ستھری اورشریعت کے مطابق ہوکہ مذہبی پہلوسے وہ اعلیٰ ترین معیار پرہوں، تیسرے:وہ شیطانی فتنوں کامقابلہ کرنے کی صلاحیت رکھتے ہوں خواہ یہ فتنہ فکروعقیدہ کے راستہ سے آیا ہو یاعمل کے راستہ سے غورکیجئے کہ قول وفعل کے تضاد کے ساتھ ان ذمہ داریوں کوانجام دیاجاسکتاہے؟
امام ابوحنیفہ کے بعض تذکرہ نگاروں نے لکھاہے کہ کوئی بوڑھی عورت پھسل رہی تھی اوراس کے گرجانے کااندیشہ تھا، امام صاحب نے توجہ دلائی تواس مردم شناس عورت نے اپنے آپ کو سنبھالتے ہوئے کہا: تم میری فکر نہ کرو،میں پھسلوں گی توایک شخص پھسلے گا اورآپ پھسلیں گے توایک دنیا پھسل جائے گی، اسی حقیقت کو بعض اہل علم نے کہاہے کہ ’’عالم کی لغزش پورے عالم کی لغزش ہے‘‘’’زلّۃ العالِم زلّۃ العَالَم‘‘۔(رفع الأستار:۱؍۴۷،المستقصی فی أمثال العرب۲؍۱۱۰)
خواصِ امت کویہ حقیقت پیش نظررکھنی چاہئے، روایات میں علماء کا لفظ علامتی لفظ ہے، اس حکم میں وہ تمام لوگ شامل ہیں، جو امت میں مقتداکادرجہ رکھتے ہیں ،جودینی کاموں کے ذمہ دارہوں، جومذہبی اداروں، جماعتوں اورتحریکوں کے رہنماہوں، لوگوں کی مذہبی قیادت جن کے ہاتھوں میں ہو، جواصحابِ نظر اوراصحابِ قلم ہو،جن کی شرکت کوپروگراموں کی کامیابی سمجھاجاتا ہو،جن کے وجود سے اسٹیجوں کی زینت ہو، وہ عبادت وبندگی میں اوروں سے ممتاز ہوں، معاملات کی صفائی میں ان کی مثال دی جاتی ہو، ان کے اخلاق کی شیرینی مخاطب کی کڑواہٹوں کوبھی کافورکردیتی ہو، لیکن اس وقت صورت حال یہ ہے کہ زندگی کے مختلف شعبوں میں اورخاص کرمال ودولت اور عزت وجاہ کی طلب اورمادیت کے مظاہرہ میں عوام وخواص کے درمیان سرحدیں بنتی جارہی ہیں اورفرق کم یاختم ہوتاجارہا ،اگرخواصِ امت کا رویہ یہ رہے توصرف وعظ وتقریر اورمضامین ومقالات سے سماج میں کوئی بہترتبدیلی نہیں آسکتی۔
خواصِ امت کونہ صرف اپنی زندگی کوشریعت کے سانچے میں ڈھالنا چاہئے، بلکہ ایسا طرزعمل اختیار کرنا چاہئے کہ لوگ سمجھ سکیں کہ یہی بہترطریقۂ زندگی کامعیارہے، وہ ایسی تقریبات میں شرکت سے گریز کریں، جوشریعت کے دھارے سے ہٹی ہوئی ہو ان کے رویہ سے لوگ محسوس کرنے لگیں کہ جولوگ ایسی فضول خرچیاں کرتے ہیں، وہ ناپسند یدہ لوگ ہیں، وہ توقیرکے مستحق نہیں ہیں، بلکہ نظرانداز کئے جانے کے لائق ہیں، جب تک یہ طبقہ اپنے مزاج اورطرز عمل میں تبدیلی نہیں لائے گا، اس وقت تک سماج میں کوئی صالح انقلاب نہیں آسکتا، کیوں کہ اگرکھانے کاذائقہ خراب ہوتونمک کے ذریعہ اسے درست کیاجاتاہے، لیکن اگرنمک ہی خراب ہوتوکیوں کراس کا علاج ہوسکتاہے؟؟۔(بشکریہ روزنامہ منصف حیدررآباد)

عظمتِ صحیح بخاری Aug-sep 2010

شفیع اللہ عبدالحکیم مدنیؔ
استاد جامعہ سراج العلوم السلفیہ،جھنڈانگر
عظمتِ صحیح بخاری

نبی کریم ﷺ کے زمانہ میں اورصحابہ وتابعین کے زمانہ میں احادیث کتابوں میں جمع نہیں کی گئی تھیں، البتہ بعض صحابہ نے متفرق طورپر کچھ حدیثیں لکھ رکھی تھیں، اس کے کئی وجوہات بتائے جاتے ہیں:
۱۔ ایک وجہ یہ ہے کہ شروع میں حدیث لکھنے سے نبی اکرمﷺ نے منع فرمادیا تھا تاکہ قرآن کریم کے ساتھ بعض حدیث کا اختلاط نہ ہوجائے۔
۲۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ صحابہ کرام قوت حافظہ میں اپنی مثال آپ تھے، ان کے اندر تمام اقوال وواقعات کو جن کو انھوں نے آپ ﷺ سے بالمشافہ یا کسی اورذریعے سے سناتھا یا دیکھا تھا پوری طرح حفظ کرنے کی صلاحیت موجودتھی، لکھنے کی ضرورت نہ تھی۔
۳۔ تیسری وجہ یہ ہے کہ اس زمانہ میں اکثرلوگ لکھنا نہیں جانتے تھے۔
جب دنیا میں اسلام پھیلا اورعلماء دوردراز شہروں میں منتشر ہوگئے اور صحابہ مختلف اطراف میں متفرق ہوگئے اوراکثرصحابہ کی وفات ہوگئی اورلوگوں کی قوت حافظہ کچھ کمزور ہوگئی، ضبط حدیث میں کمی آگئی اورخارجی ورافضی اورتقدیر کے منکرین نے بدعات کو رواج دینا شروع کردیا تب علماء نے احادیث کو کتابوں میں جمع کرنے کی ضرورت محسوس کی اورتابعین کے اخیرزمانہ میں تدوین حدیث کا کام شروع ہوگیا، چنانچہ اس سلسلے میں سب سے پہلی کامیاب کوشش ربیع بن صبیح نے کی( ایک صالح مجاہد تھے اور۱۶۰ھ میں بحر سندھ میں لڑتے لڑتے شہید ہوگئے) اوردوسری شخصیت سعید بن ابی عروبہ (ت۱۵۶ھ) کی تھی جنھوں نے رسول اکرمﷺ کے آثار واحادیث کو جمع کرنے کی کامیاب کوشش فرمائی، پھردوسری صدی کے وسط میں امام مالک (ت ۱۷۹ھ) تشریف لائے اورانھوں نے مدینہ منورہ میں مؤطا لکھی، انھوں نے اس کتاب میں صرف اہل حجاز کی روایت کردہ احادیث جمع فرمائے مگراحادیث نبویہ کے ساتھ ساتھ انھوں نے اقوال صحابہ وتابعین بھی جمع فرمائے۔
امام مالک رحمہ اللہ کے بعدجن علماء نے تدوین حدیث میں اپنی خدمات کوپیش کیا ان میں چندقابلِ قدرشخصیات مندرجہ ذیل ہیں۔
(۱) ابومحمد عبدالملک بن عبدالعزیز بن جریج(ت۱۵۰ھ) مکہ مکرمہ میں۔
(۲) ابوعمرعبدالرحمن بن عمرو اوزاعی (ت۱۵۷ھ) شام میں۔
(۳)ابوعبداللہ سفیان بن سعید ثوری(ت۱۶۱ھ) کوفہ میں۔
(۴)ابو سلمہ حماد بن سلمہ بن دینار(ت۱۶۷ھ) بصرہ میں۔
دوسری صدی ہجری کے آخرمیں انہی کے نقش قدم پرچلتے ہوئے بعض ائمہ نے احادیث نبویہ کو انفرادی مقام دینا چاہا اورانھوں نے الگ الگ مسانید وجودمیں لائیں، ان برگزیدہ شخصیات میں سے چندشخصیات ایسی ہیں جنھوں نے اس سلسلے میں پہل کی ان کے اسماء گرامی یہ ہیں:
*عبیداللہ بن موسی الکوفی ،مسدد بن مسرہد البصری، اسدبن موسی الأموی، نعیم بن حمادالخزاعی نزیل مصر، امام احمد بن حنبل نے اپنی مشہور زمانہ کتاب مسنداحمد بن حنبل ترتیب دی، ان کی یہ کتاب فن حدیث میں بہت جامع اور بہترین کتاب ہے ساڑھے سات لاکھ حدیثوں سے انتخاب کرکے لکھا ہے۔
*امام المحدثین ابوعبداللہ محمد بن اسماعیل بخاری نے مذکورہ بالا تصانیف ومسانید کا بنظرغائر مطالعہ کیا تومجموعی اعبارسے انھوں نے ان مجموعات کو مفید پایا، لیکن انھوں نے بعض احادیث کو صحیح، بعض کو حسن اوربیشتر احادیث کو ضعیف پایا، یہ دیکھ کر انھوں نے ایک جرأت مندانہ قدم اٹھایا اورصرف صحیح احادیث کو جمع کرنے کا عزم مصمم کیا، اس سلسلے میں انھوں نے اپنے استاد امیرالمؤمنین فی الحدیث اسحاق بن راہویہ سے جوکچھ سنا تھا اس سے ان کے ارادے میں مزید پختگی پیداہوئی، علامہ ابن حجرالعسقلانی فرماتے ہیں کہ ابراہیم بن معقل النسفی نے کہا کہ میں نے امام محمد بن اسماعیل البخاری سے سناہے کہ ہم لوگ اپنے استاد اسحاق بن راہویہ کے پاس بیٹھے تھے توایک مرتبہ انھوں نے ہماری طرف توجہ فرماکرکہا:’’لوجمعتم کتاباً مختصراً لصحیح سنۃ رسول اللہﷺ ،قال فوقع ذلک فی قلبی فأخذت فی جمع الجامع الصحیح‘‘۔
اگرتم لوگ رسول اکرمﷺ کی صحیح سنتوں کو ایک مختصرکتاب میں جمع کرتے ،امام بخاری نے فرمایا کہ یہ بات میرے دل میں اسی وقت اثرکرگئی اوراسی وقت سے میں نے الجامع الصحیح کو جمع کرنا شروع کردیا۔
*علامہ ابن حجرالعسقلانی، محمد بن سلیمان بن فارس کا قول نقل کرتے ہیں کہ انھوں نے امام بخاری سے سناہے کہ ایک مرتبہ میں نے خواب دیکھا کہ میں کھڑا ہوں میرے ہاتھ میں پنکھا ہے اورمیں رسول پاک ﷺ کی ذات مبارک سے مکھیوں کو اڑاتاہوں میں نے کسی تعبیر جاننے والے سے خواب کی تعبیر کے متعلق استفسار کیا، جواب ملا کہ تم رسول اکرمﷺ کی طرف منسوب جھوٹی احادیث کو مٹاؤ گے، پس اسی خواب نے مجھے الجامع الصحیح کی ترتیب وتدوین کے لئے ابھارا۔
امام محمد بن اسماعیل البخاری نے صحیح احادیث کی چھانٹ کرنے کے بعدانتہائی احترام سے احادیث کی تدوین شروع کی، محمد بن یوسف فربری روایت کرتے ہیں کہ محمد بن اسماعیل بخاری نے فرمایا:’’ماکتبت فی کتاب الصحیح حدیثاً إلا اغتسلت قبل ذلک وصلیت رکعتین‘‘یعنی صحیح بخاری میں کوئی بھی حدیث لکھنے سے قبل میں ضرور غسل کرتا تھا اوردورکعتیں نماز اداکرتاتھا۔
*ابوعلی غسانی کہتے ہیں کہ محمد بن اسماعیل بخاری سے منقول ہے ’’خرجت الصحیح من ستماءۃ الف حدیث‘‘ یعنی میں نے ’’الجامع الصحیح‘‘کو چھہ لاکھ احادیث سے منتخب کیا یعنی یوں سمجھئے کہ امام بخاری نے چھ لاکھ احادیث کا نچوڑ امتِ مسلمہ کی رہنمائی کے لئے لکھ چھوڑاہے ۔
دوسری جگہ امام بخاری فرماتے ہیں:’’لم اخرج فی ھذا الکتاب إلا صحیحا وماترکت من الصحیح اکثر‘‘میں نے اس کتاب میں صرف صحیح احادیث کی تخریج کی ہے اورصحیح احادیث میں سے بھی بہت زیادہ چھوڑچکا ہوں، تمام صحیح احادیث کو ایک کتاب میں جمع کرنا ایک دشوار سی بات تھی کیونکہ اس طرح سے کتاب کا حجم اور بڑھ جاتا، اس قول سے معلوم ہوتاہے کہ صحیح بخاری میں درج شدہ احادیث کے علاوہ امام بخاری کے شروط کے مطابق اوربھی صحیح احادیث موجود ہیں، جن کو امام صاحب نے طوالت کے خوف سے نہیں لائے ہیں بعدمیں ایسی ہی احادیث کا استدراک امام حاکم نے اپنی شہرۂ آفاق کتاب ’’المستدرک علی الصحیحین‘‘میں کیا ہے۔
محمد بن یوسف فربری کہتے ہیں کہ میں نے محمد بن ابوحاتم (کاتب البخاری) الوراق سے یہ کہتے ہیں سنا ہے کہ میں نے محمد بن اسماعیل البخاری کو خواب میں دیکھاکہ نبی پاک ﷺ کے پیچھے چل رہے ہیں اور نبی پاک ﷺ آگے تشریف لے جارہے ہیں جہاں نبی پاک ﷺ اپنا قدم مبارک رکھتے ہیں وہیں محمد بن اسماعیل بخاری بھی اپنا قدم رکھتے ہیں۔(ھدی الساری مقدمۃ فتح الباری ص:۹،۸)
صحیح بخاری کے عظیم مؤلف کا سلسلہ نسب یوں ہے: ابوعبداللہ محمد بن اسماعیل بن ابراہیم بن مغیرہ بن بَردِ زبہ جعفی۔(مقدمہ فتح الباری ص:۵۰۱ تذکرۃ الحفاظ ۴؍۵۵۵)
آپ کے جد امجد بَردِ زبہ مسلمان نہیں ہوسکے تھے، یہ مجوسی المسلک تھے امام بخاری اصلاً عربی نہیں بلکہ عجمی تھے کتب سۃ کے تمام مصنفین عجمی ہیں سوائے امام مسلم کے۔
امام بخاری کے پردادا مغیرہ سب سے پہلے حاکم بخارا یمان بن اخنس جعفی کے ہاتھ پر اسلام لائے پھران کے بیٹے ابراہیم مسلمان ہوئے۔
حافظ ابن حجر ہدی الساری ص:۵۰۱ میں فرماتے ہیں کہ مجھے ابراہیم کے حالات کا علم نہ ہوسکا، ان کے بیٹے کانام اسماعیل ہے جواپنے وقت کے عظیم محدث ہیں آپ امام مالک اورحماد بن سلمہ کے شاگردوں میں سے تھے، اوربہت سے عراقیوں نے آپ سے سماع کیاہے، امام بخاری کو یہ شرف حاصل ہے کہ آپ نجیب الطرفین ہیں ان کے والد بھی محدث اوروالدہ بھی عابدہ زاہدہ اورشب بیدارتھیں، امام بخاری ابھی صغر سنی میں تھے کہ والد کا انتقال ہوگیا اورانھوں نے یتیمی کی حالت میں والدہ کی گود میں پرورش پائی، امام بخاری جُعفی کی کنیت ابوعبداللہ اورلقب سیدالفقہاء والمحدثین ہے۔(ہدی الساری ص:۵۰۷)
حافظ ابن حجرنے تقریب التہذیب میں امام بخاری کو ان القاب میں یادکیاہے، ’’جبل الحفظ وإمام الدنیا، ثقۃ الحدیث‘‘قوت حافظہ کے پہاڑدنیا بھرکے امام اورحدیث میں پختہ کار۔
ابتدائی علم انھوں نے اپنے علاقہ سے ہی حاصل کیا ،آپ کے مشہور اساتذہ میں یحيٰ بن معین، امام احمد بن حنبل، مکی بن ابراہیم البلخی، محمد بن یوسف بیکندی، علی بن المدینی، ابوبکرالحمیدی وغیرہ ہیں۔
عبداللہ بن محمد مسندی امام بخاری کے استاد بھی ہیں اورشاگرد بھی کیونکہ آپ کا مشہور مقولہ ہے کہ ’’کوئی انسان اس وقت تک محدث کامل نہیں بن سکتا جب تک وہ اپنے سے بڑے اورچھوٹے سے علم حاصل نہ کرلے۔
علی بن مدینی امام بخاری کے عظیم شیخ ہیں جن کے بارے میں امام بخاری فرماتے ہیں: ’’مااستصغرت بعمری عنداحدإلاعند علی بن المدینی‘‘میں نے کبھی اپنے آپ کو کسی کے سامنے چھوٹا نہیں سمجھا لیکن جب علی بن مدینی کے سامنے بیٹھتا ہوں تومیں اپنے آپ کو بچہ ہی سمجھتا ہوں، جب علی بن مدینی کو یہ بات پہونچی توانھوں نے کہا’’بخاری کی بات چھوڑیئے اس جیسا تودنیا جہاں میں کوئی موجود نہیں اوریہ دعا دی’’جعلک اللہ زینۃ ھذہ الأمۃ‘‘کہ اللہ تجھے اس دنیا کی زینت بنائے اوریہ دعا بارگاہ الٰہی میں قبول ہوئی۔(ہدی الساری ص:۵۰۸)
صحیح بخاری !محمد بن اسماعیل البخاری نے اپنی عظیم تالیف صحیح بخاری کو ۱۷۔۲۱۶ھ میں لکھنا شروع کیا اوراس کا اختتام ۱۶ سال کے عرصہ میں ہوا، تالیف کے بعدامام بخاری نے اس عظیم کتاب کو اپنے ان کبار شیوخ پرپیش کیا، امام احمد بن حنبل ، علی بن مدینی اوریحيٰ بن معین۔
امام احمد کا انتقال ۲۴۱ھ میں ہواہے جبکہ علی بن مدینی اوریحيٰ بن معین کاانتقال ۲۳۴ھ میں ہوا، یہ اس امرکی دلیل ہے کہ۲۳۴ھ ؁ سے پہلے صحیح بخاری مکمل ہوچکی تھی، آپ نے اپنے ان شیوخ پر جب صحیح بخاری کوپیش کیا تو’’فاستحسنوہ‘‘ان تمام محدثین نے اس عظیم کتاب کو بنظراستحسان دیکھا۔
کوئی شئی قابل اعتراض نہ تھی ماسوائے چاراحادیث کے لیکن عقیلی فرماتے ہیں کہ ان چاراحادیث میں بھی امام بخاری کا موقف مضبوط تھا یہی کتاب عرفِ عام میں’’بخاری شریف‘‘ کے نام سے مشہورہے۔(ہدی الساری ص:۹،تقریب التہذیب ابن حجر)
کتاب کا مکمل نام: ’’الجامع الصحیح المسند من حدیث رسول اللہﷺ وسننہ وأیامہ‘‘یہ نام ابن حجرنے الہدی الساری ص:۱۰ میں ذکرکیاہے، اردوزبان میں اس کا ترجمہ یوں سمجھئے کہ’’صورت اورسیرت کے اعتبارسے عکس نبوی‘‘ کانام صحیح بخاری ہے، یہ ایسی عظیم کتاب ہے کہ اس کتاب کے بعددنیا میں اس جیسی کوئی کتاب تالیف نہ کرسکا اور نہ قیامت تک ایسی کتاب کی تالیف ہوگی کیونکہ اس کی صحت پرامت کا اجماع ہوچکاہے کہ کتاب اللہ کے بعدصحیح ترین کتاب صحیح بخاری ہے۔
مضت الدھور وماأتین بمثلہٖ ولقد أتی فعجزن عن نظراۂ
زمانہ گزرچکے ہیں لیکن آج تک صحیح بخاری جیسی تالیف معرضِ وجودمیں نہیں آسکی، صحیح بخاری کی اسناد ایسی ہیں کہ ان پربحث کی ضرورت نہیں، امام شوکانی بعض ائمہ سے یہ بات نقل کرتے ہیں کہ ’’فکل رواتہ قد جاز وا القنطرۃ وارتفعوا قیل وقال وصاروا أکبر من أن یتکلم فیھم بکلام أو بطعن طاعن أو توھین موھن‘‘بخاری کے راوی تمام پر کھ کے تمام پُل پارکرچکے ہیں اب ان میں طعن وتشنیع کی کوئی گنجائش نہیں ۔
شاہ ولی اللہ حجۃ اللہ البالغۃ ص: ۱۳۴ میں فرماتے ہیں:’’جوشخص بخاری اورمسلم کے راویوں میں کیڑے نکالتا ہے وہ شخص بدعتی اورمسلمانوں کے طریقہ سے خارج ہے، مشہورمؤلف ومؤرخ امام ابن خلدون ص:۱۰۴۲ میں فرماتے ہیں کہ :’’شرح صحیح البخاری دین علی ھذہ الأمۃ‘‘صحیح بخاری کی شرح امت کے ذمہ قرض ہے۔
ابوالخیر نے اپنی کتاب’’التبرالمسبوق فی ذیل السلوک‘‘میں لکھا ہے کہ ابن خلدون فتح الباری کی تالیف سے پہلے وفات پاگئے تھے، فتح الباری کی تالیف کے بعدآج اگر وہ دنیا میں زندہ ہوتے تو’’لقرت عینہ بالوفاء والإسیفاء‘‘توفتح الباری کو دیکھ کر ان کی آنکھیں ٹھنڈی ہوجاتیں اوروہ خوش ہوجاتے، کیونکہ اس کتاب کے ذریعے امت نے اس کی شرح کا حق اداکردیاہے۔
حافظ عبداللہ غازی پوری فرماتے ہیں کہ عین ممکن ہے کہ ابن خلدون کا مقصد یہ ہوکہ ’’یزیدک وجھہ حسنا اذا ما زادتہ نظراً‘‘بخاری ایسی کتاب ہے جتنی دفعہ آپ اس کا مطالعہ کریں گے نئے نئے نکات سامنے آئیں گے۔
وہ استاد جس کی زندگی صحیح بخاری کی تدریس کرتے ہوئے گزرگئی جب وہ صحیح بخاری کو پڑھتا ہے توہرسال نئی نئی چیزیں اس کے سامنے آتی ہیں، اس عظیم کتاب میں ۹۷ کتابیں اورچار ہزارسے زائد ابواب ہیں جبکہ مختلف ابواب سے ثابت ہونے والے مسائل تین ہزار سے زیادہ ہیں۔
جس ماحول میں امام صاحب پیداہوئے تھے اس میں طرح طرح کے فتنے موجودتھے، اہل رائے کے اقوال پورے ماحول میں منتشرتھے اس کا سبب یہ تھا کہ قاضی ابویوسف کوقرب سلطانی حاصل تھا چنانچہ جتنے بھی قاضی مقررہوتے تھے وہ فقہ حنفی کے پیروکار ہوتے تھے کسی مذہب کی اشاعت کا یہ سب سے بڑا ذریعہ ہے اسی بناپر ابن حجر نے کہا ہے’’مذہبان فی مبدء أمرھا انتشربالدولۃ والسلطان الحنفیۃ فی المشرق والمالکیۃ فی المغرب‘‘دومذاہب ایسے ہیں جو ابتداء میں حکومت اوراختیارات کے ذریعے پھیلے مشرق میں حنفی مذہب اورمغرب میں مالکی مذہب۔
اسی زمانہ میں منکرین تقدیر، منکرین صفات الٰہی اورمنکرین عذاب قبر، معتزلہ، مجسمہ، رافضہ، امامیہ اورخوارج اپنے اپنے غلط نظریات کی اشاعت میں کمربستہ تھے، اسی ماحول میں امام بخاری نے ۱۶سال کے عرصہ میں اپنی یہ تالیف مکمل فرمائی اورجملہ فتنوں کا توڑکتاب وسنت کی روشنی میں پیش کیا ،اور کمال کی بات یہ ہے کہ مخالف کانام لے کرصحیح بخاری میں اس کی تردید نہیں کی اورایساکمال بہت کم لوگوں کو حاصل ہوتاہے۔
مثال کے طورپر کتاب الایمان میں ستر دلائل کے ساتھ آپ نے مخالفین کی تردید فرمائی ہے (۱) باب المعاصی من أمرالجاھلیۃ لایکفرصاحبھا بارتکابھا إلا الشرک لقول النبیﷺ لأبی ذر!إنک امرء فیک جاھلیۃ وقول اللہ تعالیٰ (إن اللہ لایغفرأن یشرک بہ ویغفرمادون ذلک لمن یشاء) یعنی باب اس کا کہ گناہیں جاہلیت کی چیز ہیں لیکن ان کا مرتکب کافرنہیں کہاجاسکتا جب تک شرک نہ کرے، نبی کریمﷺ کا ایک صحابی کو فرمانا کہ تم ایسے آدمی ہوکہ تم میں اب تک جاہلیت کی بات باقی ہے اور اللہ تعالیٰ کا فرمانا کہ اللہ سب گناہیں معاف کرے گا لیکن شرک نہیں معاف کرے گا(ان دونوں باتوں سے معلوم ہواکہ گناہوں کے ارتکاب سے آدمی کا فر نہیں ہوسکتا)
اس باب سے امام بخاری رحمہ اللہ کا مقصود ان لوگوں کی تردید کرنا ہے جو مرتکب کبیرہ کوکافر قراردیتے ہیں، اوروہ ہیں خوارج جبکہ انجام کار کے اعتبارسے معتزلہ بھی ان کے ساتھ شریک ہیں۔
دوسراباب:’’الکفر دون الکفر‘‘اسی طرح ’’الظلم دون الظلم‘‘اس باب سے مقصود یہ ہے کہ اطاعت کے ذریعے ایمان میں اضافہ اورمعاصی کے ذریعہ اس میں کمی ہوتی ہے، یہاں ان لوگوں کی تردید مقصود ہے جوکہتے ہیں کہ ایمان کے ساتھ معصیت نقصان دہ نہیں ہے اوروہ ہیں مرجۂ۔
اسی طرح باب ہے:’’وإن طائفتان من المؤمنین اقتتلوا فاصلحوا بینھما‘‘فسماھم المؤمنین‘‘ یعنی اگردوجماعت ایمان والوں کی لڑپڑیں توان میں صلح کرادو تواللہ تعالیٰ نے باوجود لڑنے کے مومن کہا۔
اس سے معلوم ہواکہ گناہ سے آدمی کافرنہیں ہوتا،اس باب سے ان لوگوں کی تردید مقصود ہے جومرتکب کبیرہ کی تکفیر کے قائل ہیں، ان تمام باتوں کا ماحصل یہ ہے کہ صحیح بخاری ایک عظیم خزانہ ہے جس میں تقریباً پچپن علوم کو سمودیاگیا ہے، اس سے امام بخاری کی ذہانت وفطانت کااظہار ہوتا ہے اوراسی بناپر ان کی اس عظیم تالیف کو امت میں عظیم ترین مقام ومرتبہ حاصل ہے۔
بخاری کامروجہ نسخہ امام فربری کی روایت سے ہے، محمد بن یوسف بن مطر بن صالح بن بشرالفربری نسبت ہے مقام فربرکی طرف جوکہ بخار ا میں دریائے جیحون کے کنارے واقع ہے۔
امام فربری کا سن ولادت ۲۳۱ھ ؁ اوروفات ۳۳۰ھ ؁ ہے انھوں نے امام بخاری سے صحیح بخاری دوبار پڑھی ہے ایک دفعہ ۲۴۸ھ ؁ میں فربر میں اوردوبارہ بخارا میں ۲۵۲ھ ؁ میں اوراس کے چارسال بعدامام صاحب کا انتقال ہوگیا۔
امام فربری نے کہا کہ اس وقت بخاری کے شاگردوں میں سے روئے زمین پرمیرے سواکوئی نہیں تھا، لیکن انکایہ کہنا درست نہیں۔
حافظ ابن حجر ہدی الساری مقدمہ فتح الباری ص:۵۱۶ میں فرمایا کہ ابوطلحہ منصور کا انتقال فربری کے ۹؍سال بعدہوا ہے۔
امام المحدثین کے تلامذہ کاسلسلہ غیرمحدود ہے، دنیائے اسلام کاکوئی حصہ ایسانہیں ہے جہاں آپ کے تلامذہ کا اثرسلسلہ بہ سلسلہ نہ پہونچاہو،امام فربری کہتے ہیں کہ امام المحدثین سے بلاواسطہ نوے ہزار محدثین نے صرف صحیح بخاری سنی (مقدمہ فتح الباری ص:۵۱۶) اور ان کے اساتذہ کی تعداد ایک ہزار اسی ہے ،حافظ ابن حجر عسقلانی نے خود امام صاحب کا قول نقل کیا ہے ’’کتبت عن الف وثمانین نفساً‘‘یعنی میں نے ایک ہزاراسی شیوخ سے روایتیں لکھی ہیں اور صرف انھیں شیوخ سے حدیثیں لکھی ہیں جوایمان کے گھٹنے بڑھنے کے قائل تھے اوراعمال کوجزء ایمان کہتے تھے۔(مقدمۃ فتح الباری ص:۵۰۳)