Saturday, June 11, 2011

مغربی ایشیا ء کا سیاسی انقلاب march 2011 Editorial

شمیم احمدندویؔ
مغربی ایشیا ء کا سیاسی انقلاب
اورحکومتِ سعودیہ عربیہ کی بعض خدمات 
تیونس میں عوامی انقلاب سے حوصلہ پاکر (جس میں صدر زین العابدین بن علی کو بالآخر راہ فرار اختیار کرنے اورملک سے جلاوطنی پرمجبور ہوناپڑااوران کی فوجیں ان کا تاج وتخت اوراقتدار بچانے میں ناکام ثابت ہوئیں) مصری عوام بھی سڑکوں پرآگئے اوران کے پرامن احتجاج اورعوامی اتحاد نے دیکھتے ہی دیکھتے حسنی مبارک کواقتدار سے بے دخل کردیا اورمحض ڈھائی ہفتوں کے عوامی مظاہروں اورقاہرہ کے تحریر اسکوائر پرفروکش وخیمہ زن عوام کی مستقل مزاجی نے حسنی مبارک کی ۳۰سالہ آمریت کاخاتمہ کردیا، ساتھ ہی کئی دیگرعرب ممالک اورمشرق وسطیٰ میں بھی عوامی انقلاب کی آہٹ سنائی دینے لگی، جس کی ابتدا توافریقی عرب ملکوں سے ہوئی اورتیونس ومصرکے کامیاب عوامی انقلاب کے بعدلیبیا والجزائر براہ راست عوامی غم وغصہ کی زدمیں ہیں، لیکن مغربی ایشیاء کے کئی دیگرعرب ممالک بھی جن میں سردست بحرین ویمن کا نام لیاجاسکتا ہے، سیاسی اصلاحات اورعوامی حقوق کی بحالی کے مطالبات کے لئے احتجاجات ومظاہروں کاسامناکررہے ہیں جن کے نتیجہ میں مستقبل قریب میں بھی مزید کچھ ملکوں میں اگرحکومتوں کی تبدیلی کی خبریں آئیں توتعجب نہیں ہوناچاہئے۔
مصروتیونس میں حالات نے جس طرح بھی کروٹ بدلی اورعوامی غم وغصہ نے وہاں کی حکومتوں کوزیروزبرکیا اسے انقلاب فرانس یاانقلاب روس کی طرح عوامی انقلاب کانام نہیں دیاجاسکتا ،بلکہ اسے ان دونوں ملکوں کے مطلق العنان حکمرانوں اورآمریت پسندوں کے خلاف کامیاب عوامی جدوجہد توکہاجاسکتا ہے لیکن ان دونوں افریقی عرب ملکو ں میں سارا سیاسی ڈھانچہ یاطرز حکومت یکسرتبدیل ہوجائے گا یہ رائے قائم کرنا ابھی جلدبازی ہوگی، یعنی وہاں اسلام پسندوں کا غلبہ ہوجائے گا اورایک مثالی اسلامی حکومت قائم ہوجائے گی، یاعوامی خواہشات اورجمہورکی رائے کامکمل احترام کیاجائے گا، یا مختلف سطحوں پرپنپ رہی بے چینی کا خاتمہ ہوجائے گا ،یاغربت وافلاس کی چکی میں پس رہے عوام خوش حالی وفارغ البالی کی دہلیز پر قدم رکھ دیں گے، یاپھر بین الاقوامی سطح پر ان ملکوں کی عزت ووقار میں اضافہ ہوجائے گا، یا امت مسلمہ کی عظمت رفتہ کی بحالی کے لئے یہ ممالک یاسیاسی تبدیلیوں کے منتظردیگرممالک کوئی موثرکردار اداکرنے کے قابل ہوسکیں گے، یہ اوران جیسی بے شمار باتوں کوفی الحال خوش فہمی کے سواکچھ نہیں کہاجاسکتا، وہاں اقتدارکی تبدیلی توضرور ہوئی ہے لیکن ابھی انتقال اقتدارکی کارروائیوں کوپوراہونے اورعوام کی مرضی کی حکومتیں منتخب ہونے میں وقت بھی لگ سکتا ہے ،اوریہ سب کچھ خواب وسراب بھی ثابت ہوسکتا ہے، بہرحال یہ توآنے والا وقت ہی بتائے گا جب سیاسی تبدیلیوں کی یہ تصویرپوری طرح صاف ہوگی، اور یہ بھی ضروری نہیں کہ جوبھی نئی حکومت تشکیل پائے وہ عوام کی امیدوں پر کھری اترے اوران کی خواہشات کااحترام کرے کیونکہ بسااوقات حکومتوں کی تبدیلی کاعمل نقصان کا سوداہوتا ہے اورنئی حکومت سابقہ حکومت سے بھی بدترثابت ہوتی ہے، ماضی قریب میں کئی ممالک میں ہونے والی سیاسی تبدیلیوں کے نتیجہ میں جوبھی حکومتیں بلندوبانگ دعووں کے ساتھ عالم وجودمیں آئیں انھوں نے عوام کومایوس ہی کیا، صرف مصرہی کی مثال لیں توواضح ہوگا کہ شاہ فاروق کاتختہ پلٹ کرجمال عبدالناصر نے زمام اقتدار سنبھالنے کے بعدکیسے دعوے کئے تھے؟ اور کس طرح اسرائیلی فوجوں سے صرف ۶دن کی جنگ میں شکست کھاکر ان کی ساری فوجی قوت کی قلعی کھل گئی؟ اورکس طرح ہزیمت خوردہ ہوکروہ اسرائیل کے سامنے سپرانداز ہوگئے؟ اورکس طرح انھوں نے مصرکی اسلامی شناخت کوختم کرکے صرف عربیت کی پہچان پر اصرارکیا؟ اورکس طرح بیرونی دشمنوں اورخطرات سے مقابلہ میں ناکام ہوکرانھوں نے صرف اسلام پسندوں اورالاخوان المسلمون کوختم کرنے پر اپنی ساری توجہ مرکوز کردی؟ اس طرح دنیا کے تمام مسلمانوں کی جانب سے لعنت کاطوق اپنے گلے میں لٹکالیا اورپھرہرمحاذ پر ناکام ہوکراورعوامی خواہشات کاگلاگھونٹ کربالآخر گوشہ گمنامی میں غرق ہوکراس دارفانی کوخیرباد کہا، اس موقع پر مجھے یادآرہا ہے کہ کرنل ناصرکے انتقال کی خبرجس دن شہ سرخیوں کے ساتھ روزنامہ قومی آواز میں شائع ہوئی تواس دن ہم نے اپنے تاریخ کے استاد ماسٹرعرشی صاحب مرحوم سے ناصرکے بارے میں کچھ جاننے کی خواہش کی ہمارے یہ استاد ایک قادرالکلام شاعربھی تھے انھوں نے کچھ دیر زیرلب گنگنانے کے بعدبرجستہ یہ شعرکہا ؂
مجھ سے کیاپوچھتے ہواس کوخداسے پوچھو
ناصری دورکو خون شہداء سے پوچھو
اس وقت میں دارالعلوم ندوۃ العلماء کے مدرسہ ثانویہ میں درجہ ہشتم کاطالب علم تھا، انور السادات صدرناصرکے جانشین ہوئے، بوقت جانشینی بلندوبانگ دعوے بھی بہت کئے گئے اورتوقعات کی لمبی فہرست بھی تھی، اورامیدتھی کہ مصراپنی فوجی قوت اور خطہ میں اپنی جغرافیائی واسٹریٹجک اہمیت کی بناپر عالم اسلام کی سیاسی قیادت اوراس کی عظمت رفتہ کی بازیافت کے لئے آگے آئے گا، لیکن اسرائیل کے سامنے سرنگوں ہوکراورامریکی مفادات کی تکمیل کرکے انھوں نے پوری ملت اسلامیہ کا سوداکرلیا اوراس طرح مسلمانان عالم کی خواہشات کاگلاگھونٹ دیا، ان کے سیکورٹی گارڈوں ہی میں سے کسی اہل کارنے جب ان کی زندگی کا چراغ گل کردیا توپھرامیدکی شمع روشن ہوئی کہ شایدحسنی مبارک اس صورت حال کو تبدیل کریں گے اورعالم اسلام کی خواہشات کااحترام کرتے ہوئے اوراسلامی غیرت وحمیت کامظاہرہ کرتے ہوئے اسرائیل وامریکہ پرانحصار ترک کردیں گے، لیکن انھوں نے اپنے ۳۰؍سالہ دوراقتدار میں کیا کیا؟ یہ بتانے کی ضرورت نہیں کہ یہ ہماری حالیہ سیاسی تاریخ کاایک المناک باب ہے، اوراب جوعبوری فوجی حکومت قائم ہوئی ہے وہ اپنے پیش روکی خارجہ پالیسی میں کوئی تبدیلی کرے گی، اس کاامکان کم ہی ہے ، جب کہ اس نے ابھی تک اسرائیل سے کئے گئے معاہدوں اورامریکہ کے ساتھ تعلقات کوبدستورباقی رکھنے کے عزائم کا اظہارکرہی دیا ہے، اس لئے خطہ کی سیاسی صورت حال بین الاقوامی سطح پریکسرتبدیل ہوکراسلام پسندوں کی خواہشات کے مطابق ہوجائے گی یہ سوچنا قبل ازوقت ہے، اسی طرح صدام کے بعد عراق اورطالبان کے بعدافغانستان بلکہ پرویزمشرف کے بعدپاکستان، یہ سب نسبتاً غیرمحفوظ ہی ہوئے ہیں اوران ممالک میں کسی خوش گوارتبدیلی کی امیدیں خاک میں مل چکی ہیں ،اس لئے مصرمیں اب حسنی مبارک کے بعد سب کچھ بہترہی ہوجائے گا، کوئی ضروری نہیں، خاص طورسے مصرمیں آغاز شورش کی بے چینی کے بعد اب اسرائیل کا اطمینان وبے فکری اورابتدائی حواس باختگی کے بعداب امریکہ کااظہار اطمینان یہ بتانے کے لئے کافی ہے کہ انھیں بھی اب کسی بڑے انقلاب یا اسلام پسندوں کے حق میں سیاسی تبدیلی کا اندیشہ نہیں ہے اورامریکہ دوسرے ملکوں کے اندرونی معاملات میں براہ راست یابالواسطہ مداخلت کرنے اورانقلابات کواپنے حق میں موڑنے میں پرانی مہارت رکھتا ہے۔
مغربی ایشیاء اورافریقی عرب ممالک کے حالیہ سیاسی منظرنامہ کودیکھتے ہوئے ملک وبیرون ملک کی خبررساں ایجنسیوں اورذرائع ابلاغ نے خاص طورسے اردوپرنٹ میڈیا نے اس پورے خطہ کی سیاسی صورت حال کا تجزیہ یا مستقبل کے لئے پیشین گوئی کرنے میں کچھ زیادہ ہی عجلت وبے صبری کامظاہرہ کیاہے اورکسی استثنا ء کے بغیرتمام ہی عرب اسلامی ملکوں کو اس عوامی ہلچل یا سیاسی تبدیلی کالقمہ بنانے کے لئے اپنی رائے دینی شروع کردی ہے،کبھی اشارتاً اورکبھی صراحتاً ،خاص طورسے سعودی وکویتی حکومت کونشانہ بنانا شروع کردیا ہے، اورجہاں ہرمحاذ پرخاموشی اورامن وسکون ہے وہاں بھی ملک گیرسطح پر کچھ نہ کچھ ہونے یاحکومت کی تبدیلی کے لئے اپنی نیک خواہشات کااظہارکردیاہے۔
درحقیقت سعودی حکومت کے ساتھ یہ ان کی دیرینہ رشک ورقابت کانتیجہ ہے اور خالص اسلامی خطوط پراستواراس موحد حکومت کے ساتھ ان کے بغض وحسد کے جذبات کااظہار ہے، جس سے ان کی نیتیں طشت ازبام ہوتی ہیں، اوراس کے پس پردہ وہ نام نہاد مسلمان ہوتے ہیں جوسعودی حکومت کی اصلاح عقائد کی کوششوں اورشرک وبدعات کی بیخ کنی کی اس کی کاروائیوں کوناپسندکرتے ہیں، ورنہ سعودی فرماں رواؤں نے اپنی اس فلاحی حکومت اوررفاہی مملکت کے ذریعہ ہرسطح پرجوکارہائے نمایاں انجام دئے ہیں اور ملک میں ہی نہیں بلکہ دنیا میں اسلام کی بالادستی کویقینی بنایاہے ان کی ان کا میاب کوششوں کوآب زرسے لکھاجانا چاہئے اورہرطرف سے اس کی ستائش ہونی چاہئے اوراس کی دینی وملی خدمات کااعتراف کیاجانا چاہئے ،لیکن براہوا رشک وحسد اور بغض وعناد کا کہ اس کی یہ عظیم الشان خدمات ہمارے برصغیر میں موجود ایک مخصوص طبقہ کو بالخصوص اوردنیا میں موجود اس ذہنیت کے پروردہ لوگوں کو بالعموم نظرنہیں آتیں۔
دنیا کے بیشتر ملکوں میں بالعموم اضطراب وبے چینی اورعوامی سطح پر بے اطمینانی کا ایک ہی اہم سبب ہوتا ہے، اوروہ حکومتوں کاعوامی مسائل سے چشم پوشی ، غربت وبے روزگاری، اقتصادی بدحالی اورعوام کو درکارضروری سہولیات کی فراہمی میں ناکامی، ان ضروریات کی فہرست طویل ہوسکتی ہے اورملکوں کے حالات کے حساب سے مختلف بھی، لیکن بجلی سڑکیں، مواصلات، تعلیم ،صحت، پینے کا صاف پانی، رہائشی مکان، مناسب نرخوں پر اشیائے خوردونوش کی دستیابی اورروزگار وغیرہ بنیادی ضروریات ہیں جن کی تکمیل کے لئے ہرشہری اپنی حکومت سے توقع رکھتا ہے، اورملک کا الفرا اسٹرکچر درست رکھنا اورضروری وسائل کو بروئے کار لاکرترقیاتی کاموں کو انجام دینا ہرحکومت کے فرائض میں شامل ہوتا ہے، اسلامی ممالک میں ایک اہم ضرورت کااضافہ ہوجاتا ہے کہ وہ حکومت ایسے وقت اپنے مسلم عوام کی توقعات پرپوری اترسکتی ہے جب وہاں اسلامی شریعت کی بالادستی ہو،حکمراں خودبھی پابند شرع ہوں اورعوام کوبھی دینی فرائض پرکاربندرکھیں اورانھیں اپنے مذہبی رسوم کی ادائیگی اور اسلامی تہذیب وثقافت پر عمل کی نہ صرف آزادی بلکہ حکومت کی سرپرستی بھی انھیں حاصل ہو،ساتھ ہی وہ حکومت تمام دنیا کے مسلمانوں اورمسلم حکومتوں کے ساتھ اسلامی اخوت کی بنیادوں پرتعلقات استواررکھے اورعالم اسلام کے مسائل سے باخبر اوران کے حل میں دلچسپی رکھے، دشمنان اسلام اورمسلم دشمن طاقتوں کے ساتھ کوئی خفیہ یا علانیہ سازباز کرکے مسلم کازکونقصان نہ پہونچائے، بلکہ پوری دنیا میں اسلام کے فروغ اوراس کی بالادستی کے لئے کوشاں ہو اورپوری مسلم امت کے ساتھ ہمدردی رکھتے ہوئے ان کودرپیش سیاسی معاشی اوردینی مسائل کے حل میں پیش پیش ہو، آیئے ہم ان خطوط یا ان رہنما اصولوں کی روشنی میں جائزہ لیں کہ سعودی عرب کی موجودہ حکومت اس معیار پرپوری اترتی ہے یانہیں۔
کسی بھی ملک کی معیشت اوراس کے اقتصادی وسائل اس کی ترقی واستحکام کے لئے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ،بانئ حکومت سعودیہ ملک عبدالعزیز رحمہ اللہ نے اپنے ملک میں غیرملکی کمپنیوں اورماہرین کے ذریعہ پٹرول کے ذخائر دریافت کئے اورمستقبل میں دنیا کی ترقیات میں اس کے کردارکی اہمیت کا بروقت ادراک کیا، ان کی دوراندیشی اورجہد ولگن کا نتیجہ ہے کہ آج سعودی عرب دنیا میں پٹرول کی پیداوار میں اول مقام رکھتا ہے، اور پٹرول سے ہونے والی آمدنی کا ملکی معیشت کی مضبوطی میں سب سے نمایاں کردار ہے،لیکن بے دریغ حاصل ہونے والی اس دولت خداداد اور زرسیال کا استعمال سعودی حکمرانوں نے صرف پرآسائش وپرتعیش زندگی گزارنے اورعیش وعشرت کے مزے لوٹنے کے لئے نہیں کیاہے، بلکہ عوام کا معیارزندگی بلند کرنے اور انھیں ہرطرح کی شہری سہولیات فراہم کرنے میں اس دولت کا بے دریغ استعمال کیا ہے، اورخزانوں کے منہ کھول دئے ہیں، یہ توذرائع ابلاغ کی کارستانی یا ان کا خبث باطن ہے جوسعودی حکومت کے عظیم الشان کاموں سے صرف نظرکرکے یک طرفہ طورپر سعودی حکمرانوں وشاہی خاندان کے افراد کے عیش وعشرت کی داستانوں کو انتہائی مبالغہ آمیزی کے ساتھ منظرعام پرلاتے ہیں اوران کوعیاش طبع اور دولت کا حریص ثابت کرنے کے لئے ایڑی چوٹی کا زورصرف کرتے ہیں، یہ صحیح ہے کہ اسلام میں سادگی وجفاکشی اورزہد کی زندگی کوپسندیدہ ومستحسن قراردیا گیا ہے ،لیکن حلال ذرائع سے حاصل کی ہوئی دولت کے ذریعہ دنیاوی آسائشوں کا حصول اورآرام وراحت کی زندگی گزارنا قطعاً حرام وناجائز نہیں ہے ، بشرطیکہ آدمی یا دالٰہی اورخوف خدا سے غافل نہ ہو، پھربھی دولت کی ریل پیل سے اگرشاہی خاندان کے افراد کی نجی زندگیاں متاثر ہورہی ہیں اوروہ اسراف وفضول خرچی کرتے ہوئے جاد�ۂاعتدال سے ہٹ رہے ہیں تواس کی تائید بہرحال نہیں کی جاسکتی، دنیاوی دولت وثروت اپنے ساتھ جوخرابیاں لاتی ہیں اس سے یہ خاندان بھی یکسرمحفوظ نہیں ہے، لیکن ساتھ ہی اس خاندان کودین کی بیش قیمت اورلافانی دولت بھی حاصل ہے جس سے یہ خاندان بالکل ہی مادرپدرآزاد نہیں ہواہے،اللہ اوراس کے بندوں کے حقوق کی ادائیگی میں اس نے شرعی اصولوں کی پوری طرح رعایت وپاسداری کی ہے اوریہ خاندان دین ودنیا کا جامع ہوکراورصراط مستقیم پرگامزن رہ کر اسلامی ملکوں کے دیگرفرماں رواؤں اوران کے اہل خاندان کے لئے ایک چشم کشامثال ہے جہاں اقتدار پرقابض مٹھی بھرلوگ ملکی وسائل کوبے تحاشا لوٹ کرملکی معیشت کودیمک کی طرح چاٹ رہے ہیں اورعوام کو مفلس وقلاش اوربالکل ہی کنگال بنادینے کی روش پرگامزن ہیں، جن کی آنکھوں میں نہ شرم ہے اورنہ عوام کی حالت زار کے لئے جذبہ ترحم، ساتھ ہی شرعی اصولوں کو اس طرح پامال کیاہے کہ بعض اسلامی ملکوں میں شریعت پر عمل پیراہونا غیرمسلم ملکوں حتی کہ یورپ وامریکہ سے بھی زیادہ مشکل ہے ،لیکن سعودی فرماں روؤاں نے ملکی وسائل اورآمدنی کے ذرائع میں اپنے شہریوں کوبھی شریک رکھا ہے اوران سے پوری طرح فائدہ اٹھانے کا ان کو موقع عنایت کیا ہے اورملکی آمدنی کابیشتر حصہ اپنے شہریوں کی فلاح وبہبود اوران کو زیادہ سے زیادہ سہولیات بہم پہونچانے میں صرف کیاہے۔
پورے ملک میں وسیع وکشادہ اورخوبصورت شاہراہوں کا جال بچھا کرایک جگہ سے دوسری جگہ آمدورفت اورنقل وحمل کو بہت آسان کردیاہے اورتمام چھوٹے بڑے شہروں کوجوڑدیا ہے، پہاڑوں کو تراش کر انھیں ہموار کیا ہے ،یاان کے اندرایسی سرنگیں بنائی ہیں کہ عش عش کرنے کا جی چاہتا ہے، سمندروں کے سینہ کو چیرکر خوبصورت گزرگاہیں اوردیدہ زیب پل بنائے ہیں، سعودی عرب اوربحرین کے درمیان تعمیر اسی طرح کا ایک کشادہ اورطویل وعریض پل جہاں انجینئرنگ اورفن تعمیر کے ایک شاہکار کی حیثیت رکھتا ہے وہیں سعودی حکام کی اولوالعزمی کی داستان زبان حال سے سنارہا ہے، سچ ہے ؂
اولوالعزمان دانشمند جب کرنے پہ آتے ہیں
سمندرپاٹتے ہیں کوہ سے دریابہاتے ہیں
طویل وعریض شاہراہوں پربرقی روشنیوں کا انتظام ،سفرکو خطرات سے پاک بنانے کے لئے حفاظتی چوکیوں کا اہتمام، امن وقانون کی بالادستی،قانون نافذ کرنے والے اداروں کی چابکدستی ،ٹریفک کنٹرول کا بے مثال نظام ،پبلک ٹرانسپورٹ کا ہرقدم پرانتظام اور پوری دنیا میں سب سے فائق وبرتر اورمثالی امن وامان، پانی کی فراوانی اوربجلی وٹیلی فون کی قابل رشک خدمات کے ساتھ اندرون ملک پانی سے بھی سستا پٹرول ان سب آسائشوں اورسہولیات نے سفرکو آسان وپرلطف بنادیا ہے، واضح ہوکہ اس وقت سعودی عرب میں پوری دنیا میں سب سے سستا پٹرول یعنی صرف ۶۰ ہللہ سعودی میں ایک لیٹرپٹرول دستیاب ہے،جو ہندوستانی سکوں میں تقریباً ۷؍روپئے ہوتا ہے۔
پوری دنیا اس وقت دہشت گردی کی لپیٹ میں ہے جس میں کچھ توحقیقی ہے اورکچھ فرضی وبناوٹی اورخواہ مخواہ کا واویلا پس ازمرگ اورپروپیگنڈہ ،لیکن اگردنیا میں کوئی ملک اس سے سب سے زیادہ محفوظ ہے اورعام شہریوں کی زندگیاں مامون ہیں تووہ سعودی عرب ہے، جہاں مثالی امن وامان سے لوگ متمتع ہورہے ہیں ،معمولی چوری ڈکیتی رہزنی اورلوٹ مارکی وارداتوں پرپولیس وانتظامیہ کی چوکسی سے مکمل قابوپالیا گیا ہے، لوگوں کے سکون واطمینان اورامن وامان کاحال یہ ہے کہ قیمتی سازوسامان سے بھری ہوئی دوکانوں کوبسااوقات کھلی چھوڑکر نماز کے لئے قریبی مسجد میں چلے جاتے ہیں اورانھیں چوری کا اندیشہ نہیں ہوتا، عام لوگوں کی جان ومال اورخواتین کی عزت وناموس جس قدریہاں محفوظ ہے دنیا کے کسی بھی ملک میں اس کا تصور نہیں کیاجاسکتا۔
سعودی عرب کا بیشتر علاقہ وسیع صحراؤں چٹیل میدانوں ،خشک وبے رنگ پہاڑوں، سنگلاخ وادیوں اوربنجر زمینوں پرمشتمل ہے جہاں کچھ عرصہ قبل پانی اورسبزہ کی بے انتہا قلت تھی، اسی لئے اسے وادی غیرذی ذرع کہاجاتا تھا جوسیدنا ابراہیم علیہ السلام کے ان الفاظ کی بدولت اسے حاصل ہواتھا جوانھوں نے اپنی بیوی وبچے کو مکہ میں چھوڑتے ہوئے دعائیہ کلمات کے طورپر کہے تھے اورجسے قرآن نے محفوظ رکھا ہے انھوں نے کہا تھا(ربنا انی اسکنت من ذریتی بواد غیرذی زرع عند بیتک المحرم)
لیکن سعودی حکومت نے اسی’’ وادی غیرذی ذرع‘‘ کواپنی اولوالعزمیوں اورسعودی انجینئروں نے اپنی فن کا رانہ صلاحیتوں سے رشک جنت بنادیا ہے اوراس بنجر زمین میں پانی وسبزہ کی بہتات ہوگئی ہے، سعودی حکومت چونکہ اپنے عوام کے مسائل کوحل کرنے اورخدمت خلق کافریضہ انجام دینے میں خصوصی دلچسپی رکھتی ہے اس لئے ان کی اولین ضروریات کی تکمیل ومسائل کو ترجیحی بنیادوں پرحل کرتی، ہے اسی کا نتیجہ ہے کہ اس خشک وبے آب وگیاہ ملک میں کہیں بھی پانی کی قلت کا سامنا نہیں ہے اوروہ دنیا کے ان چندملکوں میں سے ایک ہے جہاں صاف وشفاف وشیریں پانی حفظان صحت کے اصولوں کے مطابق فراوانی سے دستیاب ہے، اسی طرح غذائی پیداوار اوراجناس سے قدرتی طورپر محروم ہونے کے باوجود اس نے اپنے شہریوں کے لئے جس طرح اعلیٰ اقسام کے غلہ جات، میوہ جات اورتازہ پھل وسبزیاں ہرموسم اوردنیا کے ہرخطہ کی جس بہتات کے ساتھ ان کی حصولیابی کویقینی بنایا ہے دیکھ کر یقین نہیں ہوتا اوریہ ساری چیزیں انتہائی معقول قیمت اورسستے نرخوں پرہرجگہ دستیاب اورعام آدمی کی پہونچ میں ہیں، سعودی شہریوں کونہ کبھی ناقابل برداشت مہنگائی کا سامنا کرنا پڑتا ہے اورنہ اشیائے ضروریہ کی نایابی کا، حکومت وبلدیہ کے حسن انتظام کاحال یہ ہے کہ موسم حج اوررمضان میں عازمین حج ومعتمرین کی ایک بہت بڑی تعداد کی میزبانی کا مکہ مکرمہ، مدینہ منورہ اورجدہ وغیرہ کوشرف حاصل ہوتا ہے، خاص طور سے مکہ مکرمہ میں مقامی آبادی کے علاوہ ۲۰لاکھ سے ۴۰لاکھ آدمی بیک وقت موجود ہوتے ہیں، لیکن اشیائے خوردونوش کی کبھی قلت نہیں ہوتی ،تجارتی مراکز، دوکان وبازار ضر وری سازوسامان سے بھرے ہوتے ہیں اوربآسانی ہرشخص کودستیاب ہوتے ہیں، حکومت کی خوش انتظامی اورزراعت کی طرف اس کی خصوصی توجہ کا نتیجہ ہے کہ جہاں کبھی گیہوں کی کاشت کا تصورنہیں تھا وہ گیہوں کی پیداوار میں خودکفیل ہوچکا ہے اورشہریوں کوانتہائی سستی قیمت پرآٹا ومیدہ وروٹیاں میسر ہیں، ہوٹلوں میں بالعموم سالن کے ساتھ روٹیاں بلاقیمت دی جاتی ہیں۔
اس وقت جب دنیا کے بیشترملکوں کے لوگ کمرتوڑمہنگائی وبیروزگاری سے نیم جاں ہونے کے باوجود طرح طرح کے ٹیکسوں سے بے حال ہیں وہیں سعودی عربیہ کا حال یہ ہے کہ وہاں انکم ٹیکس، پراپرٹی ٹیکس، سیلز ٹیکس، ایکسائز ڈیوٹی، امپورٹ، کسٹم ڈیوٹی، محصول وچونگی اور مختلف ناموں اورحیلوں وبہانوں سے دنیا میں طرح طرح کے ٹیکسز لئے جانے کا جورواج ہے سعودی عرب میں یہ مفقود ہے، دنیا کے دیگر ملکوں کاحال یہ ہے کہ عوام کے خون پسینہ کی کمائی اورمحنت ومشقت سے حاصل کی ہوئی نان شبینہ تک پرحکومت کی حریصانہ نظرہوتی ہے اورمختلف ناموں سے ٹیکس لگاکر ان کی کمائی پرڈاکے ڈالتی ہے، پھریہ پیسہ بدعنوان سیاست دانوں اور رشوت خور آفیسروں کی جیب میں پہونچ جاتا ہے اورعوام شہری سہولیات بجلی، پانی ا ورسڑکوں تک کوترستے ہی رہ جاتے ہیں جب کہ سعودی عرب میں یہ ساری سہولیات انتہائی اعلیٰ معیارپر بلامعاوضہ مہیا کی جاتی ہیں۔
حکومت لوگوں کوباعزت روزگار فراہم کرنے کے لئے بھی سنجیدگی کے ساتھ ضروری اقدامات کرتی ہے اورفیکٹری وکارخانے لگانے کے لئے بھی ان کی حوصلہ افزائی کرتی ہے، لوگوں کو اپنا ذاتی کاروبار کرنے کے لئے نہ صرف یہ کہ طویل المعیاد اورآسان قسطوں پربلاسودی قرضے دئے جاتے ہیں بلکہ حد تویہ ہے کہ ’’جولوگ پابندی وقت کے ساتھ معاہدوں کے مطابق اپنے سرکاری قرضوں کی ادائیگی امانت ودیانت اوراحساس ذمہ داری کے ساتھ کرتے ہیں سرکاری بنک ان کے قرضوں کی آخری قسطیں اکثرمعاف بھی کردیا کرتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ لوگوں کا کاروبار پھل پھول رہا ہے اورلوگ خوش حالی وفارغ البالی اوربے فکری واطمینان کی زندگی گزاررہے ہیں اوردن دونی رات چوگنی ترقی کررہے ہیں، اوروہاں دولت کی ریل پیل نظرآتی ہے ،یہ سب حکومت کی فلاحی اسکیموں اورترقیاتی منصوبوں کا نتیجہ ہے کہ اس نے ملکی دولت پر تمام شہریوں کا حق تسلیم کیا ہے ورنہ ظاہر ہے کہ ملک اگرپٹرول وگیس اورمعدنیات کی دولت سے مالا مال ہے تویہ پٹرول عام آدمی کے گھرسے نہیں نکلتا لیکن حکومت نے اپنے وسائل میں تمام شہریوں کوشریک رکھا ہے اوران کو بہتر وقابل رشک زندگی دینے کے لئے قابل رشک ہی سہولیات فراہم کی ہیں، اورسرکاری آمدنی میں سے بیشتر حصہ کروڑوں اربوں ڈالر سالانہ کی شکل میں انھیں کے معیارزندگی کو بہتربنانے کے لئے صرف کررہی ہے۔
طبی سہولیات ،تعلیم کے شعبہ جات اورصحت وصفائی پربھی حکومت اربوں ڈالر سالانہ صرف کرتی ہے اوراپنے شہریوں کو بیشتر خدمات مفت فراہم کرتی ہے، غرض کہ اس نے ہرمحاذ پرجوقابل ذکر پیش رفت کی ہے اوررفاہ عام اورخدمت خلق کی بنیادوں پرجوکارہائے نمایاں انجام دئے ہیں اس کے لئے ہرمسلمان کے دل سے دعانکلتی ہے اوریہی وجہ ہے کہ سعودی عوام اپنے فرماں رواؤں سے دل کی گہرائیوں سے محبت کرتے ہیں ،ان کے خلاف بغاوت توبڑی چیز ہے، کینہ وکدورت کا بھی تصورنہیں کرسکتے، لیکن براہومذہبی تعصب اورملحدانہ ذہنیت کا کہ مغربی ایشیاء اورشمالی افریقہ کے بعض عرب اسلامی ملکوں میں آئی تبدیلی کی لہر اوربے چینی کے اظہار اورعوامی مظاہروں کوسعودی عرب پربھی بلاجواز اوربلاسبب منطبق کرنا چاہتے ہیں۔
سعودی حکومت پر کیچڑ اچھالنے والے میری دانست میں دوطرح کے لوگ ہوتے ہیں ایک تو سطوربالا میں مذکورایک خاص فکر سے تعلق رکھنے ،مشرکانہ اعمال ورسوم انجام دینے اورقبروں سے گہری عقیدت رکھنے والے وہ لوگ ہیں جنھیں سعودی حکومت کی اصلاح عقائد کی کوششیں اورتوحید کے غلبہ کے لئے اس کے اقدامات ایک آنکھ نہیں بھاتیں اورقبے گرائے جانے کے صدموں سے یہ قبورپرست ابھی تک نہیں نکل سکے ہیں، اورمختلف موقعوں پر اس فلاحی حکومت کے خلاف زہر افشانی کرتے ہی رہتے ہیں، پھربھلا یہ نادرموقع وہ کہاں چھوڑنے والے تھے ،دوسرے وہ مغرب زدہ اوراشتراکیت زدہ بزعم خود دانشور طبقہ ہے جومغربی طرز حکومت اوروہاں قائم جمہوریت سے بے طرح متاثر ہے اوروہ مغربی نظام جمہوریت کوہی انسانیت کی معراج سمجھتا ہے اورانسانیت کی سیاسی ترقی کا بام عروج صرف جمہوریت کے قیام میں ہی پوشیدہ سمجھتا ہے ،یہ طبقہ دراصل سب سے زیادہ فریب خوردہ ہے اوریہ طبقہ پتہ نہیں احمقوں کی کس جنت میں رہتا ہے، جسے جمہوریت کی خرابیاں اوراس کے مفاسد خوداپنے ملک ہندوستان میں نظرنہیں آتے، یہ اظہار خیال کے لئے تفصیل کاطالب موضوع ہے ان شاء اللہ اس موضوع پر ایک تقابلی جائزہ کی شکل میں ’’السراج‘‘ کے انھیں صفحات میں کچھ باتیں عرض کی جائیں گی، ساتھ ہی سعودی حکومت نے دینی وعلمی محاذوں پر جوبیش قیمت ونمایاں خدمات انجام دی ہیں ان پر بھی کچھ مزید روشنی ڈالی جائے گی ،کیونکہ سعودی حکومت کی نوع بنوع خدمات ایسی نہیں ہیں کہ انھیں چند صفحات میں سمیٹا جاسکے بہت اختصار کے ساتھ بھی اگرعرض حقیقت کیاجائے تودفتردرکار ہے (لہذا بشرط صحت وزندگی کچھ باتیں آئندہ شمارہ میں)
***

کیا اختلافِ امت رحمت ہے؟ March 2011

ڈاکٹرسیدسعیدعابدیؔ
صدرشعبۂ اردو ریڈیو،جدہ

کیا اختلافِ امت رحمت ہے؟
مسئلہ: ۔ایک صاحب میرے نام اپنے خط میں تحریر فرماتے ہیں:
ہم کچھ دوست بیٹھے گفتگو کررہے تھے اورہمارا موضوعِ گفتگو مسلمانوں کے درمیان پائے جانے والے فکری، عقائدی اورمسلکی اختلافات تھا، ہم اس سوال کا جواب تلاش کرنے میں لگے ہوئے تھے کہ جب ہمارا مأخذِرشد وہدایت اللہ کی کتاب اوراس کے رسول ﷺ کی سنت ہے توپھر ہمارے درمیان یہ اختلافات کیوں ہیں؟ جنھوں نے ہماری ہوااکھاڑدی ہے اورہمیں اتناکمزور بنادیا ہے کہ جوچاہتا ہے ہم پرچڑھ دوڑتا ہے اورہمارے دین، ہماری کتاب اورہمارے رسول فداہ ابی وامی ﷺ کا مذاق اڑاتا ہے، مگرہم میں کوئی ایسا نظر نہیںآتا جواس کودنداں شکن جواب دے سکے۔
ہم اسی اُدھیڑ بن میں تھے کہ ایک اورصاحب آگئے اورہماری گفتگو میں شامل ہوگئے، یہ نووارد چہرے مہرے سے عالم دین لگ رہے تھے اوران کا پہناوا یہ بتارہا تھا کہ ’’عالم باعمل‘‘ ہیں انھوں نے فرمایا:
’’آپ لوگ جس مسئلے میں الجھے ہوئے ہیں اورامت کے جن اختلافات سے پریشان ہیں وہ تورحمت ہیں، کیونکہ رسولِ رحمت ﷺ نے اپنے ایک ارشاد مبارک میں امت کے اختلافات کورحمت بتایا ہے۔
رسول اکرمﷺ کے ارشاد مبارک کا لفظ سن کر ہم سب خاموش ہوگئے مگریہ بات ہمارے حلق سے نیچے نہیں اتری؟
جواب: ۔امت کے اندرپیداہونے والے اختلافات کو جس روایت کی بنیادپر رحمت قرار دیاجاتا ہے و ہ باطل اورجھوٹ ہے، رسول اکرمﷺ کاارشاد مبارک نہیں ہے، حافظ جلال الدین سیوطی رحمہ اللہ جن کو ضعیف، منکر اورموضوع روایات کا سراغ لگانے میں یدطولی حاصل تھا اورجو فضائل ومناقب سے متعلق کسی باطل اور موضوع روایت کو بڑی مشکل سے باطل اور موضوع کہنے پرآمادہ ہوتے تھے، انھوں نے بھی یہ اعتراف کیا ہے کہ اس روایت کی کوئی سند نہیں ملتی، نہ صحیح اورنہ من گھڑت، انھوں نے یہ روایت اپنی مشہور کتاب ’’الجامع الصغیر‘‘ میں نقل کی ہے اوراس کے آگے لکھا ہے:
’’اس کاذکر نصرمقدسی نے ’’الحجۃ ‘‘میں اوربہیقی نے ’’الرسالہ الاشعریہ‘‘ میں کسی سند کے بغیرکیا ہے، اورحلیمی، قاضی حسین اورامام الحرمین جوینی وغیرہ نے اس کو نقل کیاہے، ممکن ہے کہ حفاظ حدیث کی بعض کتابوں میں اس کی تخریج ہوئی ہو اوروہ ہم تک نہ پہنچی ہو‘‘۔(ص:۳۴ ح ۲۳۰)
حافظ سیوطی کے قول کا مطلب یہ ہے کہ اگرچہ اس روایت کا کوئی سرپیرنہیں ہے لیکن توقع ہے کہ وہ حدیث کی کسی مستند کتاب میں منقول ہوئی ہوگی جوکتاب یا وہ روایت ہمارے علم میں نہیں آسکی، دوسرے لفظوں میں حافظ سیوطی کے نزدیک بے بنیاد ہونے کے باوجود یہ روایت قابل اعتبار ہے۔
زیربحث روایت کے الفاظ ہیں:اِخْتِلافُ أمَّتِی رَحْمَۃٌ‘‘میری امت کا اختلاف رحمت ہے۔
اوپر کی وضاحت سے اتنی بات تومعلوم ہوگئی کہ یہ روایت نہ رسول اکرمﷺ کا ارشاد مبارک ہے، نہ کسی صحابی، تابعی اورتبع تابعی کا قول، اب رہا اس کا مفہوم تو وہ کتاب وسنت کی صریح تعلیمات کے خلاف ہے، کیونکہ اللہ اوراس کے رسولﷺ نے اتفاق اوراتحاد کی دعوت دی ہے اوریہ جھوٹی روایت افتراق، اختلاف اور انتشار کی دعوت دے رہی ہے، کتاب وسنت میں اختلاف اورتفرقے کو سابقہ اقوام خاص طورپر بنواسرائیل کی مذموم صفت قراردے کر اس کو ان کے لئے موجب ہلاکت بتایا گیا ہے اوراہل ایمان کو ان کے نقش قد م پرچلنے سے روکا گیاہے ،جبکہ یہ باطل روایت اختلاف کو رحمت قراردے کر اس کی ترغیب دے رہی ہے۔
میں ان اسباب پرروشنی ڈالنے سے پہلے جواسلامی تعلیمات اوراس کے مزاج اور روح کی منافی اس روایت کے رواج پانے کے پیچھے کارفرما رہے، ایسی بعض آیات قرآنی اوراحادیث نبوی پیش کردینا چاہتا ہوں، جن میں اختلاف سے منع فرمایا گیاہے اوراس کو موجب ہلاکت وبربادی قراردیاگیاہے۔
قرآن پاک میں سب سے زیادہ جس قوم کا ذکر آیا ہے وہ بنواسرائیل یعنی یہودی ہیں باربار ان کے جرائم، ان کی دنیا پرستی، ان کے کفران نعمت، انبیاء کے ساتھ ان کے مجرمانہ طرز عمل اورحق کوجان لینے اورپہچان لینے کے بعداس کی مخالفت کے واقعات کوبارباربیان کیا گیا ہے تاکہ مسلمانوں کو ان کے نقش قدم پرچلنے سے بازرکھاجائے۔
سورۂ آل عمران میں اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو صریح لفظوں میں یہ حکم دیتا ہے کہ وہ ان لوگوں کی روش اختیار کرنے سے باز رہیں جنھوں نے واضح تعلیمات مل جانے کے بعد اختلاف کیا:
تم ان لوگوں کی طرح مت ہونا جوفرقوں میں بٹ گئے اورواضح ہدایات پاجانے کے بعداختلافات میں مبتلا ہوگئے اوریہ وہ لوگ ہیں جن کے لئے اس دن بہت بڑا عذاب مقدرہے جس دن کچھ چہرے سفید وروشن ہوں گے اورکچھ سیاہ۔(۱۰۵۔۱۰۶)
سورہ البقرہ میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ بنواسرائیل میں اختلافات کاسبب یہ نہیں تھاکہ ان کو حق کا علم حاصل نہیں تھا، بلکہ ان کے اندرحق آجانے کے بعداختلافات پیداہوئے ،ارشاد الٰہی ہے:
انھوں نے اللہ کی کتاب میں واضح ہدایات مل جانے کے بعدمحض سرکشی اورزیادتی کے جذبے سے اختلاف کیا۔(۲۱۳)
سورۃ الانعام میں اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ ﷺ کو مخاطب کرکے فرمایا ہے کہ یہ اہل کتاب جنھوں نے اپنے دین کو ٹکڑے ٹکڑے کرڈالا ہے ان سے آپ کا کوئی تعلق نہیں ہے، ارشاد ربانی ہے:
درحقیقت جنھوں نے اپنے دین کو ٹکڑے ٹکڑے کردیا ہے اورگروہوں میں بٹ گئے ہیں ان سے تمہارا کوئی واسطہ نہیں ہے، ان کامعاملہ اللہ کے سپرد ہے ،وہی ان کو بتائے گا کہ وہ اس دنیا میں کیا کچھ کرتے رہے تھے۔(۱۵۹)
اسی سورۂ الانعام میں اللہ تعالیٰ نے یہ بھی واضح فرمادیا ہے کہ سیدھا راستہ ایک ہی ہے جس کی اتباع کرنی چاہئے، ارشاد الٰہی ہے:
اوربیشک یہ ہے میرا راستہ سیدھا، لہذا تم لوگ اسی کی اتباع کرو اوردوسرے راستوں پرمت چلو، ورنہ وہ تم کو اس کے راستے سے دورکردیں گے، یہ ہے وہ ہدایت جوتمہارے رب نے تمہیں کی ہے تاکہ تم اللہ کے غضب سے بچ سکو۔(۱۵۳)
اللہ تعالیٰ انسانوں کا خالق ہے اورصرف وہی جانتا ہے کہ انسان کی کامیابی اور فلاح کن کامو ں کے کرنے اورکس طریقۂ زندگی کے اختیار کرنے میں مضمر ہے ،لہذا اس نے جس طرح سابقہ اقوام میں اپنے نبی اوررسول مبعوث فرمائے تھے تاکہ وہ اس راہ کی نشاندہی کردیں جواللہ کی رضا اورخوشنودی کے حصول اوردنیا اورآخرت میں بنی نوع انسان کی کامیابی اورفلاح کی جانب لے جاتی ہے، ٹھیک اسی طرح اس نے اپنا آخری نبی اوررسول بھیج کر اوراس پراپنی کتاب نازل کرکے اپنی سیدھی اورپسندیدہ راہ بتادی ہے اوراپنے آخری نبی اوررسول ﷺ پراپنی وحی خفی نازل کرکے اپنے اس آخری دین اورطریقۂ زندگی کے تمام احکامات واضح فرمادئے ہیں اورنبی کی سیرت اورسلوک کی شکل میں اس راہ اوردین پرچلنے کے عملی طریقے بھی بتادئے ہیں تاکہ لوگ اپنی ذاتی پسنداورذوق یاخواہشات نفس کی پیروی کرکے گذشتہ اقوام کی طرح گمراہ ہونے سے بچ سکیں، چنانچہ نبی آخرالزماں محمدﷺ نے اپنی امت کوبارباراختلافات سے دوررہنے کی تاکید فرمائی ہے، چنداحادیث کاترجمہ درج ذیل ہیں:
’’حضرت عبداللہ بن عمروبن عاص رضی اللہ عنہا سے روایت ہے، کہتے ہیں:ایک دن میں دوپہرکے وقت رسول اللہﷺ کی خدمت میں حاضرہوا توآپ نے دوآدمیوں کی آوازیں سنیں جن میں کسی آیت کے مفہوم کے بارے میں اختلاف ہوگیاتھا، اس وقت رسول اللہﷺ اس حال میں ہمارے پاس آئے کہ آپ کے چہرے سے غصہ عیاں تھا اورآپ نے فرمایا:
’’درحقیقت تم سے پہلے کے لوگ اللہ کی کتاب کے بارے میں اختلاف کرکے ہی ہلاک ہوئے‘‘۔(صحیح مسلم ح ۶۷۷۶)
’’حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے،کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہﷺ کوفرماتے ہوئے سناہے:’’میں نے جس چیز سے تم لوگوں کوروک دیاہے، اس سے بچو اورجس چیز کاحکم دے دیا ہے اس پراپنی قدرت کے مطابق عمل کرو، درحقیقت تم سے پہلے کے لوگوں کو ان کے کثرت سوال اورانبیاء کے معاملے میں ان کے اختلافات نے تباہ کیاہے‘‘۔(مسلم ۶۱۱۳)
’’حضرت سعدبن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبیﷺ نے فرمایا ہے:مسلمانوں میں اس شخص کا جرم سب سے بڑا ہے جس نے کسی ایسی چیز کے بارے میں سوال کیا جوحرام نہیں تھی اوراس کے سوال کی وجہ سے حرام ہوگئی ‘‘۔(بخاری۷۲۸۹، مسلم۶۱۱۶)
’’حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبیﷺ نے فرمایا:میں نے تم لوگوں کوجس چیز ۔کتاب وسنت۔ پرچھوڑاہے اسی پرمجھے باقی رہنے دو۔ یعنی مجھ سے سوالات نہ کرو۔ کیونکہ تم سے پہلے کے لوگ اپنے سوالوں اوراپنے انبیاء کے معاملے میں اپنے اختلافات ہی کی وجہ سے ہلاک ہوئے ہیں،لہذا جب میں تمہیں کسی چیز سے منع کروں تواس سے بازرہو اورجس چیز پرعمل کا حکم دوں تواس کواپنی استطاعت کے مطابق انجام دو‘‘۔(بخاری ۷۲۸۸، مسلم ۶۱۱۵)
رسول اکرم ﷺ کے مذکورہ ارشادات کامطلب ہے کہ کتاب وسنت میں جن باتوں کاحکم دے دیاگیا ہے ان پر عمل کیاجائے اورجن باتوں سے منع کردیاگیا ہے ان سے بازرہاجائے، نہ اپنے ذوق وپسند سے نئے نئے احکام بنائے جائیں، نہ کتاب وسنت کے واضح اورصریح نصوص کی من مانی تاویلات کرکے امت میں اختلافات پیدا کئے جائیں اورنہ فرضی اموراورمسائل کے بارے میں سوالات کئے جائیں۔
یہاں یہ سوال کیاجاسکتا ہے کہ دین کے بہت سے امور اورمسائل کے بارے میں صحابۂ کرام رضوان اللہ علیہم اورائمہ اسلام رحمہم اللہ کے درمیان اختلافات کاپتہ چلتا ہے توکیا یہ اختلافات مذموم نہیں تھے؟
اس سوال یا اس اشکال کاجواب یہ ہے کہ صحابۂ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے اندرہمیں ان کے جن اختلافات کی مثالیں ملتی ہیں وہ دراصل ان کی کتاب وسنت کی تعلیمات کی مخالفت کانتیجہ نہیں تھیں، بلکہ نصوصِ کتاب وسنت کی عدم موجودگی کی صورت میں ان کے اجتہادات کانتیجہ تھیں، اورجوں ہی ان کو درپیش مسئلہ سے متعلق قرآن پاک یاحدیث سے کوئی دلیل مل جاتی تووہ اپنے اجتہادی فیصلے سے رجوع کرلیتے۔
ٹھیک یہی حال ان ائمہ اسلام کا بھی تھا جن سے فقہی اسکول منسوب ہیں، اوران کے درمیان ہمیں جواختلافات ملتے ہیں وہ یا تو ان کے اجتہادات کانتیجہ تھے، اور اجتہاد میں انسان ہروقت صحیح نقطہ پر نہیں پہونچتا بلکہ کبھی صحیح اوردرست نقطہ پرپہونچتا ہے توکبھی غلطی کرجاتا ہے، لہذا ان کے لئے توان اجتہادی نتائج پرعمل کرنا درست تھا، کیونکہ وہ اس سے زیادہ کے مکلف نہیں تھے، مگران کے بعدآنے والوں کے لئے ان ائمہ کے اجتہادی احکام پر عمل کرنا جائز نہیں تھا، جب تک وہ یہ نہ دیکھ لیتے کہ ان کے اجتہادی نتائج کتاب وسنت کے مطابق ہیں یانہیں، مگرعمل کی دنیا میں جوکچھ ہوا وہ یہ کہ فقہی کتابوں میں مدون احکام کو وہی حیثیت دے دی گئی جوکتاب وسنت کی نصوص کوحاصل ہے، اس طرح اہل الرائے اوراہل نقل یا اہل حدیث کے نام سے دومتوازی اسکول بن گئے۔
دوسری اہم چیز جوفقہی کتابوں میں نمایاں ہے وہ یہ ہے کہ ان میں مدون بہت سارے مسائل اوراحکام ایسی روایتوں سے مأخوذ یا ان پرمبنی ہیں جن کی ائمہ حدیث کے نزدیک کوئی بنیاد نہیں ہے، یاوہ بے حد ضعیف اورناقابل اعتبار اورموضو ع ہیں اوراس کا اعتراف خودان فقہی اسکولوں سے تعلق رکھنے والے محدثین نے کیا ہے، اس کے باوجود ان پر نہ صرف عمل جاری ہے بلکہ صحیح حدیثوں پرعمل کرنے والوں کوگمراہ اورروایت پرست کہا جاتا ہے۔
اس طرح مسلمانوں کے درمیان فقہی اختلافات کی خلیج وسیع سے وسیع ترہوتی گئی اورفقہی مسلکوں نے وہ شکل اختیار کرلی جومختلف ادیان کی ہے اورہرمسلک سے وابستہ لوگ اپنے ائمہ کی وہی تقلید کرنے لگے جوصرف رسول اکرم ﷺ کے حق میں جائزہے۔
اورفقہی اختلافات کوصحیح ثابت کرنے کے لئے ایسی روایتیں گھڑکر لوگوں میں پھیلادی گئیں جن میں اختلافات کو رحمت قرارد یاگیا ہے، یا جن میں صحابۂ کرام میں سے ہرصحابی کی اقتداء کومشروع قراردیاگیا ہے تاکہ تقلید کو صحیح ثابت کیاجائے، اس طرح کی من گھڑت روایتوں میں سے ایک روایت کے الفاظ ہیں:’’أَصْحَابِی کَالنُّجُوْمِ، بِأیِّھِم اقْتَدَیْتُمْ اھْتَدَیْتُم‘‘میرے اصحاب ستاروں کی مانند ہیں، ان میں سے جن کی بھی اقتدا کرو گے ہدایت یاب رہو گے‘‘۔
یہ روایت اپنی سند اورمتن دونوں کے اعتبار سے جھوٹ ہے، اس کی روایت امام ابوعمر یوسف بن عبداللہ نمری قرطبی معروف بابن عبدالبررحمہ اللہ نے اپنی مشہور کتاب:’’جامع بیان العلم وفضلہ‘‘ میں متعددسندوں سے کی ہے، اوراس کوناقابل اعتبار قراردیا ہے۔(ص:۱۵۶،۱۶۶، ۱۷۸، ۱۸۱ج ۲)
اسی طرح امام ابو محمد علی بن احمدبن حزم رحمہ اللہ نے’’الاحکام فی أصول الأحکام‘‘میں اس روایت کو رسول اللہﷺ سے منسوب جھوٹی روایت قراردیا ہے۔(ص:۶۸۱ج ۲)کیونکہ اس کی سند میں ضعیف ،بے حد ضعیف، منکر، متروک اورکذاب راوی جمع ہوگئے ہیں۔
اوراس روایت کامتن اورمضمون اپنی سند سے زیادہ فاسد اورکتاب وسنت کی تعلیمات کے صریح خلاف ہے، کیونکہ مسلمانوں کے مقتدیٰ اورپیشوا صرف رسول اللہﷺ ہیں، آپ اپنی زندگی میں مسلمانوں کے مقتدیٰ تھے اورآپ کی وفات کے بعد اللہ کی کتاب اورآپ کی سیرت پاک اورآپ کی سنت مطہرہ مسلمانوں کے لئے مأخذ رشد وہدایت ہے ،آپ کے علاوہ کوئی بھی امام، عالم، بزرگ اورصالح انسان نہ مسلمانوں کا مقتدیٰ تھا اورنہ ہوگا۔(تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو الکامل ص:۳۷۶، ۳۷۷ج۲، المؤتلف والمختلف ص:۱۷۷۸،ج ۴، الاکمال ص ۲۷،ج ۷، التأریخ الکبیر ص۲۷۸،ج ۲، التقریب ص ۲۰۱، لسان المیزان ص ۱۵۶ج ۲، میزان الاعتدال ص ۴۲۷،ج ۱)
بعض صوفیاء نے اس روایت کے بارے میں جویہ فرمایا ہے:’’اس حدیث کی صحت میں اگرچہ محدثین کے نزدیک کلام ہے، لیکن اہل کشف کے نزدیک یہ صحیح ہے‘‘ تویہ صوفیا کی ’’بڑ‘‘ ہے، شریعت کی نظرمیں اس کشف کا کوئی وزن نہیں اورنہ کسی حدیث کی صحت وسقم معلوم کرنے کے لئے اس کاکوئی اعتبار ہے اس لئے کہ کشف شرعی مأخذ اورشرعی دلیل نہیں ہے، یہاں یہ واضح کردینا مناسب ہوتا ہے کہ ائمہ اسلام نے بلا استثناء اپنی تقلید سے منع فرمایا ہے اورکتاب وسنت کی اتباع کی دعوت دی ہے۔
اسی طرح تمام ائمہ اسلام نے عموماً اورامام شافعی رحمہ اللہ نے خصوصاً یہ صراحت کی ہے کہ اگرائمہ اسلام میں سے کسی کا کسی بات پر عمل رہا ہو، پھراسی کونبیﷺ کی کوئی ایسی حدیث معلوم ہوجائے جواسی کے عمل کے خلاف ہو تواسی پریہ فرض ہے کہ وہ اپنے عمل سے کنارہ کش ہوکرفوراً اس حدیث پر عمل شروع کردے‘‘۔(الرسالہ ص:۲۷۸)
اورشمس الائمہ امام محمد بن احمد سرحسی رحمہ اللہ اپنے ’’اصول‘‘ میں تحریر فرماتے ہیں:’’اگرکسی صحابی کا عمل کسی حدیث کے خلاف ہے تواس کا سبب یہ ہے کہ وہ حدیث ان کو معلوم نہیں رہی ہوگی، لہذا اس حدیث کے خلاف ان کاعمل اس حدیث کے حجت ہونے پراثرانداز نہیں ہوسکتا، بلکہ وہ حجت تھی اورحجت رہے گی، اسی طرح اگرکسی حدیث پر عمل ہورہا ہو اورنبیﷺ سے اس کی نسبت صحیح ہو، تواس وجہ سے اس پرعمل ترک نہیں کیا جائے گا کہ اس کے خلاف ایک ایسے شخص کا عمل ہے جونبیﷺ سے فروترہے اور اس کے عمل کی یہ توجیہ کی جائے گی کہ اس پروہ حدیث مخفی تھی، اگروہ اس کو معلوم ہوتی تووہ اپنے اس عمل سے رجوع کرلیتا، لہذا جس شخص کو صحیح سند سے مروی کوئی حدیث پہنچ جائے اس پر یہ فرض ہے کہ اس کی پیروی کرے‘‘۔(ص:۸، ج ۲)
حدیث کی حجیت اورتقلید شخصی کے بطلان کی اس سے بڑی دلیل اورکیا ہوسکتی ہے ،لیکن متأخرین فقہائے احناف کی کتابوں میں تقلید پرجس قدر زوردیاگیا ہے اور قدیم ائمہ کے اقوال اورآراء کو صحیح ثابت کرنے کے لئے جو فلسفیانہ اورمناظرانہ اسلوب اختیار کیاگیا ہے اس کی اس اسکول کے ائمہ کے طرزعمل سے تائید نہیں ہوتی چنانچہ شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ ’’الانصاف فی بیان سبب الاختلاف‘‘میں تحریر فرماتے ہیں:
’’اسی طرح بعض لوگ اس وہم میں مبتلا ہیں کہ مذہب حنفی کی بنا ان ہی جدلی بحثوں پرقائم ہے ، جوالمبسوط، الہدایۃ اورالتبیین وغیرہ کتابوں کے صفحات میں پھیلی ہوئی ہیں، وہ نہیں جانتے کہ ان کے مذہب کی بنا ان منطقی بحثوں پرنہیں ہے،ان کے اندر بحث وجدال کے اس طرز کی ابتدا تودراصل معتزلہ سے ہوئی ہے جسے متأخرین نے اس خیال سے اختیار کرلیاتھا کہ فقہی مباحث میں اس قسم کی باتوں کی بھی گنجائش ہے، نیز اس سے طلباء کے ذہنوں میں تیزی اوروسعت پیدا ہوگی‘‘۔(ص:۱۲۷،۱۲۸)
عام طورپرفقہی مباحث سے امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کی جوتصویر ابھرتی ہے وہ یہ کہ ان کا سارا مدارقیاس ورائے پرتھا اوروہ حدیث کو کوئی خاص اہمیت نہیں دیتے تھے لیکن اس جلیل القدرامام کی سیرت کے سنجیدہ اورغیر جانبدارانہ مطالعہ سے جوحقیقت سامنے آتی ہے وہ یہ ہے کہ موصوف حدیث کو بنیادی شرعی مأخذ مانتے تھے، صحت حدیث سے متعلق ان کے اندرجو شدت تھی تواس کا سبب یہ تھا کہ ’’کوفہ‘‘ موضوع اور جھوٹی روایات کا گڑھ تھا اوریہ بات معلوم ہے کہ ہرانسان اپنے ماحول کی پیداوار ہوتا ہے ، لہذا اگر احادیث کی سند اورمتن سے متعلق دوسروں سے زیادہ کھوج کرید کرتے تھے توان کا ایسا کرنا بالکل قدرتی امرتھا ورنہ جن احادیث کی نسبت نبیﷺ سے ثابت ہے ان کے آگے سرتسلیم خم کردیتے تھے حتی کہ وہ ’’خبرواحد‘‘ کو اسی طرح شرعی حجت مانتے تھے جس طرح وہ جمہور محدثین کے یہاں حجت ہے۔
اس مضمون کا مسک الختام اس واقعہ کے ذکرسے کرناچاہتاہوں جوامام طحاوی رحمہ اللہ نے امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے احترام حدیث سے متعلق نقل کیاہے، تحریر فرماتے ہیں:
امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ اورمشہور محدث امام حماد بن زید رحمہ اللہ کے درمیان ایمان میں کمی بیشی کے مسئلے پرگفتگو ہورہی تھی، دوران گفتگو امام حماد نے ان سے وہ حدیث بیان کی جس میں حضرت ابوموسی اشعری رضی اللہ عنہ نے رسول اللہﷺ سے سوال کیاہے کہ:’’یَارَسُوْلَ اللّٰہِ! أَیُّ الإسْلَامِ أَفْضَلُ؟‘‘اے اللہ کے رسولﷺ! کون سا اسلام افضل ہے؟ پوری حدیث بیان کرنے کے بعدامام حماد بن زید رحمہ اللہ نے امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کومخاطب کرکے فرمایا:
’’کیاآپ دیکھتے نہیں کہ انھوں نے رسول اللہﷺ سے پوچھا ہے کہ کون سا اسلام افضل ہے؟ یعنی اسلام میں درجات ہیں۔
جس وقت امام حماد حدیث بیان کررہے تھے امام ابوحنیفہ بالکل خاموش رہے اس پران کے شاگردوں میں سے ایک نے ان سے کہا:’’ابوحنیفہ! کیا آپ ان کو جواب نہیں دیں گے؟یہ سوال سن کر امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ نے جوکچھ فرمایا وہ سونے کے پانی سے لکھے جانے کے قابل ہے، فرمایا:’’میں ان کو کیا جواب دوں وہ تو یہ بات رسول اللہﷺ کی نسبت سے بیان کررہے ہیں‘‘۔(شرح العقیدۃ الطحاویۃ ص:۳۵۱)
***

دارالعلوم ندوۃ العلماء (پانچویں قسط) march 2011

شمیم احمدندویؔ
دارالعلوم ندوۃ العلماء
(پانچویں قسط)
گذشتہ چنداقساط میں دارالعلوم ندوۃ العلماء کے اغراض ومقاصدپر روشنی ڈالتے ہوئے ان حالات وظروف کا قدرے تفصیل سے تذکرہ ہوا ،جوندوہ جیسے ایک منفرد ادارہ کے قیام کے محرک ہوئے اوراس ماحول کا بھی ضمناً تذکرہ ہوا جومسلکی عصبیت اورتعصب وتنگ نظری کی پیداوارتھے اورجن کی آبیاری خدمت دین کے نام پر قائم یہ دینی مدارس کررہے تھے اورجس کا نمونہ ہندوستان کے طول وعرض میں جابجا دیکھاجاسکتا تھا، حقیقت تویہ ہے کہ یہ مایوس کن حالات صرف ہندوستان کے ساتھ خاص نہیں تھے بلکہ پورا عالم اسلام تعلیمی انحطاط اورتربیتی زوال کے ساتھ ہی اخلاقی پستی کی اس انتہا کوپہونچ چکاتھاکہ چھوٹی موٹی اصلاحات اس صورت حال کو تبدیل کرنے کے لئے کافی نہیں تھیں،بلکہ اس کے لئے پورا نظام تعلیم وتربیت اورپورا نصاب درس اورطریقہ تدریس بدلنے کی ضرورت تھی، اسی طرح لوگوں کے فکرونظر کا زاویہ درست کرنے اورذہنوں سے تعصب وتنگ نظری کو نکالنے کی بھی اسی قدرضرورت تھی جتنی خودتعلیمی سلسلوں کو جاری رکھنے کی، جب کہ ادھر حال یہ تھا کہ لوگ تعلیم کے روایتی طریقوں اور نصاب کے قدیم اصولوں سے سرموانحراف بھی کفر واسلام کامعاملہ سمجھتے تھے۔
اس صورت حال اوراس کے نتائج ونقائص کی وضاحت کرتے ہوئے متعددبار دارالعلوم دیوبند کا ذکرکرنا پڑا ،ایسا ازراہ تنقید وتنقیص نہیں ہوانہ ہی کسی ذاتی عنادوپرخاش کی بنا پربلکہ ایسا صرف اس بناپر ہواکہ جس وقت دارالعلوم ندوۃ العلماء کا قیام عمل میں آیا اس وقت دارالعلوم دیوبند ہی ایک ایسا قابل ذکرادارہ تھا جومسلمانان ہند کی اکثریت کی نمائندگی کرتا تھا اوران کی عظمت رفتہ کی بازیافت کے لئے صدق دل سے کوشاں بھی تھا اورقدیم علوم اسلامیہ کی حفاظت اوران کی ترویج واشاعت کے لائق تحسین عمل پرکاربند بھی ،لیکن چونکہ طریقہ کارزمانہ کی تیز رفتار ترقی سے میل نہیں کھاتا تھا اورپرانے روایتی ہتھیاروں سے جدید وخودکاراسلحوں سے لیس دشمنوں اورخوداعتمادی سے لبریز مخالفین کامقابلہ نہیں کیاجاسکتا تھا اس لئے نتائج خاطر خواہ نہیں نکل رہے تھے اوراس کی بنیادی وجہ یہی تھی کہ اس کے فرسودہ نصاب تعلیم اورازکار رفتہ طریقہ تدریس میں یہ صلاحیت ہی نہ تھی کہ دین کے ایسے پرجوش داعی ومبلغ پیداکرے جوپوری دنیا میں اسلام کا اس کے واحد دین برحق ہونے کی حیثیت سے پراثرومدلل انداز میں تعارف کراسکیں اوراسلام کی شبیہ کوداغدار کرنے والی دشمنان اسلام کی کوششوں کابھرپور جواب دے سکیں ، اس لئے ضرورت تھی کہ دین کے ایسے باخبر شارحین وترجمان تیارکئے جائیں جواحساس مرعوبیت کو بالائے طاق رکھ کر زمانہ کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرنے کی جسارت کرسکتے ہوں اورزمانہ کی نبض پران کا اس طرح ہاتھ ہوکہ اس کے قدم سے قدم ملاکر نہیں بلکہ اس سے دوقدم آگے رہ کر اس کی رہنمائی کافریضہ انجام دے سکتے ہوں اورجو اسلام کے قدیم ورثہ کی حفاظت کرکے صرف اس کے دفاع کرنے پراکتفانہ کریں بلکہ آگے بڑھ کر دشمنان اسلام کے منصوبوں کوخاک میں ملانے کی صلاحیت رکھتے ہوں، لیکن حق تویہ ہے کہ دارالعلوم دیوبند یا اسی کے طرز پرقائم اداروں کا نظام تعلیم وتربیت اس سے فروترتھا کہ ان سے ایسے ارفع واعلیٰ مقاصد کی تکمیل کی توقع کی جاتی، وہ تومسجد کے حجروں کے مکین ، خانقاہوں وتکیوں میں گوشہ نشین ایسے عافیت پسند وعزلت گزیں صرف نام نہاد علمائے دین پیداکرسکتا تھا ، جنھیں تبلیغ دین کے عصری تقاضوں کا علم نہ ہواورنہ اس کے لئے درکارضروری وسائل سے وہ باخبرہوں، بلکہ اس کے برعکس وہ حالات حاضرہ کے بارے میں عالمانہ بے خبری کے شکارہوں اوراس لاعلمی پر جنھیں فخربھی ہو،ایسے ہی مسکین لوگوں کامذاق اڑاتے ہوئے ابلیس نے انھیں مخاطب کرتے ہوئے کہا ہے ؂
میں کھٹکتاہوں دل یزداں میں کانٹے کی طرح
توفقط اللہ ہو ،اللہ ہو،اللہ ہو
افسوس کامقام یہ ہے کہ دین کی تبلیغ ودعوت اوراس کی ترجمانی وحفاظت کے ناقص تصور نے دین کی نشرواشاعت کی راہ میں کتنی رکاوٹیں ومشکلات کھڑی کی ہیں اوراس کے دعوتی مشن کو کس قدرنقصان پہونچایا ہے اسلام کے نام لیواؤں اوراس کے نام نہاد بہی خواہوں نے اس تلخ حقیقت کا ادراک کرنے میں بہت دیرکردی اوراس تغافل شعاری کی اسلام کوبھاری قیمت چکانی پڑی۔
دین کا صحیح فہم وشعورنہ ہونے اور اس کے ناقص علم ومعرفت کوہی کل دین سمجھنے کا نتیجہ بسااوقات کس قدرافسوسناک ہوسکتا ہے اس کو ذیل کی اس تاریخی حقیقت سے کسی حد تک سمجھاجاسکتا ہے جسے مولانا شبلیؒ نے اپنے ایک مضمون’’ندوۃ العلماء کیا کررہاہے‘‘میں اخبار’’حبل المتین‘‘ مورخہ ۱۰؍اگست ۱۹۰۶ء ؁ کی اشاعت کا ایک اقتباس نقل کرتے ہوئے بیان کیاہے اوراپنے اس دردوالم کوبھی ظاہر کیاہے جو رموز دیں اوراسرارشریعت کوصحیح ڈھنگ سے نہ سمجھنے اور اسلام کی دعوت کومثبت انداز میں پیش نہ کرسکنے کی وجہ سے اسلام کو برداشت کرناپڑاہے ،ان کی تحریر کا خلاصہ یہ ہے کہ ایک زمانہ تھا کہ روسی قوم بت پرست تھی،شہنشاہ روس ولاڈیمبر اسلام کی طرف مائل تھا اوراسلام کی خوبیوں کا معترف ومداح بھی،اسلام کی خوبیوں کامعترف ومداح اور اسلام سے متاثر ہونے کا نتیجہ یہ تھا کہ اس نے پوری روسی قوم کے ساتھ مذہب اسلام کا انتخاب کرنے کا فیصلہ کرلیا تھا،لیکن اسلام کی تعلیمات کا ذراگہرائی سے جائزہ لینا چاہتا تھا، اس کے لئے اس نے ایک جلسہ کا انعقادکیا اوردیگرکئی مذاہب کے عالموں کے ساتھ علمائے اسلام کوبھی دعوت دی، جوصاحب اس غرض کے لئے قازان سے تشریف لائے ان کی ناقص معلومات اورمذہب اسلام کے بارے میں ان کے ادھورے تصورکا یہ عالم تھا کہ انھوں نے اسلام کے تمام عقائد اور فلسفہ میں سے صرف یہ مسئلہ منتخب کرکے پیش کیا کہ’’اسلام میں سورکاگوشت کھانا حرام ہے‘‘ اورصرف یہی مسئلہ بتاکر اس پراس قدرزوردیا کہ شہنشاہ روس نے غصہ میں آکران کو دربارسے نکلوا دیا اورعیسائی مذہب قبول کرلیا جس کا نتیجہ یہ ہواکہ اس کے ساتھ اس کی قوم کے ۹کروڑ آدمی یکلخت عیسائی ہوگئے اوراسلام لانے سے محروم رہ گئے۔
ہم اپنے دل کی تسلی کے لئے کہہ سکتے ہیں کہ اللہ نے اس کو اوراس کی قوم کو ہدایت نہیں دی توکوئی کیا کرسکتا ہے اوراللہ نے اسلام اس کے مقدرمیں نہیں لکھاتھا تووہ کیسے اس دین برحق کوقبول کرلیتا؟ لیکن کیا واقعی کسی ایسی قوم پر اسلام پیش کرنے کا یہ انداز درست تھا جومائل بہ اسلام بھی ہو؟ اورکیا واقعی دنیا میں اسلام صرف یہی بتانے کے لئے آیا تھا کہ سورکاگوشت کھاناحرام ہے؟ کیا اسلام میں عقائد، احکامات،توحید رسالت، قیامت ،حشرونشر ،جزاوسزا ،اخلاق ومعاملات، اورفلسفہ حیات سے متعلق مکمل رہنمائی موجودنہیں ہے؟ لیکن اس کے لئے ضروری ہے کہ اسلام کے عقائد وفلسفہ سے متعلق مکمل معلومات ہو اوراللہ کی طرف دعوت کا پراز حکمت ومصلحت اور موعظۂ حسنہ کا جوقرآنی طریقہ ہے اس کابھی علم ہو، اسی بے خبری وجہالت کا نتیجہ ہے کہ پوری روسی قوم جس کی آبادی اس وقت بھی ۹کروڑتھی دائرہ اسلام میں داخل ہوتے ہوتے رہ گئی، اوریہ صرف ایک روایتی عالم دین کی غلط فکرکے نتیجہ میں ہوا، جس نے ممکن ہے کسی ایسے ہی مدرسہ سے تحصیل علم کیا ہو جہاں مکمل اسلام کے سمجھنے وسمجھانے اورمعلومات فراہم کرنے پرزورنہ دیا جاتا ہو ،ذراتصور کیجئے کہ اس وقت اگر۹کروڑ آدمی مشرف بہ اسلام ہوگئے ہوتے توآج وہ اسلام کے لئے کتنی بڑی طاقت ہوتے، اسی مسلسل مضمون کی کسی قسط میں ذکر ہواکہ ڈاکٹرامبیڈکر نے اپنے ۲۰؍لاکھ حواریوں کے ساتھ اسلام قبول کرنے کا ارادہ کیا لیکن مسلمانوں کے باہمی اختلافات اورمذہبی چپقلشوں کے بارے میں سن کراس ارادہ سے بازرہا اوربودھ مذہب قبول کرلیا، اسی طرح شہنشاہ روس نے اپنے ۹کروڑحواریوں کے ساتھ اسلام قبول کرنے کا ارادہ کیا لیکن محروم رہ گیا، ایک واقعہ میں جہاں مذہبی عناد اورمسلکی منافرت اس کی ذمہ دارہے تودوسرے واقعہ میں اسلامی تعلیمات کی غلط تعبیر وتشریح اوراسلام کی غلط ترجمانی وپیش کش اس کی ذمہ دارہے جواسلام کے بارے میں جہالت وناواقفیت کانتیجہ ہے اسی لئے ندوۃ العلماء کے بالغ نظر اورنکتہ سنج ونکتہ شناش بانیان نے ندوۃ العلماء کے قیام کے دواہم مقاصد’’ رفع نزاع باہمی‘‘ اور’’اصلاح نصاب‘‘ قراردیا تھا ،روشن ضمیر وروشن خیال ،زمانہ سے باخبر اوروسیع النظر علماء کی تیاری وقت کی کتنی بڑی ضرورت ہے اوراس سے غفلت وبے اعتنائی کس قدرخسارہ کا موجب ہوسکتی ہے اس بات کو سطوربالا میں ذکر اس عبرت ناک واقعہ سے کسی حد تک سمجھا جاسکتا ہے اوریہی وہ چیز تھی جس کا احساس ندوۃ العلماء کے بابصیرت بانیان نے بروقت کرلیاتھا۔
ایسانہیں ہے کہ دینی مدارس کی زبوں حالی کا یہ حال صرف ہندوستان تک محدود رہا ہو اور باقی خطۂ ارض اس سے محفوظ ومامون ہو، بلکہ رونا تواسی بات کا ہے کہ عالم اسلام میں موجودان دینی اداروں کا حال بھی اس سے کچھ مختلف نہ تھا جوحکومت کی سرپرستی میں چل رہے تھے اوران سے بھی وہ توقعات پوری نہیں ہورہی تھیں کہ ان کے فارغین دین ودنیا کا جامع اورقدیم صالح اورجدید نافع کا مرقع ہوں اوراخلاق فاضلہ اور خصائل عالیہ کا دلکش نمونہ، بلکہ وہاں بھی اخلاقی انحطاط، قدروں کے زوال اورپست ہمتی کا وہی عالم تھا کہ ان سے تبلیغ دین کی کسی بہترخدمت کی توقع نہیں کی جاسکتی تھی اورنہ ہی ان سے یہ امید کی جاسکتی تھی کہ وہ توحید کی آواز دنیا کے دوردراز گوشوں تک پہونچا سکیں گے اوران کے ممبرومحراب اعلاء کلمۃ اللہ کی صداؤں سے گونجیں گے۔
یہ حال مصروشام کا بھی تھا اورارض فلسطین کا جسے انبیاء کی سرزمین ہونے کا شرف حاصل تھا اورجہاں کی سرزمین اسلام کے اولین مجاہدین اور غازیان دین اورداعیان اسلام کے والہانہ استقبال اورورود مسعودکی گواہ تھی، اوریہی حال ترکی کابھی تھا جوخلافت اسلامیہ کا آخری حصار اوراسلام کے عروج واقبال کی آخری علامت تھا، علامہ اقبال نے اسی صورت حال پراپنے دردوکرب کااظہار بایں الفاظ کیاہے ؂
سنی نہ مصروفلسطین میں وہ اذاں میں نے
دیا تھا جس نے پہاڑوں کورعشۂ سیماب
وہ سجدہ روح زمین جس سے کانپ جاتی تھی
اسی کو آج ترستے ہیں منبر ومحراب
ندوۃ العلماء کے قیام سے کچھ پہلے علامہ شبلی نعمانی رحمہ اللہ نے مئی ۱۸۹۲ء ؁ میں بعض بلاد اسلامیہ مصروشام ،اردن ولبنان اورترکی وفلسطین وغیرہ کا دورہ کیاتھا، جن میں ترکی اورمصرکے مختلف شہروں میں ان کا نسبتاً طویل قیام رہا تھا، انھوں نے جہاں ان مقامات میں واقع کتب خانوں اوران میں موجود بعض نادر قلمی نسخوں سے استفادہ کیاتھا وہیں ان شہروں میں موجود دینی مدارس کا قریب سے مشاہدہ کیا تھا اوران کی ابتری وزبوں حالی کودیکھ کرانتہائی کبیدہ خاطر بھی ہوئے تھے، بلکہ خون کے آنسو رونے پرمجبور ہوئے تھے،ان کے ہونہار اور قابل شاگرد علامہ سیدسلیمان ندوی رحمہ اللہ نے ان کے دلی احساسات اورقلبی تاثرات کوحیات شبلی میں بایں الفاظ قلمبند کیاہے:
یہاں کے نئے طرز کے اسکولوں اورکالجوں کودیکھ کر مولانا کو جوخوشی ہوئی اسی قدریہاں کے پرانے عربی مدرسوں کو دیکھ کران کو تکلیف ہوئی، بلکہ یہاں تک ان کی رائے ہوئی کہ موجودہ تعلیمی پستی اس حد کو پہونچ گئی ہے کہ اس کے مقابلہ میں ہمارے ہندوستان کی تعلیم غنیمت ہے، خود مولاناکا بیان ہے کہ ’’اس سفر میں جس چیز کا تصورمیری تمام مسرتوں اورخوشیوں کوبرباد کردیتا تھا وہ اس قدیم تعلیم کی ابتری تھی، قسطنطنیہ میں مولانا کے علم کے مطابق عربی اورمذہبی علوم کے طالبان کے رہنے کے حجرے تنگ و تاریک ،صحن مختصر، مکانات بند، ذریعہ آمدنی زکوٰۃ وخیرات ہیں‘‘۔(حیات شبلی ۱۹۸۱ء ؁)
بایں ہمہ مولانا نے ان مدرسوں کودیکھ کر ترکوں کی اس علمی فیاضی کا اعتراف کیا کہ وہ ہرچند کم حیثیت سہی تاہم آج سینکڑوں علمی یادگاروں کا وجود توہے، اور انصاف یہ ہے کہ یہ مدرسے جس زمانہ کی یادگارہیں اس وقت کی تہذیب وتمدن کے لحاظ سے ناموزوں بھی نہیں، ہمارے ہندوستان میں تواس وسعت وفراخی کے ساتھ کہ بجائے خودایک اقلیم ہے حکومت اسلام کی چھ سوسالہ مدت کی ایک علمی یادگاربھی نہیں، اس تفاوت حال کا سبب توظاہر ہے کہ ترکوں کی اسلامی سلطنت باقی تھی(افسوس کہ بیسویں صدی کے اوائل میں ۱۹۲۴ء ؁ میں اس کابھی خاتمہ ہوگیا) اورہندوستان کی اسلامی سلطنتیں بربادہوچکی تھی، بہرحال یہ تودل کے بہلانے کی باتیں ہیں لیکن واقعہ یہ ہے کہ قدیم مدارس کی اس حالت کودیکھ کر ان کو(علامہ شبلی کو) بڑادرد ہوا ۔(حیات شبلی)
مصطفی کمال پاشا کے ہاتھوں ترکی میں خلافت اسلامیہ کا خاتمہ کرکے سیاسی انقلاب برپاکرنا پھرمذہبی وتمدنی انقلاب کے نام پر ملک کوایک لادینی سلطنت بنادینے ،اسلام کو حکومت کامذہب نہ قراردے کر فردکاذاتی معاملہ بنادینے اور اسلامی اقداروروایات کولٹانے اوراسلامی آثار ومعتقدات کو ختم کرنے کی کوششوں میں اس کو جوعدیم المثال کامیابی ملی وہ بھی اسی قدیم تعلیم کی ابتری کانتیجہ تھا،کیونکہ وہ تعلیم ملک اورابنائے وطن کا وہ ذہن ومزاج بنانے اوران کی کردارسازی کرنے میں ناکام رہی جوملک کواسلامی خطوط پرلے جانے اوراس کے اسلامی تشخص کی حفاظت کرنے کے لئے ضروری تھی،عربی زبان ورسم الخط کومٹانے، مائک سے اذان پرپابندی عائد کرنے اورہرقدیم کو مٹاکر ہرجدید کوگلے لگانے کا جوشوق اوروالہانہ وارفتگی جنون کی حد تک مصطفی کمال میں پیدا ہوئی وہ اسی شدید ردعمل کانتیجہ تھی جودینی مدرسوں کی کوتاہ علمی، بے توفیقی اورپست ہمتی کی وجہ سے پیداہواتھا، اس نے یہ فرض کرلیاتھا کہ یہ دینی مدارس ملک وقوم کے لئے کچھ تعمیری خدمات انجام دینے کے بجائے اس کے قوائے ذہنی کوکند کرنے اوراس کو پستی وتنزلی کی طرف لے جانے کا باعث ہیں، اگران مدارس نے اپنافرض ملک کی ضروریات کوسامنے رکھ کر اورزمانہ کے تقاضوں سے ہم آہنگ ہوکر انجام دیا ہوتا اوردین وملت کی سربلندی اوراسلام کی عظمت کے لئے کٹ مرنے والا ایک طاقتورعنصر بنانے کے مقصدپرکاربند ہوا ہوتا تومصطفی کمال جیسے لادین شخص کواپنے مقاصد میں کامیابی نہیں ملی ہوتی جوترکی اورترک قوم کے لئے کتناہی فائدہ مندرہے ہوں لیکن اسلامی نقطۂ نظر سے یہ سراسر خسارہ کا سوداتھا۔
یہ حال صرف ترکی یا قسطنطنیہ کا نہیں تھا، بلکہ مصروشام اورفلسطین ولبنان ہرجگہ اسی بات کا رونا اوراسی تعلیمی ابتری کا نظارہ تھا جومولاناشبلی رحمہ اللہ نے اپنے سفرمصروشام اورزیارت بلاداسلامیہ کے موقع پر کیا، بیروت اورقاہرہ جیسے شہروں میں واقع مدارس کی حالت اس سے بھی ابتر اوردگرگوں تھی، مصرمیں مولانا شبلی کوجس دیارکی زیارت کی سب سے زیادہ آرزو وتمناتھی اورجس میں مولانا کی سب سے زیادہ دلچسپی تھی وہ یقینی طورپر جامعہ ازہر تھا جوپوری دنیا میں مسلمانوں کی سب سے قدیم دانش گاہ اور ان کی عظمت رفتہ کا نشان تھا، لیکن سب سے زیادہ تکلیف ان کو اسی کی زیارت سے ہوئی، انھوں نے وہاں جامع ازہرمیں ایک ماہ سے زیادہ قیام کیااور اس کی سرگرمیوں اورنشاطات کابہت قریب سے مشاہدہ کیا اوروہ جس نتیجہ پرپہونچے اس کااظہار انھوں نے ان الفاظ میں کیا:
’’مجھ کواپنے تمام سفرمیں جس قدرجامعہ ازہرسے مسلمانوں کی بدبختی کا یقین ہواکسی اورچیز سے نہیں ہوا، ایک ایسا دارالعلوم جس میں دنیا کے ہرحصہ کے مسلمان جمع ہوں جس کا سالانہ خرچ دوتین لاکھ سے کم نہ ہو جس کے طالب علموں کی تعداد ۱۲ہزار سے متجاوز ہو( اخراجات کے اعدادوشمار یا تخمینہ اورطلباء کی تعداد تقریباً سوا سوسال پہلے کی ہے جوآج جامعہ ازہرکے مصارف کڑوروں سالانہ ہیں اورطلباء کی تعداد پچاس ہزار سے زائد ہے) اس کی تعلیم وتربیت سے کیا کچھ امیدیں نہیں ہوسکتیں تھیں، لیکن افسوس کہ بجائے فائدہ پہونچانے کے لاکھوں مسلمانوں کوبرباد کرچکا ہے اورکرتا جاتا ہے، تربیت ومعاشرت کا جوطریقہ ہے اورجس کامیں ابھی ذکرکرچکا ہوں اس سے حوصلہ مندی بلند نظری ،جوش وہمت غرض کہ تمام شریفانہ اوصاف کا استیصال ہوجاتا ہے میں نے یہاں ایسے طلباء دیکھے جن کے عزیز اورنہایت قریبی عزیز(چچا ماموں وغیرہ) خوداسی شہرمیں بڑے بڑ ے معزز عہدوں پرفائز ہیں اوران کی تمام ضروریات کے متکفل بھی ہیں تاہم چونکہ طلباء ازہرمیں رہتے ہیں اس لئے ان کو بازارمیں ہاتھ پھیلاکر روٹیاں لیتے ذرا بھی شرم نہیں آتی، طالب علموں کی دنائت اورپست حوصلگی کا یہ حال ہے کہ بازار میں چندپیسے کی ترکاری بھی خریدتے ہیں توسبزی فروش کو قسم دلاتے جاتے ہیں ’’برأس سیدنا الحسین‘‘ یعنی تجھ کو ہمارے سردارحسین کے سرکی قسم واجبی قیمت بتلانا، کیااس قسم کے تربیت یافتہ لوگوں سے یہ امید کی جاسکتی ہے،کہ وہ اسلام کی عظمت وشان بڑھائیں گے، ہمارے ملک میں اس طرح کے جومدرسے ہیں ازہر ان سے بھی گیا گزراہے‘‘۔ (حیات شبلی مولفہ مولاناسید سلیمان ندوی ۱۸۸،مطبوعہ دارالمصنفین شبلی اکیڈمی اعظم گڈھ)
صرف اسی پربس نہیں بلکہ طلباء کی خود داری وحوصلہ مندی پرضرب کاری لگانے کے لئے ازہرمیں یہ طریقہ بھی اختیار کیاگیا تھا،کہ طلباء کو دارالعلوم کی جانب سے صرف روٹیاں ملتی تھیں، سالن نہیں، طلباء بھک منگوں کی طرح بغیر کسی برتن یارومال کے یہ روٹیاں ہاتھ پھیلاکر حاصل کرتے تھے، پھرانھیں میں سے کچھ روٹیاں نان بائی کے ہاتھ چند پیسوں میں بیچ کراس کا سالن خریدتے تھے، نان بائی یاسالن بیچنے والوں کی دوکانیں مسجد کے باہرہی بازار میں تھیں، بھکاریوں اوربے وقعت فقیروں کی طرح بازارمیں دورویہ بیٹھ کرروٹیوں کے حصول وفروخت کا یہ دل گداز منظر روز کاہوتا تھا،جوشاید ارباب مدارس ان کی دینی غیرت بلکہ انسانی عظمت وخودداری کا خاتمہ کرنے کے لئے ضروری سمجھتے رہے ہوں، لیکن اس طرح کے برتاؤ کے بعدکیا طلبائے مدارس کے اندروہ بلند نظری وعلوہمتی اوروہ خودداری اوربلند حوصلگی پیداہوسکتی ہے جودنیا میں بڑے کام انجام دینے اوربڑے بڑے معرکے سرکرنے کے لئے ضروری ہیں،یہی وجہ ہے کہ ان طلباء نے وہ مطلوبہ نتائج کبھی نہیں دئے جن کی ان سے بلاوجہ توقع کی جاتی تھی اور اسی تعلیم اورتربیت اوردین کے تقاضوں سے ناواقفیت کانتیجہ تھا کہ قوم مسلم پوری دنیا میں تخلف وپسماندگی اورزوال وادبارکی شکارہوتی چلی گئی، آج بھی ہندوستان وبرصغیر میں بعض دینی مدارس کایہی ماحول ہے اوراس کا مشاہدہ ان مدارس میں بخوبی کیاجاسکتا ہے جہاں قدیم نظام تعلیم وتربیت رائج ہے، ارباب مدارس سمجھتے ہیں کہ طلباء کی ذہنی وجسمانی صلاحیتوں کوتباہ کرکے اوران کی بلند ہمتی کو پست ہمتی میں تبدیل کرکے ان طلباء کو زیادہ کا رآمد اورمفید بنایاجاسکتا ہے اوران سے زیادہ بہترخدمت لی جاسکتی ہے ،اسی لئے قدم قدم پران کی نفس کشی بلکہ کردار کشی کی جاتی ہے اوران کے حوصولوں کومہمیز کرنے کی بجائے ان کے حوصلوں کوطرح طرح کے حربوں کے ذریعہ پست کرنے کی کوشش کی جاتی ہے ،حالانکہ حکیم مشرق کے الفاظ میں میرکارواں کا توشہ ہوناچاہئے ؂
نگہ بلند، سخن دلنواز، جاں پرسوز
یہی ہے رختِ سفرمیرکارواں کے لئے
جامعہ ازہر کودیکھ کر مولاناشبلی نے جس قلق واضطراب اورجس دلی کرب واذیب کا اظہارکیا تھا اسی کا نتیجہ تھاکہ جامعہ ازہرکے نصاب اورانداز تعلیم وتربیت میں اصلاحات کی تحریک ان کے سفرقاہرہ کے بعدچلائی گئی اوراس کے نصاب ونظام میں بہت کچھ اصلاح وترمیم کا کام کیاگیا، علامہ رشید رضامصری نے اس کے لئے اپنے زیر ادارت شائع ہونے والے مجلہ’’المنار‘‘ میں اس پرمسلسل مضامین لکھے اوراپنی اصلاحی تحریک کی افادیت اوراس کی تائید وحمایت کے لئے دنیائے اسلام کی جن تین اہم شخصیات کے نام انھوں نے پیش کئے اوران کا حوالہ دیا انھیں میں ایک نام مولانا شبلی کا بھی تھا جودین ودنیا کے جامع ہونے کے ساتھ ایک مستند ماہرتعلیم اور ملت کے نبض شناس بھی تھے،آج جامعہ ازہر اپنی بعض خامیوں یاکمیوں کے باوجود یہ حیثیت رکھتا ہے کہ پوری دنیا کے مسلمان اپنی تعلیم کے حوالہ سے بجاطورپر اس پرناز کرسکتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ موجودہ امریکی صدربراک حسین اوبامہ نے جب پوری دنیا کے مسلمانوں کومخاطب کرکے دنیائے اسلام اوردنیائے عیسائیت کے درمیان پنپ رہی غلط فہمی یابڑھ رہی دوری کا ازالہ کرنا چاہا تو انھیں جامعہ ازہر سے بہترپلیٹ فارم اس کے لئے نہیں ملا۔
جامعہ ازہرمیں توبہت کچھ اصلاحات کاعمل ہوگیا ،لیکن کیا ہندوستان کے بعض دینی مدارس اس پرغورکرنے کی ضرورت سمجھیں گے ؟یہ تونہیں کہاجاسکتا کہ یہ مدارس آج بھی اسی ہٹ دھرمی کی روش پرقائم ہیں اورنصاب تعلیم میں کسی طرح کی ترمیم انھیں منظورنہیں کیونکہ جوانگریزی زبان کسی زمانہ میں وہاں شجر ممنوعہ تھی وہ بھی اب داخل نصاب ہے اورتاریخ عالم اورجغرافیہ وریاضی جیسے مضامین بھی کسی حد تک پڑھائے جارہے ہیں، لیکن ابھی بھی طریقہ درس اورنظام تربیت میں مزید اصلاحات کی ضرورت ہے ،جوطلباء کی صلاحیتوں کوغلط سمت میں ضائع کرنے کی طرف لے جاتا ہے اوران سے وہ تعمیری کام نہیں ہوپاتا جس کی آج حقیقی ضرورت ہے۔(جاری)
***

انبیاء کرام کا دعوتی منہج اوراسلوب march 2011

عبدالمنان سلفیؔ
انبیاء کرام کا دعوتی منہج اوراسلوب
چونکہ دعاۃ و مبلغین انبیاء کرام علیہم السلام کے دعوتی مشن کے امین ہیں اس لئے کاردعوت کی انجام دہی کے لئے ضروری ہے کہ وہ انبیاء کرام کا اسوہ ونمونہ اپنے پیش نظر رکھیں ،خصوصاً امام الانبیاء، سیدالمرسلین جناب محمدرسول اللہ ﷺ کے اسلوب دعوت کو حرز جان بنائیں جنھیں ساری دنیائے انسانیت کے لئے رحمۃ للعالمین بناکر مبعوث کیاگیا اوربشیرونذیر قراردے کرتمام بنی نوع انسان کو اللہ کے دین کی جانب دعوت کی ذمہ داری آپ کو دی گئی :(یَآ اَیُّھَا النَّبِیُّ اِنَّا اَرْسَلْنَاکَ شَاھِدَاً وَّمُبَشِّرَاً وَّنَذِیْرَاً وَّدَاعِیَاً اِلَی اللّٰہِ بِاِذْنِہٖ وَسّرَاجَاً مُّنِیْرَاً)(الأحزاب:۴۵،۴۶)(ترجمہ: اے نبی! یقیناہم نے آپ کو (رسول بناکر) گواہیاں دینے والا،خوشخبریاں سنانے والا، آگاہ کرنے والا بھیجا ہے اور اللہ کے حکم سے اس کی طرف بلانے والا اور روشن چراغ) اورپھراس فرمان باری کے ذریعہ تمام احکام کی بندوں تک تبلیغ آپ کے ذمہ کی گئی: (یَآاَیُّھَاالرَّسُوْلُ بَلِّغْ مَآاُنْزِلَ إِلَیْکَ مِنْ رَّبِّکَ فَإِنْ لَّمْ تَفْعَلْ فَمَا بَلَّغْتَ رِسَالَتَہٗ وَاللّٰہُ یَعْصِمُکَ مِنَ النَّاسِ)(المائدۃ: ۶۷)(ترجمہ: اے رسول! جو کچھ بھی آپ کی طرف آپ کے رب کی جانب سے نازل کیا گیا ہے‘ پہنچادیجئے، اگر آپ نے ایسا نہ کیا تو آپ نے اللہ کی رسالت ادا نہیں کی، اور آپ کو اللہ تعالی لوگوں سے بچائے گا) ۔
پھرنبی اکرمﷺ نے تقریباً ۲۳؍برس کا زمانہ فریضۂ دعوت وتبلیغ میں پورے اخلاص اورتندہی کے ساتھ صرف کیا اوردین کی ہرچھوٹی بڑی بات اللہ کے بندوں تک پہونچادی، اور دین آپ کے ذریعہ مکمل ہوگیا، بالآخرنبی اکرمﷺ نے فرمایا’’إنی قد ترکتکم علی المحجۃ البیضاء لیلھا کنھارھا لایزیغ عنھا إلا ھالک‘‘یعنی میں تمھیں روشن شاہراہ پر چھوڑے جارہا ہوں ،اس کی راتیں بھی اس کے دن کی مانند روشن ہیں۔ اور حجۃ الوداع کے موقعہ پر جب صحابہ کرامث کے جم غفیر کو مخاطب کرکے نب ی کریمﷺ نے ان سے سوال کیا کہ’’اَلا ھل بلَّغتُ؟‘‘ یعنی کیا میں نے دین تم تک پہنچادیا؟ توسارے صحابہ کرام نے بیک زبان اقرارکرتے ہوئے جواب دیا’’بلیٰ قدبلَّغتَ وأدّیتَ ونَصَحْتَ‘‘جی ہاں!کیوں نہیں، آپ نے دین ہم تک بلا کم و کاست پہونچادیا، فریضۂ تبلیغ اداکردیا اور خیر خواہی فرمائی۔ اور اس لئے ہرداعی إلی اللہ کے لئے ضروری ہے کہ وہ امام الانبیاء ،سیدالرسل اورداعی اعظم کی زندگی کواپنے داعیانہ عمل کے لئے اسوہ اورنمونہ قراردے کرمنہج، اسلوب اورطرق ووسائل میں آپ کا تتبع کرے تاکہ داعی کی دعوتی کاوش ثمربار اورنتیجہ خیز ثابت ہوسکے ورنہ اس کے بغیردعوت کے میدان میں کامیابی ناممکن ہے۔
نبی کریمﷺ نے دعوت وتبلیغ کے سلسلہ میں جومنہج، اسلوب اورطریقہ اختیار کیا ان سب کی رہنمائی من جانب اللہ تھی اور نبی کریمﷺ نے انھیں امورپراپنی دعوت کی بنیاد رکھ کر مخلصانہ کوشش فرمائی، بالآخر آپ کی دعوت نتیجہ خیز اورکامیاب ہوئی۔
قرآن کریم کامطالعہ کرنے سے یہ اندازہ بہ آسانی کیاجاسکتا ہے کہ مختلف سورتوں میں جابجا نبی کریمﷺ کودعوتی آداب اوراسالیب بتائے گئے ہیں اورطرق وسائل کی جانب آپ کی بھرپور رہنمائی فرمائی گئی ہے، اس لئے اس تعلق سے واردآیات کریمہ کو سامنے رکھے بغیر اس موضوع پر گفتگو تشنہ رہے گی، لہذا میں نے داعی کے اوصاف واخلاق اوردعوتی اسالیب وطرق کی وضاحت کے سلسلہ میں نبی کریمﷺ کی احادیث مبارکہ اورآپ کے اسوۂ حسنہ کے ساتھ ان آیات کوبھی اپنے پیش نظررکھاہے ۔
بصیرت وعلم:۔قرآن کریم میں نبی کریمﷺ کی زبان سے یہ اعلان کرایاگیا کہ : (قُلْ ھٰذِہٖ سَبِیْلِیٓ اَدْعُو إِلَی اللّٰہِ عَلٰی بَصِیْرَۃٍ اَنَا وَمَنِ اتَّبَعَنِی وَمَا اَنَا مِنَ المُشْرِکِیْنَ)(یوسف:۱۰۸)(آپ کہہ دیجئے کہ میری راہ یہی ہے۔میں، اورمیرے فرمان بردار اللہ کی طرف بلارہے ہیں،پورے یقین اوراعتماد کے ساتھ اوراللہ پاک ہے اورمیں مشرکوں میں نہیں)معلوم ہوا ہے اللہ کے راستہ کی جانب دعوت کے لئے علم وبصیرت اور اس کے ساتھ اس دعوت کی صداقت پرکامل یقین ضروری ہے۔
امام بخاری رحمہ اللہ نے اپنی صحیح کے اندرفرمان باری(فاعلم أنہ لا إلہ إلا اللہ)سے استدلال کرتے ہوئے باب باندھا کہ ’’باب العمل قبل القول والعمل‘‘گویا قول یعنی دعوت اور عمل سے پہلے علم کی ضرورت ہے۔
ہمارے نبیﷺ جس دین کی طرف لوگوں کو بلارہے تھے اس کی صداقت وحقانیت پرآپ کومکمل یقین تھا اس کا انداز داعی اعظم ﷺ کے اس جواب سے بخوبی کیاجاسکتا ہے کہ جب سرداران مکہ نے ایک موقعہ پر آپ کے چچا ابوطالب پردباؤ ڈالا توچچا متاثر ہوئے بغیر نہ رہے اورکہہ بیٹھے کہ’’ بیٹے! میرے اوپر میری طاقت سے زیادہ بوجھ نہ لادو‘‘توآپ غمزدہ ہوگئے اورآپ کو یہ ظاہری سہارا بھی خطرہ میں نظرآیا، مگراس نازک موقع پرآپ نے پورے اعتماد ووثوق سے کہا’’یا عم واللہ لووضعوا الشمس فی یمنی والقمرفی یسری علی أن أترک ھذا الأمر حتی یظہرہ اللہ أو أھلک فیہ ماترکتہ‘‘(یعنی اے میرے چچا جان، اللہ کی قسم اگریہ لوگ میرے داہنے ہاتھ میں سورج اوربائیں میں چاند بھی رکھ دیں تاکہ میں اس کارِ دعوت سے رک جاؤں تومیں کبھی اپنی دعوت بند نہیں کرسکتا،یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ اسے غلبہ عطا فرمادے یا اس راستہ میں میری جان ہی چلی جائے)(سیرت ابن ہشام)
اس واقعہ میں داعی کے لئے یہ سبق بھی مضمر ہے کہ حالات کتنے ہی ناسازگار کیوں نہ ہوجائیں ایک مخلص داعی کو کبھی بھی نہ دل برداشتہ ہوناچاہئے اور نہ ہی اپنے فریضہ سے غافل ہونا چاہئے۔
حکمت ،موعظۂ حسنہ اورمجادلۂ احسن:۔ دعوتی اسلوب کی جانب رہنمائی فرماتے ہوئے نبی ﷺ کو حکم دیاگیا کہ(اُدْع إِلٰی سَبِیْلِ رَبِّکَ بِالحِکْمَۃِ وَالمَوْعِظَۃِ الحَسَنَۃِ وَجَادِلْھُمْ بِالَّتِی ھِیَ اَحْسَنُ)( اپنے رب کی راہ کی طرف لوگوں کو حکمت اور بہترین نصیحت کے ساتھ بلایئے اوران سے بہترین طریقہ سے گفتگو کیجئے) (النحل:۱۲۵)یہ آیت کریمہ کار دعوت کے لئے ا صل الاصول کی حیثیت رکھتی ہے جس میں نبی کریمﷺ کو یہ ہدایت کی گئی ہے کہ دعوتی فریضہ کی انجام دہی میں حکمت، موعظۂ حسنہ اورجدال أحسن کا طریقہ اختیار کیجئے۔
گوکہ لفظ حکمت کے متعددمعانی علماء ومفسرین نے ذکرکئے ہیں تاہم ان تمام معانی میں جو مفہوم قدرے مشترک کے طورپرپایاجاتا ہے وہ یہ ہے کہ ’’وضع الأشیاء فی مواضعھا‘‘یعنی مناسب اسلوب اورلب ولہجہ میں اپنی دعوت مدعو کے سامنے پیش کرنا کہ وہ متنفرہونے کے بجائے اس سے متاثرہوجائے۔
موعظۂ حسنہ اورجدال احسن یہ دونوں بھی حکمت کے وسیع مفہوم میں داخل ہیں ،مگرمزید وضاحت کے مقصدسے اوران کی اہمیت دوبالاکرنے کے لئے ان کاذکرعلیحدہ بھی کیاگیا۔
موعظۂ حسنہ کامطلب یہ ہے کہ مخاطب اورمدعو سے ایسے اسلوب اورلب ولہجہ میں گفتگو کی جائے کہ اس کا دل نرم پڑجائے اوروہ خیرقبول کرنے کے لئے آمادہ بھی ہوجائے، موعظۂ حسنہ اللہ کی نعمتوں کی تبشیر وعذاب الٰہی سے انذار کے ذریعہ بھی ممکن ہے۔
جدال احسن کامفہوم یہ ہے کہ مدعو کے شکوک وشبہات عقلی ونقلی دلائل سے دور کئے جائیں، اپنی دعوت کی تائید میں واضح دلیلیں پیش کی جائیں اوراس موقعہ پربیجا شدت سے احتراز کیاجائے۔
حکمت کامفہوم سمجھنے کے لئے اس واقعہ سے بخوبی رہنمائی مل رہی ہے ،ایک صحابی نے آپ ﷺ سے زنا کی اجازت مانگی تھی اورآپ ﷺ نے بڑی حکمت کے ساتھ انھیں سمجھادیا اورفرمایا کہ ٹھیک ہے، کیا تم اپنی ماں ،خالہ، پھوپھی اور بہن وغیرہ سے یہ بیہودہ حرکت کرسکتے ہو؟ صحاب�ئ رسول نے کہا ہرگز نہیں ،کیا کوئی اپنی ماں، خالہ بہن وغیرہ سے بدکاری کرسکتا ہے،؟ اس پر آپﷺ نے فرمایا آخر جس سے تم زنا کروگے وہ بھی توکسی کی ماں، خالہ،بہن اوربیٹی وغیرہ ہی ہوگی، پھرآپ ﷺنے ان کی عصفت وعفت کی حفاظت کے لئے دعا دی ،نبی کریمﷺ نے اپنی دعوت میں ان اصولوں کاپورا لحاظ رکھا اور مکمل حکمت ودانائی سے آپﷺ نے لوگوں کواللہ کے دین کی طرف بلایا، اس لئے ہرداعی کے لئے ضروری ہے کہ وہ نبی کریمﷺ کی اقتداء کرتے ہوئے دعوت کے ان بنیادی اصولوں پرضرور توجہ دے۔
مدعو کے ساتھ خیرخواہی:۔ نبی کریمﷺ لوگوں کی ہدایت کے لئے بڑے حریص اورفکرمند رہتے تھے، قرآن کریم کی متعدد آیات میں آپ کی اس فکرمندی کاتذکرہ آیا ہے مثلا(فَلَعَلَّکَ بَاخِعٌ نَّفْسَکَ عَلٰیٓ آثَارِھِمْ إِنْ لَّمْ یُؤْمِنُوْا بِھٰذَا الحَدِیْثِ اَسَفًا)(پس اگر یہ لوگ اس بات پر ایمان نہ لائیں توکیا آپ ان کے پیچھے اس رنج میں اپنی جان ہلاک کرڈالیں گے) (کہف:۶) (فَلَعَلَّکَ بَاخِعٌ نَّفْسَکَ اَنْ لاَّ یَکُوْنُوْا مُؤمِنِیْنَ)(ان کے ایمان نہ لانے پرشاید آپ تواپنی جان کھودیں گے) (الشعراء:۳)(فَلاَ تَذْھَبْ نَفْسَکَ عَلَیْہِمْ حَسْرَاتٍ إِنَّ اللّٰہَ عَلِیْمٌ بِمَا یَصْنَعُوْنَ)(پس آپ کو ان پرغم کھاکھاکر اپنی جان ہلاکت میں نہ ڈالنی چاہئے)(فاطر:۸)
اس لئے ہرداعی کے اندرمدعو کے لئے خیر خواہی کا جذبہ ہوناچاہئے اوراسے ان کی ہدایت کی فکرہمہ وقت ہونی چاہئے۔
نرم خوئی، شفقت، رأفت ورحمت اوراخلاق عالیہ :۔نبی کریمﷺ کی شان میں اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:(وماارسلناک إلا رحمۃ للعالمین) (الأنبیاء:۱۰۷)( ہم نے آپ کو تمام جہاں والوں کے لئے رحمت بناکر بھیجا)چنانچہ عالمین کے لئے آپ کی رافت ورحمت کے مظاہر آپ کی سیرت طیبہ میں بکھرے پڑے ہیں،مثلاً:
*مشرکین کی جانب سے ہزار تکلیفیں اور مصیبتیں جھیلنے کے باوجود ان کے لئے بددعانہ کرنا اسی رحمت کا حصہ تھا۔
*طائف میں آپ کو ستایا گیا،اللہ کے حکم سے فرشتے اہل طائف کو عذاب دینے کے لئے حاضرہوئے ،مگرآپ نے رحمت کا مظاہرہ کرتے ہوئے اہل طائف کو معاف کردیا۔
*ہجرت کے موقعہ پر انعام کی لالچ میں سراقہ بن مالک نے آپ کا تعاقب کرکے آپ کے اوپرحملہ کرنا چاہا مگر ناکامی ہوئی پھرسراقہ کو آپ کی صداقت کا علم ہوگیا، امان طلب کی، آپ نے انھیں معاف کردیا، پھروہ مشرف بہ اسلام ہوگئے۔
*اپنے محبوب چچا حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کے قاتل وحشی بن حرب کو فتح مکہ کے موقعہ پر معاف فرمادیا، حالانکہ چچا کے قتل پرآپ کو بے حدصدمہ ہواتھا۔
*فتح مکہ کے موقعہ پر آپ نے عام معافی کااعلان کیا ’’لاتثریب علیکم الیوم فاذھبوا أنتم الطلقاء‘‘یعنی آج تمہارے خلاف کوئی داروگیرنہیں ہے، جاؤتم سب آزاد ہو،فتح مکہ ہی کے دن جب بعض صحابہ رضی اللہ عنہم نے انتقام کی بات کہی اوراعلان کیا ’’الیوم یوم الملحمۃ‘‘یعنی آج خون بہانے کا دن ہے ،توآپ نے اس کے جواب میں فرمایا’’الیوم یوم المرحمۃ‘‘آج رحم وکرم کادن ہے۔
*صحیح مسلم ’’کتاب البرباب النھی عن لعن الدوابّ‘‘میں آپ ﷺکا فرمان ہے’’إنی لم أبعث لعّانا وانما بعثت رحمۃ‘‘یعنی میں لعنت کرنے والا بناکرنہیں بھیجا گیا ہوں میں تورحمت بناکر مبعوث کیا گیا ہوں،نیز آپ ﷺنے فرمایا’’إنما أنا رحمۃ مھداۃ‘‘یعنی میں رحمت مجسم بن کرآیا ہوں جواللہ کی طرف سے اہل جہاں کے لئے ایک ہدیہ ہے۔ (صحیح الجامع الصغیر رقم:۲۳۴۵)’’عن انس قال قال النبی ﷺ یسّروا ولا تعسروا بشروا ولاتنفروا‘‘یعنی تم آسانی پیداکرو سختی نہ کرو، خوش خبری دونفرت نہ پھیلاؤ۔
نبی کریمﷺ کی دعوت کی کامیابی آپ کی بے مثال شفقت ورحمت کی مرہون منت ہے جیساکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:(فَبِمَا رَحْمَۃٍ مِّنَ اللّٰہِ لِنْتَ لَھُمْ وَلَوْکُنْتَ فَظَّاً غَلِیْظَ الْقَلْبِ لَانْفَضُّوْا مِنْ حَوْلِکَ ،فَاعْفُ عَنْھُم وَاسْتَغْفِرْلَھُمْ وَشَاوِرْھُمْ فِی الأَمْرِ فَاِذَاعَزَمْتَ فَتَوَکَّلُ عَلَی اللّٰہِ إِنَّ اللّٰہَ یُحِبُّ الْمُتَوَکِّلِیْنَ)(یعنی اللہ تعالیٰ کی رحمت کے باعث آپ ان پر نرم دل ہیں، اوراگر آپ بدزبان اورسخت دل ہوتے تویہ سب آپ کے پاس سے چھٹ جاتے، سوآپ ان سے درگذرکریں اوران کے لئے استغفار کریں اورکام کا مشوردہ ان سے کیا کریں، پھرجب آپ کا پختہ ارادہ ہوجائے تواللہ تعالیٰ پر بھروسہ کریں، بیشک اللہ تعالیٰ توکل کرنے والوں سے محبت کرتاہے) (آل عمران:۵۹)
رافت ورحمت، عفوودرگذر اورمدعوکے لئے ہمدردی وغم گساری دعوت کی کامیابی کے بنیادی شرائط میں سے ہیں،اس آیت کریمہ میں نبی کریمﷺ کو دعوت کے باب میں مسلمانوں سے مشورہ اورصحیح نتیجہ پر پہونچنے کے بعد اللہ کے اوپر توکل کاحکم دیاگیا ہے، دعاۃ کویہ نکتہ بھی اپنے پیش نظررکھنا چاہئے، عامۃ المسلمین سے مشورہ کے بعدکاردعوت انجام دینے پر اس کے بہتر نتائج برآمدہونے کی توقع ہے۔
عفوودرگذرکی چند مثالوں کی جانب اشارہ کیا گیا، کچھ اورواقعات سے یہ دعوتی اسلوب مزید واضح ہورہا ہے۔
*واقعہ ،ثمامہ بن أثال: ثمامہ یمامہ کے حاکم تھے،قبل ازاسلام رسول اللہ ﷺ سے سخت بدگمان تھے اورانھیں آپ ﷺ سے شدید نفرت تھی، لیکن گرفتار ہونے کے بعد جب مسجد نبوی کے ایک ستون سے انھیں باندھاگیا اور چند دنوں تک انھوں نے آپ کے اخلاق کا قریب سے مشاہدہ کیا تومتاثرہوئے بغیرنہ رہ سکے ،اللہ کے رسول ﷺ آتے جاتے ان کی خیریت دریافت فرماتے،ایک دن آپ نے سوال فرمایا کہ ثمامہ کیا حال ہے؟ تمھیں اپنے بارے میں کیا امید ہے ؟ثمامہ نے جواب دیاکہ’’إن تقتل تقتل ذادم وإن تنعم تنعم علی شاکر‘‘آپ ﷺ نے ان کے رہائی کا حکم دیا پھروہ ایمان لائے اورمحبت وعقیدت سے بھرپور جملے کہے کہ اے اللہ کے رسول! آج سے پہلے اس روئے زمین پر میری نظرمیں آپ سے زیادہ مبغوض اورناپسندیدہ کوئی نہ تھا مگر اب آپ کی شخصیت میرے دل میں روئے زمین پر سب سے زیادہ محبوب ہے ۔
*ایک دیہاتی کے مسجدنبوی میں پیشاب کاواقعہ:۔
یہ واقعہ بڑا مشہورہے کہ ایک بار مسجد کے آداب وفضائل سے ناواقف ایک دیہاتی صحابی مسجد نبوی میں آئے ،انھیں پیشاب کی حاجت محسوس ہوئی اوربلاتکلف مسجد کے گوشہ میں بیٹھ کرپیشاب کرنے لگے، صحابہ کرام کی نظرپڑی توانھوں نے ڈانٹ ڈپٹ شروع کی ،مگراللہ کے نبیﷺ نے سب کوخاموش کیا اورفرمایا :’’دعوہ واھریقوا علی بولہ ذنوباً من ماء أوسجلا من ماء فإنما بعثتم میسرین ولم تبعثوا معسرین‘‘۔یعنی انھیں فارغ ہولینے دو اورپیشاب کی جگہ ایک ڈول پانی ڈال دو اس لئے کہ تم آسانی پیداکرنے واے بناکربھیجے گئے ہونہ کہ سخت گیر اورشدت پسند، پھرآپ نے اعرابی صحابی کوبڑی نرمی سے بتایا یہ مسجدیں نماز اوراللہ کے ذکرکے لئے بنائی گئی ہیں ،ان میں پیشاب پائخانہ مناسب نہیں ہے۔
عفوودرگزرکی ایک اورمثال:
*حضرت جابررضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ ہم نجد کی جانب رسول اللہﷺ کے ساتھ غزوہ میں نکلے ،سفرکے دوران ایک جگہ دوپہر کوپڑاؤ ڈالاگیا ،لوگ چھوٹے چھوٹے جنگلی درختوں کے سایہ میں پھیل گئے ،نبی کریمﷺ نے ایک درخت پراپنی تلوار لٹکادی اورآرام فرمانے لگے، اتنے میں ایک کافرآیا اورآپ کی تلوار ہاتھ میں لے کر کرخت لہجے میں گویا ہوا’’من یمنعک منی؟یعنی اب آپ کومجھ سے کون بچائے گا؟اللہ کے رسول ﷺ نے بڑے اطمینان سے فرمایااللہ،پھرتلواراس کے ہاتھ سے چھوٹ کرگرگئی ، آپ ﷺنے تلوار اٹھالیا اورصحابہ کرام کواس حادثہ سے باخبرکیامگرآپ نے اس گستاخ کافرکو کوئی سزانہ دی،صحیح بخاری میں حضرت جابرکے الفاظ ہیں:’’ ثم لم یعاقبہ‘‘(متفق علیہ) (جاری)

نیپال میں قادیانیت اوراس کا تدارک march 2011

مولانا مطیع اللہ حقیق اللہ مدنی
استاد مدرسہ خدیجۃ الکبریٰ کرشنانگر

نیپال میں قادیانیت اوراس کا تدارک

اللہ تعالیٰ نے دنیا میں انسانیت کی ہدایت ورہنمائی اوردعوت الی الحق کے لئے بہت سے انبیاء ورسل کومبعوث فرمایا،ذریت آدم میں دس صدیوں کے بعدجب شرک کاظہورووقوع ہوا تودعوت توحیدکے لئے اپنا پہلا رسول بناکرنوح علیہ السلام کوبھیجا اس کے بعدانبیاء ورسل کا ایک تسلسل رہا، مختلف قوموں میں اللہ تعالیٰ اپنے مختلف نبیوں اوررسولوں کوان کی ہدایت کے لئے بھیجتا رہا، یہاں تک کہ انبیاء ورسل کے اس زریں سلسلہ کومحمدبن عبداللہﷺ کوخاتم النبین بناکرانھیں پرختم کردیا۔
محمدﷺ پرختم نبوت کاعقیدہ واضح اسلامی عقائد میں سے انتہائی اہم ترین عقیدہ ہے اس پرقرآن کریم، احادیث نبویہ صحیحہ اوراجماع امت کی دلیلیں بصراحت دلالت کرتی ہیں جس میں کوئی خفا وغموض نہیں ہے۔
قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتاہے:(ماکان محمد أباأحد من رجالکم ولکن رسول اللہ وخاتم النبین وکان اللہ بکل شئی علیما)(الأحزاب:۴۰)
ختم نبوت محمد ﷺ پردلالت کرنے والی احادیث صحیحہ میں سے بعض احادیث ملاحظہ فرمائیں: ’’قال رسول اللہﷺ کانت بنوإسرائیل تسوسھم الأنبیاء کلما ھلک نبی خلفہ نبی آخر وأنہ لانبی بعدی وسیکون خلفاء فیکثرون‘‘بنواسرائیل کی سیاست وقیادت اوررہنمائی انبیاء کرتے تھے، جب کسی نبی کاانتقال ہوجاتا کوئی دوسرانبی اس کا جانشین قرارپاتا، یادرہے میرے بعدکوئی بھی اوردیگر نبی نہیں ہوگا، ہاں خلفاء رسول ہوں گے اوروہ خوب زیادہ ہوں گے۔
’’عن أبی ھریرۃ قال قال رسول اللہﷺ وإنہ سیکون فی أمتی کذابون ثلاثون کلھم یزعم أنہ نبی وأنا خاتم النبین لانبی بعدی‘‘میری امت میں تیس کذاب بڑے ظاہرہوں گے،ان میں سے ہرایک کا گمان ہوگا کہ وہ نبی ہے، میں ہی خاتم النبین ہوں میرے بعدکوئی اورنبی نہیں ہوگا۔
’’عن أبی ھریرۃ عن النبی ﷺ قال: مثلی ومثل الأنبیاء کمثل رجل بنی بنیانا فأحسنہ وأجملہ فجعل الناس یطیفون بہ یقولون مارأینا بنیانا أحسن من ھذا إلا ھذہ اللبنۃ فکنت أنا اللبنۃ‘‘میری اورانبیاء کی مثال اس شخص کی طرح ہے جس نے ایک عمارت بنائی اسے حسین وجمیل بنایا لوگ اس کے گردچکرلگانے لگے اورکہنے لگے کہ ہم نے ا سے حسین عمارت نہیں دیکھی مگر یہ اینٹ (کیوں نہ لگائی گئی؟)میں ہی اینٹ ہوں۔(رواہ مسلم)
’’عن جابر عن النبیﷺ قال: مثلی ومثل الأنبیاء کمثل رجل بنی داراً فأتمھا وأکملھا إلا موضع لبنۃ فجعل الناس یدخلونھا ویتعجبونھا منھا ویقولون لولاموضع اللبنۃ قال رسول اللہﷺ فأنا موضع اللبنۃ جئت فختمت الأنبیاء‘‘جابر سے مروی ہے نبیﷺ نیفرمایا: میری مثال اورانبیاء کی مثال اس آدمی کی سی ہے جس نے ایک گھرکی تعمیرکی، اسے پوراکیا اورکامل بنایامگر ایک اینٹ کی جگہ(باقی رکھا) لوگ اس گھرمیں داخل ہونے لگے۔ اس پرتعجب کرنے لگے اورکہنے لگے۔اینٹ کی جگہ کیو ں نہیں (پُرکی گئی)رسول اللہﷺ نے فرمایا:میں ہی اینٹ کی جگہ ہوں میں آگیا میں نے انبیاء پرمہر لگادی ہے۔(رواہ مسلم)
اسلامی تاریخ کے مختلف ادوارمیں اب تک بہت سے کذاب ومفتری اوردجال پیداہوئے جنھوں نے دروغ سے نبوت کا جھوٹا دعوی کیا۔
اسود عنسی، مسیلمہ کذاب، سجاح اوردیگرکذابوں اورافترا پردازوں نے اپنی نبوت کادعوی پیش کیا اوریوں رسول اللہﷺ کی پیشین گوئی ثابت ہوئی کہ اس امت میں کذاب یعنی جھوٹوں کاظہورہوگا جویہ کہیں گے کہ وہ نبی ہیں،مگریہ اٹل حقیقت ہے کہ نبی امی ﷺ ہی رسول اللہ اورخاتم النبین ہیں ان کے بعدکوئی دوسرانبی نہیں ہے۔
ہندوستان کی سرزمین پرایک صدی پیشتر پنجاب کے ایک گاؤں قادیان میں ایک مفتری کذاب ظاہرہوا جس کانام مرزاغلام احمد قادیانی تھا،شروع میں اس نے متکلم اسلام اورمناظراسلام کے طورپر اپنی سرگرمیوں کاآغاز کیا۔
چالاک وچابک دست مرزانے اپنی کتاب براہین احمدیہ کی طباعت اورنشروتوزیع کے لئے امدادوتعاون کی اپیل کا اشتہارواعلان کرناشروع کیا اوربراہین احمدیہ کے بعض اجزاء کی طباعت اوراشاعت عمل میں آئی اوراس میں متضاد آراء واقوال نظرآئے اورفکرونظر میں مشبوہ شخصیت نظرآئی چندہی ایام کے بعدخوداپنی ذات سے متعلق اس شخص نے متعددمتضاد دعوے ظاہر کرناشروع کیا، بالآخر اس نے اپنی نبوت کا جھوٹا دعویٰ کیا چونکہ اس کام کے لئے انگریز حکومت سے اس کی سازباز ہوچکی تھی افراد کی خرید ہوچکی تھی ان کے قلب وضمیر کاسودامکمل ہوچکا تھا اس کے اتباع پیداہوتے گئے۔
اس کذاب ومفتری کاخوب چرچاہوا بڑاغلغلہ رہا،ہندوستان کی سرزمین میں اس کے اتباع کی ایک بہت مختصر تعداد اس کے گردجمع ہوگئی جسے قادیانی اشتہار بہت بڑی تعدادا بناتارہتاہے، جملہ اہل حق نے اس کذاب وافتراپرداز کی جھوٹی نبوت کا انکارکیا اوراس کی تردید وابطال میں بساط بھرکوششیں صرف کیں، جماعت اہل حدیث کے سربرآوردہ علماء میاں سیدنذیرحسین محدث دہلوی ،مولاناابوسعید محمد حسین بٹالوی، مولانا محمدابراہیم سیالکوٹی،مولاناابوالقاسم محمدسیف بنارسی، مولانامحمد بشیر سہسوانی، مولانا قاضی محمدسلیمان سلمان مصنورپوری ،مولاناعبداللہ معمار، مولاناحبیب اللہ کلرک،مولانا عبداللہ روپڑی اورفاتح قادیان مولانا ابوالوفاء ثناء اللہ امرتسری رحمۃ اللہ علیہ نے اس جھوٹے متبنئ قادیان کاناطقہ بندکردیا اورہرمحاذ پر اس کوشکست فاش دی۔
بالآخریہ انگریزوں کاغلام مرزاغلام احمد قادیانی 1908میں اپنی ہی بددعاؤں کے نتیجہ میں بدترین موت کا شکارہوا، تحریک ختم نبوت مؤلفہ ڈاکٹرمحمدبہاؤالدین میں پوری تاریخ مدون ہے، اس کوملاحظہ کرسکتے ہیں۔
علماء کرام نے بالیقیں مرزاغلام احمدقادیانی کی جھوٹی نبوت کے سارے تاروپود بکھیرکر رکھ دیا، پھربھی قادیانی اپنے مسموم افکار اورباطل نظریات کوسادہ لوح مسلمانوں میں پھیلانے کی کوشش میں مصروف عمل رہے، وہ اپنے تمام ترمادی وسائل وامکانیات کوبروئے کار لاکراپنی باطل فکرکورواج دینے کی تمام ترجدوجہد کرتے رہے، تاکہ مسلمان اپنے حقیقی دین اوراپنے صحیح عقائدسے پھرجائیں اورارتداد کے شکارہوجائیں قادیانیت کی نشرواشاعت میں ہمیشہ اغیار بالخصوص انگریزوں نے ان کی مددکی ہے اورآج بھی یہ سلسلہ جاری ہے، یہ اپنے رفاہی وانسانی عمل کے ذریعہ فقراء ومساکین کواپناہمنوا بنانے میں بعض حدتک کامیاب ہیں۔
اس متبنئ قادیان کے پیروکار اس کے دورمیں پیداہوئے اوراس کے عہدمیں اوربعدکے عہد میں صوبہ پنجاب میں تھوڑے سے پیداہوئے اوربعض بڑے شہرو ں میں قادیانی افرادپائے گئے، اس کے عبرت ناک انجام اوربدترین موت کے بعدبھی قادیانی فرقہ کے پیروکار کم وبیش پیدا ہوتے رہے اورمرورایام کے ساتھ دنیا کے کچھ دیگر ممالک بالخصوص بعض افریقی ممالک میں بالاخص اقتصادی وعلمی وثقافتی طورپر پسماندہ خطوں میں یہ ’’احمدیہ‘‘ فرقہ کے مشتبہ نام سے بتدریج پھیلتے رہے اورسلفیوں کی اصلاحی کوششوں کے نتیجے میں ختم بھی ہوتے رہے۔
احمدیہ کا لقب اس لئے اختیار کیا گیاتاکہ سادہ لوح ،ناخواندہ مسلمانوں کودھوکہ دے کراپنی باطل جماعت میں شامل کرناان کے لئے �آسان ہو،اورانھیں باطل ومسموم افکارکاشکاربنالیا جائے۔
اس وقت امریکہ یورپ آسٹریلیا، برطانیہ اوراسرائیل سے انھیں خصوصی مددملتی ہے، ان کی سرگرمیاں جاری ہیں اوریہود ونصاریٰ اوردیگر منحرف اورگمراہ نظریات کے حامل اشخاص وتنظیمات کی انھیں تائید حاصل ہے۔
یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ ہندوستان کے پڑوسی پسماندہ ملک نیپال میں قادیانیت اپنی تمام تر فتنہ سامانیوں،تمام ترخرابیوں اوربہرنوع برائیوں کے ساتھ پھیل رہی ہے، مرزائی قادیانی اپنے فاسد افکاراورباطل نظریات کوسادہ لوح مسلمانوں میں پھیلانے کی کوشش میں مصروف عمل ہیں۔
وہ اپنے تمام ترمادی وسائل وامکانیات بروئے کارلاکراپنی فکرکورواج دینے کی تمام تر جدوجہد کررہے ہیں، تاکہ مسلمان اپنے حقیقی دین اوراپنے عقائد سے پھرجائیں اورارتداد کے شکارہوجائیں یہ اپنے رفاہی وانسانی عمل کے ذریعہ فقراء ومساکین کواپناہمنوا بنانے میں کسی نہ کسی حد تک کامیاب ہیں۔
اس وقت نیپال کے بعض شہروں ،قصبات اورگاؤں میں ان کی سرگرمیاں جاری ہیں اوریہاں پرقادیانیت پھیل رہی ہے، نیپال کے مشہورصنعتی وتجارتی شہربیرگنج ضلع پرسا اوراس کے پاس پڑوس کے کئی گاؤں میں قادیانیت کی اشاعت ڈھکی چھپی بات نہیں ہے۔
چونکہ وہاں پرمسلمان علمی ثقافتی اوراقتصادی طورپر حددرجہ پسماندہ ہیں،ان کی اقتصادی پسماندگی کافائدہ اٹھاکر قادیانیت کے مبلغین جاہل وناخواندہ لوگوں کواپنے دام تزویر میں پھانسنے میں کامیاب ہیں، اس بابت وہاں سے بہت پہلے سے ناپسندیدہ خبریں موصول ہوتی رہی ہیں۔
اس طرح مشرقی نیپال میں قادیانیت پھیل رہی ہے ،معاملہ یہاں تک پہنچ چکا ہے کہ براٹ نگرکے صنعتی ایئریا میں ایک پوری آبادی قادیانیت کے جال میں گرفتار ہوچکی ہے، نیپال کے پہاڑی خطوں میں حالات مزید بدترہیں جہاں کے مسلمان اسلام اوراس کے عقائد حقہ سے بے خبرہیں، چند باطل رسوم ورواج کو ہی دین سمجھتے ہیں، وہ غیراسلامی تہذیب وثقافت سے بہت حد تک متاثر ہیں،ان کی اپنی اسلامی ودینی شناخت نہیں ہے اس لئے وہ اس باطل فکرسے متاثر ہوکرمتاع غرور سے فریب کھاکراپنی دینی واسلامی شناخت کی حفاظت کرنے میں ناکام ہیں اورقادیانیت کوگلے لگا نے میں حرج نہیں محسوس کررہے ہیں، پوکھرانامی شہرجواپنی قدرتی خوبصورتی ،دلکش مناظرکے لئے مشہور ہے اور سیاحوں کاعظیم مرکز ہے، اس میں قادیانیوں کادعوتی وتبلیغی سنٹرقائم ہے۔
اسی طرح نیپال کی راجدھانی کاٹھمنڈومیں’’ جماعت احمدیہ‘‘ کے نام سے ان قادیانیوں کی تنظیم موجوداورسرگرم عمل ہے اوریہ تنظیم وہاں کے سرکاری دفاتر میں رجسٹرڈ ہے۔
لمبنی کے علاقہ میں بھی قادیانی مبلغ پہنچے اور وہاں پربھی وہ ہاتھ پاؤں مارنے کی کوشش کرتے نظرآئے، دین وعقیدہ کے لئے یہ زہرقاتل اورمہلک بیماری اس ملک کے اطراف واکناف میں سرایت کرتی جاری ہے، نیپال میں علم وتعلیم کی صورت حال آج بھی کچھ زیادہ بہترنہیں ہے، جامعات ومدارس گنتی میں یقیناًبہت زیادہ ہیں نتائج واثرات کے اعتبارسے چندہی ادارے قابل شمارہیں۔
دعوت وارشاد کاکام یقیناًجاری ہے مگراس کادائرہ اورمقدار بہت محدود ہے دعوتی حالت کچھ زیادہ تسلی بخش نہیں ہے غیروں میں دعوت صفر کے درجہ میں ہے، بدعقیدہ خرافاتی مسلمانوں بالخصوص پہاڑیوں کی وادیوں میں بسنے والے ناخواندہ طبقہ میں بھی دعوت کاکام نہ کے برابر ہے ان وادیوں میں دیگرغیر مسلم تنظیمیں بالخصوص عیسائی، بودھسٹ اورقادیانی تنظیمیں سرگرم عمل ہیں۔
سدباب کی فکر خال خال لوگوں میں ہے اس فتنۂ قادیانیت کی تردید وابطال اوراس کی انتشارکی روک تھام کے لئے جس قدرمنصوبہ بند کوشش کی ضرورت ہے اس کافقدان ہے، بعض اسلامی تنظیمیں اوردینی ادارے اوران سے وابستہ اہل علم کبھی کبھی اس فتنہ کی سرکوبی کے لئے کچھ کوششیں ضرور کرتے رہے ہیں۔
لیکن حقیقی معنوں میں وہ اس سلسلہ کی بہت کامیاب کوشش نہیں قراردی جاسکتی ہے کوششیں معمولی ہیں جب کہ فتنہ بہت ہولناک نیزخطرناک ہے یہ بڑی مہلک بیماری ہے جودن بدن ملک کے بعض اطراف میں پھیلتی جارہی ہے۔
۱۴۱۸ھ ؁ کی بات ہے جب نیپال میں ایک اہم ترین کمیٹی’’ نیپال رفاہی کمیٹی‘‘ کے نام سے قائم ہوئی تھی، اس کمیٹی کے زیرنگرانی مدرسہ مخزن العلوم رمول ضلع سرہانیپال میں ’’ریفریشرکورس‘‘ برائے ائمہ و دعاۃ کا انعقاد عمل میں آیاتھا۔
اس ریفریشرکورس میں مولانا عبدالمنان عبدالحنان سلفی مدیرماہنامہ’’السراج‘‘ جھنڈانگر نے ’’قادیانیت‘‘کے موضوع پر ایک انتہائی جامع وقیع مقالہ پیش کیاتھا، یہ مقالہ اولاً مجلہ ’’السراج‘‘ جھنڈانگر میں قسط وارشائع کیاگیا اوراسی مقالہ کوکتابی شکل میں زیورطباعت سے آراستہ کرکے منصہ شہود پرلایا گیا ،یہ فتنۂ قادیانیت کو سمجھنے میں بڑی ممدوتعاون کتا ب ہے، کاش اس کتاب کا ہندی اوراس طرح نیپالی زبان میں ترجمہ ہی کردیاجاتا اوراسے نیپالی زبان جاننے والے مسلمانوں بالخصوص پہاڑی مسلمانوں میں وسیع پیمانہ پر تقسیم کیاجاتا تواس فتنہ کا سدباب کرنے میں کافی تقویت ملتی ،اوراہل زبان نیپالی حضرات اس فتنہ کی زہرناکیوں اوراس کی عظیم خطرناکیوں سے آگاہ ہوتے اوریوں وہ قادیانی مبلغین کے دام فریب کاشکارنہ ہوتے۔
اسی طرح بعض اوقات کچھ اہل علم اوردعاۃ کی جانب سے بھی اس فتنہ کے ردوابطال کی بابت کچھ کوششیں بھی دیکھنے میں آئی ہیں، انھوں نے اپنی تقریروں اوربعض مقالات کے ذریعہ نیپال کی مسلم امت کواس بڑے خطرہ سے آگاہ کیاہے۔
ایک دفعہ لمبنی کے علاقہ میں ایک قادیانی مبلغ پہنچا، اس نے پہلے اپنے آپ کو ایک مسلمان اورپڑھالکھا عالم ظاہرکیا، اس نے لمبنی کے انتہائی حساس مقام پر پرسا نامی چوراہا پربنی جامع مسجد اہل حدیث میں خطبہ جمعہ دینے میں کامیابی حاصل کی، کئی خطبات دیا پھر بالآخر اس نے بال وپرنکالنا شروع کیا اوربتدریج اپنے باطل افکار ومسموم خیالات کااظہار کرناشروع کیا۔
بالآخر پتہ چلاکہ یہ قادیانی مبلغ ہے جواس حساس ترین علاقہ میں لوگوں کو اپنی باطل فکر کو پھیلانے پرمامورہوا ہے، اس کے بعدہی ضلع کپل وستو وروپندیہی کے علماء اہل حدیث نے اس کے زیغ وضلال کوآشکاراکیا اوراس کو وہاں سے راہ فرار اختیار کرنے پرمجبورکردیا۔
مگرواقعہ کا یہ انتہائی تاریک پہلو اس وقت سامنے آیا کہ کچھ جاہل وناسمجھ لوگ اس کی ہمنوائی کرتے نظرآئے۔
نیپال میں قادیانیت اوراس کے باطل افکار وفاسد نظریات اورخبیث عقائد کے ردوابطال اوراس گمراہ کن فتنہ کی سرکوبی کے لئے درج ذیل تجاویز پیش خدمت ہیں۔
۱۔ علم وعقیدہ کے باب میں نمایاں علماء کی ایک کمیٹی تشکیل دی جائے جو ہرممکنہ وسائل و امکانیات کو بروئے کار لاکراس فتنہ کی سرکوبی کرنے اوراسے جڑسے اکھاڑنے کی سنجیدہ کوششیں کرنے میں لگ جائے اوراس کے عمل میں استمراروتسلسل ہو۔
۲۔ مقامی زبان میں اس موضوع پربحوث ومقالات اورکتابیں لکھی جائیں اورمختصر جامع کتابوں کو ملک میں وسیع پیمانے پر تقسیم کیاجائے تاکہ لوگوں کواس فتنہ اوراس کی تباہ کاریوں کی جان کاری ہوجائے۔
۳۔ باصلاحیت اسلامی مبلغین کی ٹیم تیارکی جائے جو اپنے خطبات ودروس کے ذریعہ لوگوں میں صحیح اسلامی عقائد کوبیان کریں، عقیدہ ختم نبوت کی وضاحت کریں اورمسلمانوں کی دینی وایمانی زندگی میں اس کی اہمیت کو آشکاراکریں، ساتھ ہی لوگوں کے سامنے قادیانیت کی حقیقت واضح کریں،اس کے اندرزیغ وانحراف کومدلل طورپرسامنے لائیں، بالخصوص ایسے علاقوں میں جہاں پرقادیانی مشن کی سرگرمیوں کاوجود ہے۔
۴۔ ان علاقوں میں جہاں قادیانیت نے اپنابال وپر نکالنا شروع کردیاہے، اسلامی مکاتب کاقیام عمل میں لایاجائے بالخصوص پہاڑی خطوں میں جہاں پرجہالت وناخواندگی عام ہے جب علم وعقیدہ سے آراستہ وپیراستہ نسل تیار ہوگی توقادیانیوں کے لئے ان کے اندراپنے مسموم افکار اورباطل خیالات کی نشرواشاعت ممکن نہ ہوگی، تعلیم یافتہ ہونے کی صورت میں وہ حق وباطل کی تمیز کرسکیں گے اورگمراہی کی دعوت دینے والوں سے چوکنارہیں گے، گمراہ گران میں بآسانی گمرہی پھیلانے میں کامیاب نہیں ہوسکتا کیونکہ علم ومعرفت ایک ڈھال ہوتی ہے۔
۵۔ نیپال میں موجود مسلمانوں کواس فتنہ کی سرکوبی کے لئے اپنی صفوں اوراپنی کوششوں میں اتحاد ویکجہتی پیداکرنا چاہئے، سب سے زیادہ کامیاب کوشش خطباء وائمہ کی ہوسکتی ہے انھیں اس کے لئے تیار کیا جائے اورخطبے کا موضوع بنایا جائے اوراس فتنے کے خلاف عام فتوی شائع کیاجائے اورمساجد کے ذریعے جمعہ کے دن تقسیم کرایاجائے،مساجد کے ذریعہ ہی ہرمسلمان کو قادیانیت کے بطلان سازش اورخطرے سے آگاہ کیاجاسکتا ہے۔
۶۔ اسلامی عقیدہ بالخصوص عقیدہ ختم نبوت خاتم النبیین ﷺ کے موضوعات پر مساجد میں دروس کااہتمام ہوناچاہئے، اس طرح ان دروس میں قادیانی کذاب اوراس کے بڑے جانشینوں کے افکارو خیالات کے زیغ وضلال ان کے انحرافات وخرافات اور تلبیسات کومدلل طورپر بیان کرناچاہئے۔
۸۔ سابق علماء اہل حدیث بالخصوص مولانا ثناء اللہ امرتسری ومولانا محمد ابراہیم سیالکوٹی اور مولانا ابوالقاسم سیف بنارسی وغیرہم کے بعض رسائل وکتب کی طباعت کابھی اہتمام ہوناچاہئے،ردّقادیانیت میں ان کی تحریروں کاخلاصہ مقامی زبان میں تیار کرکے طباعت سے آراستہ کرنے کا اہتمام کیاجائے۔
۹۔ نیپال کے جامعات ومدارس کی ذمہ داری ہے کہ اس فتنہ کے سدباب کے لئے توجہ مبذول کریں اوراس سمت حقیقت پسندانہ قدم اٹھائیں۔ ***

Thursday, May 12, 2011

مصرمیں عوامی انقلاب jan-feb 2011 editorial

شمیم احمدندویؔ
مصرمیں عوامی انقلاب
اوراسرائیل وامری4159صرمیں عوامی بے چینی واضطراب اورحکومت وقت کی اسلام دشمن پالیسیوں سے اختلاف جب اپنی آخری حدوں کو چھونے لگا تواس کے نتیجہ میں عوامی غم وغصہ کا وہ سیلاب امڈپڑا جوقاہرہ کی’’ تحریر اسکوائر‘‘‘ سے ہوتا ہوا صدارتی محل تک جاپہونچا ،جس میں نہ صرف جبرواستبداد پرمبنی پالیسیاں اورجمہوری اقدارکی حفاظت میں ناکام قوانین خس وخاشاک کی طرح بہہ گئے،بلکہ حسنی مبارک کا تاعمرحکمرانی کاخواب بھی چکنا چورہوگیا، عوام کے جوش وخروش اوران کے غم وغصہ کوسرد کرنے کی مرحلہ وارتدابیر جو حاکمان وقت کی جانب سے اپنائی گئیں وہ ناکام ثابت ہوئیں، اوروہ حسنی مبارک جنھیں اپنے ۳۰؍سالہ دوراقتدار میں کبھی عوام کی خواہشات جاننے کی نہ فکرہوئی اورنہ ہی انھوں نے عوام کو اس قابل سمجھا کہ کسی بھی مسئلہ میں ان کی رائے معلوم کرنے کی کوشش کریں، وہ صرف دوہفتہ کے پرامن احتجاج کے دوران کئی کئی بارانھیں مخاطب کرنے یاپرکشش اعلانات کے ذریعہ ان کا غصہ سردکرنے کی کوشش پرمجبورہوئے، انھوں نے اقتدارسے اپنی دست برداری کا بھی اعلان کیا اورستمبرمیں صدارتی انتخابات کے ذریعہ انتقال اقتدارکے لئے اپنی اور اپنے بیٹے کی امیدواری کے امکانات کوبھی مستردکیا، کابینہ کوبھی تحلیل کیا اوراصلاحات کا وعدہ بھی، اختیارات کوتقسیم کرنے کے اعلانات بھی کئے اورترغیب وتحریض کے روایتی ہتھکنڈے اپنائے،فوجی جوتوں کی دھمک سے ان کو دہشت زدہ کرنے کی کوشش بھی کی اورٹیکنوں وبکتربندگاڑیوں کی نمائش سے خوف زدہ کرنے کی تدبیر بھی، فوجی ہیلی کاپٹروں کے ذریعہ ان کے دلوں میں لرزہ طاری کرنے کا منصوبہ بھی بنایا اورملک میں لاقانونیت کے انجام بدسے بھی ڈرایا، اورآخرمیں انٹلی جنس سربراہ عمرسلیمان کواپنے اختیارات سونپ کروقتی طورپر یہ ہنگامہ فروکرنے کی کوشش کی، لیکن ان کی نہ توکوئی تدبیر کارگرہوئی اورنہ کوئی ہتھکنڈہ کام آیا اور عوام کاسیل رواں حسنی مبارک کے اقتدارسے فوری طورپر بے دخل کئے جانے سے کم پرکوئی بھی تجویز ماننے اورکوئی بھی حل قبول کرنے پر تیار نہ ہوا، اوروعدہ فرداکوقبول کرکے یاستمبر تک کے لئے اس معاملہ کو معرض التوامیں ڈالنے کی تجاویز کومنظورکرکے وہ کوئی خطرہ مول لینے یاکوئی دھوکہ کھانے کے لئے تیار نہ تھے کہ ممکن ہے آج انھوں نے جس بے نظیراتحاد کا ثبوت دیاہے،گذرتے وقت کے ساتھ اس میں کمی آجائے اوران کی صفوں میں وہ اتحاد باقی نہ رہے جس کامظاہرہ انھوں نے پورے صبروتحمل سے کیا ہے اورجس کا مشاہدہ دنیانے ٹیلی ویژن اورانٹرنیٹ کے ذریعہ کیاہے،اس عوامی احتجاج کی‘ جس نے ایوان اقتدار اورقصرصدارت میں زلزلہ برپاکردیا ‘سب سے خاص بات یہ سمجھی جارہی ہے کہ اس کا نہ توکوئی باضابطہ لیڈر وقائد تھانہ ہی کوئی اپوزیشن پارٹی اس کی پشت پرتھی، مختلف اوقات میں مختلف لوگوں کے نام سامنے آتے رہے، کبھی سابق عالمی توانائی ایجنسی کے سربراہ محمدمصطفی البرادعی کے ہاتھ میں قیادت کی باگ ڈوررہی توکبھی الاخوان المسلمون کوان احتجاجات کاذمہ دار سمجھاگیا، لیکن باضابطہ طورپرکسی ایک نام یاتحریک پراتفاق رائے نہیں کیاجاسکتا،وہ صرف عوامی غم وغصہ کی آگ تھی جوبرسوں سے ان کے سینوں میں بھڑک رہی تھی اوریہ حکومت مصرکے فیصلوں کے خلاف ایک لاواتھا جوعرصہ سے پھٹ پڑنے کے لئے بے تاب تھا۔
اس عوامی احتجاج کے پیچھے کوئی منصوبہ بندی تھی اورنہ نتائج کی کوئی پیش بندی، بلکہ انجام وعواقب کی پرواکئے بغیرآتش نمرودمیں بے خطرکودپڑنے کی ایک مثال تھی، اس آگ کو سردکرنے اورعوامی جوش وجنون کوٹھنڈاکرنے کے لئے دنیا کے دیگر مطلق العنان فرمارواؤں اورسخت گیر آمروں کی طرح حسنی مبارک نے فوج کا استعمال کرنے کی کوشش کی، لیکن فوج نے نہتھے عوام پرگولیاں برسانے سے انکار کردیا ،یہ فوج کے کردار کا ایک قابل قدرنمونہ تھاکہ فوج ملک کے بیرونی دشمنوں سے لڑنے کے لئے تشکیل دی جاتی ہے نہ کہ پرامن مظاہرین کوگولیوں سے بھوننے کے لئے، شاید فوج کوبھی یہ سوچ کرشرم آئی ہوکہ وہ سب سے بڑے بیرونی دشمن اسرائیل کاتودودوبڑی جنگوں میں کچھ بگاڑنہ سکی اب عوام کے سینوں کو آسان ٹارگٹ سمجھ کران پرطبع آزمائی کرے تواس پراسے تمغہ شجاعت نہیں مل سکتا، لیکن حقیقت یہی ہے کہ اس نے اپنا انسانی واخلاقی فرض اداکیا، اس مصری انقلاب کی سب سے خاص بات یہی کہی جاسکتی ہے کہ جہاں ہزارطرح کی اشتعال انگیزیوں کے بعداوران کے جذبات کو سمجھنے سے انکار کے بعدبھی عوام نے بغیرکسی قابل ذکرقیادت کے جس صبر وتحمل کا مظاہرہ کیا اورامن پسندشہری ہونے کاثبوت دیا اورکسی طرح کے تشددکی راہ نہ اپنائی وہیں فوج نے طاقت کا بیجا استعمال نہ کرکے لاکھوں کی بھیڑ پراندھا دھند فائرنگ کرکے اپنے خلاف اس روایتی تصورکو ختم کیا جس کے لئے وہ دنیا میں بدنام ہے، ان دونوں کا کردارقابل ستائش ہے اوربغیرکسی بڑے خون خرابہ کے اس طرح کاپرامن انقلاب دنیا میں کم ہی آتا ہے، حالانکہ پرامن احتجاج کے چنددنوں بعدہی حسنی مبارک حکومت کی تائید وحمایت میں بھی ایک گروہ سامنے آیاتھا (جس کی حقیقت پرسے ابھی پردہ اٹھناباقی ہے) اس نے مظاہرین پر پتھراؤ بھی کیا اوران کو مشتعل کرنے والے اقدامات بھی کئے اوروقتی طورپر لگتا تھا کہ مظاہرین دومتحارب گروہوں میں تقسیم ہوگئے ہیں اورباہم دست وگریباں ہوکر ان کاحکومت مخالف مظاہرہ ناکام ہوجائے گا، لیکن اس کے برعکس انھوں نے صبروتحمل کا بے مثال مظاہرہ کیا اوراشتعال انگیزی کی ان دانستہ حرکتوں کے بعد بھی ایک حدسے آگے نہ بڑھے، اوراپنے عزائم کو منطقی انجام تک پہونچاکر دم لیا اورثابت کردیا کہ عدم تشدد کے ذریعہ بھی دنیا میں بڑے بڑے سیاسی انقلاب لائے جاسکتے ہیں، اورجابروظالم حکومتوں کاتختہ پلٹاجاسکتا ہے ،ہندوستان میں مہاتماگاندھی نے اسی کوہتھیار بناکرانگریزوں کو اس ملک سے بوریہ بسترگول کرنے پر مجبور کردیاتھا، کاش دنیا کے مختلف خطوں میں تشددوخون خرابہ پرآمادہ بعض تنظیموں، ماؤنوازوں، نکسل وادیوں اوراُلفا وغیرہ کی سمجھ میں یہ نکتہ آجائے ۔
اس موقع پرغورکرنے کامقام یہ ہے کہ آخروہ کیا وجہ تھی یا وہ کون سے اسباب تھے جنھوں نے انجام وعواقب سے بے پرواہوکرمصری عوام کوحکومت کے خلاف سینہ سپر ہوجانے کا حوصلہ بخشااوران کووہ جرأت رندانہ عطاکی کہ انھوں نے حکومت وقت کے ایوانوں کولرزہ براندام کردیا، ان میں سے ایک وجہ دنیاوی وسیاسی ہے اور ایک وجہ ملی واخلاقی ہے ،دنیاوی اسباب کا تجزیہ کیاجائے تواس ناقابل تصورحقیقت پرسے پردہ اٹھے گا کہ مصرقدرتی وسائل اورزرخیز وزرعی زمینوں سے مالامال ہے،نہرسویز سے ہونے والی آمدنی اورسیاحوں کی آمدورفت زرمبادلہ کے حصول کابیش بہا ذریعہ ہے، لیکن عوام نان شبینہ کے محتاج اورغربت وافلاس کے شکارہیں، اس کے پیچھے حکومت کی ناقص اقتصادی پالیسیاں اوربدعنوان سیاست دانوں کی عیش کوشیاں ہیں، قدرے تفصیل سے جائزہ لیں توبخوبی یہ حقیقت آشکاراہوگی کہ جہاں مصر کاایک بڑاعلاقہ دنیا کے چندزرخیز خطوں اورسونااگلنے والی زمینوں پرمشتمل ہے،جوروئی کی پیداوار کے سلسلہ میں دنیا کے اندر سرفہرست ہے اورآج دنیا میں اس کے لئے جوانگریزی کالفظ’’کاٹن‘‘ مستعمل ہے‘ وہ دراصل مصری یا عربی لفظ قُطُن کی بگڑی شکل ہے، دریائے نیل پوری دنیا میں صاف وشیریں پانی کے لئے اول مقام رکھتا ہے اوراس پانی سے سیراب ہونے والی فصلیں پیداوار وکوالٹی میں اپناجواب نہیں رکھتیں، اسی دریائے نیل اورزرخیز زمینوں کو دیکھ کرفرعون نے خدائی کا دعوی کردیاتھا اورکہاتھا:(ألیس لی ملک مصروھٰذہ الأنھار تجری من تحتی)حضرت یوسف علیہ السلام کے زمانہ میں جب خطہ کے بیشترممالک ایک طویل ۷سالہ عرصہ پر مشتمل قحط کا شکارہوئے تویوسف علیہ السلام کے حسن تدبیرودو ر اندیشی کے سبب اورمصر کی انھیں زرخیز زمینوں کی بدولت علاقہ کے کئی ملکوں کے باشندوں کاپیٹ بھرا اوروہ بھکمری کا شکارہوکرایڑیاں رگڑرگڑکر مرنے سے محفوظ رہے، حضرت عمرفاروق رضی اللہ عنہ کے زمانۂ خلافت میں جب جزیرہ العرب پرقحط مسلط ہوااورمدینہ کے باشندے بھوک سے مرنے لگے توحضرت عمرفاروق کے سامنے مصرسے غذائی کمک طلب کرنے کے سوا کوئی چارہ نہ تھا، حضرت عمروبن عاص رضی اللہ عنہ گورنرمصرسے غلہ طلب کیاگیا اورکچھ تاخیر ہونے پرسختی سے ہدایات دربارخلافت سے جاری ہوئیں توانھوں نے جواب دیا کہ میں غلوں سے لدااونٹوں کاقافلہ تیارکرکے بہت جلد بھیج رہا ہوں اوروہ اتنا بڑاہوگا کہ اس قافلہ کا پہلااونٹ مدینہ میں داخل ہوجائے گا اورآخری اونٹ مصرسے نکل رہاہوگا، ان کی اس بات میں مبالغہ ہوسکتا ہے لیکن اس سے یہ بات سمجھی جاسکتی ہے کہ مصرغذائی پیداوار میں نہ صرف خودکفیل تھا بلکہ قرب وجوار کے علاقوں کاپیٹ بھرنے کی صلاحیت رکھتا تھا، اسی قحط کے موقع پر حضرت عمررضی اللہ عنہ نے گورنرمصرعمروبن عاص رضی اللہ عنہ سے کہاتھا کہ تمھیں مصر اور عرب کے درمیان بحری راستہ نکالنا ہوگا تاکہ دوبارہ اس طرح کی افتاد پڑنے پربلاتاخیر مصرسے غذائی امداد دارالسلطنت مدینہ کو بھیجی جاسکے، آج اس فاروقی خواب کوہم حقیقت کے روپ میں نہرسوئزکی شکل میں دیکھ رہے ہیں ساتھ ہی مصرکی غذائی پیداواری صلاحیت کومحسوس کررہے ہیں۔
مصرقدرتی وسائل اورپٹرولیم وقدرتی گیس کے ذخائر سے بھی مالامال ہے جواس کی آمدنی کاایک بڑا ذریعہ ہے اس کااندازہ صرف اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ اسی حالیہ مزاحمتی تحریک کے دوران جب گیس پائپ لائن کو نقصان پہونچایا گیا توصرف وہ پائپ لائن جواسرائیل تک جاتی تھی اس کووقتی طورپر بندکردیاگیا،اس کے نتیجہ میں اسرائیل کویومیہ ۲۰؍لاکھ ڈالرکا نقصان ہوتارہا ،دورونزدیک کے اورملکوں کوجوگیس سپلائی کی جاتی رہی اس سے ہونے والی آمدنی کوسمجھاجاسکتا ہے ،نہرسوئز مصرکی اقتصادیات میں خصوصی اہمیت کی حامل ہے یہ ایک سیاسی ہتھیاربھی ہے اورمصری معیشت کی مضبوطی میں اس کا نمایاں کرداربھی ہے، صدرجمال عبدالناصر نے اپنی حکومت میں ایک بارجب اس کو قومیانے کااعلان کیا تھا تودنیا میں تہلکہ مچ گیاتھا جیسے کہ شاہ فیصل مرحوم نے پٹرول کوایک کارگرہتھیار کے طورپراستعمال کا اعلان کرکے دنیا کے متعددملکوں اورمغربی طاقتوں میں کہرام مچادیاتھا اوران کواسرائیل نوازی کی بھاری قیمت چکانے پرمجبورکردیا تھا، نہرسوئز سے مصرکوسالانہ اربوں ڈالرکی آمدنی ہوتی ہے، صرف ۲۰۱۰ء ؁ میں سوئز سے ہونے والی آمدنی ۴؍ارب ۷۰کروڑ ڈالرتھی جوبحری جہازوں سے وصول ہونے والے محصولات کی شکل میں تھی،یہ ایک اضافی آمدنی ہے جومصری معیشت کومضبوطی فراہم کرتی ہے ساتھ ہی پورپ وایشیاء کے درمیان اس مختصرترین آبی گزرگاہ کی تعمیرسے دنیا کی تجارت اورجہازوں کی آمدورفت ونقل حرکت کوایک نیاموڑ مل گیا اوروقت ووسائل کی بے پناہ بچت بھی ،واضح ہوکہ فرانسیسی انجینئروں کے ذریعہ اس نہر کی تعمیرسے قبل پورپ سے آنے والے بحری جہاز پورے براعظم افریقہ کا چکرلگاکرآنے کے لئے مجبورتھے ،جس میں وقت ووسائل کاناقا بل برداشت ضیاع ہوتا تھا۔
مصری اقتصادیات کورواں دواں رکھنے کے لئے تیسرااہم ذریعہ سیاحت اورپوری دنیا سے آنے والے سیاحوں کی آمدورفت ہے ،جوفراعنہ مصرکی حیرت انگیز دنیا اور وہاں موجود پیرامیٹس(اہرام) کی دیدارکے لئے سالانہ کروڑوں کی تعدادمیں آتے ہیں اورمصری حکومت کومختلف صورتوں میں اربوں ڈالردے کرجاتے ہیں ،مصرکا شمار دنیا کے ان چندملکوں میں ہوتا ہے جہاں سب سے زیادہ سیاح آتے جاتے ہیں۔
ان سب ذرائع آمدنی کے نتیجہ میں مصری معیشت کو دنیا کی چندمضبوط ترین معیشتوں میں سے ایک ہوناچاہئے، دنیا کے مختلف ملکوں کے ساتھ تجارت، اسرائیلی مفادات کے تحفظ کی قیمت اورامریکی مراعات بھی اربوں ڈالر کی شکل میں ملتی ہے، اس طرح مصر اوروہاں کے عوام کو خوش حال ہوناچاہئے، لیکن معاملہ اس کے برعکس ہے ،نہ تومصر کاشمارٹھوس ومضبوط اقتصادی بنیادیں رکھنے والے ملک میں ہوتا ہے نہ ہی وہاں کے عوام خوش حال اوروسائل عیش سے مالامال ہیں،بلکہ عالمی معیشت میں اس کا نمبر۱۳۷ واں ہے اوروہ افریقی ممالک جو غربت وافلاس کی تصویر ہیں ان میں بھی اس کوکوئی نمایاں مقام حاصل نہیں ہے، بلکہ حیرت ہوتی ہے یہ جان کر کہ افریقی ممالک میں بھی فی کس آمدنی کے حساب سے یہ غربت میں سرفہرست ہے صرف’ کانگو‘کے عوام غربت میں اس سے آگے یعنی غریب ترہیں، یہاں کی شرح نموصرف ساڑھے ۴فیصدہے جب کہ مہنگائی کی شرح اس سے تین گنی رفتار سے بڑھ رہی ہے اوروہ ۱۳؍فیصد ہے اس طرح عوام کی غربت میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے، اورمختلف جائزوں کی مختلف رپورٹوں کے مطابق ۱۵فیصد سے ۴۰فیصدتک لوگ خط افلاس سے نیچے زندگی بسرکررہے ہیں اوران کو درکارضروری وسائل زندگی بھی حاصل نہیں، صرف دارالحکومت قاہرہ میں دس لاکھ ایسے مفلوک الحال لوگ ہیں جن کاگزربسر لوگوں کی امداد پرہے یاوہ باقاعدہ گداگری کاپیشہ اپنائے ہوئے ہیں جن میں سے بعض لوگ تولوگوں کے دست عنایت کے محتاج ہوکر مستقل طورپر قبرستانوں میں مقیم ہیں، تقریباً ۱۰فیصد لوگ بے روزگار ہیں یعنی ان کا کوئی ذریعہ معاش نہیں ہے،پھرسوال یہ پیداہوتا ہے کہ سطوربالامیں مذکورملکی آمدنی کے بعض اتنے اہم ذرائع سے حاصل ہونے والی دولت کہاں جاتی ہے؟اس کاسیدھاجواب یہ ہے کہ ملک میں لوٹ کھسوٹ ،بدعنوانی اورملکی دولت کاتصرف بیجا عام ہے اوریہ چند خاندانوں اورحکومت پرحاوی اجارہ داروں اورمطلق العنان آمریت پسندوں تک محدود ہے، اورعوام استحصال بیجا کا شکارہوکر اس سے بڑی حد تک محروم ہیں، تازہ ترین خبروں کے مطابق مصری صدرحسنی مبارک(جواب سابق ہوچکے ہیں)کی جودولت سوئزبنک میں موجود ہے‘ بنک نے ایک حالیہ فیصلہ میں ان کی تمام دولت اوراثاثے منجمد کردئے ہیں، جس کا مصری عوام نے دل سے استقبال کیاہے،صحیح اعدادوشمار توپیش کرنا شاید آسان نہ ہو،لیکن ایک اندازہ کے مطابق حسنی مبارک کی دولت ۷۰ارب امریکی ڈالرسے زائد ہوگی جودنیا کے مختلف ملکوں کے بنکوں اورغیر منقولہ جائدادوں کی شکلوں میں موجود ہے یہ دولت دنیا کے امیرترین آدمی بل گیٹس کی دولت سے بھی زائد ہے جومفلس وقلاش عوام کا خون چوس کراورملکی وسائل کولوٹ کرحاصل کی گئی ہے، اس لوٹ کھسوٹ پرعوام کے اندراضطراب وبے چینی کا پیداہونا ایک یقینی امراورلازمی نتیجہ ہے، حسنی مبارک نے عوام کے باغیانہ تیوردیکھ کراپنے بیٹے اور ولی عہدسلطنت جمال مبارک کوکچھ روزقبل اپنے اہل خانہ کے ساتھ ملک سے رخصت کردیاہے، کہایہ جارہا ہے کہ اس نے تقریباً ۱۰۰سوٹ کیسوں میں اپنی دولت کاایک بڑا حصہ لے کرراہ فراراختیار کیاہے، ابھی کچھ روزقبل جب تیونس میں آئی سیاسی تبدیلی کے نتیجہ میں وہاں کے مطلق العنان فرماں روا زین العابدین بن علی کو ملک چھوڑنے پرمجبورہوناپڑاتوان کی عیش پرست بیوی ملکی بنکوں سے جودولت نکلواکرلے گئی اس میں صرف سونا ڈیڑھ ٹن تھا، اوردنیا کے دیگر ملکوں میں جمع شدہ دولت اورجائدادیں اس کے علاوہ ہیں، اگریہ صرف افسانہ نہیں ہے توعوام کی مجبوری ولاچاری اورحکومت کے وسائل معیشت کااس بے دردی سے استحصال سمجھاجاسکتا ہے جواسی طرح کی بے اطمینانی پیداکرتا ہے جس میں حکومتیں زیروزبرہوجاتی ہیں۔
مصری عوام کاپیمانہ صبر جب لبریز ہوگیا تووہ اپنے غم وغصہ کے اظہارکے لئے حکومت کی فوری برخواستگی کا مطالبہ لے کرسڑکوں پرآگئے اورملکی کام کاج ٹھپ کردیا، جس کے نتیجہ میں اسٹاک مارکیٹ کوبندکردیاگیا اورملکی معیشت کو یومیہ تقریباً ۳۰کروڑ ڈالرکا نقصان ہوتا رہا ہے، لیکن وہ حسنی مبارک کی اقتدارسے بے دخلی سے کم کسی بات کومنظور کرنے پر راضی نہ تھے، اوپرمذکوربے اطمینانی وبے چینی کی یہ صرف ایک وجہ تھی جس کا تعلق عوام کی اقتصادیات اوردنیاوی زندگی کی سہولیات سے ہے، لیکن عالم اسلام کے تناظرمیں اگردیکھاجائے تودوسری وجہ اس سے بھی بڑی اوردوررس نتائج کی حامل ہے جس نے عالم اسلام کی نظروں میں مصری حکومت کی بے حسی، غزہ کے مسلمانوں کے حق میں بے رحمی وشقاوت قلبی ،عام مسلمانوں کے مسائل سے لاتعلقی اورامریکی حکومت کے سامنے سجدہ ریزہونے کی بے غیرتی کوواضح کردیاہے۔
وہ اسرائیلی جس کا وجود عالم اسلام اورعالم عرب کے سینہ میں پیوست ایک خنجرکی طرح ہے جس کادرداور جس کی کسک ہرمسلمان اپنے دل میں محسوس کرتا ہے، دنیا کے نقشہ پر اس کی موجودگی ہی حق وانصاف کا مذاق اڑانے کے لئے کافی ہے ،چہ جائیکہ فلسطینی مسلمانوں پر اس کے روح فرسا مظالم اورعورتوں وبچوں میں تمیز کئے بغیراس کاطاقت کااندھا دھند استعمال ،غزہ کی ناکہ بندی اورمسجد اقصیٰ کی بے حرمتی، یہ ساری حرکتیس مسلمانان عالم کے لئے ناقابل برداشت ہیں ،لیکن مصری حکومت کی بے شرمی وبے غیرتی کے سوااسے کیا کہیں گے کہ اسی اسرائیل سے مصر نے محبت کی پینگیں بڑھائیں اورالفت کے تعلقات استوارکئے اوراس سے کچھ مراعات یامالی فوائد حاصل کرنے کے لئے اس کی جارحیت اورظلم وسرکشی کی عملاً تائید کی، اورجب اسرائیل نے غزہ کی بے سبب ناکہ بندی کی توجغرافیائی اعتبارسے مصردنیا کا واحد ملک تھا جواپنی گزرگاہ کھول کرغزہ کے ستم رسیدہ مسلمانوں کو راحت پہونچا سکتا تھا،لیکن اس نے ان مظلومین سے اظہارہمدردی ویکجہتی کے بجائے اسرائیلی مظالم کی تائید کی اوران کوسسک سسک کر جینے کے لئے مجبور کیا اوراسرائیل کے لئے سامان فرحت اورمسلمانوں کے لئے سامان ذلت ونکبت مہیا کیا، حالانکہ پوری دنیا کے مسلمان ہی نہیں انصاف پسندانسان اس ظلم وبربیت پرچیخ اٹھے تھے، ترکی نے امدادی بحری جہاز سے ان کوراحت پہونچا نے کی کچھ کوشش کی تھی، لیکن اسرائیل نے اس کا کیا حشرکیا ؟بتانے کی ضرورت نہیں ،لیکن اس درندگی کے مظاہرہ پربھی مصرخاموش رہا، اوراس طرح وہ خماربارہ بنکوی کے اس شعر کی تصویر بنا ؂
ارے اوجفاؤں پہ چپ رہنے والے
خموشی جفاؤں کی تائید بھی ہے
یوں تومصر نے انورالسادات کے زمانہ ہی میں اپنی پٹری بدل لی تھی اوراسرائیل وامریکہ کی دوستی ہی میں اپنے لئے سامان عزت تلاش کرنا شروع کردیا تھا اورایسا اس وقت تھا جب وہ اسرائیل کوسبق سکھانے کی پوری صلاحیت رکھتا تھا، ۱۹۷۳ء ؁ میں رمضان المبارک میں ہونے والی مصر اسرائیلی جنگ میں اس نے اپنی اس صلاحیت کوثابت بھی کردیا تھا اوراسرائیل کے ناقابل تسخیر ہونے کی پول کھول دی تھی، لیکن پھرانورالسادات مغربی طاقتوں کے بچھائے ہوئے جال میں پھنس گئے اورکیمپ ڈیوڈ معاہدہ کے ذریعہ کچھ حقیردنیاوی فوائد حاصل کرنے کی کوشش کی، لیکن اصلاً اسرائیل وامریکہ کے مفادات کوپورا کیا اوراسرائیل کوتحفظ فراہم کیا، اس طرح وہ اسرائیل جوعرب ممالک کے خطرات میں گھراہونے کی وجہ سے پوری دنیا میں سب سے زیادہ اپنے دفاع پرخرچ کرتا تھا جو اس کی مجموعی قومی آمدنی کا ۳۰فیصد حصہ تھا،لیکن مصر سے اس کے سمجھوتہ کے بعداس کادفاعی بجٹ محض۸فیصد رہ گیا، اس طرح اس کی وہ رقم جو فوجی تیاریوں پرخرچ ہوئی تھی، دیگرترقیاتی منصوبوں پرخرچ ہونے لگی اوراس کی معیشت کونہ صرف استحکام حاصل ہوا بلکہ علاقہ میں اسے سازشوں کا جال بچھانے کی مہلت بھی ملی جویہودیوں کی بدنام زمانہ خصلت ہے، اس طرح خطہ میں اسرائیلی داداگیری اورریشہ دوانی کا مصرنہ صرف بڑی حد تک ذمہ دار ہے بلکہ اگریہ کہاجائے کہ سب کچھ اس کی رضامندی سے ہوتا رہاہے توغلط نہ ہوگا۔
بعدمیں انورالسادات کوجب قتل کردیا گیا توموہوم سی امید تھی کہ شاید اب مصر کی خارجہ پالیسی اسرائیل کے تئیں بدلے گی اوروہ عالم اسلام کے مسلمانوں کے غم میں اپنے کو شریک سمجھے گا، لیکن ہوا اس کے برعکس، حسنی مبارک کے آنے پر عالم اسلام کی رسوائی کا مزید سامان ہوا اورانھوں نے مصر کوامریکی مفادات کے آگے بالکل ہی گروی رکھ دیا اوروہ بھی امریکی امداد کے نام چند حقیر ٹکوں کے حصول کے لئے جس سے مصری معیشت کواستحکام ملاہویا نہ ملاہو لیکن حسنی مبارک کے ذاتی اکاونٹ کوکافی استحکام ملا۔
عالمی پیمانہ پرملی مفادات کونظرانداز کرکے امریکی واسرائیلی مفادات کاآلہ کاربننا حسنی مبارک کا دوسرا سب سے بڑا جرم تھا، جس کی انھیں سزاملنی ہی چاہئے، اورعوامی غصہ کا ابلتا ہوا لاوا ان سے ہی حقیقت منوارہاہے کہ خودغرضی ومفادپرستی اورجبرواستحصال کی پالیسی ہمیشہ کامیاب نہیں ہوسکتی،اورفوجی قوت کے ذریعہ عوامی جذبات کودبانے کی کوششیں ہمیشہ نتیجہ خیز ثابت نہیں ہوسکتیں، اب تازہ ترین صورت حال یہ ہے کہ حسنی مبارک تاج وتخت سے دستبردار ہوکرملک یابیرون ملک کی کسی نامعلوم منزل کو روانہ ہوچکے ہیں اورمصری عوام کوابھی اپنی منزل کی تلاش ہے، فی الحال اقتدار کا محورفوجی قیادت ہے جوجمہوری طریقوں سے انتقال اقتدار کی کوششوں میں تعاون کرتی ہے یاپھرامریکہ کے اشاروں پر ناچتی ہے ؟یہ دیکھنا ابھی باقی ہے۔
مصرکے حالیہ سیاسی بحران کا ایک شاخسانہ یہ ہے کہ اس عوامی احتجاج کے دوران جس پریشانی واضطراب کا مظاہرہ اسرائیل وامریکہ اورمغربی ممالک نے کیا اس قدر شدید فکر وتشویش اوربے چینی وگھبراہٹ کامظاہرہ شاید حسنی مبارک کی طرف سے بھی نہ ہواہوجوآخرتک پورے طمطراق سے اپنے اس موقف پراڑے رہے کہ وہ ستمبرسے قبل استعفیٰ نہیں دے سکتے، اور فوری استعفیٰ کی صورت میں ملک کو درپیش خطرات وسیاسی بحران سے عوام کو خوف زدہ کرنے کی کوشش کرتے رہے، لیکن اس انقلابی صورت حال اورملک میں سیاسی تبدیلی کی اس لہرسے اگرکوئی ملک صحیح معنوں میں پریشان ہوا تووہ اسرائیل تھا اوراگر کسی ملک کوصحیح معنوں میں تشویش ہوئی تووہ امریکہ تھا ،لیکن حسنی مبارک نے نوشتہ دیوارخواہ پڑھا ہویانہ پڑھاہو لیکن امریکہ واسرائیل نے وہ تحریر ضرورپڑھ لی تھی جو’’تحریر اسکوائر‘‘پرعوام اپنے جوش ولولہ اورجذبۂ حریت سے لکھ رہے تھے، عوامی جذبات کو نظرانداز کرنا امریکہ کے لئے آسان نہ تھا جودنیا میں جمہوریت کا سب سے بڑا پاسبان سمجھاجاتا ہے اورجوبزعم خود حقوق انسانی کا سب سے بڑا محافظ اورامن کا پیامبر ہے، اس لئے براک اوبامہ نے چشم زدن میں حسنی مبارک کی پشت پناہی اوربیجا طرف داری سے ہاتھ کھینچ لئے اوران کو جانے کا پیغام دے دیا، تاکہ ایک طرف عوام کے غم وغصہ کوسردکیا جاسکے اوران کو اپنا ہم نوا وہم خیال بنایاجاسکے تاکہ امریکی سازشوں سے مصرکازمام اقتدارجوبھی سنبھالے‘ اسے مصری عوام اپنا سمجھیں ،لیکن درحقیقت وہ امریکی واسرائیلی مفادات کا ویسا ہی خیال رکھے جیسا کہ اس کے پیش رو رکھتے آئے ہیں،اسرائیل کی تشویش کو اس پوری صورت حال کی روشنی میں بآسانی سمجھاجاسکتا ہے، جسے اب صرف معاہدہ کیمپ ڈیوڈ ہی کی نہیں بلکہ اپنا وجودباقی رکھنے کی فکرہے، اورامریکہ بھی خطہ میں اپنا ایک طاقت ور حلیف کھونا کبھی پسند نہیں کرے گا، اوراپنی من پسندحکومت بنانے کے لئے کچھ بھی کرنے کے لئے تیاررہے گا، اس لئے فی الحال یہ کہنا اتناآسان نہیں کہ حسنی مبارک کی اقتدارسے بے دخلی کے بعد سارے معاملات خوش اسلوبی سے طے ہوجائیں گے اورنہ ہی یہ کہاجاسکتا ہے کہ اب مصرکا جو نیا حکمراں آئے گا وہ عوام کی توقعات پرپورا اترے گا، ہم صرف نیک خواہشات کا اظہار ہی کرسکتے ہیں۔
(نوٹ)مصروتیونس کے سیاسی انقلابات سے شہ پاکر بعض اردووہندی اخبارات یاالیکٹرانک و پرنٹ میڈیا نے تمام ہی عرب ممالک بشمول سعودی عرب وکویت میں بھی سیاسی بے چینی کی موجودگی یاحکومت کی تبدیلی کی پیشین گوئی شروع کردی ہے جوبالکل ہی مہمل ولغوبات ہے اوراس کا حقیقت سے دورکا بھی تعلق نہیں ہے، سعودی عرب میں عوام کو جوشہری سہولیات میسرہیں اورامن وامان کا دوردورہ ہے اس کادنیا کے کسی دوسرے ملک میں تصوربھی نہیں کیاجاسکتا ،جس کی وجہ سے عوام خوش حال وفارغ البال اور اپنے طرزحیات سے مطمئن ومسرور ہیں، اوراس سے بہترکسی فلاحی ورفاہی ریاست کے وہ متمنی وطلب گار نہیں ہیں ،یہ ایک مستقل موضوع ہے، ان شاء اللہ اگلے شمارہ میں اس پراظہار خیال کیاجائے گا۔
***

رسول اکرمﷺ کی ولادت سے ایک ہزار سال قبل مدینہ منورہ میں آپ کے لئے مکان کی تعمیر؟ jan-feb 2011

ڈاکٹرسیدسعیدعابدی
صدرشعبۂ اردو،جدہ ریڈیو،سعودی عرب
رسول اکرمﷺ کی ولادت سے ایک ہزار سال قبل
مدینہ منورہ میں آپ کے لئے مکان کی تعمیر؟
مسئلہ: ایک صاحب اپنے خط میں تحریر فرماتے ہیں:
میں نے ایک اردورسالے میں پڑھاہے کہ ہجرت کے بعدرسول اللہﷺ نے مدینہ طیبہ میں حضرت ابوایوب انصاری رضی اللہ عنہ کے مکان میں اس لئے قیام فرمایاتھا کہ درحقیقت وہ آپ ہی کامکان تھا نہ کہ حضرت ابوایوب انصاری رضی اللہ عنہ کا جس کی تفصیل درج ذیل ہے:
آنحضورﷺ کی ولادت سے تقریباً ایک ہزارسال پہلے ایک بہت بڑا بادشاہ گزرا ہے جس کانام تبع بن حسان تھا، وہ زبورکا پیروکار تھا اور بہت نیک انسان تھا ایک دفعہ تقریبا ڈھائی لاکھ افراد کوساتھ لے کرمکہ مکرمہ میں حاضرہوا، اورکعبہ پرریشمی غلاف چڑھایا، واپسی پرجب اس کا گزراس جگہ سے ہواجہاں اب مدینہ آباد ہے تواس کے ساتھ سفرکرنے والے چارسو علماء نے خواہش ظاہرکی کہ ہم یہاں مستقل طورپر قیام کرناچاہتے ہیں ،بادشاہ نے وجہ پوچھی، توانھوں نے بتایا کہ ہماری مذہبی روایات کے مطابق یہ جگہ ایک عظیم نبی احمدﷺ کی جلوہ گاہ بنے گی، ہم یہاں اس لئے رہنا چاہتے ہیں کہ شاید ہمیں اس نبی کی دیدار اورخدمت کی سعادت حاصل ہوجائے، نیک دل بادشاہ نے نہ صرف یہ کہ انھیں اجازت دیدی بلکہ سب کے لئے مکانات بھی تعمیر کروائے اوررہائش کی جملہ ضروریات مہیا کردیں۔
پھرایک مکان خصوصی طورپر نبوایا اورآنے والے نبی کے نام ایک خط لکھا جس میں اقرار کیاکہ میں آپ پر ایمان لاچکاہوں اوراگر آپ کاظہورمیری زندگی میں ہوگیا تومیں آپ کا دست مبارک بن کررہوں گا،اس کے بعدیہ دونوں چیزیں، مکان اورخط اس عالم کے حوالہ کردیں جو ان میں سب سے زیادہ متقی اورپرہیز گار تھا اورکہا کہ فی الحال تم اس مکان میں رہو اوریہ خط سنبھال کررکھو، اگرتمہاری زندگی میں ان نبی کا ظہورہوگیا تویہ دونوں چیزیں ان کے حوالہ کردینا ورنہ اپنی اولاد کو وصیت کرجانا۔
اس وصیت پرنسلاً بعدنسلٍ عمل ہوتا رہا اوردونوں چیزیں اس پرہیز گار انسان کی اولاد میں منتقل ہوتی رہیں،اسی طرح ایک ہزار سال کا طویل عرصہ گزرگیا اب اس مرد صالح کی اولاد میں سے حضرت ابوایوب انصاری رضی اللہ عنہ اس مکان کے محافظ ونگہبان تھے اور خط بھی انہی کے پاس محفوظ تھا۔
پھرجب اس مکان کے حقیقی مالک ووارث ﷺ رونق آرائے بزم عالم ہوئے اورابوایوب ان پرایمان لائے توابولیلی کو خط دے کرمکہ بھیجا کہ آپ کی خدمت میں پیش کردیں، ابولیلی نے اس سے پہلے آنحضرت ﷺ کو نہیں دیکھا تھا مگر آنحضرت ﷺ کی نگاہوں سے توکوئی شئی اوجھل نہ تھی، ابولیلی پرنظر پڑتے ہی ارشاد فرمایا:’’تم ابولیلی ہو اورتبع اول کاخط لے کرآئے ہو؟‘‘۔
دراصل اللہ تعالیٰ نے ابوایوب رضی اللہ عنہ والے مکان کو اولین جلوہ گاہ مصطفی ﷺ کے طورپر اس لئے منتخب فرمایا تھا کہ وہ مکان بنایا ہی آپ کے لئے گیا تھا، جو ایک ہزار سال سے اپنے حقیقی وارث کی راہ تک رہا تھا.....‘‘۔
جواب: اس واقعہ کا نہ کوئی سر ہے اورنہ پیر بلکہ ان لوگوں کے ذہنوں کی اختراع ہے جواللہ کی کتاب اورصحیح احادیث میں بیان کردہ سیرت پاک کے واقعات کوکافی تصورنہیں کرتے اس واقعہ کا ذکر علامہ شیخ احمد بن محمدقسطلانی رحمہ اللہ متوفی ۹۲۳ھ نے اپنی مشہور کتاب’’ المواھب اللدنیہ‘‘ میں مختصراً کیا ہے اورحوالہ مشہور سیرت نگار محمد بن اسحاق کی کتاب’’المبتدا‘‘کا دیاہے، لیکن یہ واقعہ نقل کرنے کے بعدانھوں نے لکھا ہے: ’’اسی طرح یہ واقعہ’’تحقیق النصرہ‘‘ میں بیان کیاہے۔
اس عبارت سے معلوم ہوتا ہے کہ قسطلانی نے یہ واقعہ براہ راست ’’المبتدا‘‘سے نہیں نقل کیاہے بلکہ شیخ زین الدین بن حسین مراغی کی کتاب ’’تحقیق النصرۃ فی تاریخ دارالھجرۃ‘‘ سے نقل کیاہے جس میں ابن اسحاق کی کتاب’’المبتدأ‘‘ کاحوالہ دیاگیاہے۔
قسطلانی رسول اکرمﷺ کی ہجرت مدینہ اورحضرت ابوایوب انصاری رضی اللہ عنہ کے مکان میں رونق افروز ہونے سے متعلق صحیح روایات کے ذکرکے بعدلکھتے ہیں:
’’ابن اسحاق نے ذکرکیاہے کہ ابوایوب کے اس مکان کی تعمیرنبی ﷺ کے لئے’’تبع اول‘‘ نے اس وقت کی تھی جب وہ مدینہ سے گزراتھا اوروہاں چارسوعلماء کو چھوڑ دیاتھا اورنبی ﷺ کے نام ایک مکتوب لکھ کر ان علماء میں سب سے بڑے عالم کو دیتے ہوئے اس سے یہ طلب کیاتھا کہ اس کو نبی ﷺ کی خدمت میں پیش کردینا، اس کے بعدیہ مکان ایک شخص سے دوسرے کو منتقل ہوتا رہا یہاں تک کہ حضرت ابوایوب رضی اللہ عنہ کی تحویل میں آگیا جومذکورہ عالم کی اولاد میں سے تھے اوراہل مدینہ کے جن لوگوں نے رسول اللہﷺ کی نصرت وحمایت کی تھی وہ سب انہی علماء کی اولاد تھے جن کو ’’تبع اول‘‘ نے مدینہ میں چھوڑدیا تھا، اس طرح رسول اللہ ﷺ خود اپنے مکان میں اترے تھے نہ کہ کسی اورکے مکان میں ۔(ص:۳۱۱۔۳۱۲ ج۱)
یہ واقعہ مزید تفصیلات کے ساتھ علامہ محمد زرقانی بن عبدالباقی رحمہ اللہ متوفی ۱۱۲۲ھ نے اپنی کتاب’’شرح علی المواھب اللدنیہ‘‘ میں کیاہے۔
علامہ قسطلانی اورزرقانی کا شمار مصرکے ممتاز علماء میں ہوتا ہے، ان دونوں کوتاریخ وسیرکے علاوہ حدیث کا بھی گہرا اوروسیع علم حاصل تھا، چنانچہ شیخ قسطلانی کی شرح بخاری: ’’ارشاد الساری إلی شرح صحیح البخاری ‘‘اورزرقانی کی’’مختصر المقاصد الحسنۃ للسخاوی‘‘ کو بڑی شہرت حاصل ہے۔
لیکن چونکہ ان دونوں بزرگوں کا نہ صرف یہ کہ تصوف سے تعلق تھا بلکہ ان کا شمار ان صوفیا میں ہوتا تھا جو’’راہ سلوک‘‘ ہی کو راہ نجات یا ’’راہ وصال‘‘ سمجھتے ہیں اس لئے ان کی کتابوں میں بے بنیاد اورمبالغہ آمیز واقعات کی بھرمار ہے اوراس سلسلے میں ’’المواھب اورشرح المواھب‘‘ دونوں سیرت کی ان کتابوں میں سرفہرست ہیں جن میں رسول اکرم فداہ ابی وامی ﷺ کی سیرت پاک کے صحیح اور مستند واقعات کے ساتھ ایسے بے شمار واقعات بھی ہیں جوبالکل بے بنیاد اور من گھڑت ہیں۔
قسطلانی اورزرقانی نے مذکورہ واقعہ محمدبن اسحاق کی کتاب’’ المبتدأ‘‘ سے لیاہے جیساکہ اوپربیان کیاجاچکا ہے اورمحمدبن اسحاق نے اس کی کوئی سند نہیں بیان کی ہے اوراگر وہ اس کی سند بیان بھی کرتے تواپنی ثقاہت کے مختلف فیہ ہونے کی وجہ سے ان کی یہ سند زیادہ سے زیادہ ’’حسن‘ کے درجے کو پہنچتی، اب جبکہ یہ واقعہ انھوں نے سند کے بغیر بیان کیا ہے اس لئے اورسیرت ابن ہشام میں ان کے حوالہ سے بیان کردہ واقعہ سے بالکل مختلف ہونے کی وجہ سے ’’ساقط الاعتبار‘‘ ہوجاتا ہے،اسی سبب سے مشہور سیرت نگارعلامہ ابومحمد عبدالملک بن ہشام بن ایوب حمیری نے اپنی کتاب: سیرت ابن ہشام میں اس کاکوئی ذکرنہیں کیاہے جبکہ وہ محمد ابن اسحاق کی روایات ہی پرمبنی ہے اوراس میں جہاں سیرت پاک کے واقعات سند کے ساتھ بیان ہوئے ہیں وہیں بہت سارے واقعات سند کے بغیر بیان ہوئے ہیں ، بہرحال ابن ہشام کی سیرت میں اس واقعہ کے مذکور نہ ہونے سے دوباتیں معلوم ہوتی ہیں،یا تواس واقعہ کی نسبت ابن اسحاق سے صحیح نہیں ہے یا یہ اپنے باطل ہونے کی وجہ سے اس قابل نہیں تھا کہ وہ اس کواپنی کتاب میں نقل کرتے۔
البتہ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے فتح الباری (ص:۱۷۵۴،ج ۲) میں صیغۂ تمریض ’’کہاجاتاہے‘‘ کے ساتھ لکھا ہے کہ’’جب تبع نے حجاز پرلشکر کشی کی تواس کا گزر یثرب سے ہوا جہاں اس کے پاس چارسو یہودی علماء آئے اوراس کو بیت اللہ کی تعظیم کے وجوب سے آگاہ کرتے ہوئے اس کویہ بھی بتایا کہ ایک نبی مبعوث ہونے والے ہیں جن کا مسکن یثرب ہوگا، یہ سن کرتبع نے ان کی تکریم کی اوربیت اللہ کی تعظیم اس پر غلاف چڑھاکر کی اورایک خط لکھ کراس کو ان علماء میں سے ایک کے حوالہ کرتے ہوئے کہا کہ اگراس کو آنے والے نبی کا زمانہ ملے تووہ یہ خط ان کی خدمت میں پیش کرے، کہاجاتا ہے کہ ابوایوب اسی شخص کی اولاد میں سے تھے، ابن ہشام نے اس کو اپنی کتاب ’’التیجان‘‘ میں بیان کیاہے اورحافظ ابن عساکر نے تاریخ دمشق میں تبع کے ذکر کے ضمن میں اس واقعہ کا ذکر کیاہے‘‘۔
اولاً توحافظ ابن حجر نے ’’کہاجاتاہے‘‘ کے ذریعہ اس کے ضعیف اورناقابل اعبتارہونے کی طرف اشارہ کردیاہے ،ثانیاً انھوں نے جہاں یہ لکھا ہے کہ تبع کا یہ سفرحجاز اس پرلشکر کشی کی غرض سے تھا وہیں انھوں نے ابن ہشام کی کتاب’’التیجان‘‘کے حوالہ سے یہ بھی صراحت کردی ہے کہ مدینہ آمد پراس کے پاس مدینہ کے چارسویہودی علماء حاضرہوئے، جبکہ المواھب اورشرح المواھب میں یہ دعوی کیاگیا ہے کہ یہ علماء اس کے ساتھ تھے اورانھوں نے اس سے اپنی اس خواہش کااظہار کیاتھا کہ ان کو وہاں رہنے دے۔
واضح رہے کہ ’’شرح المواھب‘‘ اور’’سائل‘‘ کے ذکرکردہ رسالے میں یہ دعویٰ کیاگیا ہے کہ مدینہ سے گزرنے والا وہ بادشاہ ’’تبع اول بن حسان حمیری ‘‘تھا اور یہ واقعہ رسول اللہﷺ کی ولادت مبارکہ سے ایک ہزار سال پہلے گزرا ہے اورمذکورہ رسالے میں یہ اضافہ ہے کہ ‘‘ وہ زبورکا متبع اوربڑا صالح انسان تھا، جبکہ سیرت ابن ہشام اوردوسری کتابوں میں محمد ابن اسحاق کے حوالہ سے کسی سند کے بغیر جوواقعہ بیان کیا گیا ہے اس میں یہ صراحت ہے کہ مدینہ سے گزرنے والا وہ بادشاہ دوسرا تبع تھا جس کانام:’’تبان اسعد ابوکرب‘‘ تھا اورتبع اول کانام زیدبن عمروتھا اوروہ اہل مدینہ سے لڑنے کے لئے وہاں گیاتھا،تاکہ وہ ان کو تباہ کردے، لیکن اس کے پاس بنوقریظہ کے دوماہرعالم آئے اوراس کو ایسا کرنے سے منع کیا اور جب تبع نے ان سے اس کا سبب دریافت کیا توانھوں نے اس کوبتایا کہ مدینہ آخری زمانے میں قریش میں پیداہونے والے نبی کا دارالہجرت بننے والا ہے یہ سن کروہ مدینہ کو تباہ کرنے سے بازرہا اوران کا دین قبول کرلیا، پھریمن جاتے ہوئے وہ مکہ مکرمہ گیا وہاں بیت اللہ کا طواف کیا اورکعبہ پرغلاف چڑھایا اوران دونوں یہودی عالموں کولے کر یمن واپس گیا ۔(سیرت ابن ہشام ص:۱۹۔۲۹،ج ۱،الہدایۃ والنہایۃ ص:۵۲، ۵۵ج ۲،الکامل ص:۱۱۸، معالم التنزیل ص:۱۱۷۷،۱۱۷۸)
دراصل تبع یمنی قبیلہ حمیر کے بادشاہوں کا لقب تھا تبع کی جمع تبابعہ آتی ہے، یہ لوگ بت پرست تھے(ابن ہشام ص:۲۳،ج ۱) یہ صیفی بن سبأ اصغربن کعب بن زید کی اولاد تھے۔ (جمہرۃ انساب العرب ص:۴۳۸)ان کا عہد حکومت ۱۱۵ ؁ قبل مسیح سے ۵۲۵ھ ؁ تک رہا (تاریخ آداب العرب ص:۷۹، ج۱، تفہیم القرآن ص:۵۶۹، ج ۷۴) ان کا نسب نامہ محفوظ نہیں ہے اس میں بہت اختلاف پایاجاتا ہے اوران کی تاریخ کے بہت کم واقعات ایسے ہیں جوصحیح ہیں ۔(جمہرۃ انساب العرب ص:۴۳۹)
ایک حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ ان میں سے ایک تبع مسلمان ہوگیا تھا یعنی اس نے ابن ابراہیم علیہ الصلاۃ والسلام قبول کرلیا تھا، حدیث کے الفاظ ہیں:’’لا تَسُبُّوْا تَبَّعًا، فَاِنَّہُ قَدْ أسْلَمَ‘‘تبع کو برامت کہو، کیونکہ وہ مسلمان ہوگیاتھا۔
یہ حدیث حضرت سہل بن سعد ساعدی، عبداللہ بن عباس اور عائشہ رضی اللہ عنہم سے مروی ہے جوانفرادی سندوں سے توضعیف ہے مگرتمام سندوں سے اس کو حسن درجہ حاصل ہے (ملاحظہ ہوالصحیحہ ص:۵۴۸، ۵۲۹،ج ۵) اس حدیث کی ایک سند میں مسلمان ہونے والے تبع کا نام’’اسعد‘‘ آیا ہے جس کاذکر اوپرتبان اسعد ابوکرب کے نام سے آیا ہے یہ تبع اول نہیں، بلکہ تبع ثانی تھا۔
اوپرکی وضاحتوں سے معلوم ہواکہ تبع اول یاتبع دوم کسی کا بھی زمانہ رسول اللہﷺ کی ولادت مبارکہ سے ایک ہزارسال پہلے نہیں تھا بلکہ ان کے عہدحکومت کی ابتداء ۱۱۵ ؁ قبل مسیح میں ہوئی اس طرح تبع اول کازمانہ نبی کریمﷺ کی ولادت سے ۶۸۵ سال قبل قرارپاتا ہے اورجوتبع ایمان لے آیاتھا اس کازمانہ نبیﷺ کی پیدائش سے ۶سوسال پہلے ہوسکتا ہے۔
دوم مدینہ کے جن عالموں کے ہاتھوں اس نے دین ابراہیم قبول کیا وہ مدینہ کے دویہودی عالم تھے نہ کہ چارسوعالم۔
اورمدینہ میں حضرت ابوایوب انصاری رضی اللہ عنہ جس مکان میں مقیم تھے نہ وہ مکان تبع اورغیرتبع نے نبیﷺ کے لئے تعمیرکیاتھا اورنہ حضرت ابو ایوب کا تعلق ان علماء میں سے کسی سے تھا، کیونکہ وہ علماء یہودی تھے جبکہ حضرت ابوایوب رضی اللہ عنہ قوم سبا سے نسبت رکھتے تھے، جس کی تفصیل درج ذیل ہے:
۴۵۰ء ؁ یا ۴۵۱ء ؁ میں سلہ مأرب کے پھٹنے سے جوبہت بڑاسیلاب آیا اس کی وجہ سے قوم سبا کا ایک شخص عمروبن عامراپنے بال بچوں کو لے کروہاں سے نکل بھاگا ،اس کے تین بیٹوں میں سے ایک بیٹے ثعلبہ کی اولاد میں ایک شخص حارثہ تھا جس کے دوبیٹے ایک ہی بیوی قبیلہ بنت ارقم کے بطن سے تھے، ان میں سے ایک کانام اوس اوردوسرے کانام خزرج تھا، اسی آخرالذکر خزرج کی اولاد سے حضرت ابوایوب انصاری رضی اللہ عنہ کاتعلق تھا۔(ملاحظہ ہو: السیرۃ النبویہ فی ضوء المصادر الاصلیہ ص:۵۹اور سیرت سرورعالمﷺ ص:۶۷۹،ج دوم)
حضرت ابوایوب انصاری رضی اللہ عنہ کا نسب نامہ بیان کرنے سے قبل یہ واضح کردینا چاہتاہوں کہ ایک صحیح حدیث میں قوم سبأ کے نقل مکانی کرنے کا ذکرآیاہے، حضرت فروہ بن مسیک مرادی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہتے ہیں: ایک صاحب نے رسول اللہﷺ سے عرض کیا:اے اللہ کے رسولﷺ !سبأکیاہے؟ زمین یا عورت؟نبیﷺ نے فرمایا:
سبأ نہ زمین ہے اورنہ عورت، بلکہ وہ ایک مردکانام ہے جس کے دس عرب لڑکے پیدا ہوئے، ان میں چھ نے یمن میں سکونت اختیار کی اورچارنے شام کارخ کیا،جنھوں نے شام کا رخ کیا وہ لخم، جذام، غسان اورعاملہ ہیں اورجویمن میں باقی رہے وہ ازد، اشعری، حمیر،حذحج، انمار اورکندہ ہیں۔ (ابوداؤد، ح ۳۹۸۹،ترمذی ۳۲۲۲ اورابن ماجہ ح۱۹۴)
حضرت ابوایوب رضی اللہ عنہ کانام خالد تھا ان کانسب نامہ ہے:خالد بن زیدبن کُلیب بن ثعلبہ بن عبدعوف بن غنم بن مالک بن نجار بن ثعلبہ بن خزرج(جمہرۃ انساب العرب ص:۳۴۸ ، سیر أعلام النبلاء،ص:۵۱، ج ۳،الإصابہ ص:۴۰۵،ج ۱)
یعنی حضرت ابوایوب انصاری رضی اللہ عنہ کسی یہودی عالم کی اولادنہیں تھے،ہجرت کے موقع پر جب رسول اللہﷺ مدینہ میں رونق افروز ہوئے توہرشخص کی یہ خواہش تھی کہ اس کوآپ کی میزبانی کاشرف حاصل ہو،مگرآپ اونٹنی پرسوار رہے اورلوگوں سے فرماتے رہے کہ اونٹنی کا راستہ چھوڑدو کیونکہ یہ مامورہے،جب وہ بنی مالک بن نجار کے محلے میں پہنچی توٹھیک اس جگہ جاکربیٹھ گئی جہاں مسجدنبوی ہے، مگرنبیﷺ اس سے اترے نہیں پھروہ اٹھی اورکچھ دورچل کر دوبارہ اسی جگہ پلٹ آئی اوروہیں بیٹھ گئی، اس وقت نبیﷺ اس پرسے اترگئے اورلوگوں سے فرمایا:’’ہمارے اہل میں سے کس کاگھریہاں سے قریب ہے؟ حضرت ابوایوب انصاری رضی اللہ عنہ نے عرض کیا،اے اللہ کے رسولﷺ! میرا، یہ میراگھر ہے اوریہ میرا دروازہ ہے‘‘۔(صحیح بخاری ح ۳۹۰۶،۳۹۱۱)
اس حدیث میں یہ صراحت ہے کہ اونٹنی مسجد نبوی کی جگہ بیٹھی تھی اوردوسری چیزیہ ہے کہ نبیﷺ کے سوال پرحضرت ابوایوب انصاری رضی اللہ عنہ نے یہ عرض کیا:یہ میراگھرہے اگران کا گھرنبیﷺ کے لئے تعمیرکیاگیا ہوتا جیساکہ’’ المواھب، شرح المواھب ‘‘اورمذکورہ رسالے میں دعوی کیاگیا ہے، تووہ یہ عرض کرتے کہ اے اللہ کے رسولﷺ! یہ ہے آپ کاگھر جوایک ہزارسال سے آپ کا انتظار کررہا ہے، اورخودنبیﷺ اپنے اہل میں سے کسی قریب کے گھرکی بابت نہ دریافت فرماتے، بلکہ یہ فرماتے :میراگھرکہاں ہے؟۔
یادرہے کہ نبیﷺ نے ’’اپنااہل‘‘ جوفرمایاتھا وہ اس لئے کہ وہ بنونجار کا محلہ تھا اوریہیں آپ کا ددھیال تھا کیونکہ آپ کی پردادی سلمی بنت عمروبن زید کا تعلق بنونجار سے تھا۔
مذکورہ روایت میں یہ دعویٰ کیاگیا ہے کہ تبع کے ساتھ ڈھائی لاکھ فوج اورچارسو علماء تھے یہ دعوی خود اس روایت کے باطل اور من گھڑت ہونے پردلالت کرتاہے، کیونکہ اس زمانے میں یمن کے کسی بادشاہ کی معیت میں اتنی بڑی فوج کاہونا ناممکنات میں سے ہے، اس سے پانچ صدی بعدابرہہ مکہ پرچڑھائی کے لئے ۶۰ہزار سے زیادہ فوج نہیں جمع کرسکاتھا!! ***