Thursday, May 12, 2011

مصرمیں عوامی انقلاب jan-feb 2011 editorial

شمیم احمدندویؔ
مصرمیں عوامی انقلاب
اوراسرائیل وامری4159صرمیں عوامی بے چینی واضطراب اورحکومت وقت کی اسلام دشمن پالیسیوں سے اختلاف جب اپنی آخری حدوں کو چھونے لگا تواس کے نتیجہ میں عوامی غم وغصہ کا وہ سیلاب امڈپڑا جوقاہرہ کی’’ تحریر اسکوائر‘‘‘ سے ہوتا ہوا صدارتی محل تک جاپہونچا ،جس میں نہ صرف جبرواستبداد پرمبنی پالیسیاں اورجمہوری اقدارکی حفاظت میں ناکام قوانین خس وخاشاک کی طرح بہہ گئے،بلکہ حسنی مبارک کا تاعمرحکمرانی کاخواب بھی چکنا چورہوگیا، عوام کے جوش وخروش اوران کے غم وغصہ کوسرد کرنے کی مرحلہ وارتدابیر جو حاکمان وقت کی جانب سے اپنائی گئیں وہ ناکام ثابت ہوئیں، اوروہ حسنی مبارک جنھیں اپنے ۳۰؍سالہ دوراقتدار میں کبھی عوام کی خواہشات جاننے کی نہ فکرہوئی اورنہ ہی انھوں نے عوام کو اس قابل سمجھا کہ کسی بھی مسئلہ میں ان کی رائے معلوم کرنے کی کوشش کریں، وہ صرف دوہفتہ کے پرامن احتجاج کے دوران کئی کئی بارانھیں مخاطب کرنے یاپرکشش اعلانات کے ذریعہ ان کا غصہ سردکرنے کی کوشش پرمجبورہوئے، انھوں نے اقتدارسے اپنی دست برداری کا بھی اعلان کیا اورستمبرمیں صدارتی انتخابات کے ذریعہ انتقال اقتدارکے لئے اپنی اور اپنے بیٹے کی امیدواری کے امکانات کوبھی مستردکیا، کابینہ کوبھی تحلیل کیا اوراصلاحات کا وعدہ بھی، اختیارات کوتقسیم کرنے کے اعلانات بھی کئے اورترغیب وتحریض کے روایتی ہتھکنڈے اپنائے،فوجی جوتوں کی دھمک سے ان کو دہشت زدہ کرنے کی کوشش بھی کی اورٹیکنوں وبکتربندگاڑیوں کی نمائش سے خوف زدہ کرنے کی تدبیر بھی، فوجی ہیلی کاپٹروں کے ذریعہ ان کے دلوں میں لرزہ طاری کرنے کا منصوبہ بھی بنایا اورملک میں لاقانونیت کے انجام بدسے بھی ڈرایا، اورآخرمیں انٹلی جنس سربراہ عمرسلیمان کواپنے اختیارات سونپ کروقتی طورپر یہ ہنگامہ فروکرنے کی کوشش کی، لیکن ان کی نہ توکوئی تدبیر کارگرہوئی اورنہ کوئی ہتھکنڈہ کام آیا اور عوام کاسیل رواں حسنی مبارک کے اقتدارسے فوری طورپر بے دخل کئے جانے سے کم پرکوئی بھی تجویز ماننے اورکوئی بھی حل قبول کرنے پر تیار نہ ہوا، اوروعدہ فرداکوقبول کرکے یاستمبر تک کے لئے اس معاملہ کو معرض التوامیں ڈالنے کی تجاویز کومنظورکرکے وہ کوئی خطرہ مول لینے یاکوئی دھوکہ کھانے کے لئے تیار نہ تھے کہ ممکن ہے آج انھوں نے جس بے نظیراتحاد کا ثبوت دیاہے،گذرتے وقت کے ساتھ اس میں کمی آجائے اوران کی صفوں میں وہ اتحاد باقی نہ رہے جس کامظاہرہ انھوں نے پورے صبروتحمل سے کیا ہے اورجس کا مشاہدہ دنیانے ٹیلی ویژن اورانٹرنیٹ کے ذریعہ کیاہے،اس عوامی احتجاج کی‘ جس نے ایوان اقتدار اورقصرصدارت میں زلزلہ برپاکردیا ‘سب سے خاص بات یہ سمجھی جارہی ہے کہ اس کا نہ توکوئی باضابطہ لیڈر وقائد تھانہ ہی کوئی اپوزیشن پارٹی اس کی پشت پرتھی، مختلف اوقات میں مختلف لوگوں کے نام سامنے آتے رہے، کبھی سابق عالمی توانائی ایجنسی کے سربراہ محمدمصطفی البرادعی کے ہاتھ میں قیادت کی باگ ڈوررہی توکبھی الاخوان المسلمون کوان احتجاجات کاذمہ دار سمجھاگیا، لیکن باضابطہ طورپرکسی ایک نام یاتحریک پراتفاق رائے نہیں کیاجاسکتا،وہ صرف عوامی غم وغصہ کی آگ تھی جوبرسوں سے ان کے سینوں میں بھڑک رہی تھی اوریہ حکومت مصرکے فیصلوں کے خلاف ایک لاواتھا جوعرصہ سے پھٹ پڑنے کے لئے بے تاب تھا۔
اس عوامی احتجاج کے پیچھے کوئی منصوبہ بندی تھی اورنہ نتائج کی کوئی پیش بندی، بلکہ انجام وعواقب کی پرواکئے بغیرآتش نمرودمیں بے خطرکودپڑنے کی ایک مثال تھی، اس آگ کو سردکرنے اورعوامی جوش وجنون کوٹھنڈاکرنے کے لئے دنیا کے دیگر مطلق العنان فرمارواؤں اورسخت گیر آمروں کی طرح حسنی مبارک نے فوج کا استعمال کرنے کی کوشش کی، لیکن فوج نے نہتھے عوام پرگولیاں برسانے سے انکار کردیا ،یہ فوج کے کردار کا ایک قابل قدرنمونہ تھاکہ فوج ملک کے بیرونی دشمنوں سے لڑنے کے لئے تشکیل دی جاتی ہے نہ کہ پرامن مظاہرین کوگولیوں سے بھوننے کے لئے، شاید فوج کوبھی یہ سوچ کرشرم آئی ہوکہ وہ سب سے بڑے بیرونی دشمن اسرائیل کاتودودوبڑی جنگوں میں کچھ بگاڑنہ سکی اب عوام کے سینوں کو آسان ٹارگٹ سمجھ کران پرطبع آزمائی کرے تواس پراسے تمغہ شجاعت نہیں مل سکتا، لیکن حقیقت یہی ہے کہ اس نے اپنا انسانی واخلاقی فرض اداکیا، اس مصری انقلاب کی سب سے خاص بات یہی کہی جاسکتی ہے کہ جہاں ہزارطرح کی اشتعال انگیزیوں کے بعداوران کے جذبات کو سمجھنے سے انکار کے بعدبھی عوام نے بغیرکسی قابل ذکرقیادت کے جس صبر وتحمل کا مظاہرہ کیا اورامن پسندشہری ہونے کاثبوت دیا اورکسی طرح کے تشددکی راہ نہ اپنائی وہیں فوج نے طاقت کا بیجا استعمال نہ کرکے لاکھوں کی بھیڑ پراندھا دھند فائرنگ کرکے اپنے خلاف اس روایتی تصورکو ختم کیا جس کے لئے وہ دنیا میں بدنام ہے، ان دونوں کا کردارقابل ستائش ہے اوربغیرکسی بڑے خون خرابہ کے اس طرح کاپرامن انقلاب دنیا میں کم ہی آتا ہے، حالانکہ پرامن احتجاج کے چنددنوں بعدہی حسنی مبارک حکومت کی تائید وحمایت میں بھی ایک گروہ سامنے آیاتھا (جس کی حقیقت پرسے ابھی پردہ اٹھناباقی ہے) اس نے مظاہرین پر پتھراؤ بھی کیا اوران کو مشتعل کرنے والے اقدامات بھی کئے اوروقتی طورپر لگتا تھا کہ مظاہرین دومتحارب گروہوں میں تقسیم ہوگئے ہیں اورباہم دست وگریباں ہوکر ان کاحکومت مخالف مظاہرہ ناکام ہوجائے گا، لیکن اس کے برعکس انھوں نے صبروتحمل کا بے مثال مظاہرہ کیا اوراشتعال انگیزی کی ان دانستہ حرکتوں کے بعد بھی ایک حدسے آگے نہ بڑھے، اوراپنے عزائم کو منطقی انجام تک پہونچاکر دم لیا اورثابت کردیا کہ عدم تشدد کے ذریعہ بھی دنیا میں بڑے بڑے سیاسی انقلاب لائے جاسکتے ہیں، اورجابروظالم حکومتوں کاتختہ پلٹاجاسکتا ہے ،ہندوستان میں مہاتماگاندھی نے اسی کوہتھیار بناکرانگریزوں کو اس ملک سے بوریہ بسترگول کرنے پر مجبور کردیاتھا، کاش دنیا کے مختلف خطوں میں تشددوخون خرابہ پرآمادہ بعض تنظیموں، ماؤنوازوں، نکسل وادیوں اوراُلفا وغیرہ کی سمجھ میں یہ نکتہ آجائے ۔
اس موقع پرغورکرنے کامقام یہ ہے کہ آخروہ کیا وجہ تھی یا وہ کون سے اسباب تھے جنھوں نے انجام وعواقب سے بے پرواہوکرمصری عوام کوحکومت کے خلاف سینہ سپر ہوجانے کا حوصلہ بخشااوران کووہ جرأت رندانہ عطاکی کہ انھوں نے حکومت وقت کے ایوانوں کولرزہ براندام کردیا، ان میں سے ایک وجہ دنیاوی وسیاسی ہے اور ایک وجہ ملی واخلاقی ہے ،دنیاوی اسباب کا تجزیہ کیاجائے تواس ناقابل تصورحقیقت پرسے پردہ اٹھے گا کہ مصرقدرتی وسائل اورزرخیز وزرعی زمینوں سے مالامال ہے،نہرسویز سے ہونے والی آمدنی اورسیاحوں کی آمدورفت زرمبادلہ کے حصول کابیش بہا ذریعہ ہے، لیکن عوام نان شبینہ کے محتاج اورغربت وافلاس کے شکارہیں، اس کے پیچھے حکومت کی ناقص اقتصادی پالیسیاں اوربدعنوان سیاست دانوں کی عیش کوشیاں ہیں، قدرے تفصیل سے جائزہ لیں توبخوبی یہ حقیقت آشکاراہوگی کہ جہاں مصر کاایک بڑاعلاقہ دنیا کے چندزرخیز خطوں اورسونااگلنے والی زمینوں پرمشتمل ہے،جوروئی کی پیداوار کے سلسلہ میں دنیا کے اندر سرفہرست ہے اورآج دنیا میں اس کے لئے جوانگریزی کالفظ’’کاٹن‘‘ مستعمل ہے‘ وہ دراصل مصری یا عربی لفظ قُطُن کی بگڑی شکل ہے، دریائے نیل پوری دنیا میں صاف وشیریں پانی کے لئے اول مقام رکھتا ہے اوراس پانی سے سیراب ہونے والی فصلیں پیداوار وکوالٹی میں اپناجواب نہیں رکھتیں، اسی دریائے نیل اورزرخیز زمینوں کو دیکھ کرفرعون نے خدائی کا دعوی کردیاتھا اورکہاتھا:(ألیس لی ملک مصروھٰذہ الأنھار تجری من تحتی)حضرت یوسف علیہ السلام کے زمانہ میں جب خطہ کے بیشترممالک ایک طویل ۷سالہ عرصہ پر مشتمل قحط کا شکارہوئے تویوسف علیہ السلام کے حسن تدبیرودو ر اندیشی کے سبب اورمصر کی انھیں زرخیز زمینوں کی بدولت علاقہ کے کئی ملکوں کے باشندوں کاپیٹ بھرا اوروہ بھکمری کا شکارہوکرایڑیاں رگڑرگڑکر مرنے سے محفوظ رہے، حضرت عمرفاروق رضی اللہ عنہ کے زمانۂ خلافت میں جب جزیرہ العرب پرقحط مسلط ہوااورمدینہ کے باشندے بھوک سے مرنے لگے توحضرت عمرفاروق کے سامنے مصرسے غذائی کمک طلب کرنے کے سوا کوئی چارہ نہ تھا، حضرت عمروبن عاص رضی اللہ عنہ گورنرمصرسے غلہ طلب کیاگیا اورکچھ تاخیر ہونے پرسختی سے ہدایات دربارخلافت سے جاری ہوئیں توانھوں نے جواب دیا کہ میں غلوں سے لدااونٹوں کاقافلہ تیارکرکے بہت جلد بھیج رہا ہوں اوروہ اتنا بڑاہوگا کہ اس قافلہ کا پہلااونٹ مدینہ میں داخل ہوجائے گا اورآخری اونٹ مصرسے نکل رہاہوگا، ان کی اس بات میں مبالغہ ہوسکتا ہے لیکن اس سے یہ بات سمجھی جاسکتی ہے کہ مصرغذائی پیداوار میں نہ صرف خودکفیل تھا بلکہ قرب وجوار کے علاقوں کاپیٹ بھرنے کی صلاحیت رکھتا تھا، اسی قحط کے موقع پر حضرت عمررضی اللہ عنہ نے گورنرمصرعمروبن عاص رضی اللہ عنہ سے کہاتھا کہ تمھیں مصر اور عرب کے درمیان بحری راستہ نکالنا ہوگا تاکہ دوبارہ اس طرح کی افتاد پڑنے پربلاتاخیر مصرسے غذائی امداد دارالسلطنت مدینہ کو بھیجی جاسکے، آج اس فاروقی خواب کوہم حقیقت کے روپ میں نہرسوئزکی شکل میں دیکھ رہے ہیں ساتھ ہی مصرکی غذائی پیداواری صلاحیت کومحسوس کررہے ہیں۔
مصرقدرتی وسائل اورپٹرولیم وقدرتی گیس کے ذخائر سے بھی مالامال ہے جواس کی آمدنی کاایک بڑا ذریعہ ہے اس کااندازہ صرف اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ اسی حالیہ مزاحمتی تحریک کے دوران جب گیس پائپ لائن کو نقصان پہونچایا گیا توصرف وہ پائپ لائن جواسرائیل تک جاتی تھی اس کووقتی طورپر بندکردیاگیا،اس کے نتیجہ میں اسرائیل کویومیہ ۲۰؍لاکھ ڈالرکا نقصان ہوتارہا ،دورونزدیک کے اورملکوں کوجوگیس سپلائی کی جاتی رہی اس سے ہونے والی آمدنی کوسمجھاجاسکتا ہے ،نہرسوئز مصرکی اقتصادیات میں خصوصی اہمیت کی حامل ہے یہ ایک سیاسی ہتھیاربھی ہے اورمصری معیشت کی مضبوطی میں اس کا نمایاں کرداربھی ہے، صدرجمال عبدالناصر نے اپنی حکومت میں ایک بارجب اس کو قومیانے کااعلان کیا تھا تودنیا میں تہلکہ مچ گیاتھا جیسے کہ شاہ فیصل مرحوم نے پٹرول کوایک کارگرہتھیار کے طورپراستعمال کا اعلان کرکے دنیا کے متعددملکوں اورمغربی طاقتوں میں کہرام مچادیاتھا اوران کواسرائیل نوازی کی بھاری قیمت چکانے پرمجبورکردیا تھا، نہرسوئز سے مصرکوسالانہ اربوں ڈالرکی آمدنی ہوتی ہے، صرف ۲۰۱۰ء ؁ میں سوئز سے ہونے والی آمدنی ۴؍ارب ۷۰کروڑ ڈالرتھی جوبحری جہازوں سے وصول ہونے والے محصولات کی شکل میں تھی،یہ ایک اضافی آمدنی ہے جومصری معیشت کومضبوطی فراہم کرتی ہے ساتھ ہی پورپ وایشیاء کے درمیان اس مختصرترین آبی گزرگاہ کی تعمیرسے دنیا کی تجارت اورجہازوں کی آمدورفت ونقل حرکت کوایک نیاموڑ مل گیا اوروقت ووسائل کی بے پناہ بچت بھی ،واضح ہوکہ فرانسیسی انجینئروں کے ذریعہ اس نہر کی تعمیرسے قبل پورپ سے آنے والے بحری جہاز پورے براعظم افریقہ کا چکرلگاکرآنے کے لئے مجبورتھے ،جس میں وقت ووسائل کاناقا بل برداشت ضیاع ہوتا تھا۔
مصری اقتصادیات کورواں دواں رکھنے کے لئے تیسرااہم ذریعہ سیاحت اورپوری دنیا سے آنے والے سیاحوں کی آمدورفت ہے ،جوفراعنہ مصرکی حیرت انگیز دنیا اور وہاں موجود پیرامیٹس(اہرام) کی دیدارکے لئے سالانہ کروڑوں کی تعدادمیں آتے ہیں اورمصری حکومت کومختلف صورتوں میں اربوں ڈالردے کرجاتے ہیں ،مصرکا شمار دنیا کے ان چندملکوں میں ہوتا ہے جہاں سب سے زیادہ سیاح آتے جاتے ہیں۔
ان سب ذرائع آمدنی کے نتیجہ میں مصری معیشت کو دنیا کی چندمضبوط ترین معیشتوں میں سے ایک ہوناچاہئے، دنیا کے مختلف ملکوں کے ساتھ تجارت، اسرائیلی مفادات کے تحفظ کی قیمت اورامریکی مراعات بھی اربوں ڈالر کی شکل میں ملتی ہے، اس طرح مصر اوروہاں کے عوام کو خوش حال ہوناچاہئے، لیکن معاملہ اس کے برعکس ہے ،نہ تومصر کاشمارٹھوس ومضبوط اقتصادی بنیادیں رکھنے والے ملک میں ہوتا ہے نہ ہی وہاں کے عوام خوش حال اوروسائل عیش سے مالامال ہیں،بلکہ عالمی معیشت میں اس کا نمبر۱۳۷ واں ہے اوروہ افریقی ممالک جو غربت وافلاس کی تصویر ہیں ان میں بھی اس کوکوئی نمایاں مقام حاصل نہیں ہے، بلکہ حیرت ہوتی ہے یہ جان کر کہ افریقی ممالک میں بھی فی کس آمدنی کے حساب سے یہ غربت میں سرفہرست ہے صرف’ کانگو‘کے عوام غربت میں اس سے آگے یعنی غریب ترہیں، یہاں کی شرح نموصرف ساڑھے ۴فیصدہے جب کہ مہنگائی کی شرح اس سے تین گنی رفتار سے بڑھ رہی ہے اوروہ ۱۳؍فیصد ہے اس طرح عوام کی غربت میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے، اورمختلف جائزوں کی مختلف رپورٹوں کے مطابق ۱۵فیصد سے ۴۰فیصدتک لوگ خط افلاس سے نیچے زندگی بسرکررہے ہیں اوران کو درکارضروری وسائل زندگی بھی حاصل نہیں، صرف دارالحکومت قاہرہ میں دس لاکھ ایسے مفلوک الحال لوگ ہیں جن کاگزربسر لوگوں کی امداد پرہے یاوہ باقاعدہ گداگری کاپیشہ اپنائے ہوئے ہیں جن میں سے بعض لوگ تولوگوں کے دست عنایت کے محتاج ہوکر مستقل طورپر قبرستانوں میں مقیم ہیں، تقریباً ۱۰فیصد لوگ بے روزگار ہیں یعنی ان کا کوئی ذریعہ معاش نہیں ہے،پھرسوال یہ پیداہوتا ہے کہ سطوربالامیں مذکورملکی آمدنی کے بعض اتنے اہم ذرائع سے حاصل ہونے والی دولت کہاں جاتی ہے؟اس کاسیدھاجواب یہ ہے کہ ملک میں لوٹ کھسوٹ ،بدعنوانی اورملکی دولت کاتصرف بیجا عام ہے اوریہ چند خاندانوں اورحکومت پرحاوی اجارہ داروں اورمطلق العنان آمریت پسندوں تک محدود ہے، اورعوام استحصال بیجا کا شکارہوکر اس سے بڑی حد تک محروم ہیں، تازہ ترین خبروں کے مطابق مصری صدرحسنی مبارک(جواب سابق ہوچکے ہیں)کی جودولت سوئزبنک میں موجود ہے‘ بنک نے ایک حالیہ فیصلہ میں ان کی تمام دولت اوراثاثے منجمد کردئے ہیں، جس کا مصری عوام نے دل سے استقبال کیاہے،صحیح اعدادوشمار توپیش کرنا شاید آسان نہ ہو،لیکن ایک اندازہ کے مطابق حسنی مبارک کی دولت ۷۰ارب امریکی ڈالرسے زائد ہوگی جودنیا کے مختلف ملکوں کے بنکوں اورغیر منقولہ جائدادوں کی شکلوں میں موجود ہے یہ دولت دنیا کے امیرترین آدمی بل گیٹس کی دولت سے بھی زائد ہے جومفلس وقلاش عوام کا خون چوس کراورملکی وسائل کولوٹ کرحاصل کی گئی ہے، اس لوٹ کھسوٹ پرعوام کے اندراضطراب وبے چینی کا پیداہونا ایک یقینی امراورلازمی نتیجہ ہے، حسنی مبارک نے عوام کے باغیانہ تیوردیکھ کراپنے بیٹے اور ولی عہدسلطنت جمال مبارک کوکچھ روزقبل اپنے اہل خانہ کے ساتھ ملک سے رخصت کردیاہے، کہایہ جارہا ہے کہ اس نے تقریباً ۱۰۰سوٹ کیسوں میں اپنی دولت کاایک بڑا حصہ لے کرراہ فراراختیار کیاہے، ابھی کچھ روزقبل جب تیونس میں آئی سیاسی تبدیلی کے نتیجہ میں وہاں کے مطلق العنان فرماں روا زین العابدین بن علی کو ملک چھوڑنے پرمجبورہوناپڑاتوان کی عیش پرست بیوی ملکی بنکوں سے جودولت نکلواکرلے گئی اس میں صرف سونا ڈیڑھ ٹن تھا، اوردنیا کے دیگر ملکوں میں جمع شدہ دولت اورجائدادیں اس کے علاوہ ہیں، اگریہ صرف افسانہ نہیں ہے توعوام کی مجبوری ولاچاری اورحکومت کے وسائل معیشت کااس بے دردی سے استحصال سمجھاجاسکتا ہے جواسی طرح کی بے اطمینانی پیداکرتا ہے جس میں حکومتیں زیروزبرہوجاتی ہیں۔
مصری عوام کاپیمانہ صبر جب لبریز ہوگیا تووہ اپنے غم وغصہ کے اظہارکے لئے حکومت کی فوری برخواستگی کا مطالبہ لے کرسڑکوں پرآگئے اورملکی کام کاج ٹھپ کردیا، جس کے نتیجہ میں اسٹاک مارکیٹ کوبندکردیاگیا اورملکی معیشت کو یومیہ تقریباً ۳۰کروڑ ڈالرکا نقصان ہوتا رہا ہے، لیکن وہ حسنی مبارک کی اقتدارسے بے دخلی سے کم کسی بات کومنظور کرنے پر راضی نہ تھے، اوپرمذکوربے اطمینانی وبے چینی کی یہ صرف ایک وجہ تھی جس کا تعلق عوام کی اقتصادیات اوردنیاوی زندگی کی سہولیات سے ہے، لیکن عالم اسلام کے تناظرمیں اگردیکھاجائے تودوسری وجہ اس سے بھی بڑی اوردوررس نتائج کی حامل ہے جس نے عالم اسلام کی نظروں میں مصری حکومت کی بے حسی، غزہ کے مسلمانوں کے حق میں بے رحمی وشقاوت قلبی ،عام مسلمانوں کے مسائل سے لاتعلقی اورامریکی حکومت کے سامنے سجدہ ریزہونے کی بے غیرتی کوواضح کردیاہے۔
وہ اسرائیلی جس کا وجود عالم اسلام اورعالم عرب کے سینہ میں پیوست ایک خنجرکی طرح ہے جس کادرداور جس کی کسک ہرمسلمان اپنے دل میں محسوس کرتا ہے، دنیا کے نقشہ پر اس کی موجودگی ہی حق وانصاف کا مذاق اڑانے کے لئے کافی ہے ،چہ جائیکہ فلسطینی مسلمانوں پر اس کے روح فرسا مظالم اورعورتوں وبچوں میں تمیز کئے بغیراس کاطاقت کااندھا دھند استعمال ،غزہ کی ناکہ بندی اورمسجد اقصیٰ کی بے حرمتی، یہ ساری حرکتیس مسلمانان عالم کے لئے ناقابل برداشت ہیں ،لیکن مصری حکومت کی بے شرمی وبے غیرتی کے سوااسے کیا کہیں گے کہ اسی اسرائیل سے مصر نے محبت کی پینگیں بڑھائیں اورالفت کے تعلقات استوارکئے اوراس سے کچھ مراعات یامالی فوائد حاصل کرنے کے لئے اس کی جارحیت اورظلم وسرکشی کی عملاً تائید کی، اورجب اسرائیل نے غزہ کی بے سبب ناکہ بندی کی توجغرافیائی اعتبارسے مصردنیا کا واحد ملک تھا جواپنی گزرگاہ کھول کرغزہ کے ستم رسیدہ مسلمانوں کو راحت پہونچا سکتا تھا،لیکن اس نے ان مظلومین سے اظہارہمدردی ویکجہتی کے بجائے اسرائیلی مظالم کی تائید کی اوران کوسسک سسک کر جینے کے لئے مجبور کیا اوراسرائیل کے لئے سامان فرحت اورمسلمانوں کے لئے سامان ذلت ونکبت مہیا کیا، حالانکہ پوری دنیا کے مسلمان ہی نہیں انصاف پسندانسان اس ظلم وبربیت پرچیخ اٹھے تھے، ترکی نے امدادی بحری جہاز سے ان کوراحت پہونچا نے کی کچھ کوشش کی تھی، لیکن اسرائیل نے اس کا کیا حشرکیا ؟بتانے کی ضرورت نہیں ،لیکن اس درندگی کے مظاہرہ پربھی مصرخاموش رہا، اوراس طرح وہ خماربارہ بنکوی کے اس شعر کی تصویر بنا ؂
ارے اوجفاؤں پہ چپ رہنے والے
خموشی جفاؤں کی تائید بھی ہے
یوں تومصر نے انورالسادات کے زمانہ ہی میں اپنی پٹری بدل لی تھی اوراسرائیل وامریکہ کی دوستی ہی میں اپنے لئے سامان عزت تلاش کرنا شروع کردیا تھا اورایسا اس وقت تھا جب وہ اسرائیل کوسبق سکھانے کی پوری صلاحیت رکھتا تھا، ۱۹۷۳ء ؁ میں رمضان المبارک میں ہونے والی مصر اسرائیلی جنگ میں اس نے اپنی اس صلاحیت کوثابت بھی کردیا تھا اوراسرائیل کے ناقابل تسخیر ہونے کی پول کھول دی تھی، لیکن پھرانورالسادات مغربی طاقتوں کے بچھائے ہوئے جال میں پھنس گئے اورکیمپ ڈیوڈ معاہدہ کے ذریعہ کچھ حقیردنیاوی فوائد حاصل کرنے کی کوشش کی، لیکن اصلاً اسرائیل وامریکہ کے مفادات کوپورا کیا اوراسرائیل کوتحفظ فراہم کیا، اس طرح وہ اسرائیل جوعرب ممالک کے خطرات میں گھراہونے کی وجہ سے پوری دنیا میں سب سے زیادہ اپنے دفاع پرخرچ کرتا تھا جو اس کی مجموعی قومی آمدنی کا ۳۰فیصد حصہ تھا،لیکن مصر سے اس کے سمجھوتہ کے بعداس کادفاعی بجٹ محض۸فیصد رہ گیا، اس طرح اس کی وہ رقم جو فوجی تیاریوں پرخرچ ہوئی تھی، دیگرترقیاتی منصوبوں پرخرچ ہونے لگی اوراس کی معیشت کونہ صرف استحکام حاصل ہوا بلکہ علاقہ میں اسے سازشوں کا جال بچھانے کی مہلت بھی ملی جویہودیوں کی بدنام زمانہ خصلت ہے، اس طرح خطہ میں اسرائیلی داداگیری اورریشہ دوانی کا مصرنہ صرف بڑی حد تک ذمہ دار ہے بلکہ اگریہ کہاجائے کہ سب کچھ اس کی رضامندی سے ہوتا رہاہے توغلط نہ ہوگا۔
بعدمیں انورالسادات کوجب قتل کردیا گیا توموہوم سی امید تھی کہ شاید اب مصر کی خارجہ پالیسی اسرائیل کے تئیں بدلے گی اوروہ عالم اسلام کے مسلمانوں کے غم میں اپنے کو شریک سمجھے گا، لیکن ہوا اس کے برعکس، حسنی مبارک کے آنے پر عالم اسلام کی رسوائی کا مزید سامان ہوا اورانھوں نے مصر کوامریکی مفادات کے آگے بالکل ہی گروی رکھ دیا اوروہ بھی امریکی امداد کے نام چند حقیر ٹکوں کے حصول کے لئے جس سے مصری معیشت کواستحکام ملاہویا نہ ملاہو لیکن حسنی مبارک کے ذاتی اکاونٹ کوکافی استحکام ملا۔
عالمی پیمانہ پرملی مفادات کونظرانداز کرکے امریکی واسرائیلی مفادات کاآلہ کاربننا حسنی مبارک کا دوسرا سب سے بڑا جرم تھا، جس کی انھیں سزاملنی ہی چاہئے، اورعوامی غصہ کا ابلتا ہوا لاوا ان سے ہی حقیقت منوارہاہے کہ خودغرضی ومفادپرستی اورجبرواستحصال کی پالیسی ہمیشہ کامیاب نہیں ہوسکتی،اورفوجی قوت کے ذریعہ عوامی جذبات کودبانے کی کوششیں ہمیشہ نتیجہ خیز ثابت نہیں ہوسکتیں، اب تازہ ترین صورت حال یہ ہے کہ حسنی مبارک تاج وتخت سے دستبردار ہوکرملک یابیرون ملک کی کسی نامعلوم منزل کو روانہ ہوچکے ہیں اورمصری عوام کوابھی اپنی منزل کی تلاش ہے، فی الحال اقتدار کا محورفوجی قیادت ہے جوجمہوری طریقوں سے انتقال اقتدار کی کوششوں میں تعاون کرتی ہے یاپھرامریکہ کے اشاروں پر ناچتی ہے ؟یہ دیکھنا ابھی باقی ہے۔
مصرکے حالیہ سیاسی بحران کا ایک شاخسانہ یہ ہے کہ اس عوامی احتجاج کے دوران جس پریشانی واضطراب کا مظاہرہ اسرائیل وامریکہ اورمغربی ممالک نے کیا اس قدر شدید فکر وتشویش اوربے چینی وگھبراہٹ کامظاہرہ شاید حسنی مبارک کی طرف سے بھی نہ ہواہوجوآخرتک پورے طمطراق سے اپنے اس موقف پراڑے رہے کہ وہ ستمبرسے قبل استعفیٰ نہیں دے سکتے، اور فوری استعفیٰ کی صورت میں ملک کو درپیش خطرات وسیاسی بحران سے عوام کو خوف زدہ کرنے کی کوشش کرتے رہے، لیکن اس انقلابی صورت حال اورملک میں سیاسی تبدیلی کی اس لہرسے اگرکوئی ملک صحیح معنوں میں پریشان ہوا تووہ اسرائیل تھا اوراگر کسی ملک کوصحیح معنوں میں تشویش ہوئی تووہ امریکہ تھا ،لیکن حسنی مبارک نے نوشتہ دیوارخواہ پڑھا ہویانہ پڑھاہو لیکن امریکہ واسرائیل نے وہ تحریر ضرورپڑھ لی تھی جو’’تحریر اسکوائر‘‘پرعوام اپنے جوش ولولہ اورجذبۂ حریت سے لکھ رہے تھے، عوامی جذبات کو نظرانداز کرنا امریکہ کے لئے آسان نہ تھا جودنیا میں جمہوریت کا سب سے بڑا پاسبان سمجھاجاتا ہے اورجوبزعم خود حقوق انسانی کا سب سے بڑا محافظ اورامن کا پیامبر ہے، اس لئے براک اوبامہ نے چشم زدن میں حسنی مبارک کی پشت پناہی اوربیجا طرف داری سے ہاتھ کھینچ لئے اوران کو جانے کا پیغام دے دیا، تاکہ ایک طرف عوام کے غم وغصہ کوسردکیا جاسکے اوران کو اپنا ہم نوا وہم خیال بنایاجاسکے تاکہ امریکی سازشوں سے مصرکازمام اقتدارجوبھی سنبھالے‘ اسے مصری عوام اپنا سمجھیں ،لیکن درحقیقت وہ امریکی واسرائیلی مفادات کا ویسا ہی خیال رکھے جیسا کہ اس کے پیش رو رکھتے آئے ہیں،اسرائیل کی تشویش کو اس پوری صورت حال کی روشنی میں بآسانی سمجھاجاسکتا ہے، جسے اب صرف معاہدہ کیمپ ڈیوڈ ہی کی نہیں بلکہ اپنا وجودباقی رکھنے کی فکرہے، اورامریکہ بھی خطہ میں اپنا ایک طاقت ور حلیف کھونا کبھی پسند نہیں کرے گا، اوراپنی من پسندحکومت بنانے کے لئے کچھ بھی کرنے کے لئے تیاررہے گا، اس لئے فی الحال یہ کہنا اتناآسان نہیں کہ حسنی مبارک کی اقتدارسے بے دخلی کے بعد سارے معاملات خوش اسلوبی سے طے ہوجائیں گے اورنہ ہی یہ کہاجاسکتا ہے کہ اب مصرکا جو نیا حکمراں آئے گا وہ عوام کی توقعات پرپورا اترے گا، ہم صرف نیک خواہشات کا اظہار ہی کرسکتے ہیں۔
(نوٹ)مصروتیونس کے سیاسی انقلابات سے شہ پاکر بعض اردووہندی اخبارات یاالیکٹرانک و پرنٹ میڈیا نے تمام ہی عرب ممالک بشمول سعودی عرب وکویت میں بھی سیاسی بے چینی کی موجودگی یاحکومت کی تبدیلی کی پیشین گوئی شروع کردی ہے جوبالکل ہی مہمل ولغوبات ہے اوراس کا حقیقت سے دورکا بھی تعلق نہیں ہے، سعودی عرب میں عوام کو جوشہری سہولیات میسرہیں اورامن وامان کا دوردورہ ہے اس کادنیا کے کسی دوسرے ملک میں تصوربھی نہیں کیاجاسکتا ،جس کی وجہ سے عوام خوش حال وفارغ البال اور اپنے طرزحیات سے مطمئن ومسرور ہیں، اوراس سے بہترکسی فلاحی ورفاہی ریاست کے وہ متمنی وطلب گار نہیں ہیں ،یہ ایک مستقل موضوع ہے، ان شاء اللہ اگلے شمارہ میں اس پراظہار خیال کیاجائے گا۔
***

رسول اکرمﷺ کی ولادت سے ایک ہزار سال قبل مدینہ منورہ میں آپ کے لئے مکان کی تعمیر؟ jan-feb 2011

ڈاکٹرسیدسعیدعابدی
صدرشعبۂ اردو،جدہ ریڈیو،سعودی عرب
رسول اکرمﷺ کی ولادت سے ایک ہزار سال قبل
مدینہ منورہ میں آپ کے لئے مکان کی تعمیر؟
مسئلہ: ایک صاحب اپنے خط میں تحریر فرماتے ہیں:
میں نے ایک اردورسالے میں پڑھاہے کہ ہجرت کے بعدرسول اللہﷺ نے مدینہ طیبہ میں حضرت ابوایوب انصاری رضی اللہ عنہ کے مکان میں اس لئے قیام فرمایاتھا کہ درحقیقت وہ آپ ہی کامکان تھا نہ کہ حضرت ابوایوب انصاری رضی اللہ عنہ کا جس کی تفصیل درج ذیل ہے:
آنحضورﷺ کی ولادت سے تقریباً ایک ہزارسال پہلے ایک بہت بڑا بادشاہ گزرا ہے جس کانام تبع بن حسان تھا، وہ زبورکا پیروکار تھا اور بہت نیک انسان تھا ایک دفعہ تقریبا ڈھائی لاکھ افراد کوساتھ لے کرمکہ مکرمہ میں حاضرہوا، اورکعبہ پرریشمی غلاف چڑھایا، واپسی پرجب اس کا گزراس جگہ سے ہواجہاں اب مدینہ آباد ہے تواس کے ساتھ سفرکرنے والے چارسو علماء نے خواہش ظاہرکی کہ ہم یہاں مستقل طورپر قیام کرناچاہتے ہیں ،بادشاہ نے وجہ پوچھی، توانھوں نے بتایا کہ ہماری مذہبی روایات کے مطابق یہ جگہ ایک عظیم نبی احمدﷺ کی جلوہ گاہ بنے گی، ہم یہاں اس لئے رہنا چاہتے ہیں کہ شاید ہمیں اس نبی کی دیدار اورخدمت کی سعادت حاصل ہوجائے، نیک دل بادشاہ نے نہ صرف یہ کہ انھیں اجازت دیدی بلکہ سب کے لئے مکانات بھی تعمیر کروائے اوررہائش کی جملہ ضروریات مہیا کردیں۔
پھرایک مکان خصوصی طورپر نبوایا اورآنے والے نبی کے نام ایک خط لکھا جس میں اقرار کیاکہ میں آپ پر ایمان لاچکاہوں اوراگر آپ کاظہورمیری زندگی میں ہوگیا تومیں آپ کا دست مبارک بن کررہوں گا،اس کے بعدیہ دونوں چیزیں، مکان اورخط اس عالم کے حوالہ کردیں جو ان میں سب سے زیادہ متقی اورپرہیز گار تھا اورکہا کہ فی الحال تم اس مکان میں رہو اوریہ خط سنبھال کررکھو، اگرتمہاری زندگی میں ان نبی کا ظہورہوگیا تویہ دونوں چیزیں ان کے حوالہ کردینا ورنہ اپنی اولاد کو وصیت کرجانا۔
اس وصیت پرنسلاً بعدنسلٍ عمل ہوتا رہا اوردونوں چیزیں اس پرہیز گار انسان کی اولاد میں منتقل ہوتی رہیں،اسی طرح ایک ہزار سال کا طویل عرصہ گزرگیا اب اس مرد صالح کی اولاد میں سے حضرت ابوایوب انصاری رضی اللہ عنہ اس مکان کے محافظ ونگہبان تھے اور خط بھی انہی کے پاس محفوظ تھا۔
پھرجب اس مکان کے حقیقی مالک ووارث ﷺ رونق آرائے بزم عالم ہوئے اورابوایوب ان پرایمان لائے توابولیلی کو خط دے کرمکہ بھیجا کہ آپ کی خدمت میں پیش کردیں، ابولیلی نے اس سے پہلے آنحضرت ﷺ کو نہیں دیکھا تھا مگر آنحضرت ﷺ کی نگاہوں سے توکوئی شئی اوجھل نہ تھی، ابولیلی پرنظر پڑتے ہی ارشاد فرمایا:’’تم ابولیلی ہو اورتبع اول کاخط لے کرآئے ہو؟‘‘۔
دراصل اللہ تعالیٰ نے ابوایوب رضی اللہ عنہ والے مکان کو اولین جلوہ گاہ مصطفی ﷺ کے طورپر اس لئے منتخب فرمایا تھا کہ وہ مکان بنایا ہی آپ کے لئے گیا تھا، جو ایک ہزار سال سے اپنے حقیقی وارث کی راہ تک رہا تھا.....‘‘۔
جواب: اس واقعہ کا نہ کوئی سر ہے اورنہ پیر بلکہ ان لوگوں کے ذہنوں کی اختراع ہے جواللہ کی کتاب اورصحیح احادیث میں بیان کردہ سیرت پاک کے واقعات کوکافی تصورنہیں کرتے اس واقعہ کا ذکر علامہ شیخ احمد بن محمدقسطلانی رحمہ اللہ متوفی ۹۲۳ھ نے اپنی مشہور کتاب’’ المواھب اللدنیہ‘‘ میں مختصراً کیا ہے اورحوالہ مشہور سیرت نگار محمد بن اسحاق کی کتاب’’المبتدا‘‘کا دیاہے، لیکن یہ واقعہ نقل کرنے کے بعدانھوں نے لکھا ہے: ’’اسی طرح یہ واقعہ’’تحقیق النصرہ‘‘ میں بیان کیاہے۔
اس عبارت سے معلوم ہوتا ہے کہ قسطلانی نے یہ واقعہ براہ راست ’’المبتدا‘‘سے نہیں نقل کیاہے بلکہ شیخ زین الدین بن حسین مراغی کی کتاب ’’تحقیق النصرۃ فی تاریخ دارالھجرۃ‘‘ سے نقل کیاہے جس میں ابن اسحاق کی کتاب’’المبتدأ‘‘ کاحوالہ دیاگیاہے۔
قسطلانی رسول اکرمﷺ کی ہجرت مدینہ اورحضرت ابوایوب انصاری رضی اللہ عنہ کے مکان میں رونق افروز ہونے سے متعلق صحیح روایات کے ذکرکے بعدلکھتے ہیں:
’’ابن اسحاق نے ذکرکیاہے کہ ابوایوب کے اس مکان کی تعمیرنبی ﷺ کے لئے’’تبع اول‘‘ نے اس وقت کی تھی جب وہ مدینہ سے گزراتھا اوروہاں چارسوعلماء کو چھوڑ دیاتھا اورنبی ﷺ کے نام ایک مکتوب لکھ کر ان علماء میں سب سے بڑے عالم کو دیتے ہوئے اس سے یہ طلب کیاتھا کہ اس کو نبی ﷺ کی خدمت میں پیش کردینا، اس کے بعدیہ مکان ایک شخص سے دوسرے کو منتقل ہوتا رہا یہاں تک کہ حضرت ابوایوب رضی اللہ عنہ کی تحویل میں آگیا جومذکورہ عالم کی اولاد میں سے تھے اوراہل مدینہ کے جن لوگوں نے رسول اللہﷺ کی نصرت وحمایت کی تھی وہ سب انہی علماء کی اولاد تھے جن کو ’’تبع اول‘‘ نے مدینہ میں چھوڑدیا تھا، اس طرح رسول اللہ ﷺ خود اپنے مکان میں اترے تھے نہ کہ کسی اورکے مکان میں ۔(ص:۳۱۱۔۳۱۲ ج۱)
یہ واقعہ مزید تفصیلات کے ساتھ علامہ محمد زرقانی بن عبدالباقی رحمہ اللہ متوفی ۱۱۲۲ھ نے اپنی کتاب’’شرح علی المواھب اللدنیہ‘‘ میں کیاہے۔
علامہ قسطلانی اورزرقانی کا شمار مصرکے ممتاز علماء میں ہوتا ہے، ان دونوں کوتاریخ وسیرکے علاوہ حدیث کا بھی گہرا اوروسیع علم حاصل تھا، چنانچہ شیخ قسطلانی کی شرح بخاری: ’’ارشاد الساری إلی شرح صحیح البخاری ‘‘اورزرقانی کی’’مختصر المقاصد الحسنۃ للسخاوی‘‘ کو بڑی شہرت حاصل ہے۔
لیکن چونکہ ان دونوں بزرگوں کا نہ صرف یہ کہ تصوف سے تعلق تھا بلکہ ان کا شمار ان صوفیا میں ہوتا تھا جو’’راہ سلوک‘‘ ہی کو راہ نجات یا ’’راہ وصال‘‘ سمجھتے ہیں اس لئے ان کی کتابوں میں بے بنیاد اورمبالغہ آمیز واقعات کی بھرمار ہے اوراس سلسلے میں ’’المواھب اورشرح المواھب‘‘ دونوں سیرت کی ان کتابوں میں سرفہرست ہیں جن میں رسول اکرم فداہ ابی وامی ﷺ کی سیرت پاک کے صحیح اور مستند واقعات کے ساتھ ایسے بے شمار واقعات بھی ہیں جوبالکل بے بنیاد اور من گھڑت ہیں۔
قسطلانی اورزرقانی نے مذکورہ واقعہ محمدبن اسحاق کی کتاب’’ المبتدأ‘‘ سے لیاہے جیساکہ اوپربیان کیاجاچکا ہے اورمحمدبن اسحاق نے اس کی کوئی سند نہیں بیان کی ہے اوراگر وہ اس کی سند بیان بھی کرتے تواپنی ثقاہت کے مختلف فیہ ہونے کی وجہ سے ان کی یہ سند زیادہ سے زیادہ ’’حسن‘ کے درجے کو پہنچتی، اب جبکہ یہ واقعہ انھوں نے سند کے بغیر بیان کیا ہے اس لئے اورسیرت ابن ہشام میں ان کے حوالہ سے بیان کردہ واقعہ سے بالکل مختلف ہونے کی وجہ سے ’’ساقط الاعتبار‘‘ ہوجاتا ہے،اسی سبب سے مشہور سیرت نگارعلامہ ابومحمد عبدالملک بن ہشام بن ایوب حمیری نے اپنی کتاب: سیرت ابن ہشام میں اس کاکوئی ذکرنہیں کیاہے جبکہ وہ محمد ابن اسحاق کی روایات ہی پرمبنی ہے اوراس میں جہاں سیرت پاک کے واقعات سند کے ساتھ بیان ہوئے ہیں وہیں بہت سارے واقعات سند کے بغیر بیان ہوئے ہیں ، بہرحال ابن ہشام کی سیرت میں اس واقعہ کے مذکور نہ ہونے سے دوباتیں معلوم ہوتی ہیں،یا تواس واقعہ کی نسبت ابن اسحاق سے صحیح نہیں ہے یا یہ اپنے باطل ہونے کی وجہ سے اس قابل نہیں تھا کہ وہ اس کواپنی کتاب میں نقل کرتے۔
البتہ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے فتح الباری (ص:۱۷۵۴،ج ۲) میں صیغۂ تمریض ’’کہاجاتاہے‘‘ کے ساتھ لکھا ہے کہ’’جب تبع نے حجاز پرلشکر کشی کی تواس کا گزر یثرب سے ہوا جہاں اس کے پاس چارسو یہودی علماء آئے اوراس کو بیت اللہ کی تعظیم کے وجوب سے آگاہ کرتے ہوئے اس کویہ بھی بتایا کہ ایک نبی مبعوث ہونے والے ہیں جن کا مسکن یثرب ہوگا، یہ سن کرتبع نے ان کی تکریم کی اوربیت اللہ کی تعظیم اس پر غلاف چڑھاکر کی اورایک خط لکھ کراس کو ان علماء میں سے ایک کے حوالہ کرتے ہوئے کہا کہ اگراس کو آنے والے نبی کا زمانہ ملے تووہ یہ خط ان کی خدمت میں پیش کرے، کہاجاتا ہے کہ ابوایوب اسی شخص کی اولاد میں سے تھے، ابن ہشام نے اس کو اپنی کتاب ’’التیجان‘‘ میں بیان کیاہے اورحافظ ابن عساکر نے تاریخ دمشق میں تبع کے ذکر کے ضمن میں اس واقعہ کا ذکر کیاہے‘‘۔
اولاً توحافظ ابن حجر نے ’’کہاجاتاہے‘‘ کے ذریعہ اس کے ضعیف اورناقابل اعبتارہونے کی طرف اشارہ کردیاہے ،ثانیاً انھوں نے جہاں یہ لکھا ہے کہ تبع کا یہ سفرحجاز اس پرلشکر کشی کی غرض سے تھا وہیں انھوں نے ابن ہشام کی کتاب’’التیجان‘‘کے حوالہ سے یہ بھی صراحت کردی ہے کہ مدینہ آمد پراس کے پاس مدینہ کے چارسویہودی علماء حاضرہوئے، جبکہ المواھب اورشرح المواھب میں یہ دعوی کیاگیا ہے کہ یہ علماء اس کے ساتھ تھے اورانھوں نے اس سے اپنی اس خواہش کااظہار کیاتھا کہ ان کو وہاں رہنے دے۔
واضح رہے کہ ’’شرح المواھب‘‘ اور’’سائل‘‘ کے ذکرکردہ رسالے میں یہ دعویٰ کیاگیا ہے کہ مدینہ سے گزرنے والا وہ بادشاہ ’’تبع اول بن حسان حمیری ‘‘تھا اور یہ واقعہ رسول اللہﷺ کی ولادت مبارکہ سے ایک ہزار سال پہلے گزرا ہے اورمذکورہ رسالے میں یہ اضافہ ہے کہ ‘‘ وہ زبورکا متبع اوربڑا صالح انسان تھا، جبکہ سیرت ابن ہشام اوردوسری کتابوں میں محمد ابن اسحاق کے حوالہ سے کسی سند کے بغیر جوواقعہ بیان کیا گیا ہے اس میں یہ صراحت ہے کہ مدینہ سے گزرنے والا وہ بادشاہ دوسرا تبع تھا جس کانام:’’تبان اسعد ابوکرب‘‘ تھا اورتبع اول کانام زیدبن عمروتھا اوروہ اہل مدینہ سے لڑنے کے لئے وہاں گیاتھا،تاکہ وہ ان کو تباہ کردے، لیکن اس کے پاس بنوقریظہ کے دوماہرعالم آئے اوراس کو ایسا کرنے سے منع کیا اور جب تبع نے ان سے اس کا سبب دریافت کیا توانھوں نے اس کوبتایا کہ مدینہ آخری زمانے میں قریش میں پیداہونے والے نبی کا دارالہجرت بننے والا ہے یہ سن کروہ مدینہ کو تباہ کرنے سے بازرہا اوران کا دین قبول کرلیا، پھریمن جاتے ہوئے وہ مکہ مکرمہ گیا وہاں بیت اللہ کا طواف کیا اورکعبہ پرغلاف چڑھایا اوران دونوں یہودی عالموں کولے کر یمن واپس گیا ۔(سیرت ابن ہشام ص:۱۹۔۲۹،ج ۱،الہدایۃ والنہایۃ ص:۵۲، ۵۵ج ۲،الکامل ص:۱۱۸، معالم التنزیل ص:۱۱۷۷،۱۱۷۸)
دراصل تبع یمنی قبیلہ حمیر کے بادشاہوں کا لقب تھا تبع کی جمع تبابعہ آتی ہے، یہ لوگ بت پرست تھے(ابن ہشام ص:۲۳،ج ۱) یہ صیفی بن سبأ اصغربن کعب بن زید کی اولاد تھے۔ (جمہرۃ انساب العرب ص:۴۳۸)ان کا عہد حکومت ۱۱۵ ؁ قبل مسیح سے ۵۲۵ھ ؁ تک رہا (تاریخ آداب العرب ص:۷۹، ج۱، تفہیم القرآن ص:۵۶۹، ج ۷۴) ان کا نسب نامہ محفوظ نہیں ہے اس میں بہت اختلاف پایاجاتا ہے اوران کی تاریخ کے بہت کم واقعات ایسے ہیں جوصحیح ہیں ۔(جمہرۃ انساب العرب ص:۴۳۹)
ایک حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ ان میں سے ایک تبع مسلمان ہوگیا تھا یعنی اس نے ابن ابراہیم علیہ الصلاۃ والسلام قبول کرلیا تھا، حدیث کے الفاظ ہیں:’’لا تَسُبُّوْا تَبَّعًا، فَاِنَّہُ قَدْ أسْلَمَ‘‘تبع کو برامت کہو، کیونکہ وہ مسلمان ہوگیاتھا۔
یہ حدیث حضرت سہل بن سعد ساعدی، عبداللہ بن عباس اور عائشہ رضی اللہ عنہم سے مروی ہے جوانفرادی سندوں سے توضعیف ہے مگرتمام سندوں سے اس کو حسن درجہ حاصل ہے (ملاحظہ ہوالصحیحہ ص:۵۴۸، ۵۲۹،ج ۵) اس حدیث کی ایک سند میں مسلمان ہونے والے تبع کا نام’’اسعد‘‘ آیا ہے جس کاذکر اوپرتبان اسعد ابوکرب کے نام سے آیا ہے یہ تبع اول نہیں، بلکہ تبع ثانی تھا۔
اوپرکی وضاحتوں سے معلوم ہواکہ تبع اول یاتبع دوم کسی کا بھی زمانہ رسول اللہﷺ کی ولادت مبارکہ سے ایک ہزارسال پہلے نہیں تھا بلکہ ان کے عہدحکومت کی ابتداء ۱۱۵ ؁ قبل مسیح میں ہوئی اس طرح تبع اول کازمانہ نبی کریمﷺ کی ولادت سے ۶۸۵ سال قبل قرارپاتا ہے اورجوتبع ایمان لے آیاتھا اس کازمانہ نبیﷺ کی پیدائش سے ۶سوسال پہلے ہوسکتا ہے۔
دوم مدینہ کے جن عالموں کے ہاتھوں اس نے دین ابراہیم قبول کیا وہ مدینہ کے دویہودی عالم تھے نہ کہ چارسوعالم۔
اورمدینہ میں حضرت ابوایوب انصاری رضی اللہ عنہ جس مکان میں مقیم تھے نہ وہ مکان تبع اورغیرتبع نے نبیﷺ کے لئے تعمیرکیاتھا اورنہ حضرت ابو ایوب کا تعلق ان علماء میں سے کسی سے تھا، کیونکہ وہ علماء یہودی تھے جبکہ حضرت ابوایوب رضی اللہ عنہ قوم سبا سے نسبت رکھتے تھے، جس کی تفصیل درج ذیل ہے:
۴۵۰ء ؁ یا ۴۵۱ء ؁ میں سلہ مأرب کے پھٹنے سے جوبہت بڑاسیلاب آیا اس کی وجہ سے قوم سبا کا ایک شخص عمروبن عامراپنے بال بچوں کو لے کروہاں سے نکل بھاگا ،اس کے تین بیٹوں میں سے ایک بیٹے ثعلبہ کی اولاد میں ایک شخص حارثہ تھا جس کے دوبیٹے ایک ہی بیوی قبیلہ بنت ارقم کے بطن سے تھے، ان میں سے ایک کانام اوس اوردوسرے کانام خزرج تھا، اسی آخرالذکر خزرج کی اولاد سے حضرت ابوایوب انصاری رضی اللہ عنہ کاتعلق تھا۔(ملاحظہ ہو: السیرۃ النبویہ فی ضوء المصادر الاصلیہ ص:۵۹اور سیرت سرورعالمﷺ ص:۶۷۹،ج دوم)
حضرت ابوایوب انصاری رضی اللہ عنہ کا نسب نامہ بیان کرنے سے قبل یہ واضح کردینا چاہتاہوں کہ ایک صحیح حدیث میں قوم سبأ کے نقل مکانی کرنے کا ذکرآیاہے، حضرت فروہ بن مسیک مرادی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہتے ہیں: ایک صاحب نے رسول اللہﷺ سے عرض کیا:اے اللہ کے رسولﷺ !سبأکیاہے؟ زمین یا عورت؟نبیﷺ نے فرمایا:
سبأ نہ زمین ہے اورنہ عورت، بلکہ وہ ایک مردکانام ہے جس کے دس عرب لڑکے پیدا ہوئے، ان میں چھ نے یمن میں سکونت اختیار کی اورچارنے شام کارخ کیا،جنھوں نے شام کا رخ کیا وہ لخم، جذام، غسان اورعاملہ ہیں اورجویمن میں باقی رہے وہ ازد، اشعری، حمیر،حذحج، انمار اورکندہ ہیں۔ (ابوداؤد، ح ۳۹۸۹،ترمذی ۳۲۲۲ اورابن ماجہ ح۱۹۴)
حضرت ابوایوب رضی اللہ عنہ کانام خالد تھا ان کانسب نامہ ہے:خالد بن زیدبن کُلیب بن ثعلبہ بن عبدعوف بن غنم بن مالک بن نجار بن ثعلبہ بن خزرج(جمہرۃ انساب العرب ص:۳۴۸ ، سیر أعلام النبلاء،ص:۵۱، ج ۳،الإصابہ ص:۴۰۵،ج ۱)
یعنی حضرت ابوایوب انصاری رضی اللہ عنہ کسی یہودی عالم کی اولادنہیں تھے،ہجرت کے موقع پر جب رسول اللہﷺ مدینہ میں رونق افروز ہوئے توہرشخص کی یہ خواہش تھی کہ اس کوآپ کی میزبانی کاشرف حاصل ہو،مگرآپ اونٹنی پرسوار رہے اورلوگوں سے فرماتے رہے کہ اونٹنی کا راستہ چھوڑدو کیونکہ یہ مامورہے،جب وہ بنی مالک بن نجار کے محلے میں پہنچی توٹھیک اس جگہ جاکربیٹھ گئی جہاں مسجدنبوی ہے، مگرنبیﷺ اس سے اترے نہیں پھروہ اٹھی اورکچھ دورچل کر دوبارہ اسی جگہ پلٹ آئی اوروہیں بیٹھ گئی، اس وقت نبیﷺ اس پرسے اترگئے اورلوگوں سے فرمایا:’’ہمارے اہل میں سے کس کاگھریہاں سے قریب ہے؟ حضرت ابوایوب انصاری رضی اللہ عنہ نے عرض کیا،اے اللہ کے رسولﷺ! میرا، یہ میراگھر ہے اوریہ میرا دروازہ ہے‘‘۔(صحیح بخاری ح ۳۹۰۶،۳۹۱۱)
اس حدیث میں یہ صراحت ہے کہ اونٹنی مسجد نبوی کی جگہ بیٹھی تھی اوردوسری چیزیہ ہے کہ نبیﷺ کے سوال پرحضرت ابوایوب انصاری رضی اللہ عنہ نے یہ عرض کیا:یہ میراگھرہے اگران کا گھرنبیﷺ کے لئے تعمیرکیاگیا ہوتا جیساکہ’’ المواھب، شرح المواھب ‘‘اورمذکورہ رسالے میں دعوی کیاگیا ہے، تووہ یہ عرض کرتے کہ اے اللہ کے رسولﷺ! یہ ہے آپ کاگھر جوایک ہزارسال سے آپ کا انتظار کررہا ہے، اورخودنبیﷺ اپنے اہل میں سے کسی قریب کے گھرکی بابت نہ دریافت فرماتے، بلکہ یہ فرماتے :میراگھرکہاں ہے؟۔
یادرہے کہ نبیﷺ نے ’’اپنااہل‘‘ جوفرمایاتھا وہ اس لئے کہ وہ بنونجار کا محلہ تھا اوریہیں آپ کا ددھیال تھا کیونکہ آپ کی پردادی سلمی بنت عمروبن زید کا تعلق بنونجار سے تھا۔
مذکورہ روایت میں یہ دعویٰ کیاگیا ہے کہ تبع کے ساتھ ڈھائی لاکھ فوج اورچارسو علماء تھے یہ دعوی خود اس روایت کے باطل اور من گھڑت ہونے پردلالت کرتاہے، کیونکہ اس زمانے میں یمن کے کسی بادشاہ کی معیت میں اتنی بڑی فوج کاہونا ناممکنات میں سے ہے، اس سے پانچ صدی بعدابرہہ مکہ پرچڑھائی کے لئے ۶۰ہزار سے زیادہ فوج نہیں جمع کرسکاتھا!! ***

دارالعلوم ندوۃ العلماء jan-feb 2011

شمیم احمدندویؔ
دارالعلوم ندوۃ العلماء
(چوتھی قسط)
دارالعلوم دیوبند اوراس کے سیاسی افکارونظریات کے ایک پہلوکی مختصرسی جھلک گذشتہ سطورمیں پیش کی گئی جس سے کم ازکم ایک بات صراحتاً ثابت ہوتی ہے کہ کس طرح شریعت کے تقاضوں کوسیاسی مفادات پرقربان کیاجاتارہا اوروہ بھی ایسے لوگوں کے ذریعہ جوبزعم خود شریعت کے سب سے بڑے شارح اور ترجمان اوردین مصطفوی کے پاسبان بنے رہے ہیں اورعوام کی نظروں میں راست بازی، پاکدامنی اورتقوی وطہارت کی بلندیوں پرفائز رہے ہیں، لیکن انھوں نے بسااوقات شریعت اوراس کی تعلیمات کو کس طرح مجروح ونظرانداز کیا ہے اورقرآنی ہدایات کو کس طرح پامال کیاہے اسے آنجہانی وزیراعظم اندراگاندھی سے ہی تعلق رکھنے والی ایک مثال سے بخوبی سمجھاجاسکتا ہے جن کا تذکرہ گذشتہ قسط میں کیاگیا۔
بات شروع ہوئی تھی دارالعلوم دیوبند کے صدسالہ جشن تعلیمی کا اس وقت کی وزیراعظم اندراگاندھی کے ذریعہ افتتاح کرائے جانے سے، اوراس پر مفکراسلام مولانا سیدابوالحسن علی ندوی رحمہ اللہ کے انقباض اورناگواری خاطرسے ہوتے ہوئے موصوفہ کے حلقہ انتخاب رائے بریلی اورمولانا رحمہ اللہ کے وطن مالوف تکیہ کلاں تک اس کا سلسلہ دراز ہوگیا، ہمیں ان تمام باتوں میں ربط وتعلق تلاش کرنے کے لئے اندراگاندھی کی موت کے موقعہ پر رونما ہونے والے ایک غیر معمولی واقعہ کو ذہن میں رکھنا پڑے گا جس سے اس فکرکو سمجھنے میں مددملے گی جس پر دارالعلوم دیوبند جیسے دینی مدارس کے ذمہ داران عمل پیراتھے، اور جواظہارمرعوبیت اوراحساس کمتری کا ایک ناخوشگوارنمونہ ہے، بھلے ہی انھوں نے جھوٹے سچے واقعات اور بے سروپا حکایات کی تشہیر کے ذریعہ اپنے اردگرد حق گوئی وبیباکی اورجرأت ایمانی کا ایساحصارکھینچ رکھا ہو جس سے اہل ایمان کو مرعوب کرنے ورکھنے میں ہمیشہ کامیاب رہے ہوں ورنہ حقائق ومشاہدات اس جرأت گفتار اوررفعت کردارکی قلعی کھولتے رہے ہیں جن کا شدومدسے پروپیگنڈہ کیا جاتاہے،چنانچہ اندراگاندھی کی موت کے معاً بعد کے بعض خلاف شرع حرکات کا مشاہدہ کرنے اوران اسباب ومحرکات کاجائزہ لینے سے اسی تصورکی تصدیق ہوتی ہے جس کا تعلق محض عمومی سیاسی وابستگی سے نہیں بلکہ اس تملق پیشگی سے ہے جودینی غیرت وحمیت کے سراسر منافی ہے لیکن جسے بعض دینی حلقوں نے معیوب تک نہیں سمجھاہے۔
یہ سطور لکھے جانے تک ہندوستان اندراگاندھی کی ۲۶ویں برسی روایتی جوش وخروش سے مناچکا ہے اوران کے غیرمعمولی عزم وہمت اورآہنی ارادوں کو خراج تحسین پیش کرچکاہے، ہمیں موصوفہ کے سیاسی تدبر اوربالغ نظری سے اس وقت کوئی غرض نہیں، نہ ہمارایہ موضوع ہے لیکن جوچیز ہم اپنے باشعور قارئین کویاددلاناچاہتے ہیں اس کاتعلق ضرورہمارے اس موضوع سے ہے، وہ یہ کہ ۳۱؍اکتوبر ۱۹۸۴ء ؁ کواندراگاندھی کوجب ان کے ہی ایک سکھ باڈی گارڈ نے اندھا دھند گولیاں برساکرخاک وخون میں تڑپادیا جوگولڈن ٹیمپل پرہونے والی فوجی یلغار کے خلاف جوش انتقام میں اندھاہوچکا تھا،جب ان کی آخری رسومات اداکی جارہی تھیں اوردیدارعام کے لئے ان کا شَورکھا جاچکاتھا توجہاں ان کی آتماکی شانتی کے لئے ہندوپجاری وپنڈت اپنے مذہبی اشلوک پڑھ رہے تھے وہیں کچھ ایمان فروش مولوی دعائے مغفرت میں مصروف تھے حتی کہ قرآن خوانی کا بھی باقاعدہ اہتمام کیاگیا اور’’قل شریف‘‘ اورسورۂ یٰسین پڑھ کر ان کے لئے ایصال ثواب کیاگیا، معاملہ چونکہ ایک برسراقتدار وزیراعظم کا تھا اس لئے قومی ٹی وی پہ یہ پروگرام براہ راست نشرکیاجارہا تھا ،اس موقع پر ٹی وی ناظرین نے باقاعدہ قرآن پڑھ کر جوقاریوں کے سامنے کھلے ہوئے نظر آرہے تھے بعض لوگوں کودعائے مغفرت میں مصروف دیکھا اوربآواز بلند ان کے لئے سورگ میں جانے کی دعا کرتے ہوئے سنا، ان مولویوں میں سے بعض کا تعلق جمعیۃ علمائے ہند یابالفاظ دیگر جماعت دیوبند سے تھا جوغالباً وہاں اپنی شناخت کے لئے کوئی بینربھی لگائے ہوئے تھے، ایسے ہی دین فروش مولویوں نے قرآن کوبازیچۂ اطفال بنارکھا ہے اورنئی شریعت نہ بھی ایجادکریں توقرآن کی اہانت اوراس کی تعلیمات کو پس پشت ڈالنے جیسے جرم کا عملاً بارہا ارتکاب کیاہے، اس حرکت کی کتنی ہی بڑی سیاسی توجیہ کی جائے یا اسے مصلحت اندیشی قراردی جائے لیکن یہ بہرحال شریعت کی روح کے منافی اورقرآنی احکامات کی صریح خلاف ورزی ہے اوراس کی توقع دیوبندی مکتب فکرسے تعلق رکھنے والے افراد سے نہیں کی جاسکتی جن کے بارے میں عوام کی والہانہ عقیدت کاحال یہ ہے کہ وہ ان کی ’’تردامنی‘‘ کے بارے میں یہ گمان رکھتے ہیں کہ اگروہ دامن نچوڑدیں توفرشتے وضوکے لئے ٹوٹ پڑیں۔
قرآن میں توصاف صاف ارشاد باری تعالیٰ ہے(لاتصل علی أحد منہم مات أبدا ولاتقم علی قبرہ)’’اگرکوئی ان(منافقین) میں سے مرجائے توکبھی بھی اس کی نمازجنازہ نہ پڑھو اورنہ ہی اس کی قبرپرکھڑے ہو‘‘ (التوبۃ : ۸۴)واضح ہوکہ یہ حکم توان منافقین کے بارے میں نازل ہوا جوبظاہر مسلمان تھے اورکلمہ ونماز اوراسلامی شعائر کا ظاہری طورپر اقرارواہتمام کرتے تھے گرچہ ان کے قلوب اس سے خالی تھے، پھرکفارومشرکین کے بارے میں اس حکم کی سختی کو سمجھاجاسکتا ہے اورایسانہیں ہے کہ صرف قبرپرقیام اور نمازجنازہ پڑھنے سے منع کیاگیا ہے بلکہ کسی بھی انداز میں دعائے مغفرت کی بھی ممانعت ان الفاظ میں وارد ہوئی ہوئی (استغفرلھم اولا تستغفرلھم‘ ان تستغفر لھم سبعین مرۃ فلن یغفراللہ لہم ذلک بانھم کفروا باللہ ورسولہ، واللہ لایھدی القوم الفاسقین)’’آپ ان کی مغفرت طلب کریں یا نہ کریں اوراگرسترباربھی دعائے مغفرت کریں توبھی اللہ ایسے لوگوں کی مغفرت ہرگزنہیں کرے گا، اس لئے کہ انھوں نے اللہ اوراس کے رسول کے ساتھ کفرکیا ہے اوراللہ تعالیٰ فاسقوں کوہدایت سے نہیں نوازتا‘‘(التوبۃ: ۸۰)اس صریح حکم کے ہوتے ہوئے ایک مشرکہ کے لئے دعائے مغفرت شریعت مطہرہ کے ساتھ کتنا سنگین مذاق ہے، اس کی جسارت یاتووہ لوگ کرسکتے ہیں جنھیں اپنے’’سواداعظم‘‘ ہونے کازعم ہے یاپھروہ لوگ کرسکتے ہیں جو ایسے تعلیمی ماحول کے پروردہ ہیں جہاں صحیح معنوں میں شریعت کی روح کوسمجھنے پر زورنہیں دیاگیا، اوراگرگہرائی میں جاکرجائزہ لیاجائے تواس حقیقت کا ادراک مشکل نہیں کہ ساراقصور اس نصاب تعلیم کاہے جوآدمی کوروایات کا پابند توبنادیتا ہے لیکن اس کے اندرروح شریعت اور ’’رموز دین‘‘ کوسمجھنے کی صلاحیت نہیں پیداکرتا، اسی لئے علامہ اقبال علیہ الرحمہ نے ؂
عجم ہنوز نہ داند’’رموز دیں‘‘ ورنہ
زدیوبند حسین احمدایں چہ بوالعجبی است
کی بھپتی کسی ہے نیز اسرارشریعت کوسمجھے بغیر محض روایات کی پاسداری کوامت کے لئے مہلک قراردیتے ہوئے کہاہے ؂
حقیقت خرافات میں کھوگئی یہ امت روایات میں کھوگئی
جب دینی مدارس سے ہی ایسی کفریہ حرکات کا ارتکاب اورخلاف شرع امورکا صدورہونے لگے توعام آدمی اپنے دردکادرماں اوراپنی پریشاں نظری کاعلاج ڈھونڈنے کہاں جائے گا سچ ہے ؂
چوں کفراز کعبہ برخیزد کجاماندمسلمانی
جن مدارس کو کلمہ حق کی ترویج واشاعت کامرکز ہوناچاہئے وہی اپنے حقیر مفادات کی قربان گاہ پرشریعت کو بھینٹ چڑھانے لگ جائیں اورجن مدارس کو حق گوئی وبے باکی کی تعلیم کے لئے مثالی نمونہ بننا چاہئے وہ مصلحت اندیشی ومفاد پرستی کے خول میں بندہوجائیں توپھراعلاء کلمۃ اللہ کا فریضہ کون اداکرے گا اورصدائے حق کہاں سے بلند ہوگی؟ سچ ہے ؂
گلا توگھونٹ دیا اہل مدرسہ نے ترا
کہاں سے آئے صدالا الہ الااللہ
دین کے ناقص تصور اور شریعت کے ادھورے فہم کا ہی نتیجہ ہے کہ آج وقتا فوقتا دیوبند سے ایسے فتاوے منظرعام پر آجاتے ہیں جن کی وجہ سے نہ صرف یوبند بلکہ پوری ملت اسلامیہ ہندیہ برادران وطن کی نظروں میں تماشا اورطنز وتعریض اور استہزاء وتضحیک کانشانہ بن جاتی ہے، ملکی میڈیا توایسے معاملات کو اچھالنے کے لئے تیاربیٹھاہی رہتا ہے جواسے بعجلت تمام لے اڑتا ہے، پھرشروع ہوتا ہے وضاحتوں وتردید کا دوراورایک اچھے خاصے تعلیم یافتہ طبقہ کی وہ صلاحیتیں جو کسی تعمیری کام میں صرف ہوتیں وہ سب لایعنی کاموں میں ضائع ہوتی ہیں۔
یہ بات درست ہے کہ ملک کا الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا اس کے لئے کم قصوروارنہیں ہوتالیکن اس کے لئے مواقع یہی مدارس فراہم کرتے ہیں جوشریعت کی باریکیوں، دین کے تقاضوں اورملت کی مصلحتوں سے کماحقہ واقف نہیں ہوتے، ماضی قریب وبعیدکی اس طرح کی بے شمار مثالوں سے صرف نظرکرتے ہوئے اگرصرف حال کی ایک تازہ ترین مثال کو سامنے رکھنے پراکتفاء کیاجائے توبخوبی اس بات کا علم ہوگا کہ عجلت میں دئے گئے بیانات یاذاتی مفادات کے تحت کئے گئے اقدامات کانتیجہ مسلمانان ہند کے حق میں کس قدرتباہ کن ہوسکتا ہے اس کا شاید انھوں نے تصوربھی نہ کیاہو، دارالعلوم دیوبند کے چندروزہ مہتمم جناب غلام محمدوستانوی صاحب نے یہ بیان دے کرملی حلقوں میں ہلچل مچادی اوراضطراب وبے چینی کی لہردوڑادی کہ گجرات کے وزیراعلی نریندرمودی ملک کے مقبول وپسندیدہ وزیراعلیٰ ہیں اوران کی ریاست گجرات میں مسلمان خوش حال ومطمئن ہیں ان سطورمیں نہ تو نریندرمودی کے بارے میں کچھ تبصرہ کرنے کی ضرورت ہے نہ گجرات کے مظلوم مسلمانوں کی حالت زار پربلکہ فقط یہ کہنے پراکتفا کروں گا کہ دارالعلوم دیوبند کے مہتمم اگرگجرات وملک کے دیگرخطوں کے ستم رسیدہ مسلمانوں کی اشک شوئی نہیں کرسکتے ہیں توکم ازکم ان کے زخموں پر نمک پاشی تونہ کریں اورگجرات کے بدنام زمانہ فسادات کے شکاروہ مسلمان جوآج بھی پناہ گزین کیمپوں میں کسمپرسی کی زندگی گزارنے پرمجبورہیں ان کی مجبوری ولاچاری کا اس طرح مذاق تونہ اڑائیں، ہوسکتا ہے کہ انھوں نے تن تنہا خودکو ہی پورے گجرات کا مسلمان سمجھ رکھا ہو جن کا وہاں وسیع کاروبارہے اوروہ خودکافی خوشحال ہیں، لیکن اتنے بڑے دینی ادارہ کا سب سے بڑے منصب پرفائز شخص سے ملک کے مسلمان بجاطور پریہ توقع رکھتے ہیں کہ وہ ان کی مظلومیت وناانصافی کے خلاف آوازبلند کرنے کی جرأت سے اگرمحروم بھی ہے توکم ازکم حکومت کے مظالم اورزیادتیوں کی علانیہ تائید تونہ کرے ،یہ ہوسکتا ہے کہ غلام وستانوی صاحب کی یہ ذاتی رائے ہو،لیکن جب کوئی شخص کسی بڑے دینی ادارہ کے کلیدی منصب پرفائز ہوتا ہے تواس کی ذاتی رائے خالص ذاتی نہ رہ کرملت کی آواز بن جاتی ہے، اوریہ بھی ہوسکتا ہے کہ انھوں نے اپنے ذاتی مفادات پرملی مفادات کوترجیح دی ہو اوریہ بات اس سے بھی مذموم ترہے کہ وہ اپنے تبصروں کی خامیوں سے واقف ہی نہ ہوں۔
کہاجاسکتا ہے کہ دارالعلوم ندوۃ العلماء شریعت کے ناقص تصور کی ایسی ہی خامیوں کو دورکرنے اورایک معتدل ومتوازن نصاب تعلیم ونظام تربیت کونافذ کرنے کے لئے قائم کیاگیا تھا اوربعض قدروں میں زوال کے باوجود آج بھی اسلامی سماج اورعلمی وفکری دنیا میں اپنا منفردوممتاز ومقام رکھتا ہے، یہی وجہ ہے کہ ندوۃ العلماء کبھی بھی ایسے گمراہ کن بیانات یالایعنی فتوؤں کی وجہ سے سرخیوں میں نہیں آیا نہ ہی اس نے کبھی حاکمان وقت کے کسی دباؤ کو قبول کیا اور ان کے اشارہ چشم وابرو کامحتاج رہا، بلکہ جہاں اس بات کا ادنیٰ سا امکان پیداہوا کہ اسے کبھی بھی مستقبل قریب یابعید میں حکومت کی مداخلت بیجا کوبرداشت کرناپڑسکتا ہے تواس نے اس امکان کاہی دروازہ بندکردیا تاکہ آزادانہ طورپروہ تعلیم کی ترویج واشاعت اورملت کی مثبت رہنمائی کا فریضہ انجام دے سکے، اس ضمن میں فقط دومثالوں پراکتفاکرتاہوں۔
مولانا ابوالکلام آزاد جودارالعلوم ندوۃ العلماء کے باقاعدہ طالب علم توکبھی نہیں رہے لیکن انھوں نے ندوہ سے اورمولانا شبلی نعمانی سے کافی اکتساب فیض کیا اور’ الندوہ‘کے معاون مدیرہونے کے زمانہ میں ہی ان کی تحریری وصحافتی صلاحیتوں کو جلاپانے کاموقع ملا، وہ اپنی شخصیت کی اس تعمیر میں ندوہ کے کردارکے معترف بھی تھے اوراپنے عروج کے زمانہ میں اس کے اوپرکافی مہربان بھی اوراس کے مسائل ومشاکل کے حل کرنے میں خصوصی طورپرتوجہ بھی کرتے تھے، انھوں نے جب آزادی کے بعد ملک کی وزارت تعلیم کا قلمدان سنبھالا۔جنھیں ملک کا پہلا وزیرتعلیم ہونے کا فخربھی حاصل ہے۔ ‘توندوۃ العلماء کے ساتھ خصوصی ربط وتعلق کی بناپر انھوں نے اپنے وزارتی اختیارات اورذاتی اثرورسوخ کے ذریعہ اسے فائدہ پہونچانے کا ارادہ کیا اورگورنمنٹ آف انڈیا کی وزارت تعلیم سے یہ تجویز منظورکرائی کہ’’ پورے ملک میں حکومت کے اخراجات پرایک ماڈل عربی کالج کاقیام عمل میں لایاجائے جس کے لئے دارالعلوم ندوۃ العلماء سے زیادہ موزوں کوئی دانش گاہ نہیں جہاں پہلے سے ہی عربی زبان وادب کی تعلیم اورقدیم نصاب تعلیم کی خرابیوں کی اصلاحات پرکافی زورصرف کیاجاتا ہے‘‘، اگرندوہ کے ارباب حل وعقد اس تجویز کوقبول کرلیتے تواس ’’مثالی عربی درسگاہ‘‘ کے تمام تراخراجات حکومت برداشت کرتی اورنامکمل عمارتوں (درسگاہوں ، دارالاقاموں، کتب خانوں اور دفاتر وغیرہ)کی تعمیرات کی حکومت تکمیل کرادیتی اس طرح ندوہ کے ذمہ داران فراہمی سرمایہ کی ایک بڑی درد سری سے بچ جاتے، بظاہر یہ ایک بڑی ہی پرکشش اوردلآویز تجویز تھی،جس سے فوری طورپر ندوہ ترقی کے بام عروج پرپہونچ سکتا تھا اورعالم اسلام میں اس کی شہرت کو چارچاند لگ سکتے تھے، لیکن ندوۃ العلماء کے دوراندیش ناظم ڈاکٹر سیدعبدالعلی صاحب برادرگرامی مولانا سیدابوالحسن علی ندوی رحمہ اللہ اور حال سے زیادہ مستقبل پرنظر رکھنے والے ان کے رفقاء اور دردمندان ملت نے اس تجویز کو خوش اسلوبی کے ساتھ مسترد کردیا ،اگرآج کے تناظر میں اس فیصلہ کودیکھاجائے تواسے عجلت میں اٹھایا ہوا غیردانشمندانہ قدم کہاجائے گا کیونکہ اب نہ صرف حالات وظروف بلکہ اخلاقی قدریں بھی تبدیل ہوگئی ہیں، اوراب صرف وقتی فوائد، جلب منفعت اورمادی منافع پرہی مدارس کی نظررہتی ہے اوریہ چیز اوریہ تصورمدارس کے مقاصد قیام سے کہاں کہاں متصادم ہوتی ہے اس کی طرف توجہ کی فرصت کم ہی ملتی ہے، بہرحال مذکورہ بالا پیش کش آئی تھی مولانا ابوالکلام آزاد کی جانب سے جن کے اخلاص ودردمندی اورنیک نیتی ہی نہیں ملت کی تئیں فکرمندی سے انکارنہیں کیاجاسکتا تھا، لیکن اس کے باوجود ندوہ کی مجلس انتظامی کی ایک باقاعدہ میٹنگ میں یہ تجویز منظورکی گئی کہ اس پیش کش کوقبول کرنے سے بایں انداز معذرت کردیا جائے کہ مولانا ابوالکلام آزاد کوناگوار بھی نہ محسوس ہواورندوہ اس کوقبول کرکے اس حکومت کاممنون احسان بھی نہ ہوجس کی پالیسیاں ابھی مسلمانان ہند کے حق میں واضح بھی نہیں ہیں، بہرحال مستقبل کے انھیں اندیشوں کے تحت اس پیش کش کوخوش اسلوبی سے مسترد کردیاگیا کہ آج وزارت تعلیم کے منصب پرمولانا ابوالکلام آزاد جیسی پرکشش شخصیت فائز ہے جو ندوہ کے مقصدقیام سے واقف بھی ہیں اوراس سے پوری طرح متفق بھی اورجن کی حیثیت خاندان کے ایک سرپرست اعلی کی سی ہے اورجوخود ندوہ کے مستقل رکن انتظامی ہیں اوران کے ہوتے ہوئے اس کے کسی ایک شق میں بھی حکومت کی مداخلت کاکوئی امکان نہیں، لیکن کل کوئی دوسرا شخص وزیرتعلیم ہوسکتا ہے جوضروری نہیں کہ مسلمان ہو اوریہ بھی ضروری نہیں کہ مولانا آزاد جیسی دردمندی واخلاص کے جذبات سے مالامال ہو۔لہذا اس بات کوخارج ازامکان نہیں قراردیاجاسکتا کہ کل بھی حکومت یااس کی وزارت تعلیم اس کی آزادی کومحدود کرکے اس میں بیجا مداخلت نہیں کرے گی، مستقبل کے انھیں اندیشوں اورخدشات کوسامنے رکھ کراس کے بابصیرت ارکان عاملہ نے اس پیش کش کوقبول نہیں کیا، کیاآج کے دیگردینی وملی تعلیمی ادارے بھی اسی اخلاقی جرأت ،بالغ نظری اوردوراندیشی کامظاہرہ کرسکتے ہیں جہاں حقیر مالی مفادات کے لئے سب کچھ قربان کردینے، ہرخوبی وانفرادیت سے دستبردارہونے اوراپنے بنیادی مقاصدتک کونظرانداز کرنے کے مظاہر عام ہیں۔
دوسری مثال اورسامنے رکھیں اورغورکریں کہ ندوۃ العلماء کس طرح صرف ہندوستان ہی نہیں عالم اسلام کے مسائل کواپنامسئلہ اوراس کا درداپنادردسمجھتارہا ہے اورہمیشہ عالم اسلام کے مصائب میں ذہنی طورپر شریک رہاہے اور ؂
’’تیرادرد ،دردِتنہا،مراغم ،غمِ زمانہ ‘‘
کی مجسم تصویربنارہا ہے اوربارہا اس نے اس میں اپنے ذاتی مفادات کونظرانداز کیاہے، ۱۹۰۸ء ؁ سے ندوۃ العلماء کوحکومت ہند کی انگریزسرکار کی جانب سے ایک معقول تعلیمی گرانٹ جاری تھا، جوکسی انتظامی یاتعلیمی مداخلت کے بغیر تھا اورندوہ کو اسے قبول کرنے میں اپنے کسی امتیاز وخصوصیت سے محروم نہیں ہوناپڑتاتھا، لیکن ایک حقیرسی رقم کے لئے اسے ایک ایسی غیراسلامی حکومت کاممنون احسان ہوناپڑتا تھا جوترکی کی اس اسلامی حکومت سے برسرپیکار تھی جو خلافت عثمانیہ کی حیثیت سے مسلمانوں کی عظمت کاآخری نشان تھی، ارباب ندوہ کا ضمیرنہیں گوارہ کرتا تھا کہ جوحکومت دنیا میں مسلمانوں کی عظمت رفتہ کے آثار کو مٹانے پر تلی ہو اس کے کسی احسان وانعام کوقبول کریں ،حالانکہ یہ احسان نہیں ان کاحق تھا، لیکن مجلس انتظامیہ نے ایک قرارداد منظورکرکے اسے بند کرنے کا فیصلہ کیا اورحکومت کواس کی اطلاع دے دی کہ ہم آئندہ سے حکومت کی یہ امداد قبول کرنے سے معذورہیں۔
دارالعلوم دیوبند اور اس کے نقش قدم پر چلنے والے مدارس اوردارالعلوم ندوۃ العلماء اوراس کے وضع کردہ اصولوں کواپنانے والے مدارس کے درمیان یہ فرق بڑاواضح ہے ،ندوہ کے دیگر قابل ذکراوصاف میں سے ایک نمایاں وصف ہمیشہ رہاہے کہ اس نے حکومت وقت کی چاپلوسی یا اس کی خوشامد پسندی سے ہمیشہ گریزکیاہے، اورسیاسی نوعیت کی فتوی بازیوں سے بھی ہمیشہ پرہیز کیا ہے جس کی وجہ سے عامۃ الناس میں بھی اورحکومت کی نظرمیں بھی اس کا وقارواحترام ہمیشہ باقی رہاہے اوراسی وجہ سے کبھی میڈیا یا سرکاری اہل کاروں کویہ جرأت نہیں ہوئی ہے کہ اسے طنزوتضحیک کا نشانہ بناسکیں اوراس کے کسی فیصلہ یارائے کوسڑکوں پراچھال سکیں جب کہ بدقسمتی سے دیوبند اس وصف سے محروم رہا ہے اوراس کی حیثیت ندوۃ العلماء کی طرح ہرسطح پرغیرمتنازعہ نہیں رہی ہے کیونکہ اس نے عوام کوسیاسی مشو رے دے کراپنی متنازعہ سیاسی وابستگیوں کوظاہر کرکے اپنی حیثیت اوروقار کو مجروح کیاہے۔
(جاری)
***

Wednesday, May 11, 2011

تفسیری مناھج jan-feb 2011

مولاناعبدالصبور ندویؔ
مدیر’’ترجمان السنۃ‘‘رچھا

تفسیری مناھج
قسط(۱)
صحابۂ کرام زمانۂ وحی کے شاہد تھے، نبی اکرمﷺ سے انھوں نے قرآن کی تفسیرسیکھی ،پہلے وہ قرآن کی تفسیرقرآن ہی کے ذریعے کرتے، نہ ملنے کی صورت میں سنت رسول کی طرف رجوع ہوتے اوراگروہاں بھی انھیں کسی آیت کی تفسیرنہ ملتی تواجتہاد کرتے، اوروہ اجتہاد واستنباط سب سے زیادہ اہل تھے۔
جوں جوں اسلامی خلافت کاحدوداربعہ بڑھتاگیا، عربی کے علاوہ دوسری زبانوں کاچلن اسلامی ملک میں عام ہوتاگیا، مختلف مذاہب وعقائد کے حامل افراد دائرہ اسلام میں ضرور داخل ہوئے، مگران میں سے ایسے بہت تھے جن پرسابق دین کا اثر باقی رہا، پھرجب انھوں نے قرآن کوہاتھ لگایا توغیرمستند تفاسیر کومرجع بنایا، نتیجہ یہ ہواکہ تفسیرکے کئی بدعتی رنگ وجودمیں آئے، لوگوں کامنہج اورطریقہ بدلتاگیا، اورتفسیر کی مختلف شکلیں بنتی گئیں۔
بعض مفسرین نے اصل مصادرکی طرف رجوع کرکے اپنا منہج بلندرکھا، توبعض نے صرف عقلی تفسیرپراکتفاکیا، آپ ملاحظہ کرسکتے ہیں کہ فن نحو کے ماہر کی تفسیرمیں نحوکا غلبہ نظرآتاہے، فقیہ جب تفسیرکرتاہے تواس کے اصول وفروع پرزیادہ توجہ صرف کرتاہے، مؤرخ قصص وواقعات کواپنا محوربناتاہے، اورفلسفی تفسیرکے اندرحکماء وفلاسفہ کے اقوال، اورشبہات وجوابات کاطومارلگادیتاہے، اس طرح کئی منہج وجود پذیر ہوتے ہیں، ذیل کی سطورمیں متعدد تفسیری مناہج پربحث کی گئی ہے۔
1۔(تفسیر بالمأثور کامنہج)
ابتداء:۔ اللہ تعالیٰ فرماتاہے(وأنزلنا إلیک الذِّکْرَ لِتُبَیِّنَ لِلنَّاسِ مَا نُزِّلَ اِلَیْھِم وَلَعَلَّھُمْ یَتَفَکَّرُوْنَ)(النحل:۴۴)ہم نے قرآن مجید کوآپ ﷺپرنازل کیاتاکہ آپ لوگوں پر (اس کے پیغام ومعانی) واضح کرکے بتادیں، شایدوہ غوروفکر کرنے والے بن جائیں۔
اسی لئے صحابہ رضی اللہ عنہم قرآن کی تفسیرقرآن سے یاپھرسنت سے،یانہ ملنے کی صورت میں اجتہاد کرتے، پھرتابعین کرام رحمہم اللہ نے صحابہ سے تفسیری سرمائے کو کثرت کے ساتھ پھیلایا، لوگوں تک منتقل کیا، اسی لئے اس قسم کی تفسیر کو’’تفسیربالمأثور‘‘ یا’’تفسیر بالمنقول‘‘ کہاجاتاہے۔
صحابہ کی ایک تعداد نے تفسیر بالمأثور کاخصوصی اہتمام کیا اوراس فن میں مشہور ہوئے،چند کے نام ملاحظہ فرمائیں:ابوبکر، عمرفاروق، عثمان، علی، عبداللہ بن مسعود، عبداللہ بن عباس،عبداللہ بن زبیربن العوام، أبوموسی الاشعری، زید بن ثابت، أبی بن کعب، عائشہ رضی اللہ عنہم اجمعین۔
اسی طرح تابعین کی ایک بڑی تعداد نے اس تفسیر کااہتمام کیا، چند کے اسماء درج ذیل ہیں:
مجاہدبن جبر، سعیدبن جبیر، قتادۃ بن دعامۃ السدوسی، زید بن أسلم، محمدبن کعب القرظی، ابوالعالیۃ الریاحی، عطاء بن أبی رباح، عکرمہ غلام ابن عباس، حسن بصری، سعیدبن مسیب،رحمہم اللہ تعالیٰ۔
ضعف روایت کے اسباب:۔تفسیربالمأثور کی سنداگر صحیح ہے تواس کے قبول کرنے اوراس کی اشاعت میں کوئی قباحت نہیں، لیکن اس تفسیرمیں بھی ضعیف وموضوع روایات شامل ہوگئی ہیں، لہذا کسی بھی تفسیرکوبیان کرتے وقت محتاط رہناچاہئے اس لئے کہ بہت سی احادیث گھڑکر نبی ﷺ کی جانب منسوب کرکے اس تفسیرمیں داخل کی گئی ہیں، اس لئے ہرروایت کوقبول کرنے یا بیان کرنے سے قبل اس کی صحت وضعف کی جانچ پرکھ کرلینی چاہئے، تفسیربالمأثور میں ایسی روایات کیسے داخل ہوگئیں، آیئے ان کے اسباب پر روشنی ڈالتے ہیں:
۱۔حدیث کا گھڑنا:۔ گمراہ فرقوں اورمنحرف مسالک کے وجود نے تفسیربالمأثور میں موضوع روایات کا داخلہ کرایا، اس لئے وہ اپنے پراگندہ افکاروعقائد کوقرآن کریم سے ثابت کرناچاہتے تھے، پھرجب قرآنی نصوص ان کے نظریات کی تائید نہیں کرتے ،تواحادیث گھڑتے اورتفسیرمیں شامل کردیتے، جیساکہ معتزلہ، روافض(شیعہ) اورغالی صوفیوں نے اپنی مطلب برآری کے لئے حدیثیں وضع کیں اورنبی اکرمﷺ پرکذب وافتراء کی کوئی نظیرباقی نہ رکھی۔
دشمنان اسلام نے جب مجاہدین اسلام کے آگے سپرڈالی، ان سے جنگ کرنے میں بے بس اورلاچاری محسوس کی، توظاہری طورپہ انھوں نے ہتھیار ڈال دئے، دکھاوے کے لئے اسلام قبول کرلیا، مگراپنی ریشہ دوانیوں کے ذریعے اسلامی شریعت وخلافت کو زک پہونچائی، لاکھوں حدیثیں گھڑیں، کبھی شریعت کے چشمۂ صافی کوگدلا کرنے کے لئے ،کبھی خلیفۂ وقت کی ہمدردی حاصل کرنے کے لئے اورکبھی سیاسی اثرورسوخ کے لئے۔
۲۔اسرائیلی روایات:۔ یہ سب جانتے ہیں کہ قرآن کریم نے کثرت کے ساتھ انبیاء کرام اورسابقہ قوموں کے حالات وواقعات سے ہمیں روشناس کرایاہے، اس کا مقصد صرف اتناہے کہ ہم ان حالات ونتائج سے عبرت ونصیحت پکڑیں نہ کہ ان واقعات کی تفصیل میں جاکر باریکیاں تلاش کرکے اپناوقت ضائع کریں۔
لیکن فطری طورپہ ایسا ہوسکتا ہے کہ انسان کہانی کو مکمل طورپہ جاننے کی کوشش کرے، چنانچہ جو نئے اسلام میں داخل ہوتے اورقرآن میں انبیاء کے واقعات پڑھتے، توان کی تفصیل جاننے کے لئے یہود ونصاری سے رابطہ کرتے اورتوریت وانجیل میں مذکور مکمل کہانی سے واقفیت حاصل کرتے، پھروہی تفصیلی تفسیر قرآن میں داخل کردی جاتی تھی جسے ہم’’اسرائیلیات‘‘ کے نام سے جانتے ہیں اوریہ بھی جانتے ہیں کہ توریت اور زبور میں بارہا تحریف وتبدیلی ہوچکی ہے، وہ اصلی حالت پربرقرار نہیں ہیں، ایسی حالت میں اسرائیلی روایتوں کے سلسلے میں تین شکلیں بنتی ہیں:
(ا)اگراسرائیلی روایات شریعت اسلامیہ کے احکام کی تائید میں ہیں توان روایات کوہم قبول کریں گے۔
(ب)اگرکسی حکم میں اسرائیلی روایت شریعت محمدیہ کی مخالفت کرتی ہے توایسی روایت کابیان کرنا یاتسلیم کرلیناجائزنہیں، یہ مردودہے۔
(ج) بعض ایسے واقعات یااحکام ہوسکتے ہیں جن کی شریعت اسلامیہ نہ توتائید کرتی ہے اورنہ ہی مخالفت، یعنی ان کے سچے یاجھوٹے ہونے کاہمیں علم نہیں ہے، ایسی صورت میں توقف اختیار کریں گے اورایسی بے فائدہ چیزوں میں بحث وتمحیص سے پرہیز کریں گے۔
معلوم ہواکہ اسرائیلی روایات کے چلن کے سبب تفسیر بالمأثور میں بلاتحقیق بے شمار روایتیں داخل کردی گئیں۔
۳۔سندوں کاعدم اہتمام:۔ تفسیر بالمأثور میں صحابہ کی مرویات کوسندوں کے ساتھ بیان کرنے کاہتمام تھا، لیکن جب فتنوں نے سراٹھایا، اوراسلامی ممالک میں حکومت سے لے کر عام لوگ اس سے محفوظ نہ رہ سکے، بعض مفسرین نے سندوں کے بغیرتفسیر بیان کرنا شروع کیں، جہاں صحیح اورضعیف کی تمیز باقی نہ رہی، اس لئے سندوں کی معرفت کوعلماء نے واجب قراردیا تاکہ اصلی ونقلی نیز صحت وضعف کے مابین فرق واضح رہے۔
تفسیربالمأثور کی تدوین:۔صحابۂ کرام کے زمانہ میں تفسیربالمأثور نے تدوین وتالیف کی شکل اختیار نہیں کی تھی، بلکہ روایت اورتلقین (سینہ بہ سینہ) ہی تفسیر کاذریعہ تھی، تابعین کے عہد میں جب تعلیم عام ہوئی توکثرت کے ساتھ لکھنے والے بھی وجود میں آئے، اورایک جماعت نے تفسیر کوتحریری جامہ عطاکیا۔
علامہ ابن تیمیہ رحمہ اللہ اورابن خلکان رحمہ اللہ کاکہناہے کہ سب سے پہلی تفسیر تصنیف کی گئی، وہ عبدالملک بن جریج رحمہ اللہ(۸۰ھ۔۱۵۰ھ) کی تفسیر ہے۔ (وفیات الأعیان۲؍۳۳۸)
لیکن ہم قطعیت کے ساتھ یہ نہیں کہہ سکتے کہ پہلی تفسیر عبدالملک بن جریج کی ہی ہے ،ان سے پہلے بھی تالیفی ثبوت ملتے ہیں، جیساکہ عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ نے اپنی تفسیر اپنے شاگرد مجاہدبن جبررحمہ اللہ کواملاء کروائی تھی(تفسیرابن کثیر۱؍۳) سعیدبن جبیررحمہ اللہ(م۸۶ھ) نے عبدالملک بن مروان کی ہدایت پرتفسیر کو صحیفہ کی شکل میں جمع کیاتھا، أبوالعالیہ الریاحی(م۹۰ھ) نے حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کی تفسیر کوتحریری شکل میں جمع کیاتھا، اسماعیل بن عبدالرحمن السُّدّی (م ۱۲۷ھ) اورزیدبن أسلم(م۱۳۶ھ) نے تفسیرکوکتابی شکل دی تھی۔
لیکن ان لوگوں نے مکمل تفسیر نہیں کی تھی، جبکہ ابن جریج کی تفسیرپورے قرآن پرمشتمل تھی، لیکن اس سے زیادہ کامل اورمفصل تفسیرجولوگوں تک پہونچی ،وہ تفسیر ابن جریرطبری رحمہ اللہ(م۳۱۰ھ) ہے جوتفسیربالمأثور کے باب میں منفرد حیثیت کی حامل ہے۔
تفسیر بالمأثور کی اہم تالیفات ملاحظہ فرمائیں:
۱۔جامع البیان عن تأویل آی القرآن: ابن جریرالطبری(م۳۱۰ھ)
۲۔تفسیرالقرآن العظیم : ابن ابی حاتم الرازی(م۳۲۷ھ)
۳۔بحرالعلوم : ابواللیث السمرقندی(م۳۷۵ھ)
۴۔الکشف والبیان عن تفسیرالقرآن: أبواسحاق الثعلبی(م۴۲۷ھ)
۵۔معالم التنزیل : أبومحمد حسین بن الفراء البغوی(م۵۱۶ھ)
۶۔المحررالوجیز فی تفسیرالکتاب العزیز: أبوعطیہ الاندلسی(م۵۴۶ھ)
۷۔تفسیرالقرآن العظیم: ابن کثیرالدمشقی(م۷۷۴ھ)
۸۔الجواھر الحسان فی تفسیرالقرآن:عبدالرحمن الثعالبی(م۸۷۶م)
۹۔الدُّرُّالمنشورفی التفسیربالمآثور:جلال الدین السیوطی(م ۹۱۱ھ)
۱۰۔فتح القدیر الجامع بین فنی الروایۃ والدرایۃ من التفسیر:محمد ابن علی الشوکانی(م۱۲۵۰ھ)
۱۱۔أضواء البیان فی إیضاح القرآن بالقرآن: محمدأمین الشنقیطی (م۱۳۹۳ھ)
2۔فقہی تفاسیر کامنہج:
اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید بڑ ی حکمتوں اورمقاصد کے ساتھ نازل کیا، مجموعی طورپہ دواہم مقصدتھے:
۱۔عقیدہ کی تصحیح ۲۔سلوک کی درستگی
چنانچہ عقائد کے متعلق آیات نے قاعدوں اورضابطوں کووجود بخشا، اورارکان ایمان کوبنیاد بناکرقاعدوں کوسلامتی عطاکی گئی۔
دوسرے مقصدکاتعلق احکام کے متعلق آیات سے ہیں، بندوں کو گمراہی سے بچانے کے لئے اللہ تعالیٰ نے احکام بتلادئے ہیں، تاکہ انہی آیات کے ذریعے سارے فیصلے بھی کئے جائیں اورحکمراں راہ سے نہ بھٹکیں۔
اگردیکھاجائے توپوراقرآن چاہے وہ قصوں کے متعلق آیات ہوں یا أمثال کے ،چاہے تنبیہ کے متعلق آیات ہوں یاوعدوعید کے متعلق، ان دونوں رکن(عقیدہ کی تصحیح اورسلوک کی درستگی) پرمحیط ہے اورکسی بھی حالت میں کوئی آیت ان دونوں رکن کے دائرے سے باہرنہیں نکلتی ۔(اتجاہات التفسیرفی القرآن الرابع عشر۲؍۴۱۶)
اس میں کوئی شک نہیں کہ قرآنی نصوص کسی مسئلہ یاحکم کی بیشترحالات میں مکمل تصویربیان نہیں کرتے، بلکہ سنت نبویہ اس کی تفصیل فراہم کرتی ہے، لیکن حدیث نبوی بھی ایک ہی درجے پرقائم نہیں ہے، صحت وضعف کے مراتب ہیں، کون سی حدیث رسول اللہﷺ سے ثابت ہے یانہیں؟ انہی امورکو لے کر علماء کے درمیان اختلافات رونماہوئے، قرآنی نصوص کی دلالت کااختلاف ،احادیث کے صحیح اورضعیف ہونے کا اختلاف، قرآن وسنت کومربوط کرکے ایک ہی درجے میں رکھنے کااختلاف سامنے آیا، جس نے دماغ کوحرکت دل، اجتہاد واستنباط کاراستہ ہموارہوا، قیاسات اورمفروضات کی ٹوکریاں کھلیں، جس کانام فقہ رکھاگیا، اوراس کی بنیاداسلام کے ابتدائی دورمیں پڑچکی تھی۔(اتجاہات التفسیر فی القرآن الرابع عشر۲؍۴۱۶)
صحابۂ کرام قرآن کریم میں تدبر اورغوروفکر کیاکرتے تھے، اس سے احکامات ومسائل مستنبط کرتے،کبھی وہ متفق ہوتے اورکبھی کسی مسئلہ میں اختلاف بھی کربیٹھتے،مثال کے طورپہ:ایک خاتون جس کے شوہرکا انتقال ہوگیا اوروہ حمل سے ہے، اس کی عدت کیاہوگی؟ قرآن کی آیت ہے(وَالَّذِیْنَ یُتَوَفَّوْنَ مِنْکُم وَیَذَرونَ أزواجا یَتَرَبَّصْنَ بأنفسھن أربعۃ أشھُر وعشرا)جن خواتین کے شوہروفات پاجائیں، ان کی عدت چارمہینہ دس دن ہے۔(البقرہ:۲۳۴)دوسری جگہ پروارد ہوا: (وَاُولٰتُ الأحْمَالِ أجَلُھُنَّ أن یَضَعْنَ حَمْلَھُنَّ)حمل والیوں کی عدت یہ ہے کہ اپنے بچہ کوجن دیں(الطلاق:۴)علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ بن ابی طالب اورعبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کامسلک ہے کہ ایسی خاتون عدت کے لئے بڑی مدت کواختیار کرے گی، یعنی اگر وضع حمل میں چارمہینہ دس دن سے زیادہ مدت درکاہے تواس کی عدت وضع حمل قرارپائے گی، اوراگر وضع حمل میں چارمہینہ دس دن سے کم مدت باقی ہے، تب وہ وضع کے بعد بھی عدت میں رہے گی اورچارمہینہ دس دن پوراکرے گی۔
لیکن عبداللہ بن مسعودؓ،ابوہریرہؓاورابوسلمہؓ کامسلک ہے کہ وضع حمل ہی اس کی عدت ہوگی، چاہے وہ مدت چارمہینہ سے زیادہ ہویا کم، اس لئے کہ سورۂ طلاق کی آیت بعدمیں نازل ہوئی ہے اورسورہ بقرہ کی پہلے ،توآیت طلاق حکم کو خاص کردیتی ہے جبکہ سورۂ بقرہ میں حکم عام ہے۔
اسی طرح میراث کے باب میں’’ثُلث ‘‘(ایک تہائی)کامسئلہ بھی اختلاف کاسبب بنا،قرآن کریم کی اس آیت میں’’فإن لم یکن لہ ولد وورثہ اَبَواہُ فَلِاُمِّہ الثُّلُثُ‘‘اگرمیت کے اولادنہ ہوں، ماں باپ وارث بنتے ہوں تواس کی ماں کے لئے تیسراحصہ ہے(النساء:۱۱)اس مسئلہ میں عمرفاروقؓ،عثمانؓ، عبداللہ بن مسعودؓ،زید بن ثابتؓ،علی بن ابی طالب،ائمہ اربعہ اورجمہور علماء کہتے ہیں: بقیہ تہائی حصہ اس صورت میں ہے جب ماں باپ کے ساتھ بیوی یاشوہر (دونوں میں سے کوئی ایک) وارث بن رہے ہوں، ماں اورباپ مذکراورمونث ہیں ایک جہت سے، جبکہ دوسری جہت سے (فلذکرمثل حظ الأنثیین)کے تحت مسئلہ اس طرح بنے گا:اوریہی مسئلہ صحیح وراجح ہے۔
اگرمتوفی شوہرہے:12                                           اگرمتوفی بیوی ہے:6
بیوی۱
۳۴
ماں
شوہر
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ اورمعاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ثلث سے مراد تمام مال کا تہائی حصہ ہے،ان کے مطابق مسئلہ اس طرح بنے گا:
اگرمتوفی شوہر ہے: ۱۲ اگرمتوفی بیوی ہے:6
بیوی
شوہر
یہ فقہی اختلاف بعدکے فقہاء کے لئے بیج بن گیا، پھراس کے بعدہرفقہی مسلک کے متبعین احکام سے متعلق آیات کی تفسیر مخصوص اصولوں کے مطابق کرنے لگے، اوراس قدر تفسیرلکھی جانے لگی کہ آپ کے لئے فقہی کتابوں اورفقہی تفاسیر میں تمیز کرنامشکل ہوجائے گا۔
جس طرح متعددفقہی مسالک نے جنم لئے، اسی طرح تفسیریں بھی متعدد ومختلف ہونے لگیں ذیل میں بعض مسالک کی اہم تفاسیر کاذکرکیا جارہاہے:
*مسلک حنفی:
۱۔تفسیرأحکام القرآن:أبوبکرالرازی،جصاص کے نام سے مشہور ہیں، تین جلدیں۔
۲۔التفسیرات الأحمدیۃ فی بیان الآیات الشرعیۃ:ملا جیون، ایک جلد میں ہے۔
*مسلک مالکی:
۱۔تفسیرأحکام القرآن:أبوبکر بن العربی، چارجلدوں میں ہے۔
۲۔الجامع لأحکام القرآن: أبوعبداللہ القرطبی،دس ضخیم جلدوں میں ہے۔
*مسلک شافعی:
۱۔أحکام القرآن:ابوبکرالبیہقی نے امام شافعی کے نصوص سے جمع کیاہے، ایک جلدمیں
۲۔أحکام القرآن: إلکیا الھراسی،دوجلدوں میں ہے۔
۳۔الإکلیل فی استنباط التنزیل:السیوطی، ایک جلدمیں ہے
۴۔القول الوجیز فی أحکام الکتاب العزیز: أحمدبن یوسف الحلبی.
*مسلک حنبلی:
۱۔زادالمسیر فی علم التفسیر:ابن الجوزی،نوجلدوں میں ہے، واضح رہے یہ تفسیرمکمل طورپہ فقہی نہیں ہے، لیکن آیات احکام میں جومسائل مستنبط کئے ہیں، وہ امام احمد بن حنبل کی ترجمانی کرتے ہیں۔
۲۔نیل المرام فی تفسیرآیات الأحکام:محمدصدیق حسن خاں، ایک جلدمیں ہے
۳۔روائع البیان فی تفسیر آیات الأحکام:محمدعلی الصابونی، دوجلدوں میں ہے
۴۔تفسیرآیات الأحکام:مناع القطان.
نوٹ: مذکورہ بالا مفسرین میں بیشترنام ایسے ہیں جو کسی مسلک خاص کے مقلدنہ تھے، بلکہ ان کا تفسیری منہج ائمہ اربعہ کے فقہی منہج سے قرب کی بنیادپر کئی حصوں میں بانٹ دیاگیاہے۔ (جاری) **

جشن عیدمیلاد النبیﷺ کی شرعی حیثیت jan-feb 2011

سعوداختر عبدالمنان سلفیؔ
استادجامعہ سراج العلوم السلفیہ،جھنڈانگر

جشن عیدمیلاد النبیﷺ کی شرعی حیثیت
نبی کریم حضرت محمد مصطفی ﷺ کی بعثت سے قبل دنیاکی حالت انتہائی ناگفتہ بہ تھی، انسانیت ظلم وجور، قتل وغارت گری ،تعدی وسرکشی کی چکی میں پس کرچُرمرارہی تھی، فسق وفجور، شرک وبت پرستی،اوہام وخرافات ،ضلالت وجہالت، بدعقیدگی وبدشگونی عام تھی اورلوگ توحید کویکسرفراموش کرچکے تھے، الغرض پوری دنیا تاریکیوں کا آماجگاہ بن چکی تھی، کسی طرف روشنی کی کوئی امیدنہ تھی کہ یکایک معبود برحق کوسسکتی بلکتی انسانیت پرترس آیا اورفاران کی چوٹیوں پر سے چراغ مصطفوی کو روشن فرماکرپوری دنیاکوجگمگایا،اورحضرت ابراہیم علیہ السلام کی دعاکو شرف قبولیت بخشتے ہوئے انسانوں کوانسانیت کے اوج ثریا پرگامزن کرنے کے لئے ایک داعی حق کو مبعوث فرمایا جس نے اپنی روشن تعلیمات اورحسن عمل وکردار سے پوری دنیا کو منورکردیا، اوراس طرح انسانیت کو ایک مرتبہ پھراپنا متاع گم گشتہ مل گیا،درودوسلام نازل ہواللہ کے اس برگزیدہ نبی اورمستودہ صفات پیغمبر پر۔زیر نظرمضمون میں اسی نبی برحق کا ذکرجمیل ہے اوران کی یادگارمیں منائے جانے والے’’جشن عیدمیلاد النبی‘‘ کی شرعی حیثیت اجاگر کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔
نبی کریمﷺ کی تاریخ ولادت:۔ جشن عیدمیلاد النبیﷺ کی شرعی حیثیت بیان کرنے سے قبل مناسب معلوم ہوتا ہے کہ ہم یہ جان لیں کہ آپﷺ کی ولادت باسعادت کب ہوئی؟ تواس سلسلہ میں مورخین اورسیرت نگاروں میں اختلاف ہے، اکثر سیرت نگاروں نے تحقیق کے ساتھ ۹؍ربیع الاول ۱ ؁عام الفیل کو آپ کا یوم پیدائش ہوناذکر کیاہے جیساکہ علامہ شبلی نعمانی لکھتے ہیں:چمنستان دہرمیں بارہا روح پرور بہاریں آچکی ہیں، چرخ نادرۂ کارنے کبھی کبھی بزم عالم میں اس سروسامان سے سجائی کہ نگاہیں خیرہ ہوگئیں لیکن آج (یعنی ۹؍ربیع الأول) کی تاریخ وہ تاریخ ہے جس کے انتظارمیں پیرکہن سال سردمہر نے کروڑوں برس صرف کردیئے.........یعنی یتیم عبداللہ ،جگرگوشۂ آمنہ ،شاہ حرم، حکمران عرب، فرمانروائے عالم، شاہ کونین عالم قدس سے عالم امکان میں تشریف فرمائے عزت واجلال ہوئے‘‘ ۔ (سیرت النبیﷺ ۱؍۱۷۰،۱۷۱)
مولانا اکبرشاہ خاں نجیب آبادی اپنی کتاب ’’تاریخ اسلام‘‘ میں لکھتے ہیں ’’۹؍ربیع الأول عام الفیل ۴۰جلوس کسری نوشیرواں مطابق ۲۲؍اپریل ۵۷۱ء ؁ بروزدوشنبہ بعدازصبح صادق اورقبل ازطلوع آفتاب آنحضرت ﷺ پیداہوئے‘‘۔(تاریخ اسلام ۱؍۷۶)
علامہ قاضی محمدسلیمان سلمان منصورپوری رحمہ اللہ فرماتے ہیں’’ہمارے نبیﷺ موسم بہارمیں دوشنبہ کے دن۹؍ربیع الأول عام الفیل مطابق ۲۲؍اپریل ۵۷۱ھ ؁ مطابق یکم جیٹھ ۶۲۶ ؁ بکر می کومکہ معظمہ میں بعداز صبح صادق وقبل ازنیرّ عالم تاب پیداہوئے۔(رحمۃ للعالمین ص:۴۰)
مولاناصفی الرحمن مبارکپوری رحمۃ اللہ علیہ رقمطراز ہیں:’’رسول اللہﷺ مکہ میں شعب بنی ہاشم کے اندر۹؍ربیع الأول ۱ ؁ عام الفیل یوم دوشنبہ کو صبح کے وقت پیداہوئے‘‘۔(الرحیق المختوم:ص:۸۳)
مصرکے نامور ماہرفلکیات اورمشہور ومعروف ہیئت داں محمود پاشا فلکی نے بھی یہ تحقیق پیش کی ہے کہ آپ ﷺ کی صحیح تاریخ پیدائش ۹؍ربیع الأول ہی آتا ہے ۔(بحوالہ سیرت النبیﷺ ۱؍۱۷۱،۱۷۲)
امام سہیلی نے نقل کیا ہے کہ ’’ہاتھی ماہ محرم میں آیا تھا اورآپﷺ اس واقعہ کے پچاس دن بعد پیداہوئے تھے، جب کہ عام امام سہیلی اورمحمد بن اسحاق کے بقول جمہور اہل علم کامشہور مسلک یہی ہے ‘‘۔
(سیرت ابن ہشام اردو۱؍۱۸۲وسبل الہدی والرشاد فی سیرۃ خیرالعباد۱؍۳۳۶)
اسی طرح بعض سیرت نگاروں نے ۲؍ربیع الأول ،کسی نے آٹھ، کسی نے بارہ کسی نے سترہ اورکسی نے اٹھارہ اوربعض نے بائیس ربیع الأول کہا‘‘۔(البدایۃ والنہایۃ۲؍۲۶۰)
متذکرہ بالااقوال سے معلوم ہواکہ ۹؍ربیع الأول ہی آپﷺ کی صحیح تاریخ پیدائش ہے ۔
عیدمیلادالنبیﷺ کا موجد وزمانہ ایجاد:۔ عیدمیلادالنبیﷺ کوساتویں صدی ہجری ۶۲۵ھ ؁ میں سلطان صلاح الدین ایوبی کے بہنوئی اورموصل کے قریبی شہراربل کے گورنر ملک مظفر ابوسعید کو کبری نے رواج دیا۔ (البدایۃ والنہایۃ ۱۳؍۱۳۷،الحاوی للسیوطی۱؍۱۸۹، ومسئلہ میلاد اسلام کی نظرمیں ص:۵۵)
اسی طرح فتاوی حافظ ابوالخیر سنحاوی میں ہے ’’مولد شریف کاذکرقرون ثلاثہ مفضلہ میں سلف میں سے کسی سے منقول نہیں یہ بعدکی ایجاد ہے۔(بحوالہ ماہ ربیع الأول اورحب نبوی کے تقاضے ص:۲۵)
حافظ ابن حجر نے بھی اسی طرح لکھا ہے:تواریخ اورمجوزین مولد کے رسائل سے ثابت ہوتا ہے کہ ۶۰۴ھ ؁ میں مولودایجاد ہوا، اورشہر موصل میں ایک مجہول الحال شخص شیخ عمربن محمدملانے ایجادکیا اورصاحب اربل (سلطان مظفر ابوسعید) کوکبری نے اس کی اقتداء کی۔( سیرت شامی بحوالہ ماہ ربیع الأول اورحب نبوی کے تقاضے ص:۲۶)
شامی کی تحریر سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ شاہ اربل نے عمربن محمد کی اقتداء کی تھی اوراصل موجد عمربن محمد تھا، اورحقیقت یہی ہے کہ عمربن محمدایک غریب اورمفلوک الحال شخص تھا، اس لئے وہ اپنے اس فعل کو شہرت نہ دے سکا اورشاہ اربل نے اسے خوب شہرت دی حتی کہ دوردورملکوں میں بھی اس کومشہورکیا، اسی وجہ سے بعض مورخین نے اسی کواس کاموجد قراردے دیا ۔
(حسن المقصدفی عمل المولد للسیوطی بحوالہ ماہ ربیع الأول اورحب نبوی کے تقاضے ص:۲۶)
میلاد کے جوازکا فتوی اوراس موضوع پرسب سے پہلی تالیف:۔میلاد کے جواز کافتوی اوراس موضوع پرسب سے پہلی تالیف ’’ابوالخطاب بن دحیہ‘‘ کی ہے جس کانام ’’التنویر فی مولد البشرالنذیر‘‘ ہے جس کو اس نے’’ ملک مظفر‘‘کے سامنے پیش کیا اوراس نے اسے ایک ہزار اشرفیاں انعام دیں ۔ (مسئلہ میلاد اسلام کی نظرمیں ص:۵۵)
’’التنویر فی مولد البشر النذیر‘‘کے مصنف کے سلسلہ میں محدثین کی آراء:۔ حافظ ابن حجررحمۃ اللہ علیہ اس مصنف سے متعلق لکھتے ہیں:’’ابن نجارکہتے ہیں میں نے تمام لوگوں کواس کے جھوٹ اور ضعیف ہونے پر متفق پایا‘‘۔(لسان المیزان ۲؍۲۹۵)’’وہ ائمہ دین اورسلف صالحین کی شان میں گستاخی کرنے والا اورخبیث زبان والا تھا، بڑااحمق اورمتکبرتھا اوردین کے کاموں میں بڑابے پرواہ تھا‘‘۔(لسان المیزان ۴؍۲۹۶)
علامہ جلال الدین سیوطی رحمۃ اللہ علیہ اپنی کتاب’’تدریب الراوی فی شرح تقریب النووی‘‘میں اقسام وضاعین احادیث کے بیان میں فرماتے ہیں:’’بعض لوگ ایسے ہیں جواپنی عقل ورائے سے فتوی دیتے ہیں اورجب ان سے دلیل مانگی جاتی ہے توپریشان ہوکرحدیث وضع کرلیتے ہیں، اورمشہور ہے کہ ابن دحیہ بھی یہی کیاکرتا تھا کہ جب اس کو کوئی دلیل نہیں ملتی توایک حدیث اپنے مطلب کے موافق بنالیتا جیساکہ مغرب کی نماز قصر پڑھنے کی حدیث وضع کی‘‘۔(تدریب الراویفی شرح تقریب النواوی۱؍۲۸۶)
عیدمیلاد النبی کی شرعی حیثیت:۔ مسلمانان عالم ،بالخصوص برصغیر کے مسلمانوں کاایک طبقہ بارہ ربیع الأول کوعیدمیلاد النبی کے نام سے جشن مناتا ہے،جس کی شریعت میں کوئی گنجائش نہیں،اورنہ ہی قرون ثلاثہ مفضلہ سے ثابت ہے جیساکہ مجوزین خودلکھتے ہیں:’’مولد شریف کا ذکرکرناایک شخص سے بھی اگلوں سے قرون ثلاثہ میں ثابت نہیں، یہ بعدکی ایجاد ہے۔(فتاوی حافظ ابوالخیر سنحاوی بحوالہ فتح الموحد)
اسی طرح علامہ ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ’’ الفتاوی المصریۃ‘‘ میں لکھتے ہیں:شرعی تہوار چھوڑکر دوسری عیدیں منانا، محفلیں رچانا جیساکہ ربیع الأول کی بعض راتوں میں ہوتا ہے جسے ولادت رسول کی رات کہاجاتا ہے یا اسی رجب کی پہلی رات یا ۱۸؍ذی الحجہ یا رجب کے پہلے جمعہ یا ۸؍شوال جسے جاہل لوگ’’ عیدالأبرار‘‘ کہتے ہیں یااس جیسے دوسرے ایام کی یہ ساری محفلیں اورجشن ان بدعتوں میں سے ہیں جنھیں سلف صالحین میں سے کسی نے بھی نہیں کیاہے اورنہ ہی انھوں نے مستحب جاناہے‘‘۔(الفتاوی المصریہ ۱؍۳۱۲) نیز اقتضاء الصراط المستقیم میں اس سے متعلق رقمطراز ہیں:’’سلف صالحین نے ایسی عیدنہیں منائی جب کہ اسے منانے کا تقاضہ بھی موجود تھا اورکوئی چیز مانع بھی نہیں تھی، اگریہ محض بھلائی ہوتی یاخیر کا پہلوکسی بھی اعتبار سے ہوتا توسلف صالحین رضی اللہ عنہم ہم سے زیادہ حقدارتھے کہ اسے مناتے کیونکہ وہ رسول اکرمﷺ سے شدیدمحبت وتعظیم کرتے تھے اور وہ خیرکے حصول پرحددرجہ حریص تھے‘‘۔(اقتضاء الصراط المستقیم:۳۳۳)
علامہ تاج الدین فاکہانی لکھتے ہیں: ’’محفل میلاد کی کتاب وسنت میں سے کوئی دلیل نہیں جانتا اورعلماء امت جو متقدمین کے آثار کی اتباع کرنے والے اوردین کے پیشوا ہیں،ان سے بھی یہ عمل منقول نہیں ہے، یہ توبدعت ہے ،جسے جھوٹوں اورمکاروں نے ایجاد کیا ہے، اسے محض نفس پرستی کے نتیجہ میں لوگ بجالاتے ہیں اوراس کا اہتمام لوگوں کا مال لوٹنے والے کرتے ہیں‘‘۔
(المورد فی الکلام عن المولدص:۲۰،۲۲بحوالہ دین کامل ص:۳۳۹)
اوریہ بات مسلّم ہے کہ اس عمل کا ثبوت نہ توکتاب وسنت میں ہے اورنہ ہی اس کاثبوت ان صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اورتابعین واتباع تابعین رحمہم اللہ سے ہے جن کے سلسلے میں اللہ کے رسولﷺ نے فرمایا تمام لوگوں میں سے بہترین میرے زمانہ کے لوگ ہیں، پھر جواس کے بعد کے ہیں اورپھرجو ان لوگوں کے بعدہیں۔(بخاری مع الفتح ۷؍۱۰کتاب فضائل الصحابۃ باب فضائل اصحاب النبیﷺ...۳۶۵۰؍۳۶۵۱)
اسی طرح سے اس کا ثبوت نہ ان ائمہ کرام سے ہے جن کی فقہی بصیرت پرامت کونازہے، اورمختلف مسائل میں جن کی تقلیدبھی کی جاتی ہے،بلکہ اس کا وجود ساتویں صدی کے اوائل میں ہوا جیساکہ تفصیل اوپرذکرہوا۔
اگرجشن عیدمیلاد النبی نبی کریم ﷺ سے محبت کے اظہار کامسنون طریقہ ہوتا تواس کے سب سے زیادہ حقدار وہ صحابۂ کرام تھے جنھیں اپنے نبی سے اتنی محبت تھی جس کا ہم تصورنہیں کرسکتے، نبی کریمﷺ سے صحابہ کی محبت دیکھنی ہو توصلح حدیبیہ کے موقعہ پر قریش کے سفیرعروہ بن مسعود ثقفی کابیان ملاحظہ کیجئے اوردیکھئے کہ جب وہ قریش کے پاس واپس گئے تو صحابہ کی اپنے نبی سے محبت کا نقشہ کن الفاظ میں کھینچا ،عروہ نے کہا’’اے میری قوم!اللہ کی قسم میں بڑے بڑے بادشاہوں سے مل چکا ہوں، میں نے قیصروکسریٰ اورنجاشی جیسے بادشاہ دیکھے ہیں لیکن اللہ کی قسم میں نے ایساکوئی بادشاہ نہیں دیکھا جس کی اس کے ساتھی اتنی تعظیم کرتے ہوں، جتنی تعظیم محمدﷺ کے ساتھی، ان کی کرتے ہیں، اللہ کی قسم! اگروہ کھنکھارتے بھی ہیں توان کے منہ سے نکلنے والابلغم ان کے کسی نہ کسی ساتھی کی ہتھیلی ہی میں گرتاہے، جسے وہ اپنے چہرے اورجلد پرمل لیتاہے اورجب وہ کوئی حکم دیتے ہیں توان کے ساتھیوں میں سے ہرایک کی یہ کوشش ہوتی ہے کہ وضووالاپانی اسے مل جائے، اورجب وہ آپس میں گفتگو کرتے ہیں توان کے پاس اپنی آوازوں کوپست رکھتے ہیں، اوران کی تعظیم کی بناء پر ان کی نظروں سے نظرنہیں ملاتے۔(بخاری مع الفتح۵؍۴۰۱ کتاب الشروط ،باب الشروط فی الجہاد ۲۷۳۱،۲۷۳۲)
نبیﷺ سے اتنی عقیدت ومحبت رکھنے والے صحابۂ کرام سے یہ عمل ثابت نہیں ہے، اس لئے اس کے بدعت ہونے میں کوئی شبہ نہیں، نبی کریمﷺ نے امت کو ان صحابہ کے نقش قدم پرچلنے کی وصیت اورتاکید فرمائی، فرمان نبوی ہے:’’پس تم پر میری اورمیرے ہدایت یافتہ خلفاء راشدین کی سنت پرعمل پیراہونا ضروری ہے، اس سنت کو مضبوطی کے ساتھ پکڑے رہو اوردین میں نئی نئی باتیں داخل کرنے سے بچو اوردین میں ایجاد کی جانے والی ہر بات بدعت، اورہربدعت گمراہی اورہرگمراہی جہنم میں لے جانے والی ہے‘‘۔(صحیح؍أبوداؤد کتاب السنۃ،باب فی لزوم السنۃ ۴۶۰۷،ترمذی کتاب العلم عن رسول اللہﷺ ،باب ماجآء فی الأخذ بالسنۃ.....۲۶۷۶،إبن ماجۃ، باب إتباع سنۃ الخلفاء الراشدین المھدین۴۲،۴۳)
ایک روایت میں ہے کہ ’’بدترین کام وہ ہیں جو(دین میں) ایجاد کئے گئے اورہربدعت گمراہی ہے۔(مسلم مع النووی ۶؍۳۹۲،کتاب الجمعہ، باب رفع الصوت فی الخطبۃ ومایقول فیھا۲۰۰۲)
ایک اورروایت میں ہے’’ یہود اکہترفرقوں میں اورنصاری بہترفرقوں میں بٹ گئے اور یہ امت تہترفرقوں میں بٹ جائے گی اوران میں سے ایک کے سواباقی سب جہنمی ہوں گے، صحابہ کرام نے پوچھا کہ وہ نجات پانے والا فرقہ کون سا ہوگا؟ توآپﷺ نے ارشاد فرمایا: نجات وہ لوگ پائیں گے جن کا عمل مجھ جیسااورمیرے صحابہ جیساہوگا۔(صحیح؍أبوداؤد کتاب السنۃ، باب شرح السنۃ ۴۵۹۷،إبن ماجہ،کتاب تعبیرالرویاء، باب إفتراق الأمم ۳۹۹۱،۳۹۹۲)
متذکرہ بالااحادیث سے یہ بات روزروشن کی طرح عیاں ہوجاتی ہے کہ آپﷺ نے کتاب وسنت کے بعدخلفاء راشدین اورعام صحابہ کے طریقہ کار کومعتبرقراردیاہے اورجب ہم صحابہ کرام کی زندگی میں جھانکتے ہیں توکہیں بھی اس کاوجود نہیں ملتا،بنابریں عیدمیلادالنبی کو بدعت کہنے میں ہمیں ذرابھی تامل نہیں۔
اسلام میں عیدوں کی تعداد:۔ ابتداء اسلام سے امت میں سالانہ صرف دوعیدوں کاتصور تھا، حضرت انس بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ جب مدینہ تشریف لائے توان کے یہاں سال میں دودن مقررتھے جن میں وہ خوشیاں مناتے تھے، نبیﷺ نے ان سے پوچھا یہ دودن کیسے ہیں؟ انھوں نے کہا:زمانہ جاہلیت سے ہم ان دنوں میں کھیلتے اورخوشی مناتے چلے آرہے ہیں،آپﷺ نے فرمایا’’اللہ تعالیٰ نے تم کو ان کے بدلے میں دوبہتردن عطافرمادیئے ہیں اوروہ ہیں عیدالفطر اورعیدالاضحی کے دن۔(صحیح؍النسائی، کتاب صلاۃ العیدین ۱۵۵۶)
ان عیدوں کے علاوہ نبی کریمﷺ نے اہل اسلام کے لئے جمعہ کے دن کوہفتہ کی عیدقراردیا جیساکہ اللہ کے رسولﷺ کاارشادگرامی ہے ’’یہ دن عیدکادن ہے، جسے اللہ تعالیٰ نے صرف مسلمانوں کے لئے عیدکادن بنایاہے، لہذاجو شخص نمازجمعہ کے لئے آئے تووہ غسل کرے اوراگر خوشبومیسر ہو توضرور لگالے اورتم پر مسواک کرنا لازم ہے‘‘۔(صحیح؍إبن ماجۃ،کتاب إقامۃ الصلوات والسنۃ فیھا ،باب ماجآء فی الزینۃ یوم الجمعۃ۱۰۹۸)
مذکورہ بالا احادیث سے معلوم ہواکہ اسلام میں سالانہ عیدیں دوہیں(۱) عیدالفطر (۲)عیدالأضحی اورایک ہفتہ واری عیدکا تصورہے، لہذا اب اگر ان کے علاوہ کسی اوردن کوعیدقراردیاجائے تووہ بدعت ہوگی ۔
رسول اکرمﷺ کی تشریف آوری کاعقیدہ:۔ میلادیوں کے یہاں یہ مسلم عقیدہ ہے کہ میلاد کی محفلوں میں آپﷺ بذات خودتشریف لاتے ہیں ،اسی بناء پروہ درودوسلام کے وقت قیام کرتے ہیں،اللہ کے رسولﷺ بلاشبہ وفات پاچکے ہیں، قرآن احسن کی شہادت اس کے لئے کافی ہے (إنک میت وإنھم لمیتون)(الزمر:۳۰)اور جووفات پاگیا اس کا اس دنیا میں لوٹنا ناممکن ہے،جیساکہ اللہ تعالیٰ کافرمان ہے(ثم إنکم بعدذٰلک لمیتون، ثم إنکم یوم القیامۃ تبعثون) (المومنون:۱۶) ’’پھر اس کے بعد تم مرجاتے ہو پھرتمہیں قیامت کے روزاٹھایا جائے گا‘‘۔اورنبی کریم ﷺ کا فرمان ’’میں قیامت کے دن اولاد آدم کا سردارہوں گا اورسب سے پہلے میری قبرکا منہ کھولاجائے گا، سب سے پہلے میں شفاعت کروں گا اورسب سے پہلے میری شفاعت قبول کی جائے گی۔(صحیح مسلم مع النووی ۱۵؍۳۹،کتاب الفضائل، باب تفضیل نبیناﷺ علی جمیع الخلائق۵۸۹۹)
مذکورہ نصوص شرعیہ سے یہ بالکل واضح ہے کہ آپﷺ وفات پاچکے ہیں اورقیامت کے دن سب سے پہلے آپ قبر سے نکلیں گے توپھر مجلسوں میں آپ ﷺ کی شرکت فرمانے کا دعویٰ بے بنیادہے ۔
عیدمیلاد النبی کرسمس ڈے کی نقالی:۔نصاری حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے یوم پیدائش پربطورعید وتہوارجشن مناتے ہیں اورمحفل سرودمنعقدکرتے ہیں، میلادیوں نے بھی انھیں کے طرز عمل کواپنایا اورجوکچھ وہ اپنی محفلوں میں انجام دیتے ہیں، خوب جوش وخروش کے ساتھ عشق نبوی کا دعوی کرتے ہوئے یہ حضرات بھی وہی سب کچھ کرتے ہیں بلکہ بسااوقات ان سے بھی بازی لے جاتے ہیں ،جبکہ یہ بے چارے جس ذات اقدس کی جھوٹی محبت کا دم بھرتے ہیں انھوں نے خوداس سے بیزاری کا اظہار کیاہے اورفرمایا ’’من تشبہ بقوم فھومنھم‘‘۔( حسن صحیح ؍أبوداؤد،کتاب اللباس باب فی لبس الشھرۃ ۴۰۳۱)
جس نے کسی قوم کی مشابہت اختیار کی پس وہ انھیں میں سے ہے،نیز فرمایا ’’لیس منا تشبہ بغیرنا ولاتشبہوا بالیھود ولابالنصاری‘‘۔
(حسن؍ترمذی،کتاب الإستئذان باب ماجآء فی کراھیۃ إشارۃ الیدبالسلام۲۶۹۵)
وہ ہم میں سے نہیں جس نے ہمارے لئے کسی اورکی مشابہت اختیارکی تم نہ مشابہت اختیارکرو یہودکی اورنہ ہی نصاری کی۔
میلادیوں کا حدیث پاک سے طرز استدلال:۔قائلین عیدمیلادالنبی اپنے دعویٰ کے ثبوت میں بزعم خویش ایک مضبوط دلیل پیش کرتے ہیں اوروہ صحیح مسلم کی ایک حدیث ہے جس میں آپ ﷺ کے دوشنبہ کے دن روزہ رکھنے کاذکر ہے، آپ کا فرمان ہے ’’إنہ یوم ولدت فیہ‘‘۔ (صحیح مسلم مع النووی۸؍۲۹۲،۲۹۳،کتاب الصیام، باب استحباب صیام ثلاثۃأیام.....۲۷۳۹)
یعنی یہ وہ دن ہے جس میں میری پیدائش ہوئی ،یقیناًاس حدیث پرکوئی کلام نہیں اورہم اس حدیث کو وحی غیرمتلو کادرجہ دیتے ہیں لیکن ان کا اس حدیث سے عیدمیلاد النبی کے جوازپر استنباط نہایت ہی کمزور ،چندوجوہات کے سبب باطل ہے، اللہ کے رسول ﷺ کی عادت مبارکہ تھی کہ آپﷺ دوشنبہ کا روزہ کوشش کرکے رکھتے تھے لیکن یہ بھی یادرہے کہ انھیں احادیث میں جمعرات کے روزہ کابھی ذکر ہے جیساکہ حدیث میں ہے کہ’’ دوشنبہ اورجمعرات کا روزہ کوشش کرکے رکھتے تھے‘‘(صحیح؍ ترمذی، کتاب الصوم، باب ماجآء فی یوم الإثنین والخمیس۷۴۵) اورایک روایت میں ہے کہ حضرت اسامہ نے آپ ﷺسے ان ایام میں روزہ رکھنے کاسبب دریافت کیاتوآپﷺ نے فرمایا کہ دوشنبہ اورجمعرات کو اعمال اللہ کے حضور پیش کئے جاتے ہیں اورمیں یہ بات پسند کرتاہوں کہ میرے اعمال اس حال میں پیش کئے جائیں کہ میں روزہ سے ہوں۔(صحیح؍ترمذی، کتاب الصوم، باب ما جآء فی یوم الإثنین والخمیس ۷۴۷)
مذکورہ احادیث سے معلوم ہواکہ دوشنبہ وجمعرات کے دن روزہ رکھنے کا سبب یہ ہے کہ ان ایام میں اللہ کے حضور بندوں کے اعمال پیش کئے جاتے ہیں اوراس میں دوشنبہ کے روزہ کے لئے ایک اضافی سبب یہ بھی تھاکہ اسی دن آپ کی پیدائش ہوئی۔
مقام غور ہے کہ اگرآپ یوم پیدائش کی خاطر یہ روزہ رکھتے توصرف دوشنبہ ہی کو رکھتے جمعرات کونہ رکھتے، پھردوشنبہ کاروزہ بھی سا ل میں ایک مرتبہ جوکہ آپﷺ کی تاریخ ولادت کے موافق ہوتا،آپﷺ نے ۱۲ ربیع الأول کوروزہ نہیں رکھا، آپﷺ نے دوشنبہ کا روزہ رکھا، جوہرماہ میں چاریاپانچ مرتبہ آتا ہے اس بناء پربارہ ربیع الأول کو کسی عمل کے لئے خاص کرلینا یہ شریعت سازی ہے اس لئے اگرکوئی عشق رسول کا دم بھرنے والاہے توپھروہ ہرہفتہ میں پیرکے دن روزہ رکھنا اپنی عادت بنالے جوکہ ایک حد تک ناممکن ہے۔
اگرکوئی شخص رسول اکرمﷺ کی نعمت ولادت پربطورشکرانہ محفل منعقدکرتا ہے توہم عرض کریں گے کہ بھئی عقل ونقل کا تقاضہ ہے کہ شکربھی اسی نوع کاہو جس نوع کا شکرہمارے نبیﷺ نے کیا، لیکن یہ کہاں کا انصاف ہے کہ آپﷺ نے اس دن روزہ رکھا اورہم مجلسیں منعقد کرکے طرح طرح کے پکوان وشیرینوں سے اپنی زبان کو تلذذبخشیں، اورمردوخواتین کے اختلاط کے ساتھ نغمہ وسروداورقوالیوں کی محفلیں منعقد کریں۔
جب نبی کریمﷺ نے اپنی ولادت اورتخلیق اورتمام انسانوں کی طرف بشیرونذیر ہوکرمبعوث ہونے کے شکریہ میں دوشنبہ کے دن کاروزہ رکھا توکیا آپﷺ نے اس کے ساتھ کسی محفل اورتقریب کا اہتمام بھی کیا؟جیساکہ میلادی لوگ کرتے ہیں اگرنہیں تو پھریہ مردوزن کے اختلاط،مدحیہ اشعار ونغمے اورقوالیوں کا سند جواز کس نے عنایت فرمایا؟ کیا یہ شریعت سازی نہیں؟ جبکہ شریعت کا صریح حکم ہے’’اوررسول اللہﷺ جوتم کودیں اس کولے لو اورجس سے تم کو منع کریں اس سے بازرہو‘‘۔(حشر:۷)
نیز فرمایا:(یا ایھاالذین آمنوا لاتقدموا بین یدی اللہ ورسولہ)(الحجرات:۱) ’’اے ایمان والو! اللہ ورسول کے حکم سے آگے نہ بڑھو‘‘۔
مذکورہ آیات سے معلوم ہواکہ اللہ ورسول نے جن چیزوں کے کرنے کا حکم دیاہے ان پرسختی سے عمل پیراہواجائے اورجن چیزوں سے منع کیا ہے ان سے گریز کیاجائے اللہ کے رسولﷺ کے ایک فرمان سے یہ مسئلہ مزید واضح ہوجاتا ہے کہ جس چیزکاحکم امت کو نہیں دیاگیا یہ کوئی بھول چوک نہیں بلکہ بطوررحمت ہے،’’اللہ تعالیٰ نے کچھ حدودمقررکئے ہیں تم ان سے تجاوزمت کرو، اورتمہارے لئے کچھ فرائض مقررکئے ہیں انھیں ضائع مت کرو، اورکچھ چیزیں حرام کی ہیں ان کی حرمت کوپامال نہ کرو، اورکچھ چیزیں بغیرکسی بھول کے یوں ہی تمہارے اوپررحم کرتے ہوئے چھوڑدی ہیں ان کو قبول کرلو اوران کے بارے میں کھودکریدمت کرو‘‘۔(حسن؍سنن دارقطنی ۵۰۲)
حرف آخر:۔ پورے مطالعہ کا ماحصل ونچوڑ یہی ہے کہ عیدمیلادالنبی کا شریعت مطہرہ سے کوئی تعلق نہیں، اس لئے میں اسلامی بھائیوں سے نہایت ہی ادب واحترام کے ساتھ گذارش کرتاہوں کہ ایسے لغو اورواہیات اعمال سے گریز کریں جن کا شریعت مطہرہ سے کوئی تعلق نہیں اورآپ نبیﷺ کی سچی محبت کے علمبرداربن جائیں جس میں ہمارا اخروی فائدہ ہوگا ان شاء اللہ۔
***

موبائل فون کے آداب jan-feb 2011

مولاناصفات عالم محمدزبیرتیمی (کویت)
موبائل فون کے آداب
موبائل فون عصرحاضر کی ایجادات واختراعات میں سے ایک گرانقدر اور بیش قیمت نعمت ہے جس کے دستیاب ہونے سے لوگوں کے اندر بہت ساری سہولتیں پیدا ہو گئی ہیں ، اِس سے وقت اور مال کی بچت ہوتی ہے ، انسان سفر کی مشقتوں سے بچ جاتاہے ، آج سارے آلات جدیدہ میں سب سے زیادہ اسی کااستعمال ہورہا ہے ،ہم جہاں کہیں بھی ہوں موبائل فون ہمارے ساتھ ہوتا ہے ،بلکہ حقیقت تویہ ہے کہ اس کے بغیر ہمارا اٹھنا بیٹھنا مشکل سا ہوگیا ہے۔
لیکن یہ بھی المیہ ہے کہ موبائل فون ہمارا اچھا خاصا وقت ضائع کر رہا ہے اور برائیوں کے فروغ کا بھی ذریعہ بنتا جا رہا ہے۔آج موبائل کمپنیوں نے اپنی تجارت کو فروغ دینے کے لیے موبائل فون میں مختلف سہولتیں دے رکھی ہیں ،کیمرے کی سہولت ہے ،ویڈیوکی سہولت ہے، انٹرنیٹ کی سہولت ہے ، بلوتوتھ کی سہولت ہے ،جس سے ہماری نوجوان نسل کی خاص طور پربری حالت ہوتی جاری ہے ،فحش گانے ان کی میموری کا لازمی حصہ ہوتے ہیں ،ان کا اچھا خاصا وقت موبائل کی سہولتوں سے فائدہ اٹھانے میں ضائع ہوتا ہے ، والدین اپنی محنت سے کمائی ہوئی رقم ان کی تعلیم پرخرچ کرتے ہیں لیکن وہ مطلوبہ نتائج حاصل نہیں کرپاتے ، موبائل کمپنیاں سستے ترین کال ریٹس اور کبھی ’’فلاں وقت سے فلاں وقت تک مفت کال ‘‘کی سہولت فراہم کرتی ہیں ،جس کا نتیجہ ہے کہ لوگ راتوں رات جگتے ہیں ،وقت کی قیمت کا کوئی پاس ولحاظ نہیں کرتے ، اور گھنٹوں بات کرکے محنت کی کمائی ہوئی دولت کو داؤ پر لگاتے ہیں ۔اسی طرح اس سے صحت کا بھی نقصان ہوتاہے کیونکہ جدید سائنس کاکہناہے کہ موبائل فون کا حد سے زیادہ استعمال دل اور دماغ کی بہت خطرناک بیماریوں کا پیش خیمہ ثابت ہو سکتا ہے۔
حالانکہ یہ اور اس جیسی دوسری نعمتوں کے استعمال کے وقت ایک مسلمان کو اللہ کا شکر بجا لانا چاہئے اور ایک حد میں رہتے ہوئے اسکا جائز استعمال کرنا چاہیے اور ناجائز استعمال سے بچنا چاہئے ، کیونکہ کل قیامت کے دن ہم سے ایک ایک نعمت کے بارے میں پوچھا جانے والا ہے (ثُمَّ لَتُسْأَلُنَّ یَوْمَءِذٍ عَنِ النَّعِیْم)ِ (سورۃ التکاثر 8) ’’ پھرتم سے قیامت کے دن نعمتوں کے بارے میں ضرور سوال کیا جائے گا ‘‘۔ اس لیے ایک انسان کو چاہیے کہ وہ بحیثیت مسلمان اپنی زندگی کے سارے معاملات میں اللہ کے رسول ا اور آپ کے اصحاب کو اپنااسوہ اور نمونہ بنائے ۔ سفیان ثوری ؒ نے بہت پتے کی بات کہی ہے اِنِ اسْتَطَعْتَ أنْ لا تُحِکَّ رَأسَکَ اِلا بِأثَرِ فَافْعَلْ ( الجامع لأخلاق الراوی وآداب السامع ص 142)’’اگر تمہارے لیے ممکن ہو سکے کہ کسی اثر کی بنیاد پر ہی اپناسرکھجلاؤ تو ایسا کر گذرو ‘‘۔ مفہوم یہ ہے کہ ایک مسلمان کا ہر عمل چاہے اس کا تعلق دنیاوی امور سے ہی کیوں نہ ہوسنت نبوی کا آئینہ دار ہونا چاہیے تو موبائل فون کے تعلق سے بھی ضرورت پڑتی ہے کہ اُس کے استعمال کے آداب کو ہم جانیں ۔تو لیجئے ذیل میں موبائل فون سے متعلقہ چند آداب پیش خدمت ہیں :
فون کرنے سے پہلے نمبر کی تحقیق کرلینی چاہیے:
فون کرنے سے پہلے نمبرجانچ کر لیناچاہیے کہ واقعی یہ فلاں شخص کا نمبر ہے ، تاکہ ایسا نہ ہو کہ کسی دوسرے کا نمبر ڈائل ہوجائے اور آپ اُس کے لیے ناگواری کا باعث بن جائیں، اگر کبھی غیر شعوری طور پر ایسا ہوجاتا ہے تو نرم لہجے میں ان سے معذرت کرلی جائے کہ ’’معاف کیجئے گا ، غلطی سے آپ کا نمبر ڈائل ہو گیا ‘‘۔
فون کرتے وقت شرعی الفاظ کا استعمال کیا جائے:
مثلاً جب بات کرنا شروع کریں تو کہیں السلام علیکم ، اسی طرح فون اٹھانے والا بھی السلام علیکم کے ذریعہ گفتگو کی ابتداء کرے کیونکہ سلام میں پہل کرنا بہتر ہے ۔
بالعموم لوگ فون کرتے یا اٹھاتے ہوئے ’’ہلو ‘‘ ’’ہلو‘‘کہتے ہیں‘یہ اسلامی آداب کے خلاف ہے ۔ اسلام نے ہمیں یہ تعلیم دی ہے کہ جب ہم کسی سے ملیں تو السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہکہیں، اس کا اطلاق بالمشافہ ملاقات پر بھی ہوگا ، خط وکتابت پربھی ہوگا اور فون پر بھی ہوگا ۔
پھر’’ ہلو‘‘ کہنے کی وجہ سے جہاں ایک طرف غیروں کی مشابہت لاز م آتی ہے، وہیں ایک آدمی بے پناہ اجروثواب سے محروم بھی ہو جاتا ہے ، امام بخاری نے الادب المفرد میں حضرت ابوہریرہؓ سے بیان کیا ہے کہ ایک آدمی اللہ کے رسول ا کے پا س سے گذرا تو اس نے کہا السلا م علیکم آپ نے فرمایا : اِسے دس نیکیاں ملیں ، دوسرا آدمی گذرا تو کہا : السلام علیکم ورحمۃ اللہ آپ نے فرمایا : اِسے بیس نیکیاں ملیں، تیسرا آدمی گذرا تو اس نے کہا : السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ، آپ نے فرمایا : اِسے تیس نیکیاں ملیں ۔( حسنہ الالبانی فی تخریج مشکاۃ المصابیح 4566)
اس حدیث کو پیش نظر رکھتے ہوئے اگر ہم فون پر اسلامی طریقہ کو اپنائیں اور السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ کہیں توہم صرف فون کرنے پرتیس نیکیوں کے حقدار ٹھہرتے ہیں ۔
سلام کرنے کے بعد اپنا تعارف کرایاجائے :
مثلاً یوں کہے کہ’’ میں فلاں بول رہا ہوں‘‘الا یہ کہ جس سے اس قدر شناسائی ہو کہ آواز فوراً پہچان میں آجاتی ہو ،ایسی جگہ تعارف کرانے کی ضرورت نہیں ۔ کچھ لوگوں کی عادت ہوتی ہے کہ بات کرتے وقت پوچھنے لگتے ہیں کہ’’ آپ نے مجھے پہچانا ؟‘‘ اِس سے آدمی حرج میں پڑجاتا ہے اگر کوئی صراحۃ کہہ دیا کہ ’’ نہیں‘‘ تو لیجئے! اب خیریت نہیں رہی اُسے کوسنا شروع کردیں گے کہ’’ آپ تو بڑے آدمی ہیں مجھے کیوں کر پہچانیں گے‘‘ حالانکہ وہ بندہ دل کا صاف ہوتا ہے اور ایسی بات سن کر اسے تکلیف ہوجاتی ہے ۔
یہ کہنا بھی غلط ہے کہ انہوں نے میرا نمبر محفوظ نہیں رکھا ۔میں کہتاہوں حسن ظن سے کام لیں،ممکن ہے اسکے سیٹ میں جگہ خالی نہ ہو،پھراِس انداز میں پوچھنابھی تو اسلامی اد ب کے خلاف ہے ، نام بتانے میں آخر کیا جاتا ہے ؟۔
بخاری ومسلم کی روایت ہے حضرت جابربن عبداللہؓ کہتے ہیں أتیتُ النبیَّ صلی اللہ علیہ وسلم فی دَینٍ کان علٰی أبی فدققتُ البابَ فقال: من ذا ؟ فقلتُ: أنا ، فقال : أنا أنا کأنہ کرھہا ’’میں اللہ کے رسول ا کے پاس ایک قرض کے سلسلے میں مدد کے لیے آیا جسے میرے باپ نے لی تھی اور آپ کو آواز دی تو آپ نے فرمایا : کون؟ میں نے کہا: ’’أنا ‘‘ یعنی میں ہو ں ۔ اللہ کے رسول ا نکلے تو یہ کہہ رہے تھے [ أنا ، أنا ] ’’میں، میں‘‘ گویاکہ آپ نے اس طرح کے جواب پر ناپسندیدگی کااظہار فرمایا ‘‘۔ کیونکہ ’’میں ‘‘ کہنے سے کوئی بات سمجھ میں نہیں آتی ۔
آج بھی کتنے لوگوں کی عادت ہوتی ہے کہ جب دروازے پر دستک دیں گے اور آپ اُن سے پوچھیں کہ’’کون‘‘ ؟ تو کہیں گے ’’میں‘‘۔بھئی ! ’’میں‘‘ کہنے سے کیا سمجھ میں آئے گا ، نام بتاؤ۔۔۔لہذا فون کرنے والے کو چاہیے کہ وہ سب سے پہلے اپنا نام بتائے تاکہ جس سے بات کررہا ہے وہ حرج میں نہ پڑے اور فوراً پہچان لے۔
جسے فون کر رہے ہوں اس کے احوال کی رعایت کریں:
ممکن ہے وہ آدمی اپنے ذاتی کام میں مشغول ہویا ایسی جگہ پر ہو جہاں فون اٹھانا اُس کے لیے مناسب نہ ہو۔ ایسی صورت میں اگر جواب نہ ملا ، یا جواب میں جلد بازی پائی گئی یا گرم جوشی سے جواب نہ مل سکا توفون کرنے والے کو چاہیے کہ اس کے تئیں حسن ظن رکھے اور اس کے لیے عذر تلاش کرے۔ اُسی طرح جسے فون کیا گیا ہے اُس کے لیے بھی مناسب ہے کہ اگر وہ ایسی جگہ موجود ہے جہاں فون کا جواب نہیں دے سکتا تو وہ موبائل کو سائلنٹ کر دے پھر بعد میں عذر پیش کرتے ہوئے ری کال کرے یا جلدی سے بتا دے کہ وہ ایسی جگہ پرہے جہاں فون کا جواب نہیں دے سکتا ،یہ دل کی صفائی کا اچھا طریقہ ہے ۔
پھرRing دینے میں شرعی آداب کو ملحوظ رکھناچاہیے ، تین بار فون کی گھنٹی بجنے کے باوجود اگر فون نہیں اٹھایا گیا تو سمجھ لینا چاہیے کہ اجازت نہیں ہے اور کال کو کسی دوسرے وقت کے لیے مؤخر کردینا چاہیے ،کتنے لوگ جواب نہ ملنے پر بار بارRing دیتے ہیں بلکہ کچھ لوگ توجواب نہ ملنے پر غصہ ہوجاتے ہیں اور جلدبازی میں اوٹ پٹانگ بول دیتے ہیں
اس مناسبت سے مجھے ایک واقعہ یاد آرہا ہے ،میرے ایک قریب ترین ساتھی نے مجھے ایک مرتبہ انٹرنیشنل کال کیا ۔ میں اُس وقت نماز میں تھااور میرا موبائل سائلنٹ میں تھا ، جب میں نے نماز سے فارغ ہوکر موبائل دیکھا تو اُس میں 10 مس کال تھے اور ایکsms تھا جس میں لکھا تھا ’’ اگر آپ کو میرا فون کرنا گراں گزرتا ہے تو اشارہ کردیں ۔ رب کعبہ کی قسم ! میں آپ کو کبھی فون نہ کروں گا ‘‘ ۔
دیکھا ! یہ جلد بازی کا نتیجہ ہے ، انہوں نے فوراً نتیجہ اخذ کرلیا کہ میں دانستہ جواب نہیں دے رہا ہوں حالانکہ حقیقت کچھ اور تھی،میں نماز میں تھا ۔ لہذا جلدبازی میں کوئی بات نہ کہنی چاہیے جس سے بعدمیں سبکی ہو ۔۔۔اُسی طرح جسے فون کر رہے ہوں اُس کی طرف سے جواب نہ ملنے پرہمیشہ حسن ظن رکھنا چاہیے۔
فون کرنے کے لیے مناسب وقت کا انتخاب کیاجائے :
ہروقت ایک شخص فون کا جواب دینے کے لیے تیار نہیں رہتا ، کبھی گھریلو مشغولیات ہوتی ہیں ، کبھی کام کے تقاضے ہوتے ہیں۔ بالخصوص ایسے اشخاص سے بات کرتے وقت مناسب وقت کا خیال رکھنا بہت ضروری ہے جن کے اوقات بہت قیمتی ہوتے ہیں۔ کتنے لوگ دیر رات میں فون کرتے ہیں جس وقت ایک آدمی سویا ہو تا ہے، ظاہر ہے اِس سے نیند خراب ہوتی ہے اور کچھ لوگوں کو ایسا عمل سخت ناگوار گذرتا ہے ۔ لہذا فون کرنے کے لیے مناسب وقت کی رعایت بہت ضروری ہے ۔
فون کرنے کی مدت کا بھی تعین رکھنا چاہئے :
کتنے ایسے لوگ ہیں جو فون کرنے بیٹھتے ہیں تو گھنٹوں باتیں کرتے رہتے ہیں ، ایک مسلمان زندگی کے کسی بھی شعبے میں افراط سے کام نہیں لیتا ۔ فون پر ہمارے جتنے پیسے برباد ہو رہے ہیں اگر اس میں سے ہلکی سی کٹوتی کرلیں تو میں سمجھتا ہوں‘ کتنے غریبو ں کا بھلا ہو سکتا ہے۔
بہرکیف عرض مدعایہ ہے کہ فون پر ہذیان گوئی، بیکار گفتگو اور ضیاع وقت سے پرہیز کرنا چاہیے۔ فون ضرورت کے تحت استعمال کیا جائے اُسے طفلِ تسلی نہ بنایا جائے ۔
جب مسجد میں داخل ہوں تو موبائل فون بند کردیں یا سائلنٹ میں کردیں:
اگرآپ کوکسی وزیر یا بادشاہ سے ملنے کاموقع مل جائے توپہلی فرصت میں آپ اس کے پاس جانے سے پہلے اپنے موبائل فون کو بند کردیں گے یا سائلنٹ میں کردیں گے مباداکہ دوران ملاقات اس کے بجنے سے ناگواری محسوس ہو ۔جب انسان سے ملنے سے پہلے اتنا اہتمام کیا جاسکتا ہے تو مسجد‘ جوکہ اللہ کا گھرہے اوراس کے نزدیک سب سے پیاری جگہ، جہاں لوگ اپنے رب سے سرگوشی کرنے آتے ہیں، ظاہر ہے مسجد میں داخل ہونے سے پہلے موبائل فون کو سب سے پہلے سائلنٹ میں کردینا چاہیے ، تاکہ خشوع وخصوع سے نماز ادا کی جاسکے ،اور فون کے رِنگ سے دوسرے نمازیوں کی نمازیں بھی متاثر نہ ہوں، لیکن بھول چوک انسانی فطرت ہے ،اس لیے اگر لاعلمی میں موبائل فون کھلا رہ گیا اور بحالت نماز کال آگئی تو فوراً موبائل فون بند کر دینا چاہیے بلکہ بند کرنا ضروری ہے کیونکہ اس سے لوگوں کی نمازیں متاثر ہوتی ہیں۔ کتنے لوگ فون آنے پر موبائل بند نہیں کرتے اور مسجد میں دوسروں کی نمازیں خراب کرتے رہتے ہیں جوقطعاً مناسب نہیں۔
اسی طرح جو آدمی غیرشعوری طور پر موبائل فون بند کرنا بھول گیا اُسے معذور سمجھنا چاہیے اور خواہ مخواہ اس کے ساتھ سخت کلامی سے پیش نہیں آناچاہیے ۔ کیا ہم دیکھتے نہیں سرکارِ دوعالم اکا اسوہ کیاتھا؟ ایک دیہاتی مسجد نبوی کے ایک کونہ میں پیشاب کرنے بیٹھ جاتا ہے ۔ صحابہ کرام اُسے ڈانٹتے ہیں تو اللہ کے رسول ا انہیں منع کر دیتے ہیں،پھر جب وہ پیشاب سے فارغ ہو جاتا ہے تو آپ ایک بالٹی پانی منگواتے ہیں اورحکم دیتے ہیں کہ اُس گندگی کی جگہ پر بہا دیا جائے ۔ اُس کے بعد فر ماتے ہیں فانما بعثتم میسرین ولم تبعثوا معسرین (رواہ البخاری) ’’ تم آسانی کرنے کے لیے بھیجے گئے ہو سختی کر نے کے لیے بھیجے نہیں گئے ‘‘۔
مجلس میں بیٹھ کر بات نہ کریں:
اگر آپ معززشخصیات کی مجلس میں بیٹھے ہوں اور اُسی بیچ کال آجائے تو مناسب ہے کہ ایسی جگہ پر موبائل کو آہستہ سے سائلنٹ کر دیں اور اگرکوئی ضروری کال ہوتو اجازت لے کر باہر نکل جائیں۔بڑوں کی مجلس میں بیٹھے ہوئے فون کا جواب دینے لگنا مناسب نہیں ۔ ہاں! اگر دوست واحباب کی مجلس ہو‘ تو مجلس کے اندر ہی بات کرنے کی گنجائش ہے ،بشرطیکہ اجازت لے لی جائے ۔
موبائل فون عام جگہوں پر نہ رکھے جائیں :
کیونکہ ہوسکتا ہے کہ کوئی دوسرا اُسے اٹھاکر استعمال کرنے لگے یا بچے کسی ایسے شخص کو فون لگا دیں جنہیں فون نہیں کرنا چاہیے تھا ۔ یا ہوسکتا ہے کہ اُس میں کوئی راز کی بات ہو جسے دوسروں کا جاننا پسند نہ کرتے ہوں، یا ایسے ایس ایم ایس یا فوٹوز ہو ں جو آپ کے اہل خانہ کے ہوں اور دوسرا غلط نظریہ سے اُسے دیکھنے اور سوچنے لگے ۔ اِن سارے شبہات سے بچنے کا واحد طریقہ یہی ہے کہ موبائل فون ہر جگہ نہ رکھا جائے ۔ اُسی طرح ایک شخص کو چاہیے کہ دوسرے کا موبائل فون اُس کی اجازت کے بغیر استعمال نہ کرے اور اگر اجازت ملنے پر استعمال کرتا بھی ہے تو اُسی حد تک جس حد تک اُسے اجازت ملی ہے ۔
گھر میں گارجین کے رہتے ہوئے نوجوان بچیوں کو فون اٹھانے نہ دیا جائے:
اِس سے بچیوں میں بے راہ روی کے امکانات زیادہ ہوتے ہیں بلکہ آئے دن اس طرح کے واقعات پیش آرہے ہیں اورہماری عزت وآبرو کا خون ہو رہا ہے ۔بلکہ مردوں کی موجودگی میں عورتیں فون نہ اٹھائیں ۔ ہاں! ضرورت کے تحت فون اٹھایا جا سکتا ہے لیکن عورتیں فون اٹھاتے وقت نرم لہجہ میں بات نہ کریں ایسا نہ ہو کہ بیمار دل انسان دل میں کسی طرح کا غلط خیال بٹھالے ۔ ذرا غور کیجئے کہ اللہ تعالی نے نبی پاک اکی بیویوں کو حکم دیا کہ جب وہ دوسروں سے بات کریں تو دبی زبان میں بات نہ کریں:
’’ اے نبی کی بیویو! اگر تم پرہیزگاری اختیار کرو تو نرم لہجے سے بات نہ کرو کہ جس کے دل میں روگ ہو ‘ وہ کوئی خیال کرے اور ہاں! قاعدے کے مطابق کلام کرو‘‘۔
ذرا غورکیجیے کہ وہ عہد نبوت میں تھیں، لوگوں کی ماؤں کی حیثیت رکھتی تھیں ، اُنکے تئیں کسی کے دل میں غلط خیال بیٹھ نہیں سکتا تھا اُس کے باوجود یہ حکم دیا جا رہا ہے،اِسی سے اندازہ لگایاجاسکتا ہے کہ ہماری بہنیں اور بیٹیاں اِس حکم کی کس قدر مخاطب ہو ں گی ۔ ہمیں یہ باور کرنا، چاہئے کہ شریعت دراصل فطرت کی آواز ہے، فطری طور پر عورت کی آواز میں دلکشی، نرمی اور نزاکت پائی جاتی ہے۔ اِسی لیے عورتوں کو یہ حکم دیا گیا کہ مردوں سے گفتگو کرتے وقت ایسا لب ولہجہ اختیار کیا جائے جس میں نزاکت اور لطافت کی بجائے سختی اور روکھاپن ہو‘ تاکہ کسی بدباطن کے دل میں بُرا خیال پیدا نہ ہو۔
سن شعور کو پہنچنے سے پہلے بچوں کوبھی فون اٹھانے نہ دیا جائے :
اگر بچے ہوشیار ہوں تب بھی انہیں فون اٹھانے کا طریقہ سکھانے کے بعد ہی فون اٹھانے کی اجازت دیں ۔ بسااوقات ایسا ہوتا ہے کہ آپ کسی اہم ضرورت سے کسی کے ہاں فون کریں فون اٹھانے والا گھر کا بچہ ہوگا جو اپنے انداز میں بات کرتا ہوتا ہے ۔ منٹوں کے بعد بات سمجھ پاتا ہے اور کبھی وہ بھی نہیں سمجھ پاتا کچھ خبیث طبیعت کے لوگ تو بچوں سے راز کی باتیں بھی معلوم کرنے لگتے ہیں ۔ ظاہر ہے اِس کا واحد علاج یہ ہے کہ بالکل چھوٹے بچوں کو فون اٹھانے نہ دیا جائے ۔
فون کی آواز آن کرنا یا آواز رکارڈ کرنا منع ہے:
گفتگو کرنے والے کی بات کو ریکارڈ کرنا یاموبائل کی آواز سب کے سامنے آن کردینا تاکہ اسے دوسرے بھی سنیں‘ غلط ہے بلکہ ایک طرح کی خیانت ہے ۔ کتنے لوگوں کی عادت ہوتی ہے کہ جب انہیں کوئی فون کرتاہے تو اس کی آواز کو ریکارڈ کرنے لگتے ہیں یا آواز کھول دیتے ہیں تاکہ حاضرین اس کی گفتگو سنیں ۔ایسا کرنا سراسر غلط ہے ۔ کوئی دانا ایسا نہیں کرسکتا ۔ ہاں اگر بات کرنے والے سے اجازت لے لی جائے ، اور گفتگو سب کے لیے مفید ہو تو ایسی صورت میں آواز کھولنے میں کوئی حرج نہیں ۔
علامہ ڈاکٹر بکر ابوزید ؒ اپنی کتا ب ’’أدب الھاتف ‘‘ میں لکھتے ہیں لایجوز لمسلم یرعی الأمانۃ ویبغض الخیانۃ أن یسجل کلام المتکلم دون اذنہ وعلمہ مھما یکن نوع الکلام دینیا أو دنیویا ’’ایسامسلمان جوامانت کی رعایت کرتا ہو اور خیانت کو ناپسند کرتا ہو‘ اس کے لیے قطعاً جائز نہیں کہ گفتگو کرنے والے کی بات کو اس کی اجازت اوراسکے علم کے بغیر ریکارڈ کرلے، چاہے گفتگو جس نوعیت کی ہو‘ دنیوی ہو یا دینی جیسے فتوی اور علمی مباحث وغیرہ ‘‘
رنگ ٹونز کے طور پر عادی گھنٹی کا استعمال کریں :
موبائل فون میں عادی ٹونز کا استعمال ہوناچاہیے ،بالعموم لوگ موسیقی یا نغمے والی ٹونز رکھنا پسند کرتے ہیں حالانکہ سب سے پہلے تو یہ حرام ہے ،پھردینی مزاج رکھنے والے اور سنجیدہ طبیعت کے لوگ اسے اچھا نہیں سمجھتے ،ایسے لوگوں کواس سے اذیت اور تکلیف ہوتی ہے ، بالخصوص جب مساجد یا لوگوں کے اجتماعات میں ایسے نغمے سنے جائیں تو اس کی قباحت مزید بڑھ جاتی ہے ۔
اس کے برعکس پچھلے چند سالوں سے دینی مزاج رکھنے والے افراد نے قرآنی آیات کو رنگ ٹون کے طور پر استعمال کرنا شروع کیا ہے ،حالانکہ ایسا کرنا بھی صحیح نہیں ہے ،عصر حاضر کی متعدد فتوی کمیٹیوں نے اس کی حرمت کا فتوی دیا ہے جن میں مفتئ مصر ،سعودی عرب کے کبار علماء ،اور رابطہ عالم اسلامی کی اسلامی فقہ اکیڈمی قابل ذکر ہے ، کیونکہ اس میں قرآن کی بے حرمتی کا پہلو پایا جاتا ہے جیسے بیت الخلا ء میں فون آجائے یا لہوولعب کے اڈے پر رِنگ دینے لگے ،اسی طرح اگر رنگ دیتے وقت فون اٹھالیاجاے تو بسااوقات آیت منقطع ہوکر رہ جاتی ہے ،یا الفاظ ادھورے رہ جاتے ہیں جس سے معنی کچھ کا کچھ ہوجاتا یا مبہم رہ جاتا ہے ، اگر ایک آدمی سنجیدگی سے غور کرے تو اسے خود سمجھ میں آجاے گا کہ واقعی اس سے قرآنی آیات کی بے حرمتی ہوتی ہے ، کوئی عقل مند آدمی یہ تو نہیں کہہ سکتا کہ اس میں قرآنی آیات کی تعظیم وتکریم ہے جبکہ ہمیں حکم ہے کہ قرآنی آیا ت کی تعظیم وتکریم کریں، کیونکہ یہ ہمارے خالق ومالک کا کلام ہے جو ہماری ہدایت کے لیے اترا ہے ۔
***

اربابِ دینی مدارس کی خدمت میں jan-feb 2011

مولانا شفیع اللہ عبدالحکیم مدنیؔ
استاد جامعہ سراج العلوم السلفیہ،جھنڈانگر،نیپال

اربابِ دینی مدارس کی خدمت میں
بلاشبہ دینی مدارس دین کے قلع ہیں ،جہاں فکرونظر اسلامی قالب میں ڈھلتے اورننھے قائدین ملت پروان چڑھتے ہیں، تاہم دینی مدارس کے کئی پہلو اصلاح طلب ہیں،تعلیمی نصاب ،وسائل تعلیم اسالیب وتربیت، طلباء واساتذہ کے حقوق اوران کے روشن مستقبل کی منصوبہ بندی،ملازمین کے واجبات وذمہ داریاں، انتظامی وادارتی قوانین اوارن جیسے دیگرموضوعات وابستگان دینی مدارس کی علمی توجہ کے متقاضی ہیں۔
ہمارے سماج ومعاشرہ میں کتنے افراد ایسے ہیں کہ جواپنے نونہال بچوں کومکمل دینی تعلیم سے آراستہ کرناچاہتے ہیں مگرمدارس عربیہ کے ماحول کوپسماندہ پاکراپنے نیک ارادوں سے پھسل جاتے ہیں، ایسے لوگوں کونہ اساتذہ کامعیار زندگی اپیل کرتا ہے نہ طلبہ کا رہن سہن نہ ہی رہائشی کمرے نظام قیام وطعام بھی حفظان صحت وصفائی کے اصول وآداب سے بالکل عاری، اس قسم کا غیرمعیاری ماحول مستقبل کے علماء خطباء اورائمہ مساجد کی نفسیات واخلاقیات پر اثر انداز ہوتاہے، عزت نفس، خودداری اوربے باکی اورحق گوئی جیسی خصال حمیدہ مرجھاجاتی ہیں اوران کے اندرزبان کھولنے کی جرأت وہمت نہیں ہوتی اورنہ ہی اپنی بات ذمہ داران مدارس سے کہہ سکتے ہیں ،اس وقت مدارس اسلامیہ کاجوحال ہے وہ بہت ہی ناگفتہ بہ ہے یہ حقیقت بھی ہمارے لئے سوالیہ نشان ہے کہ ہمارے مدارس کے فضلاء مختلف شعبہ ہائے زندگی میں احساس کمتری کا شکارکیوں رہتے ہیں؟ اورعصر حاضرمیں تعلیم نام کی کوئی چیزنہیں صرف کمپیوٹرکی طرف بھاگ دوڑ اورپوری توجہ اسی کی طرف مرکوز ہوکر رہ گئی اب طلباء کا صورت حال یہی ہے کہ ان جامعات ومدارس میں داخلہ لیاجائے جہاں مکمل آزادی کے ساتھ کمپیوٹر وغیرہ سیکھنے کی کلی اجازت ہواور کسی قسم کی کوئی پابندی نہ ہو آخر کیوں؟
کتنے علماء کرام ہیں جو انہی مدارس وجامعات سے فارغ ہوکر درس وتدریس کاکام انجام دے رہے ہیں صرف یہی نہیں بلکہ کلیدی عہدہ ومناصب پر فائز ہیں مگرمدارس وجامعات کی پسماندگی اور مسکنت کے باعث اپنے جگرگوشوں کومدارس کا رُخ کرنے نہیں دیئے، اگرمدارس کے ظاہری ماحول کے معیارسے بدظن ہوکر کوئی اپنے بچے کو حافظ قرآن یا عالمِ دین نہ بناسکا توارباب مدارس بتلائیں کہ اس کا گناہ کس پر ہوگا؟
بعض ارباب مدارس کا یہ خیال کہ طلباء دیہاتی ماحول کی پیداوار ہوتے ہیں پسماندہ علاقوں اورغریب خاندانوں سے ان کا تعلق ہوتا ہے لہذا ان کو کسی طرح سے دووقت کاکھانا اورسونے کے لئے جگہ کا بندوبست کردیں بس یہی کافی وافی ہے، یہ ایک سطحی اورغیر ذمہ دارانہ سوچ وفکر ہے۔
ان سطورکے تحریر کرنے کامقصد کسی بھی مدرسے کے ذمہ داران کی حوصلہ شکنی اوران کی مساعی جمیلہ کی تنقیص ہرگز مطلوب نہیں ہے ،صرف احساس ذمہ داری کوبیدارکرنا ہے کہ اساتذہ وطلباء کے معیارزندگی کوبہترسے بہتر بنایا جائے، کیونکہ طلباء وطالبات نبوت کے وارث اورملت کے مستقبل ہیں ان سے قوم کی بہت ساری امیدیں اورآرزوئیں وابستہ ہیں، اسی طرح اساتذہ یہ تعلیم وتربیت کے معیار ہیں ان ہی کے دَم سے درس وتدریس اورتربیت وتزکیہ کانظام قائم ہے ،نئی نسل کاسراپا نبوت کے چشمۂ حیواں سے جوڑتے اس کے شعور کوبیدارکرنے اورافکار وخیالات کوجِلا بخشتے ہیں۔
تعلیم وتربیت کوئی آسان کام نہیں بلکہ بڑامشکل اورصبرآزما کام ہے، مدارس کے ساتھ ایک بڑاالمیہ ہے کہ اسے تربیت یافتہ اساتذہ ومربین میسرنہیں ہوتے آخر کیوں؟
ارباب مدارس اورملت کے بہی خواہوں کی خدمت میں اساتذہ وطلباء کے معیارزندگی کوبہتربنانے کے لئے چندتجاویز پیش خدمت ہیں اگراس جانب اپنی توجہ عالی مبذول کریں توان شاء اللہ اس کا نتیجہ بہت ہی بہتر نکلے گا۔
اساتذہ کے متعلق انتظامیہ نظام تعلیم کا ایک اہم رکن ہے اوراسی پر تعلیم وتربیت کی عمارت قائم ہے اس کی حیثیت بنیادکی سی ہے اگربنیاد پکی ہوگی توعمارت بھی پائیدار اورٹھوس ومستحکم ہوگی، انتظامیہ کویہ بات اچھی طرح ذہن نشین کرلینی چاہئے کہ مدارس قائم کئے جاتے ہیں تعلیم وتربیت کے لئے پیغام رسالت عام کرنے کے لئے اورنبی کی وراثت تقسیم کرنے کے لئے اس لئے سب پر اساتذہ وطلباء کو ترجیح حاصل ہونی چاہئے، اساتذہ کا احترام اوران کی حیثیت کا خیال ،استاد جس قدرذہنی اورنفسیاتی طورپر آسودہ حال ہوگا اسی قدر وہ اپنے فرائض تدریسی کی ادائیگی میں یکسو ہوگا اورنہایت ہی اخلاص وللہیت کے ساتھ زیورعلم سے آراستہ کرے گا۔
(۱) استاد کا مشاہرہ اتناہوکہ وہ فکرمعاش سے آزاد ہوکراپنے ادائے واجب میں مشغول رہے مادیت ومہنگائی کے اس دورمیں اساتذہ وٹیچرکئی کئی جگہوں پر ٹیوشن کرکے اپنے اخراجات پورے کرتے ہیں، ان حالات میں اساتذہ سے یہ توقع رکھناکہ وہ خوب اچھی طرح سے مطالعہ کرکے مسندتدریس پرجلوہ افروز ہوں اورخوب اچھے انداز سے طلباء کوزیورعلم سے مزین کریں،یہ آرزوئے عبث ہے۔
کتاب وسنت میں علماء ربّانی کا کتنا بڑا مقام ومرتبہ ہے مگرمولویوں کا ایک بڑا طبقہ بڑاہی ناتواں، کمزور ،محتاج، بے بس، غریب ومفلس اورستم زدہ ہے ان کی کوئی قیمت ہی نہیں ہے،یہ بالکل بے قیمت ہیں۔
مولویوں کی تنخواہ کامعیار کس قدرسطحی ہے مت پوچھئے، مسلمانوں کے لئے لمحۂ فکریہ ،کتاب وسنت میں جن کا اتنااونچا مقام ہے اورجن کا اتنا اعلیٰ واشرف کام ہے ان کی کچھ بھی قدر وقیمت نہیں جبکہ ازروئے شرع جن کی کوئی حیثیت نہیں دنیاوالے عزت وقدرکی نگاہوں سے دیکھتے ہیں اوران کی تنخواہیں بھی اچھی خاصی رہتی ہیں آخرایسا کیوں؟ علماء دین اپنی بدحالی وپریشانی سے تنگ آکراگرکوئی غلط پیشہ اختیار کرنے پرمجبور ہوں گے تواس کا اصل ذمہ دارکون ہوگا آخرکیوں معمولی تنخواہ دے کران کو گداگری پرمجبور کیاجاتا ہے اورپھرسماج ومعاشرہ میں انھیں کیوں گری ہوئی نگاہ سے دیکھاجاتاہے۔
کیا ہم نہیں دیکھتے کہ ہرسال جامعات ومدارس سے ہزاروں کی تعداد میں طلبہ فارغ التحصیل ہوتے ہیں لیکن آخرامامت وخطابت اوردرس وتدریس کی ذمہ داری سنبھالنے سے کوسوں دوربھاگ رہے ہیں کوئی سلائی، کڑھائی، پرس، ودیگر دنیاوی کام کو اختیار کررہاہے اس لئے کہ یہ اپنے اساتذہ کرام جن کی صلاحیت وصالحیت سے استفادہ کررہے ہیں انھیں دیکھ رہے ہیں کہ قلت تنخواہ سے دوچار ہوکرنہایت ہی تنگ دستی اور کسمپرسی کی حالت سے گزررہے ہیں وہ طلبہ جنھیں کچھ شعور ہے وہ دن رات اسی فکر ودُھن میں سرگرداں ہیں کہ اس ہوش رُبا مہنگائی میں ہم لوگ اپنی زندگی کیسے گزارے گیں، اہل وعیال کی کفالت کیسے کریں گے، بلاشک وشبہ یہ ایک اچھی سوچ وفکرہے ان کی سوچ کی داد دینی چاہئے اورہمت افزائی کرنی چاہئے۔
یقین مانیں وہ دن دورنہیں مکاتب، مدارس،مساجد اوردعوت وتبلیغ کے دفاتر ومراکز میں قحط الرجال پڑچکا ہے آئے دن اخبارات میں ضرورت اساتذہ وغیرہ کے اشتہارات شائع ہوتے ہیں تلاش بسیار کے باوجود نایاب ہیں ایک وقت ایسا آجائے گا کہ گاؤں میں کوئی جمعہ کا خطبہ دینے اورجنازہ کی نماز پڑھانے والا نہیں ملے گا کرایہ پر لاکرپڑھوانا ہوگا۔
افسوس کامقام ہے کہ بعض جامعات ومدارس میں استاد کی تنخواہ ایک خاں ساماسے بھی کم ہوتی ہے اورخان ساماکے ساتھ جومراعات وسہولیات دی جاتی ہے سوال یہ ہے کہ آخرایسا کیوں؟ اس کا بڑے ہی طمطراق کے ساتھ جواب دیاجاتا ہے کہ چونکہ مولوی بہت مل جائیں گے مگریہ نہیں مال پائیں گے اس وجہ سے ایسا رویہ اختیار کیاجاتا ہے۔
(۲) دوسری تجویز یہ ہے کہ اساتذہ کے لئے مناسب معیارکی رہائشیں تعمیر کی جائیں اور فیملی کوارٹرتیار کرائے جائیں تاکہ آنے جانے والے اساتذہ یسکوہوکر بچوں کے ساتھ رہ کرخوشگوار ماحول میں زندگی گذارسکیں اورتدریسی خدمات اطمینان وسکون کے ساتھ اداکرسکیں۔
تیسری تجویز یہ ہے کہ انتظامیہ کے ذہنوں میں اساتذہ کامقام ومرتبہ کاادراک بہرحال موجود رہنا چاہئے وہ اساتذہ کو ایک عام ملازم وچپراسی کی حیثیت سے نہ دیکھیں بلکہ دل سے ان کی توقیر وتکریم کریں، کیونکہ دین اسلام میں علماء کی جتنی عزت عطاکی گئی ہے شاید ہی کسی اوردین میں ہومگر حیف صدحیف کہ اس دین کے ماننے والے اورجامعات ومدارس کے فارغ ہونے والے مستند علماء اپنے اساتذہ کو ذلیل اوربے وقعت کرنے میں کسی قسم کی کوئی کسرنہیں چھوڑتے اورہمیشہ ان کا یہ مطمح نظررہتا ہے کہ کہاں موقع ملے ہم انھیں رسواکریں۔
یقین مانیں کہ جس قوم کے افراد میں اساتذہ کے بارے میں خیرخواہانہ جذبات پائے جاتے ہیں وہاں سے خیروبکرت کے سوتے ابلتے ہیں اورجہاں ان کی توہین وتذلیل کی جاتی ہے وہاں سے بتدریج خیر وبرکت اٹھالی جاتی ہے اوربالآخر وہ انحطاط کے شکارہوجاتے ہیں پھرجب ماحول بگڑجاتا ہے توبن نہیں پاتا۔
(۴)چوتھی تجویز یہ ہے کہ ارباب مدارس اوراساتذہ کے درمیان ایک ایسا ضابطہ عمل واخلاق طے ہوناچاہئے جس میں فریقین کے حقوق وواجبات کاتعین ہو اورامانت وخلوص کے ساتھ معاہدے کی پاسداری ہو،اس سے اساتذہ کو قدرے ذہنی تحفظ حاصل ہوگا اساتذہ میں بے چینی واضطراب کا ایک سبب یہ بھی ہوتا ہے کہ انھیں مدرسے میں اپنی بقاء وتحفظ کی ضمانت میسرنہیں ہوتی کوئی آئے کچھ بھی کہہ کرچلاجائے کوئی توجہ دینے والانہیں۔
(۵) بحث وتحقیق اورتالیف وتصنیف کا شغف رکھنے والے اساتذہ کی ہرممکن مالی طورپرحوصلہ افزائی کی جائے اوران کی تحقیقی مقالوں کی نشرواشاعت کا بندوبست ہوبلکہ ہونایہ چاہئے کہ اصحاب قلم وقرطاس اساتذہ کو مختلف علمی وتحقیقی مشاریع بطور ہدف دیئے جائیں اوراس کام کے لئے مناسب اعزازیہ مقرر ہو، یادرہے کہ عالیشان عمارتوں کی تعمیروترقی سے کہیں زیادہ علمی ،فکری، معنوی،روحانی اخلاقی اورنفسیاتی اقدارکی آبیاری کی فکر دامن گیرہونی چاہئے۔
(۶) کسی ناگہانی مصیبت وصدمہ یاکسی خوشی وغمی کے موقع پر استاذ کی مالی واخلاقی اعانت کی جائے اس طرح سے اس پرایک طرح کا اس کا احسان عظیم ہوگا اورآپ کا وہ شکرگذار اوراحسان مند رہے گا اورجواس کے ذمہ فرائض وواجبات ہوں گے اس کودلجمعی کے ساتھ انجام دے گا، اورسال کے آخرمیں استاد کی کارکردگی کا جائزہ لے کر مناسب طورسے دلجوئی ہونی چاہئے۔
یہ چند تلخ حقائق اورگزارشات ہیں امید کہ ارباب مدارس اورقوم وملت کے ہمدرد سنجیدگی کے ساتھ اس پرغوروفکر کریں گے اوراصحاب فکرونظر اورارباب علم وبصیرت اپنی اوراپنے اہل وعیال کی روزمرہ کی ضروریات زندگی کوسامنے رکھ کر علماء کرام کی بے چینی، اضطرابی اورذہنی انتشار کاازالہ کرنے کی سعی پیہم کریں گے، تاکہ یہ قوم وملت کے رہنما اپنے بال بچوں کی صحیح تعلیم وتربیت اورشادی بیاہ اورجائز مطالبات کو پوراکرسکیں گداگری اوربھیک مانگنے کی اورمعاشرتی وسماجی مشکلات کے بھنورسے نکل سکیں پھریہ حضرات نہ صرف دوسرے لوگوں کو اللہ کے راستے میں خرچ کرنے کی ترغیب دلائیں بلکہ خودبھی اس میں دل کھول کر حصہ لے سکیں اورتعلیمی تدریسی تبلیغی دعوتی اصلاحی رفاہی معاشرتی غرضیکہ ہرطرح کے فرائض وخدمات بے لوث ہوکرنہایت ہی خوش اسلوبی کے ساتھ انجام دے سکیں۔
اگراس جانب ہم مل بیٹھ کراس مسئلے اورقضیے کاحل نہ ڈھونڈ سکے تواس کا انجام کیاہوگا وقت بتائے گا،اللہ رب العالمین سے دعاہے کہ ارباب مدارس ،اساتذہ وطلباء کو نیک سمجھ عطافرمائے اورمدارس اسلامیہ کی حفاظت وصیانت فرمائے اوردن دونی رات چوگنی ترقی عطا فرمائے۔( آمین)
***