Sunday, February 20, 2011

یہاں ہرگام پر دھوکہ بعنوان حقیقت ہے-Dec-2010

مولاناخورشیداحمدسلفی


یہاں ہرگام پر دھوکہ بعنوان حقیقت ہے

آج سے چاردہائی قبل مشرقی یوپی کے ایک اسلامی شاعرجناب فاروق بانس پاروی نے عصرحاضرکی سیاست پر تبصرہ کرتے ہوئے کہاتھا
رفیق کارآگے بڑھ یہ دنیائے سیاست ہے یہاں ہرگام پر دھوکہ بعنوان حقیقت ہے
آج سے تین دہائی قبل کی سیاست بساغنیمت تھی ،اس وقت سیاست سے وابستہ افراد اصول پسنداورخیالات ونظریات کے پرستارتھے، وہ اپنے نظریات کے فروغ اوران کی بالادستی کے لئے جدوجہد کرتے تھے اور اپنا تن من دھن سب کچھ اسی راستے میں صرف کردیتے تھے۔
ہندوستان میں مجاہدین آزادی کی تابناک تاریخ ہے ،مولانا ابوالکلام آزاد مولانامحمدعلی جوہر،مولاناحسرت موہانی ،مولانا محمدابراہیم میرسیالکوٹی،مولانا ثناء اللہ امرتسری،مولانامحمود الحسن دیوبندی، گاندھی جی، جواہرلعل نہرووغیرہ کے کارنامے اظہرمن الشمس ہیں آزادی کے بعدخالص اصول کی سیاست کرنے والو ں میں ڈاکٹر رام منوہرلوہیا، جے پرکاش نرائن، مرارجی ڈیسائی، راج نرائن اورایسے لیڈران گذرے ہیں جنھوں نے سرمایہ داری اورکمیونزم کے بالمقابل سماجواد کواپنا یا اوراس کی ترقی واستحکام کی لڑائی لڑتے رہے، ان لیڈران قوم نے عہدہ ومنصب اورمالی مفاد کی کبھی کوئی پرواہ نہیں کی اوراثرورسوخ کااستعمال کرکے کبھی بھی کوئی منفعت حاصل نہیں کی چہ جائیکہ دھوکہ دہی اورگھپلہ وگھوٹالہ میں ملوث ہوئے ہوں، ان کی شبیہ اچھی اورصاف ستھری تھی ان کے کردار اوراخلاق پرکوئی داغ ودھبہ نہیں تھا، فاروق بانس پاروی نے اس صاف ستھری سیاست پر مذکورہ بالاشعر کے ذریعہ ضرب لگائی تھی اب آج اکیسویں صدی میں وہ ہوتے توکیا کہتے اللہ ہی بہتر جانے۔
اس وقت پڑوسی ملک ہندوستان میں بدعنوانیوں اور گھپلوں کابڑا زوروشور ہے اوراتنے زیادہ گھپلے ہورہے ہیں کہ ان کوشمار نہیں کیاجاسکتا اورنہ ان تک رسائی اورصحیح معلومات ہی فراہم ہوسکتی ہے ،اس لئے کہ اہل سیاست، انتظامیہ مقنّنہ، عدلیہ کے اکثرافراد اس میں ملوث نظرآتے ہیں چنانچہ سپریم کورٹ کے ایک ریٹائرڈ جج کے ذریعہ خودسپریم کورٹ اورہائی کورٹ کے جج صاحبان کے تعلق سے جوتیکھے ریمارکس آئے ہیں وہ بیحد چونکادینے والے ہیں، بدعنوانیوں کا زلف لیلی کی طرح ایک سلسلہ دراز ہے جوختم ہونے کا نام نہیں لے رہاہے، اس وقت پورے ملک ہی نہیں پوری دنیامیں2جی اسپیکڑمگھوٹالہ کی گونج سنائی دے رہی ہے اوروہاں ایوان سیاست میں ایک بھونچال آگیا ہے یہ 2جی اسپیکڑم گھوٹالہ کیاہے؟ مرکزی وزیر مواصلات اے راجہ کے ذریعہ ٹیلی کام کمپنیوں کوٹھیکہ دہی کے معاملہ میں حکومت کو دھوکہ دہی اور سرکاری خزانہ کو نقصان پہونچانے کا معاملہ ہے، یہ گھوٹالہ ایک لاکھ پچہتر ہزار کروڑروپئے کا ہے، یہ اتنی بڑی رقم کامعاملہ ہے کہ اگرراست طورسے اس کو شمارکیاجائے توکم ازکم اردوہندی اورعربی میں تواس کے لئے گنتی ہی موجود نہیں ہے اورنہ کلکولیٹرمیں اس کو سمونے کی وسعت ہے ایسی بدعنوانیاں نامعلوم کتنی ہوئی ہوں گی جومنظرعام پر نہیں آئیں چوریاں تو کبھی کبھار پکڑی جاتی ہیں بدعنوانیاں سے توپردہ اکا دکا ہی اٹھ پاتا ہے بے ایمانیاں توبمشکل ہی طشت ازبام ہوپاتی ہیں، کیونکہ یہ سب کچھ کرنے والے بڑے شاطر اورعیار ہوتے ہیں چوطرفہ ناکہ بندی کردیتے ہیں ،اپنے کارناموں پر تہ درتہ پردہ ڈال دیتے ہیں کہ عام آدمی توعام رہا خواص تک بلکہ خصوصی ایجنسیوں کی رسائی وہاں تک قریب قریب ناممکن ہوتی ہے ۔
بہرحال 2 جی اسپیکڑم بدعنوانی کا معاملہ مشہور سماج وادی نیتا ڈاکٹر سبرامنیم سوامی کے ذریعہ کسی طرح منظرعام پر آیا، کافی دباؤ اورلے دے کے بعد اے راجہ تووزارت سے رخصت ہوگئے لیکن منموہن سرکار کوبڑی مشکلوں میں ڈال گئے اس گھوٹالہ کے ذریعہ اپوزیشن کو الگ ایشو مل گیا ،چنانچہ اپوزیشن کی سب سے بڑی جماعت بھارتیہ جنتاپارٹی تال ٹھونک کرمیدان میں اترپڑی دیگرپارٹیوں نے بھی اس کاساتھ دیا اورحدتویہ ہے کہ کمیونسٹ بھی اس کی راگ میں راگ ملانے لگے چنانچہ انھوں نے آسمان سرپر اٹھالیا اورحالیہ سرمائی اجلاس کو انھوں نے نہیں چلنے دیا، پورے اجلاس میں کوئی کام کاج نہیں ہوا، جوازیہ بتلایاگیاکہ بدعنوانیوں کے مختلف معاملات خاص طورسے 2جی اسپیکڑم کے ذریعہ جوقومی خزانہ کوغیرمعمولی نقصان پہونچایا گیا اس کی تفتیش کسی عام طریقہ سے کرائی نہیں جاسکتی ہے لہذا اس معاملہ کی جانچ ہندوستانی پارلیمنٹ کی مشترکہ کمیٹی (جے.پی.سی.) سے کرائی جائے ،حکومت کا موقف ہے کہ گھوٹالہ کی تفتیش پارلیمنٹ کی ایک مستقل کمیٹی پبلک اکاؤنٹس (پی.اے.سی) کررہی ہے اوراس کے علاوہ سی.بی.آئی. انفورسمنٹ ڈائریکٹوریٹ(ای.ڈی.) انکم ٹکس محکمہ اوردیگر ایجنسیاں کررہی ہیں مگر بی.جے.پی. کا اصرارہے کہ وہ سرمائی اجلاس میں اپوزیشن کے متحدہ احتجاج کامیاب تجربہ کے بعد پارلیمنٹ کے بجٹ اجلاس میں احتجاج جاری رکھے گی، یہ جوکچھ ہوا اورہورہا ہے یہ درست نہیں ہے پارلیمنٹ کے ۲۳ دنوں میں محض پونے تین گھنٹے ہی کام ہوسکا، باقی اوقات پارلیمنٹ تعطل کا شکار رہی، ایک تخمینہ کے مطابق اس تعطل اوربحران کی وجہ سے تقریباً ڈیڑھ سوکروڑروپئے کانقصان ہواہے، وہ معززممبران جوقوم کے غم میں ڈنرکھانے سے نہیں تھکتے اس نقصان پر نہ توشرمندہ ہیں اورنہ ہی انھیں اس کا کوئی افسوس ہے کیونکہ بہرحال یہ نہ توان کی گاڑھی کمائی کی بربادی ہے اور نہ ہی انھیں اس الاؤنس سے محروم رہناپڑاہے جو پارلیمانی اجلاس کے دوران ان کوملتا ہے۔
اس پورے ہنگامہ آرائی اورتعطل وبحران کی ذمہ دار بھارتیہ جنتاپارٹی ہے، جوبدعنوانی کاپتہ لگانے اوربدعنوانی کے مرتکب وزیرکو سزادلانے کی لڑائی میں سب سے آگے نظر آرہی ہے جبکہ خودبھارتیہ جنتاپارٹی کے اتحاد (این.ڈی.اے.) والی سرکاری پربدعنوانی کا داغ تابوت گھوٹالہ کی شکل میں لگ چکاہے، اورخود اس کے کئی ممبران پارلیمنٹ سوال کرنے کے عوض رشوت لیتے ہوئے گرفتارہوئے اوران کی ممبری ختم ہوئی ہے یہی نہیں بلکہ اس کے صدربنگارولکشمن بھی رشوت لیتے ہوئے ٹی.وی.اسکرین پر دکھائے گئے ہیں ،اب نہ معلوم کس منہ سے وہ بدعنوانی کے خلاف لڑائی لڑرہی ہے اور اس دوران جبکہ اس کی یہ لڑائی شباب پرتھی مدھیہ پردیس میں بی.جے.پی. سرکار کے وزیراعلیٰ یدیوریا پربدعنوانی کاالزام لگ چکاہے ؂
کعبہ کس منہ سے جاؤ گے غالبؔ شرم تم کومگرنہیں آتی

برائی برائی ہے چاہئے کوئی بھی انجام دے، برائی کی مذمت ہی نہیں اس کو جڑسے اکھاڑپھینکنے کی کوشش قابل تائید ولائق تحسین ہے اوراس کے خلاف لڑنے والوں کی ہرطرح مددہونی چاہئے ،لیکن سوال اٹھتا ہے کہ اپنے دوراقتدارمیں بی.جے.پی. نے کیونکر بدعنوان سیاست دانوں کو برداشت کیا، اگروہ اصول پرست ہی تھی تواس نے اپنے اصولوں کو کرسی کی خاطر کیوں قربان کیا، اوراگروہ محب وطن اوردیس بھگت تھی تواس وقت اس کی دیس بھگتی کوکیوں گھن لگ کیاتھا، اورجو دم خم آج دکھا رہی ہے، وہ طاقت کہاں چلی گئی تھی، اس پورے ڈرامے کا اگر گہرائی سے تجزیہ کیاجائے تودوباتیں سامنے آتی ہیں پہلی تویہ کہ سنگھ پریوار سے جڑی تنظیمیں پورے ملک میں بدامنی پھیلاکر اورجگہ بجگہ بم دھماکہ کراکے بے گناہوں اورمعصوموں کا خون بہاکر مسلمانوں کوبدنام کرنے کی ایک سازش رچ رکھی تھی اوراپنے اسی منصوبہ کے مطابق انھوں نے اجمیر، حیدرآباد کی مکہ مسجد، مالیگاؤں وغیرہ بم دھماکہ کرائے الزام مسلمانوں پرگیا، بہت سے بے گناہ مسلمان گرفتار ہوئے ان کوجیل کی سلاخوں کے پیچھے ڈالاگیا، ذہنی وجسمانی ایذائیں دی گئیں، ان کی کردارکشی کی گئی اورمالی اعتبار سے ان کے کنبوں کی حالت قابل رحم ہوگئی، مقدمہ کی پیروی اوران کوباعزت بری کرانے میں ان کی پراپرٹیاں تک فروخت ہوگئیں ،داڑھی وٹوپی دہشت گردی کی پہچان کے طورپر دیکھی جانے لگی، اس طرح بڑی حد تک شدت پسند مسلم مخالف تنظیمیں اپنے ناپاک مقاصد میں کامیاب ہوتی نظرآنے لگیں، لیکن اللہ کے یہاں دیرہے اندھیرنہیں،بالآخر حقیقت سے پردااٹھا اوروہی تنظیمیں وہی افراد جوالزام مسلمانوں پرلگارہے تھے خودان کااپنا قصور نکل آیا، اورثابت ہواکہ اجمیر، مالیگاؤں، مکہ مسجد حیدرآباد وغیرہ کے بم دھماکے انھوں نے کرائے اب یہ تنظیمیں دفاعی پوزیشن میں آچکی ہیں اوربدامنی ودہشت گردی کا سراہی نہیں سیدھامعاملہ ان سے جڑچکا ہے، وزیرداخلہ مسٹرپی چدمبرم نے ہندودہشت گردی کی بات کہہ کر ایک بڑی حقیقت کا اعتراف کیاہے، اسی طرح اگروکی لیکس کے انکشافات کی صحت کو تسلیم کیاجائے توکانگریس کے جنرل سکریٹری مسٹرراہل گاندھی کابیان کہ ملک کو سب سے بڑا خطرہ ہندودہشت گردی سے ہے ایک بڑی صداقت کا جرأت مندانہ اظہار ہے۔
اس محاذ آرائی کے پیچھے دوسرا مقصد یہ نظرآتا ہے کہ بی.جے.پی. جواپنا اثرورسوخ کھوچکی ہے اوراس کی مقبولیت کا گراف بہت نیچے آچکا ہے خود اس کے اندرکافی انتشار برپا ہے اورلیڈرشپ سے اس کے ارکان کا اعتماد کمزور ہوتاجارہا ہے ،اس کو کوئی ایشوچاہئے جس کے ذریعہ وہ اپنی تنظیم کو مضبوط کرنے کے ساتھ ساتھ عوام میں اپنی ساکھ بناسکے اورآنے والے الیکشن میں کانگریس کو راست ٹکردے سکے، گویا اس ہنگامہ آرائی کے ذریعہ وہ ایک تیرسے دو شکارکرنا چاہتی ہے اولا تو بدعنوانی کے خاتمہ کے خلاف جنگ چھیڑکر وہ اپنی ذیلی تنظیموں پرلگے دہشت گردی کے الزام سے عوام کی توجہ دوسری طرف موڑنا چاہتی ہے تاکہ اس کی جوکرکری ہورہی ہے اس سے اس کو سکون ملے ،دوسرے یہ کہ کانگریس کوبد نام کرکے اقتدار پرقبضہ جمانا چاہتی ہے۔
اس پورے منظرنامہ سے براہ راست مجھے کچھ لینا دینانہیں ہے اورنہ اس خامہ فرسائی سے کسی کی تائید اورصفائی پیش کرنا اورکسی دوسرے پر فرد جرم عائد کرنا ہے کیونکہ ؂
ان کا جوکام ہے وہ اہل سیاست جانیں میراپیغام محبت ہے جہاں تک پہونچے

میں توصرف یہ کہناچاہتا ہوں کہ یہ بے ایمانی، بداخلاقی، بدکرداری، رشوت خوری،خیانت، دغابازی، اور گنہگاری کی ذہنیت کہاں سے اورکیونکر پیداہورہی ہے، اس کا سیدھا جواب ہے کہ اس پرشکنجہ کسنے کے لئے کوئی مضبوط ضابطہ اخلاق نہیں ہے اورجوکچھ ہے یا توکمزور ہے یاپھر اس پرعمل نہیں ہوپارہا ہے ضرورت ہے کہ مضبوط ضابطہ اخلاق وضع کیاجائے اورسیاست کاروں کواس کی کسوٹی پر پرکھا جائے،مضبوط شعبہ احتساب ہو، جوبااختیار ہو اورجرم ثابت ہونے پرہمیشہ کے لئے ان کو سیاست سے رخصت کردیاجائے ساتھ ہی مالی تاوان عائد ہووغیرہ وغیرہ۔
موجودہ دورکے سیاست دانوں کوخلفاء راشدین رضوان اللہ علیہم اجمعین کی سیرتوں کامطالعہ کرایاجائے ،بھلے ہی وہ مسلمان نہ ہو، جب وہ مغربی مفکروں اورسیاست دانوں کی سیرتوں کا مطالعہ کرسکتے ہیں تواسلام کے پیروؤں کا مطالعہ کرنے میں کون سی قباحت ہے اوریہ بھی ایک حقیقت ہے کہ جب تک دنیا ہمارے ان بزرگوں کی سیرتوں سے روشنی حاصل نہیں کرے گی وہ اندھیرے میں بھٹکتی رہے گی، ہمارے خطیب الاسلام علامہ عبدالرؤف رحمانی رحمہ اللہ نے خلفاء راشدین کے عہدمیں جوخوشحالی اورفارغ البالی ،حسن انتظام اوررعایا پروری تھی اس پرمشتمل ایک نہایت عمدہ تالیف بنام’’ ایام خلافت راشدہ‘‘مرتب فرمایا تھا جس میں بڑے ایمان افروزواقعات اورتبصرے ہیں اس سے خلیفہ اول سیدناابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کا ایک واقعہ مشتے نمونے ازخروارے کے طورپر درج کررہا ہوں:
ایک مرتبہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی زوجہ محترمہ نے کسی میٹھی چیز کے کھانے کی خواہش ظاہر کی توصدیق اکبرنے فرمایا: میرے پاس کسی میٹھی چیز کے پکانے کی رقم نہیں ہے، مجبوری ہے اس جواب کے بعد زوجہ محترمہ روزمرہ خرچ میں سے تھوڑا تھوڑا روزانہ بچایا اور اس سے گھی اورشکر کے لئے تھوڑی سی رقم بنائی جب صدیق اکبر کے سامنے وہ رقم پیش ہوئی توفرمایا یہ پیسہ کہاں سے آیا، انھوں نے اپنی روزمرہ کفایت شعاری ایک چٹکی روزانہ بچت کا ذکر فرمایا، آپ نے وہ رقم ان سے لے لی اوربیت المال کے خرانچی کے پاس لے جاکر کہا’’ھذا الفضل عن قوتنا‘‘ اتنی رقم ہمارے خرچ سے زائد ہے اسے بیت المال میں داخل کرو اورآئندہ ایک چٹکی کی مقدار ہمارے وظیفہ سے کم کردو۔ (ایام خلافت راشدہ ، بحوالہ: اشہر مشاہیرالاسلام ج اول ص:۹۳)
آج کے اہل سیاست کو اگرمذہب واخلاق کا سبق پڑھایا جائے اورصحابہ کرام کی بے نظیر سیرتوں کامطالعہ کرایاجائے توشاید کرپشن اوربدعنوانی میں کچھ کمی آئے۔ ***

دارالعلوم ندوۃ العلماءDec-2010

شمیم احمدندوی

دارالعلوم ندوۃ العلماء
فکرونظرمیں تبدیلی کا سفر
(تیسری قسط)

یہ صلاحیت ہندوستان کے طول وعرض میں پھیلے ہوئے سینکڑوں ہزاروں دینی مدارس میں نہیں تھی جوصدیوں پرانے درس نظامی کے مرتب کردہ نصاب اورسینکڑوں سال سے جاری فرسودہ تعلیمی نظام کو سینہ سے لگائے بیٹھے تھے اوراس سے سرموانحراف کو پسند نہ کرتے تھے، گویا ملانظام الدین کا مرتب کردہ نصاب نہ ہو بلکہ کوئی وحی آسمانی ہوکہ جس سے ذرا سا اعراض وانحراف عذاب الٰہی کو دعوت دینے کے مترادف ہوتا،یہ صلاحیت دارالعلوم دیوبند میں بھی نہیں تھی جو ندوۃ العلماء سے ۲۶ ؍سال پہلے قائم کیا جاچکا تھا، آج بھلے ہی یہ دعوی کیاجائے کہ اس کے بانیان اوراولین فارغین زہد وورع ، خشیت وللہیت، ایثار وقربانی ،دینی غیرت وحمیت، اخلاص وتقوی کا پیکر اوررسوخ فی الدین کا اعلیٰ نمونہ تھے، لیکن کسی قوم کی رہنمائی کے لئے صرف زہد وتقوی اورنیک نیتی کافی نہیں ہے، بلکہ غزارت علم ، وسعت نظر،انقلابی فکر اور آفاقی مطالعہ کی ضرورت ہوتی ہے اور دنیاکے بارے میں، معاصرتنظیموں کے بارے میں، دشمنان اسلام کے عزائم کے بارے میں اوراسلام کے خلاف ہونے والی سازشوں کے بارے میں نہ صرف وسیع معلومات درکارہوتی ہیں بلکہ آنے والی نسلوں کو ان علمی اسلحوں سے لیس کرنے کی ضرورت ہوتی ہے جن سے وہ اسلام دشمن طاقتوں کامقابلہ کرسکیں، دورجدید کے چیلنجوں سے نبردآزما ہوسکیں اورمسیحی وصہیونی فتنہ پردازیوں اورعالمی ٹھگوں کی فریب کا ریوں کا پردہ چاک کرسکیں ، جب کہ دارالعلوم دیوبند کے فکری تنگ نائے میں نہ اس کی گنجائش تھی نہ اس کے قدیم نصاب میں اس کا کوئی پائیدارحل اورامت مرحوم کے مرض کا علاج اوراس کے دردکا درماں ہی تھا، اوراس کا پرانا طریقہ درس اورنظام تعلیم وتربیت اس صلاحیت سے عاری تھا کہ ایسے بالغ نظر اورنکتہ سنج اورنکتہ شناس علماء پیداکرسکے جوروشن خیال ہوں،زمانہ کی نبض پرجن کا ہاتھ ہو، جن کی نگاہ قدیم وجدید کی مصنوعی سطحی تقسیم سے بالا ترہو اورسب سے بڑھ کر یہ کہ وہ تعصب وتنگ نظری اورمسلکی منافرت سے پاک ہوں، بلکہ اس کے برعکس اگر منتسبین دیوبند معاف فرمائیں توعرض کرنے کی جسارت کروں کہ ایک طرف اس کا نصاب درس اورنظام تعلیم وتربیت کچھ اس قسم کا تھا جو بڑی تعداد میں کنویں کے ایسے مینڈک تیار کرنے میں مصروف تھا جودنیا کے بارے میں عالمانہ بے خبری کاشکارہوں اورصرف دارالعلوم کی چہاردیواری کوکل کائنات سمجھنے پر مصرہوں اورجوان فنون قدیمہ اور علوم فرسودہ کی حفاظت کوہی مکمل ایمان سمجھتے ہوں جن کی افادیت گزرتے زمانہ کے ساتھ مشکوک ہوچکی تھی اورجوعصر جدید کی روشنی اور جدید ایجادات واکتشافات سے فائدہ اٹھانے کوبھی کفرواسلام کامعاملہ سمجھتے ہوں، چہ جائے کہ ان اختراعات وایجادات اوردنیا کی ترقیات میں کوئی کرداراداکرسکیں جب کہ شاعرمشرق نے اس کی اہمیت وافادیت بتاتے ہوئے تقلید پر بھی بھرپور چوٹ کردی ہے ؂
جوعالم ایجادمیں ہے صاحب ایجاد
ہردور میں کرتا ہے طواف اس کازمانہ
تقلید سے ناکارہ نہ کراپنی خودی کو
کراس کی حفاظت کہ یہ گوہرہے یگانہ
اوربات محض شاعرانہ تخیل پرمبنی نہیں ہے بلکہ قرآنی تعلیمات بھی ہمیں تسخیر کائنات پرابھارتی ہیں اورکائناتی حقیقتوں میں غوروفکر کرنے کی دعوت دیتی ہیں، اور’’ذکروفکر صبحگاہی‘‘ ،قرآن میں تدبراورتخلیق کائنات میں تفکر کو ایک ساتھ ذکر کرکے ’’درکفِ جام شریعت درکف سندان عشق‘‘کی طرح دونوں کی اہمیت کواجاگر کیاگیاہے، اوریہ ایک مومن کی شان ہی ہے دیوبندی فکرکی طرح خارج ازاسلام نہیں ہے، ارشادباری تعالیٰ ہے (الذین یذکرون اللہ قیاماً وقعوداً وعلی جنوبھم ویتفکرون فی خلق السمٰوات والأرض ربنا ماخلقت ھٰذا باطلاً سبحانک فقناعذاب النار‘‘۔(آل عمران:۱۹۱)
ترجمہ :اورجواللہ تعالیٰ کاذکرکھڑے اوربیٹھے اوراپنی کروٹوں پرلیٹے ہوئے کرتے ہیں اورآسمان وزمین کی پیدائش میں غوروفکر کرتے ہیں اورکہتے ہیں اے ہمارے پروردگار! تونے یہ بے فائدہ نہیں بنایا ،توپاک ہے ،پس ہمیں آگ کے عذاب سے بچالے۔
اورقرآن میں غورکرنے اورعبرت وموعظت حاصل کرنے کی دعوت اللہ تعالیٰ نے بایں الفاظ دی ہے(أفلا یتدبرون القرآن ام علی قلوب اقفالھا)(محمد:۲۴)
ترجمہ:کیا یہ قرآن میں غوروفکر نہیں کرتے، یا ان کے دلوں پر ان کے تالے لگ گئے ہیں۔
ایک اسلامی دانشورنے بجاطورپر یہ بات کہی ہے کہ ہم اگراپنے ذہنوں کو محدود کرلیں، نئے زمانہ کی ایجادات اورروشنی کا داخلہ وہاں بند کردیں اورصرف شرعی علوم پراکتفاء کرلیں توانسانیت کی عظیم ترخدمت کے قابل نہیں رہ جائیں گے، انھوں نے کیا خوب کہا کہ ہم اگرفقط پانی کی حقیقت پرصرف فقیہانہ حیثیت سے نظر ڈالیں توبے دھڑک یہ فتوی دے سکتے ہیں کہ کون ساپانی طاہر، مطہر،غیرمکروہ اورکون ساپانی نجس ہے، لیکن ہم اگردنیاوی علوم کے لئے اپناسینہ کشادہ رکھیں اورسائنسی علوم کو بھی حاصل کرلیں توگندے جوہڑاورمتعفن نالہ کے پانی کووضو اورپینے کے قابل بناسکتے ہیں، اب ہمیں یہ فیصلہ کرنا ہے کہ کون ساعلم زیادہ مفید ہے اورانسانیت کے لئے کارآمد، یعنی وہ علم جوصرف پانی کے طاہر ونجس ہونے کا فیصلہ کرسکے یا وہ علم جونجس پانی کو قابل استعمال بناسکے۔( مذہب کی حقیقت )
جب کہ درس نظامی کے اس پرانے طریقہ تعلیم میں علوم عقلیہ کا سرے سے کوئی گزر نہ تھا جسے دارالعلوم دیوبند اوراس کے ہم خیال مدارس حرزجان بنائے ہوئے تھے، حالاں کہ عقلی علوم کا حصول اورفلکیات وطبیعیات کا مطالعہ ہی ہمارے اوپران کا ئناتی حقائق کو آشکارا کرتا ہے جن کوجانے بغیرصحیح معنی میں خالق کائنات کی معرفت بھی نہیں حاصل ہوسکتی ،خودباری تعالیٰ کا ارشاد ہے(إن فی خلْق السمٰوات والأرض واختلاف اللیل والنھار والفلک التی تجری فی البحر بما ینفع الناس وما أنزل اللہ من السماء من ماء فأحیا بہ الأرض بعدموتھا وبث فیھا من کل دابۃ وتصریف الریاح والسحاب المسخربین السماء والأرض لآیات لقوم یعقلون)(سورۂ بقرہ:۱۶۴)
ترجمہ: آسمانوں اورزمینوں کی پیدائش، رات دن کا ہیرپھیر، کشتیوں کا لوگوں کونفع دینے والی چیزوں کو لئے ہوئے سمندروں میں چلنا، آسمان سے پانی اتار کرمردہ زمین کو زندہ کرنا، اس میں ہرقسم کے جانوروں کو پھیلادینا، ہواؤں کے رخ بدلنا، اوربادل جوآسمان وزمین کے درمیان مسخرہیں ان سب میں عقلمندوں کے لئے قدرت الٰہی کی نشانیاں ہیں۔
غورکریں توخود ہی یہ نتیجہ اخذ کرسکتے ہیں کہ قدرت الٰہی کی یہ نشانیاں انھیں عقلمندوں کے لئے ہیں جواپنی عقلوں کوکائنات میں غوروفکر کے لئے استعمال کرتے ہیں نہ کہ ان کو رچشموں کے لئے جواپنے ذہن ودماغ کاہرروزن سختی کے ساتھ صرف اس لئے بند کردیتے ہیں کہ کہیں ان میں عصری علوم کی روشنی نہ داخل ہوجائے، اللہ رب العزت نے توصاف ارشاد فرمایا ہے کہ (سنریہم آیاتنا فی الآفاق وفی أنفسھم حتی یتبین لھم، أنہ الحق)(حآ سجدۃ:۵۳)
ترجمہ:عنقریب ہم انھیں اپنی نشانیاں آفاق(عالم) میں بھی دکھائیں گے، اورخود ان کی اپنی ذات میں بھی یہاں تک کہ ان پر کھل جائے کہ حق یہی ہے۔
توبتائیں کہ کیا آفاق وانفس کی حقیقتوں میں غوروتدبر کئے بغیر ہمیں اللہ کی نشانیاں اور اس کی صحیح معرفت حاصل ہوسکتی ہے؟
عصری علوم کے دیگرفوائد ،انسانیت کی خدمت کے لئے مفید ایجادات اورسائنس وٹکنالوجی کا نفع بخش استعمال توجانے دیجئے ہمیں ان علوم عقلیہ کے بغیر رب ذوالجلال کابہترڈھنگ سے عرفان ہی نہیں حاصل ہوسکتا ہے، انفس وآفاق کی انھیں حقیقتوں میں غوروفکر کے بعدلینن جیسے اشتراکی،دہریہ اورملحد کو وجودباری تعالیٰ کا اعتراف کرنا پڑا تھا، اوربسترمرگ پر اس کوکہنا پڑاتھا ؂
اے انفس وآفاق میں پیداترے آیات حق یہ ہے کہ ہے زندہ وپائندہ تری ذات
میں کیسے سمجھتا کہ توہے یاکہ نہیں ہردم متغیرتھے خردکے نظریات
آج آنکھ نے دیکھا تووہ عالم ہوا ثابت میں جس کوسمجھتا تھا کلیساکے خرافات

قرآن کریم میں بے شمار ایسی آیات موجود ہیں جونہ صرف انفس وآفاق میں غوروتدبر کی دعوت دیتی ہیں بلکہ تسخیر کائنات کے لئے مہمیز کا کام کرتی ہیں، اورقرون وسطیٰ کے مسلمانوں نے اوراندلس وبغداد کے مسلم سائنسدانوں نے انھیں آیات قرآنیہ میں غورکرکے بنی نوع انسان کے لئے بے شمار، کارآمد اورنفع بخش چیزیں ایجاد کیں اور اندلس کی اسلامی یونیورسٹیوں نے یورپ کی نشأۃ ثانیہ کا راستہ ہموارکیا۔
اس وقت ہمارا موضوع نہ توسائنس وٹکنالوجی ہے ،نہ مسلم سائنس دانوں کی سائنسی خدمات اورنہ مسلم سائنسدانوں کی بعض اہم ایجادات اورفلکیات وطبیعیات، ریاضی ، طب، علم کیمیا ، معدنیات، نباتات وحیوانات اورتاریخ نگاری و جغرافیہ دانی کے علاوہ زمینی اصلاحات سے متعلق ان کی معرکۃ الآراء تصانیف اوران کے اہم سائنسی کارنامے ،لیکن اگران عظیم الشان علوم وفنون کو۔جن میں سے بعض کے موجد ہونے کا فخربھی مسلمانوں کوحاصل ہے۔ اہل دیوبند ’’علوم اغیار‘‘ کہہ کرنظر انداز اوران کوشجر ممنوعہ قراردے کر اپنے یہاں ان کا داخلہ بند کردیں توکم ازکم انھیں علوم کی بہترڈھنگ سے تعلیم دیں اورمطلوبہ اہداف کوپورا کریں جن کے لئے اس کاقیام عمل میں آیا ہے یعنی اسلامی ورثہ کی حفاظت، اسلام کی ترویج واشاعت اوردین وشریعت کا صحیح فہم وادراک توپرانے اور ازکار رفتہ نصاب اورتنگ نظری پرمبنی سوچ کے ساتھ اس ہدف کوحاصل کرنابھی جوئے شیرلانے سے مشکل کام ہے، اس نصاب کے ساتھ ’’اسرار شریعت‘‘ اور ’’رموز دین‘‘کی تہ تک پہونچنا بھی ممکن نہ تھا جن کے اصل مطلوب ہونے کا دعوی کیاجاتا ہے، ورنہ دیوبند کے قابل فخر اورمایہ نازسپوت مولانا حسین احمدمدنی رحمہ اللہ یہ کبھی نہ کہتے کہ ’’ملت وطن سے ہے‘‘ یعنی بالفاظ دیگر وطن کے بغیرملت کا وجود بے معنی ہے، ملت کا اس قدر محدود تصور یا ملت کی اس قدر لا یعنی تشریح کوئی بھی ایسا شخص پیش نہیں کرسکتا جو ملت کے مفہوم سے آشنا اور ملی مفادات کو ہرفائدہ پرترجیح دیتاہو۔ اسی وجہ سے علامہ اقبال نے اس پر بروقت گرفت کی اوراپنے عام انداز سے ہٹ کر کوئی لگی لپٹی رکھے بغیر واضح الفاظ میں نام کی صراحت کے ساتھ کہہ دیا ؂
عجم ہنوز نہ داند رموزدیں ورنہ زدیوبند حسین احمد ایں چہ بوالعجبی است
سرودبرسر منبر کہ ملت ازوطن است چہ بے خبرزمقام محمدِ ﷺ عربی است
بہ مصطفی بہ رساں خویش راکہ دیں ہمہ اوست اگربہ اونہ رسیدی تمام بولہبی است
جونظام تعلیم اتنی استعدادبھی نہ پیداکرسکے کہ آدمی محمدعربیﷺ کے مقام ومرتبہ سے واقف ہوسکے اورجو آدمی کواس لائق بھی نہ بنا سکے کہ وہ فیصلہ کرسکے کہ ملت اوروطن میں کسے قابل ترجیح قراردیاجائے، اس سے کسی بہترنتیجہ کی امیدکیوں کر کی جاسکتی ہے،لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس تعلیمی ماحول کے پروردہ اشخاص سے اس سے زیادہ کی توقع کی بھی نہیں جاسکتی ،دعوی وہ خواہ کچھ بھی کرلیں۔
یہاں دوباتیں ممکن ہیں، ایک توجمعیت علماء پر ابتداء سے ہی کانگریس نوازی اوراس کی کاسہ لیسی کی پالیسی حاوی رہی ہے، توعین ممکن ہے کہ اسی کے زیراثرمولانا حسین احمدمدنی رحمہ اللہ نے کانگریس کوخوش کرنے کے لئے ملت کووطن کے تابع کرکے ’’مادروطن‘‘ کی عظمت کا اعتراف کرلیا ہوتا کہ خودان کی عظمت ووطن پرستی کا اعتراف کانگریسی حلقوں میں کیاجائے اوراس کے ذریعہ وہ حقیر دنیاوی فوائد اورمادی مصالح حاصل کرسکیں جوبہرحال کسی عالم دین کے شایان شان نہیں، اوردوسرا امکان یہ بھی ہے کہ وہ واقعی’’ رموزدیں‘‘اور’’ملت‘‘ کے حقیقی مفہوم سے آشنا نہ ہوں اوردونوں چیزیں ان کے مرتبہ ومقام سے میل نہیں کھاتیں۔
میری نظرمیں پہلی بات زیادہ قرین قیاس اس بناپر لگتی ہے کہ دیوبندی مکتب فکرکی ابتدا سے پالیسی حکومت وقت کو خوش کرنے اورکانگریس کے قیام کے بعداس کی تعریف میں رطب اللسان رہنے کی ہی رہی ہے ،اس سلسلہ میں اہل دیوبند نے عام مسلمانانِ ہند کے مفادات کوبھی بارہا نظرانداز کیاہے اوردیگر ملی تنظیموں اورجمعیات واداروں نے اس کی اس پالیسی سے اختلاف بھی کیاہے ،ندوۃ العلماء کے پچاسی سالہ جشن تعلیمی کے فوائد وبرکات سے شہ پاکر اس کی تقلید میں دارالعلوم دیوبند میں بھی صدسالہ جشن تعلیمی کا اہتمام کیاگیا، اس پروگرام کا افتتاح وہاں کے علمائے ذی وقار اوران کے مفتیان عالی مقام نے اس وقت کی وزیراعظم ہند اندراگاندھی سے کرایاتھا۔ اس بات کوہندوستان کے طول وعرض میں موجود بعض علماء دین نے ناگوارخاطر محسوس کیاتھا اورتیکھے تبصرے کئے تھے کہ یہ چیزاتنے بڑے دینی ادارہ کے شایان شان نہیں کہ اس کے ایک خالص دینی وعلمی پروگرام کے افتتاح کی سعادت ایک غیرمسلم عورت کوحاصل ہواوراسٹیج پرجس کے پہلومیں بیٹھنے پرعلماء دین مجبورہوں(یا اپنی خوش بختی وسعادت سمجھیں؟) مولانا سیدابوالحسن علی ندوی رحمہ اللہ جواس پروگرام میں مدعوتھے اورجنھیں افتتاحی پروگرام میں شرکت کرنی تھی اس بات پراپنی ناپسندیدگی کااظہارکیا اوردیوبند حاضری میں قصداً اتنی تاخیر فرمائی کہ اندراگاندھی پروگرام کاافتتاح کرکے واپس چلی جائیں، اپنی خود نوشت سوانح حیات’’کاروان زندگی‘‘ میں انھوں نے یہ بات مفصلاً ذکرکی ہے کہ دلی سے دیوبند جاتے ہوئے جب انھوں نے سرکاری ہیلی کاپٹرکو دیوبند کی جانب سے آتے ہوئے دیکھا اور ان کے رفقائے سفرنے بتایاکہ غالباً اسی ہیلی کاپٹرسے اندرا گاندھی واپس آرہی ہیں تواللہ کا شکراداکیا کہ دیوبند کے اس دینی پروگرام میں اندراگاندھی کاسامنا کرنے یا اسٹیج پر ساتھ بیٹھنے (کے گناہ) سے وہ محفوظ رہے،اس بات سے مولانا مرحوم کے انقباض یاناگواری خاطر کو توسمجھاجاسکتا ہے لیکن اندراگاندھی سے اس قدر احترازسمجھ سے بالاترہے، سوائے اس کے کہ اسے کسرنفسی یااظہار تقوی سے تعبیرکیاجائے، ورنہ ہمیں بھی یہ بات معلوم ہے اورخودمولانا سیدابوالحسن علی ندوی رحمہ اللہ نے اپنی خود نوشت میں ایک سے زائد باراپنی قیام گاہ واقع تکیہ کلاں رائے بریلی میں اندراگاندھی کی آمد، ان کے استقبال اورمختلف ملکی وسیاسی مسائل پرتبادلہ خیال کاذکرکیا ہے ،حتی کہ مولانا مرحوم کے زنان خانہ میں اندراگاندھی کے داخلہ اورخالص گھریلو انداز اورماحول میں ان کے استقبال اوروقت گزاری کاذکرکیا ہے، واضح ہوکہ رائے بریلی ہی اندراگاندھی کاحلقۂ انتخاب تھا اورمولاناسید ابوالحسن علی ندوی رحمہ اللہ جیسے مفکراسلام اورعالمی شہرت یافتہ عالم دین اسلام، اسلامی اسکالر وباقار واحترام، مسلمانان ہند کی نظروں میں مقبول خاص وعام اورہرمکتب فکرمیں یکساں قابل احترام شخصیت سے تعلقات استوار رکھنا اوران کی حمایت حاصل کرنا اندراگاندھی کی مجبوری بھی تھی اورضروت بھی، اور مولانامرحوم کاان سے ملنا، اپنے گھرپر ان کا استقبال کرنا اور گھرآئے مہمان کی طرح خاطر مدارات کرنا اورفرائض میزبانی انجام دیناکچھ بھی معیوب نہیں، اورنہ ہی میں نے اس کاذکر ازراہ عیب جوئی واستنکارکیاہے، لیکن دیوبند کے اجلاس میں ان کا سامناکرنے سے بچنے کی مصلحتیں سمجھنے سے ضرورقاصرہوں۔(جاری)

***

تقدیر کا مسئلہ؟Dec-2010

ڈاکٹرسیدسعیدعابدی

صدرشعبۂ اردو،جدہ ریڈیو،سعودی عرب
تقدیر کا مسئلہ؟

مسئلہ: روشنی کے ایک محترم قاری میرے نام اپنے گرامی نامہ میں تحریر فرماتے ہیں:
’’قضا وقدر پرایمان ارکان ایمان میں سے ایک لازمی رکن ہے، ہمیں قضاوقدر پرایمان ہے، تاہم کچھ سوالات ذہن میں خلش پیداکررہے ہیں، جن کا اطمینان بخش جواب پانے کے لئے آپ سے رجوع کررہا ہوں۔
یہ بات صحیح احادیث میں وارد ہے کہ انسان کے پیدا ہونے سے پہلے اس کی تقدیر لکھ دی جاتی ہے، جس میں دیگر امورکے علاوہ یہ بات بھی شامل ہے کہ وہ جنتی ہوگا یا جہنمی، دیگراحادیث سے بھی معلوم ہوتاہے کہ اللہ تعالیٰ نے زمین وآسمان کوپیداکرنے سے پہلے مخلوقات کی تقدیریں لکھ دی تھیں۔
اس حوالے سے سوال یہ ہے کہ جب میری تقدیرمیں لکھ دیاگیا کہ میں جنتی ہوں یادوزخی مجھ سے حساب کیوں لیاجارہا ہے، جب اللہ نے مجھے پیدا کرنے سے پہلے میری تقدیر میں لکھ دیاہے کہ خداناخواستہ وہ مجھے جہنم میں ڈالے گا توپھراس میں میراکیا قصورہے؟
دوسری طرف یہ بتایاجاتا ہے کہ انسان کو عمل کی آزادی دی گئی ہے (لا إکراہ فی الدین) اوراس طرح کی دیگر نصوص ہمیں بتاتی ہیں کہ انسان کوآزادئ انتخاب حاصل ہے، چاہے خیرکے کام کرے اوراللہ کی جنت پائے، چاہے برے کام کرے اوراس کی سزاپائے، اگریہ صحیح ہے توپھراللہ کا’’علم ازلی‘‘ کہاں ہے، جب اس نے مجھے انتخاب کی آزادی دی ہے تواس کا مطلب یہ ہے کہ ہم نے اللہ سے وہ علم چھین لیاجس سے وہ متصف ہے۔
دونوں باتوں میں ہمیں تضاد معلوم ہورہا ہے، یہ سوال توخاصا پرانا ہے کہ انسان ’’مخیر ہے یامُسیر‘‘ مگر جدید دورمیں اسے دوبارہ اٹھایا جارہا ہے، ہمیں امید ہے کہ اس کے متعلق تسلی بخش، عام فہم اورآسان جواب دیں گے۔
جواب: انسان کے پیداہوتے ہی اس کے باطنی اعضاء جیسے دماغ، دل، پھیپھڑے، جگراورگردے اپنے وظائف اداکرنا شروع کردیتے ہیں، اورزندگی کی آخری سانس تک ان کا یہ عمل جاری رہتا ہے، ان کو یہ اعمال انجام دینے یا ان کو ان سے بازرکھنے پرخود ان کے مالک انسان کوکوئی قدرت حاصل نہیں ہوتی اوریہ انسان کے خالق اور رب اللہ تعالیٰ کی مشیت سے ہوتاہے۔
لیکن اس کے برعکس انسان کے خارجی اعضاء جیسے ہاتھ، پاؤں، آنکھیں، اور کان اپنے وظائف اداکرنے کے لئے اپنے مالک انسان کے اراۂ واختیار کے پابند ہوتے ہیں اوریہ بھی اللہ تعالیٰ کی مشیت سے ہوتاہے۔
انسان کے باطنی اورخارجی اعضاء کی حرکت وعمل کی جومثال اوپردی گئی ہے اس کوایک معمولی عقل ودماغ رکھنے والا آدمی بھی سمجھتا ہے۔
میں نے اوپرجومثال دی ہے، وہ اللہ تعالیٰ کی مشیت، جس کے تحت ہرچیز کووجود ملتا ہے اورحضرت انسان کے ارادۂ وعمل میں فرق کو واضح کرنے کی غرض سے دی ہے۔
اب ایک قدم اورآگے بڑھایئے اوراللہ تعالیٰ کی مشیت کوذہن میں تازہ رکھئے، اللہ تعالیٰ نے کچھ کاموں کے کرنے کاحکم دیا ہے، اورکچھ کاموں سے منع فرمایا ہے، اچھے کام کرنے پرجزا اوربرے کاموں کے ارتکاب پرسزا کی وعیدسنائی ہے، اس سلسلے میں نہایت موٹی سی اورروزمرہ کی مثال ملاحظہ فرمایئے:
۱۔اللہ تعالیٰ کی یاد، اس کی کتاب کی تلاوت اوردین ودنیا کے لئے مفید اور نفع بخش کتابوں کا مطالعہ۔
۲۔اپنے بھائیوں کی غیبت، مخرب اخلاق اوربدعقیدگی کی ترغیب دینے والی کتابوں کا مطالعہ اورہنسی مذاق۔
ایک دوسرے سے مختلف اورمتضاد مذکورہ اعمال بھی انسان اللہ تعالیٰ کی مشیت سے انجام دیتاہے ،لیکن کیا ان کوانجام دیتے ہوئے وہ اسی طرح مجبورہوتا ہے جس طرح انسان کے باطنی اعضاء اپنے وظائف انجام دیتے ہوئے مجبور ہوتے ہیں یااس کو اسی طرح کا ارادہ واختیار حاصل ہوتا ہے جس طرح کا ارادۂ واختیار اسے اپنے جسم کے خارجی اعضاء کوحرکت دیتے یا ان کواستعمال کرتے وقت حاصل ہوتاہے؟ اس سوال کا جواب ہرشخص کومعلوم ہوگا۔
اسلامی معاشرہ میں یونانی فلسفہ کے داخل ہونے کے نتیجہ میں جب عقل کو غیرمعمولی اوراس کی بساط سے بڑھ کر اہمیت دیجانے لگی توایسے عقلیت پسند پیداہوگئے جنھوں نے اسلام کے غیبی امورخصوصیت کے ساتھ اسلامی عقائد کو عقل کی میزان میں رکھ کر تولنا شروع کردیا، اوراللہ تعالیٰ کی ذات وصفات سے لے کرقضا وقدر کے مسائل پر عقلی بحثیں شروع ہوگئیں اورقرآنی آیات اورصحیح احادیث کی من مانی تأویلیں کی جانے لگیں ۔
تقدیر کے مسئلے سے تعرض کرنے والے یوں توبہت سے فرقے پیداہوگئے ،لیکن ان میں دو فرقوں کوخصوصی شہرت حاصل ہوگئی ایک ’’قدریہ‘‘ کے نام سے معروف ہوا اوردوسرے کو’’جبریہ‘‘ کے نام سے شہرت ملی۔
’’قدریہ‘‘ نے یہ نعرہ لگایا کہ تقدیرالٰہی کاکوئی وجود نہیں ،بندہ اپنے ارادہ وقدرت میں آزاد ہے اوراس کے اعمال میں اللہ تعالیٰ کی مشیت اورتخلیق کاکوئی عمل دخل نہیں۔
’’جبریہ‘‘ کا دعوی ہے کہ بندہ اپنے افعال میں مجبورمحض ہے اوروہ جوحرکت کرتا ہے وہ ایک رعشہ زدہ مریض کی حرکت کے مانند ہے۔
ایک عجیب بات یہ ہے کہ قدیم زمانے سے آج تک تقدیرکا مسئلہ اٹھانے والوں نے ہمیشہ اس کو دینی امورسے خاص رکھا ہے اوروہ بھی صرف’’منفی‘‘ پہلوسے اورجیساکہ سوال میں آتا ہے کہ جب اللہ نے مجھے پیدا کرنے سے پہلے میری تقدیرمیں یہ لکھ دیاہے کہ وہ مجھے جہنم میں ڈالے گا توپھراس میں میراکیا قصورہے؟ کوئی یہ نہیں پوچھتا کہ جب میرے مقدرمیں جنت لکھ دی گئی ہے تومیں اس کا مستحق کیوں قراردیا گیا؟ یہ دراصل ’’میٹھا میٹھا ہپ اورکڑوا کڑوا تھو‘‘ والی بات ہوئی اصولی بحث نہ ہوئی حالانکہ اس مسئلے میں سب سے زیادہ مشہور حدیث میں چاربنیادی چیزوں کا ذکرآیا ہے، رزق، موت، بدبختی اورخوش بختی۔(بخاری:۳۲۰۸،۶۵۹۴،مسلم ۲۶۴۳)
قرآن پاک ہمیں بتاتا ہے کہ یہ توغلط کاروں اورشرک کاارتکاب کرنے والوں کا شیوہ رہا ہے کہ وہ غیراللہ کی عبادت پراللہ تعالیٰ کی مشیت سے استدلال کرتے تھے، ارشاد الٰہی ہے:
مشرکین کہتے ہیں’’ اگراللہ چاہتا تو نہ ہم اورنہ ہمارے باپ دادا اس کے سواکسی اورکی عبادت کرتے اورنہ اسی کے حکم کے بغیر کسی چیزکوحرام ٹھہراتے، ایسے ہی بہانے ان سے پہلے کے لوگ بھی بناتے رہے ہیں، توکیا رسولوں پر صاف صاف بات پہنچا دینے کے سواکوئی اوربھی ذمہ داری تھی۔(النحل:۳۵)
سورۃ الزمر میں اللہ تعالیٰ نے واضح فرمایا ہے کہ لوگوں کے شرک وکفر سے اس کاکوئی نقصان نہیں ہے اس کی ذات توغنی اوربے نیاز ہے ارشادربانی کاترجمہ ہے:
’’اگر تم کفرکروگے تواللہ تم سے بے نیاز ہے، وہ اپنے بندوں کے لئے کفر کوپسند نہیں کرتا اور اگرتم شکر کروگے تووہ اس کو تمہارے لئے پسند کرتاہے...‘‘۔
اس آیت مبارکہ میں کفرکے بالمقابل ’’ایمان‘‘ کے بجائے شکر کی تعبیر اختیار کی گئی ہے جس سے یہ بتانا مقصود ہے کہ کفردرحقیقت ناشکری، احسان فراموشی اورکفر انِ نعمت ہے، نیز یہ کہ اللہ کی مشیت اورچیز ہے اوررہنا اور چیز۔
پورے قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ نے کہیں یہ نہیں فرمایا ہے کہ وہ ایمان وعمل صالح سے موصوف کسی انسان کو اپنی مشیت سے دوزخ میں ڈال دے گا، بلکہ اس نے اپناقانونِ جزا وسزا اس طرح کے اسلوب میں بیان کیاہے۔
درحقیقت جو مجرم بن کراپنے رب کے پاس حاضر ہوگا اس کے لئے جہنم ہے جس میں وہ نہ جیے گا نہ مرے گا اورجو اس کے حضور مومن کی حیثیت سے حاضر ہوگا جس نے نیک عمل کئے ہوں گے، توایسے لوگوں کے لئے بلند درجات ہیں سدا بہار باغات ہیں جن کے نیچے نہریں بہ رہی ہوں گی، ان میں وہ ہمیشہ رہیں گے اوریہ ہے جزا اس شخص کی جوپاکیزگی اختیار کرے‘‘۔(طہ:۷۴۔۷۶)
اللہ تعالیٰ کاعلمِ ازلی، اس کی مشیت، اس کی تقدیر اورقضا وقدرایک ہی حقیقت کی مختلف تعبیریں ہیں، اوران میں اوراللہ تعالیٰ کی عطاکردہ اس آزادئ ارادہ اوراس آزادئ عمل میں کوئی تضاد نہیں ہے جواس نے انسانوں کوعطا کی ہے۔
چونکہ اللہ تعالیٰ اس کائنات کا خالق اوررب ہے اس لئے اس کائنات کی ہرچیز کے بارے میں اس کے وجود سے پہلے اس کا علم ہونا ضروری ہے عقائد کی زبان میں ہم اس بات کو یوں کہتے ہیں:دنیا کی تخلیق سے پہلے وہ خالق تھا، کائنات کووجود بخشنے سے پہلے وہ رب تھا اوراپنی مخلوقات کوپیداکرنے سے پہلے اس کو علم تھا کہ وہ کیاکریں گے، کیونکہ خلق، ربوبیت اورعلم اس کی صفات ہیں اوروہ جن صفات سے موصوف ہے وہ سب ازلی ہیں‘‘۔
تقدیر کے مسئلے میں اسلامی عقیدے کا خلاصہ درج ذیل ہے:
۱۔ تقدیر اللہ تعالیٰ کے رازوں میں سے ایک ایسا راز ہے جس کواللہ تعالیٰ نے اپنے لئے خاص کرلیاہے، اس سے اس کے حددرجہ مقرب بندے بھی آگاہ نہیں ہیں، نہ فرشتے اورنہ رسول۔
۲۔تقدیر کے مسئلے میں کھوج کر ید اوربحث ومباحثہ کاحاصل حیرانی اورتذبذب کے سواکچھ نہیں، کیونکہ یہ عقل کی رسائی اورگرفت سے باہرہے، اسی وجہ سے حدیث میں اس سے نہایت سختی کے ساتھ روک دیاگیا ہے، چنانچہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ہم تقدیر کے مسئلے میں بحث کررہے تھے کہ ہمارے درمیان رسول اللہﷺ تشریف لے آئے اورہماری باتیں سن کر آپ کا چہرۂ مبارک غصے سے اس طرح سرخ ہوگیا گویا آپ کے رخساروں پرانار کے دانے نچوڑدئے گئے ہوں اورآپ نے فرمایا:
’’کیا تمھیں انہی باتوں کاحکم دیاگیا ہے؟ کیا میں اسی لئے تمہاری طرف رسول بناکر بھیجاگیا ہوں؟تم سے پہلے کی قومیں بھی جب اس مسئلے میں بحث ومباحثہ کرنے لگیں تو ہلاک ہوگئیں، میں تم پرلازم کرتا ہوں کہ اس مسئلے میں جھگڑا نہ کرو‘‘۔(ترمذی :۲۱۳۳)
۳۔انسانوں سے وابستہ اوران سے نسبت رکھنے والے اعمال کی دوقسمیں ہیں،ایک قسم توان اعمال کی ہے جن میں ان کو اختیارحاصل ہے اوردوسری وہ جن میں وہ ارادہ واختیار نہیں رکھتے۔
جن اعمال میں انسان مغلوب الارادہ اورغیرمختارہے، ان میں اس کی پیدائش ، وفات، طویل اورپستہ قدہونا، رنگ، جنس اورخوبصورتی اوربدصورتی داخل ہے۔
رہے وہ اعمال جن میں انسان ارادہ واختیار رکھتا ہے، اس کا حرکت کرنا، چلنا بیٹھنا، بات کرنا، خاموش رہنا، کسب معاش کے لئے تگ ودوکرنا، خیر اورنیکی کے کام کرنا، برے اعمال اوردنگہ وفساد کا ارتکاب کرنا وغیرہ ہیں، یہ ایسے اعمال ہیں جن کے بارے میں ہرانسان اپنی فطرت اورمزاج سے یہ محسوس کرتا ہے کہ وہ ان کے کرنے اورنہ کرنے دونوں میں مختارہے۔
۴۔بندوں کومشیت اورقدرت بھی حاصل ہے ،ارشاد الٰہی ہے:(وقل الحق من ربکم فمن شآء فلیؤمن ومن شآء فلیکفر)اے نبی! کہدو، حق تمہارے رب کی طرف سے ہے، سوجس کاجی چاہے ایمان لائے، اورجس کا جی چاہے کفرکرے۔(الکہف:۲۹)
اورسورۃ التغابن میں ارشاد ربانی ہے:(فاتقوا اللہ ما استطعتم)اپنے مقدوربھراللہ سے ڈرو۔(۱۶)
یہ دونوں آیتیں یہ صراحت کررہی ہیں کہ بندوں کومشیت بھی حاصل ہے اورقدرت بھی، لیکن ان کی یہ مشیت اورقدرت اللہ تعالیٰ کی مشیت کے تابع ہے:(وما تشاؤون إلا أن یشاء اللہ رب العالمین)اورتم نہیں چاہ سکتے مگریہ کہ اللہ رب العالمین چاہے۔(التکویر:۲۹)
یہاں یہ بتانا تحصیل حاصل ہے کہ اللہ تعالیٰ کی مشیت کے تابع ہونے سے بندے کی مشیت معدوم نہیں ہوتی، قرآن جوکچھ بتانا چاہتا ہے وہ یہ ہے کہ بندے کی مشیت بے لگام نہیں ہے اوراگر اس کی مشیت اللہ تعالیٰ کی مشیت کے تابع نہ ہوتی اور ہرانسان کویہ قدرت حاصل ہوتی کہ جوکچھ وہ کرناچاہے کرگزرے توساری دنیا کا نظام درہم برہم ہوجاتا۔
۵۔ تقدیر سابق پرتکیہ کرکے عمل سے کنارہ کشی جائزنہیں ہے، کیونکہ صحابۂ کرام نے رسول اللہ ﷺ سے عرض کیا، اے اللہ کے رسول! کیاہم پہلے جوکچھ لکھ دیاگیا ہے اس پربھروسہ کرلیں اورعمل ترک نہ کردیں؟ تورسول اللہﷺ نے فرمایا:
’’تم لوگ عمل جاری رکھواس لئے کہ ہرشخص کے لئے وہی راہ آسان کردی گئی ہے جس کے لئے اس کی تخلیق ہوئی ہے ،اگروہ نیک بخت ہے تواس کے لئے سعادت و کامرانی کی راہ پرچلنا آسان کردیاجائے گا اوراگروہ بدبخت ہوگا تواس کے لئے شقاوت وبدبختی کی راہ پرچلنا آسان کردیاجائے گا، آپ نے یہ آیتیں تلاوت فرمائیں:
جس نے مال دیا، اللہ کا تقویٰ اختیار کیا اوربھلائی کوسچ مانا اس کوہم آسان راستے کے لئے سہولت دیں گے جس نے بخل کیا، بے نیازی برتی اوربھلائی کوجھٹلایا اس کوہم سخت راستے کے لئے سہولت دیں گے ۔(الیل:۵)
۶۔یہ دنیادارالعمل اوردارالاسباب ہے جوقومیں اللہ تعالیٰ کے فراہم کردہ اسباب ووسائل کواستعمال میں لاتی ہیں اللہ تعالیٰ ان کو عروج وسربلندی سے نوازتا ہے دنیا کے ایک بہت بڑے رقبہ پر۶صدیوں تک حکومت کرنے والے مسلمانوں نے جب اللہ تعالیٰ کے عطاکردہ اورفراہم کردہ اسباب ووسائل کواستعمال میں لاناترک کردیا اورتقدیرالٰہی اورمشیتِ خدا وندی کی غلط تاویلیں کرنے لگے تونہ صرف ان سے اقتدارچھین لیاگیا، بلکہ وہ عروج وسربلندی سے انحطاط وتنزل کی پستی میں پھینک دئے گئے اورروٹی، ٹوپی اور جوتی تک میں اغیار کے محتاج ودست نگر ہوگئے، کیونکہ اللہ تعالیٰ کا یہ فیصلہ ہے کہ:
’’اللہ کسی قوم کے حال کو نہیں بدلتا جب تک وہ خود اپنے اوصاف کو نہیں بدل دیتی‘‘۔(الرعد:۱۱)
۷۔دنیا میں قدرتی آفات بھی مشیت الٰہی سے آتے ہیں اوروبائی امراض اوربیماریوں کے پیچھے بھی تقدیرالٰہی کا رفرماں ہوتی ہے، مگران سے بچاؤ کی تدبیر مشیت الٰہی کے خلاف نہیں ہے، شام کے سفرمیں جب خلیفۂ دوم حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ ’’سرغ‘‘ کے مقام پرپہنچے توان کو خبرملی کہ شام میں شدید’’طاعون‘‘ پھیلا ہوا ہے آپ نے مہاجرین اورانصار کے لوگوں سے اس مسئلے میں مشورہ کیا کہ آیا وہ طاعون زدہ علاقے میں داخل ہوں یاواپس جائیں تولوگ کوئی دوٹوک مشورہ نہ دے سکے اور اختلاف میں پڑگئے، اس پرآپ نے فتح مکہ کے موقع پرمسلمان ہونے والوں سے مشورہ کیا توانھوں نے متفقہ طورپر واپسی کا مشورہ دیا اس لئے حضرت عمر نے سفرجاری رکھنے کے بجائے واپسی کا اعلان کردیا اس پرجلیل القدرصحابی اورشام کی فوج کے قائد حضرت ابوعبیدہ بن جراح رضی اللہ عنہ نے فرمایا:کیا اللہ کی تقدیر سے بھاگ رہے ہو؟عمر نے اس کانہایت بلیغ اوراسلامی عقیدہ کاترجمان جواب دیا ،فرمایا:’’نعم نَفِرُّ من قدراللّٰہ إلی قدراللّٰہِ‘‘ہاں ہم اللہ کی تقدیر سے اللہ کی تقدیر کی طرف بھاگ رہے ہیں‘‘۔
بعدمیں حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ آئے توانھوں نے اس مسئلے میں رسول اللہﷺ کی ایک حدیث سنائی کہ،اگر تم کسی زمین میں طاعون کی خبرسنو تواس میں داخل مت ہو اوراگر کسی زمین میں،جس میں تم پہلے سے ہوطاعون پھوٹ پڑے، تواس سے مت نکلو‘‘۔(بخاری ۵۷۲۸،۵۷۲۹، ۵۷۳۰، مسلم ۲۲۱۹)
۸۔ اوپر میں یہ بتا چکاہوں کہ تقدیرایک ایسا غیبی معاملہ ہے جس کے کسی بھی گوشے سے اللہ تعالیٰ نے اپنے کسی بھی بندے کومطلع نہیں فرمایا ہے حتی کہ کوئی بھی انسان خوداپنی تقدیر کے بارے میں بھی کچھ نہیں جانتا، جبکہ ہرانسان یہ جانتا ہے کہ اس سے کون سا عقیدہ وعمل مطلوب ہے اورکون سانہیں اوریوم الحساب میں ہرشخص سے صرف اس کے عقیدہ وعمل کے بارے میں سوال ہوگا اس کی تقدیر کے بارے میں نہیں ایسی صورت میں تقدیر کے مسئلے میں کوئی ذہنی یاقلبی خلش شیطانی ہتھکنڈوں کے سوا کیاکچھ اورہوسکتی ہے؟جبکہ دنیاوی امورمیں یہ خلش پیدانہیں ہوتی اورکاروبار حیات جاری رہتا ہے۔

***
مولاناعبدالصبور ندویؔ

مدیر سہ ماہی،’’ترجمان السنۃ‘‘رچھا

أسالیب تفسیر

أسالیب ،اسلوب کی جمع ہے،اسلوب کی تعریف ہے، مفسرکا وہ طریقہ یامنہج جواسے اس کے ہدف تک لے جائے۔
مفسر، تفسیر کرتے وقت ایک خاص طریقہ اختیار کرتاہے جودوسرے مفسرسے مختلف ہوسکتا ہے، جیسے کوئی مفسر پہلے نص ذکر کرتا ہے پھرمفردات،پھر آیات کااجمالی معنیٰ بیان کرتا ہے ،پھراس سے احکامات مستنبط کرتا ہے اورترتیب آیات کالحاظ کرتے ہوئے ایک ایک آیت کی تفسیر بیان کرجاتا ہے، بعض دوسرے مفسرین نص ذکرکرنے کے بعدمفردات کے معانی اورآیت کے اجمالی معنیٰ کو مدغم کردیتے ہیں اوربعض مفسرین ترتیب قرآن کالحاظ کئے بغیر کسی ایک موضوع کے تحت تمام آیات یکجا کردیتے ہیں، کبھی مفسراپنی رائے کااظہار بھی کرتا ہے اورکبھی مختلف آراء کے درمیان موازنہ کرتے ہوئے کسی رائے کوراجح بھی قراردیتا ہے، تواس طرح طریقے اوراسلوب مختلف ہوجاتے ہیں، اوران کی تعداد چارتک پہونچتی ہے:
(۱) تفسیر تحلیلی (۲) تفسیراجمالی (۳) تفسیر مُقَارِن (۴) تفسیر موضوعی
۱۔تفسیرتحلیلی:۔ وہ اسلوب ،جہاں مفسر مصحف کی ترتیب کے مطابق بعض آیات کو یکجا کرکے یا پوری سورت یا پورے قرآن کولے کرتفسیرکرتاہے، ہرلفظ کا معنیٰ واضح کرتاہے، آیات میں موجود بلاغت کی شکلیں بیان کرتاہے، اسباب نزول آیت میں وارد احکام، اور اس کے تفصیلی معنی کی توضیح کرتاہے۔
خصوصیات:۔(۱)تفسیر کایہ قدیم ترین اسلوب ہے، تفسیرجب اپنے ابتدائی مرحلے میں تھی، اس وقت مفسرین چند آیتیں یکجاکرکے، ہرناحیہ سے اس کے معانی کی معرفت حاصل کرتے اورلوگوں کے سامنے اس کی توضیح کرتے، پھرآگے بڑھتے، حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کاکہناتھا:’’ہم میں سے کوئی شخص جب دس آیتوں کی تفسیرسیکھتا ، تواس وقت تک وہ آگے نہیں بڑھتا تھا، جب تک اس کے معانی کو اچھی طرح سمجھ نہیں لیتا اوراس پرعمل نہ کرلیتا‘‘۔(تفسیر طبری:۱؍۸۰)
مشہور تابعی ابوعبدالرحمن السلمی رحمہ اللہ کہتے ہیں مجھے جن لوگوں نے قرآن پڑھایا اورسکھایا ،وہ نبیﷺ کے تربیت یافتہ تھے اورکہتے تھے کہ جب دس آیات پڑھتے تواس کے معانی کے ساتھ عمل کرنا بھی سیکھتے، توہم نے قرآن اورعمل ایک ساتھ سیکھا۔(تفسیر طبری۱؍۸۰) اورتابعین نے بھی اسی طرزپر تفسیر سیکھی اوران کے اساتذہ صحابہ ہی تھے۔
(۲)اکثراورمشہور تفاسیر کا اسلوب یہی رہا ہے، قدیم زمانے میں اورآج بھی بیشتر مؤلفین یہی اسلوب اختیاکرتے ہیں ،جیسے تفسیر طبری، خازن، ثعلبی، واحدی، بغوی، ابن عطیۃ، شوکانی، اورابن کثیر وغیرہم۔
(۳) اس اسلوب میں اختصار اورطویل دونوں طرح کی تفسیریں مل جائیں گی، کسی مفسر نے قرآن کی پوری تفسیر صرف ایک جلد میں کردی اورکسی نے تیس سے زائد جلدوں میں کیا۔
(۴) مفسرین نے اس اسلوب کے اختیارکرنے میں منہج کا خیال نہیں رکھا، ان کے درمیان ایک بڑا منہجی فرق صاف نظرآتا ہے، کسی نے تفسیر بالمأثور اوراہل سنت والجماعت کا منہج اختیار کیا، توکسی نے تفسیر بالرأی کے علاوہ دوسرے راستے بھی اپنائے، کسی نے اپنی ذاتی دلچسپی کے چلتے تاریخ، قصص اور اسرائیلیات کی جھڑی لگادی، توکسی نے بلاغت کے وجوہ بیان کرنے پر پورا وقت صرف کردیا، کسی نے سائنسی تشریح کرنی مناسب سمجھا توکسی نے فقہی احکامات پرپوری توجہ صرف کی، کسی نے نحوی وصرفی مسائل کو اجاگر کرنے کی کوشش کی، تو بعض دوسروں نے علم کلام، فلسفہ اورصوفیوں کی مصطلحات پربحث کی۔
یہ خیال آسکتا ہے کہ اتنے مختلف راستے اورمناہج، پھربھی تفسیر تحلیلی، ہاں، اس اسلوب کے رنگ مختلف ضرورہوسکتے ہیں، لیکن چونکہ ایک ایک آیت کی علیحدہ تفسیر کا اہتمام کیاگیا ہے، اگرچہ وہ کسی بھی منہج کے مطابق ہوں، انہیں تفسیر تحلیلی ہی کہاجائے گا۔
۲۔تفسیراجمالی:۔ ایسااسلوب جس میں مفسرکئی آیتوں کویکجاکرکے مصحف کی ترتیب کے ساتھ اجمالی معنیٰ بیان کرتا ہے اورآیات کے اہداف کاخلاصہ پیش کرتا ہے، آسان عبارت کااہتمام ہوتاہے تاکہ پڑھنے اورسننے والے دونوں آسانی سے سمجھ سکیں۔
دوسرے لفظوں میں کہہ سکتے ہیں کہ مفسر، قرآن کی ترتیب وتسلسل کے مطابق ایک ایک سورت کواختیار کرتاہے، پھرہرسورت میں آیات پر مشتمل کئی مجموعے بناتاہے، جہاں وہ ہرمجموعہ کی اجمالی تفسیر اس انداز میں کرتا ہے کہ اس کے معانی اورمقاصد کھل کرسامنے آجائیں، کبھی وہ بعض الفاظ کو نص اورتفسیر کے درمیان نقطۂ اتصال بناتا ہے اورثابت کرتا ہے کہ اس کی تفسیر نص قرآن کے سیاق ہی میں ہے۔
تفسیراجمالی کومعنوی ترجمہ بھی کہاجاسکتا ہے، اس لئے کہ مفسریہاں لفظی بحث نہ کرکے معنوی مفہوم پرتوجہ دیتا ہے اورحسب ضرورت سبب نزول اورقصوں کوبھی ذکر کرتا ہے۔
یہ اسلوب عموماً آج کل ریڈیو اورٹیلی ویژن چینلوں میں دیکھنے کو ملتا ہے، جہاں مسائل واحکام اوراختلافی بحث سے صرف نظر کرکے لوگوں کے لئے اجمالی مفہوم بیان کیاجاتا ہے جوعوام الناس کے ذہن وفکر کے عین مطابق ہوتاہے۔
اس اسلوب میں بھی بہت سی تفسیریں لکھی گئیں اورلکھی جارہی ہیں،مثال کے طورپہ ملاحظہ ہو:
۱۔تفسیر کلام المنان عبدالرحمن بن سعدی
۲۔ التفسیر فی أحادیث التفسیر محمدالمکی الناصری
۳۔ تفسیر الأجزاء العشرۃ الأولیٰ محمود شلتوت
۳۔ تفسیر مُقَارِنْ:۔ وہ اسلوب جس میں مفسرکسی آیت یا متعددآیات کی تفسیر کا ارادہ کرتا ہے تووہ آیت کے موضوع سے متعلق نصوص اکٹھاکرتا ہے، چاہے وہ قرآن میں دوسری جگہ وارد آیتیں ہوں، یا موضوع سے متعلق احادیث نبویہ ہوں، چاہے وہ صحابہؓ، تابعین اورمفسرین کے اقوال وآراء ہوں یا اس کے متعلق آسمانی کتابوں میں وارد باتیں ہوں، سب کو مفسریکجاکرتا ہے، پھران نصوص اورآراء کے درمیان موازنہ کرتاہے، سب کے دلائل پیش کرتا ہے، اور قوی دلیل کی بنیاد پر (جسے مفسر نے سمجھاہو) بعض رائے کو راجح اوربعض کو مرجوح قراردیتاہے۔
ظاہر ہے آراء ونصوص کے درمیان موازنہ اوراس میں پیداہونے والے اختلافات کوختم کرنے کی کوشش کرنا، آسان کام نہیں ہے مگر اس اسلوب نے مفسرین کے لئے راہیں کشادہ کردیں اورانھوں نے مقارنہ وموازنہ کاکام انجام دیا، موازنہ ومقارنہ کی نوبت کیوں پڑی؟ آیئے اس کی وجہ جاننے کی کوشش کرتے ہیں:
۱۔ قرآن کی ایک نص کاموازنہ دوسری قرآنی نص سے کرنا، چاہے دونوں نصوص اپنے معانی میں متفق ہوں یا ظاہر میں مختلف ہوں، مگرموضوع ایک ہی ہو، اس قسم کو اصطلاح میں علم تأویل مشکل القرآن کہتے ہیں، تودونص قرآن کے درمیان کاموازنہ ہوتا ہے تاکہ معانی بالکل واضح ہوجائیں، کیونکہ کبھی ایسا ہوتا ہے کہ قرآن کی ایک آیت کسی مسئلہ کو ادھورا بیان کرتی ہے، مگردوسری جگہ دوسری آیت اس مسئلے کومکمل کردیتی ہے، دونوں نص کی عبارتیں مختلف ہوتی ہیں، کسی آیت کا ایک ہی موضوع پر ذکر کہیں اختصار کے ساتھ ہواتودوسری جگہ اس کی تفصیل ہوتی ہے، کہیں عموم کاذکر ہے تودوسری جگہ اسی حکم کو خاص بھی کردیاگیا ہے، وغیرہ وغیرہ، صحابہ کے تفسیری منہج میں اس کی مثالیں بیان کی جاچکی ہیں، اسی طرح قصوں کو بھی یکجاکردیا جاتا ہے، جس کے نصوص قرآن میں جابجابکھرے ہوتے ہیں، اس سے واقعات کے ربط وتسلسل میں بڑی مددملتی ہے۔
۲۔ نص قرآنی اور حدیث نبوی کے مابین موازانہ، حدیث رسول ﷺ قرآنی نصوص کے ساتھ عموماً متفق ہوتی ہے، کبھی کبھی ظاہری اختلاف دیکھنے کومل سکتا ہے، تاویل مشکل القرآن اورمشکل الحدیث کے متعلق کتابیں ملاحظہ کی جاسکتی ہیں ۔(دراسات فی التفسیر الموضوعی،د؍أحمد العمری ص:۴۶)
۳۔کبھی نص قرآنی اورتوریت وانجیل کے نصوص کے مابین موازنہ کیاجاتا ہے، تاکہ قرآن کی فضیلت، اس کی امتیازی خصوصیات اورسابقہ آسمانی کتابوں پراس کی سطوت کاثبوت دیاجاسکے، یہاں مفسر تحریف وتغییر کے اسباب بھی بیان کرتا ہے، تحریف کے نتیجہ میں باہمی اختلافات کابھی ذکرہوتا ہے، وہ ان واقعات کی نشاندہی کرتا ہے جوہوبہو قرآن اورکتب سابقہ میں وارد ہوئے ہیں، اس انداز کی تالیفات کثرت سے میسر ہیں، مگرجس کوسب سے زیادہ شہرت ملی وہ مورس بوکائے کی تالیف’’قرآن توریت، بائبل اورسائنس‘‘ہے اس کے علاوہ ابراہیم خلیل کی تالیف’’ محمد ﷺ توریت ،انجیل اورقرآن میں‘‘کوبھی شہرت ملی۔
۴۔ کبھی مفسرین کے اقوال کے مابین موازنہ ہوتا ہے، مفسر ایک ہی آیت کے ضمن میں مختلف مکاتب فکر کے مفسرین کی رائے ذکرکرتا ہے، جہاں ہرایک کی دلیل کا ذکر،اس پرجرح ونقد اورراجح ومرجوح کے بیان کاسلسلہ بھی چلتا ہے۔
قدیم مفسرین میں یہ انداز امام المفسرین علامہ طبری رحمہ اللہ نے اپنایاہے، جہاں وہ اہل رائے وتأویل کے افکار ودلائل بیان کرکے آراء کے مابین موازنہ کرتے ہیں، پھرکسی کو ضعیف اورکسی کو راجح قرارد یتے ہیں۔
۴۔تفسیر موضوعی:۔یہ تفسیر کا وہ اسلوب ہے جہاں مفسرنہ تومصحف کی ترتیب کاخیال رکھتا ہے اورنہ ہی ہرآیت کی تفسیربیان کرتا ہے، ایک موضوع کے تحت قرآن کی آیات یکجاکرکے اس کی تفسیربیان کرتاہے، اس کی تعریف یوں کی جاسکتی ہے:کسی ایک مسئلہ یاموضوع کے تحت قرآنی آیات کا جمع کرنا، پھراس کی ایک ساتھ تفسیر کرنا، اورقرآنی مقاصدکی توضیح کے ساتھ احکام مستنبط کرنا، (کبھی مفسرصرف ایک سورت تک ہی محدود رہتا ہے)
اسلام کے ابتدائی عہد میں ہی تفسیر موضوعی کی بنیادپڑچکی تھی، مگراصطلاح میں اس اسلوب کانام چودھویں صدی ہجری میں پڑا، اورجامع ازہرمصر میں سب سے پہلے تفسیر موضوعی کوایک مضمون کی حیثیت سے شامل نصاب کیاگیا اور اب تمام بلاد عرب میں بحیثیت مستقل مضمون پڑھایاجارہا ہے۔
تفسیر موضوعی کی شکلیں:۔سلف صالحین سے تفسیر موضوعی کی تین شکلیں ثابت ہیں:
۱۔ قرآن کی تفسیر صرف قرآن سے:۔ ایک موضوع کے تحت آیات کوجمع کریں اورآیات کی تفسیر صرف آیات سے کریں، یہ اعلیٰ درجہ کی تفسیر ہے، اللہ کے نبیﷺ صحابہ کے سامنے اکثرقرآن کی تفسیر قرآن سے ہی کرتے، مثال کے طورپہ مفاتح الغیب کی تفسیر پوچھی گئی (وَعندہ مفاتح الغیب لایعلمھا إلاَّ ھو)(الأنعام:۵۹)توآپ ﷺ نے فرمایا: غیب کی پانچ کنجیاں ہیں(إن اللہ عندہ علم الساعۃ ویُنَزِّلُ الْغَیْثَ وَیَعْلَمُ مَافِی الأرْحَام وَمَاتَدْرِی نَفْسٌ مَا ذَا تَکْسِبُ غَدًا، وَمَا تَدْرِی نَفْسٌ بأیِّ أرضٍ تَموتُ، إنَّ اللّٰہَ عَلِیْمٌ خَبِیْرٌ)(لقمان: ۳۴)اللہ تعالیٰ کے پاس قیامت کا علم ہے، بارش بھی وہی برساتا ہے، رحم مادرمیں کیا (بچہ،بچی) ہے؟ اس کا علم بھی صرف اللہ کو ہے، انسان کل (آئندہ) کیاکمائے گا؟ کس زمین پر اس کی موت ہوگی؟ انسان نہیں جانتا(لیکن) اللہ کو سب معلوم ہے اوراس کی خبربھی ہے۔
صحابۂ کرام متشابہہ آیات کو بھی یکجا کرکے ایک آیت کی دوسری آیت سے تفسیرکی کوشش کرتے، اورجب کہیں بات سمجھ میں نہ آتی، فوراً رسول اللہﷺ سے رجوع کرتے اورآپ ﷺ اس کی تفسیر بیان کردیتے۔
۲۔ احکام سے متعلق آیات کی تفسیر:۔قدیم مفسرین کی ایک جماعت نے فقہی احکام ومسائل سے متعلق خصوصی تفسیر کا اہتمام کیاہے مگرتفسیر موضوعی کا اسلوب ترک نہیں کیا، بعض مشہور تفاسیر اس ضمن میں درج ذیل ہیں:
۱۔ الجامع لأحکام القرآن للقرطبی
۲۔احکام القرآن للجصّاص
۳۔ أحکام القرآن لابن العربی
۴۔ نیل المرام من تفسیر آیات الأحکام لمحمد صدیق حسن
۳۔ أشباہ ونظائر:۔ مفسر،قرآن کریم کے کسی ایک کلمہ(لفظ) کو اختیار کرتا ہے، پھراس لفظ کی پورے قرآن میں نشاندہی کرتا ہے، اورجہاں جس معنیٰ میں استعمال ہواہے اس کی توضیح کرتا ہے اس طرح قاری کو قرآنی کلمات کی مختلف دلالات اورمعانی کا علم ہوجاتا ہے، اس سلسلہ کی چند تفاسیر ملاحظہ فرمائیں:
۱۔ الأشباہ والنظائر فی القرآن الکریم، مقاتل بن سلیمان
۲۔ التصاریف، یحیٰ بن سلام
۳۔ بصائر ذوی التمییز فی لطائف الکتاب العزیز، الفیروزآبادی
۴۔ نزھۃ الأعین النواظرفی علم الوجوہ والنظائر، ابن الجوزی
عموماً تفسیر موضوعی کا یہ رنگ لغوی پہلو پر محیط ہوتا ہے، جہاں کلمات کی وحدت کے ساتھ اس کے مختلف معانی پر غوروخوض ہوتاہے۔
۴۔ تفسیری اسٹڈیز:۔ علمائے تفسیر صرف قرآن کے لغوی معانی کے بیان پراکتفاء نہیں کرتے، بلکہ ایک موضوع کے متعلق آیات جمع کرکے اس کی تحقیق کرتے، گہرائی کے ساتھ مطالعہ کرتے پھرآیات کے اصول ومعانی بیان کرتے، جیسے نسخ، قَسم، امثال وغیرہ موضوعات پر آیات جمع کرتے، کسی نے ناسخ اورمنسوخ سے متعلق تمام آیتیں یکجاکردیں، اوردلائل سے واضح کیا کہ ناسخ کون ہے اورمنسوخ کون؟ کسی نے ان آیات کوجمع کیا جن کے مابین ظاہری تعارض نظرآتا تھا، پھر ان کی توضیح کی اورتعارض کو دورکیا، کسی نے امثال وحِکَمْ سے متعلق آیات جمع کیں، توکسی نے آیات قَسم جمع کی، اوران آیات کے مقاصد پربھرپور روشنی ڈالی، اس کڑی کی چند کتابیں ملاحظہ ہوں:
۱۔ الناسخ والمنسوخ، أبوعبیدۃ القاسم بن سلام
۲۔ تأریخ مشکل القرآن، ابن قتیبۃ
۳۔ أمثال القرآن، الماوردی
۴۔ التبیان فی أقسام القرآن، ابن القیم
۵۔ مجازالقرآن، العزّ بن عبدالسلام
تفسیرموضوعی کی ان شکلوں کو جاننے کے بعدیہ واضح ہوگیا کہ تفسیر موضوعی کی اصطلاح اگرچہ بعدکی ہے لیکن صحابہ نے اورعلمائے سابقین نے اس پربہت کام کیاہے، عصرحاضرمیں اس موضوع پرخوب کام ہورہا ہے اب توقرآنی لائبریری بھی ڈی.وی.ڈی. میں دستیاب ہے ،جہاں اس موضوع پربے شمار کتابیں موجود ہیں، یقیناًتفسیر موضوعی کا میدان انتہائی زرخیز ہے، اب بھی باحثین اورعلوم القرآن سے شغف رکھنے والوں کے لئے اس میدان میں کام کی گنجائش ہے، اورمشہور فرانسیسی مستشرق جول لابوم کی یہ کتاب’’تفصیل آیات القرآن الکریم‘‘ مرجع کا کام کرے گی، انھوں نے قرآن کریم کی آیات کو 350موضوعات کے تحت جمع کردیا ہے، اس کی تفسیرنہیں کی ہے، لیکن اس میں مزید موضوعات کا اضافہ بھی ہوسکتا ہے، یادرہے اب تک تفسیر موضوعی سے متعلق کوئی ایسی کتاب سامنے نہیں آئی ہے جوپورے قرآن پرمشتمل ومحیط ہو۔
تفسیر موضوعی کے اقسام:
تفسیر موضوعی کی تین قسمیں بنتی ہیں:
پہلی قسم:۔ مفسر‘قرآن کریم میں موجود کسی ایک لفظ کواختیار کرتاہے، پھراس کے متعلق تمام آیات یکجا کرتا ہے، چاہے وہ اصل کلمہ ہوں یا اس کے مشتقات ، پھر اس کی تفسیر کرتا ہے اورقرآنی کلمہ کے مدلولات سے متعدد معانی کا استنباط کرتا ہے، جیسے ’’الحق‘‘ ’’العبادۃ‘‘ وغیرہ۔ اشباہ ونظائر کی تفسیری کتب نے اسی رنگ کا اہتمام کیاہے مگروہ صرف لفظی دلالت تک محدود رہتے ہیں، لیکن بعض مفسرین نے اس دائرہ کو وسیع کیا، اورمختلف مقامات پروارد ایک ہی کلمہ کے مابین ربط کوواضح کیا، اگرچہ ہرجگہ اس کلمہ کا معنی مختلف تھا، پھربلاغت اوراعجاز قرآنی کے وجوہات بھی بیان کئے، اخیرمیں نہایت دقیق استدلالات کے ذریعہ اس قسم کی تفسیر کو نیا آہنگ عطاکیاگیا۔
چند تفسیروں کے اسماء ملاحظہ کریں:
۱۔ کلمۃ’’الحق‘‘ فی القرآن الکریم،للشیخ محمدبن عبدالرحمن الراوی
۲۔المصطلحات الأربعۃ فی القرآن(الالہ ،الربّ،العبادۃ،الدین)لأبی الأعلی المودودی۔
۳۔ ’’الحمد‘‘ فی القرآن الکریم،للدکتور محمدخلیفۃ
۴۔ تأملات حول وسائل الإدراک فی القرآن الکریم(الحس، والعقل، والقلب، واللب،والفؤاد،للدکتور محمدالشرقاوی.
دوسری قسم:۔ کسی ایک مسئلہ یا قضیہ کے متعلق تمام آیات کا یکجاکردینا، پھراس کو مختلف اسالیب کے ذریعے پیش کرنا، جمع کردہ آیات کا تجزیہ، اس پرمناقشہ اوربحث وتعلیق کے بعد قرآن کریم کا حکم بیان کرنا۔
تفسیر موضوعی کی یہ وہ مشہور قسم ہے، جس پر سب سے زیادہ کتابیں لکھی گئیں، اوربحث وتحقیق کابہت بڑاکام ہواہے، اس میں مفسر کوصرف موضوع سے بحث ہوتی ہے ،علم قراء ات، اعراب، بلاغت وغیرہ سے کوئی واسطہ نہیں ہوتا، جب مطلقاً تفسیر موضوعی کانام لیا جاتا ہے، تویہی قسم مراد ہوتی ہے۔
اس قسم کے متعلق ہرزمانے میں تفاسیر لکھی گئیں، واضح رہے کہ اعجاز قرآنی، ناسخ منسوخ، امثال وقصص، جدل وقسم کے موضوعات بھی اسی قسم سے تعلق رکھتے ہیں، دورحاضرمیں اس قسم پر مزید موضوعات کااضافہ ہواہے، معاشرت، اقتصاد اورسیاست پربھی کام ہواہے، چندکتابوں کے نام ملاحظہ ہوں:
۱۔ آیات الجھاد فی القرآن الکریم :کامل سلامۃ الدُقس
۲۔ المال فی القرآن :محمود غریب
۳۔ دستور الأخلاق فی القرآن :ڈاکٹر محمدعبداللہ دراز
۴۔القرآن والطب :محمد وصفی
۵۔ التربیۃ فی کتاب اللہ :محمود عبدالوہاب
۶۔التفسیر العلمی للآیات الکونیۃ فی القرآن:حنفی أحمد
تیسری قسم:۔ کسی ایک موضوع پرکسی ایک سورت میں بحث وتحقیق کرنا، یہاں مفسر صرف ایک سورت کے دائرے میں رہ کرتفسیر بیان کرے گا۔

یہ حقیقت ہے جب مفسر کسی موضوع پرایک ہی سورت کے اندراپنے کومحدود کرلے گا، تودائرہ کاتنگ ہونا، لازم آئے گا، حالانکہ قرآن کریم کی ہرسورت اپنی علیحدہ شناخت اوراہمیت رکھتی ہے، اس کا ایک خاص ہدف ہوتا ہے، اس ہدف کی دقیق توضیح ،لطیف مناسبت اوربلاغی تصویر کومفسر عیاں کرتاہے۔

اس ضمن میں سید قطب رحمہ اللہ کی تفسیر کو امتیازی حیثیت حاصل ہے، سورتوں کے مقاصد اوراہداف کوبیان کرنے کا خصوصی اہتمام کیاہے، چنانچہ وہ ہرسورت کے لئے ایک مقدمہ قائم کرتے ہیں، جس میں سورت کے موضوعات واہداف کی توضیح ہوتی ہے، پھروہ اسی محور کوسامنے رکھ کرتفسیر کرتے ہیں، انھوں نے تفسیر کو انوکھا رنگ عطاکیا، جو کہیں اورنہیں ملتا ہے۔

اس قسم کی چند تفسیریں ملاحظہ فرمائیں:

۱۔ تصور الألوھیۃ کما تعرضہ سورۃ الأنعام:ڈاکٹر ابراہیم الکیلانی

۲۔ قضایا العقیدۃ فی ضوء سورۃ قٓ: کمال محمد عیسیٰ

۳۔قضایا المرأۃ فی سورۃ النساء: ڈاکٹر محمد یوسف

۴۔ سورۃ الواقعۃ ومنھجھا فی العقائد:محمود غریب

تفسیر موضوعی کے اسالیب وخصوصیات بکثرت ہیں، اسی اختصار پر اکتفاکیا جارہا ہے۔

وصلی اللہ علی نبینامحمد وبارک علیہ وسلم تسلیما.

***

Saturday, February 19, 2011

خاتم النبیین کاپیغام امت کے نامDec-2010

مولاناشفیع اللہ عبدالحکیم مدنیؔ

استاد جامعہ سراج العلوم السلفیہ،جھنڈانگر،نیپال

خاتم النبیین کاپیغام امت کے نام

ارشاد ربانی ہے:(فلیحذرالذین یخالفون عن أمرہ أن تصیبھم فتنۃ أو یصیبھم عذاب الیم)(النور:۶۳)
ترجمہ: سنو!جولوگ حکم رسول کی مخالفت کرتے ہیں انھیں ڈرتے رہناچاہئے کہ کہیں ان پرکوئی زبردست آفت نہ آپڑے یاانھیں کوئی دردناک عذاب نہ پہونچے۔
عرفات کے میدان میں رسول اکرمﷺ نے اونٹنی پرسوارہوکرارشاد فرمایا:’’ ألا وإنیّ فرطکم علی الحوض‘‘لوگو سنو! میں حوض کوثرپرتمہارا میرسامان ہوں گا، ’’وأکاثرکم الأمم‘‘ اور اپنی امت کی کثرت پرتمام امتوں کے درمیان فخرکروں گا، ’’فلا تُسُوِّدُواوجھِی‘‘پس تم مجھے رسوانہ کردینا(یعنی اللہ تعالیٰ کی نافرمانیاں کرکر، بدعتی اور مشرک بن کر کل قیامت کو اللہ تعالیٰ کے سامنے مجھے شرمسارنہ کرنا’’اَلاَ وَ اِنِّی مُسْتَنْقِذ اُناساً ومُسْتَنْقِذٌ مِنِّی اُناسٌ‘‘یہ ٹھیک ہے کہ اللہ کے اذن سے پائی ہوئی میری شفاعت سے بہت سے لوگ دوزخ سے چھوٹ جائیں گے اورایسے لوگ بھی ہوں گے جومجھ سے جُدا کردیئے جائیں گے،کہ ان کے لئے اللہ مجھے اذن شفاعت نہیں دے گا، ’’فأقولُ یاربِّ اُصَیحَابِی‘‘میں کہوں گا اے میرے پروردگار!یہ تومیری امت کے لوگ ہیں انھیں بھی حوض کوثرسے پینے اورمجھے ان کی شفاعت کرنے کی اجازت دے،(فَیَقُولُ اِنَّکَ لَا تَدرِی مَا احد ثوابعدک‘‘اللہ تعالیٰ فرمائے گا اے میرے رسول! تم نہیں جانتے کہ انھوں نے تیرے بعدکون کون سے نئے مسئلے (دین میں) نکالے تھے۔(ابن ماجہ، کتاب الفتن، ص:۱۳۰۰ حدیث نمبر۳۹۴۴)
حجۃ الوداع کے خطبے میں نبی اکرمﷺ نے صاف فرمایا کہ میری امت کے کچھ لوگ حوض کوثرکے پانی اورمیری شفاعت سے محروم کردیئے جائیں گے میں اللہ سے عرض کروں گا بارالٰہا! یہ تومیری امت کے لوگ ہیں یعنی لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ پڑھنے والے ہیں نمازی، حاجی، زکوٰتی، تہجد گذار ہیں، انھیں کوثرکاپانی پینے دے اور مجھے ان کی شفاعت کی اجازت دے دے تو اللہ تعالیٰ فرمائے گا نہ ان لوگوں کوآبِ کوثرملے گا نہ تجھے ان کی شفاعت کی اجازت دی جائے گی،کیونکہ انھوں نے تیری وفات کے بعددین کامل میں نئے نئے مسئلے نکالے تھے، گھرسے ثواب کے وعدے دے دے کر خانہ ساز کارِ ثواب جاری کئے تھے، یہ بدعتی لوگ ہیں پھرنبی اکرمﷺ ان اہلِ بدعت پر سخت ناراض ہوں گے اورسُحقاً سُحقاً فرمائیں گے یعنی دورہوجاؤ ،دورہوجاؤ، میرے کامل دین اسلام میں تم نے نئے نئے مسائل گھڑے ،بدعتیں نکالی تھیں۔(صحیح مسلم ۱؍۲۱۸)
اہل بدعت کا کوئی عمل قبول نہیں ہوتا: ۔رسول اکرمﷺ فرماتے ہیں ’’لایقبل اللہ لصاحب بدعۃٍ صوماً ولا صلاۃً ولاصدقۃً ولاحجاً ولاعمرۃً، ولاجھادًا ویخرج من الإسلام کماتخرج الشعرۃ من العجین‘‘(ابن ماجہ، حدیث نمبر۴۹)
اللہ تعالیٰ بدعتی آدمی کا نہ روزہ قبول کرتا ہے نہ نماز، نہ زکوٰۃ وخیرات ، نہ حج و عمرہ اورنہ ہی جہاد اوربدعتی دائرہ اسلام سے ایسے نکل جاتا ہے جیسے بال گوندھے ہوئے آٹے سے نکل جاتا ہے۔
مسلمان بھائیو اوربہنو! بدعت کا کام کرنے سے ڈرو، خوف کرو، کانپ جاؤ کہ اہل بدعت کی نمازیں ،روزے، حج زکوٰۃ وخیرات، عمرے وجہاد اوردوسری بیشمار نیکیاں اللہ قبول نہیں کرتا، خبردار وہ کام دین کا کام یاثواب کا کام جان کرہرگز نہ کریں جونبی اکرمﷺ نے نہ کیا ہو یانہ کرنے کوکہاہو۔
بدعت کا مطلب نبی اکرمﷺ کی زبان سنئے:ارشاد فرماتے ہیں:’’من أحدث فی أمرنا ھذا مالیس منہ فھو ردٌّ‘‘(صحیح بخاری ۹؍۱۳۲، صحیح مسلم ۳؍۱۳۴۴)
جس شخص نے ہماری (مکمل) شریعت میں کوئی نیا طریقہ ،مسئلہ نکالا جس کا ہم نے کوئی (قولی، فعلی) حکم نہ دیا ہو تووہ نیاطریقہ، مسئلہ مردود اورناقابل قبول ہے۔
دوسری روایت کے الفاظ اس طرح ہیں:’’ من عمل عملاً لیس علیہ أمرنا فھو رد‘‘یعنی جس نے کوئی ایسا کام کیا جس پہ ہمارا حکم نہیں ہے تووہ مردود ہے۔
امام نووی رحمہ اللہ اس حدیث کی تشریح فرماتے ہیں:یہ حدیث اسلام کا ایک عظیم قاعدہ ہے، یہ نبی اکرمﷺ کے جامع کلمات میں سے ایک ہے، یہ ہرطرح کی بدعت اورخودساختہ امورکی تردید میں صریح ہے۔
دوسری روایت میں مفہوم کی زیادتی ہے اوروہ یہ کہ بعض پہلے سے ایجادشدہ بدعتوں کوکرنے والے کے خلاف اگرپہلی روایت بطور حجت پیش کی جائے تووہ بطور عناد کہے گا کہ میں نے توکچھ ایجادنہیں کیا، لہذا اس کے خلاف دوسری روایت حجت ہوگی، جس میں یہ کہاگیا ہے کہ ہرنئی چیز مردودہے خواہ کرنے والے نے اسے ازخود ایجاد کیا ہو یا اس سے پہلے اسے کوئی ایجاد کرچکا ہو(شرح مسلم للنووی ۱۲؍ ۱۶)
پیارے بھائیو! خدا را بغیر سند حدیث اورسنت کے کسی مسئلہ کو نہ اپنائیں،اور نہ ہی عمل میں لائیں، جس پر ’’مہر محمدی‘‘ لگی ہوئی ہو اسی کو حاصل کریں، کھوٹے سکے دوزخ کے شعلے ہیں، ان سے ہزارباربچیں نبی اکرمﷺ نے فرمایا:’’کل محدثۃ بدعۃ وکل بدعۃ ضلالۃ وکل ضلالۃ فی النار‘‘(صحیح مسلم ۲؍۵۹۲)
ہرنیا کام(دین میں)بدعت ہے، اورہربدعت گمراہی ہے اورہرگمراہی (بدعت) دوزخ میں لے جانے والی ہے۔
علمائے سوء ومشائخ نونے استحصال زرکے لئے صدہانئے نئے مسئلے دین میں کارِ ثواب کہہ کر جاری کررکھے ہیں اورسادہ لوح مسلمان انھیں نیک کام سمجھ کراپنارہے ہیں، اچھی طرح یادرکھیں کہ جس شخص نے کسی امتی کے بنائے ہوئے مسئلے پر عمل کیا وہ بدعتی ہوگا اور اللہ رب العالمین بدعتی پر اس قدر ناراض ہوجاتا ہے کہ اس سے دوسرے فرائض نماز، روزہ وغیرہ بھی قبول نہیں کرتا، آخر کیوں؟ غورکریں کہ ملک میں سکے حکومت کے جاری کئے ہوئے ہوتے ہیں جن سے لین دین ہوتا ہے اوراگرکوئی شخص جعلی سکہ بناکر سرکاری سکوں میں ملادے اوراسے رواج دے توایسے شخص کی سزاقانون میں سزائے موت یا کالاپانی یا عمرقید وغیرہ ہے، اتنی سخت سزا محض چار آنہ آٹھ آنہ بنانے پر کیوں؟ اس لئے کہ اس نے حکومت کا مقابلہ کیاہے جوبغاوت ہے کیونکہ سکہ بنانا اور اسے رائج دینا صرف حکومت کاکام ہے، ایسے ہی مسائل کا اجراء صرف پیغمبرکا کام ہے امتی کا کام پیغمبری سکوں کورواج دینا ہے نہ کہ خودسکہ سازی کرناپھر جوامتی سکہ سازی کرتا ہے وہ پیغمبر کامقابلہ کرتا ہے ’’حکومت‘‘کاباغی ہے اس لئے دین میں سکہّ سازی کرنے والے (بدعتی) کی سزایہ ہے کہ اللہ رب العالمین اس کاکوئی عمل ہی قبول نہیں کرتا اورقیامت کے دن دوزخ میں جھونکا جائے گا۔
زندگی کو غنیمت جانیں آج ہرقسم کے شرکیہ عقیدوں اوربدعت کے کاموں سے توبہ کرلیں اورآئندہ پکے مومن موحد بن کرسنت خیرالوریٰ کے مطابق عمل شروع کردیں گے نبی اکرمﷺ نے فرمایا ہے کہ جس شخص نے میری سنت سے محبت کی اس نے مجھ سے محبت کی اورجس نے( سنت کواپناکر) مجھ سے محبت کی وہ جنت میں میرے ساتھ ہوگا۔
خاتم النبیین کاحکم امت کے نام:۔حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اکرمﷺ نے فرمایا’’لاتجعلوا قبری عیداً‘‘(أبوداؤد،کتاب المناسک،:باب زیارۃ القبور،۲۰۴۲ احمد۲؍۳۶۷)
میری امت خبردار!میری قبرکو میلہ گاہ نہ بنانا یعنی میری قبرپر عرس نہ کرنا، میلہ نہ لگانا، میلا د نہ کرنا، سالگرہ نہ منانا، دورحاضرکے پیروں، فقیروں ،گدّی نشینوں اور پیٹ بھرو مولویوں سے ہم با ادب پوچھتے ہیں کہ وہ داورِ محشر شافع کوثرکے حضورجواب دہی کے وقت کو سامنے رکھ کر بتائیں کہ جب سیدالکونین والثقلین کی قبرپاک پرعرس، میلہ، نذر، نیاز، سجدہ، طواف، چلہ کشی اور دعاء والتجا منع درمنع ہے، حرام اورشرک ہے توآپ لوگوں کا اپنے آباء واجداد اوربزرگوں کی قبروں پرمیلے عرس کرنے، نذروں، نیازیں اورچڑھا وؤں کے ہزاروں روپے کھانے، سادہ دل مسلمانوں کو قبروں کے طواف وسجود کرانا، اورانھیں صاحبِ قبرسے استمداد کے لئے حکم دینا، کیونکر رَوا ہوگیا؟
یادرکھیں! کہ قرآن اورسنت کی سچی بات سنانے والے ہر وہابی کی پھبتی کس کرجان چھڑانے سے قیامت کے دن جان نہیں بچے گی آہ ؂
بجھ گیا وہ شعلہ جومقصود مہر پروانہ تھا
قارئین کرام! یہ سن کرحیران وششدر ہوں گے کہ جیسے کاروباری کمپنیاں دفترکھولتی ہیں، کلرک اورایجنٹ رکھتی ہیں اوربزنس کارس یانڈنس (کاروباری خط وکتابت) کرتی ہیں بالکل اسی طرح اجمیر میں خواجہ معین الدین چُستی رحمۃ اللہ علیہ کی قبرکے سجادہ نشینوں نے بزنس لائن پردفاتر کھول رکھے ہیں، ٹائپ شدہ خطوط اورمطبوعہ اشتہاروں کے ذریعہ خواجہ معین الدین چُستی علیہ الرحمۃ کی قبرکی تجارت کا ایڈورٹائزمنٹ کیاجارہا ہے ،اجمیرکا ایک مطبوعہ خط پیش خدمت ہے ،خط کی ایک طرف اردوعبارت ہے اوردوسری طرف انگریزی زبان میں شائع کرنے والے پیر سید معشوق علی ازدرگاہ اجمیر ہیں۔
اردومیں مسلمانوں کودعوت دی گئی ہے کہ وہ رجب کے مہینے میں اجمیرآئیں کہ اس ماہ میں فریادرس بیکساں، شہنشاہ ہندوستاں خواجہ معین الدین چُستی کاعرس منعقد ہوتا ہے،اے عقیدت مندانِ خواجہ آؤ اورسرکارِ غریب نواز میں حاضر ہوکراپنی جھولیاں گوہرمقصود سے بھرلو ؂
ہردرد کی ملی ہے دواان کے نام سے دیتا ہے ہرمراد خدا ان کے نام سے
خط کی دوسری طرف انگریزی میں مسلمانوں کوبُلانے کے لئے جنتی دروازے سے گزرنے کی خوشخبری دی گئی ہے ملاحظہ ہو:
DURINGURS SHARIF THE JANNATI DARWAZA OF ROUZA
MUBARAK REMAIN SOPENES CONTINUESLY FOR SIX DAYS
عُرس شریف کے دوران میں روضۂ مبارک کا جنتی دروازہ چھ دنوں تک کھلا رہتا ہے۔
کس قدرجسارت ہے کہ ایک فرضی جنتی دروازہ بناکر لوگوں کو اس دروازے سے گزارکرجنت کا سرٹیفکٹ دیا جاتا ہے اوراس سرٹیفکٹ کی سینکڑوں روپئے فیس وصول کی جاتی ہے، شاباش سپوتو!

مہمانوں کی تکریمDec-2010

سعود اختر عبدالمنان سلفیؔ


مہمانوں کی تکریم

دین اسلام ایک فطری نظام حیات ہے ،اس نے عقائد سے لے کرحقوق ومعاملات تک تمام امور میں اپنے متبعین کی رہنمائی بڑے واضح انداز میں کی ہے، قرآنی تعلیمات و احکام کے ساتھ اللہ کے آخری پیغمبرﷺ نے خوداس پر عمل پیرا ہو کر اس کی مثال قائم فر مائی ، انھیں حقوق میں ایک حق مہمانوں کا بھی ہے جس کا تعلق حقوق العباد سے ہے ،رسول اکرمﷺ نے مہمانوں کے ساتھ حسن سلوک، ان کی عزت وتوقیر اورخدمت کرنے کی بڑی فضیلت بیان کی ہے ،ایک مقام پررسول اکرمﷺنے مہمان کی عزت واحترام اورخدمت کرنے کوجزء ایمان بتاتے ہوئے فرمایا: ’’من کان یؤمن باللہ والیوم الآخر فلیکرم ضیفہ‘‘(۱)جوشخص اللہ اوریوم آخرت پر ایمان رکھتا ہو اسے اپنے مہمان کی عزت کرنی چاہئے، دوسری جگہ ارشاد فرمایا: ’’من کان یؤمن باللہ والیوم الآخر فلیکرم ضیفہ جائزتہ... ‘‘(۲)جو شخص اللہ اوریوم آخرت پرایمان رکھتا ہو تواسے اپنے مہمان کی عزت کرتے ہوئے اس کا حق اداکرنا چاہئے، صحابۂ کرام نے عرض کیا کہ یارسول اللہﷺ !اس کا حق کیاہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ایک رات اورایک دن( یعنی اپنی بساط کے مطابق ایک دن بہترضیافت کرے) اورمہمان نوازی تین دن ہے ،اور اس سے زائد صدقہ ہے، ایک اورمقام پر آپ ﷺ نے اس شخص سے بھلائی کی نفی کی ہے جو مہمانوں کی ضیافت کے وصف سے عاری ہو،ارشاد نبوی ہے: ’’لا خیر فیمن لا یضیف‘‘۔(۳)
اللہ رب العالمین نے قرآن مجید میں بھی دومقامات پرمہمانوں کی عزت وضیافت کاذکرکیا ہے جس سے مہمانوں کی تکریم کی اہمیت ثابت ہوتی ہے، سورۂ ذاریات میں اللہ تعالیٰ نے ان مہمان فرشتوں کا
(۱)صحیح بخاری، کتاب الأدب، باب من کان یؤمن باللہ....وصحیح مسلم، کتاب الإیمان، باب الحث علی إکرام الجار والضیف ولزوم الصمت إلا من خیر۔
(۲)صحیح بخاری ،کتاب الأدب، باب إکرام الضیف وخدمتہ ایاہ بنفسہ وصحیح مسلم، کتاب اللقطۃ، باب الضیافۃ.
(۳)مسند الإمام أحمد بن حنبل ۴؍۱۵۵ علامہ البانی نے اس حدیث کو صحیح قراردیا ہے: سلسلۃ الأحادیث الصحیحۃ۲۴۳۴،وصحیح الجامع الصغیر وزیادتہ۲؍۷۴۹۲۔
کاذکرکیا ہے جوقوم لوط کو عذاب دینے کے موقعہ پرسیدنا ابراہیم علیہ السلام کے پاس انسانی شکل میں گئے تھے اور انھیں ایک صالح اولاد کی بشارت بھی دی تھی، اس موقعہ پرآپ نے ان فرشتوں کو پردیسی اور اجنبی سمجھ کر ان کی عزت وتکریم میں ایک پلا ہوا بچھڑا بھون کرپیش کیا، جس کانقشہ قرآن نے یوں کھینچا ہے: (ھل اتاک حدیث ضیف إبراہیم المکرمین إذدخلوا علیہ فقالوا سلٰما، قال سلام قوم منکرون، فراغ إلی أھلہ فجاء بعجل ثمین فقربہ إلیہم قال ألا تأکلون)(الذاریات:۲۴۔۲۷)
ترجمہ: کیاتیرے پاس ابراہیم کے معزز مہمانوں کی بات پہونچی ہے جب وہ ان کے پاس گئے توانھوں نے سلام کیا،حضرت ابراہیم علیہ الصلاۃ والسلام نے بھی جواب میں کہا سلام (اورکہا) انجانے لوگ ہیں، پھراپنے گھرکی طرف چلے اورایک پلا ہوابچھڑا (بھون کر) لائے اوراسے ان کے قریب کیا اورفرمایا تم کھاتے کیوں نہیں؟۔
دوسرے مقام پراللہ تعالیٰ نے دوسرے مہمان فرشتوں کا تذکرہ کیاہے جو خوبروانسانوں کی شکل میں حضرت لوط کے پاس ان کے قوم کی سیاہ کاریوں اورفعل شنیع کے باعث ان کی بستیوں کوالٹنے کے سلسلے میں گئے تھے اورجب بدقماش وبدطینت لوگوں نے ان کے ساتھ بھی برائی کے ارتکاب کاارادہ کیا ،تو حضرت لوط علیہ السلام نے اپنی قوم سے کہاکہ مجھے میرے مہمانوں کے بارے میں رسوامت کروارشاد ربانی ہے:
(وجاء ہ قومہ یھرعون إلیہ ومن قبل کانوا یعملون السیئات قال یٰقوم ھؤلاء بناتی ھن أطہرلکم فأتقواللہ ولاتخزون فی ضیفی ألیس منکم رجل رشید)(ھود:۷۸)
ترجمہ:لوط کے پاس ان کی قوم دوڑتی ہوئی آئی اوراس سے پہلے بھی وہ بُرائیوں کاارتکاب کرتے تھے، حضرت لوط علیہ الصلاۃ والسلام نے فرمایا: اے میری قوم !یہ میری بیٹیاں تمہارے لئے زیادہ پاکیزہ ہیں، پس اللہ سے ڈرو اورمجھے میرے مہمانوں کے بارے میں رسوانہ کرو، کیا تم میں سے کوئی بھی سمجھ دارآدمی نہیں ہے؟۔
متذکرہ بالا آیات کریمہ واحادیث شریفہ سے معلوم ہواکہ جوبھی مہمانوں کی عزت وتوقیر کرے گا وہ سرخرووبامراد اورحقیقی معنوں میں مومن ہوگا، اورجوشخص مہمانوں کے حقوق کی ادائیگی میں تغافل اورکوتاہی کرے گا اس کاایمان ناقص اورخام ہوگا ۔میرے مسلمان بھائیو!آپ کہاں ہیں اورکس چیز کے حصول میں کھوئے ہوئے ہیں ؟کیا آپ نے انبیاء کرام علیہم السلام،صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور اسلاف عظام رحمہم اللہ کے طرزعمل کو یکسر فراموش کردیا؟ وہ قرآن جواللہ کانازل کردہ بابرکت کلام اورآپ کا دستورحیات ہے، جس کی حفاظت کی خاطر اپنی جان کو قربان کرنے کے لئے تیاررہتے ہیں اور جس پر آپ کا ایمان کامل ہے وہ ببانگ دہل آپ کودرس دے رہا ہے کہ اپنے مسلمان بھائیوں کی ضیافت کرو اورگرم جوشی کے ساتھ ان کا خیرمقدم کرو ، کیا آپ نے ام سلیم اورابوطلحہ رضی اللہ عنہماکے واقعہ کو بھلادیا کہ گھرمیں سوائے بچوں کے کھانے کے کچھ اورنہیں ہے لیکن رسول اکرمﷺ کے مہمان کو گھرلے جاتے ہیں، بچوں کو بہلاپھسلاکر سلادیتے ہیں اورمہمان کوکھانا کھلادیتے ہیں، لاکھوں رحمتیں نازل ہوں ام سلیم وابوطلحہ تم پر ،کیا درس تم دونوں نے اپنے اخلاف کودیا،بہانہ سے چراغ بجھاکر مہمان کے سامنے کھانا چن دیا گیا، حضرت ابوطلحہ بھی مہمان کے ساتھ کھانے میں شریک ہوئے،لیکن بیوی کی سکھائی ہوئی ترکیب کے مطابق ہاتھ کھانے تک اور پھر منہ تک تولے جاتے مگر نوالہ نہ اٹھاتے اورنہ کھاتے، تاکہ مہمان کوکھانے کی کمی کا احساس نہ ہو۔(۱)
قارئین کرام! یہ لمحۂ فکریہ ہے ان لوگوں کے لئے جواپنے آپ کوحقیقی مسلمان،کتاب وسنت کاسچا علمبرداراور متمسک بالکتاب والسنۃ ہونے کا دعویٰ توکرتے ہیں لیکن روزمرہ کے طرز عمل سے معاملہ اس کے برعکس نظرآتا ہے، یعنی ’’دعوی ایمانی اورکام شیطانی‘‘
آج کے اس ترقی یافتہ دورمیں مہمانوں کا خندہ پیشانی سے استقبال ،بہ طیب خاطراور خوش دلی سے ان کی مہمان نوازی،وسعت واستطاعت بھر ان کے آرام وآسائش کاخیال اور ان کے ساتھ حسن سلوک تودرکنار بلکہ مشاہدہ یہ ہے کہ مہمان کو دیکھتے ہی لوگوں کے تیوربدل جاتے ہیں، ضیافت سے بچنے کی خاطر جھوٹ موٹ کے ہزاروں بہانے ڈھونڈنا شروع کردیتے ہیں، اہل خانہ کی بیماری وعدم موجودگی کا رونا رونے لگتے ہیں ۔یہ مذموم روش ہر طبقہ میں موجود ہے اور مسلمانوں کی اکثریت مہمانوں کو دیکھ کر بغلیں جھانکتی اور ان کو ’’عذاب اللہ‘‘ سمجھتی ہے، میرے خیال میں فطری بخل کے بعداس کی ایک بڑی وجہ ضیافت میں بیجا تکلف ہے، اگر لوگ سادگی پسند بن جائیں اور ضیافت کے لئے اپنی طاقت سے زیادہ خود پر بوجھ نہ ڈالیں ،اور مہمان بھی قناعت پسندی کی روش پر گامزن ہوجائیں تو بہت ممکن ہے کہ لوگ مہمانوں کو باعث زحمت نہ قرار دے کر انھیں رحمت و برکت کا سبب سمجھنے لگیں،اللہ تعالیٰ ہم سب کو مہمانوں کی تکریم اور حسب استطاعت ان کی ضیافت کی توفیق بخشے اور ہمیں بخل و کنجوسی اور تکلف و تصنع سے بھرے طرز معاشرت سے نجات دے ۔(آمین)
***
(۱) صحیح بخاری، کتاب مناقب الأنصار، باب قول اللہ عزوجل: (ویؤثرون علٰی أنفسھم ولوکان بہ خصاصۃ)وکتاب تفسیرالقرآن، باب ویؤثرون علیٰ أنفسھم۔۔۔ الآیۃ.

بے غرض،بے لوث ہرخدمت کوکرجاتی ہے ماںDec-2010

راسیہ نعیم ہاشمی


بے غرض،بے لوث ہرخدمت کوکرجاتی ہے ماں

ایک ننھا بچہ اپنی ماں کے پاس باورچی خانے میں آیاجہاں وہ شام کاکھانا بنارہی تھی اوراسے ایک چٹھی حوالے کی،ماں نے چھٹی کھول کر پڑھی لکھاتھا:

*لان کی گھاس کاٹنے کے لئے.............................................۵روپئے

*کمرے کی صفائی کے لئے.................................................۵روپئے

*سوداسلف لاکردینے کے لئے.............................................۵روپئے

*آپ کی غیر موجودگی میں چھوٹے بھائی کی نگرانی کرنے کے لئے......۱۰روپئے

*امتحان میں اچھے نمبرات لانے کے لئے.................................۱۰ روپئے

جملہ................... .................................۳۵روپئے

ماں نے صفحہ پلٹا اوراس کے اوپرلکھا:

*تمہاری بیماری آزاری میں تمہارے لئے راتوں میں جاگنے ،تیمارداری کرنے اورتمہارے لئے دعائیں مانگنے کے لئے..................کوئی معاوضہ نہیں۔

*تمہاری نافرمانیوں کی وجہ سے مجھے پہنچنے والی تکالیف کے لئے....کوئی معاوضہ نہیں۔

*خوف سے بھری راتوں میں اپنی بانہوں کے محفوظ سہاروں سے تمہیں پُرسکون رکھنے کے لئے ..........کوئی معاوضہ نہیں۔

*تمہارے کھلونے ،کپڑوں اورکھانے کاخیال رکھنے کے لئے ......کوئی معاوضہ نہیں۔

*......توان تمام کوجمع کرنے کے بعدمیری محبتوں اورخدمتوں کے لئے......کوئی معاوضہ نہیں

بچے نے جب ماں کی تحریر پڑھی تواس کی آنکھوں سے آنسورواں ہوگئے، وہ ماں سے لپٹ گیا، اس نے قلم اٹھایا اورکاغذپرلکھا:
اس بے لوث پیار کابے حد شکریہ جس کااحسان زندگی بھرچکایانہ جاسکے گا۔
یقیناًدنیامیں جتنے بھی رشتے ہیں ان سب میں ایک دوسرے کے لئے کوئی نہ کوئی غرض چھپی ہوتی ہے لیکن صرف ماں اورباپ کی محبت ہی بے غرض ہوتی ہے، خاص کرماں وہ ہستی ہوتی ہے جوکسی صلہ کی امید سے بے نیاز اپنی بے غرض وبے لوث چاہت لٹاتی رہتی ہے، جب کہ بچے ہردورمیں اس کے احسان کے بدلے میں ہمیشہ اسے تکلیف سے ہمکنار کرتے ہیں
جب چھوٹے ہوتے ہیں توچھوٹی چھوٹی نافرمانیاں اس کی دل آزاری کاسبب بنتی ہیں، نوجوانی میں اپنی من مانی کرکے اسے تکلیف پہنچائی جاتی ہے اورپھرجب وہ خودمختار ہوجاتے ہیں اورماں بوڑھی ہوجاتی ہے توگویا اس کی کوئی حیثیت ہی نہیں رہتی، چھوٹی چھوٹی ضرورتوں کے لئے اسے اپنے بچوں کے آگے ہاتھ پھیلانا پڑتاہے، کبھی تواس کی ضرورتوں کونظرانداز کردیاجاتاہے، اگرضرورتیں طوعاً وکرہاً پوری کربھی دی جائیں توایسے جیسے بہت بڑا احسان کیاجارہا ہو،کبھی اس کی چھوٹی موٹی خواہشات پوری کرنے کے لئے پیسہ نہیں ہوتا ،توکبھی اس کے پاس بیٹھ کر دلجوئی کرنے کے لئے وقت نہیں ملتا۔
ماں کی عظمت کو محض تحریروں وتقریروں کے ذریعہ بیان کرنے کا طریقہ کافی پراناہوچکاہے، ماں کی عظمت کس درجہ ہے یہ توآپ سب ہی جانتے اورمانتے ہوں گے لیکن صرف جان لینے یادل میں مان لینے سے بات نہ بنے گی، اب کی بار’’مدرس ڈے‘‘کے موقع پر اس عظیم ترین ہستی کے احسان کے بدلہ میں اسے یہ احساس دلائیں کہ آپ کو اس کی عظمتوں کااعتراف ہے، یہ صرف کہنے سے نہیں ہوگا،بلکہ اسے عمل کے ذریعہ ثابت کرکے دکھائیں، سب سے پہلے اپنی ماں کے احکام کوبلاچوں وچرابجالائیں، ان کی نافرمانی نہ کریں، اعلیٰ تعلیم حاصل کرکے ان کاسہارا بننے کی کوشش کریں، جب آپ اپنے پیروں پرکھڑے ہوجائیں تو انھیں بے سہارانہ کریں اورنہ ہی ملازماؤں وغیرہ جیسی بیساکھیوں کے حوالے کریں، ان کا اسی طرح سہارا بنیں جس طرح بچپن ولڑکپن میں وہ آپ کا سہاراہوا کرتی تھیں، کوئی ایسی بات نہ کریں جوان کی دل آزاری کا سبب بنتی ہو، حتی الامکان انھیں خوش رکھنے کی کوشش کریں، یادرکھیں ماں کی خوشنودی پرہی دنیا وآخرت کی کامیابی کادارومدار ہے کیونکہ ماں کی دعاؤں کی بدولت ہی آپ دنیا میں کامیابی حاصل کرپائیں گے اورجہاں تک آخرت میں کامیابی کاسوال ہے توجنت توہے ہی ماں کے قدموں کے نیچے!
ہرعبادت، ہرمحبت میں نہاں ہے اک غرض
بے غرض، بے لوث ہرخدمت کوکرجاتی ہے ماں

ماہ محرم اوریوم عاشوراءDec-2010

مولاناوصی اللہ عبدالحکیم مدنی
استاد کلیہ عائشہ صدیقہ،کرشنانگر

ماہ محرم اوریوم عاشوراء سے متعلق
ضعیف و موضوع روایات

ہجری سال کاپہلامہینہ محرم الحرام ہے ،اس مہینے میں ہمارے نبیﷺ نے نفلی روزوں کے علاوہ کسی اورچیز کااہتمام کیاہے اورنہ ہی اپنے اصحاب کوکرنے کاحکم ہی دیا ہے، اکثرخطباء ملت اورواعظین قوم جواپنے سینے کے زورسے اس مہینے کے فضائل ومناقب بیان کرتے ہیں ان کی تقریروں کا درومدار امت میں منتشر ضعیف اورموضوع روایات ہیں جنھوں نے بدعتوں کوسنتوں میں تبدیل کردیاہے، متقدمین ومتاخرین محدثین کرام بالخصوص علامہ ابن الجوزی اورامام البانی نے ان حدیثوں کواپنی اپنی کتابوں میں تفصیل سے بیان کیاہے افادۂ عام واصلاح کی خاطر ان میں سے بعض مشہور احادیث پیش خدمت ہیں:
*حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہﷺ کا ارشاد گرامی ہے ’’من صام یوم عرفۃ،کان لہ کفارۃ سنتین،ومن صام یوما من المحرم فلہ بکل یوم ثلاثون یوما‘‘-
جس نے عرفہ کے دن روزہ رکھا تویہ اس کے لئے دوسال کا کفارہ ہوگا اورجس نے ماہ محرم کے ایک دن کا روزہ رکھا تواس کا ہردن تیس دن کے برابر ہوگا۔
اس حدیث کو امام طبرانی نے ’’المعجم الصغیر‘‘میں روایت کیاہے اوربقول امام منذری ’’وھوغریب واسنادہ لاباس بہ‘‘یہ حدیث غریب ہے اوراس کی اسناد میں کوئی مضائقہ نہیں ہے۔ (یعنی ان کا اشارہ اسناد حدیث کی توثیق کی جانب ہے)
محدث عصرعلامہ محمدناصرالدین البانی نے امام منذری کے اس حکم پر تعاقب کرتے ہوئے اپنی کتاب ’’ضعیف الترغیب والترھیب، (۱؍۳۱۲)‘‘میں اسے موضوع قراردیتے ہوئے فرماتے ہیں کہ ’’ھذا خطاء فاحش لاادری کیف وقع لہ؟....‘‘یہ امام منذری کی بہت بڑی غلطی ہے مجھے یہ نہیں معلوم کہ وہ اس غلطی کے کیسے شکارہوگئے ،جب کہ اس حدیث کی سند میں ’’سلام الطویل‘‘کذاب اور ’’لیث بن ابی سلیم‘‘جیسے مختلط راوی موجودہیں....‘‘۔
*حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مرفوعا مروی ہے کہ ’’من أوسع علی عیالہ وأھلہ یوم عاشوراء ،أوسع اللہ علیہ سائر سنتہ‘‘جوشخص عاشوراء کے دن اپنے اہل وعیال پر(کھانے میں)کشادگی کرے گا تواللہ تعالیٰ اس پرپورے سال کشادگی کرے گا۔
اس حدیث کوامام بیہقی نے کئی سندوں سے روایت کیاہے اوراس حدیث کی استنادی حیثیت کوبیان کرتے ہوئے کہتے ہیں ’’وھذہ الأسانید وإن کانت ضعیفۃ،فھی اذاضُم بعضھا إلی بعض اخذت قوۃ‘‘یعنی یہ تمام سندیں گرچہ ضعیف (کمزور)ہیں لیکن ایک دوسرے کوملانے سے تقویت ہوجاتی ہے۔
شیخ البانی نے اس حدیث کو’’ضعیف‘‘کہاہے اوراس کی وارد تمام سندوں کے بارے میں کہاہے کہ ’’وطرقہ کلھا واھیۃوبعضھا اَشدضعفا من بعض‘‘یعنی اس کی تمام سندیں واہی (کمزور)ہیں اوربعض سندیں ضعف کے اعتبارسے شدید ہیں۔(الضعیفۃ:۶۸۲۴)
*معلوم یہ ہواکہ مجردکثرت طرق کی بناء پربعض اہل علم کااسے حسن کہنا اوراس پرعمل کرنے کی عام دعوت دینا درست نہیں ہے۔
*خطباء اورواعظین قوم کی زبان زد حدیث ’’وَھُوَ الْیَوْمُ الَّذِیْ استَوَتْ فِیْہِ السَّفِیْنَۃُ عَلَی الْجُودِیِّ فَصَامَہُ نُوْحٌ شُکْرًا‘‘یوم عاشوراء وہ دن ہے جس میں کشتی نوح علیہ السلام جودی پہاڑی پر ٹھہری تھی، چنانچہ حضرت نوح علیہ السلام نے شکرانے کے طورپر اس دن کا روزہ رکھا۔
اس حدیث کوامام احمدنے اپنی مسند (۱۴؍۳۳۵)میں روایت کیا ہے لیکن سلسلہ اسناد میں ایک راوی عبدالصمد بن حبیب ہے جوکہ ضعیف ہے اوردوسرا راوی شبیل بن عوف ہے جوکہ مجہول ہے۔
* ’’وَفِیْ یَوْمِ عَاشُوْراءَ تَابَ اللّٰہُ عَزَّوَجَلَّ عَلیٰ أدَمَ عَلَیْہِ السَّلَامُ وَعَلٰی مَدِیْنَۃِ یُوْنُسَ، وَفِیْہِ وُلِدَ اِبْرَاہِیْمُ عَلَیْہِ السَّلَامُ‘‘
یوم عاشوراء کواللہ نے حضرت آدم کی توبہ قبول کی، اسی طرح یونس علیہ السلام کے شہروالوں پربھی اللہ تعالیٰ نے اسی دن خصوصی توجہ فرمائی اوراسی میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کی پیدائش ہوئی۔
اس حدیث کوامام طبرانی نے روایت کیاہے اوراس کی سند کے بارے میں امام ہیثمی نے (مجمع الزوائد ۳؍۱۸۸)میں لکھتے ہیں کہ اس میں ایک راوی ’’عبدالغفور‘‘ہے جوکہ متروک ہے۔
*حضرت ابن عباس مرفوعاً بیان کرتے ہیں ’’صُوْمُوْا یَوْمَ عَاشُوْرَاءَ ،وَخَالِفُوْا فِیْہِ الْیَھُوْدَ، وَصُوْمُوْا قَبْلَہُ یَوْماً اَوْبَعَدَہُ یَوْماً‘‘تم یوم عاشوراء کا روزہ رکھو اور اس میں یہود کی مخالفت کرو اوراس سے ایک دن پہلے یااس کے ایک دن بعدکا روزہ رکھو۔
اس حدیث کو امام احمدنے اپنی( مسند۱؍۲۴) اوربیہقی نے ’’السنن الکبریٰ ۴؍۲۸۷) میں روایت کیاہے اس کی سندمیں ابن ابی لیلیٰ اورداؤد بن علی دونوں راوی ضعیف ہیں،البتہ امام احمد شاکر کی تحقیق کے مطابق اس کی اسناد صحیح ہے جیساکہ شیخ محترم ڈاکٹر حافظ محمداسحاق زاہد مدنی ؍حفظہ اللہ نے اپنی کتاب ’’زادالخطیب‘‘(۱؍۸۰)میں نقل کیاہے۔واللہ اعلم بحقیقۃ الحال

جامعہ کے روزوشبDec-2010

مولاناوصی اللہ مدنی
جماعت وجامعہ
جامعہ کے روزوشب

جامعہ سراج العلوم میں ایک علمی ودعوتی وفدکی تشریف آوری:

مورخہ یکم دسمبر ۲۰۱۰ء ؁ بروزبدھ جماعت اہل حدیث کے نامور عالم دین ،محقق،مفکر اورعربی ماہنامہ’’الإستقامۃ‘‘ و اردو مجلہ ’’الاحسان‘‘ کے مدیرمسؤل جناب مولانا عبدالمعید مدنی؍حفظہ اللہ، صوبائی جمعیت اہل حدیث ممبئی عظمیٰ کے ناظم جناب مولاناسعیداحمد بستوی ؍حفظہ اللہ، اورممبئی سپریم کورٹ کے وکیل جناب این.بی. قاضی پر مشتمل ایک دعوتی وفدکی تشریف آوری جامعہ میں ہوئی،شیخ الجامعہ مولانا خورشید احمد سلفیؔ ،وکیل الجامعہ مولانا عبد المنان سلفی اور جامعہ کے بعض سینئر اساتذۂ کرام نے وفد کا پرتپاک استقبال کیا، قلت وقت کے پیش نظر مدرسہ خدیجۃ الکبریٰ کے استاد جناب مولانا مطیع اللہ مدنی اورجامعہ کے دفتری ماسٹرعبدالحسیب صاحبان کے ہمراہ وفد نے ’’خطیب الاسلام رحمانی کمپلیکس‘‘ اورجامعہ کی نسواں شاخ کلیہ عائشہ صدیقہ کا معائنہ کیا اور وہاں کی تعلیمی وتعمیری سرگرمیوں کا سرسری جائزہ لینے کے بعداپنی بے پایاں مسرت کااظہارفرمایا،مغرب کی نماز جامعہ کی عالیشان مسجد میں ادافرمائی ،نماز سے فارغ ہونے کے معاً بعد مسجد ہی میں ایک مجلس کا اہتمام کیاگیا ،جس میں مہمانان گرامی نے عندلیبان جامعہ اورمصلیان کرام کے سامنے اپنے گراں قدرنصیحتی کلمات اور قلبی احساسات وتاثرات پیش فرمائے، سب سے پہلے مولاناسعید احمدبستوی نے نہایت ہی اختصارمگرجامع اندازمیں علم دین کے حصول کی اہمیت وافادیت پرروشنی ڈالتے ہوئے جامعہ کے طلبہ کو علم کی راہ میں مزید بادیہ پیمائی اورصحرا نوردی کی تاکیدکی،بعدازاں جماعت کے مایہ نازعالم دین،بے باک صاحب زبان وقلم شیخ عبدالمعید مدنی نے خطاب کیا، آپ نے اپنے خطاب میں مسلم معاشرہ میں پنپنے والی بعض مہلک بیماریوں کی تشخیص کی اورصالح معاشرہ کی تشکیل میں بابصیرت علماء ودعاۃ کے کلیدی کردار کو اجاگر کیا ،نیزعملی میدان میں کوتاہ اہل علم حضرات کو ان کی تمام تر ذمہ داریوں کا احساس دلایا اوراحساس کمتری اورکہتری میں مبتلا طالبان علوم نبوت کو زیورعلم وعرفاں سے آراستہ ہونے ،کتاب وسنت کی لازوال تعلیمات کو عام کرنے ،مثالی معمار قوم بننے اورسلف صالحین کے تابندہ نقوش پرچلنے کی پُرخلوص دعوت دی،اس کے بعد وفد کے تیسرے معزز رکن ایڈوکیٹ جناب این .بی .قاضی نے دینی تعلیم کے ساتھ امکانی حدتک عصری تعلیم کی ضرورت اوروضعی قوانین کی معرفت کی طرف توجہ دلائی، اس کے بعد مجلس کے اختتام کا اعلان کیا گیا، چائے نوشی اورجامعہ کے نشاطات پر مختصر گفتگو کے بعد مہمانان گرامی نے جناب مولانا عبدالمنان سلفی (وکیل الجامعہ) کے ہمراہ ان کے والد گرامی، مفتئ جامعہ استاد محترم مولانا عبدالحنان صاحب فیضی؍حفظہ اللہ وتولاہ کی زیارت وعیادت کی، آپ نے اپنے ان مہمانوں کا دعاؤں کے ساتھ خیرمقدم کیا اور اپنی صحت یابی کے لئے دعا کی درخواست کی۔
(محترم شیخ عبد المعید مدنی حفظہ اللہ کا یہ خطاب بڑا وقیع تھا جو ریکارڈ کرلیا گیا ہے، ان شاء اللہ افادۂ عام کے لئے کسی قریبی اشاعت میں اسے شائع کیا جائے گا)

امتحان ششماہی:۔

جامعہ سراج العلوم السلفیہ اور کلیہ عائشہ صدیقہ میں ششماہی امتحان ۲۰؍ محرم الحرام ۱۴۳۲ھ مطابق ۲۷؍ دسمبر ۲۰۱۰ شروع ہو کر ۳۰؍ محرم الحرام ۱۴۳۲ھ مطابق ۶؍ جنوری ۲۰۱۱ء اختتام پذیر ہوگا، اس کے بعد امتحان ششماہی اور موسم سرما کی مناسبت سے ۲۱؍ جنوری ۲۰۱۱ء تک عام تعطیل رہے گی ، جامعہ میں دوبارہ تعلیمی سلسلہ ۲۲؍ جنوری ۲۰۱۱ء سے شروع ہوگا، ان شاء اللہ۔ طلبہ و طالبات کو وقت پر جامعہ پہونچنے کی ہدایت کی گئی ہے۔



وفیات:

مولانامحمدہارون سلفی کی اہلیہ کا انتقال:

مرکز امام احمدبن حنبل الاسلامی تولہوا(نیپال) کے رئیس جناب مولانامحمد ہارون سلفی کی اہلیہ کم وبیش تین مہینہ کی علالت کے بعد دوران علاج مورخہ ۹؍دسمبر ۲۰۱۰ء ؁ بروزجمعرات ممبئی میں انتقال کرگئیں، اناللہ واناالیہ راجعون۔
مرحومہ صوم وصلاۃ کی پابند، خوش سلیقہ ،کشادہ دست اورسوجھ بوجھ رکھنے والی پاکباز خاتون تھیں، ادھرکچھ عرصہ سے انھوں نے تن تنہا گھریلو ذمہ داریاں انتہائی خوش اسلوبی سے سنبھال رکھی تھیں اورملک کے سیاسی حالات خراب ہونے اورماؤنوازوں کی جانب سے خطرات بڑھنے کے باوجود تمام اندیشوں کوبالائے طاق رکھ کروہ اپنے گھربیدولی میں گھرکے افراد کے بغیر مقیم رہیں اوراپنے تمام کاموں کو فرض شناسی اوراحساس ذمہ داری سے انجام دیتی رہیں۔
اللہ تعالیٰ ان کی مغفرت فرمائے اورجملہ پسماندگان کو صبرجمیل کی توفیق بخشے۔(آمین)

اللھم اغفرلھا وارحمھا وعافہا و اعف عنہا