Friday, April 22, 2011

علامہ محمدرئیس ندوی پرآل انڈیا علمی سمینار

علامہ محمدرئیس ندوی پرآل انڈیا علمی سمینار
قرآن مجید کی بے حرمتی ناشائستہ،غیرمہذب اورمفسدانہ حرکت ۔۔ عبد المنان سلفیؔ

ضلعی جمعیت اہل حدیث سدھارتھ نگر کے زیراہتمام خیر ٹیکنیکل سینٹر کے کانفرنس ہال میں علامہ محمدرئیس ندوی رحمہ اللہ کی حیات وخدمات پر منعقدہ دوروزہ آل انڈیا علمی سمینار۲۰؍اپریل کو شروع ہوکر ۲۱؍اپریل کوکامیابی کے ساتھ ختم ہوگیا، افتتاحی نشست کی صدارت ام القریٰ یونیورسٹی مکہ مکرمہ کے پروفیسر اورحر م شریف کے مفتی ومدرس ڈاکٹرشیخ وصی اللہ محمدعباس نے کی اورنظامت کی ذمہ داری سمینارکے کنوینرمولاناعبدالمنان سلفی نے نبھائی۔ضلعی جمعیت اہل حدیث سدھارتھ نگر کے ناظم مولانا محمدابراہیم مدنی نے خطبۂ استقبالیہ میں مہمانوں کاخیرمقدم کرتے ہوئے سمینارکی اہمیت اورمقصد پرروشنی ڈالی، ڈاکٹروصی اللہ محمدعباس نے اپنے صدارتی خطاب میں علامہ ندوی کی گراں قدرعلمی وتدریسی خدمات کوخراج تحسین پیش کرتے ہوئے فرمایا کہ ’’مولاناہندوستان کے علامہ عبدالرحمن یحیٰ معلمی تھے، انھوں نے پوری زندگی تصنیف وتالیف ترجمہ وتحقیق اوردرس وتدریس میں گذاردی اور محنت وجانفشانی میں اسلاف کا نمونہ پیش کیا‘‘، سمینارکے مہمان خصوصی اورمرکزی جمعیت اہل حدیث ہند کے ناظم عمومی مولانا اصغرعلی امام مہدی سلفی نے اپنے افتتاحی خطاب میں علامہ ندوی کی علمی خدمات کے بعض اہم گوشوں پرروشنی ڈالتے ہوئے کہاکہ’’ ان کے اندر سلفی غیرت اورمنہجی تڑپ کوٹ کوٹ کربھری تھی، ان کی وفات سے علم وتحقیق کی بزم سونی ہوگئی‘‘، مولانا عبدالسلام رحمانی، ڈاکٹر عبدالرحمن لیثی، ڈاکٹرعبدالباری خاں، مولانا مختاراحمد مدنی اورمولانا شبیراحمد مدنی وغیرہم نے بھی اپنے تاثراتی خطاب میں علامہ ندوی کی خدمات کو زبردست خراج عقیدت پیش کیا، ہندوبیرون ہند سے تشریف لانے والے جن اصحاب قلم نے علامہ ندوی کی حیات وخدمات سے متعلق اہم موضوعات پرمقالات پیش کئے ان میں مولانا رفیق احمدسلفی(دہلی) مولانا عبدالحکیم مدنی(ممبئی)مولانا نورالہدیٰ سلفی(بنارس)مولانا عبدالرزاق(دبئی) مولانامحمدمظہراعظمی(مؤ)ڈاکٹرلیث محمدمکی (سدھارتھ نگر) قابل ذکرہیں۔
۲۱؍اپریل کو ۸؍بجے سے ۱؍بجے دوپہرتک چلنے والے طویل سیشن کی صدارت جامعہ سلفیہ بنارس کے صدرمولانا ڈاکٹرجاوید اعظم بنارسی نے کی اورمولانا مطیع اللہ مدنی ،مولاناعبدالمنان سلفی، مولانامطیع اللہ سلفی نے مشترکہ طورپرنظامت کی ذمہ داری انجام دی، اس مجلس میں جن اہل قلم دانشوروں نے مقالات پیش کئے ان میں مولانامحمدمستقیم سلفی(بنارس) مولاناشریف اللہ سلفی(مؤ)مولاناخورشیداحمدسلفی (جھنڈانگر)مولاناعبدالمنان سلفی(جھنڈانگر) مولانامطیع اللہ مدنی (جھنڈانگر)مولانااحمدمجتبیٰ(دہلی)مولاناابوالعاص وحیدی(بلرام پور) مولاناوصی اللہ مدنی(جھنڈانگر) مولاناجنیداحمد مکی(بنارس) مولانا سعود اختر سلفی (جھنڈانگر) مولانامحمدجعفر ہندی(سنت کبیرنگر)مولاناعبدالحفیظ ندوی(ڈمریاگنج) مولاناعبدالحق سلفی(سدھارتھ نگر)مولانامطیع اللہ سلفی (سدھارتھ نگر) مولانا عبد الصمد سلفی (راجستھان) مولاناعزیراحمد کتاب اللہ سلفی(ڈمریاگنج)مولانامحمدصہیب سلفی قابل ذکرہیں۔
ڈاکٹرجاوید اعظم نے اپنے صدارتی خطاب میں علامہ ندوی کی اہم علمی وتحقیقی خدمات پرروشنی ڈالتے ہوئے ان کی دوعظیم الشان کتابوں ’’اللَّمحات‘‘ اور’’ضمیرکابحران‘‘ کاقدرے تفصیل سے جائزہ لیا اوران دونوں کتابوں کی اہمیت اجاگر کی اورعلماء وطلبہ کو نصیحت فرمائی کہ مولانا کے نقش قدم پر چلتے ہوئے اتباع سنت اوردفاع سنت کا فریضہ انجام دیں، سمینار کے کنوینرمولانا عبدالمنان سلفی نے پروگرام کے آخرمیں قراردادوتجاویز پیش کیں اور اعلان کیا کہ جلد ہی ان مقالات کو کتابی شکل میں شائع کرنے کی کوشش کی جائے گی، مولانامحمدابراہیم مدنی نے شرکاء کاشکریہ اداکیا، اس کے بعدصدرمجلس کے ہاتھوں مقالہ نگارحضرات کویادگارتحائف بیگ ،ڈائری، قلم وغیرہ دئے گئے اور۱؍بجے دوپہرسمینار کے اختتام کا اعلان کیاگیا، جومقالہ نگارحضرات کسی سبب سے سمینارمیں شریک نہ ہوسکے انھوں نے اپنے مقالات ای.میل.کے ذریعہ ارسال کردیئے ہیں، اس طرح یہ سمینار بھرپور کامیابی سے ختم ہوا اور تمام شرکاء نے اسے سراہا۔
سمینار کے اختتام پر دس نکاتی اعلامیہ منظورکیاگیا جس میں بعض یورپی ممالک اورہندوستان کے کچھ علاقوں میں قرآن مجید کی بے حرمتی اوراسے نذرآتش کرنے پرتشویش کااظہارکرتے ہوئے اس کی شدید مذمت کی گئی، اسے ناشائستہ، غیرمہذب اوربزدلانہ حرکت قراردیاگیا، اورعالمی وملکی حکمرانوں سے اس گھناؤنے حرکت کوانجام دینے والوں کے خلاف سخت کارروائی کامطالبہ کیاگیا، تجاویز وسفارشات میں دنیا میں پھیلی دہشت گردی اوربدامنی پربھی تشویش کااظہارکیاگیا اوراس سلسلہ میں بلاثبوت مسلمانوں کوموردالزام ٹھہرانے کی عالمی پالیسی کو اسلام اورمسلمانوں کے خلاف سازش قراردیتے ہوئے اس منفی رویہ کے سدباب کے لئے عالمی طاقتوں سے اپیل کی گئی، علامہ ندوی پر ہوئے اس سمینار کو ضروری بروقت اورکامیاب بتاتے ہوئے علامہ ندوی کی مطبوعہ وغیرمطبوعہ کتابوں کی طباعت واشاعت کے لئے ایک اکیڈمی کے قیام اورضلع سدھارتھ نگر کے علماء اہل حدیث کاتذکرہ مرتب کرنے کی ضرورت پربھی قرارداد منظورکی گئی۔
***

Wednesday, April 13, 2011

Jan.feb-2011-شعریات اقبال کے ارتقائی مراحل

ادبیات
راشد حسن فضل حق مبارکپوری
متعلم جامعہ سلفیہ،بنارس
شعریات اقبال کے ارتقائی مراحل

حیات اقبال

قرآن کریم نے شاعرکی حیثیت وحقیقت پرقَلَّ مادل کے مصداق نہایت جامع تجزیہ کیاہے، اس کی وجہ یہ تھی کہ مخالفین آپ  کو شاعر اورمجنوں کہاکرتے تھے، وہ کیوں نہ کہتے کہ قرآن میں شاعری کی اعلیٰ ترین خوبیاں بدرجۂ کمال موجود تھیں، کنائے، استعارے، تشبیہیں، محاورات وتعبیرات، مسجع ومقفیٰ عبارتیں، دل نشیں اسلوب، دلکش انداز بیان سے اس کی آیتیں آراستہ وپیراستہ تھیں، قرآن مجید نے شعر وشاعری پر تنقید کی، لیکن اچھے شاعروں کی مدح سرائی بھی کی ہے، جوایمان ،عمل صالح کے پیکر اورذکر کثیر کرنے والے ہوں، جوشاہیں مزاج اورمومنانہ جذبات سے متصف ہوں، نبی شاعرتونہیں تھے، مگراچھے اشعارکے قدرداں ضرورتھے، شاعررسول حضرت حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ، امام شافعی رحمہ اللہ، حافظ ابن حجر کے الگ الگ دواوین ہماری بات کو مزید پختہ کررہے ہیں، امرؤ القیس پراللہ کے رسول  کی تنقید ’’اشعرالشعراء وقائدھم إلی النار‘‘کامطلب یہ تھاکہ شاعری کی تمام خوبیوں کے باوصف ایک شاعرایمان وعمل سے عاری بھی ہوسکتا ہے، اس قسم کے شعراء بے شمار ولاتعداد ہیں، لیکن قرآن کی میزان پرکھرے اترنے والے شعراء کو انگلیوں پرگناجاسکتا ہے، عطار ، رومی ، حالی ، سعدی ، اوراقبال بقیہ بیشتر شعراء کامعیار وہی ہے ،جس پہ قرآن نے نکیر کی ہے۔
اقبال کے افکار ونظریات کے تنوع وبوقلمونی کی کوئی حدنہیں، اس بحرذخّار کو ایک کوزے میں بند کرنا نہایت مشکل کام ہے، اب ہم مختصراً ’’حیات اقبال‘‘ پرروشنی ڈالیں گے، تاکہ فنکارکی زندگی سامنے ہو، اورافکار سمجھنے میں مددملے۔
*سرزمین کشمیر کا سرہمیشہ فخرسے اونچارہے گا،کہ اس نے فطری مناظر کے برگ وبارکی پرداخت کے ساتھ ایک ایسے برہمن خانوادے کو اپنی آغوش شفقت میں پالا ہے، جس کی شاخوں سے ایسا گل نمودار ہوا، جس نے دبستان علم وفن کواپنی خوشبو سے معطر اوراپنی وسعت فکر ونظرسے مردہ دلوں میں زندگی کی روح پھونک دی، جس سے آگے چل کر دنیا شاعر مشرق علامہ ڈاکٹر سرمحمد اقبال کے نام سے آشنا ہوئی، اقبال کو اپنی برہمن زادگی پرفخر نہیں تھا، بلکہ جوکچھ ان کوورثے میں ملاتھا، اس پرفخر تھا(۱)چنانچہ پطرس بخاری کو مخاطب کرتے ہوئے کہاتھا(۲)
میں اصل کاخاص سومناتی آبامیرے لاتی ومناتی
توسیدھا ہاشمی کی اولاد میرے کفِ خاک برہمن زاد
ہے فلسفہ میرے آب وگل میں پوشیدہ ہے ریشہ ہائے دل میں
کشمیر ہی میں برہمن خانوادے کا ایک خوش بخت شخص ۱۵ویں صدی میں مشرف بہ اسلام ہوا، جس کی اولاد میں ایک فردمحمد رفیق نامی تھا، جسے اقبال کا جدامجد ہونے کا شرف حاصل ہے، بعض نامساعد حالات نے ترک وطن پر مجبور کیا، چنانچہ’’سیالکوٹ‘‘کا بودوباش کے لئے انتخاب ہوا، ڈاکٹراقبال کے والد شیخ نورمحمد بہت زیادہ اللہ والے، نیک طبیعت، صالحیت پسند اورتقویٰ شعارتھے، مذہبی دیانتداری، واخلاقی پاکیزگی کے سبب قدرکی نگاہ سے دیکھے جاتے تھے، تصوف کا خمیران کے رگ وپے میں پیوست کرگیاتھا، چنانچہ اقبال جاوید کو مخاطب کرتے ہوئے اسی کی طرف اشارہ کرتے ہیں
غارت گرد یں ہے یہ زمانہ ہے اس کی نہاد کا فرانہ
جس گھرکا مگرچراغ ہے تو ہے اس کا مذاق عارفانہ (۳)
ڈاکٹر صاحب کے والد شیخ نورمحمد کے دل میں اسلام سے کس درجہ محبت تھی، اس کا اندازہ ایک اقتباس سے ہوتاہے، مولانا عبدالسلام ندویؔ نے اقبال کی زبانی ایک واقعہ نقل کیاہے:
’’جب میں سیالکوٹ میں پڑھتا تھا، توصبح اٹھ کر روزآنہ قرآن پاک کی تلاوت کرتا تھا، والد محترم اپنے اورادووظائف سے فرصت پاکر آتے، اورمجھے دیکھ کر گذرجاتے، ایک دن صبح کو میرے پاس سے گذرے، توفرمایا کبھی فرصت ملی تو تم کو ایک بات بتاؤ ں گا، بالآخر انھوں نے ایک مدت کے بعد یہ بات بتائی، اورایک دن صبح جب میں حسب دستور قرآن کی تلاوت کررہاتھا، تووہ میرے پاس آئے، اورفرمایا: بیٹا!کہنایہ تھاکہ جب تم قرآن پڑھو تویہ سمجھ کر پڑھو کہ یہ قرآن تم ہی پراتراہے، یعنی اللہ تعالیٰ خود تم سے ہم کلام ہے، (۴)اسی پس منظر کاایک شعر واقعہ کی یاد دلاتا ہے
تیرے ضمیر پہ جب تک نہ ہونزول کتاب
گرہ کشاہے نہ رازی نہ صاحب کشاف
آپ کی والدہ بھی پاکیزہ طبیعت،عبادت گذار خاتون تھیں، ڈاکٹر صاحب کی تربیت میں بڑانمایاں کرداررہا ہے، اقبال نے بھی اپنی والدہ کے غم میں بڑافکر انگیز ودردوکرب سے لبریز مزید برآں ان کی خوبیوں کے تذکرے کے ساتھ ایک طویل مرثیہ لکھاہے،چنانچہ تربیت اوران کی نیکی کی طرف اشارہ ہے
تربیت سے تیری میں انجم کا ہم قسمت ہوا گھرمیرے اجداد کا سرمایۂ عزت ہوا
دفترہستی میں تھی زرّیں ورق تیری حیات تھی سراپا دین ودنیا کا سبق تیری حیات
آخرمیں اپنی دعاؤں سے مرثیہ کااختتام کرتے ہیں
مثل ایوان سحر مرقد فروزاں ہوتیرا نورسے معمور یہ خاکی شبستاں ہوتیرا
آسماں تیری لحد پہ شبنم افشانی کرے سبزۂ نورستہ اس گھرکی نگہبانی کرے (۵)
اقبال کے آباء انیسویں صدی کے آغاز میں سیالکوٹ آئے، اقبال کے جدامجد محمدرفیق سیالکوٹ کے محلہ کھٹیکاں کے ایک مکان میں فروکش ہوئے، یہ وہ دور تھا، جب کہ راجہ رنجیت سنگھ نے سیالکوٹ پر(۱۸۰۷ء) حملہ کرکے قبضہ جمالیاتھا، اقبال بن نورمحمد بن محمد رفیق بن جمال الدین سیالکوٹ کی سرزمین پر۳ذی قعدہ ۱۲۹۴ھ  مطابق ۹نومبر ۱۸۷۷ء  میں پیداہوئے۔ (۶)
اقبال کو اوج کمال تک پہونچانے میں گھرکے ماحول نے غیرمعمولی کردار اداکیا، اس کے علاوہ آغاز ہی میں آپ کو ایک باصلاحیت ،زبان وادب سے روشناس اوراس کا عمدہ مذاق رکھنے والا استاد ملا، اوراس نے اقبال پر زبان و ادب کاگہرا نقش چھوڑا، فکرونظر کوجلاملی، مولوی سید حسن سے پہلے مولوی غلام حسین سے ابتدائی تعلیم کا سفرشروع ہواتھا، لیکن مولوی میرحسن سے والد کے دیرینہ تعلقات کی بناپر مکتب کے استاد مولوی میرحسن قرارپائے، مولوی میرحسن اس زمانہ میں زبان وادب،اسلامیات وتصوف کے جیدعالم مانے جاتے تھے، ان کوعربی،فارسی، اردوکے بیش بہااوربے شمار اشعارلب زبان رہتے تھے، وہ عام مذہبی علماء کی طرح خشک مزاج نہ تھے، بلکہ خوش اخلاقی، وسعت قلب ونظر، علم میں گیرائی، میدانِ تدریس میں مہارت کے ساتھ خلوص ووفاء علم وعمل میں یکسانیت ان کی نمایاں اوراہم خوبیاں تھیں، ان کے پاس جوبھی طالب علم جاتا، اس کے اندربھی وہی جو ہرپیدا کرنے کی کوشش کرتے، زبان وادب سے لگاؤ اوردلچسپی کے ساتھ مضمون کی قدرومنزلت دل میں بٹھادیتے، ادب کا عمدہ مذاق طالب علم کے ذہن پرچھوڑجاتے، اس کافائدہ یہ ہوتا کہ طالب علم کے دل میں بھی اس فن کا احترام اورسیکھنے کا صحیح جذبہ پیدا ہوجاتا، زہے نصیب اقبال کی تربیت کا سامان بھی عینی طورسے انھیں بزرگوار کے ہاتھوں ہوا، جس کا اثرزندگی بھررہا، انھوں نے اقبال کے اندراسلامیات سے ایسا گہرا عشق پیداکردیاتھا، کہ وہ آخری عمر تک پختہ ترہوتا چلاگیا، اور تاعمر یہ استاد وشاگردی کاپرخلوص تعلق قائم رہا، اقبال میں نہایت والہانہ انداز میں بڑی عقیدت ومحبت کے ساتھ احسان شناسی کے پھول اپنے استاد پر نچھاور کرتے ہیں
وہ شمع بارگہہ خاندان مرتضوی رہے گامثل حرم جس کا آستان مجھ کو
نفس سے جس کے کھلی میری آرزوکی کلی بنایا جس کی مروت نے نکتہ داں مجھ کو
دعایہ ہے کہ خداوندآسماں وزمیں کرے پھراس کی زیارت سے شادماں مجھ کو(۷)
*مولوی میرحسن کے پاس اقبال تعلیم حاصل کرتے رہے، پھرلائق استاد کی تحریک پرہوشمند باپ نے اپنے فرزندارجمند کو ’’اسکاچ مشن ہائی اسکول‘‘ میں داخلہ کرادیا، کچھ دنوں بعدخود استاد محترم کی اس میں تقرری ہوگئی۔
اسکول سے منسلک ہونے کے بعدبھی مشفق استاد سے دینی تعلیم میں تبحرپیدا کرتے رہے، استاد سے شرفِ تلمذ میں یہاں بھی کوئی چیز آڑ نہ بنی، شاگردنے آداب شاگردی کا ایسا غیرمعمولی لحاظ اوراستاد نے خلوص تدریس کا ایسا بے لوث حق اداکیا، کہ انھیں دونوں کی مرکب ساخت کوبعدکی دنیا نے اقبال سے علامہ اورشاعرمشرق اورحکیم اورفلسفی جانا، اوریہی دراصل اقبال کی زیست کی خشت اول تھی، اوریہ ایسی مضبوط اورٹھوس اساس تھی، کہ بڑے بڑے مہیب طوفان بھی اقبال کے پائے ثبات میں ارتعاش توکجاجنبش تک پیداکرنے میں ناکام رہے، بلکہ ایسے وقت میں اقبال کے پایۂ استقلال دوچند ہوجاتا تھا، مغرب میں جانے کے بعداقبال وہاں کی پیرکیف فضاؤں میں بدمست نہیں ہوگئے، بلکہ اس کے خلاف نفرت وعداوت اورایمانی جوش وجذبہ تلاطم خیز طوفان کی طرح ان کے دل میں موجزن ہوگیا، یہ نتیجہ تھا اسی خشت اول کا کہ تاثیریا بھی اس میں کجی کے آثار نظرنہیں آئے، یہ پھل تھا کتاب وسنت کے اس شجرکا جس کی تخم ریزی ،آب پاشی اورپھر خوشہ چینی، بچپن میں ان کے والد نے نہایت عرق ریزی وجانفشانی سے کی تھی، یہی وجہ ہے کہ جب بلندیوں نے اقبال کو ’’سر‘‘ کے خطاب کے ذریعہ استقبال کرناچاہا، تواس شرط پرقبول کیا، کہ ہمارے استاد کوبھی شمس العلماء کا لقب دیاجائے، انگریز کے اس سوال پر کہ ان کی کوئی کتاب ہے، ؟ اقبال کاجواب تھا، کہ میں خود ان کی چلتی پھرتی کتاب ہوں، چنانچہ اقبال نے بچپن میں جس طرح عزت دی تھی، اسی طرح علامہ بننے کے بعد کمال عظمت میں پہلے ان کے سرپر شمس العلماء کاتاج رکھا، پھرسرکا لقب قبول کیا ؂
مجھے اقبال اس سیدکے گھرسے فیض پہونچاہے
پلے جو اس کے دامن میں وہی کچھ بن کے نکلے ہیں
اقبال ۱۸۸۷ء  میں پرائمری ۱۸۹۰ء  میں مڈل اور۱۸۹۲ء  میں میٹرک کے امتحان میں امتیازی نمبرات سے کامیاب ہوئے،اس نمایاں کامیابی کی وجہ سے انھیں وظیفہ کاحقدار قراردیا، اقبال ابھی اسی اسکول میں تھے، کہ وہ ’’اسکاچ مشن‘‘ اسکول سے بدل کرکالج ہوگیا، چنانچہ اقبال نے وہیں سےF.A. کی تعلیم مکمل کی، چونکہ اس اسکول میں آگے کے مراحل تعلیم کا نظم نہیں تھا، اس لئے اقبال ۱۸۹۵ء ؁ میں لاہور پہنچ کر B.A.میں داخلہ لیا، اور۱۸۹۷ء  میں شاندار،نمایاں کامیابی کے بعد وظیفہ ’’اسکالرشپ‘‘ کے مستحق قرارپائے، چونکہ آپ عربی انگریزی دونوں زبانوں میں اول نمبر سے کامیاب ہوئے تھے، اس لئے آپ کو طلائی تمغوں سے نوازاگیا، جس زمانے میں اقبال لاہورگورنمنٹ کالج میں داخل ہوئے تھے، اسی زمانہ میں پروفیسر آرنلڈ جو اس سے قبل علی گڈھ یونیورسٹی میں تھے، توعلامہ شبلی رحمہ اللہ نے ان سے مغربی علوم سیکھا، اورانھوں نے شبلی رحمہ اللہ سے اسلامیات پڑھی، اس لئے ان میں اسلامیات کا عمدہ ذوق پیداہوگیاتھاوہاں سے سبکدوش ہوکر لاہورمیں فلسفہ کے پروفیسر ہوگئے، اقبال کا اختیاری مضمون چونکہ فلسفہ تھا، اس لئے انھیں آرنلڈ جواعلیٰ درجے کا فلسفی تھا، فائدہ اٹھانے کا سنہری موقع ہاتھ آیا، اقبال نے بھی اس کا حق اداکردیا، اوران کی صحبت نے فلسفہ میں گہرائی وگیرائی اوراس کا صحیح ذوق پیداکردیا۔
پروفیسر آرنلڈ اوراقبال دونوں سلجھی ہوئی طبیعت کے مالک تھے، اورفلسفی استاد نے جلدہی اقبال کی قابلیت کا اندازہ کرلیا، اوراس کند تلوار کوصیقل کرنے اوراس نادرگوہرکو لائق بنانے میں غیرمعمولی محنت صرف کی، چنانچہ پروفیسر اکثرہم نشینوں میں اقبال کی تعریف یوں کیاکرتے تھے۔
’’ایسا شاگرد استاد کو محقق اورمحقق کومحقق تربنادیتاہے‘‘(۸)
اس تعلیم وتربیت کا حاصل یہ ہوا کہ اقبال تعلیم کی تکمیل کے فوراً بعد ہی اورنیٹیل کالج لاہورمیں فلسفہ تاریخ وسیاست کے لکچرار منتخب ہوگئے۔
* بلندیوں کے اس مقام تک پہونچنے میں جہاں اقبال کے گھرکی پاکیزہ تربیت، ماں باپ کی غایت درجہ کو شش رہی ہے، وہیں اقبال کے بنانے میں مولوی میرحسن کابھی غیر معمولی کرداررہا ہے، اوراس میں اقبال کی اپنی ذہانت وخوش خلقی بھی ساتھ رہی، اورپھراوپر سے ایک ماہرفلسفہ’’پروفیسر آرنلڈ‘‘ کی کوششوں کابھی انکارنہیں کیاجاسکتا، اس معاملے میں اقبال بھی حساس واقع ہوئے ہیں، قدردانی میں کوئی دقیقہ فروگذاشت نہیں اٹھاتے، چنانچہ جب پروفیسر آرنلڈ ۱۹۰۴ء ؁ میں ولایت چلے گئے، تواقبال نے بڑی کرب انگیز نظم لکھی، مطلع میں کہتے ہیں ؂
جابسا مغرب میں آخراے مکاں تیرا مکیں آہ مشرق کی پسندآئی نہ اس کو سرزمیں
آگیا آج اس صداقت کامیرے دل کویقیں ظلمت شب سے ضیائے روزفرقت کم نہیں
پھرآگے ان کے علم کی وسعت وہمہ جہتی کی طرف اشارہ کرتے ہیں ؂
توکہاں ہے اے کلیم ذِروۂ سینا ء علم
تھی تیری موجِ نفس بادِ نشاط افزائے علم
اب کہاں وہ شوقِ رہ پیمائی صحرائے علم
تیرے دم سے تھا ہمارے سرمیں بھی سودائے علم
اب اقبال بے قابو ہوجاتے ہیں، اوران کے پاس جانے کا عزم کرلیتے ہیں ؂
کھول دے گا دستِ وحشت عقدۂ تقدیر کو
توڑکر پہونچوں گا میں پنجاب کی زنجیر کو (جاری)

***
حوالے وحواشی:۔


(۱)بعض لوگو ں کویہ مغالطہ ہوگیا ہے کہ اقبال کو برہمن زادگی پرفخرتھا، ایسانہیں ہے انہیں اس کافخرنہیں تھا، بلکہ جو ورثے میں ملاتھا، اس کا فخرتھا، کیونکہ ۴۰۰سال قبل ان کے جداعلیٰ ایمان لائے تھے اورپھر متروکہ اعتقاد کی کوئی اہمیت نہیں، اس لئے اقبال کو اپنے اسلاف کے برہمن ہونے پر کیافخرہوسکتاہے۔(تفصیل کے لئے دیکھئے: زندہ رودجاوید اقبال ص:۳۵اقبال اکادمی پاکستان)،(۲) پطرس بخاری اقبال کے زمانے میں آل انڈیا ریڈیو کے ڈائرکٹرتھے، فلسفہ پراقبال کے ساتھ ان کی بحث ہوئی، چنانچہ اقبال نے طنزیہ لہجے میں دوسرے دن ۱۵اشعار کی یہ نظم سنائی، یہ نظم بعنوان’’ ایک فلسفہ زدہ سیدزادے کے نام‘‘(کلیات اقبال ضرب کلیم ص:۱۲)(۳) ضرب کلیم، جاوید اقبال سے خطاب،(۴) اقبال کاملمولاناعبدالسلام ندوی ص:۳،شبلی اکیڈمی اعظم گڈھ۔،(۵)بانگ درا؍والدۂ مرحومہ کی یادمیںص:۱۷۲، تا ۱۸۰،کلیات اقبال’’اردو‘‘مطبوع کتب خانہ حمیدیہ گڑھیا، اسٹریپ جامع مسجد دہلی۔،(۶)اقبال کی تاریخ پیدائش کا مسئلہ بڑامختلف فیہ رہا ہے، چنانچہ تحقیقات سامنے آئیں ہیں، مثلاً ۱۸۷۲ء ؁ ،۱۸۷۳ء ؁،۱۸۷۴ء ؁ ،۱۸۷۵ء ؁ ،۱۸۷۶ء  ،۱۸۷۷ء ؁ ،تک ذکر ہے،حکومت ہند نے ۱۸۷۳ء ؁ کی ولادت تسلیم کی ہے، اس کے بعدپاکستان حکومت نے نومبر ۱۸۷۷ء ؁ کوقبول کیاہے۔(اقبال کامل؍عبدالسلام ندوی؍۷۶، نقوش اقبال ؍ابوالحسن علی ندویؔ ،۱۸۷۷ء ؁ ،انسائیکلوپیڈیا آف بڑنیکا وغیرہ اس کے علاوہ ’’زندہ رود‘‘ میں حقیقی بحث کی گئی ہے، جس پر ہم نے اعتماد کیاہے۔،(۷)یہ نظم’’التجائے مسافر‘‘ کے نام سے ’’نظام الاولیاء‘‘کے دربارمیں سفرانگلستان کے وقت پڑھی ۱۹۰۵ء ؁ کازمانہ تھا۔(۸) ذکراقبال ؍عبدالمجید سالک ص:۱۷

Monday, April 4, 2011

jan.feb-2011-ضیاء شعاع

مولاناعبدالحکیم مجاز رحمانی اعظمی
 جامعہ عالیہ عربیہ،مؤناتھ بھنجن


ضیاء شعاع

قدیم زمانے سے ادب میں دوحلقے اپنے کردار کا نمونہ پیش کرتے رہے ہیں ،ایک حلقہ زبان اورتخیل کی رنگینی کے ذریعہ سامعین وقارئین کو متاثر کرتا رہا ہے’’لیکن یہ تاثرنفس امّارہ کی خواہشات میں اضافہ کرتا رہا ہے، یہی طبقہ غزلوں میں رومانیت کا رنگ بھرکے لوگوں کو ایک خاردار راستے کی طرف مائل کرتا رہا ہے اوراس کی زندگی بے مقصد اوربے راہ ہوکر مقصدحیات کی سعادت سے محروم رہ جاتا ہے‘‘ دوسراحلقہ ان سعادت مند ادباء وشعراء کارہا جواپنے کلام میں وہ انداز اختیار کرتے رہے جس سے تخلیق انسانی کا مقصدعظیم نمایاں ہو اور ایسے کلام ان لوگوں کے نزدیک دل سے وابستہ رہے ہیں کہ اس کا اثرتاحیات ہی نہیں بلکہ بعدحیات بعد باقی رہتا ہے، ایسے شعراء وادباء انسانیت کے لئے روحانی سوغات پیش کرتے رہے ہیں۔
اسی دوسری نوع میں جناب حیرتؔ بستوی بھی اپنی خصوصیات کے ساتھ شامل ہیں، ان کی ادبی کاوشیں ایسے افکارو خیالات پرمشتمل ہیں جن سے استفادہ کرکے روح انسانیت باسلامت رہے، اسی فکرکو لے کرزیرنظر مجموعۂ کلام ’’شعاع حرم‘‘ سامنے ہے ،جس میں حرم کی اضافت سے شعاع کا تعلق اتنی کرنوں کے ساتھ ضیاء بارہے کہ جوبھی اس طرح نظراٹھاکردیکھے اس کا دل سعادت مندی کے لئے بے قرار ہوجائے گا اورایک خاص بات یہ ہے کہ اس مجموعہ کے مشمولات میں ترکیب اورالفاظ کی سادگی اورروانی میں کوئی درشتی نہیں، یعنی ہر شعرایک واضح کرن اورشعاع ہے جومقصدکی طرف نگاہ و دل کوپہنچادیتی ہے، یہ حیرتؔ صاحب کی پختہ کاری اورفکری روانی کی ایک اچھی مثال کہی جائے گی، بہت سے شعراء نے تعلیم دین کے لئے اپنے کلام میں گراں قدر نمونے پیش کئے ہیں لیکن ترکیب اوراستعارات وکنایات میں سادہ لوح قارئین کوالجھن میں ڈال دیاہے، لیکن یہ مجموعہ جو’’شعاع حرم‘‘ کے نام سے زیرتبصرہ ہے اپنے طرزبیان اورمعانی کے اعتبارسے ایساہے کہ ناخواندہ شخص بھی اس روحانی پیغام کوسن کرجھوم اٹھے گا اوراس کے مواد پراس کا دل محوہوجائے گا۔
اس مجموعہ میں توحید پرنظموں کے گرانقدر اورروح افزاء صفحات ہیں جن سے الوہیت ،ربوبیت کی تلقین قرآنی آیات کی روشنی میں ہوتی ہے اورزندگی کے خاردارصحراء میں گزرتے ہوئے اس طرزبیان کے ذریعہ ہرمومن بے خوف وخطراپنی منزل مراد حاصل کرسکے گا اورپھررسالت جس کی شہادت مومن کے لئے لازم ہے اس پرمعنی خیز اشعارسے اس طرح آراستہ کیاہے کہ شہادتین کا لفظ اپنی معنویت ظاہر کررہا ہے ،حمد ونعت کے علاوہ بہت سے اعمال صالحہ جن کی تلقین کتاب وسنت میں درج ہے ان پرالگ الگ عنوان سے متفرق اشعاردرج ہیں، یہ متفرقات درحقیقت ایک یادوشعرپرمشتمل ہیں مگر معنویت کے اعتبارسے بہت وسیع ہے ایسے ہی جیسے کسی باغ میں کوئی ایک پھول ہواوروہ اپنی خوشبو سے پورے خیاباں کو معمور کردیتا ہے بعض مفرداشعار توموقع اورمحل کی مناسبت سے ضرب المثل کے طورپر پیش کیاجاسکتاہے۔
حیرتؔ بستوی صاحب اپنی حیات کی آٹھویں دہائی میں پہنچ چکے ہیں جوخاکسار مجازؔ اعظمی سے دوسال کم ہے لیکن الحمدللہ ابھی وہ تحریروتقریر میں رواں دواں ہیں اورراقم الحروف اپنی کیفیت اوربے کسی اورکمزوری صرف دوشعرمیں عرض گزار ہے
خالی متاع زیست سے جب ظرف ہوگیا
تحلیل آہِ سردمیں ہرحرف ہوگیا
اب گرمئ حیات کا کیا خواب دیکھنا
جودل کہ پہلے دل تھا وہی برف ہوگیا
یہ آخر سطرمحترم حیرتؔ بستوی صاحب کی خدمت میں پیش کرتے ہوئے ان کے مجموعۂ کلام پردلی مبارک بادبہ خلوص دل پیش کررہاہوں ،اللہ آپ کے اس ادبی اورروحانی کارنامے کوباقیات صالحات میں شامل کرے اورباسعادت انسانوں کواس شعاع سے منورکرے۔(آمین)

***

حضرت ابن عمررضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا تم میں سے کوئی شخص یہ نہ کرے کہ کسی آدمی کو اس کی مجلس سے اٹھاکر پھرخود اس پربیٹھ جائے ،لیکن تم مجلس میں فراخی اور گنجائش پیداکرو اورحضرت ابن عمررضی اللہ عنہما کامعمول تھا کہ جب کوئی آدمی آپ رضی اللہ عنہ کی خاطرمجلس سے اٹھ کھڑا ہوتاتوآپ رضی اللہ عنہ اس جگہ نہ بیٹھتے۔(بخاری ومسلم)

jan.feb-2011مولانا عبدالکریم ندوی کاانتقال پُرملال

وفیات


مولانا عبدالکریم ندوی کاانتقال پُرملال

علمی اوردینی حلقوں میں یہ خبردکھ کے ساتھ پڑھی جائے گی کہ دارالعلوم ششہنیاں(سدھارتھ نگر) کے سابق پرنسپل اورمعروف مدرس مولانا عبدالکریم ندوی رحمہ اللہ ایک طویل علالت کے بعد۳۱؍جنوری ۲۰۱۱ء ؁ کواپنے وطن ششہنیاں میں انتقال کرگئے، انا للہ واناالیہ راجعون۔
مولاناعبدالکریم ندوی ایک مستندعالم دین،کہنہ مشق مدرس اورمعاملہ فہم منتظم تھے، زندگی کا بیشتر حصہ تعلیم وتدریس میں گذارا،بالخصوص آپ اپنی جوانی کے قیمتی ایام دارالعلوم ششہنیاں کی تعمیروترقی میں صرف کئے اوردوتین مراحل میں ایک لمباوقت دارالعلوم کے صدرالمدرسین کی حیثیت سے گذارا، اورکافی دنوں تک مفکرملت مولاناعبدالجلیل رحمانی رحمہ اللہ بانی دارالعلوم کے دست وبازو بن کران کے معاون اورمعتمدخاص رہے، اس دوران جب مولانارحمانی نے دارالعلوم ششہنیاں سے ایک علمی وفکری رسالہ’’مصباح‘‘ کااجراء کیا توموصوف نے نائب ایڈیٹر کی حیثیت سے تدریس وانتظام کے ساتھ ماہنامہ کی ترتیب وتصحیح کی اضافی ذمہ داری بھی نبھائی اوراس میں مضامین لکھتے رہے، ’’مصباح‘‘ بعض اسباب سے بہت دیرتک جاری نہ رہا مگر وہ اس زمانہ میں جماعت کے موقرعلمی مجلات میں شمار ہوتاتھا اوراس کے مستقل مضمون نگاران میں مولاناعبدالجلیل رحمانی رحمہ اللہ کے علاوہ مولاناعطاء اللہ حنیف بھوجیانی، مولانامحمداسماعیل سلفی، شیخ الحدیث علامہ عبیداللہ رحمانی مبارکپوری، مولانا عبدالجبار کھنڈیلوی ،مولاناعبدالجلیل سامرودی اورخطیب الاسلام علامہ عبدالرؤف رحمانی جھنڈانگری رحمہم اللہ جیسے افاضل علماء کرام کے اسماء گرامی شامل ہیں۔
ایک اندازہ کے مطابق مولاناندوی ۳۰۔۱۹۲۹ء میں ششہنیاں میں پیداہوئے، اس وقت گاؤں میں مدرسہ قائم نہ ہواتھا، ابتدائی تعلیم گورامدرسہ میں حاصل کی پھر مفکراسلام مولاناعبدالجلیل رحمہ اللہ کے ایماء پردارالحدیث رحمانیہ دہلی کارخ کیا، ابھی چندہی سال وہاں کے علمی وروحانی ماحول سے مستفید ہوئے تھے کہ تقسیم ہند کا سانحہ پیش آیا، دہلی اجڑگئی، اورساتھ ہی رحمانیہ بندہوگیا اوراس کے بانیان ومنتظمین ترک وطن کرکے سرحد پارچلے گئے، مولانا ندوی نے اس کے بعد اپنی تعلیم دارالعلوم ندوۃ العلماء میں مکمل کیا اور۵۰۔۱۹۴۹ء ؁ میں ندوہ سے فارغ ہوئے،مولاناندوی کے رفقاء درس میں استادمحترم مولانا عزیز احمد ندوی رحمہ اللہ سابق پرنسپل جامعہ رحمانیہ بنارس بھی تھے۔
ویسے موصوف نے دارالعلوم ششہنیاں کے علاوہ، تلکہنا ،دارالہدیٰ یوسف پور اوربانسی وغیرہ میں تدریسی فرائض انجام دئے ہیں، نیز عمر کے آخری مرحلہ میں چندبرس مدرسہ خدیجۃ الکبریٰ کرشنانگر سے وابستہ رہ کربچیوں کوفیضیاب فرمایا ،ان دنوں راقم بھی مذکورہ مدرسہ سے وابستہ تھا اورمرکز التوحید سے شائع ہونے والے مجلہ ’’نورتوحید‘‘ کی ادارت کے فرائض انجام دے رہا تھا، اس مدت میں مجھے مولانا کوقریب سے دیکھنے اورآپ کی گوناں گوں صلاحیتوں سے واقف ہونے کا موقعہ ملا، مدرسہ خدیجۃ الکبریٰ میں تدریس کے دوران فرمائش کرنے پرآپ نے بعض اہم مضامین بھی قلم بند فرمائے اورکچھ عربی مقالات کے ترجمے بھی کئے جوماہنامہ ’’نورتوحید‘‘ میں شائع ہوئے۔
جسمانی طورپر مولانا بڑے نحیف ونزارتھے، گیس اوربلڈپریشر کے مریض تھے، اس لئے تقریبا بیس برسوں سے گھرہی پرمقیم تھے، گذشتہ۹؍سال قبل آپ پر اچانک فالج کا حملہ ہوا اوراس کے بعدمستقل صاحب فراش ہوگئے، اس طویل علالت میں آپ کی اہلیہ، اولاد واحفاد اوراہل خانہ نے خدمت کاحق اداکیا اورآپ کی تمام ضروریات کاخیال رکھا خصوصا نظافت اورصفائی ستھرائی کاحددرجہ اہتمام کیا، اللہ تعالیٰ ان سب کو جزائے خیردے۔(آمین)
مولانا کی وفات سے چندروزقبل برادرم مولانامطیع اللہ مدنی استاد مدرسہ خدیجۃ الکبریٰ کے جواں سال صاحبزادے حافظ فوزان احمدرحمہ اللہ کے جنازہ میں شرکت کے بعدراقم نے مولاناکی عیادت کی سعادت حاصل کی،باوجودکہ حافظہ جواب دے رہا تھا بتانے پر پہچانا، سلام کاجواب دیا اور جزاک اللہ کہا۔
اللہ تعالیٰ مولاناندوی کی خدمات کو قبول فرمائے، ان کے درجات بلند کرے اور آپ کی بشری لغزشوں اورخطاؤں سے درگذرفرماتے ہوئے آپ کوجنت الفردوس میں جگہ دے، اللھم اغفرلہ وأرحمہ وعافہ وأعف عنہ۔
قارئین سے مولانا کی نمازجنازہ غائبانہ اوردعاء مغفرت کی درخواست ہے۔

(عبد المنان سلفیؔ )

مولانا مطیع اللہ مدنی  کو جواں سال بیٹے کے انتقال کاصدمہ

علمی وجماعتی حلقوں میں یہ اندوہناک خبرنہایت ہی رنج وغم کے ساتھ پڑھی جائے گی کہ جماعت کے معروف عالم دین اورماہنامہ ’’نورتوحید‘‘کے ایڈیٹر جناب مولانا مطیع اللہ مدنیؔ ؍حفظہ اللہ کے فرزند ارجمند عزیزم حافظ فوزان احمدسنابلی دل کا دورہ پڑنے سے۲۷؍جنوری۲۰۱۱ء ؁ بروزجمعرات تقریباً نوبجے صبح اچانک انتقال کرگئے، انا للہ واناالیہ راجعون۔
عزیزم فوزان رحمہ اللہ کی ولادت ۱۹۸۸ء ؁ میں ہوئی ،ولادت سے لے کرعنفوان شباب کی دہلیز پر قدم رکھنے تک مولانا موصوف نے ایک مثالی باپ کاکردار نبھایااوراپنے اس لاڈلے کے ذہن ودماغ کواسلامی سانچے میں ڈھالنے کی کامیاب کوشش کی ،اسی جذبہ صادقہ کی تکمیل کی خاطر اپنے اس جگرگوشہ کودینی تعلیم کے حصول میں لگایااوراپنے گاؤں ششہنیاں کے مکتب کی تعلیم کے بعد حفظ قرآن کریم کے لئے جامعۃ التوحید بجوا، نیپال میں داخل کیا، وہیں پر انھوں نے حفظ کی تکمیل کی،اس کے بعد جامعہ اسلامیہ سنابل میں داخلہ دلوایا،جہاں پر آٹھ سال گذارکرآنعزیز نے متوسطہ سے فضیلت تک کی تعلیم مکمل کی اورہمیشہ امتیازی نمبرات سے کامیاب ہوتے رہے اور پچھلے سال وہیں سے فراغت حاصل کی۔
سال رواں ۲۰۱۱ء ؁ کے آغاز میں مہبط وحی مکہ مکرمہ میں سعودی وزارت اوقاف و اسلامی امورکے زیراہتمام منعقدہونے والے۹؍روزہ عالمی مقابلہ حفظ و قرأۃ وتفسیر قرآن کریم میں شرکت کی اورزیارت حرمین شریفین کی سعادت سے سرفراز ہوکر۱۰؍جنوری ۲۰۱۱ء ؁ کو وطن واپس آئے، اس سفر کے دوران عالم اسلام کی معروف یونیورسٹی جامعہ اسلامیہ مدینہ طیبہ بھی گئے اوروہاں داخلہ کے لئے انٹرویو بھی دیا ،مگر اللہ کی مشیت کچھ اور تھی جس کا عینی مشاہدہ لوگوں نے کیا سچ اورحقیقت ہے (وماتشاء ون إلا أن یشاء اللہ)
مورخہ۲۶؍جنوری ۲۰۱۱ء ؁ کوموضع دودھونیاں بزرگ(سدھارتھ نگر) میں واقع نسواں مدرسہ ’’فاطمہ الزہراء ‘‘میں فریضہ تدریس انجام دینے کی بات طے ہوئی تھی اس لئے ۲۷؍جنوری کی صبح باپ بیٹے آگے پیچھے گھرسے نکلے، ان کے والد گرامی اپنے مقرعمل مدرسہ خدیجۃ الکبریٰ(کرشنا نگر) پہونچ کر معمول کے مطابق اپنی گھنٹیاں پڑھانے لگے اور آں عزیزرحمہ اللہ بھی مدرسہ فاطمہ الزہراء پہونچ کر پڑھانے کی تیاری اوربعض زیردرس کتابوں کامطالعہ کررہے تھے کہ یکایک سینے میں دردکااحساس ہوااورآہستہ آہستہ طبیعت بگڑنے لگی، مدرسہ کے موجودذمہ داروں اوراساتذہ نے اپنی پوری ذمہ داری نبھائی اورفوراً علاج کے لئے بڑھنی بلاک لے کر آئے لیکن ڈاکٹر کے پاس پہنچنے سے پہلے ہی راستے میں ان کی روح قفس عنصری سے پروازکرچکی تھی۔
عزیزم کی دلفگارموت نے سب کے قلوب واذہان کو جھنجھوڑکررکھ دیا، جس نے جہاں سناوہ ہکابکارہ گیا اورہر ایک کی زبان پر یہی شعر تھا ؂
یہ پھول اپنی لطافت کی داد پانہ سکا
کھِلا ضرور، مگرکھِل کے مسکرا نہ سکا

چونکہ مولاناموصوف کی نرینہ اولاد میں یہ سب سے بڑے تھے،خلیق وملنسار اور باوقارہونے کے ساتھ ساتھ باپ کے خوابوں اورمستقبل کے عزائم کو عملی جامہ پہنانے اور ان کے علم کے حقیقی وارث بھی تھے اس لئے مولانا مدنی کو بہ نسبت اورلڑکوں کے ان سے کچھ زیادہ ہی انس تھا ، اسی بے پناہ محبت کا اثرتھاکہ جب آپ نے اپنے لخت جگر کے ناگہانی انتقال کی خبراچانک سنی توبے قابوہوگئے،رنج وغم اور دردوکرب کا ایسا ہوش ربا منظرتھاکہ وہاں موجود بعض حضرات مولانا کے تعلق ہی سے خوفزدہ ہوگئے،مگر کچھ دیر بعد آپ نے خود کو قابومیں کیا اوربہت سارے غمخواروں کو دیکھ کر قدرے تسلی ہوئی توصرف ایک ہی لفظ باربار دہراتے رہے’’ اے اللہ!تیرا فیصلہ مجھے منظورہے میرے بیٹے کی مغفرت فرما‘‘ ۔
بڑھنی وکرشنانگرکے مقامی ہمدردوں کے علاوہ مدرسہ خدیجۃ الکبریٰ کے رئیس محترم شیخ عبداللہ مدنی؍حفظہ اللہ اوران کے ’’مرکزالتوحید‘‘سے وابستہ تمام ذمہ داران،کارکنان، معلمین ومعلمات نیز ہمارے جامعہ سراج العلوم السلفیہ کے جملہ مشائخ کرام ان کے اس غم میں برابرکے شریک رہے، بذریعہ ایمبولینس آں عزیز کا جسدخاکی ان کے آبائی وطن موضع ششہنیاں (سدھارتھ نگر)لے جایا گیا اوربعدنماز عصرتقریبا ۴؍بجے ڈاکٹرشیخ عبدالقیوم محمدشفیع بستوی حفظہ اللہ کی امامت میں قرب وجوار کے عوام وخواص، جمعیت وجماعت کے مقتدرحضرات، دینی مدارس ومراکز کے ذمہ داران اورعلاقہ کے مسلم سیاسی لیڈران کی ایک بڑی تعداد نے نمازجنازہ اداکی اورہزاروں سوگواروں نے باچشم نم سپردخاک کیا۔
بارالٰہا! ان کی تمام بشری لغزشوں کوصرف نظر فرماتے ہوئے ان کے تمام حسنات کوشرف قبولیت بخشے اورتمام پسماندگان خصوصاً والدین محترمین کو صبرجمیل کی توفیق دے۔(آمین)