Saturday, September 4, 2010

علمی خیانت اورتحریری سرقہ کی بدترین مثال

عبد المنان سلفیؔ
علمی خیانت اورتحریری سرقہ کی بدترین مثال
اورنام نہاد مؤلف محمد عمارسلفی(مؤ) کی مزعومہ کتاب
’’تحفۂ رمضان المبارک ‘‘کی حقیقت

علمی خیانت اور تحریری سرقہ کا معاملہ کوئی نیا نہیں، ہردورمیں سستی شہرت کے دلدادہ اورمصنف ومؤلف کہلانے کے ایسے شوقین پائے جاتے رہے ہیں جنھوں نے دوسروں کی تالیفات وتصنیفات اورتحریروں کو معمولی ردوبدل کے بعد اپنے نام سے شائع کراکے علمی دنیا کی آنکھ میں دھول جھونکنے کی ناپاک جسارت کی ہے اورراتوں رات محقق، مصنف، مؤلف اورمترجم بن کر شہرت کی بلندیوں کو چھونے کی لاحاصل سعی کی ہے، مگر شاید ایسا کم ہوا ہوگا کہ نام سمیت پوری کی پوری کتاب کسی نے اپنے نام سے شائع کرلی ہو، مگر اس ترقی یافتہ اور علمی دورمیں یہ انہونی بھی ہوگئی اور ایک نام نہاد مولف نے ۴۱؍موضوعات پرمشتمل اپنی خودساختہ کتاب میں میری کتاب ’’تحفۂ رمضان المبارک‘‘ کے تیس عناوین مکمل اور من وعن نقل کرکے دنیا کو حیرت زدہ کر دیاہے ۔
اس اجمال کی تفصیل یہ ہے کہ میں نے تقریباً دس برس قبل ’’تحفۂ رمضان المبارک ‘‘کے نام سے رمضان المبارک کے تیس دروس واسباق مرتب کرکے اس مقصدسے شائع کرائے تھے کہ ماہِ رمضان المبارک میں ائمہ مساجددروس کے سلسلہ میں اس کتاب سے استفادہ کرسکیں اور جو ائمہ کرام خود سے درس نہیں دے سکتے وہ کم از کم روزانہ اس کا ایک درس مصلیوں کو پڑھ کرسنادیاکریں، اللہ کے فضل و کرم سے کتاب دعوتی وعلمی حلقوں میں مقبول ہوئی، اوردیکھتے دیکھتے چند مہینوں میں اس کے نسخے ختم ہوگئے میں ،دوسرے ایڈیشن کے لئے تیاری کرہی رہا تھا کہ خبرملی کہ مکتبہ الفہیم، مؤنے اس کتاب کو چھاپ کر فروخت کرنا شروع کردیاہے، تعجب توضرور ہوا کہ بغیراجازت ایک ذمہ دار ناشرنے یہ حرکت کیسے کی مگریہ سوچ کرخاموش رہا کہ چلو دعوت کاکام جس طریقہ سے بھی ہوجائے بہتر ہے ،تاہم مذکورہ مکتبہ نے کتاب میرے ہی نام سے چھاپی اور اس میں کوئی تحریف نہ کی، پھرمیں نے کتاب کا تیسرا اورچوتھا ایڈیشن اپنے تجارتی مکتبہ ’’رحمانی کتاب گھر‘‘بڑھنی ، ضلع سدھارتھ نگر سے شائع کیا، میری یہ مختصرکتاب دس برسوں سے اہل علم کے درمیان جانی جاتی ہے۔
گذشتہ سال ماہنامہ’’ نوائے اسلام ‘‘دہلی کے رمضان والے شمارہ میں ’’تحفۂ رمضان المبارک‘‘ نام کی ایک کتاب کا اشتہار دیکھ کر چونکا کہ میرے کرم فرماؤں نے بغیر کچھ کہے اورلکھے اشتہار کیسے دے دیا؟ مگرجب یہ دیکھا کہ اس کے مؤلف مؤ کے عمارسلفی ہیں توقدرے استعجاب دورہوا، مگراسی شمارہ میں جب مشتہرکتاب تحفۂ رمضان المبارک کے حوالہ سے ایک مضمون پر نظر پڑی تو یہ دیکھ کر میں دنگ رہ گیاکہ پورا مضمون میری کتاب’’ تحفۂ رمضان المبارک‘‘ ہی سے من وعن منقول تھا۔میں نے اس کا ذکر بعض احباب سے کیا اوراس کتاب کے حصول کے لئے مؤ کے بعض دوستوں سے رابطہ بھی کیا مگر یہ مل نہ سکی اورمیرے ذہن سے یہ موضوع نکل گیا۔ پھر مرکزی جمعیت اہل حدیث ہند کی عظمتِ صحابہ کانفرنس، دہلی، منعقدہ ۱۰؍۱۱؍ اکتوبر ۲۰۱۰ء ؁ کے موقعہ پر رام لیلاگراؤنڈ میں لگے بک اسٹالوں سے گذرتے ہوئے مکتبہ نعیمیہ مؤ کے اسٹال پر اچانک یہ کتاب نظر آگئی تواسے دیگر کتابوں کے ساتھ خرید لیا اورمکتبہ نعیمیہ کے ذمہ دار ارشدجمال صاحب سے دبی زبان میں شکایت بھی کردی کہ یہ کیا ہورہا ہے؟ وہ جواب کیا دیتے، منہ بنا کے خاموش رہ گئے۔
کتاب کے ٹائٹل کی تحریر کے مطابق اس کتاب پرنظرثانی جماعت کے ایک معتبر صاحب قلم اوربزرگ عالم دین مولانا عزیز الحق عمری ؔ صاحب نے فرمائی ہے اورکتاب مکتبہ نعیمیہ جیسے ذمہ داراور معروف اشاعتی ادارہ کی جانب سے طبع ہوئی ہے،مجھے حیرت اس بات پر ہے کہ کسی کی نظرمیں یہ بات نہ آئی کہ پوری کتاب چربہ نہیں سرقہ ہے اورصرف مصنف کا نام تبدیل کرکے اسے شائع کردیاگیا ہے۔
مولانا عمری ؔ کے سلسلہ میں مجھے حسن ظن رہا کہ اگرسچ مچ مولانا کی نظرسے یہ کتاب گذری ہوتی توشاید وہ اس کی طباعت کی اجازت نہ دیتے، مگربعدمیں پتہ چلا کہ محمدعمارسلفی مولانا عمریؔ صاحب ہی کے فرزند ہیں، اصل حقیقت کیا ہے؟ اللہ ہی کو معلوم ہے ،مگراب بھی مجھے یہی لگتا ہے کہ مولانا عمری کو حقیقت حال کا شایدپتہ نہیں اور’فرزندگرامی‘ نے والد بزرگوار کانام استعمال کرکے ان کے وقار واعتبار کو ٹھیس پہونچانے اور ان کے نام پر بٹہ لگانے کی حماقت کر ڈالی ہے،البتہ ’’مکتبہ نعیمیہ‘‘ کو اس علمی خیانت سے بری کرنے میں مجھے تامل ہے بلکہ لگتا ہے کہ یہ کام مکتبہ کے ذمہ دار کے اشارہ ہی پر ہوا ہوگاجنھوں نے مکتبہ الفہیم ۔ جس کے ذمہ داران میری یہ کتاب کئی سالوں سے چھاپ کر فروخت کرہے ہیں۔ کے مقابلہ میں اس قسم کی کتاب ترتیب دینے کی فرمائش محمد عمار صاحب سے کی ہوگی اور میری کتاب بھی انھیں نمونہ اوررہنمائی کے لئے دی ہوگی، واللہ اعلم۔
بہر حال محمدعمارسلفی کے نام سے منسوب یہ پوری کتاب علمی خیانت اورتحریری سرقہ کا بدترین نمونہ ہے، عرض مؤلف سے لے کرآخرکتاب تک شایدہی کوئی جملہ نام نہاد مؤلف کے قلم سے ہو، ۴۱عناوین میں سے ۳۰؍تو میری کتاب’’ تحفۂ رمضان المبارک‘‘ سے من وعن منقول ہیں جنھیں میں نے رمضان المبارک کے تیس دنوں کی مناسبت سے مختلف موضوعات پر لکھے تھے،نقل میں صحت کا اس قدر خیال رکھا گیا ہے کہ میں نے ہردرس کے شروع میں حمد وصلاۃ کے جوصیغے استعمال کئے تھے اورآخر میں درس کی مناسبت سے جو دعائیہ جملے تحریر کئے تھے ان میں بھی کوئی تبدیلی نہیں کی گئی ہے۔۴۱؍عناوین میں سے ایک توعرض مؤلف ہے، وہ بھی کسی صاحب قلم کی تحریر کا مکمل سرقہ ہے، اس لئے کہ اس میں موضوع اورکتاب کے تعلق سے کوئی بات ذکرنہیں ماہ رمضان المبارک کے اندر حرم شریف کے پُرکیف مناظر کا ذکرہے ، باقی ۱۰؍عناوین معروف اہل حدیث مصنف شیخ اقبال کیلانی کی ’’کتاب الصوم‘‘ سے من وعن منقول ہیں۔
بدقسمتی سے اس کتاب کے ساتھ علمی خیانت اورسرقہ کا ایک سانحہ اس سے قبل بھی پیش آچکا ہے جب جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ کے فاضل اورمرکز توعیۃ الجالیات، دمام (سعودی عرب) سے وابستہ ایک داعی۔جن کے مضامین جماعت کے اخبار وجرائد میں کبھی کبھار چھپتے رہے ہیں۔ نے میری اس کتاب کے کئی دروس ایک نقطہ کی تبدیلی کئے بغیر بلا حوالہ من وعن اپنے ایک مضمون میں نقل کیا اوراسے ماہنامہ ’’ صراط مستقیم‘‘ برمنگھم، لندن بھیج کر شائع کرادیا، پھراسی مضمون کو اگلے سال ماہنامہ ’’الفرقان‘‘، ڈمریا گنج، سدھارتھ نگر (بھارت) نے شائع کیا، اس موقعہ پر برادر عزیز شیخ وصی اللہ عبدالحکیم مدنی نے میری اجازت سے اس پرماہنامہ ’’السراج‘‘ ماہ ستمبر ۲۰۰۸ء کی اشاعت میں نوٹس لیا، اوربات آئی گئی ہوگئی۔
۱۶۰؍صفحات پرمشتمل اس نام نہاد تالیف کے آغاز میں عرض مؤلف کے بعد ’’روزہ کی فرضیت‘‘ اورچاند کے مسائل کے تحت ۵صفحات کے مواد معروف اہل حدیث مصنف شیخ اقبال کیلانی کی کتاب الصیام ے نقل کئے گئے ہیں ،اور عناوین وغیرہ لکھنے کا انداز بالکل وہی ہے جو شیخ کی کتابوں کے سلسلہ میں اہل علم کے مابین معروف ہے کہ موصوف عناوین عربی اور اردو دونوں زبانوں میں لکھتے ہیں پھر موضوع کی مناسبت مختلف عناوین کے تحت حدیثوں کا متن نقل کرکے نیچے ان کا ترجمہ تحریر فرماتے ہیں۔
محمد عمار سلفی نے اپنی اس نام نہاد کتاب میں ایک اورعجیب گل کھلایا ہے اور خودہی اپنے’کارنامہ‘کا پول اہل نظر کے سامنے کھول کر خود کو بالکل ہی برہنہ کردیاہے ، چاند کی رؤیت کے سلسلہ میں شیخ کیلانی صاحب نے حدیثیں نقل کرنے کے بعد آخر میں ایک عنوان قائم کیاہے کہ: ’’ابرکی وجہ سے شوال کا چاند دکھائی نہ دے اورروزہ رکھ لینے کے بعد معلوم ہوجائے کہ چاند نظر آچکاہے توروزہ کھول دیناچاہئے‘‘ اس عنوان کے نیچے کیلانی صاحب نے حسب معمول حدیثیں ذکر نہیں کیں بلکہ یہ وضاحت تحریر فرمادی کہ: ’’حدیث مسئلہ نمبر ۱۷۷ کے تحت ملاحظہ فرمائیں‘‘ عمار صاحب نے اپنی کتاب کے صفحہ نمبر(۱۳) پراسے بھی نقل کرلیا اور انھیں اتنی بات بھی نہ سوجھی کہ اس نوٹ کو یا توحذف کردیں یا کم ازکم اصل کتاب کھول کر مسئلہ نمبر ۱۷۷ کے تحت ذکرکی گئی حدیث ہی نقل کردیں، العیاذ باللہ۔
’’روزہ کی فرضیت‘‘ اورچاند کے مسائل‘‘ کے عنوان سے مسروقہ مواد نقل کرنے کے بعد کتاب کے صفحہ ۱۴؍ سے مسلسل میری کتاب کے ۲۳دروس من وعن منقول ہیں، اور جیسا کہ پہلے میں لکھ چکاہوں کہ ہردرس کومیں نے مختصر حمدوصلاۃ سے شروع کیا ہے اورموضوع کی مناسبت سے دعاؤں پر ختم کیا ہے، محمدعمارسلفی نے اس میں بھی کسی تبدیلی کی زحمت نہ فرمائی، ہاں صرف درس نمبر حذف کردیا ہے ۔
میرے ۲۳؍دروس من وعن نقل کرنے کے بعد محمدعمار سلفی نے پھرشیخ اقبال کیلانی کی کتاب کو کھول کررکھ لیا ہے اورنفلی روزہ کے احکام نقل کرنے کے بعد زکاۃ کے مختلف مسائل ان کی مذکورہ کتاب سے نقل کردئے ہیں۔
پھرصفحہ نمبر۱۳۷ سے آخرکتاب تک میری کتاب کے باقی ۷؍دروس بالترتیب نقل کردیئے ہیں، اور میرے تیسویں درس ’’ماہ صیام کا پیام اہل ایمان کے نام‘‘پر کتاب کو ختم کردیا ہے۔
اس طرح گویا تقریباً ۱۶۰ ؍صفحات پر مشتمل اس نام نہاد تالیف میں دوتہائی سے زائد مواد میری کتاب ’’تحفۂ رمضان المبارک ‘‘سے چوری کرکے نقل کئے گئے ہیں اورباقی ایک تہائی شیخ اقبال کیلانی کی ’’کتاب الصیام‘‘ سے سرقہ کئے گئے ہیں۔
غیر ذمہ دار اشاعتی ادارہ مکتبہ نعیمیہ ،مؤاورنام نہاد مؤلف محمد عمار سلفی کے خلاف قانونی کارروائی کا مشورہ متعدد احباب نے دیاہے، مگراحباب کے مشورہ پر عمل کرنے سے قبل میں اپنامقدمہ ذمہ داران جمعیت وجماعت خصوصاً مؤ اوربنارس کے علماء کی عدالت میں پیش کررہا ہوں کہ وہ اس گھناؤنی حرکت پر ناشر اور مولف دونوں کا مواخذہ کرکے انھیں قرارواقعی سزادیں تاکہ حقیقی مؤلفین،مصنفین ومحققین کی علمی کاوشیں اس قسم کی سازشوں سے محفوظ رہ سکیں ورنہ کچھ دنوں بعد یہی جھوٹے مولفین اصل مؤلف جانے جائیں گے اورحقیقی مصنفین کو لوگ خائن تصور کربیٹھیں گے۔

1 comment:

  1. یہ سرقہ نہیں بلکہ ڈکیتی ہے ۔ اور تعجب ہے کہ سلفی ہونے کے باوجود موصوف نے ایسی جرات کیسے کی ۔ تعجب ہے ،تعجب ہے ،تعجب ہے

    ReplyDelete