Tuesday, September 28, 2010

حضرت زیدبن ثابت aug-sep 2010

محمود احمد غضنفر

حضرت زیدبن ثابت

سنہ۲ ہجری ہے،مدینہ منورہ میں چہل پہل دکھائے دے رہی ہے، مجاہدین غزوۂ بدرکی تیاری میں ہمہ تن مصروف ہیں، نبی کریمﷺ اپنی قیادت میں جہاد کے لئے روانہ ہونے والے پہلے لشکر پرطائرانہ نگاہ ڈال رہے ہیں کہ اچانک ایک تیرہ سالہ لڑکا جس کے چہرے پرذہانت ،متانت، شرافت اورخودداری کے نقوش نمایاں نظر آرہے تھے ہاتھ میں اپنے قدسے بھی لمبی تلوار پکڑے رسول اللہﷺ کے قریب آیا اورعرض کی یا رسول اللہﷺ میں آپ پہ قربان جاؤں، مجھے اپنے ساتھ لے لیجئے تاکہ میں آپ کے جھنڈے تلے جہاد کی سعادت حاصل کرسکوں۔

رسول اکرم ﷺ نے اسے خوشی اورتعجب سے دیکھا اوراس کے کندھے پرمحبت وشفقت بھرے انداز میں تھپکی دی، اس کے دل کو خوش کیا اورکم عمری کی بناپراسے واپس لوٹادیا۔

یہ نوعمرلڑکا اپنی تلوار زمین پرگھسیٹتا ہواغم واندوہ کی تصویر بناہوا واپس لوٹاکیونکہ وہ پہلے غزوے میں رسول کریمﷺ کی رفاقت حاصل کرنے سے محروم ہوگیاتھا، اس کے پیچھے ان کی والدہ محترمہ نواربنت مالک غم واندوہ سے نڈھال واپس لوٹیں، کیونکہ ان کے دل کی یہ تمنا تھی کہ میرالخت جگر رسول کریمﷺ کے جھنڈے تلے مجاہدین کے شانہ بشانہ دادِ شجاعت دے اور مجھے یہ منظردیکھ کرآنکھوں کی ٹھنڈک نصیب ہو، کاش کہ آج اس کا باپ زندہ ہوتا توضروررسول کریمﷺ کی قیادت میں اس غزوے میں شمولیت کی سعادت حاصل کرتا۔

لیکن جب اس انصاری بچے نے اپنی نوعمری کی بناپر میدان جہاد میں رسول اقدس ﷺ سے قرب حاصل کرنے میں اپنی ناکامی دیکھی تواس کے ذہن رسا میں نبی کریمﷺ کا تقرب حاصل کرنے کا ایک اورطریقہ آیا جس کا عمرکے ساتھ کوئی تعلق نہیں تھا، بلکہ اس کا تعلق علم اورقرآن مجیدکے حفظ سے تھا، جب اس نے اپنی والدہ سے اس کا تذکرہ کیا تووہ بہت خوش ہوئیں اوریہ طریقہ آزمانے کے لئے مستعد وچوکس ہوگئیں۔

والدہ محترمہ نے اپنی قوم کے چیدہ افرادسے اپنے لختِ جگرکی رائے اوراندازِ فکر کاتذکرہ کیا تووہ اسے اپنے ہمراہ رسول کریم ﷺ کی خدمت اقدس میں لے گئے، اورعرض کی:یا رسول اللہ ﷺ ہمارے بیٹے زید بن ثابت کوقرآن مجید کی سترہ سورتیں زبانی یادہیں اوریہ اس طرح درست پڑھتاہے جس طرح آپ کے قلب مبارک پہ نازل کی گئی تھیں، علاوہ ٓمیں یہ بڑاذہین ہے اورلکھناپڑھنا بڑی اچھی طرح جانتا ہے، ان خوبیوں کی وجہ سے وہ آپ کا قرب اورآپ کے دامن سے لپٹناچاہتاہے، آپ چاہیں تو اس سے سن لیں،رسول اکرمﷺ نے اس ہونہارلڑکے زید بن ثابت رضی اللہ عنہ سے کچھ سورتیں سنیں توالفاظ کی عمدہ ودرست ادائیگی اورخندہ پیشانی ،شیریں کلامی سے آپ بہت متاثر ہوئے اس کے ہونٹوں پرقرآنی کلمات اس طرح چمکتے تھے جس طرح آسمان پر تارے چمکتے ہیں،اس کی تلاوت اپنے اندربے پناہ جاذبیت رکھتی تھی، تلاوت کا ٹھہراؤاس کے تروتازہ حافظے اورفہم وفراست پر دلالت کرتا تھا،رسول کریمﷺ اس ہونہار بَروے میں یہ خوبیاں دیکھ کربہت خوش ہوئے اورآپ کو زیادہ خوشی اس سے ہوئی کہ وہ عربی زبان عمدہ انداز میں لکھنا بھی جانتا ہے، نبی کریمﷺ نے اس کی طرف محبت بھرے انداز سے دیکھا اور ارشاد فرمایا:’’اے زید! میرے لئے یہودکی زبان عبرانی لکھنا بھی سیکھو،مجھے ان پر اعتماد نہیں‘‘۔

انھوں نے کہا: حاضریارسول اللہﷺفوراً عبرانی زبان سیکھنا شروع کردی اورتھوڑے ہی عرصہ میں اس زبان میں مہارت پیداکرلی، رسول اللہ ﷺ یہودکی طرف کوئی پیغام لکھ کربھیجنا چاہتے تو توجناب زید بن ثابت تحریر کرتے اورجب وہ کوئی خط بھیجتے تویہ آپ کو پڑھ کرسناتے۔

پھررسول اللہﷺ کے حکم کے مطابق عبرانی کی طرح سریانی زبان بھی سیکھ لی، اوریہ نوجوان زید بن ثابت رضی اللہ عنہ،رسول اقدس ﷺ کا ترجمان بن گیا اوراس طرح انھیں آپ کا قرب حاصل ہوا۔

جب نبی کریمﷺ کوحضرت زید کی متانت، دیانت، امانت اورمعاملہ فہمی پرمکمل اعتماد ہوگیا تو انھیں خدائی پیغام ضبط تحری رمیں لانے کے لئے ’’کاتب وحی‘‘کے اہم منصب پرفائز کردیاگیا، جب قرآن مجیدکی کوئی آیت آپ کے قلب مبارک پرنازل ہوتی توحضرت زید کوبلاتے اوراسے لکھنے کا حکم دیتے، تووہ اسے لکھ دیتے، حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ ،وقتا فوقتا رسول کریمﷺ سے قرآنی تعلیمات حاصل کرتے اوراس طرح دن بدن ان کی دینی معلومات میں اضافہ ہونے لگا اوروہ آپ کے ذہن مبارک سے تازہ ترین دینی احکامات سنتے، ان کے اسبابِ نزول معلوم کرتے جن سے ان کے دل میں انوارِ ہدایت سے چمک پیداہونے لگی، اوران کی عقل اسرارشریعت سے منورہونے لگی یہاں تک کہ یہ نوجوان قرآن مجیدکا ماہراوروصال رسول علیہ السلام کے بعدامت محمدیہ کے لئے مرجع اوّل بنا، حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ ،کے دورِ خلافت میں جن صحابہ کرام کو قرآن مجید جمع کرنے کا فرض سونپاگیاان میں یہ سرفہرست تھے۔

حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے دورِ خلافت میں جن صحابہ کرام نے قرآن مجید کے متعددنسخوں کویکجا کیا ان میں بھی ان کی حیثیت نمایاں تھی، کیا اس سے بڑھ کربھی کوئی مرتبہ ہوسکتا ہے جس کی کسی کوتمناہو؟۔

قرآن مجید کی برکت سے حضرت زیدبن ثابت رضی اللہ عنہ کے لئے ایسے کٹھن مراحل میں صحیح سمت اختیار کرنے کے راستے روشن ہوجاتے جب کہ بڑے بڑے عقل مندحیران وپریشان ہوجایاکرتے تھے۔

مہاجرین نے کہا: رسول اقدس ﷺ کی خلافت کاحق ہمارا ہے،انصارمیں سے چندایک نے کہا: خلافت کے حقدار ہم ہیں،اوربعض انصارکہنے لگے کہ ایک خلیفہ ہم میں سے ہواورایک مہاجرین میں سے ہو، کیونکہ رسول اقدس صلی اللہ علیہ وسلم جب کبھی کسی علاقے میں مہاجرین میں سے اپناکوئی نمائندہ بناکربھیجتے تواس کے تعاون کے لئے ایک انصاری کوساتھ ملادیا کرتے تھے، قریب تھاکہ یہ فتنہ سنگین صورت اختیار کرجاتا، حالانکہ اللہ کے نبیﷺ کفن میں ملبوس ان کے سامنے تھے ابھی آپ کے جسداطہر کودفن نہیں کیاگیا تھا،ایسے نازک ترین موقع پرضروری تھاکہ قرآن مجید کی برکت سے کوئی ایسی اچھوتی، حیرت انگیز اورمحتاط بات سامنے آئے جس سے یہ فتنہ فوری طورپردب جائے، یہ بات حضرت زیبد بن ثابت انصاری رضی اللہ عنہ ،کی زبان مبارک سے نکلی جب انھوں نے اپنی قوم کی طرف دیکھا توارشاد فرمایا اے خاندان انصار! رسول کریمﷺ مہاجرین میں سے تھے، آپ کا خلیفہ بھی مہاجر ہوگا۔

ہم جس طرح رسول اللہ ﷺ کے انصارومددگار تھے اسی طرح ان کے خلیفہ کے بھی انصارومددگار ہوں گے،پھراپناہاتھ حضرت صدیق رضی اللہ عنہ ، کی طرف بڑھایا بیعت کی اورفرمایا یہ تمہارے خلیفہ ہیں ان کی بیعت کرو۔

حضرت زیدبن ثابت رضی اللہ عنہ ،قرآن مجید کی برکت اورطویل زمانہ رسول کریمﷺ کی صحبت کی بناپر مسلمانوں کے لئے مینارۂ نور اوران کے ہادی ومرشدبن گئے۔

خلفائے عظام مشکل ترین مسائل کے حل کرنے میں ان سے مشورہ لیتے، عوام الناس فقہی مسائل میں ان سے فتویٰ لیتے، خاص طورپروراثت کی تقسیم کے سلسلہ میں ان سے زیادہ ماہراورکوئی نہ تھا، فتح دمشق کے موقع پر خلیفۃ المسلمین سیدنا حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے جابیہ نامی بستی میں مجاہدین سے خطاب کرتے ہوئے ارشاد فرمایا:’’لوگو!جو تم میں سے قرآن مجید کی متعلق معلومات حاصل کرناچاہے، وہ زیدبن ثابت کے پاس جائے ،جوتم میں سے کوئی فقہی مسئلہ پوچھنا چاہے وہ معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کی طرف رجوع کرے اورجس کسی کو مال چاہئے وہ میرے پاس آئے کیونکہ مجھے مسلمانوں کے مال کی نگرانی اوراس کی تقسیم کا اختیاردیا گیاہے۔

صحابۂ کرام اورتابعین ذی وقارمیں سے علم حاصل کرنے والوں نے حضرت زیدبن ثابت رضی اللہ عنہ، کی صحیح معنوں میں قدرپہچانی، اورعلمی مرتبہ اورفضل وشرف کی بناپر ان کی تعظیم بجالائے۔

وہ حیرت انگیز منظر کا مشاہدہ کروکہ علم کابحربے کنار حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ، حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کی تعظیماً سواری کی لگام پکڑے کھڑے ہیں، حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ نے کہا: رسولِ اقدس ﷺ کے چچازاد بھائی گھوڑے کی لگام چھوڑیئے مجھے شرمندہ نہ کیجئے۔

حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ ،نے ارشاد فرمایا: اسی طرح اپنے علماء کی عزّت کرنے کاحکم دیا گیاہے۔

حضرت زیدبن ثابت رضی اللہ عنہ نے حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے کہا: مجھے اپناہاتھ دکھلایئے انھوں نے اپناہاتھ ان کی طرف کیا، توانھوں نے اسے پکڑکر چوم لیااورفرمایا: ہمیں اپنے پیارے نبیﷺ کے اہل بیت کے ساتھ اسی طرح محبت کرنے کاحکم دیاگیاہے۔

حضرت زیدبن ثابت رضی اللہ عنہ، اپنے رب کو پیارے ہوئے تومسلمان زاروقطار روئے کہ آج علم کا خزانہ مٹی میں دفن ہوجائے گا، حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ، نے فرمایا: آج اس امت کامتبحرعالم دنیا سے کوچ کرگیا، کاش اللہ تعالیٰ عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کواس کا نعم البدل بنادے۔

***

No comments:

Post a Comment