Monday, October 4, 2010

عظمتِ صحیح بخاری Aug-sep 2010

شفیع اللہ عبدالحکیم مدنیؔ
استاد جامعہ سراج العلوم السلفیہ،جھنڈانگر
عظمتِ صحیح بخاری

نبی کریم ﷺ کے زمانہ میں اورصحابہ وتابعین کے زمانہ میں احادیث کتابوں میں جمع نہیں کی گئی تھیں، البتہ بعض صحابہ نے متفرق طورپر کچھ حدیثیں لکھ رکھی تھیں، اس کے کئی وجوہات بتائے جاتے ہیں:
۱۔ ایک وجہ یہ ہے کہ شروع میں حدیث لکھنے سے نبی اکرمﷺ نے منع فرمادیا تھا تاکہ قرآن کریم کے ساتھ بعض حدیث کا اختلاط نہ ہوجائے۔
۲۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ صحابہ کرام قوت حافظہ میں اپنی مثال آپ تھے، ان کے اندر تمام اقوال وواقعات کو جن کو انھوں نے آپ ﷺ سے بالمشافہ یا کسی اورذریعے سے سناتھا یا دیکھا تھا پوری طرح حفظ کرنے کی صلاحیت موجودتھی، لکھنے کی ضرورت نہ تھی۔
۳۔ تیسری وجہ یہ ہے کہ اس زمانہ میں اکثرلوگ لکھنا نہیں جانتے تھے۔
جب دنیا میں اسلام پھیلا اورعلماء دوردراز شہروں میں منتشر ہوگئے اور صحابہ مختلف اطراف میں متفرق ہوگئے اوراکثرصحابہ کی وفات ہوگئی اورلوگوں کی قوت حافظہ کچھ کمزور ہوگئی، ضبط حدیث میں کمی آگئی اورخارجی ورافضی اورتقدیر کے منکرین نے بدعات کو رواج دینا شروع کردیا تب علماء نے احادیث کو کتابوں میں جمع کرنے کی ضرورت محسوس کی اورتابعین کے اخیرزمانہ میں تدوین حدیث کا کام شروع ہوگیا، چنانچہ اس سلسلے میں سب سے پہلی کامیاب کوشش ربیع بن صبیح نے کی( ایک صالح مجاہد تھے اور۱۶۰ھ میں بحر سندھ میں لڑتے لڑتے شہید ہوگئے) اوردوسری شخصیت سعید بن ابی عروبہ (ت۱۵۶ھ) کی تھی جنھوں نے رسول اکرمﷺ کے آثار واحادیث کو جمع کرنے کی کامیاب کوشش فرمائی، پھردوسری صدی کے وسط میں امام مالک (ت ۱۷۹ھ) تشریف لائے اورانھوں نے مدینہ منورہ میں مؤطا لکھی، انھوں نے اس کتاب میں صرف اہل حجاز کی روایت کردہ احادیث جمع فرمائے مگراحادیث نبویہ کے ساتھ ساتھ انھوں نے اقوال صحابہ وتابعین بھی جمع فرمائے۔
امام مالک رحمہ اللہ کے بعدجن علماء نے تدوین حدیث میں اپنی خدمات کوپیش کیا ان میں چندقابلِ قدرشخصیات مندرجہ ذیل ہیں۔
(۱) ابومحمد عبدالملک بن عبدالعزیز بن جریج(ت۱۵۰ھ) مکہ مکرمہ میں۔
(۲) ابوعمرعبدالرحمن بن عمرو اوزاعی (ت۱۵۷ھ) شام میں۔
(۳)ابوعبداللہ سفیان بن سعید ثوری(ت۱۶۱ھ) کوفہ میں۔
(۴)ابو سلمہ حماد بن سلمہ بن دینار(ت۱۶۷ھ) بصرہ میں۔
دوسری صدی ہجری کے آخرمیں انہی کے نقش قدم پرچلتے ہوئے بعض ائمہ نے احادیث نبویہ کو انفرادی مقام دینا چاہا اورانھوں نے الگ الگ مسانید وجودمیں لائیں، ان برگزیدہ شخصیات میں سے چندشخصیات ایسی ہیں جنھوں نے اس سلسلے میں پہل کی ان کے اسماء گرامی یہ ہیں:
*عبیداللہ بن موسی الکوفی ،مسدد بن مسرہد البصری، اسدبن موسی الأموی، نعیم بن حمادالخزاعی نزیل مصر، امام احمد بن حنبل نے اپنی مشہور زمانہ کتاب مسنداحمد بن حنبل ترتیب دی، ان کی یہ کتاب فن حدیث میں بہت جامع اور بہترین کتاب ہے ساڑھے سات لاکھ حدیثوں سے انتخاب کرکے لکھا ہے۔
*امام المحدثین ابوعبداللہ محمد بن اسماعیل بخاری نے مذکورہ بالا تصانیف ومسانید کا بنظرغائر مطالعہ کیا تومجموعی اعبارسے انھوں نے ان مجموعات کو مفید پایا، لیکن انھوں نے بعض احادیث کو صحیح، بعض کو حسن اوربیشتر احادیث کو ضعیف پایا، یہ دیکھ کر انھوں نے ایک جرأت مندانہ قدم اٹھایا اورصرف صحیح احادیث کو جمع کرنے کا عزم مصمم کیا، اس سلسلے میں انھوں نے اپنے استاد امیرالمؤمنین فی الحدیث اسحاق بن راہویہ سے جوکچھ سنا تھا اس سے ان کے ارادے میں مزید پختگی پیداہوئی، علامہ ابن حجرالعسقلانی فرماتے ہیں کہ ابراہیم بن معقل النسفی نے کہا کہ میں نے امام محمد بن اسماعیل البخاری سے سناہے کہ ہم لوگ اپنے استاد اسحاق بن راہویہ کے پاس بیٹھے تھے توایک مرتبہ انھوں نے ہماری طرف توجہ فرماکرکہا:’’لوجمعتم کتاباً مختصراً لصحیح سنۃ رسول اللہﷺ ،قال فوقع ذلک فی قلبی فأخذت فی جمع الجامع الصحیح‘‘۔
اگرتم لوگ رسول اکرمﷺ کی صحیح سنتوں کو ایک مختصرکتاب میں جمع کرتے ،امام بخاری نے فرمایا کہ یہ بات میرے دل میں اسی وقت اثرکرگئی اوراسی وقت سے میں نے الجامع الصحیح کو جمع کرنا شروع کردیا۔
*علامہ ابن حجرالعسقلانی، محمد بن سلیمان بن فارس کا قول نقل کرتے ہیں کہ انھوں نے امام بخاری سے سناہے کہ ایک مرتبہ میں نے خواب دیکھا کہ میں کھڑا ہوں میرے ہاتھ میں پنکھا ہے اورمیں رسول پاک ﷺ کی ذات مبارک سے مکھیوں کو اڑاتاہوں میں نے کسی تعبیر جاننے والے سے خواب کی تعبیر کے متعلق استفسار کیا، جواب ملا کہ تم رسول اکرمﷺ کی طرف منسوب جھوٹی احادیث کو مٹاؤ گے، پس اسی خواب نے مجھے الجامع الصحیح کی ترتیب وتدوین کے لئے ابھارا۔
امام محمد بن اسماعیل البخاری نے صحیح احادیث کی چھانٹ کرنے کے بعدانتہائی احترام سے احادیث کی تدوین شروع کی، محمد بن یوسف فربری روایت کرتے ہیں کہ محمد بن اسماعیل بخاری نے فرمایا:’’ماکتبت فی کتاب الصحیح حدیثاً إلا اغتسلت قبل ذلک وصلیت رکعتین‘‘یعنی صحیح بخاری میں کوئی بھی حدیث لکھنے سے قبل میں ضرور غسل کرتا تھا اوردورکعتیں نماز اداکرتاتھا۔
*ابوعلی غسانی کہتے ہیں کہ محمد بن اسماعیل بخاری سے منقول ہے ’’خرجت الصحیح من ستماءۃ الف حدیث‘‘ یعنی میں نے ’’الجامع الصحیح‘‘کو چھہ لاکھ احادیث سے منتخب کیا یعنی یوں سمجھئے کہ امام بخاری نے چھ لاکھ احادیث کا نچوڑ امتِ مسلمہ کی رہنمائی کے لئے لکھ چھوڑاہے ۔
دوسری جگہ امام بخاری فرماتے ہیں:’’لم اخرج فی ھذا الکتاب إلا صحیحا وماترکت من الصحیح اکثر‘‘میں نے اس کتاب میں صرف صحیح احادیث کی تخریج کی ہے اورصحیح احادیث میں سے بھی بہت زیادہ چھوڑچکا ہوں، تمام صحیح احادیث کو ایک کتاب میں جمع کرنا ایک دشوار سی بات تھی کیونکہ اس طرح سے کتاب کا حجم اور بڑھ جاتا، اس قول سے معلوم ہوتاہے کہ صحیح بخاری میں درج شدہ احادیث کے علاوہ امام بخاری کے شروط کے مطابق اوربھی صحیح احادیث موجود ہیں، جن کو امام صاحب نے طوالت کے خوف سے نہیں لائے ہیں بعدمیں ایسی ہی احادیث کا استدراک امام حاکم نے اپنی شہرۂ آفاق کتاب ’’المستدرک علی الصحیحین‘‘میں کیا ہے۔
محمد بن یوسف فربری کہتے ہیں کہ میں نے محمد بن ابوحاتم (کاتب البخاری) الوراق سے یہ کہتے ہیں سنا ہے کہ میں نے محمد بن اسماعیل البخاری کو خواب میں دیکھاکہ نبی پاک ﷺ کے پیچھے چل رہے ہیں اور نبی پاک ﷺ آگے تشریف لے جارہے ہیں جہاں نبی پاک ﷺ اپنا قدم مبارک رکھتے ہیں وہیں محمد بن اسماعیل بخاری بھی اپنا قدم رکھتے ہیں۔(ھدی الساری مقدمۃ فتح الباری ص:۹،۸)
صحیح بخاری کے عظیم مؤلف کا سلسلہ نسب یوں ہے: ابوعبداللہ محمد بن اسماعیل بن ابراہیم بن مغیرہ بن بَردِ زبہ جعفی۔(مقدمہ فتح الباری ص:۵۰۱ تذکرۃ الحفاظ ۴؍۵۵۵)
آپ کے جد امجد بَردِ زبہ مسلمان نہیں ہوسکے تھے، یہ مجوسی المسلک تھے امام بخاری اصلاً عربی نہیں بلکہ عجمی تھے کتب سۃ کے تمام مصنفین عجمی ہیں سوائے امام مسلم کے۔
امام بخاری کے پردادا مغیرہ سب سے پہلے حاکم بخارا یمان بن اخنس جعفی کے ہاتھ پر اسلام لائے پھران کے بیٹے ابراہیم مسلمان ہوئے۔
حافظ ابن حجر ہدی الساری ص:۵۰۱ میں فرماتے ہیں کہ مجھے ابراہیم کے حالات کا علم نہ ہوسکا، ان کے بیٹے کانام اسماعیل ہے جواپنے وقت کے عظیم محدث ہیں آپ امام مالک اورحماد بن سلمہ کے شاگردوں میں سے تھے، اوربہت سے عراقیوں نے آپ سے سماع کیاہے، امام بخاری کو یہ شرف حاصل ہے کہ آپ نجیب الطرفین ہیں ان کے والد بھی محدث اوروالدہ بھی عابدہ زاہدہ اورشب بیدارتھیں، امام بخاری ابھی صغر سنی میں تھے کہ والد کا انتقال ہوگیا اورانھوں نے یتیمی کی حالت میں والدہ کی گود میں پرورش پائی، امام بخاری جُعفی کی کنیت ابوعبداللہ اورلقب سیدالفقہاء والمحدثین ہے۔(ہدی الساری ص:۵۰۷)
حافظ ابن حجرنے تقریب التہذیب میں امام بخاری کو ان القاب میں یادکیاہے، ’’جبل الحفظ وإمام الدنیا، ثقۃ الحدیث‘‘قوت حافظہ کے پہاڑدنیا بھرکے امام اورحدیث میں پختہ کار۔
ابتدائی علم انھوں نے اپنے علاقہ سے ہی حاصل کیا ،آپ کے مشہور اساتذہ میں یحيٰ بن معین، امام احمد بن حنبل، مکی بن ابراہیم البلخی، محمد بن یوسف بیکندی، علی بن المدینی، ابوبکرالحمیدی وغیرہ ہیں۔
عبداللہ بن محمد مسندی امام بخاری کے استاد بھی ہیں اورشاگرد بھی کیونکہ آپ کا مشہور مقولہ ہے کہ ’’کوئی انسان اس وقت تک محدث کامل نہیں بن سکتا جب تک وہ اپنے سے بڑے اورچھوٹے سے علم حاصل نہ کرلے۔
علی بن مدینی امام بخاری کے عظیم شیخ ہیں جن کے بارے میں امام بخاری فرماتے ہیں: ’’مااستصغرت بعمری عنداحدإلاعند علی بن المدینی‘‘میں نے کبھی اپنے آپ کو کسی کے سامنے چھوٹا نہیں سمجھا لیکن جب علی بن مدینی کے سامنے بیٹھتا ہوں تومیں اپنے آپ کو بچہ ہی سمجھتا ہوں، جب علی بن مدینی کو یہ بات پہونچی توانھوں نے کہا’’بخاری کی بات چھوڑیئے اس جیسا تودنیا جہاں میں کوئی موجود نہیں اوریہ دعا دی’’جعلک اللہ زینۃ ھذہ الأمۃ‘‘کہ اللہ تجھے اس دنیا کی زینت بنائے اوریہ دعا بارگاہ الٰہی میں قبول ہوئی۔(ہدی الساری ص:۵۰۸)
صحیح بخاری !محمد بن اسماعیل البخاری نے اپنی عظیم تالیف صحیح بخاری کو ۱۷۔۲۱۶ھ میں لکھنا شروع کیا اوراس کا اختتام ۱۶ سال کے عرصہ میں ہوا، تالیف کے بعدامام بخاری نے اس عظیم کتاب کو اپنے ان کبار شیوخ پرپیش کیا، امام احمد بن حنبل ، علی بن مدینی اوریحيٰ بن معین۔
امام احمد کا انتقال ۲۴۱ھ میں ہواہے جبکہ علی بن مدینی اوریحيٰ بن معین کاانتقال ۲۳۴ھ میں ہوا، یہ اس امرکی دلیل ہے کہ۲۳۴ھ ؁ سے پہلے صحیح بخاری مکمل ہوچکی تھی، آپ نے اپنے ان شیوخ پر جب صحیح بخاری کوپیش کیا تو’’فاستحسنوہ‘‘ان تمام محدثین نے اس عظیم کتاب کو بنظراستحسان دیکھا۔
کوئی شئی قابل اعتراض نہ تھی ماسوائے چاراحادیث کے لیکن عقیلی فرماتے ہیں کہ ان چاراحادیث میں بھی امام بخاری کا موقف مضبوط تھا یہی کتاب عرفِ عام میں’’بخاری شریف‘‘ کے نام سے مشہورہے۔(ہدی الساری ص:۹،تقریب التہذیب ابن حجر)
کتاب کا مکمل نام: ’’الجامع الصحیح المسند من حدیث رسول اللہﷺ وسننہ وأیامہ‘‘یہ نام ابن حجرنے الہدی الساری ص:۱۰ میں ذکرکیاہے، اردوزبان میں اس کا ترجمہ یوں سمجھئے کہ’’صورت اورسیرت کے اعتبارسے عکس نبوی‘‘ کانام صحیح بخاری ہے، یہ ایسی عظیم کتاب ہے کہ اس کتاب کے بعددنیا میں اس جیسی کوئی کتاب تالیف نہ کرسکا اور نہ قیامت تک ایسی کتاب کی تالیف ہوگی کیونکہ اس کی صحت پرامت کا اجماع ہوچکاہے کہ کتاب اللہ کے بعدصحیح ترین کتاب صحیح بخاری ہے۔
مضت الدھور وماأتین بمثلہٖ ولقد أتی فعجزن عن نظراۂ
زمانہ گزرچکے ہیں لیکن آج تک صحیح بخاری جیسی تالیف معرضِ وجودمیں نہیں آسکی، صحیح بخاری کی اسناد ایسی ہیں کہ ان پربحث کی ضرورت نہیں، امام شوکانی بعض ائمہ سے یہ بات نقل کرتے ہیں کہ ’’فکل رواتہ قد جاز وا القنطرۃ وارتفعوا قیل وقال وصاروا أکبر من أن یتکلم فیھم بکلام أو بطعن طاعن أو توھین موھن‘‘بخاری کے راوی تمام پر کھ کے تمام پُل پارکرچکے ہیں اب ان میں طعن وتشنیع کی کوئی گنجائش نہیں ۔
شاہ ولی اللہ حجۃ اللہ البالغۃ ص: ۱۳۴ میں فرماتے ہیں:’’جوشخص بخاری اورمسلم کے راویوں میں کیڑے نکالتا ہے وہ شخص بدعتی اورمسلمانوں کے طریقہ سے خارج ہے، مشہورمؤلف ومؤرخ امام ابن خلدون ص:۱۰۴۲ میں فرماتے ہیں کہ :’’شرح صحیح البخاری دین علی ھذہ الأمۃ‘‘صحیح بخاری کی شرح امت کے ذمہ قرض ہے۔
ابوالخیر نے اپنی کتاب’’التبرالمسبوق فی ذیل السلوک‘‘میں لکھا ہے کہ ابن خلدون فتح الباری کی تالیف سے پہلے وفات پاگئے تھے، فتح الباری کی تالیف کے بعدآج اگر وہ دنیا میں زندہ ہوتے تو’’لقرت عینہ بالوفاء والإسیفاء‘‘توفتح الباری کو دیکھ کر ان کی آنکھیں ٹھنڈی ہوجاتیں اوروہ خوش ہوجاتے، کیونکہ اس کتاب کے ذریعے امت نے اس کی شرح کا حق اداکردیاہے۔
حافظ عبداللہ غازی پوری فرماتے ہیں کہ عین ممکن ہے کہ ابن خلدون کا مقصد یہ ہوکہ ’’یزیدک وجھہ حسنا اذا ما زادتہ نظراً‘‘بخاری ایسی کتاب ہے جتنی دفعہ آپ اس کا مطالعہ کریں گے نئے نئے نکات سامنے آئیں گے۔
وہ استاد جس کی زندگی صحیح بخاری کی تدریس کرتے ہوئے گزرگئی جب وہ صحیح بخاری کو پڑھتا ہے توہرسال نئی نئی چیزیں اس کے سامنے آتی ہیں، اس عظیم کتاب میں ۹۷ کتابیں اورچار ہزارسے زائد ابواب ہیں جبکہ مختلف ابواب سے ثابت ہونے والے مسائل تین ہزار سے زیادہ ہیں۔
جس ماحول میں امام صاحب پیداہوئے تھے اس میں طرح طرح کے فتنے موجودتھے، اہل رائے کے اقوال پورے ماحول میں منتشرتھے اس کا سبب یہ تھا کہ قاضی ابویوسف کوقرب سلطانی حاصل تھا چنانچہ جتنے بھی قاضی مقررہوتے تھے وہ فقہ حنفی کے پیروکار ہوتے تھے کسی مذہب کی اشاعت کا یہ سب سے بڑا ذریعہ ہے اسی بناپر ابن حجر نے کہا ہے’’مذہبان فی مبدء أمرھا انتشربالدولۃ والسلطان الحنفیۃ فی المشرق والمالکیۃ فی المغرب‘‘دومذاہب ایسے ہیں جو ابتداء میں حکومت اوراختیارات کے ذریعے پھیلے مشرق میں حنفی مذہب اورمغرب میں مالکی مذہب۔
اسی زمانہ میں منکرین تقدیر، منکرین صفات الٰہی اورمنکرین عذاب قبر، معتزلہ، مجسمہ، رافضہ، امامیہ اورخوارج اپنے اپنے غلط نظریات کی اشاعت میں کمربستہ تھے، اسی ماحول میں امام بخاری نے ۱۶سال کے عرصہ میں اپنی یہ تالیف مکمل فرمائی اورجملہ فتنوں کا توڑکتاب وسنت کی روشنی میں پیش کیا ،اور کمال کی بات یہ ہے کہ مخالف کانام لے کرصحیح بخاری میں اس کی تردید نہیں کی اورایساکمال بہت کم لوگوں کو حاصل ہوتاہے۔
مثال کے طورپر کتاب الایمان میں ستر دلائل کے ساتھ آپ نے مخالفین کی تردید فرمائی ہے (۱) باب المعاصی من أمرالجاھلیۃ لایکفرصاحبھا بارتکابھا إلا الشرک لقول النبیﷺ لأبی ذر!إنک امرء فیک جاھلیۃ وقول اللہ تعالیٰ (إن اللہ لایغفرأن یشرک بہ ویغفرمادون ذلک لمن یشاء) یعنی باب اس کا کہ گناہیں جاہلیت کی چیز ہیں لیکن ان کا مرتکب کافرنہیں کہاجاسکتا جب تک شرک نہ کرے، نبی کریمﷺ کا ایک صحابی کو فرمانا کہ تم ایسے آدمی ہوکہ تم میں اب تک جاہلیت کی بات باقی ہے اور اللہ تعالیٰ کا فرمانا کہ اللہ سب گناہیں معاف کرے گا لیکن شرک نہیں معاف کرے گا(ان دونوں باتوں سے معلوم ہواکہ گناہوں کے ارتکاب سے آدمی کا فر نہیں ہوسکتا)
اس باب سے امام بخاری رحمہ اللہ کا مقصود ان لوگوں کی تردید کرنا ہے جو مرتکب کبیرہ کوکافر قراردیتے ہیں، اوروہ ہیں خوارج جبکہ انجام کار کے اعتبارسے معتزلہ بھی ان کے ساتھ شریک ہیں۔
دوسراباب:’’الکفر دون الکفر‘‘اسی طرح ’’الظلم دون الظلم‘‘اس باب سے مقصود یہ ہے کہ اطاعت کے ذریعے ایمان میں اضافہ اورمعاصی کے ذریعہ اس میں کمی ہوتی ہے، یہاں ان لوگوں کی تردید مقصود ہے جوکہتے ہیں کہ ایمان کے ساتھ معصیت نقصان دہ نہیں ہے اوروہ ہیں مرجۂ۔
اسی طرح باب ہے:’’وإن طائفتان من المؤمنین اقتتلوا فاصلحوا بینھما‘‘فسماھم المؤمنین‘‘ یعنی اگردوجماعت ایمان والوں کی لڑپڑیں توان میں صلح کرادو تواللہ تعالیٰ نے باوجود لڑنے کے مومن کہا۔
اس سے معلوم ہواکہ گناہ سے آدمی کافرنہیں ہوتا،اس باب سے ان لوگوں کی تردید مقصود ہے جومرتکب کبیرہ کی تکفیر کے قائل ہیں، ان تمام باتوں کا ماحصل یہ ہے کہ صحیح بخاری ایک عظیم خزانہ ہے جس میں تقریباً پچپن علوم کو سمودیاگیا ہے، اس سے امام بخاری کی ذہانت وفطانت کااظہار ہوتا ہے اوراسی بناپر ان کی اس عظیم تالیف کو امت میں عظیم ترین مقام ومرتبہ حاصل ہے۔
بخاری کامروجہ نسخہ امام فربری کی روایت سے ہے، محمد بن یوسف بن مطر بن صالح بن بشرالفربری نسبت ہے مقام فربرکی طرف جوکہ بخار ا میں دریائے جیحون کے کنارے واقع ہے۔
امام فربری کا سن ولادت ۲۳۱ھ ؁ اوروفات ۳۳۰ھ ؁ ہے انھوں نے امام بخاری سے صحیح بخاری دوبار پڑھی ہے ایک دفعہ ۲۴۸ھ ؁ میں فربر میں اوردوبارہ بخارا میں ۲۵۲ھ ؁ میں اوراس کے چارسال بعدامام صاحب کا انتقال ہوگیا۔
امام فربری نے کہا کہ اس وقت بخاری کے شاگردوں میں سے روئے زمین پرمیرے سواکوئی نہیں تھا، لیکن انکایہ کہنا درست نہیں۔
حافظ ابن حجر ہدی الساری مقدمہ فتح الباری ص:۵۱۶ میں فرمایا کہ ابوطلحہ منصور کا انتقال فربری کے ۹؍سال بعدہوا ہے۔
امام المحدثین کے تلامذہ کاسلسلہ غیرمحدود ہے، دنیائے اسلام کاکوئی حصہ ایسانہیں ہے جہاں آپ کے تلامذہ کا اثرسلسلہ بہ سلسلہ نہ پہونچاہو،امام فربری کہتے ہیں کہ امام المحدثین سے بلاواسطہ نوے ہزار محدثین نے صرف صحیح بخاری سنی (مقدمہ فتح الباری ص:۵۱۶) اور ان کے اساتذہ کی تعداد ایک ہزار اسی ہے ،حافظ ابن حجر عسقلانی نے خود امام صاحب کا قول نقل کیا ہے ’’کتبت عن الف وثمانین نفساً‘‘یعنی میں نے ایک ہزاراسی شیوخ سے روایتیں لکھی ہیں اور صرف انھیں شیوخ سے حدیثیں لکھی ہیں جوایمان کے گھٹنے بڑھنے کے قائل تھے اوراعمال کوجزء ایمان کہتے تھے۔(مقدمۃ فتح الباری ص:۵۰۳)

No comments:

Post a Comment