Monday, October 4, 2010

دعوت دین میں اقتدار کی حیثیت Aug-Sep 2010

محمدانور محمدقاسم سلفیؔ

دعوت دین میں اقتدار کی حیثیت
حکومت اوراقتدار کی طلب ہرزمانے میں بڑی ہی پُرکشش چیز رہی ہے ،دنیائے حرب وضرب کی تاریخ اقتدار چھیننے والوں اوراقتدارکھونے والوں سے بھری پڑی ہے، اس سے قطع نظردعوت دین میں اقتدار کی کیا حیثیت ہے؟ اگراس پرغورکیا جائے توپتہ چلتا ہے کہ انبیاء کی دعوت حکومت واقتدار کی طلب اورعہدوں کی ہوس سے پاک دعوت ہے، جوگمراہ انسانیت کو رب سے جوڑنے اورانھیں شرک کی گندگی سے پاک کرکے جنتی بنانے والی ہے، انبیاء علیہم الصلوۃ والسلام کی ربانی تعلیمات میں سب سے اہم چیز توحیدِ الوہیت ہے، یہی چیز پیغمبروں اوران کے دشمنوں کے درمیان معرکہ کا باعث بنی اوراس مقدس گروہ نے باطل اورضلال کے ہر معرکہ پرمشرکو ں اورکافرں سے چومکھی جنگ لڑی اورمشرکین نے انبیاء علیہم السلام سے جس باطل دین کے دفاع کے لئے ٹکرلیا وہ قبرپرستی، بت پرستی، انبیاء اورصالحین کی پرستش، ان کے لئے نیاز، چڑھاوے، ان سے خوف اورامید ،اللہ کے پاس ان کی شفاعت کی امید اوراپنی مرادوں کے پوری ہونے کے لالچ پرمشتمل تھی، یہی وہ شرکِ اکبرہے جو کبھی بخشانہیں جائے گا ، اسی کے خلاف تمام پیغمبر تادمِ زیست کمربستہ رہے۔
لیکن کچھ دینی جماعتو ں نے دعوت دین کے نام پر طلب اقتدار کواپنا مقصود بنالیا او رکچھ اسی لیلٰی کے فراق آہیں بھررہے ہیں اوراس کے لئے وہی سارے حربے اورگُرکچھ زیادہ ہی استعمال کرنے لگے جودنیا داروں کا خاصہ رہے ہیں، اوربقول علامہ اقبال عالم یہ ہوگیا ہے ؂
خداوندا یہ تیرے سادہ دل بندے کدھرجائیں
کہ درویشی بھی عیاری ہے سلطانی بھی عیاری
جس کی وجہ سے ان کی دعوت میں وہ خیروبرکت نہیں رہی جو انبیاء علیہم السلام اور بالخصوص رسول کائنات جناب محمدﷺ کی دعوت میں تھی، آیئے سیرت رسول میں جھانک کردیکھیں کہ کیا انبیاء علیہم السلام کی دعوت اوران کی ساری تگ وتاز حصول اقتدارکے لئے تھی؟
آپ ﷺ کو حکومت کی پیشکش:
اللہ کے رسول ﷺ پرمکہ کی بادشاہت پیش کی گئی ،لیکن آپ نے اسے ٹھکرادیا ،توحید کی دعوت اورشرک کی مخالفت برابرجاری رکھی، جب قریش آپ کے معاملے میں پریشان ہوگئے تو انھوں نے عتبہ کو آپ کی خدمت میں بھیجا، جس نے آپ سے اس طرح گفتگوکی۔
’’بھتیجے !ہماری قوم میں جوتمہارا مقام ومرتبہ اوربلند پایہ نسب ہے وہ تمہیں معلوم ہی ہے، اب تم اپنی قوم میں ایک بڑا معاملہ لے کر آئے ہو ،جس کی وجہ سے تم نے ان کی جماعت میں پھوٹ ڈال دیا، ان کی عقلوں کو حماقت سے دوچار بتلایا، ان کے معبودوں اوران کے دین کی عیب چینی کی اورجوان کے آباء واجداد گذرچکے ہیں انھیں کافرٹھہرایا، لہذا میری بات سنو، میں تم پرچند باتیں پیش کرتاہوں ان پر غورکرو شاید کہ کوئی بات قبول کرلو‘‘،رسول اللہﷺ نے فرمایا:ابوالولید!کہومیں سنوں گا۔
ابوالولید نے کہا:’’بھتیجے!یہ معاملہ جسے تم لے کرآئے ہو اگراس سے مال حاصل کرناچاہتے ہو توہم تمہارے لئے اتنامال جمع کئے دیتے ہیں کہ تم ہم میں سب سے زیادہ مالداربن جاؤ، اگرتم یہ چاہتے ہوکہ اعزاز ومرتبہ حاصل کرو توہم تمہیں اپنا سردار بنائے لیتے ہیں یہاں تک کہ تمہارے بغیر کسی معاملہ کا فیصلہ نہ کریں گے، اوراگرتم یہ چاہتے ہو کہ بادشاہ بن جاؤ توہم تمہیں اپنا بادشاہ بنائے لیتے ہیں اوراگریہ جو تمہارے پاس آتا ہے کوئی جن بھوت ہے، جسے تم دیکھتے ہو لیکن اپنے آپ سے دفع نہیں کرسکتے، توہم تمہارے لئے اس کاعلاج تلاش کئے دیتے ہیں اوراس سلسلے میں ہم اتنامال خرچ کرنے کے لئے تیارہیں کہ تم شفایاب ہوجاؤ، کیونکہ کبھی کبھی ایساہوتا ہے کہ جن بھوت انسان پرغالب آجاتا ہے اوراس کاعلاج کرواناپڑتاہے‘‘۔
عتبہ یہ باتیں کہتا رہا اوررسول اللہﷺ خاموشی سے سنتے رہے، جب وہ فارغ ہوچکا توآپ نے فرمایا:’’ابوالولید تم فارغ ہوگئے؟ ‘‘ اس نے کہا:’’ہاں ‘‘آپ ﷺ نے فرمایا:’’اچھا! اب میری سنو‘‘ کہا:’’ ٹھیک ہے سنوں گا‘‘ آپ ﷺ نے فرمایا:بسم اللہ الرحمن الرحیم :پھرآپ نے سورہ حٰم السجدۃ کی کچھ آیتیں تلاوت فرمائیں۔
رسول اللہﷺ آگے پڑھتے جارہے تھے اورعتبہ اپنے دونوں ہاتھ پیچھے زمین پر ٹیکے چُپ چاپ سنتاجارہا تھا، جب آپ سجدہ کی آیت پر پہنچے تو آپ نے سجدہ کیا،پھرفرمایا :’’ابوالولید! تمہیں جوکچھ سنناتھا سن چکے، اب تم جانو اورتمہارا کام جانے‘‘، عتبہ اٹھا اورسیدھے اپنے ساتھیوں کے پاس آیا ،تولوگوں نے پوچھا:’’ابوالولید!پیچھے کی کیاخبرہے‘‘اس نے کہا:’’پیچھے کی خبریہ ہے کہ میں نے ایسا کلام سناہے کہ ویساکلام واللہ میں نے کبھی نہیں سنا، اللہ کی قسم! وہ نہ شعرہے نہ جادواورنہ کہانت ،قریش کے لوگو!میری بات مانو اوراس معاملے کو مجھ پر چھوڑدو ،میری رائے یہ ہے کہ اس شخص کو اس کے حال پر چھوڑ کرالگ تھلگ بیٹھے رہو ،اللہ کی قسم! میں نے جوقول سناہے اس سے کوئی زبردست واقعہ رونما ہوکررہے گا، پھراگر اس شخص کو عرب نے مارڈالا توتمہارا کام دوسروں کے ذریعے انجام پاجائے گا اور اگریہ شخص عرب پرغالب آگیا تواس کی بادشاہت تمہاری بادشاہت اوراس کی عزت تمہاری عزت ہوگی اور اس کا وجود تمہارے لئے سب سے بڑھ کرسعادت کا باعث ہوگا ‘‘لوگوں نے کہا:’’اس شخص کے بارے میں میری رائے یہی ہے، اب تمہیں جو ٹھیک معلوم ہوکرو‘‘۔(سیرت ابن ہشام:۱؍۲۹۴)
ابن اسحاق حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت کرتے ہیں کہ: ’’قریش کے کچھ لوگ رسول الٹہﷺ کے پاس آئے تقریباً وہی پیش کش کی جو عتبہ آپ ﷺ کو کرچکا تھا، آپ ﷺ نے انھیں جواب دیتے ہوئے فرمایا:
’’تمہاری اس پیش کش کی مجھے کوئی ضرورت نہیں، میں تم سے نہ مال مانگنے آیا ہوں اورنہ عزت طلب کرنے اورنہ ہی مجھے تم پر اپنی بادشاہت قائم کرنے میں کوئی دلچسپی ہے، بلکہ اللہ نے مجھے پیغمبر بناکر بھیجا ہے ،مجھ پر کتاب اتاری ہے، مجھے حکم دیا کہ میں تمہیں خوشخبری دوں اورڈراؤں ،میں نے تمہیں میرے رب کے احکامات پہنچادئے ہیں ،تمہاری خیرخواہی کی ہے، اگرتم نے میرے دین کو قبول کرلیا تویہ تمہاری دنیوی اوراخروی سعادت ہے ،اگرتم نے ٹھکرادیا تومیں اللہ کا حکم آجانے تک انتظار کروں گا یہاں تک کہ وہ میرے اورتمہاری درمیان فیصلہ کردے‘‘۔(سیرت ابن ہشام :۱؍۲۹۵،۲۹۶)
طالبینِ اقتدار کے لئے کوئی جگہ نہیں:
رسول اللہﷺ نے بعض قبائل کی اس طلب کو ٹھکرادیا کہ آپ کی وفات کے بعدحکومت انھیں سونپی جائے، ابن اسحاق کہتے ہیں:
’’مجھ سے زہری نے بیان کیا: اللہ کے رسول ﷺ بنوعامربن صعصعہ کے پاس گئے اورانھیں اللہ کی طرف بلایا اوران پراپنے آپ کو پیش کیا، ان میں سے ایک شخص بحیرہ بن فراس نے کہا:اگراس جوان کو میں قریش سے حاصل کرلوں تواس کے ذریعے سارے عرب کو نگل جاؤں گا‘‘ اس نے آپ سے کہا: ’’اگرہم آپ کے ہاتھ پربیعت کرتے ہیں اورآپ کو اللہ اپنے مخالفین پرغلبہ عطاکرے توکیا آپ کے بعدحکومت ہماری ہوگی‘‘؟ آپ نے فرمایا:’’حکومت اورسلطنت اللہ کے ہاتھ میں ہے وہ جسے چاہے گا عطاکرے گا‘‘، اس نے یہ کہتے ہوئے آپ کی دعوت ٹھکرادی کہ’’ہم سارے عرب کے مقابلے میں اپنے سینوں کوآپ کے لئے سپربنائیں، پھرجب اللہ آپ کو غلبہ عطاکرے گا توکیا اقتدار ہمارا نہیں دوسروں کا ہوگا؟ پھرہمیں اس دین کی کوئی ضرورت نہیں‘‘۔(سیرت ابن ہشام: ۱؍۴۲۴، ۴۲۵، السیرۃ النبویۃ للذھبی:۱۸۹؍۱۹۰)
خلاصۂ کلام یہ ہے کہ انبیاء علیہم السلام کسی حکومت کوگرانے اوراس کی جگہ کسی نئی حکومت کو قائم کرنے کے لئے نہیں آئے ہیں اورنہ ہی انھوں نے بادشاہت کی خواہش کی اورنہ اس کے حصول کے لئے پارٹیاں بنائیں، بلکہ وہ انسانیت کو گمراہی سے بچانے، اندھیرے سے روشنی کی طرف لانے اوراللہ کی پکڑسے ڈرانے کے لئے آئے تھے، اگرکبھی انھیں بادشاہت کی پیشکش بھی ہوئی توانھوں نے ٹھکرادیا، اپنی دعوت کے راستے پرگامزن رہے، قریش نے آپ کو بادشاہ بناناچاہا لیکن آپ نے ردکردیا ،اللہ نے آپ کو بادشاہ نبی، یا، بندہ رسول، دونوں میں سے کسی ایک کوپسند کرلینے کا اختیار عطاکیا، لیکن آپ ﷺ نے بندہ رسول بننا ہی پسند کیا۔
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ :حضرت جبریل علیہ السلام نبی ﷺ کے پاس بیٹھے ہوئے تھے پھرآپ نے آسمان کی طرف دیکھا تو ایک فرشتہ اتررہا تھا، جبریل نے کہا: اے محمد! یہ فرشتہ جب سے پیداہوا ہے آج تک زمین پرنہیں اترا اور نہ ہی قیامت تک اترے گا‘‘جب وہ آیا توکہنے لگا: اے محمد !آپ کے پروردگار نے مجھے یہ پیغام دیاہے کہ وہ آپ کو بادشاہ نبی بنائے یا بندہ رسول بنائے؟ جبریل نے کہا: ’’اے محمدﷺ ! آپ اپنے رب کے لئے تواضع اختیار کیجئے‘‘آپ ﷺ نے فرمایا:’’میں توبندہ اوررسول ہی رہوں گا‘‘۔(مسند احمد:۲؍۲۳۱)
اقتدارکے بجائے جنت:
رسول اللہﷺ نے انصار سے صرف جنت کے وعدہ پر بیعت لی ،حالانکہ انصارنے بڑے ہی سخت اورنازک حالات میں بیعت کی تھی ،آپ نے ان سے عہدوں،بادشاہت، مال، حکومت یا اس جیسی دنیوی مرغوبات کا وعدہ نہیں کیا، حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ کہتے ہیں:’’میں ان نقیبوں میں سے ایک تھا جنھوں نے رسول اللہﷺ کے دستِ مبارک پربیعت کی تھی، ہم نے جن باتوں پربیعت کی تھی وہ یہ تھیں:اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہیں کریں گے، چوری زنا کاری نہیں کریں گے، نہ کسی کو ناحق قتل کریں گے، نہ ڈاکہ ڈالیں گے نہ ہی اللہ اوراس کے رسول کی نافرمانی کریں گے، اس کے عوض ہمیں جنت ملے گی۔
حضرت ابومسعودانصاری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں:رسول اللہﷺ اپنے چچا حضرت عباس رضی اللہ عنہ کے ساتھ بیعتِ عقبہ کے وقت درخت کے نیچے تشریف لائے ،آپ نے فرمایا: تمہاری جانب سے ایک آدمی بات کرے اوربات کو طول نہ دے، کیونکہ مشرکین نے تم پرجاسوس چھوڑرکھا ہے، اگروہ جان لیں گے توتم کو تنگ کریں گے ،انصار کی جانب سے ابوامامہ رضی اللہ عنہ کھڑے ہوئے اورکہا:’’اے محمدﷺ !آپ اپنے رب کے لئے اپنی ذات کے لئے اور اپنے ساتھیوں کے لئے جو کچھ مانگنا ہومانگیں، پھر ہمیں بتائیں کہ اس کا ثواب اللہ کی جانب سے ہمیں کیاملے گا؟آپ نے فرمایا:’’میں اپنے رب کے لئے تم سے یہ مطالبہ کرتا ہوں کہ تم صرف اسی کی عبادت کروگے اوراس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کروگے، میں اپنی ذات اوراپنے اصحاب کے لئے تم سے یہ مانگتا ہوں کہ تم ہم کو پناہ دوگے، مدد کروگے اورہماری ہراس چیز سے حفاظت کروگے جس سے تم اپنے آپ کی حفاظت کرتے ہو‘‘انصار نے کہا:’’اگرہم نے یہ کیا توہمارے لئے کیاثواب ہے؟‘‘ آپ ﷺ نے فرمایا:’’تمہارے لئے جنت ہے‘‘انصارنے کہا:’’جب توہم تیار ہیں‘‘۔(مسند احمد:۴؍۱۱۹،۱۲۰)
حضرت جابربن عبداللہ رضی اللہ عنہماکہتے ہیں:’’رسول اللہﷺ مکہ میں نبوت کے بعدتیرہ سال رہے،آپ عکاظ اور مجنّہ کے میلوں میں اورحج کے موقع پر منیٰ کے میدان میں لوگوں کے خیموں میں جاتے اور فرماتے: ’’ کون ہے جو مجھے ٹھکانہ دے اور میری مددکرے؟ میں اپنے رب کا پیغام عام کرسکوں اور اس کے بدلہ میں اس کے لئے جنت ہے‘‘ یہاں تک کہ یمن کا مضری آدمی آتا توآپ کی قوم کے لوگ اس کے پاس آکرکہتے:’’ذرا اس قریش زادے سے بچنا، کہیں وہ تمہیں بھی فتنہ میں نہ ڈالے‘‘ آپ بازارمیں نکلتے تولوگ اپنی انگلیاں آپ پراٹھاتے ،یہاں تک کہ اللہ نے یثرب سے ہمیں آپ کی خدمت میں بھیجا، ہم نے آپ کو پناہ دی اورآپ کو سچا جانا، ہماراکوئی آدمی آپ کے پاس مکہ جاتا اورآپ پرایمان لاتا، آپ اسے قرآن سکھاتے، وہ اپنے گھر واپس لوٹتا اوراس کے گھر والے اس کی وجہ سے مسلمان بن جاتے، یہاں تک کہ انصارکے گھروں میں کوئی بھی ایساگھر نہیں بچا جس میں اسلام پرعلانیہ عمل نہ ہوتاہو، پھرہم نے آپس میں یہ طے کیا کہ ہم کب تک رسول اللہﷺ کومکہ کے پہاڑوں میں چکر کاٹتے، ٹھوکریں کھاتے اورخوف زدہ کئے جاتے ہوئے چھوڑ رکھیں گے؟(اس لئے آپ کو یثرب آنے کی دعوت دیں گے )ہم ستر آدمی موسمِ حج میںآپ کے پاس گئے، ہم عقبہ(گھاٹی) میں وعدہ کے مطابق جمع ہوئے ،آپ ایک یادوآدمیوں کے ساتھ تشریف لائے، ہم نے آپ سے کہا :’’اے اللہ کے رسول ﷺ !ہم آپ سے بیعت کریں گے‘‘ آپ نے فرمایا:’’تم مجھ سے اس بات پربیعت کروکہ چستی اورسستی ہرحال میں سنوگے اورمانوگے ،تنگی اورخوشحالی ہرحال میں خرچ کروگے، بھلائی کاحکم دوگے اوربرائی سے روکوگے، اللہ کے بارے میں اٹھ کھڑے رہوگے اوراس کے بارے میں کسی ملامت گرکی ملامت کی پرواہ نہ کروگے اورجب میں تمہارے پاس آجاؤں تومیری مدد کروگے اورجس چیز سے اپنی جان اوراپنے بال بچوں کی حفاظت کرتے ہواس سے میری حفاظت کروگے اورتمہارے لئے جنت ہے‘‘۔
ہم آپ ﷺ سے بیعت کے لئے لپکے، مگرعین اسی وقت حضرت اسعدبن زرارہ رضی اللہ عنہ۔ جوہم تمام میں کم عمرتھے نے آپ علیہ السلام کا ہاتھ پکڑ لیا اورکہا:’’اے اہلِ یثرب! ذرا ٹھہرجاؤ! ہم آپ کی خدمت میں اونٹنیوں کا کلیجہ مارکر(یعنی لمبافاصلہ طے کرکے) اس یقین کے ساتھ حاضر ہوئے ہیں کہ آپ اللہ کے رسول ہیں،آج آپ کو یہاں سے لے جانے کا کیا معنی ہے؟ سارے عرب سے دشمنی، اپنے چیدہ سرداروں کاقتل اورتلواروں کی مار، اب اگرآپ لوگ یہ سب کچھ برداشت کرسکتے ہیں توانھیں لے لیں اورآپ کا اجراللہ پرہے اوراگرآپ لوگ اپنے متعلق کوئی اندیشہ رکھتے ہیں توانھیں ابھی سے چھوڑدیں ،یہ اللہ کے نزدیک زیادہ قابلِ عذر ہوگا‘‘۔
لوگوں نے کہا: ’’اسعد! اپناہاتھ ہٹاؤ، واللہ ہم اس بیعت کو نہ چھوڑسکتے ہیں اورنہ توڑسکتے ہیں‘‘۔ اس کے بعدایک ایک آدمی نے اٹھ کربیعت کی۔(مسند احمد:۳؍۳۲۲،صحیح ابن حبّان) (جاری)

No comments:

Post a Comment