Tuesday, October 5, 2010

ماہِ رمضان المبارک کی خصوصیات Aug-Sep 2010

ڈاکٹرحافظ محمد اسحاق زاہدؔ
باحث علمی جمعیۃ إحیاء التراث الإسلامی کویت
ماہِ رمضان المبارک کی خصوصیات
اللہ تعالیٰ کے فضل وکرم سے ماہِ رمضان المبارک کا آغاز ہوچکا ہے، اس لئے ہم سب کو اللہ تعالیٰ کا شکراداکرناچاہئے کہ اس نے ہمیں زندگی میں ایک بار پھریہ مبارک مہینہ نصیب فرمایا، ایک ایسا مہینہ کہ جس میں اللہ تعالیٰ جنت کے دروازے کھول دیتا ہے، جہنم کے دروازے بند کردیتا ہے اورشیطان کو جکڑدیتا ہے تاکہ وہ اللہ کے بندوں کواس طرح گمراہ نہ کرسکے جس طرح عام دنوں میں کرتا ہے، ایسا مہینہ کہ جس میں اللہ تعالیٰ سب سے زیادہ اپنے بندوں کو جہنم سے آزادی کا انعام عطا کرتا ہے، جس میں خصوصی طورپر اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کی مغفرت کرتا اور ان کی توبہ اوردعائیں قبول کرتا ہے تو ایسے عظیم الشان مہینہ کا پانا یقیناًاللہ تعالیٰ کی بہت بڑی نعمت ہے، اوراس نعمت کی قدرومنزلت کا اندازہ آپ اسی بات سے کرسکتے ہیں کہ سلف صالحین رحمہم اللہ چھ ماہ تک یہ دعا کرتے تھے کہ یا اللہ! ہمیں رمضان المبارک کا مہینہ نصیب فرما ،پھرجب رمضان المبارک کامہینہ گذرجاتا تووہ اس بات کی دعا کرتے کہ اے اللہ! ہم نے اس مہینے میں جوعبادات کیں توانھیں قبول فرما، کیونکہ وہ اس بات کو جانتے تھے کہ یہ مہینہ کس قدر اہم ہے! (لطائف المعارف ص:۲۸۰)
لہذا ہمیں بھی اس مہینہ کو غنیمت سمجھتے ہوئے اس کی برکات سے بھرپور فائدہ اٹھاناچاہئے، حضرت طلحہ بن عبیداللہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ دوآدمی رسول اللہﷺ کی خدمت میں حاضرہوئے اوردونوں نے بیک وقت اسلام قبول کیا ،اس کے بعد ان میں سے ایک آدمی زیادہ عبادت کرتا تھا اوروہ اللہ کی راہ میں شہید ہوگیا، جبکہ دوسرا آدمی جوپہلے آدمی کی نسبت کم عبادت گذارتھا اس کی شہادت کے ایک سال بعد فوت ہوا، حضرت طلحہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے خواب دیکھا کہ یہ دوسرا آدمی شہادت پانے والے آدمی سے پہلے جنت میں داخل ہواہے، اورجب صبح ہوئی تومیں نے یہ خواب لوگوں کو سنایا جس پرانھوں نے تعجب کااظہار کیا، چنانچہ رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا:’’أَلَیْسَ قَدْ مَکَثَ ھٰذَا بَعْدَہُ سَنَۃً فَأَدْرَکَ رَمَضَانَ فَصَامَہُ، وَصَلّٰی کَذَا وَکَذَا سَجْدَۃً فِیْ السَّنَۃِ، فَلَمَا بَیْنَھُمَا أَبْعَدُ مِمَّا بَیْنَ السَّمَاءِ وَالْأَرْضِ‘‘۔(ابن ماجہ:۳۹۲۵، صحیح ابن حبان:۲۹۸۲، صحیح الجامع الصغیر للألبانی:۱۳۱۶)
’’کیا یہ(دوسرا آدمی) پہلے آدمی کے بعد ایک سال تک زندہ نہیں رہا؟ جس میں اس نے رمضان کامہینہ پایا، اس کے روزے رکھے اورسال بھراتنی نمازیں پڑھیں؟ توان دونوں کے درمیان( جنت میں) اتنافاصلہ ہے جتنا زمین وآسمان کے درمیان ہے‘‘۔
اس حدیث میں ذرا غورفرمائیں کہ دوآدمی اکٹھے مسلمان ہوئے، ان میں سے ایک دوسرے کی نسبت زیادہ عبادت گذارتھا اوراسے شہادت کی موت نصیب ہوئی، جبکہ دوسرا آدمی پہلے آدمی کی نسبت کم عبادت کرتا تھا اوراس کی موت عام موت تھی لیکن کیاوجہ ہے کہ یہ جنت میں پہلے داخل ہوا؟ اس کی وجہ یہ تھی یہ پہلے آدمی کی شہادت کے بعدایک سال تک زندہ رہا اوراس دوران اسے رمضان المبارک کامہینہ نصیب ہوا، جس میں اس نے روزے رکھے اورسال بھر نمازیں بھی پڑھتا رہا، توروزوں اورنمازوں کی بدولت وہ شہادت پانے والے آدمی سے پہلے جنت میں چلاگیا....یہ اس بات کی دلیل ہے کہ رمضان المبارک کاپانا اور اس کے روزے رکھنا اللہ تعالیٰ کی بہت بڑی نعمت ہے۔
اورآپ ذرا غور کریں کہ ہمارے کتنے رشتہ داراورکتنے دوست احباب پچھلے رمضان المبارک میں ہمارے ساتھ تھے لیکن اس رمضان المبارک کے آنے سے پہلے ہی وہ اس دنیائے فانی سے رخصت ہوگئے اورانھیں یہ مبارک مہینہ نصیب نہ ہوا، جبکہ ہمیں اللہ تعالیٰ نے زندگی اورتندرستی دی اوریہ مبارک مہینہ نصیب فرماکرہمیں ایک بارپھر موقعہ دیا کہ ہم تمام گناہوں سے سچی توبہ کرلیں اوراپنے خالق ومالک اللہ تعالیٰ کو راضی کرلیں توکیا یہ اللہ تعالیٰ کی بہت بڑی نعمت نہیں؟
اوریہ بھی ہوسکتا ہے کہ یہ رمضان المبارک ہماری زندگی کا آخری رمضان ہو اور آئندہ رمضان کے آنے سے پہلے ہی ہم بھی اس جہانِ فانی سے رخصت ہوجائیں !توہمیں یہ موقعہ غنیمت تصورکرکے اس کی برکات کوسمیٹنے کی بھرپورکوشش کرنی چاہئے۔
یہی وجہ ہے کہ جب رمضان المبارک کامہینہ شروع ہوتا تورسول اکرمﷺ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کو اس کے آنے کی بشارت سناتے اورانھیں مبارکباد دیتے، جیساکہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے رمضان المبارک کی آمد کی بشارت سناتے ہوئے فرمایا:’’أَتَاکُمْ رَمَضَانُ، شَھْرٌ مُبَارَکٌ، فَرَضَ اللّٰہُ عَزَّوَ جَلَّ عَلَیْکُمُ صِیَامَہُ، تُفْتَحُ فِیْہِ أَبْوَابُ الْجَنَّۃِ، وَتُغْلَقُ فِیْہِ أَبْوَابُ الْجَحِیْمِ، وَتُغَلُّ فِیْہِ مَرَدَۃُ الشَّیَاطِیْنِ، لِلّٰہِ فِیْہِ لَیْلَۃٌ خَیْرٌ مِنْ أَلْفِ شَھْرٍ،مَنْ حُرِمَ خَیْرَھَا فَقَدْ حُرِمَ‘‘
’’تمہارے پاس ماہِ رمضان آچکا جوکہ بابرکت مہینہ ہے، اللہ تعالیٰ نے تم پر اس کے روزے فرض کئے ہیں، اس میں جنت کے دروازے کھول دئے جاتے ہیں اورجہنم کے دروازے بند کردئے جاتے ہیں، اوراس میں سرکش شیطان جکڑدئے جاتے ہیں اوراس میں اللہ کی ایک رات ایسی ہے جوہزار مہینوں سے افضل ہے جوشخص اس کی خیر سے محروم رہ جائے وہی دراصل محروم ہوتا ہے‘‘۔
(النسائی: ۲۱۰۶، صحیح الجامع الصغیر للألبانی :۵۵)
خصائص رمضان المبارک:
اس مبارک مہینہ کی متعدد خصوصیات ہیں جن کی بناء پر اسے دیگر مہینوں پرفضیلت حاصل ہے، ان میں سے چند خصوصیات یہ ہیں:
(۱)نزولِ قرآن مجید
اللہ تعالیٰ نے آسمانی کتابوں میں سے سب سے افضل کتاب( قرآن مجید)کو مہینوں میں سے سب سے افضل مہینہ( رمضان المبارک) میں اتارا، بلکہ اس مبارک مہینہ کی سب سے افضل رات (لیلۃ القدر) میں اسے لوحِ محفوظ سے آسمان دنیاپر یکبارگی نازل فرمایا اوراسے بیت العزۃمیں رکھ دیا، فرمان الٰہی ہے:(شَھْرُ رَمَضَانَ الَّذِیْ أُنْزِلَ فِیْہِ الْقُرْآنُ ھُدًی لِّلنَّاسِ وَبَیِّنَاتٍ مِّنَ الْھُدٰی وَالْفُرْقَانِ)(البقرہ:۱۸۵)
’’وہ رمضان کامہینہ تھا جس میں قرآن نازل کیاگیا جولوگوں کے لئے باعثِ ہدایت ہے اور اس میں ہدایت کی اور(حق وباطل کے درمیان)فرق کرنے کی نشانیاں ہیں‘‘۔
اورفرمایا:(إِنَّا أَنْزَلْنَاہُ فِیْ لَیْلَۃِ الْقَدْرِ)(القدر:۱)
’’ہم نے اسے لیلۃ القدرمیں نازل کیا‘‘۔
(۲)جہنم سے آزادی
اس مبارک مہینہ کی دوسری خصوصیت یہ ہے کہ اس میں اللہ تعالیٰ اپنے سارے بندوں کو جہنم سے آزادی نصیب کرتا ہے، جیساکہ حضرت جابر رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا’’إِنَّ لِلّٰہِ تَعَالٰی عِنْدَ کُلِّ فِطْرٍ عُتَقَاءُ مِنَ النَّارِ، وَذَلِکَ فِیْ کُلِّ لَیْلَۃٍ‘‘
’’بے شک اللہ تعالیٰ ہرافطاری کے وقت بہت سے لوگوں کو جہنم سے آزادکرتا ہے اورایسا ہر رات کرتا ہے۔(ابن ماجہ: ۱۶۴۳،صحیح الجامع الصغیر للألبانی:۲۱۷۰)
اورحضرت ابوسعید الخدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا:’’إِنَّ لِلّٰہِ تَبَارَکَ وَتَعَالٰی عُتَقَاءُ فِیْ کُلِّ یَوْمٍ وَلَیْلَۃٍ، یَعْنِیْ فِیْ رَمَضَانَ، وَإِنَّ لِکُلِّ مُسْلِمٍ فِیْ کُلٍّ یَوْمٍ وَلَیْلَۃٍ دَعْوَۃً مُسْتَجَابَۃٌ‘‘(البزار:صحیح الترغیب والترھیب للألبانی:۱۰۰۲)
’’بے شک اللہ تعالیٰ( رمضان المبارک میں) ہردن اورہررات بہت سے لوگوں کو جہنم سے آزاد کرتا ہے اورہردن اورہررات ہرمسلمان کی ایک دعا قبول کی جاتی ہے‘‘۔
ان احادیث کے پیشِ نظر ہمیں اللہ تعالیٰ سے خصوصی طورپر یہ دعاکرنی چاہئے کہ وہ ہمیں بھی اپنے ان خوش نصیب بندوں میں شامل کرلے جنھیں وہ اس مہینہ میں جہنم سے آزاد کرتا ہے کیونکہ یہی اصل کامیابی ہے۔
جیساکہ اللہ تعالیٰ کافرمان ہے:(فَمْنْ زُحْزِحَ عَنِ النَّارِ وَأُدْخِلَ الْجَنَّۃَ فَقَدْ فَازَ وَمَا الْحَیَاۃُ الدُّنْیَا إِلاَّ مَتَاعُ الْغُرُوْرِ)(آل عمران:۱۸۵)
’’پھر جس شخص کو آگ سے دورکردیاجائے گا اوراسے جنت میں داخل کردیا جائے گا یقیناًوہ کامیاب ہوجائے گا، اوردنیا کی زندگی تومحض دھوکے کاسامان ہے۔
( ۳)جنت کے دروازوں کا کھولاجانا
(۴) جہنم کے دروازوں کا بندکیاجانا
(۵)سرکش شیطانوں کا جکڑاجانا
یہ تینوں اموربھی رمضان المبارک کی خصوصیات میں سے ہیں،جیساکہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا:’’إِذَا کَانَ أَوَّلُ لَیْلَۃٍ مِنْ شَھْرِ رَمَضَانَ صُفِّدَتِ الشَّیَاطِیْنُ وَمَرَدَۃُ الْجِنِّ، وَغُلَّقَتْ أَبْوَابُ النَّارِ، فَلَمْ یُفْتَحْ مِنْھَا بَابٌ، وَفُتِحَتْ أَبْوَابُ الْجَنَّۃِ فَلَمْ یُغْلَقُ مِنْھَا بَابٌ ،وَیُنَادِی مُنَادٍ، یَا بَاغِیَ الْخَیْرِ أَقْبِلْ، وَیَا بَاغِیَ الشَّرِّ أَقْصِرْ‘‘(الترمذی وابن ماجہ، صحیح الترغیب والترھیب للألبانی:۹۹۸)
’’جب ماہِ رمضان کی پہلی رات آتی ہے توشیطانوں اورسرکش جنوں کو جکڑدیاجاتا ہے، جہنم کے دروازے بند کردئے جاتے ہیں اوراس کاکوئی دروازہ کھلانہیں چھوڑا جاتا، اورجنت کے دروازے کھول دئے جاتے ہیں اوراس کا کوئی دروازہ بند نہیں چھوڑاجاتا، اورایک اعلان کرنے والا پکارکرکہتا ہے:’’ اے خیرکے طلبگار!آگے بڑھ، اوراے شرکے طلبگار!اب تورُک جا‘‘۔
(۶) ایک رات.....ہزارمہینوں سے بہتر
ماہِ رمضان المبارک کی خصوصیات میں سے ایک خصوصیت یہ ہے کہ اس میں ایک رات ایسی ہے جوہزارمہینوں سے بہترہے، فرمان الٰہی ہے:(لَیْلَۃُ الْقَدْرِ خَیْرٌ مِّنْ أَلْفِ شَھْرٍ)(القدر:۳)
’’لیلۃ القدرہزار مہینوں سے بہترہے‘‘۔
اورحضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ جب ماہِ رمضان شروع ہوا تورسول اللہ ﷺ نے فرمایا:’’إِنَّ ھَذَا الشَّھْرَ قَدْ حَضَرَکُمْ، وَفِیْہِ لَیْلَۃٌ خَیْرٌمِّنْ أَلْفِ شَھْرٍ، مَنْ حُرِمَھَا فَقَدْ حُرِمَ الْخَیْرَ کُلَّہُ،وَلَا یُحْرَمُ خَیْرَھَا إِلاَّ مَحْرُوْمٌ‘‘۔
(ابن ماجہ:۱۶۴۴،صحیح الترغیب والترھیب:۱۰۰۰)
’’بے شک یہ مہینہ تمہارے پاس آچکا ہے، اس میں ایک رات ایسی ہے جوہزارمہینوں سے بہترہے اورجوشخص اس سے محروم ہوجاتا ہے وہ مکمل خیرسے محروم ہوجاتا ہے، اوراس کی خیرسے توکوئی حقیقی محروم ہی محروم رہ سکتاہے‘‘۔
(۷) رمضان میں عمرہ حج کے برابر
اس عظیم الشان مہینہ کی ساتویں خصوصیت یہ ہے کہ اس میں عمرہ حج کے برابرہوتاہے،جیسا کہ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے ایک انصاری خاتون کو فرمایا: ’’فَإِذَا جَاءَ رَمَضَانُ فَاعْتَمِرِیْ، فَإِنَّ عُمْرَۃً فِیْہِ تَعْدِلُ حَجَّۃً‘‘۔(البخاری:۱۷۸۲،مسلم:۱۲۵۶)
’’جب ماہِ رمضان آجائے تو تم اس میں عمرہ کرلینا کیونکہ اس میں عمرہ حج کے برابرہوتا ہے‘‘۔
ایک روایت میں اس حدیث کے الفاظ یہ ہیں کہ رسول اللہﷺ نے ایک انصاری خاتون سے ۔جسے ام سنان کہاجاتا تھا۔کہا: تم نے ہمارے ساتھ حج کیوں نہیں کیا؟ تواس نے سواری کے نہ ہونے کا عذر پیش کیا، اس پررسول اللہﷺ نے فرمایا:’’فَإِنَّ عُمْرَۃً فِیْ رَمَضَانَ تَقْضِیْ حَجَّۃً مَّعِیْ‘‘۔
(البخاری:۱۸۶۳، مسلم:۱۲۵۶)
’’رمضان میں عمرہ کرنا میرے ساتھ حج کی قضا ہے‘‘۔یعنی جوشخص میرے ساتھ حج نہیں کرسکا وہ اگررمضان میں عمرہ کرلے توگویا اس نے میرے ساتھ حج کرلیا۔

No comments:

Post a Comment