Monday, October 4, 2010

خواصِ امت اورہماراسماج agu-sep 2010

نا خالد سیف اللہ رحمانیؔ
خواصِ امت اورہماراسماج

گنّے کی پہچان اس کی مٹھاس اورمرچ کی شناخت اس کی تیزی ہے، اگرگنا مٹھاس سے اورمرچ تیزی سے خالی ہوجائے توبجاطورپر انسان کو حیرت ہوتی ہے ،اسی طرح علماء، حفاظ، مذہبی قائدین، دعوتی کارکنان دینی اعتبارسے امت کے خواص ہیں، لوگ بجاطورپرتوقع رکھتے ہیں کہ ان کی دینی سطح عام لوگوں سے بہترہوگی، دینداری ہی سے ان کی شناخت ہوتی ہے اوراسی نظرسے لوگ انھیں دیکھتے ہیں، ایسے لوگ اگرکھلے عام احکام شریعت کو پامال کریں اورسنتِ نبوی کوقابلِ اعتناء نہ سمجھیں ،توبجا طور پر لوگوں کو حیرت ہوتی ہے اوروہ حیرت کرنے میں حق بجانب بھی ہیں، انسان چاہتا ہے کہ اس کی زندگی کیسی بھی ہو، لیکن اس کے مقتداکی زندگی بہترہو، کیوں کہ عام افراد سے صرف اس کا عمل متعلق ہوتا ہے اورجولوگ قوم کے رہنما اوررہبرہوتے ہیں، ان سے پوری قوم کی زندگی متعلق ہوتی ہے،ان کی حیثیت قبلہ نماکی ہے، انھیں دیکھ کرلوگ اپنی دینی زندگی کے لئے نقشہ بناتے ہیں، رسول اللہﷺ نے مقتدیوں کے لئے کوئی معیارنہیں فرمایاکہ نمازکامقتدی وہی ہوسکتا ہے، جوسنت کا عالم ہو، بہترطورپرقرآن پڑھ سکتاہو، اس کے اندرورع وتقوی ہو، وغیرہ، لیکن امام کے لئے آپ ﷺ نے ضروری معیارات مقررکئے، آپ ﷺ نے فرمایاکہ امامت کا سب سے زیادہ مستحق وہ ہے جو قرآن سے زیادہ واقف ہو،پھروہ ہے،جوورع وتقویٰ میں بڑھا ہوا ہو....۔(صحیح مسلم، کتاب المساجد ومواضع الصلاۃ، باب من أحق بالإمامۃ ،حدیث نمبر:۲۹۰؍۶۷۳)
افسوس کہ معاشرہ کی عام سطح توگرتی ہی جارہی ہے، خواصِ امت کاحال بھی بہترنہیں ہے ،بلکہ ان کے اندرجواخلاقی انحطاط پیدا ہورہاہے، وہ معاشرہ کے انحطاط کاایک اہم سبب ہے، اس وقت مسلم سماج کاایک سلگتا ہوا مسئلہ نکاح کی تقریبات میں فضول خرچی ہے، قرآن مجید میں باربارفضول خرچی سے منع کیاگیاہے، بلکہ یہاں تک فرمایا گیا کہ فضول خرچی کرنے والے شیطان کے بھائی ہیں:(إن المبذرین کانوا إخوان الشیاطین)۔(الإسراء:۲۷)
یوں توپوری زندگی میں سادگی ہونی چاہئے ،رسول اللہﷺ نے خود اس کا عملی نمونہ امت کے سامنے رکھ دیا، لیکن نکاح کے بارے میں خاص طورپرارشاد ہوا کہ اس میں جس قدرسادگی ہوگی اورجتناکم خرچ کیاجائے گا ،اتنی ہی برکت ہوگی:’’إن اعظم النکاح برکۃ أیسرہ مؤنۃ‘‘۔(احمد بن حنبل،حدیث نمبر:۲۴۵۷۳)
لیکن اس وقت اسراف ،فضول خرچی ،نمائش اوراس میں مسابقت کاسب سے بڑا موقع نکاح بن گیاہے، عام لوگوں کا اس موقعہ پرجورویہ ہوتا ہے، وہ مخفی نہیں ہے،لیکن مذہبی شخصیتیں بھی اب بعض اوقات عوام ہی کی سطح پر آجاتی ہیں، یہ بہت افسوس ناک اورقابلِ فکرمسئلہ ہے ،مجھے اورمجھ جیسے کئی لوگوں کوچند سال پہلے ایک ایسی تقریب میں شرکت کا موقع ملا ،جس میں شہر کی کئی اہم مذہبی شخصیتیں اسی مسئلہ پرغورکرنے کے لئے بیٹھی تھیں،ایک معروف شخصیت جن سے بہت سے لوگ ارادت کا تعلق رکھتے ہیں، انھوں نے نکاح کے بارے میں بڑاعمدہ خطاب فرمایا اوراس بات پرزوردیاکہ جن تقریبات نکاح میں فضول خرچی سے کام لیاجارہا ہو، علماء ومشائخ کا فریضہ ہے کہ وہ ہرگزاس نکاح میں شریک نہ ہوں، اس کے چندہی دنوں کے بعدان کی صاحبزادی کا عقدتھا، یہ حقیربھی ان کی دعوت پرشریک ہوا، وہاں مذہبی، سیاسی وسماجی قائدین، معززین شہراورعلماء ومشائخ کی بڑی تعدادا شریک تھی، لیکن افسوسناک بات ہے کہ فضول خرچی کا جومظاہرہ وہاں دیکھنے میں آیا، کم ہی اس درجہ تزک واحتشام اوراسراف دیکھنے میں آیاہوگا، ظاہرہے کہ جب رہبروں کا یہ حال ہواوران کا عمل ان کی زبان کا رفیق نہ ہو، توبیچارے عوام کوکیا قصوروارٹھہرایئے؟
ابھی چند دنوں پہلے روزنامہ منصف حیدرآباد میں ایک حافظِ قرآن کی تقریب نکاح کی داستان آئی ہے،مجھے نہیں معلوم کہ یہ کس حد تک مبنی برحقیقت ہے؟خداکرے کہ یہ افسانہ ہونہ کہ حقیقی داستان، لیکن اس مضمون کے مطابق مضمون نگارنے آنکھوں دیکھاحال لکھاہے اورنہ صرف الفاظ کے ذریعہ واقعہ کی عکاسی کی ہے، بلکہ اسٹیج کی تصویربھی دے دی ہے، جس میں لڑکے اورلڑکیاں ایک دوسرے سے چھیڑچھاڑ کررہے ہیں، بیان کے مطابق ایک حافظِ قرآن نے اپنی شادی میں اپنے والد کے منع کرنے کے باوجود چاررقاصاؤں کو مدعوکیا ،دومرد اوردوخاتون گلوکار بھی بلائے گئے، یہ سب ایسے مختصرلباس میں تھے کہ گویا ان کے لئے کپڑے کابوجھ اٹھانا مشکل ہورہا ہو، نوشہ کی خواہش پرگلوگارنے پہلے حمد، پھرنعت، پھرتہنیتی نظم پڑھی، اس کے بعدبیہودہ نغموں کا دوراوراس پررقص کاسلسلہ شروع ہوگیا، جوس اورکھانے کی سپلائی کے لئے بھی بطورویٹرنوجوان لڑکیوں کوبلایا گیا تھا، غرض کہ زیادہ سے زیادہ بے حیائی اوربے ہودگی جوایسی تقریبات میں کی جاسکتی ہے، ان سب کا سروسامان کیاگیا تھا، ان نوشہ صاحب نے پہلے حفظِ قرآن کریم کی تکمیل کی، پھرتجارت شروع کی، ایسالگتا ہے کہ انھوں نے اس تجارت میں اسباب دنیا ہی کونہیں بیچا، بلکہ متاع دین، غیرتِ علم اورحمیتِ ایمانی کوبھی فروخت کردیا، فیاعجباہ ویااسفاہ!!
غورکیاجائے کہ جب علماء، مشائخ، حفاظ اوردینی کام کرنے والے لوگ اس سطح پر آجائیں توعوام سے کیاشکایت ہو؟ بعض علماء نے نقل کیاہے کہ اگرعلماء مستحبات وآداب پرعمل کرنے لگیں توعوام اپنے آپ کوجائز اورمباح پرقائم رکھے گی اور حرام سے بچ سکے گی، اوراگرعلماء مباح اور جائز پر قناعت کرلیں گے توعوام مکروہ اور حرام میں پڑ جائے گی ،کیوں کہ اقتدارکرنے والوں کی سطح بہرحال ان لوگوں سے کم ترہوتی ہے، جن کی اقتداکی جاتی ہے ،اب اگرخواص حرام میں پڑجائیں توعوام کا جوحال ہوگا، وہ ظاہرہے غرض کہ خواص امت کی حیثیت امت کے لئے آئینہ کی ہے، جن زندگی میں جھانک کرعوام اپنے لئے زندگی کا نقشہ بناتی ہے اوراگرآئینہ ہی غبار آلود ہوتواس کوسامنے رکھ کر کیسے چہرے کے خط وخال درست کئے جاسکتے ہیں؟
رسول اللہﷺ نے علماء کا بڑا اونچادرجہ بیان فرمایا ہے،آپ ﷺ کا ارشاد ہے کہ علماء کی زمین پر وہی حیثیت ہے، جوآسمان پر ستاروں کی، ’’إن مثل العلماء فی الأرض کمثل النجوم فی السماء، یھتدی بھا فی ظلمات البر والبحر، فإذا انطمست النجوم أوشک أن تضل الھداۃ‘‘۔(مسندأحمد بن حنبل، حدیث نمبر:۱۲۶۲۱)
قرآن مجید نے ستاروں کے تین کرداربتائے ہیں:
ایک یہ کہ ستارے رات کی تاریکیوں میں راستے بتاتے ہیں:(وَعَلٰمٰتٍ وَبِالنَّجْمِ ھُمْ یَہْتَدُوْنَ)
دوسرے:ستارے آسمان کے لئے زینت وآرائش کا ذریعہ ہیں:(إنَّا زَیَّنَّاالسَّمَاءَ الدُّنْیَا بِزِیْنَۃِنِ الْکَوَاکِبِ)(الصافات:۶)
تیسرے:یہ ستارے شیاطین کو بھگاتے ہیں، اوران کے شروفتنہ سے دنیاکوبچاتے ہیں:
(وَلَقَدْزَیَّنَّا السَّمَاءَ الدُّنْیَا بِمَصَابِیْحَ وَجَعَلْنٰھَا رُجُوْماً للشَّیَاطِیْنِ...)(الملک:۵)
اس سے معلوم ہواکہ علماء وخواص کی تین بنیادی ذمہ داریاں ہیں، ایک یہ کہ وہ امت کی رہنمائی کا فریضہ انجام دیں، دوسرے وہ امت کے لئے دین کے اعتبارسے زینت کا درجہ رکھتے ہیں، یعنی ان کی زندگی اس قدرپاکیزہ ،صاف ستھری اورشریعت کے مطابق ہوکہ مذہبی پہلوسے وہ اعلیٰ ترین معیار پرہوں، تیسرے:وہ شیطانی فتنوں کامقابلہ کرنے کی صلاحیت رکھتے ہوں خواہ یہ فتنہ فکروعقیدہ کے راستہ سے آیا ہو یاعمل کے راستہ سے غورکیجئے کہ قول وفعل کے تضاد کے ساتھ ان ذمہ داریوں کوانجام دیاجاسکتاہے؟
امام ابوحنیفہ کے بعض تذکرہ نگاروں نے لکھاہے کہ کوئی بوڑھی عورت پھسل رہی تھی اوراس کے گرجانے کااندیشہ تھا، امام صاحب نے توجہ دلائی تواس مردم شناس عورت نے اپنے آپ کو سنبھالتے ہوئے کہا: تم میری فکر نہ کرو،میں پھسلوں گی توایک شخص پھسلے گا اورآپ پھسلیں گے توایک دنیا پھسل جائے گی، اسی حقیقت کو بعض اہل علم نے کہاہے کہ ’’عالم کی لغزش پورے عالم کی لغزش ہے‘‘’’زلّۃ العالِم زلّۃ العَالَم‘‘۔(رفع الأستار:۱؍۴۷،المستقصی فی أمثال العرب۲؍۱۱۰)
خواصِ امت کویہ حقیقت پیش نظررکھنی چاہئے، روایات میں علماء کا لفظ علامتی لفظ ہے، اس حکم میں وہ تمام لوگ شامل ہیں، جو امت میں مقتداکادرجہ رکھتے ہیں ،جودینی کاموں کے ذمہ دارہوں، جومذہبی اداروں، جماعتوں اورتحریکوں کے رہنماہوں، لوگوں کی مذہبی قیادت جن کے ہاتھوں میں ہو، جواصحابِ نظر اوراصحابِ قلم ہو،جن کی شرکت کوپروگراموں کی کامیابی سمجھاجاتا ہو،جن کے وجود سے اسٹیجوں کی زینت ہو، وہ عبادت وبندگی میں اوروں سے ممتاز ہوں، معاملات کی صفائی میں ان کی مثال دی جاتی ہو، ان کے اخلاق کی شیرینی مخاطب کی کڑواہٹوں کوبھی کافورکردیتی ہو، لیکن اس وقت صورت حال یہ ہے کہ زندگی کے مختلف شعبوں میں اورخاص کرمال ودولت اور عزت وجاہ کی طلب اورمادیت کے مظاہرہ میں عوام وخواص کے درمیان سرحدیں بنتی جارہی ہیں اورفرق کم یاختم ہوتاجارہا ،اگرخواصِ امت کا رویہ یہ رہے توصرف وعظ وتقریر اورمضامین ومقالات سے سماج میں کوئی بہترتبدیلی نہیں آسکتی۔
خواصِ امت کونہ صرف اپنی زندگی کوشریعت کے سانچے میں ڈھالنا چاہئے، بلکہ ایسا طرزعمل اختیار کرنا چاہئے کہ لوگ سمجھ سکیں کہ یہی بہترطریقۂ زندگی کامعیارہے، وہ ایسی تقریبات میں شرکت سے گریز کریں، جوشریعت کے دھارے سے ہٹی ہوئی ہو ان کے رویہ سے لوگ محسوس کرنے لگیں کہ جولوگ ایسی فضول خرچیاں کرتے ہیں، وہ ناپسند یدہ لوگ ہیں، وہ توقیرکے مستحق نہیں ہیں، بلکہ نظرانداز کئے جانے کے لائق ہیں، جب تک یہ طبقہ اپنے مزاج اورطرز عمل میں تبدیلی نہیں لائے گا، اس وقت تک سماج میں کوئی صالح انقلاب نہیں آسکتا، کیوں کہ اگرکھانے کاذائقہ خراب ہوتونمک کے ذریعہ اسے درست کیاجاتاہے، لیکن اگرنمک ہی خراب ہوتوکیوں کراس کا علاج ہوسکتاہے؟؟۔(بشکریہ روزنامہ منصف حیدررآباد)

No comments:

Post a Comment