Monday, October 4, 2010

تفسیر،زمانۂ تدوین میں aug-sep 2010

مولاناعبدالصبورندویؔ
مدیر’’ترجمان السنۃ‘‘ رچھا
تفسیر،زمانۂ تدوین میں
تفسیر عہدرسول ﷺ ،عہدصحابہؓ اورتابعین کے زمانے میں روایت اورتلقین کے ذریعے رائج تھی، یہ علم سینہ بہ سینہ منتقل ہوتارہا لیکن اسے کاغذی پیراہن عطانہیں کیاگیا، یابہت کم تدوین عمل میں آئی، پہلی صدی ہجری کے اواخرمیں تفسیرنے رفتہ رفتہ تدوینی شکل اختیار کرنا شروع کیا، یہ وہ زمانہ تھا جب احادیث نبویہ کے مختلف ابواب وموضوعات کی ترتیب وتدوین کا کام ہورہاتھا، تفسیر کی تدوین متعددمراحل سے گذرتے ہوئے کتابی رنگ حاصل کیا، آیئے ان مراحل پرایک نظر ڈالتے ہیں:
پہلا مرحلہ:۔ اس مرحلے میں تفسیر کی تدوین احادیث کے مجموعے میں ایک باب کی حیثیت سے ہوئی، جیسے باب الطہارۃ، باب الصلاۃ، باب الزکاۃ، باب الحج وغیرہ ،تفسیر کی علیحدہ مستقل تالیف سامنے نہیں آتی جس میں اول قرآن سے لے کر اخیر تک ہرآیت کی تفسیر وتوضیح کی گئی ہو، جن علماء نے تفسیر کی تدوین حدیث کے ایک باب کی حیثیت سے کی، ان کے نام درج ذیل ہیں:
*یزید بن ہارون السلمی (وفات:۱۱۷ھ)
*شعبہ بن حجاج (وفات:۱۶۰ھ)
*وکیع بن الجراح (وفات:۱۹۷ھ)
*عبدبن حمید (وفات:۲۴۹ھ)وغیرہم
یہ مرحلہ کچھ خصوصیات بھی رکھتا ہے ،ملاحظہ ہو:
۱۔سندوں کا غایت درجہ اہتمام تھا۔
۲۔ تفسیرکومستقل فن کی حیثیت نہیں ملی، صرف مجموعۂ احادیث کا ایک جزء بن کرشامل رہی۔
۳۔ رسول اکرمﷺ کے علاوہ صحابہ اورتابعین کی تفسیریں شامل کتاب رہیں۔
دوسرامرحلہ:۔ اس مرحلے میں تفسیر نے مستقل علم وفن کی حیثیت اختیار کرلی، جہاں قرآن کی تمام آیتوں کی تفسیر مرتب تھی مصحف کی ترتیب پر۔
علامہ ابن تیمیہؒ اورابن خلکان کاکہنا ہے کہ تفسیر کے باب میں جو پہلی باضابطہ تصنیف سامنے آئی، وہ عبدالملک بن جریج(۸۰۔۱۴۰ھ) کی تفسیر ہے۔(مجموع الفتاوی۲۰؍۳۲۲،وفیات الأعیان۲؍۳۳۸)
اس مرحلے میں جومشہور تفسیریں(تالیفی شکل میں) منظرعام پرآئیں، ان کے مؤلفین علماء کے نام درج ذیل ہیں۔
*ابن ماجہ (وفات،۲۷۳ھ)
*ابن جریر الطبری (وفات:۳۱۰ھ)
*ابوبکرالمنذر النیسابوری (وفات:۳۱۸ھ)
*ابن ابی حاتم (وفات:۳۲۷ھ)
*ابن حبان (وفات:۳۶۹ھ)
*الحاکم (وفات:۴۰۵ھ)
*ابن مردویہ (وفات:۴۱۰ھ)وغیرہم
دوسرے مرحلے کی خصوصیات درج ذیل ہیں:
۱۔تفسیر بالماثورکا اہتمام، جورسول اکرمﷺ ،صحابہ اورتابعین سے منقول ہے۔
۲۔سندوں کا اہتمام، ہرصاحب تفسیر تک متصل سندبیان کی گئی۔
۳۔روایت احادیث میں جرح وتعدیل کا عدم اہتمام، تفسیری مرویات میں صحت وضعف کا خاص خیال نہیں رکھاگیا، صرف سند بیان کرکے آگے بڑھتے گئے، جیسے ابن جریج نے محض سندوں کے ذکرپراکتفاء کیا، راوی کے معیار اوردرجے کی فکرنہ رہی، اورلگتا ہے کہ اس قول پرعمل کیا، جس میں کہاگیا ہے ’’من أسند فقد أبرأذمتہ‘‘جس نے سند بیان کردی وہ بری الذمہ ہوگیا۔
تیسرا مرحلہ:تفسیر کی تاریخ کا یہ المناک مرحلہ رہا ہے جب بعض مفسرین نے سندوں کا اہتمام ترک کردیا یا اختصارسے کام لیا، سلف سے منقول آثار کو لاپروائی کے ساتھ بیان کرتے چلے گئے، قائل کانام اوراس کی وضاحت کی ضرورت محسوس نہیں کی گئی، صحیح، ضعیف اورموضوع اس طرح باہم مل گئے کہ اس وقت ان کی تمیز مشکل ہوگئی، دشمنان اسلام اس تاک میں تھے کہ دین اسلام کی بنیادوں کو متزلزل کیاجائے اور اس کے مبادیات میں خطرناک ہفوات داخل کردئے جائیں جومسلمانوں کو تعلیمات حقہ سے دستبردار کردیں،مگراللہ کا بہت بڑا کرم اس دین اوران کے متبعین پررہا، جس نے علمائے اسلام کی ایک جماعت کو اسی کام کے لئے تیارکیا، جنھوں نے دسیسہ کاروں اورفتنہ پردازوں کی ایک نہ چلنے دی، من گھڑنت روایتوں کے ایک بڑے ڈھیر کا انکشاف کیا، صحیح اورضعیف کا فرق واضح کیا، اس طرح اللہ تعالیٰ نے اس دین کو امت محمدیہ کے لئے شفافیت کے ساتھ محفوظ کردیا۔
اسی دور میں رائے اورعقل کا خوب سہارالیا گیا، کبھی وہ رائے محمود ہوجاتی اورکبھی مذموم،بعض مفسرین نے بغیر علم کے تفسیر کرنا شروع کردیا، خواہشات نفسانی کا ایک طومار کھڑا کردیا، اورپھر ایک ہی آیت کے تحت بلاوجہ کثرت کے ساتھ اقوال کا ذکر کرنا پھراس کے مرجع کی عدم تحقیق نے بعدوالوں کے لئے مسئلہ کھڑا کردیا، بعدوالوں نے مفسرکے احترام میں سند وصحت وضعف سے لاپرواہوکر کامل اعتماد کرنے لگے۔(الاتقان للسیوطی۲؍۱۹۰)
اس دورمیں اسرائیلی روایات نے بھی خوب ترقی کی، اورمفسرین کامیلان بھی بڑھا کہ اسرائیلیات کو وسعت دی جائے اوراس کے اندر غوروخوض کیاجائے، حالانکہ انھوں نے بے فائدہ چیزوں کی معرفت میں اپنا بے پناہ وقت بربادکیا، اورافسوس کہ انھوں نے یہ ساری محنت دینی کام سمجھ کرکیا، انا للہ واناالیہ راجعون۔
چوتھامرحلہ:۔ گذشتہ مرحلے میں جوکچھ ہوا، اس کا حتمی نتیجہ لے کریہ مرحلہ آیا، تفسیر کا دروازہ کھل چکاتھا، جس کی جومرضی تھی اس کے مطابق قرآن کی تفسیر کرتا رہا، صحت وعلت کی تمیز نہ رہی، جس کے مَن میں جوآتا لکھ ڈالتا، کبھی موضوع روایتوں کوبالائی اورمکھن لگاکرتفسیری سرمائے کو نقصانات پہونچایا گیا، توکبھی مسلکی حمیت وتعصب میں قرآن کے معانی ومفاہیم کو مروڑدیاگیا، انسانی رائے اورعقل نے اسلامی عقیدے کی دھجیاں اڑادیں، تفسیر بالرأی نے تومتعدد فرقوں ومسالک کو جنم دے ڈالا، اب ہرشخص تقلیدی مذاہب ومسالک کا پیروکاربن کر، تعصب کا لبادہ اوڑھ کر، سنت سے ہٹ کر مسلکی حمایت میں قرآنی آیتوں کی بے جاتاویل کرنے لگا۔
اسی طرح ارباب علم وفن جس علم میں ماہر ہوتے، تفسیر کرتے وقت ان کا فن تفسیر پرغالب آجاتا، فقہ کا متخصص اگرتفسیر کو ہاتھ لگاتا توموضوع سے ہٹنا اورفروع کے دلائل پیش کرنا نیز مخالفین پرنقدوردّ اس کاشیوہ بن جاتا ہے، جیسے قرطبی ، جصاص اور اخباری کی تفسیریں گواہ ہیں، ثعلبی ونحوی کی تفسیر کو دیکھیں تواعراب اوروجوہ اعراب سے پوری تفسیربھری ہے، علوم عقلیہ اورحکماء وفلاسفہ کے اقوال، شبہات اوران کے ازالے کے لئے تفسیر دیکھنی ہے توفخرالدین رازی کی تفسیر ملاحظہ فرمائیں۔(الإتقان للسیوطی۲؍۱۹۰)
زمانۂ تدون جاری وساری ہے اورآج بھی ہرصاحب فن یا صاحب مسلک قرآن کی تفسیر اپنے فن یا مسلک کے مطابق کررہا ہے، قرآن کے عظیم ترین مقاصد سے آنکھیں موند کراس الیکٹرانک دورمیں جبکہ دودھ کا دودھ اورپانی کا پانی الگ ہوچکا ہے ،تعصب کی دبیزچادروں کے سائے میں سنت صحیحہ کا گلا گھونٹا جارہا ہے۔
یہ وہ مراحل ہیں، جن سے مل کر یہ تدوینی زمانہ وجودمیں آتا ہے ،خیال رہے یہ مراحل ایک دوسرے سے علیحدہ نہیں ہیں، بلکہ ایسا بہت ممکن ہے کہ جس مرحلے کی ہم بات کررہے ہوں اس کی بنیاد سابقہ مرحلے میں پڑچکی تھی۔
زمانۂ تدوین میں اہم تالیفات:
یہ کسی کے لئے بھی آسان نہ ہوگا کہ زمانۂ تدوین ۔جوپہلی صدی ہجری کے اواخر سے عہد حاضرتک محیط ہے۔ ہرلکھی گئی تفسیر کا ذکر ممکن ہوسکے، اس کا شمار یقیناًمشکل امرہے، یہاں اجمالی طورپہ مشہور تفاسیر کاذکر کررہے ہیں۔
تفسیر بالماثور:
۱۔جامع البیان فی تفسیر القرآن(تفسیر طبری)للطبری،۲۔بحرالعلوم ابواللیث سمرقندی،۳۔الکشف والبیان عن تفسیر القرآن ثعلبی،۴۔معالم التنزیل بغوی،۵۔المحررا لوجیزفی تفسیر الکتاب العزیزابن عطیہ،۶۔الدرالمنثور فی التفسیر بالماثورسیوطی،۷۔تفسیر القرآن العظیم(تفسیر ابن کثیر)ابن کثیر، ۸۔الجواھر الحسان فی تفسیر القرآن الثعالبی،۹۔فتح القدیر الشوکانی،۱۰۔أضواء البیان فی ایضاح القرآن بالقرآن الشنقیطی۔
تفسیر بالرأی:
۱۔الکشاف،الزمخشری،
۲۔مفاتیح الغیب،الرازی
۳۔مدارک التنزیل وحقائق التأویل، النسفی
۴۔لباب التأویل فی معانی التنزیل،الخازن
۵۔البحر المحیط، ابوحیان
۶۔انوارالتنزیل وأسرار التأویل، البیضاوی
۷۔تفسیر الجلالین، جلال الدین المحلی وجلال الدین السیوطی
۸۔ إرشاد العقل السلیم إلی مزایا الکتاب الکریم، أبو السعود
۹۔روح المعانی فی تفسیر القرآن العظیم والسبع المثانی،الآلوسی
۱۰۔تفسیر المنار، محمد رشید رضا
۱۱۔فی ظلال القرآن، سید قطب ***

No comments:

Post a Comment