Tuesday, October 5, 2010

Aug.Sep-2010 رسول اکرم پرنازل ہونے والی پہلی آیات

ڈاکٹر سید سعید عابدیؔ

رسول اکرم  پرنازل ہونے والی پہلی آیات

مسئلہ: ایک صاحب اپنے خط میں لکھتے ہیں کہ سیرت کی کتابوں میں یہ پڑھتاآرہا ہوں کہ رسول اکرمﷺ پر غارحرامیں جوپہلی آیات نازل ہوئی تھیں وہ سورۃ العلق کی ابتدائی 5آیتیں تھیں لیکن موجودہ دورکے ایک صاحب تفسیر نے اس حدیث کا انکار کیاہے جس میں یہ خبردی گئی ہے کہ حضرت جبریل امین علیہ السلام غارحرامیں سورۃ العلق کی مذکورہ آیتیں لے کرنازل ہوئے تھے اورآپ ﷺ سے انھیں پڑھوائی تھیں، ان کی دلیل یہ ہے کہ اس سورہ کا انتہائی غضب آلود انداز بیان اس امر پردلالت کرتا ہے کہ ایسی سورہ ابتدائی مکی دورمیں نازل نہیں ہوسکتی تھی، ان کا خیال ہے کہ (اِقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّکَ )کے الفاظ موجود پاکر کسی راوی نے سورۃ العلق کی 5آیتیں پڑھ دیں۔

جواب: اوپرجس مفسرقرآن کے قول کا حوالہ دیاگیا ہے اس کا ذکرانھوں نے سورۃ العلق کی تفسیرکے ضمن میں نہیں کیا ہے البتہ یہ خیال ضرور ظاہر کیاہے کہ ’’یہ پوری سورت بالکل ہم آہنگ وہم رنگ ہے، اس کی ابتدائی 5آیتوں کا مزاج بھی بعد کی آیتوں سے کچھ مختلف نہیں، سورہ کا انداز خطاب اتنا تیز وتند ہے کہ بالکل پہلی ہی سورہ میں یہ اندازسمجھ میں نہیں آتا کہ کیوں اختیار فرمایا گیا۔

انھوں نے کسی راوی پریہ الزام نہیں لگایا کہ اس نے آغازوحی کی حدیث کے شروع میں یہ 5آیتیں اپنی طرف سے جوڑدیں بلکہ یہ بات ان کی طرف منسوب کرکے ان کے ایک شاگرد نے لکھی ہے جنھوں نے شاید ان کی آڑمیں اپنے دل کی بھڑاس نکالی ہے، میں سورۃالعلق کی ابتدائی5آیتوں کے اسلوب بیان سے ان کے پہلی وحی الٰہی ہونے کو دکھانے سے قبل اس حدیث پرعلمی بحث کرناچاہتاہوں جوآغاز وحی سے متعلق۔ صحیحین بخاری اورمسلم ۔میں آئی ہے۔

امام بخاریؒ آغاز وحی کی حدیث مختلف ابواب کے تحت لائے ہیں، جن میں سے 3ابواب کے تحت اس کا مکمل متن نقل کیاہے جبکہ بقیہ ابواب کے تحت اس کے بعض فقروں کے ذکرپراکتفاکیا ہے جن ابواب کے تحت اس کا مکمل متن بعض معمولی لفظی اختلاف کے ساتھ نقل کیاہے وہ یہ ہیں:

1۔باب اول : رسول ﷺ پرنزول وحی کا آغاز کس طرح ہوا۔

2۔باب96:تفسیر سورۃ العلق(ح495)

3۔کتاب التعبیر،باب اول’’رسول ﷺ پروحی کاآغاز صالح خواب سے ہوا‘‘۔ (ح6982)

مذکورہ مقامات پرانھوں نے یہ حدیث5سندوں سے نقل کی ہے اورہرجگہ پہلے اس سند کا اعادہ کیاہے جو اس کی پہلی سند ہے، اس کے بعددوسری سندیں لائے ہیں جس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ ان کے نزدیک یہ سند سب سے زیادہ قوی تھی اوروہ سند درج ذیل ہے۔

ہم سے یحیٰ بن بکیر نے بیان کیا، کہا: ہم سے لیث نے عقیل سے، انھوں نے ابن شہاب سے ،انھوں نے عروہ بن زبیر سے اور انھوں نے ام المؤمنین حضرت عائشہ سے کہ انھوں نے فرمایا: ’’پہلے پہل وحی کی ابتدا اچھے خوابوں سے ہوئی، آپ ﷺ جو خواب بھی دیکھتے وہ صبح کے اجالے کی مانند ہوتا پھرآپ ﷺ تنہائی پسند ہوگئے اورغارحرا میں تنہا کئی کئی راتیں تحنث، عبادت میں گزارنے لگے، اس کے لئے آپ ﷺ اپنے ساتھ ضروری توشہ لے جاتے پھرحضرت خدیجہ کے پاس واپس آتے اوروہ اسی طرح سامان ضرورت ساتھ کردیتیں یہاں تک کہ ایک دن اسی غارحرا میں اچانک حق ،وحی کا ظہور ہوگیا اورآپ ﷺ کی خدمت میں فرشتہ حاضرہوااورکہا پڑھو!نبی ﷺنے فرمایا میں پڑھنے والانہیں ہوں، میں پڑھنا نہیں جانتا، اس نے مجھے پکڑ کراس طرح بھینچا کہ میری قوت برداشت جواب دے گئی پھراس نے مجھے چھوڑدیا اورکہا پڑھو، میں نے کہا میں پڑھنا نہیں جانتا، اس نے دوبارہ مجھے پکڑکر بھینچا یہاں تک کہ میری قوت برداشت جواب دے گئی پھراس نے مجھے چھوڑدیا اورکہا پڑھو، میں نے کہا میں پڑھنانہیں جانتا، اس نے تیسری بار مجھے پکڑ کربھینچا یہاں تک کہ میری قوت برداشت جواب دے گئی ،پھراس نے مجھے چھوڑدیا اورکہا(اِقْرأ بِاسْمِ رَبِّکَ الَّذِیْ خَلَق)پڑھو! اپنے رب کے نام سے جس نے پیداکیا ، یہاں تک کہ ’’عَلَّمَ الإنْسَانَ مَالَمْ یَعْلَمْ‘‘اس نے انسان کو وہ علم سکھایا جسے وہ نہیں جانتا تھا، تک پہنچ گیا‘‘۔

یہ حدیث ام المؤمنین حضرت عائشہؓ نے روایت کی ہے اوران سے ان کے بھانجے حضرت عروہ بن زبیرؓ نے، حضرت عروہ کا شمار مدینہ منورہ کے فقہائے سبعہ میں ہوتا ہے، اپنے زمانے میں وہ سیرت پاک اورمغازی کے امام تھے، ان کے والد ماجد حضرت زبیر بن عوامؓ رسول اکرمﷺ کے حواری اوریکے ازعشرہ مبشرہ بالجنہ اوران کی والدہ ماجدہ حضرت اسماء بنت ابی بکر ذات النطاقین تھیں۔

حضرت عروہ سے یہ حدیث اپنے زمانے کے امام اورحافظ حدیث، کتاب وسنت کے علوم کے جامع اورسیرت پاک کے منفرد عالم محمد بن مسلم بن شہاب زہریؓ نے روایت کی ہے، امام زہری نے سید التابعین حضرت سعیدبن مسیب کی خدمت میں رہ کر علم حدیث حاصل کیا، ان کے حافظے کا یہ حال تھا کہ جو حدیث ایک بارسن لیتے وہ ان کے لوحِ قلب پرنقش ہوجاتی، ان کے غیرمعمولی حافظہ اورروایت حدیث میں ان کی حددرجہ امانت ودیانت کی وجہ سے پانچویں خلیفہ راشد حضرت عمربن عبدالعزیزؒ نے تدوین حدیث کی ذمہ داری ان کے سپرد کی تھی۔

امام زہری سے یہ حدیث روایت کرنے والے حدیث کے امام اورحافظ حضرت عقیل بن خالد بن عقیلؒ ہیں جوامام زہری کی حدیثوں کے سب سے بڑے راوی شمارہوتے ہیں اوران سے یہ حدیث شیخ الاسلام ،امام وحافظ حدیث اورمایہ ناز فقیہ حضرت لیث بن سعد بن عبدالرحمن نے روایت کی ہے جن کے بارے میں امام شافعی فرماچکے ہیں کہ لیث مالک بن انس سے بڑے فقیہ تھے، اورامام لیث بن سعد سے یہ حدیث روایت کرنے والے امام بخاری کے استاد امام، محدث اورحافظ حضرت یحی بن عبداللہ بن بکیر ہیں، یحیٰ بن بکیر نے امام مالک سے متعدد بارمؤطا سنی اور اس دورکے اساطین علم حدیث کی خدمت میں رہ کر یہ مقدس علم حاصل کیا۔

آغازِ وحی کی حدیث کی سند کے راویوں کی جو مختصر تفصیل اوپر پیش کی گئی ہے اس کی روشنی میں بجاطورپر یہ کہاجاسکتا ہے کہ یہ سند ’’سلسلۃ الذہب‘‘ ہے، یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ ’’صاحب تدبرقرآن‘‘ کے لائق شاگرد نے جویہ دعویٰ کیاہے کہ غارحرا میں حضرت جبریل علیہ السلام کے نزول اورنبی اکرمﷺ سے ان کی ملاقات کا جو واقعہ پیش آیا تھا اس موقع پر سورۃ العلق کی کوئی آیت نازل نہیں ہوئی تھی بلکہ اپنے سوال:’’اِقْرأ‘‘کا نبی اکرمﷺ کے جواب:’’مَا اَنَا بِقَارِئٍ‘‘کو سن کر وہ واپس چلے گئے تھے کیونکہ جبریل امین علیہ السلام کی یہ آمدوحی پہنچانے کے لئے تھی ہی نہیں بلکہ’’اِقْرأبِاسْمِ رَبِّک‘‘کے الفاظ موجودپاکرکسی راوی نے سورہ علق کی 5آیتیں پڑھ دیں اوران کے پہلی وحی ہونے کا تصورقائم ہوگیا‘‘۔

سوال یہ پیداہوتا ہے کہ اوپرحدیث کے راویوں کی جوفہرست پیش کی گئی ہے ان میں سے کس نے اس ’’جرم عظیم‘‘ کا ارتکاب کرڈالا اور 14سوسال تک مفسرین ،محدثین، فقہاء اورسیرت نگار اس بھول میں مبتلا رہے کہ حضرت جبریل علیہ السلام جب پہلی بار غارحرا میں رسول اکرمﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے تھے تو اپنے ساتھ اللہ تعالیٰ کا کوئی کلام بھی لائے تھے جوسورۃ العلق کی ابتدائی 5آیتوں سے عبارت تھا۔

’’صاحب تدبرقرآن‘‘ نے سورۃ العلق کے اسلوب بیان سے یہ استدلال کیاہے کہ یہ سورہ اپنے تیزوتند انداز خطاب کی وجہ سے پہلی وحی ہونے کے قابل نہیں، ’’موصوف کو فہم قرآن میں جوملکہ اور مہارت حاصل تھی، اس سے انکارنہیں مگران کا یہ دعویٰ کہ’’اس سورہ کی ابتدائی5آیتوں کا مزاج بھی بعدکی آیتوں سے کچھ مختلف نہیں‘‘۔

فہم قرآن میں ان کی شہرت سے میل نہیں کھاتا بلکہ شاید آغاز وحی کی حدیث کی صحت کے بارے میں ان کے تذبذب اور شک نے ان کو ایسی بات لکھنے پرمجبورکردیا ،ورنہ ان5آیتوں کا مزاج، اسلوب بیان اور انداز تخاطب سورت کی بقیہ آیتوں سے بالکل مختلف ہے، اس میں وہ گھن گرج ۔جو مکی سورتوں میں نمایاں ہے۔ چھٹی آیت سے شروع ہوتی ہیں، رہی ابتدائی 5آیتیں توان میں نہایت نرم، ٹھنڈے اوردل کو چھولینے والے انداز بیان میں اللہ تعالیٰ کے اس فضل واحسان کو بیان کیاگیا ہے جو اس نے علم کی نعمت سے نواز کر انسانوں پرکیاہے، ارشاد ربانی ہے’’پڑھواپنے رب کے نام کے ساتھ جس نے پیداکیا ،جس نے انسان کو جمے ہوئے خون کے لوتھڑے سے پیداکیا، پڑھو اورتمہارا رب وہ بزرگ وکریم ہے جس نے قلم کے ذریعے علم سکھایا، انسان کو وہ علم سکھایا جسے وہ نہ جانتا تھا‘‘کس قدرپیارا، دلنواز اورموثرانداز بیان ہے اوران نہایت شیریں اورمیٹھے بولوں میں اللہ تعالیٰ کی جونعمت بیان ہوئی ہے وہ ایک بدیہی حقیقت ہے جس کو سمجھنے کے لئے کسی دلیل کی ضرورت نہیں لیکن بعدکی آیتوں میں جوسختی اورغضبناکی پائی جاتی ہے وہ اس کے پہلے ہی لفظ کلا(ہرگزنہیں) سے بالکل عیاں ہے،پھرفرمایا گیاہے، ترجمہ:بیشک انسان سرکشی کرتاہے جب اپنے آپ کو مستغنی دیکھتا ہے۔(6-7)

مطلب یہ ہے کہ جب انسان اللہ تعالیٰ کے فضل وتوفیق سے دولتمند یا صاحب اقتداریا طاقتورہوجاتا ہے توسرکشی پراترآتا ہے اوریہ بھول جاتا ہے کہ اس کی تخلیق خون کے ایک جمے ہوئے لوتھڑے سے ہوئی ہے اورجب وہ اپنی ماں کے پیٹ سے نکلا تھا اس وقت اس کے پاس نہ علم تھا نہ مال ودولت اورنہ عزت وجاہ، اس طرح اس سورہ کی ابتدائی 5آیتوں کاپہلی وحی الٰہی ہونااپنے مضمون اورحدیث دونوں کے بالکل مطابق ہے۔

درحقیقت حدیث رسول ﷺ سے عموماً اوراحکام القرآن سے متعلقہ حدیثوں سے خصوصاً ’’صاحب تدبرقرآن‘‘ کو جو’’تحفظات‘‘ تھے ان کی بنیاد پراسلام کے اس دوسرے بنیادی ماخذ سے متعلق وہ مستشرقین اورکسی حد تک منکرین حدیث کی صف میں کھڑے نظر آتے ہیں چنانچہ انھوں نے مشہور تابعی اورامام حدیث محمدبن مسلم بن شہاب زہری کو جس طرح مورد طعن بنایا ہے اس سے جہاں یہ معلوم ہوتاہے کہ اولا انھوں نے اس علم کا گہرا مطالعہ نہیں کیا تھا اور جتنا مطالعہ کیا بھی تھا وہ ’’تشکیکی‘‘ ذہن ودماغ سے کیاتھا، ثانیا وہ محدثین کو ’’حفاظ، کی ایسی جماعت خیال کرتے تھے جوعلم وفہم سے کورے ہونے کے ساتھ ساتھ روایت حدیث میں امانت ودیانت کی صفت سے بھی عاری تھے اورثالثا امام زہری کا نقد واحتساب کرنے میں منکرین حدیث کے اصولوں کو بنیاد بنایا ہے، ایک عجیب بات یہ ہے کہ مستشرقین نے امام زہری پر بنوامیہ کا پٹھو اورہمنواہونے کا الزام لگایا جبکہ صاحب تدبرقرآن نے ان پریہ الزام لگایا کہ انھوں نے شیعیت کو دین بنانے کے لئے خاصاکام کیاہے۔

یہاں ایک نہایت اہم سوال یہ پیداہوتا ہے کہ اگرامام زہری اتنے ناقابل اعتبارتھے اوران کی شخصیت میں اتنی متضادصفات جمع تھیں توسید التابعین امام سعید بن مسیب ،امام دارالہجرہ امام مالکؒ ، ناصرالسنہ امام شافعی، امام اہل السنہ احمدبن حنبلؒ اورعلم الرجال اورعلم الاسناد کے متفق علیہ امام علی مدینیؒ جیسے اکابرامت کی نگاہ تحقیق میں کیوں نہ آسکے اوراگر یہ سب ان کو سمجھنے میں دھوکا کھاگئے تواس امت کے سب سے پہلے مجدد اورپانچویں خلیفہ راشد حضرت عمربن عبدالعزیزؒ جیسے محدث ،فقیہ اور خلیفہ عادل کی حقیقت شناس نگاہ سے کس طرح بچ گئے کہ تدوین حدیث کی نازک ذمہ داری امام زہریؒ کے سپردکردی؟

اوپرامام زہریؒ کے بارے میں صاحب تدبرقرآن کے جن خیالات کاذکرآیا ہے وہ رسول اللہﷺ پرنازل ہونے والی پہلی آیات قرآنی کے تعین کے ضمن میں آیا ہے ورنہ یہ اس ضمن کا موضوع نہیں تھا اورانھوں نے ان پر جوالزامات لگائے ہیں ان کا علمی جواب مشکل نہیں بلکہ بہت آسان ہے لیکن اس کے لئے خاص مضمون درکار ہے البتہ اتنی وضاحت توبہرحال ضروری ہے کہ انھوں نے نبی اکرمﷺپرغارحرا میں نازل ہونے والی سورۃ العلق کی ابتدائی 5آیتوں کا انکار صرف اس وجہ سے کیاہے کہ اس واقعہ سے متعلق صحیح احادیث کی سندوں میں اما م زہریؒ بھی شامل ہیں اوربعدکے مفسرین ، محدثین، فقہاء اورسیرت نگاروں کے درمیان اس مسئلے میں جواختلاف ملتا ہے اس کا سبب حضرت جابربن عبداللہ کی وہ حدیث ہے جس میں انھوں نے نبی اکرمﷺ پرنازل ہونے والی پہلی آیات سورۃ المدثر کی ابتدائی آیات کو قراردیاہے لیکن اگراس موضوع سے متعلق تمام احادیث کو ایک ساتھ جمع کرکے ان پر غورکیا جاتا تویہ بات واضح ہوجاتی کہ حضرت جابرنے سورۃ المدثرکی ابتدائی آیتوں کو علی الاطلاق پہلی وحی نہیں قراردیا بلکہ غارحرامیں نازل ہونے والی پہلی وحی کے بعدنزول وحی میں توقف ، فترہ کے بعدنازل ہونے والی پہلی وحی قراردیاہے ،چنانچہ وہ خودفرماتے ہیں۔

انھوں نے رسول اللہﷺ کو فرماتے ہوئے سناہے’’پھر ایک مدت کے لئے مجھ پرنزول وحی کا سلسلہ رک گیا یہاں تک کہ ایک روز میں چلاجارہا تھا کہ یکایک میں نے آسمان سے ایک آواز سنی اورآسمان کی جانب نگاہ اٹھائی تودیکھا کہ وہی فرشتہ جوغارحرامیں میرے پاس آیاتھا آسمان اورزمین کے درمیان ایک کرسی پربیٹھا ہواہے، میں یہ دیکھ کرسخت دہشت زدہ ہوگیا اورزمین پر گرپڑا اورگھرجاکرکہا مجھے کمبل اڑھاؤ مجھے کمبل اڑھاؤ،گھروالوں نے مجھے کمبل اڑھادیا‘‘اورپھر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت۔(ترجمہ) اے کمبل یا چادر میں لپٹے ہوئے اٹھو اورڈراؤ اوربرائی سے دوررہو۔ تک نازل فرمایا۔

یہ حدیث یہ صراحت کررہی ہے کہ سورۃ المدثر کی ابتدائی آیات رسول اللہﷺ پرنازل ہونے والی پہلی آیات تھیں، اسی حدیث میں حدیث کے راوی ابوسلمہ بن عبدالرحمٰن کا یہ قول نقل ہوا ہے کہ’’پھرلگاتار وحی کا نزول شروع ہوگیا‘‘۔(صحیح بخاری ح4926،صحیح مسلم ح407)

***





No comments:

Post a Comment