Tuesday, October 5, 2010

جنّتِ ارضی کا حالیہ اضطراب اورحکومت ہندکا دوہرامعیار Editorial Aug.Sep 2010

شمیم احمدندوی

جنّتِ ارضی کا حالیہ اضطراب اورحکومت ہندکا دوہرامعیار

کشمیر جنت نظیر اپنی گلپوش وادیوں میں چھائی ہوئی خاموشی اورامن وسکون کے ایک طویل وقفہ کے بعد ایک بارپھر خبروں کی سرخیوں میں ہے، ایک بار پھراس کی فضاؤں میں بارودکی بوہے اورسڑکوں پر فوجی جوتوں کی دھمک، ایک بارپھر اس کے پُررونق بازاروں میں کرفیو کا سناٹا ہے اوراحتجاج کرتے معصوموں کے ہاتھوں میں پتھر، ایک بار پھراس کے چنارکے درختوں پرچھائی ہوئی خزاں ہے اورزعفران زارکھیتوں پر ماتم کاسماں اور ایک بارپھر اس کے ترنم ریز جھرنے المیہ نغمے سنارہے ہیں تواس کی جھیلوں پرساکنان جنت ارضی کی بے بسی کا سکوت طاری ہے جن کی قوت گویائی کو سلب کرلیا گیا ،جن سے اپنے معصوموں وبے گناہوں کے سفاکانہ قتل پراحتجاج کا حق چھین لیاگیا، جن کی ظلم وبربریت کے خلاف اٹھنے والی آوازوں کا گلا گھونٹ دیاگیا ،جن کی خواہشات وتمناؤں اورآزادی کی فضاؤں میں سانس لینے کے حق کو دفن کردیاگیا ،جہاں سانسوں کی آمد ورفت پر پہرے بٹھادئے گئے اوراپنی مرضی کے مطابق جینے کی آزادی سے محروم کردیاگیا اورانھیں زندہ رہنے کے لئے حکومت وفوج کی اجازت کا محتاج بنادیاگیا اورجہاں متلاشیان علم وحکمت معصوم طلباء کے ہاتھوں سے کتابیں چھین کر ان میں احتجاج کے پتھرتھما دئے گئے، جہاں ظلم وناانصافی اورشقاوت قلبی کے مظاہرعام ہیں، جہاں بے ضرر پتھروں کے جواب میں رائفلوں کی گولیاں ہیں اوراندھا فائرنگ میں معصوموں کی ہلاکتوں کے لرزہ خیز مناظرہیں، جہاں لٹتی ہوئی عصمتوں کی روح فرساداستانیں ہیں توبے بس ماؤں کی اجڑتی ہوئی گودوں کی المناک کہانیاں جوصرف چند بدنصیب افراد کا دردوالم نہیں بیان کرتی ہیں بلکہ پوری ایک قوم کی بے بسی وحرماں نصیبی کی مکمل تصویر پیش کرتی ہیں، جہاں اس کے علاوہ اوربہت کچھ ہے جوفراعنۂ وقت کے ظلم وجور اورناانصافی کو عیاں کرتی ہے اور ایک قوم کی نسل کشی کے اس کے عزائم کو طشت ازبام کرتی ہے، جہاں بے لگام سی .آر.پی.ایف. ہے توقہر ڈھاتی فوج کے جوا ں جنھیں نہ دس گیارہ سال کے معصوموں پررحم آتاہے نہ بزرگوں کے احترام کا ان کے نزدیک کوئی مطلب ہے، وہ معصوم طلباء جنھیں ان کے والدین اپنی آغوش محبت میں بڑی آرزوؤں وتمناؤں سے پالاتھا اور جنھوں نے خوداپنے مستقبل کے سہانے خواب دیکھے تھے جن کی آنکھوں میں آرزوؤں اور تمناؤں کی ایک دنیا آباد تھی ان کو گولیوں سے بھون کر ان کے خوابوں کوپامال کردیاگیا ان کی ماؤں کی آنکھوں کو ویران کردیا گیا اوران کو حسرت ویاس کی ایک ایسی تصویر بنادیا گیا جن کے لئے اب دنیا کی ہرخوشی بے معنی ہے، ان کو اس احتجاج کی سزادی گئی جو دنیا کے ہرجمہوری ملک کے شہریوں کا آئینی حق ہے، اور یہ سب اسی ہندوستان میں ہورہا ہے جو ’’کشمیر کو بھارت کا اٹوٹ انگ‘‘ ہونے کا دعویٰ کرتے نہیں تھکتا، اورجس ہندوستان میں احتجاج کے ایسے ایسے طریقے رائج ہیں جنھیں آئین وقانون کی حکمرانی والاکوئی ملک گوارہ نہیں کرسکتا نہ ایسی بے لگام آزادی کی اجازت دے سکتا ہے، اس وقیع وعریض ملک میں اپنے اپنے معمولی مطالبات کو لے کرجب دیگرقومیں اٹھتی ہیں توہڑتال واحتجاج کے جوش میں بسا اوقات تشدد وخوں ریزی کا ایسا بے لگام راستہ اختیار کرلیتی ہیں جس میں ملک وقوم کا کتنا بڑا ناقابل تلافی نقصان ہوا اس کا حساب رکھنے کی نہ کسی کو فرصت ہے نہ ضرورت، کبھی کبھی تشدد اپنی انتہاؤں پر ہوتا ہے، سرکاری املاک کی توڑپھوڑ، آتش زنی، آمد ورفت میں جبراً رکاوٹ کھڑی کرنا، کاروباری مراکز کی سرگرمیاں جبری طورپر معطل ومفلوج کرنا، سرکاری بسوں اورٹرین کی بوگیوں بلکہ پوری پوری ٹرینوں کو نذرآتش کرنا، ریلوے اسٹیشنوں کو آگ کے حوالہ کرنا اور ریل کی پٹریوں کو اکھاڑنا، سرکاری دفاترکو آگ لگادینا اوران کے ہڑتال کاحصہ نہ بننے والے اورغیر جانبدار رہنے والے لوگوں کو زدوکوب کرنا اوربسااوقات موت کے گھاٹ اتاردینا غرض کہ کون سا ایسا طوفان بدتمیزی ہے جونہیں مچایا جاتا اورایسا تماشا شب وروز ہمارے سامنے ہوتا ہے اورمرکزی وصوبائی حکومتیں ان سب کو عوام کا جمہوری حق سمجھ کر بڑی ہی کشادہ ظرفی کا مظاہرہ کرتے ہوئے نظرانداز کردیتی ہیں، بھلے ہی ان ہڑتالوں اوراحتجاج کی ان بھونڈی شکلوں اورپرتشدد صورتوں سے ہونے والانقصان کروڑوں نہیں اربوں میں ہولیکن اس کے انجام دینے والے ہندوستانی آقاؤں کے بھائی بند ہوتے ہیں اس لئے گوارہ ہے، دوسال قبل مئی ۲۰۰۸ء ؁ میں ہندوستان کی ایک چھوٹی سی گمنام قوم ’’گوجروں‘‘ نے سیاست وملازمت میں ریزوریشن کی مانگ کولے کرہڑتال کی تھی۔ ایسی ہڑتالیں چونکہ ہماری روزمرہ کی زندگی اورحکومت کے معمول کا ایک حصہ ہیں اس لئے بہت جلد ہمارے حافظہ سے بھی یہ محوہوجاتی ہیں اورکسی کو اتنی فرصت نہیں کہ ان سے ہونے والے نقصانات کا حساب کتاب رکھے۔ یہ ہڑتال ملک کے ایک چھوٹے سے حصہ پنجاب ہریانہ راجستھان اورگجرات ویوپی کے بعض حصوں میں ہی ہوئی تھی اورملک کا بیشترحصہ اس کی زدمیں آنے سے محفوظ تھا کیونکہ مذکورہ بالا اس قوم کی بیشترآبادی انھیں علاقو ں میں پائی جاتی ہے، لیکن ریلوں وبسوں کا راستہ روکنے، ریل کی پٹریوں کو نقصان پہونچانے اوربوگیوں کو آگ لگانے جیسی پرتشدد کاروائیوں میں صرف محکمہ ریلوے کا ڈیڑھ سے دوہزارکروڑروپئے کابھاری نقصان ہوا تھا اوریہ صرف ایک محدود علاقہ کی چند روزہ ہڑتال کے نتیجہ میں ہواتھا، اور۱۵سے ۲۰ارب روپئے کے نقصانات کا یہ تخمینہ صرف ریلوے کا ہے جو اس وقت کے وزیر ریل لالو پرشاد یادوکے کسی بیان کے ذریعہ سامنے آیاتھا باقی دیگرمحکموں کے نقصانات کا اندازہ اس کے سواہے جومزید ہزاروں کروڑمیں ہوسکتا ہے لیکن نہ تواس ہڑتال کو جبراًختم کرایا گیا نہ ان خطیرنقصانات کا ان سے کوئی تاوان وصول کیاگیا اورنہ ہی ان ہڑتالیوں کے خلاف کاروائی کے لئے فوج طلب کی گئی جوکہ لاٹھی ڈنڈوں اورلوہے کے سریوں اوردیگرآلات تخریب سے لیس تھے، بلکہ کاروائی کے برعکس حکومت نے ان کے مطالبات کو تسلیم کرکے دیگر پسماندہ قوموں کے لئے مزید ہڑتالوں کاراستہ صاف کردیا، یہ بات صرف دوسال پرانی ہے اورحکومتی نقصانات کے حساب سے انتہائی سنگین ہے لیکن شاید ہی کسی کے حافظہ میں موجود ہو، چندبرسوں قبل مہاراشٹر میں واقع بال ٹھاکرے کی ماں میناتائی کے مجسمہ پرکسی نے کیچڑ پوت دی یا کسی غلطی سے لگ گئی اس کے خلاف پورے مہاراشٹرمیں تین دن تک انتہائی پرتشدد ہڑتال کا وہ بازار گرم کیاگیا تھا کہ الامان والحفیظ ،ٹرینوں وبسوں میںآگ لگائی گئی سڑکوں پر شیوسینکوں کی غنڈہ گردی کا ننگا مظاہرہ ہوا، ٹی وی پردیکھنے والوں نے کئی کئی اسٹیشنوں پرایک ساتھ ایکسپریس ولوکل ٹرینوں کی بوگیوں کو دھڑادھڑ جلتے ہوئے دیکھاہوگا، حکومتی املاک کا اربوں روپیہ کانقصان ہوا اورپوے مہاراشٹرکی کاروباری زندگی اورمعاشی راجدھانی ممبئی کی دل کی دھڑکنیں رک سی گئی لیکن فسادات وہڑتالوں پر،قابو پانے کے لئے کوئی سی آرپی ایف نہیں، کوئی فوج نہیں، کوئی فائرنگ نہیں ،کوئی آنسوگیس نہیں، کوئی گرفتاری نہیں اورکوئی سزانہیں، سب کچھ معمول کے مطابق رواں دواں ہوگیا کیونکہ فسادی وہڑتالی اپنے بھائی بند ہیں کوئی کشمیری یا مسلمان نہیں، پھراسی ممبئی ومہاراشٹرکے دیگرحصوں میں کبھی راج ٹھاکرے اورکبھی بال ٹھاکرے کے پالتوغنڈوں کے ذریعہ جو قہربرپاکیاجاتا ہے کبھی مسلمانوں کے خلاف اورکبھی شمالی ہند کے باسیوں کے خلاف ان پرتشدد کاروائیوں میں کتنے سرکاری ونجی املاک کا نقصان ہوا اورکس قدر اتلاف جان ہوا اورکتنے لوگ اسپتال پہونچ گئے اورزندگی سے محروم ہوئے اورکتنی بسوں وٹرینوں کو نذرآتش کیاگیا ان جانی ومالی نقصانات کا حساب لگانے کی فرصت کسی کو نہیں، وہاں فوج کا توگذر نہیں البتہ پولیس وانتظامیہ بھی اکثر خاموش تماشائی کاکردار اداکرتی ہے اور ساری اودھم بازیوں میں صرف ایک چشم دیدگواہ کی حیثیت رکھتی ہے،کچھ دنوں قبل یوپی میں بھی امبیڈ کر کے کسی مجسمہ کی بے حرمتی کی گئی تھی تویوپی کے بعض اضلاع میں یہی منظردیکھنے میں آیاتھاصوبائی حکومت کا ہونے والا نقصان کروڑوں میں تھا اورفسادی وہڑتالی ڈاکٹر امبیڈکر کے عقیدت مند اورایک خاص ذات وفرقہ کے افراد تھے لہذا کوئی کاروائی کیوں ہوتی؟ کیونکہ حکومت اترپردیش ان کی ہے اورپولیس وفوج ان حاکموں کے اشارہ چشم وابرو کی محتاج ہے۔

شاید کسی کی یادداشت میں ڈیرہ سچا سودا نام کے عجیب وغریب مذہبی گروہ یافرقہ کانام محفوظ ہو جس کے مٹھی بھر متبعین نے چند برسوں قبل اپنے مذہبی پیشوا کی گرفتاری کے خلاف جوطوفان برپا کیاتھا اورآتش زنی توڑپھوڑ اورتشدد کا جوبازار گرم کیاتھا اس نے حکومت کو ہلادیاتھا اورچند گھنٹوں میں زندگی کی گاڑی روک دی تھی، ان کا میدان کارزار صرف ہریانہ وپنجاب کے کچھ علاقوں تک محدود تھا لیکن پورے ہندوستان کی اور ذرائع ابلاغ کی توجہ مبذول کرانے میں کامیاب ہوئے تھے ،کروڑوں کے سرکاری نقصان کے باوجود ان کے خلاف کوئی تادیبی کاروائی نہیں ہوئی ان کو منتشر کرنے کے لئے آنسوگیس وربرکی گولیوں تک کا استعمال نہیں ہوا ، جب کہ ان کے ہاتھوں میں کرپان وتلوار اوردیگر جان لیوا ہتھیار تھے اورآگ زنی کے سامانوں سے وہ لیس تھے ،لیکن ان کشمیری نوجوانوں اور ۱۰و۱۲ سال کے معصوموں کو نشانہ سادھ کر رائفل سے گولی ماری گئی جن کے ہاتھ سنگ وخشت کا بوجھ اٹھانے کے بھی لائق نہ تھے ابھی صرف دوہفتہ قبل اپوزیشن پارٹیوں نے مشترکہ طورپر کمرتوڑ مہنگائی کے خلاف ملک گیر ہڑتال کا اہتمام کیا تھا اس سے مہنگائی پرقابو پانے میں توکیا مددملتی البتہ صرف اس ایک ہڑتال سے ملک کی معیشت کواربوں روپیہ کا نقصان ہوا جس کا خمیازہ بھی بالواسطہ طورپر غریب عوام کو بھگتنا پڑرہا ہے لیکن ان غریب عوام کی فکرکسے ہے نہ ہی ان ہڑتالوں کے ذریعہ سے ان کی پریشانیوں کوکم کرنے سے کوئی واسطہ ہرپارٹی کو صرف اپنی طاقت دکھانے سے مطلب ہے صرف ٹرکوں کی ہڑتال سے 500کروڑ کا نقصان ملکی معیشت کو برداشت کرناپڑا جس سے دیگر شعبوں میں ہونے والے نقصانات کا اندازہ بخوبی لگایا جاسکتا ہے، لیکن جمہوریت میں اس طرح کی ہڑتالوں ومظاہروں کی اجازت ہے لیکن نہیں اجازت ہے تومظلوم مسلمانوں کو اپنے اوپرہونے والے مظالم کے خلاف صدائے احتجاج بلند کرنے کی، یہ پورے ملک کے مسلمانوں کی تقدیر ہے جوان کے آنسوؤں سے لکھی جارہی ہے یہ تنہا کشمیر کا درد نہیں، کشمیر کے نہتے نوجوانوں یاہاتھوں میں پتھراٹھائے کم عمر بچوں پربے دریغ پولیس وحفاظتی دستوں کی فائرنگ کا منظر دیکھ کر فلسطینی بچوں کے خلاف اسرائیلی جارحیت وصہیونی درندگی کے مناظر یادآجاتے ہیں بلاشبہ دونوں مناظرمیں بڑی یکسانیت ہے، وہاں بھی کم سن بچوں اورنوجوانوں کے ہاتھوں میں اپنے دفاع کے لئے صرف ڈھیلے اورغلیل ہوتے ہیں اوراسرائیلی درندوں کے ہاتھوں میں خودکاررائفلیں اوربسااوقات بکتر بند گاڑیوں اورٹینکوں وتوپوں کے ذریعہ کمزور ونہتے فلسطینوں کو مرعوب کرنے کی کوششیں جن میں ان کو کامیابی تو کم ملتی ہے لیکن اتلاف جان بہت ہوتا ہے۔

ہندوستان نے گذشتہ چندبرسوں میں نہ صرف اسرائیل سے دفاعی سازوسامان اتنے بڑے پیمانہ پر خریدے کہ وہ اسرائیلی اسلحہ اورآلات حرب وضرب کا سب سے بڑا خریداربن گیا بلکہ ساتھ ہی آئیڈیا لوجی ونظریات بھی درآمد کئے اورمظلوموں کو دبانے اورنہتوں کو کچلنے کا صہیونی طریقہ کار اور انداز بھی سیکھ لیا اب اس معاملہ میں اسرائیل ہی ہندوستان کا استاد ہے اورصہیونیت ہی اس کا آئیڈیل جس کے مظاہر باربار مختلف مواقع پرسامنے آتے رہتے ہیں اس کی پروپیگنڈہ مشنریاں یہاں سرگرم ہیں اورمسلمانوں کی کردار کشی کرنے اور دہشت گردی سے ان کا رشتہ جوڑنے میں اگرحکومت ہند کو خاطرخواہ کا میابی ملی ہے تواس کے پیچھے اسرائیلی کوششوں اور منصوبہ بندیوں اورپروپیگنڈہ مشنریوں کا سب سے بڑا دخل ہے، اسرائیل کا طریقہ واردات ہندوستانی مسلمانوں کے تناظرمیں یہ ہے کہ پہلے ملک کے کسی حساس علاقہ میں دہشت گردانہ حملہ ہونے کی پیشین گوئی جاتی ہے اورلشکرطیبہ ،انڈین مجاہدین یا کسی بھی فرضی یا اصلی مسلم نام کی تنظیم کے بارے میں خبردار کیاجاتا ہے کہ اس علاقہ میں اس کی سرگرمیاں مشکوک ہیں پھر ہندوستانی خبررساں ایجنسیاں اورٹی.وی. چینل ’’خفیہ سوتروں سے ملی جان کاری‘‘کا حوالہ دیتے ہوئے اس خبرکو اتنے وثوق سے نشرکرتے ہیں گویا کہ سارے پختہ شواہد ان کی جیب میں ہیں اوردہشت گردانہ حملوں کا منصوبہ جس مجلس ومیٹنگ میں بنایاگیا اس میں یہ بازی گر حضرات بنفس نفیس شریک رہتے ہیں، پھر اس خبرکے نشر کرنے کے چندہی دنوں کے اندر واقعی ایسا دہشت گردانہ حملہ ہوجاتا ہے اورہندوانتہا پسند تنظیمیں اس دانستہ بنائے گئے ماحول کا فائدہ اٹھاکر اپنا کام کرجاتی ہیں توشک کی سوئی کسی نہ کسی مسلم تنظیم یا فرد کی طرف ہی اشارہ کرتی ہے اوراصلی مجرم بچ نکلنے میں کامیاب بھی ہوجاتے ہیں اوربے گناہ مسلمان ملوث بھی کردئے جاتے ہیں، یہی اسرائیلی گیم پلان ہوتا ہے جس میں موساد کے ایجنٹ، ہندوانتہا پسند تنظیمیں، بھارتی سیکورٹی ایجنسیاں، تفتیشی ادارے اورملکی میڈیا سب برابر کے شریک ہیں اور امداد باہمی کے اصولوں پر مبنی کامیابی کے ساتھ جاری ہے اوریہ سب مشترک مفادات کا کھیل ہے جس میں قدرمشترک صرف مسلم دشمنی ہے، حالیہ برسوں میں ہوئے بعض دہشت گردانہ حملوں اوربم دھماکوں کے تارکسی فرضی یا نام نہاد مسلم تنظیم یا تنظیموں سے جوڑاجاتا رہا اور پورے وثوق کے ساتھ میڈیا چیخ چیخ کراس میں مسلمانوں کے ملوث ہونے کا اعلان کرتا رہا، لیکن اب جب ان میں سے کئی بلکہ بیشتر دھماکوں کے پیچھے ہندودہشت گردوں اورہندوانتہا پسندتنظیموں کا ہاتھ ہوناپایہ ثبوت کو پہونچ چکا ہے تواس میڈیا کو سانپ سونگھ گیا، یہ ایک الگ موضوع ہے اس پر تفصیلی اظہار خیال پھرکبھی لیکن سردست اتناجان لینا کافی ہے کہ میڈیا اور ذرائع ابلاغ کی دہشت گردی کے یہ بعض نمونے ہیں جس میں پیش امام اورمربی واستاد کا کردار اسرائیل اداکررہا ہے، جوواقعی پروپیگنڈہ کے اس فن میں ماہر اوراستاد کی حیثیت رکھتاہے،واپس لوٹتے ہیں کشمیرکی طرف اور ساتھ ہی حکومت ہند کی جانب داری وناانصافی اورتعصب وتنگ نظری پرمبنی اصولوں کی طرف۔

گذشتہ سطورمیں بھارت میں ہونے والے احتجاجات ومظاہروں اوران میں برپاہونے والے تشدد اوران سے ہونے والے نقصانات کی طرف ہلکا سا اشارہ کیا گیا ان احتجاجات کو فراخ دلی کے ساتھ حکومتوں نے اظہار رائے کی آزادی کا نام دے رکھا ہے جب کہ اظہار رائے زبان وقلم کے ذریعہ ہوتا ہے ہاتھوں وپیروں ولاٹھی ڈنڈوں اورکرپالوں وتلواروں سے نہیں ہوتا، لیکن یہاں سب رواہے اور ملک میں اپنے مطالبات کو منوانے کا یہ غیر آئینی طریقہ شہریوں کا جمہوری حق سمجھ کر تسلیم کیا جاچکا ہے لیکن اس حق کا استعمال کشمیر میں ممنوع ہے ،کیونکہ ان کی بدقسمتی یہ ہے کہ وہ نہ صرف مسلمان ہیں بلکہ جبری طورپر یا پروپیگنڈہ کی طاقت سے ان کا رشتہ دہشت گردی سے جوڑدیا گیا ہے، کشمیر میں ایسے بعض گروپوں کی موجودگی سے انکار نہیں کیاجاسکتا جو آزادی کشمیر کے لئے اور اپنے جذبہ حریت کی تسکین کے لئے دہشت گردانہ طریقے اختیار کرتے ہیں، لیکن ایسے لوگوں کی تعداد انگلیوں پرگنی جاسکتی ہے اورریاست میں ایسے لوگوں کی حرکات کو وسیع پیمانہ پر حمایت قطعاً حاصل نہیں ہے بلکہ اکثریت ان سے شاکی ونالاں ہے لیکن ان چند لوگوں کی حرکتوں کی پاداش میں پوری ریاست کے عوام کو ماخوذ کرنا اور ان کو ناکردہ گناہوں کی سزا دینابلکہ پوری وادی کشمیر کو ایک وسیع جیل میں تبدیل کرنا اورفوجیوں وسی آرپی ایف کے جوانوں کو غیرمعمولی اختیارات تفویض کرکے اسے ایک وسیع وعریض شکارگاہ بنادینا کسی طرح قرین انصاف نہیں قراردیاجاسکتا، ان مظلوم مسلمانوں کے زخموں پر مرہم رکھنے کی صوبائی ومرکزی حکومت میں سے کسی کو توفیق توکیا ملتی جنھیں اپنے جگرپاروں کی جدائی اوران جگرگوشوں کی شہادت کا غم منانے کی بھی اجازت نہیں جن پرایسے غنچوں کا گمان ہوتا ہے جوبن کھلے مرجھاگئے الٹے ان کے زخموں پر یہ کہہ کرنمک پاشی کی جاتی ہے کہ یہ مظاہرین کرایہ کے ٹٹوہیں پڑوسی ملک سے ان کو سنگ باری کے لئے پیسے دئے جاتے ہیں ، کشمیر میں مظاہروں کا اوراپنے غم وغصہ کے اظہار کا یہ ایک روایتی انداز ہے اور سطوربالا میں پیش کئے گئے بعض حقائق اورمثالوں کی روشنی میں اگرجائزہ لیا جائے تو اس کی جارحیت یاسنگینی کسی درجہ میں نہیں ٹھہرتی جہاں ایک ایک مظاہرہ میں حکومتی املاک کے اربوں روپیہ کی مالیتوں کو جلاکر خاکستر کردیاجاتا ہے لیکن امن وقانون نافذ کرنے والے اداروں اورسیکورٹی فورسز کو اس مشتعل بھیڑ کے جذبات کو سمجھنے، اشتعال انگیزی کے اسباب ومحرکات کاجائزہ لینے اوراس غم وغصہ کی وجوہات کاپتہ لگانے کے بجائے اس کی فکرزیادہ ہوتی ہے کہ یہ سب کس کے اشارہ پرہورہا ہے، سوال یہ نہیں ہوناچاہئے کہ اس کے پیچھے سرحد پارکی سازش ہے یا مقامی تنظیموں کا ہاتھ بلکہ یہ ہوناچاہئے کہ اس بے قابو مظاہرہ کا موقع کس نے فراہم کیا اوربزورطاقت اس کو کچلنے کی پالیسی کیونکر اپنائی گئی، کہاجاتا ہے کہ سرحد پارسے سنگ باری کے لئے قوم مہیا کرائی جاسکتی ہے، کہیں کسی درجہ میں محدود پیمانہ پر یہ بات درست ہوسکتی ہے لیکن اتنے بڑے پیمانہ پر عوام کا سڑکوں پرنکل آنا اوردوسروں کا آلہ کاربن جانا قرین عقل نہیں ہے، دوتین سوروپیوں اورچند ٹکوں کی خاطر کوئی ذی ہوش شخص اپنے جگر پاروں کو جان کی بازی لگانے کی اجازت نہیں دے سکتا، جن لوگوں نے اپنے جگرگوشوں کو پولیس وفوج کی گولیوں سے چھلنی ہوتے دیکھا ہے اورجنھوں نے اپنے کندھوں پر اپنے معصوموں کی لاشیں اٹھائی ہیں یہ ان کے جذبات واحساسات کا بہت بڑا مذاق ہے اوران کے زخموں پرنمک پاشی کی کوشش ،صوبائی وزیراعلیٰ عمرعبداللہ، مرکزی وزیرداخلہ پی.چدمبرم اورپولیس وفوج کے سربراہان اعلیٰ نے کسی بھی فرضی یادرست شہادتوں کی بنیاد پر یہ دعویٰ کیوں نہ کیا ہو کہ پتھربازی کے لئے سرحد پارسے پیسہ آتا ہے لیکن اس کی حقیقت ومحرکات کاجائزہ لینا بھی ضروری ہے کہ ان کو اس غیظ وغضب، جوش انتقام اوراشتعال انگیزی پرآمادہ کس نے کیا کہ وہ زندگی وموت سے بے نیاز ہوکربے خطرآتش نمرود میں کودپڑے اورسنگینوں کے سامنے سینہ سپر ہو گئے اور اگریہ سب کچھ صرف چند ٹکوں کے لئے ہورہا ہے اور اسے درست مان بھی لیاجائے توملک میں دیگرقوموں اورگروہوں کی جانب سے آئے دن پرتشدد ہڑتال ومظاہرے جو کئے جاتے ہیں ان کے لئے پیسہ کہاں سے آتاہے۔

اگرحکومت ہند اوراس کے وزیر داخلہ پی چدمبرم کے تعصب وتنگ نظری اورجانبدارانہ پالیسی کامشاہدہ کرنا ہو توتھوڑی سی فرصت نکال کر اس حقیقت پربھی غورکریں کہ جن دنوں کشمیر کے عوام وادی کی سڑکوں پر فوجی جوتوں کی دھمک سن رہے تھے، شہروں میں موت کا سناٹا طاری کرنے والے کرفیوکا سامناکررہے تھے اورفوجی سنگینوں کے سایہ میں زندگی کو ایک عذاب وجرم کی طرح جی رہے تھے ٹھیک اسی وقت چھتیس گڈھ میں ایک بارپھر ماؤوادیوں نے سی.آر.پی. ایف کی ایک ٹکڑی پرحملہ کرکے اس کے ۲۶ جوانوں کو نہ صرف موت کے گھاٹ اتار دیا بلکہ اپنی روایتی وحشت وبربریت اورسنگ دلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ان کی لاشوں کا مثلہ کردیا۔جیسا کہ اپنی دسترس میں آئے لاشوں کے ساتھ ان کا یہ سلوک ایک عام بات ہے۔ اس سے قبل چند مہینوں کے اندرانجام دی گئی ان کی صرف حالیہ وارداتوں کا جائزہ لیاجائے تویہ روح فرسا حقیقت طشت ازبام ہوگی کہ انھوں نے اپنے زیراثرصوبائی حکومتوں اورمرکزی فورسز کو تگنی کاناچ نچارکھا ہے، جون کے آخری ہفتہ میں انھوں نے ۲۶ جوانوں کو موت کے گھاٹ اتار اتو اس سے چند روز قبل ہاوڑہ ممبئی ایکسپریس (گیا نیشوری ایکسپریس) کو ریل کی پٹریاں اکھاڑکر حادثہ کاشکاربنایا اور۱۵۰ بے گناہوں کی ہلاکت کا سبب بنے، اس سے چند روز قبل جوانوں اور عام شہریوں پرمشتمل ایک بس کو دھماکہ سے اڑاکر ۵۰آدمیوں کو ہلاک کیا، دنتے واڑہ میں انجام دی گئی ان کی وہ واردات تواب تک کی سب سے بڑی اورسنگدلانہ واردات میں شمار ہوتی ہے جس میں سی.آر.پی.ایف کے ۷۰جوانوں سمیت ۸۰ لوگ ہلاک ہوئے پھراس وحشت خیز کاروائی سے مطمئن نہ ہوتے ہوئے اگلے چند دنوں کے بعد مزید ۱۷ جوانوں کو موت کے گھاٹ اتارا، اوردوچار بے گناہ شہریوں یا پولیس کے جوانوں کی ہلاکتیں توتقریباً روز کامعمول ہیں، اپنی ہڑتالوں سے روز مرہ کی زندگی کو مفلوج بنادینا، ریل کی پٹریوں کو اکھاڑ دینا، اسٹیشنوں کو بموں سے اڑادینا، سڑکوں پرلینڈ مائن بچھادینا اورسرکاری املاک کو تباہ کردینا ان کے روزمرہ کے معمول کا حصہ ہے، انھوں نے حکومت ہند کو اکھاڑ پھینکنے کا عزم کررکھا ہے اوران کا وجود ملک کے لئے سنگین خطرہ اورایک چیلنج کی حیثیت رکھتا ہے ،پھربھی وہ دہشت گرد اس لئے نہیں ہیں کہ وہ ان کے ہم مذہب ہیں جو ہندوستان پرحکومت کررہے ہیں اورسیکولر حکومت چلانے کا دعویٰ کررہے ہیں، خیربات کشمیر کے تناظر میں ہورہی تھی، وہاں احتجاجوں وہڑتالوں کا جوسلسلہ چل رہا تھا اسی دوران جب دنتے واڑہ میں سی.آر.پی.ایف کے ۲۶ جوانوں کی ہلاکت ماؤوادیوں کے ہاتھوں ہوئی توان کے خلاف فوج کے استعمال کا مطالبہ ایک بارپھر زورپکڑنے لگا لیکن پی.چدمبرم نے حسب معمول ایک مرتبہ پھر ان کے خلاف فوج کے استعمال کو خارج ازامکان قراردیا اوراس مطالبہ کو سختی سے مسترد کردیا، دوسری طرف ٹھیک اسی وقت کشمیر کی سڑکوں کے چپہ چپہ پرفوج وسی.آر.پی.ایف تعینات تھی اوروہ مظاہرین پرآنسو گیس اورگو لیاں برساکر اپنی طاقت کا اندھا مظاہرہ کررہی تھی اورکشمیر کے تمام شہریوں کے ساتھ وہی سلوک کررہی تھی جو عام دہشت گردوں کے ساتھ کیاجاتا ہے ،کیا اس جانبدارانہ روش کاکوئی جواز ہے ؟کیا اسے تعصب وتنگ نظری کے سوا کوئی اورنام دیاجاسکتا ہے؟ اورکیا حالات کو سمجھنے اور انھیں کنٹرول کرنے کا یہ دوہرا معیارنہیں ہے؟ اورکیا ایک غیرجانبدار شخص یہ نتیجہ اخذ کرنے میں حق بجانب نہیں ہے؟ کہ دونوں معاملات میں فرق صرف مذہب کا ہے ورنہ کیا وجہ ہے کہ کشمیریوں کے جس بے ضرر مظاہرہ میں ایک بھی فوجی یا سی.آر.پی.ایف وپولیس کاجوان ہلاک نہیں ہوا اورشاید سیریس طورپر زخمی بھی نہیں ہوا اس کو روکنے کے لئے طاقت کا ایسا بے دریغ استعمال اور جن کے ہاتھوں شہریوں کی جان ومال اورسرکاری املاک بلکہ ملک کا اتحاد وسالمیت بھی محفوظ نہیں ان پردہشت گردی کا لیبل لگاتے ہوئے بھی شرم آئے اوران کے خلاف فوج کا استعمال بھی خارج ازامکان قرارپائے، اس دوہرے پیمانہ اوردوہرے معیار پرسنجیدگی کے ساتھ غور کرنے کی ضرورت ہے۔

***



No comments:

Post a Comment