Monday, October 4, 2010

رمضان المبارک کے بعض احکام ومسائل Aug- Sep 2010

وصی اللہ عبدالحکیم مدنیؔ
استادکلیہ عائشہ صدیقہ جھنڈانگر
رمضان المبارک کے بعض احکام ومسائل
چاندکے احکام:
*چاند دیکھ کر ہی روزہ رکھو اورچاند دیکھ کرہی روزہ چھوڑو اگرانتیس شعبان کو آسمان ابرآلود ہواورچاند نظرنہ آئے توشعبان کے تیس دن پوری کرلو۔(متفق علیہ)
*رمضان کے چاند کے لئے موحد مسلمان کی شہادت ورویت کاہی اعتبار کیاجائے گا۔ (صحیح؍ سنن ابی داؤد)
*چاند دیکھنے کی دعا:’’اَللّٰہُ اَکْبَرُ! اَللَّھُمَّ اَھِلَّہُ عَلَیْنَا بِالْأَمْنِ وَالْاِیْمَانِ وَالسَّلَامَۃِ وَالْاِسْلَامِ وَالتَّوْفِیْقِ لِمَا تُحِبُّ رَبَّنَا وَتَرْضٰی رَبِّیْ وَرَبُّکَ اللّٰہُ‘‘۔(حسن بشواہدہ؍سنن دارمی)
ترجمہ:اللہ بہت بڑا ہے، اے اللہ! اس کو ہم پرامن وایمان سلامتی واسلام اوراس چیز کی توفیق کے ساتھ ظاہر فرماجسے توپسند فرماتا ہے اورجس سے توخوش ہوتاہے، اے چاند میرا اورتیرا رب اللہ ہے۔
*رمضان کے چاندکی بابت ایک مسلمان کی شہادت کافی ہے جب کہ عید کے چاند کے بارے میں کم ازکم دومسلمانوں کی شہادت ہونی چاہئے۔(صحیح ؍سنن أبی داؤد)
*جو علاقے مطلع کے اعتبارسے قریب قریب ہیں ان علاقوں میں ایک علاقہ کی رؤیت دوسرے علاقوں کے لئے کافی ہے۔
صوم کامعنیٰ ومفہوم:
صوم اور صیام یہ صَام یصوم کامصدرہے اورصوم کا لغوی معنی رکنا اورشرعی معنی صبح صادق سے لے کرغروب آفتاب تک روزہ کی نیت سے اللہ کی رضا حاصل کرنے کے لئے کھانے پینے، بیوی سے ہم بستری کرنے اور سارے مفطرات صوم سے رکے رہناہے۔
رمضان کا روزہ کن لوگوں پر فرض ہے؟:
رمضان کاروزہ ہر عاقل، بالغ، روزہ رکھنے پر قادر اورمقیم مسلمان مرد وعورت (جوحیض ونفاس سے پاک ہو)پر فرض ہے جسے کوئی شرعی عذرلاحق نہ ہو جیساکہ ارشاد ربانی ہے(یٰا اَیُّھَا الَّذِیْنَ آمَنُوْا کُتِبَ عَلَیْکُمُ الصِّیَامُ کَمَاکُتِبَ عَلَی الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِکُمْ لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْنَ)( البقرۃ:۱۸۳)
ترجمہ: اے ایمان والو! تم پر روزے رکھنا فرض کیا گیا جس طرح تم سے پہلے لوگوں پرفرض کئے گئے تھے تاکہ تم تقویٰ اختیار کرو۔
رمضان کا روزہ کن لوگوں پر فرض نہیں ہے؟
رمضان کا روزہ نابالغ بچہ تاوقتیکہ بالغ نہ ہوجائے، مجنون، مریض، مسافر، حیض ونفاس والی عورت، بوڑھے مردیا بوڑھی عورت ،حاملہ اوردودھ پلانے والی عورت پر فرض نہیں ہے، ان میں بعض وہ ہیں جن پر روزہ فرض نہیں ہے لیکن ان کے لئے روزہ رکھنا مستحب ہے، بعض کوروزہ چھوڑنا اوراس کی قضاء ضروری ہے، بعض کو روزہ چھوڑنے کی اجازت ہے ،لیکن اس کی قضاء یا فدیہ ضروری ہے ہر ایک کی تفصیل آگے آرہی ہے۔
رمضان کے روزوں کی فرضیت:
(۱)ماہ رمضان کے روزوں کی فرضیت کتاب وسنت اور اجماع امت سے ثابت ہے۔ (المغنی:۴؍۳۲۴)
(۲)ماہ رمضان کا روزہ ۲ھ ؁میں فرض ہوا۔(نیل ا لأوطار؍۳؍۱۵۱)
رمضان کے روزوں کاحکم:
*رمضان کے روزوں کی فرضیت کاانکارکرنے والا انسان کافر اوربغیر کسی عذرشرعی اس کا چھوڑنے والا سخت گنہگار اورفاسق ہے۔
رمضان کاروزہ رکھناکب واجب ہوتاہے؟
*رمضان کا چاند دیکھنے سے یا شعبان کا مہینہ تیس دن پوراہوجانے پر رمضان کا روزہ رکھنا واجب ہوتاہے۔
ماہ رمضان کی فضیلت:
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ’’جب رمضان کا مہینہ آتاہے توجنت کے دروازے کھول دئے جاتے ہیں اورجہنم کے دروازے بند کردئے جاتے ہیں اور شیطانوں کوباندھ دیاجاتاہے‘‘۔(بخاری ومسلم)
رزوں کی فضیلت:
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ ’’اللہ تعالیٰ فرماتاہے کہ انسان کا ہرعمل اس کے لئے ہے سوائے روزہ کے، اس لئے کہ روزہ میرے لئے ہے اوراس کا بدلہ میں ہی دوں گا‘‘۔(متفق علیہ)
نیت:
*رمضان کے فرض روزے کی نیت رات ہی میں طلوع فجر سے پہلے کرنا واجب ہے۔(صحیح ؍سنن ابی داؤد)
*نفلی روزوں کی نیت طلوع فجرکے بعدظہر سے پہلے بھی کی جاسکتی ہے، بشرطیکہ طلوع فجر کے بعد کچھ کھایا پیانہ ہو یا جماع نہ کیا ہو۔
*ہرشرعی کام کے لئے نیت ضروری ہے۔(صحیح بخاری)
* زبان سے نیت کرنا ضروری نہیں ہے بلکہ اس کے لئے دل میں ارادہ کرلینا کافی ہے۔(امام ابن تیمیہ)
*نیت اورروزہ رکھنے کے لئے کوئی مخصوص دعا آپ ﷺ سے ثابت نہیں ہے۔
*رمضان کا روزہ رکھنے والے کے لئے رمضان کی ہرشب میں نیت کرنے کی حاجت نہیں ہے جبکہ امام شوکانی کے بقول ہردن کے لئے نیت کرنی چاہئے۔
*ہر وہ روزہ جو واجب ہے جیسے قضاء وکفارہ اس کے لئے نیت بھی شرط ہے۔
افطار:
*غروب آفتاب کے بعد فوراً افطار کرلینا چاہئے تاخیر درست نہیں ہے(متفق علیہ)
*تاخیر سے افطارکرنا یہود ونصاریٰ کی مشابہت ہے۔(حسن ؍سنن أبی داؤد)
*نفلی روزہ انسان جب چاہے افطار کرسکتاہے۔(صحیح مسلم)
* افطار کرتے وقت ’’بسم اللہ‘‘ کہے اورکھانا کھاچکے تو ’’الحمدللہ‘‘ کہے اوریہ دعا پڑھے’’ذَھَبَ الظَّمَاءُ وَابْتَلَّتِ الْعُرُوْقُ وَثَبَتَ الْاَجْرُاِنْ شَآءَ اللّٰہُ ‘‘۔
(حسن ؍سنن أبی داؤد،سنن دارقطنی)
کس چیز سے افطار کیاجائے؟
*تازہ طاق کھجوروں سے افطار کرناافضل ہے اگریہ میسرنہ ہوں توپانی سے افطار بہترہے ویسے کسی بھی حلال اورپاکیزہ چیز کو کھاپی کرروزہ افطار کیاجاسکتا ہے اوراگرکبھی کھانے پینے کی کوئی چیز نہ مل سکے توصرف افطارکی نیت کرلینے سے افطار ہوجائے گا۔
سحری:
*سحری کھانا باعث برکت اورہمارے نبی ﷺ کی سنت ہے۔(متفق علیہ)
* اگر کھانے کی خواہش کم ہو توتھوڑا سامیٹھاکھالے اگربالکل خواہش نہ ہو تودوچارگھونٹ پانی ہی پی لے۔
*اگررات کوسوجانے کی وجہ سے سحری نہ کھاسکے تب بھی روزہ رکھناچاہئے۔
*بغیرسحری کھائے ہوئے بھی روزہ رکھنا درست ہے البتہ سنت کی پیروی افضل ہے۔
*عہد نبوی میں سحری کی اذان حضرت بلال رضی اللہ عنہ اورفجر کی اذان عبداللہ بن ام مکتوم دیتے تھے۔(متفق علیہ)
*سحری کی اذان کی جگہ سائرن بجانا، نقاروں، پٹاخوں، توپوں اورہری بتیوں کااستعمال بدعت اورخلافِ سنت ہے۔
*حالتِ جنابت میں سحری کھانا درست ہے۔(متفق علیہ)
*سحری بالکل آخر وقت میں کھاناافضل اورسنت نبوی ہے ۔(بخاری ومسلم،الفتح الربانی)
*سحری دیرسے کھانا انبیاء کی خصلت اورایمان کی علامت ہے۔
*جوشخص فجرکی اذان سنے اور برتن اس کے ہاتھ میں ہوتووہ کھاپی لے۔(حسن صحیح؍سنن ابی داؤد)
نمازتراویح(قیام رمضان)
*رمضان المبارک کاچاند دیکھتے ہی ہرمسلمان مردوعورت کے لئے عشاء کی نماز کے بعدآٹھ رکعت تراویح پڑھنا سنت مؤکدہ ہے۔
*صلاۃ تراویح کے بعد یا ہردورکعت کے بعدکوئی مخصوص دعا آپ ﷺ سے ثابت نہیں ہے۔
*قیام اللیل یاصلاۃ تراویح وِترسمیت گیارہ رکعت ہی پڑھنا مسنون ہے، آٹھ رکعت تراویح اورتین رکعت وتر۔(صحیحین)
*ایک ہی رات میں نماز تراویح وتہجد پڑھنا درست ہے بایں طور اول شب میں تراویح اورآخری رات میں نماز تہجد لیکن ایک ہی رات میں دوبار وتراداکرناجائز نہیں ہے۔
*تراویح کے ائمہ کرام قرأت ٹھہر ٹھہر کر کریں اورصاف صاف پڑھیں، قرآن پاک ختم کرنے کے لئے جلد بازی ہرگز درست نہیں ۔
* تراویح کی نماز تنہا پڑھنی بھی جائز ہے مگراسے باجماعت اداکرنا افضل ہے۔
*شرعی حجاب اوراسلامی آداب واخلاق کالحاظ کرتے ہوئے عورتیں بھی مردوں کے ساتھ تراویح کی نماز باجماعت میں شریک ہوسکتی ہیں، بشرطیکہ ان کے لئے نماز کا علیحدہ انتظام ہو۔
*کوئی پڑھی لکھی عورت علیحدہ عورتوں کی امامت بھی کراسکتی ہے۔
مفسدات صوم:
رمضان کے دن میں قصداً کھاناپینا ،قصداً بیڑی سگریٹ پینا یا کسی اورطرح سے دھواں منہ میں لینا،عمداً قے کرنا، حیض ونفاس کے خون کا آنا، مرتد ہوجانا،( یعنی اسلام سے پھرجانا )رمضان کے دن میں مقوی انجکشن لینا، روزہ توڑنے کی نیت کرنا، منھ کے راستے سے دواؤں کا نگلنا، خون چڑھانا،بیداری کی حالت میں منی کانکلنا چاہے وہ مباشرت سے ہو یا بوسہ لینے سے یا ویسے ہی نکل جائے اوررمضان کے دن میں بیوی سے جماع کرنا اس میں قضاء کفارہ دونوں لازم ہے۔
مکروھاتِ صوم:
روزہ دار کے لئے کلّی کرنا ،ناک میں پانی ڈالنے میں مبالغہ کرنا، بغیر ضرورت کھانا چکھنا اوراگر پچھنا لگوانے سے کمزوری آئے توپچھنا لگوانابھی مکروہ ہے۔
مباحات صوم:
درج ذیل امورسے روزہ فاسد نہیں ہوتاہے۔
سرمہ لگانا، غیر مقوی انجکشن لگوانا، آدمی کے پیشاب کے سوراخ میں دواٹپکانا،زخموں کی مرہم پٹی کرنا، خوشبو سونگھنا،تیل لگانا، دھونی دینا، ہاتھ وپیرمیں مہندی لگانا، آنکھ ،کان اور ناک میں دواکا قطرہ ڈالنا،قے ہونا، سینگی (پچھنا)لگوانا،(اس مسئلے میں علماء کے مابین شدید اختلاف ہے اس لئے احتیاط ہی برتنا بہترہے) رِگ کھلوانا، خون نکلوانا، نکسیر پھوٹنا، زخموں سے خون نکلنا،شدید درد کی وجہ سے دانت نکلوانا،دانت میں دوالگانا، مذی اورودی کانکلنا ،دمہ میں اسپرے(spray)کااستعمال کرنا،خشک وتر میٹھی وکڑوی مسواک کرنا،ہروہ ٹوتھ پیسٹ استعمال کرنا جس میں ممنوع اشیاء شامل نہ ہوں، طلوع فجرکے بعد غسلِ جنابت کرنا، بیوی سے بوس وکنارہونا اورپردے کے اوپرسے مباشرت کرناگرچہ اس کی شہوت حرکت میں آئے، کلی کرنا اورناک میں پانی ڈالنا، استحاضہ کاخون آنا، وقتِ ضرورت کسی چیز کا چکھنا، بھول کر کھاپی لینا،گرمی یاپیاس کی وجہ سے سرپر پانی ڈالنا،نہانا،چیک اپ کروانا،غرغرہ کی دواستعمال کرنا ،محتلم ہونا، بھول کر بیوی سے جماع کرنا، وکس یا دوسری سونگھنے والی دواؤں کا استعمال کرنا،تھوک اورگردوغبار حلق کے اندرجانا، صائم کا اپنا تھوک نگلنا،کڈنی اورگردہ کی دھلائی کرنا۔
قضاء وکفارہ:
*بحالت روزہ قصداً اپنی بیوی کے ساتھ ہمبستری کرنے سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے اوراس حالت میں قضاء اورکفارہ دونوں ضروری ہے اورکفارہ یہ ہے کہ ایک غلام آزاد کرے اگر اس کی استطاعت نہ ہو تودومہینے کا مسلسل روزہ رکھے اوراگر اس کی بھی طاقت نہ ہو توساٹھ مسکینوں کوکھانا کھلائے۔
*جمہورائمہ کے نزدیک یہ کفارہ مردوعورت دونوں پر ضروری ہے، لیکن اگرمرد نے عورت کو اپنے ساتھ زبردستی شریک کیا تو اس کا کفارہ بھی مرد کے ذمہ ہوگا۔(الفتح الربانی)
*جمہورائمہ کے نزدیک کفارہ میں ترتیب ضروری ہے۔(الفتح الربانی)
*اگرکسی شخص نے روزہ توڑنے کی نیت کرلی تواس کا روزہ ٹوٹ جائے اوراس پرقضاء ہے۔(فقہ السنۃ)
*جمہورعلماء کے نزدیک اگرکسی کو طلو ع فجرکے بعد رمضان کے آنے کی اطلاع ملے تواس پر واجب ہے کہ دن کا باقی حصہ روزہ کی حالت میں گزارے اوربعدمیں اس دن کی قضاء کرے۔
*جس شخص نے رمضان کے دن میں اپنی حائضہ بیوی سے جماع کرلیا تواس پر کفارہ اورقضا دونوں ضروری ہے۔
*اگرروزہ دارمنی نکالے تووہ گنہگار ہوگا لیکن نہ اس پر کفارہ ہے اورنہ ہی قضاء۔
*اگرکسی شخص نے رمضان کے دن میں اپنی بیوی سے ایک ہی دن میں کئی بار جماع کیا توایک ہی کفارہ اوراس کی قضا ہے۔
*اگرکسی نے نفلی روزہ یانذر کاروزہ رکھا یاکوئی روزہ قضاء کررہا تھا اوراسی بیچ میں اپنی بیوی سے جماع کربیٹھا تواس پرقضاء ہے کفارہ نہیں ۔
*رمضان کے روزوں کی قضاء تاخیر سے بھی درست ہے(صحیح ؍سنن أبی داؤد) ویسے امام البانی کے بقول اگراستطاعت ہو توجلدی قضا ء کرنا واجب ہے۔(تمام المنۃ)
*رمضان کے روزوں کی قضاء مسلسل اورالگ الگ کی جائے دونوں طریقہ درست ہے۔
*جوشخص قصداً بلاعذر روزہ نہ رکھے تواس کے لئے قضا ء مشروع نہیں اوراس کا قضا ء کرنا درست نہ ہوگا۔(البانی)
*اگرکسی شخص کو روزہ رکھنے کی وجہ سے اپنی جان جانے کا خطرہ لاحق ہوتووہ روزہ توڑدے بعدمیں اس کی قضاء کرے۔
*اگر کسی شخص نے کسی ڈوبنے والے کو بچانے کے لئے یا آگ بجھانے کے لئے روزہ توڑدیا تو اس کے لئے قضاء ہے۔
*دائم المریض شخص پر روزہ کی قضاء نہیں ہے بلکہ اس کے ذمہ فدیہ ہے۔
*اگرکسی شخص کو جماع کرنے پر مجبور کیاگیا اوروہ مسئلہ نہیں جانتا تھا یا بھول کرجماع کرلیا تواس کا روزہ صحیح ہوگا اوراس پر قضاء اورکفارہ عائد نہیں ہوگا۔
*اگرکوئی شحص اپنی بیوی کی رضامندی سے جماع کرتاہے تواس عورت کوبھی فدیہ، قضاء اورکفارہ دیناپڑے گا۔
*اگرکسی آدمی نے رات سمجھ کر کچھ کھاپی لیا یااپنی بیوی سے مباشرت کربیٹھا پھرمعلوم ہواکہ فجرہوچکی ہے تواس کا روزہ صحیح ہوگا اوراس پر کوئی کفارہ عائد نہیں ہوگا۔
*اگرکسی شخص کو روزے کی حالت میں خودبخود قے آجائے تواس پر قضاء نہیں ہے۔(صحیح؍سنن أبی داؤد)
*اگرکوئی حاملہ عورت حمل کے پانی آنے کے دوران روزہ رکھتی ہے تواس کے روزے صحیح ہیں اس پرقضا ء نہیں۔
*اگرحاملہ اوردودھ پلانے والی عورتیں اپنے نفس پر، جنین یا اپنے نومولود کی صحت کے بارے میں خوف محسوس کریں تورمضان میں روزے نہ رکھیں بعدمیں قضاء کرلیں اس صورت میں صرف قضاء لازم ہے صدقہ نہیں ۔
*حائضہ اورنفاس والی عورتوں کے لئے روزہ رکھنا منع ہے، یہ روزہ نہ رکھیں، بلکہ بعدمیں قضاء کریں۔
*اگرحائضہ اورنفاس والی عورتیں دن میں پاک ہوجائیں توان کے لئے اس دن کا کھانا پینا درست ہے۔
* منہ کے علاوہ کسی اورذریعے سے قصداً معدہ یا دماغ میں کوئی غذا پہونچا دی جائے توروزہ ٹوٹ جائے گا قضا ء واجب ہوگی۔
*نفلی روزوں کی قضاء لازمی نہیں ہے۔
*قضاء روزے نفلی روزوں کے قائم مقام نہ ہوں گے۔
*جوشخص مرجائے اوراس پر رمضان کے روزے ہوں اگروہ مرض کی وجہ سے معذور ہے تواس کی طرف سے قضاء ضروری نہیں اورنہ کھانا کھلانا ضروری ہے اوراگروہ قضاء پرقادرتھا لیکن غفلت کی بنا پرقضاء نہیں کیایہاں تک کہ مرگیا تواس کا ولی اس کی طرف سے روزہ رکھ لے۔
*کوئی عورت اپنے شوہرکی موجودگی میں اس کی اجازت کے بغیر نفلی روزہ نہ رکھے البتہ رمضان کے روزے اوررمضان کی قضا ء بغیر شوہرکی اجازت سے کرلے۔
*اگرکوئی مسلمان رمضان کے دن میں بھول کرکھالے یاپی لے یا اپنی بیوی سے جماع کرلے تواس کا روزہ صحیح ہوگا بشرطیکہ یاد آتے ہی فوراً اس کام کو چھوڑ دے ایسے روزوں کی نہ قضا ہے نہ کفارہ۔
*اگرکسی شخص نے یہ سمجھا کہ سورج غروب ہوگیا اورافطارکرلیا اس کے بعدسورج نمودارہوگیا تواسے اس دن کی قضاء کرنی ہوگی۔(صحیح؍سنن ابی داؤد)
نفلی روزہ:
*غیرشادی شدہ عورت بغیراجازت نفلی روزہ رکھ سکتی ہے۔
*مرد کا اپنی بیوی کو نفلی روزہ سے منع کرنا درست ہے۔
*اگرکسی عورت کا شوہر اس کے پاس موجودنہ ہو تواس کے لئے نفلی روزہ رکھنا مستحب ہے۔
میت کا روزہ:
*میت کی طرف سے میت کا ولی اس کے رمضان اورنذرکے روزے رکھ سکتاہے اور اس میں نیابت درست ہے کیونکہ صحیح حدیث اس پر شاہد ہے۔(متفق علیہ)
*جولوگ کسی ایسے ملک میں مقیم ہوں جہاں چھ مہینے دن اورچھ مہینے رات ہو تووہ نماز اورروزہ اپنے قریبی ملک کے مطابق اداکریں۔
خواتین کے لئے دواؤں کا استعمال:
*عورت روزہ رکھنے اورحج کرنے کے لئے وہ دواستعمال کرسکتی ہے جو حیض کوبند کردے۔
غسل:۔اگرکسی مسلمان مردوعورت کوروزہ کی حالت میں احتلام ہوجائے تواس کا روزہ صحیح ہوگا اوراس پر غسل واجب ہے اوراس پر کوئی گناہ نہیں۔
*گرمی اورپیاس کی شدت کم کرنے کے لئے روزہ دار غسل کرسکتاہے۔
*اگرکسی عورت نے حیض کی وجہ سے روزہ چھوڑدیا اوررات کے وقت اس کا خون بندہوگیا تواس کو فوراً روزہ کی نیت کرلینی چاہئے اگراس وقت غسل نہ کرسکے تودن میں غسل کرلے۔
*اگرغسل جنابت یاغسل حیض ونفاس کو روزہ دارطلوع فجرتک مؤخر کردے توجائز ہے اوراس کا روزہ صحیح ہے لیکن مسلمان کے لئے بہتر ہے کہ وہ ہمیشہ پاک رہے۔
*نفاس والی عورت کو اگرچالیس دن کے بعدبھی خون آتا ہے تو وہ غسل کرے گی اورروزہ رکھے گی اورنماز پڑھے گی اوراپنے آپ کو مستحاضہ تصورکرے گی۔
مسافرکاروزہ:
*مسافرکے لئے سفرمیں مطلقاً روزہ نہ رکھنا افضل ہے۔(متفق علیہ)
* اگرمسافر کوسفرمیں روزہ رکھنا سخت دشوار ہو تواس کے لئے روزہ نہ رکھنا واجب ہے البتہ اگرروزہ رکھنے میں کوئی تکلیف نہ ہو تو روزہ رکھنا بھی جائز ہے۔
*دوران سفرروزہ رکھنا اورچھوڑنا دونوں طرح جائز ودرست ہے۔(متفق علیہ)
*اگرمسافر روزہ نہ رکھ کر اپنے شہرمیں اس دن پہونچے جس دن اس کی بیوی حیض یا نفاس سے پاک ہورہی ہو تواس سے جماع کرسکتاہے۔
*اگرمسافردن میں روزہ نہ رکھ کر اپنے شہرمیں داخل ہو تواس کے لئے کھانا پینا مباح اورجائز ہے ۔
فدیہ:
ہرمرد وعورت جوبڑھاپے کی وجہ سے یاایسے مرض کی وجہ سے۔ جس سے شفاء پانے کی امید نہ ہو۔ روزہ نہ رکھ سکتا ہوخواہ وہ مقیم ہو یامسافراسے روزہ چھوڑنے کی اجازت ہے البتہ ہردن کے بدلے(فدیہ) ایک مسکین کوکھانا کھلاناضروری ہے۔(مسند امام احمد، نیل الاوطار)
*وہ بوڑھا شخص جو نہ ہی روزہ رکھنے کی طاقت رکھتا ہے اورنہ ہی فدیہ دینے کی تواس سے روزہ اورفدیہ دونوں معاف ہیں ۔(فتاویٰ علمائے اہل حدیث)
جن ایام کا روزہ رکھنا حرام ہے:
عیدین،ایام تشریق اوررمضان کے استقبال کے لئے ایک یا دودن پہلے روزہ رکھنا حرام ہے۔(متفق علیہ، مسنداحمد)
روزہ نہ رکھنے کی اجازت:
مریض، مسافر، حاملہ، مرضعہ اورحیض ونفاس والی عورتوں کوروزہ نہ رکھنے کی اجازت ہے لیکن بعدمیں فوت شدہ روزوں کی قضاء لازمی ہے ۔(کتب ستہ)
شب قدر:
*رمضان المبارک کے آخری عشرہ کی طاق راتوں میں یہ بابرکت رات آتی ہے صرف ستائیسویں رات شب بیداری اورخصوصی پکوان کا اہتمام کرنا درست نہیں ہے۔
*(اِنا انزلنا ہ فی لیلۃ مبارکۃ)میں’’ لیلۃ مبارکۃ‘‘سے مراد شب قدرہے نہ کہ شب برأت۔
*شب قدر کی مخصوص دعا’’اللھم! إِنَّکَ عَفُوٌ کَرِیْمٌ تُحِبُّ الْعَفْوَ فَاعْفُ عَنِّی‘‘کو بکثرت پڑھنی چاہئے۔(صحیح؍ سنن ترمذی)
خطبۃ الوداع:
*رمضان المبارک کے آخری جمعہ کو الوداعی خطبہ پڑھنا بدعت ہے۔
مسائل اعتکاف:
*اعتکاف سنت ہے لیکن اگرکوئی شخص اسے نذرکے ذریعے اپنے اوپرلازم کرلے توپھریہ واجب ہوجائے گا۔
*اعتکاف خواہ مرد کرے یا عورت اس کا مسجد میں ہوناضروری ہے۔(المغنی، الفتح الربانی)
*روزے کے بغیراعتکاف جائز ہے لیکن روزے کے ساتھ افضل ہے ۔(صحیح بخاری، زادالمعاد)
*اعتکاف کے لئے روزہ شرط نہیں ہے کیونکہ رات کو روزہ نہیں رکھا جاتاہے۔
*اعتکاف بیٹھنے والا شخص کسی سخت حاجت ناگزیر انسانی ضرورت کے وقت ہی باہرنکل سکتاہے۔(متفق علیہ)
*اعتکاف کرنے والا شخص بغیر شہوت کے اپنی بیوی کوچھوسکتاہے۔(متفق علیہ)
*اعتکاف کرنے والے کے لئے مریض کی عیادت اورجنازے میں شرکت جائز نہیں ہے۔(صحیح؍سنن أبی داؤد)
*اعتکاف کی جگہ میں چارپائی اوربستر بھی رکھا جاسکتا ہے بشرطیکہ دوسرے نمازیوں کو تکلیف نہ ہو۔(سنن ابن ماجہ)
*خواتین بھی اعتکاف بیٹھ سکتی ہیں اس میں شادی شدہ اورکنواری کی تفریق نہیں ہے۔(الفتح الربانی)
*عورتوں کے لئے گھروں میں اعتکاف بیٹھنا درست نہیں ہے۔
*عورت اپنے شوہرکے بغیراجازت اعتکاف نہیں بیٹھ سکتی ہے۔
*حائضہ عورتوں کے لئے اعتکاف بیٹھنا درست نہیں ہے۔
*مستحاضہ عورت اعتکاف کرسکتی ہے۔صحیح بخاری)
*بیوی کا اپنے معتکف شوہرکی زیارت کے لئے مسجد آنا، اس کے بالوں میں کنگھی کرنا اوراس کا سردھلناجائز ہے۔(متفق علیہ)
*معتکف اپنی بیوی کو رخصت کرنے کے لئے اپنی جائے اعتکاف سے نکل سکتا ہے(صحیح؍ سنن أبی داؤد)
صدقۂ فطر:
*صدقۂ فطر عیدکے ایک یادودن پہلے نکالنا ہی عین سنت ہے۔(صحیح بخاری)
*صدقہ فطر جنس طعام سے ہی اداکرنا چاہئے۔(بخاری ومسلم)
*صدقہ فطر میں قیمت اداکرنے کا ثبوت احادیث نبوی میں نہیں ہے۔
*بعض علماء کے نزدیک بدرجہ مجبوری اورکسی معقول عذرکی وجہ سے صدقۂ فطر میں قیمت بھی دی جاسکتی ہے۔(مرعاۃ المفاتیح،تحفۂ رمضان المبارک)
*صدقۂ فطر کے وجوب کے لئے نصاب شرط نہیں ہے،کیونکہ یہ ایک بدنی صدقہ ہے مالی صدقہ نہیں ۔(نیل الاوطار)
*صدقہ فطرکا پیشگی جمع کرنا جائز ہے۔(بخاری ،تحفۃ الأحوذی)
*جنین کی طرف سے صدقۂ فطر نکالنے کے سلسلے میں اللہ کے رسول ﷺ سے کوئی صحیح حدیث ثابت نہیں ہے اوررہی یہ حدیث’’عن عثمان رضی اللہ عنہ انہ کان یعطی صدقۃ الفطرۃ عن الحبلٰی‘‘تواس کی سند ضعیف ہے سویہ حدیث ضعیف ہے۔
*صدقۂ فطرکافرکی طرف سے نہیں نکالاجائے گا کیونکہ حدیث میں’’..من المسلمین‘‘ کی قید ہے ۔
احکام وآداب عیدین:
*عید کی رات اوریوم عید کی صبح کو تکبیرات پڑھنے کا خاص اہتمام کرناچاہئے۔
*نماز عید سے پہلے غسل کرنا ،عمدہ لباس زیب تن کرکے خوشبولگاکر گھرسے نکلناچاہئے۔ (مؤطاء)
*عید الفطر میں گھرسے نکلنے سے پہلے طاق عددمیں کھجوریں کھانا مسنون ہے۔(بخاری)
*عیدگاہ پیدل جانا اوروہاں سے پیدل آنا مسنون ہے۔(حسن؍سنن ابن ماجہ)
*مرد اورعورت سب کو صلاۃ عیدین عیدگاہ ہی میں اداکرنا چاہئے کیونکہ یہی ہمارے نبی ﷺ کی سنت ہے۔(متفق علیہ)
*تکبیرات عیدین یہ ہیں’’اَللّٰہُ اَکبَرُ، اَللّٰہُ اَکبَرُ، لَا اِلٰہَ اِلاَّ اللّٰہُ،وَاللّٰہُ اَکبَرُ ،اَللّٰہُ اَکبَرُ وَلِلّٰہِ الْحَمْدُ‘‘۔(اسنادہ صحیح؍ مصنف ابن ابی شیبہ)
*صلاۃ عید سے پہلے اوراس کے بعد کوئی سنت اورنفل نماز نہیں ہے۔(متفق علیہ)
*صلاۃ عیدین میں نہ تواذان ہے اورنہ ہی اقامت۔(مسلم)
*اگرامام تکبیرزوائد میں سے کوئی تکبیر بھول جائے اورقرأت شروع کردے تووہ تکبیر ساقط ہوجائے گی اس لئے کہ وہ سنت ہے اوراس کا موقع ومحل فوت ہوچکاہے۔
*عیدگاہ میں منبر نہیں لے جانا چاہئے کیونکہ اس باب میں وارد حدیث منکرہے۔ *صلاۃ عید ین کے بعدخطبہ دینا مشروع ہے۔
*عیدین میں جمعہ کی طرح دوخطبے نہیں ہیں صرف ایک ہی خطبہ مسنون ہے۔
*اگربغیر عذرشرعی عورتیں مسجد میں اورمرد عیدگاہ میں عید کی نماز اداکرتے ہیں تویہ خلاف سنت ہے اوریہ تفریق شرعی نہیں من مانی ہے۔
*ماہ شوال کے چھ روزے سنت ہیں فرض نہیں۔
*شوال کے چھ روزے پے درپے اورمتفرق دونوں طریقے پر رکھے جاسکتے ہیں کیونکہ حدیث کے الفاظ ’’من صام رمضان ثم اتبعہ ستاً من شوال کان کصیام الدھر‘‘مطلق ہے۔
*جس پررمضان کی قضاء ہو اسے چاہئے کہ پہلے رمضان کے روزوں کی قضا ء کرے پھرشوال کے چھ روزے رکھے۔(فتویٰ شیخ ابن عثیمین؍رحمہ اللہ)
*شوال کے چھ روزوں کی قضا ماہ شوال ختم ہوجانے کے بعدمشروع نہیں ہے خواہ وہ کسی عذر کی بنا پر چھوڑے گئے ہوں یابغیر کسی عذر کے۔

1 comment: