Monday, April 4, 2011

jan.feb-2011-ضیاء شعاع

مولاناعبدالحکیم مجاز رحمانی اعظمی
 جامعہ عالیہ عربیہ،مؤناتھ بھنجن


ضیاء شعاع

قدیم زمانے سے ادب میں دوحلقے اپنے کردار کا نمونہ پیش کرتے رہے ہیں ،ایک حلقہ زبان اورتخیل کی رنگینی کے ذریعہ سامعین وقارئین کو متاثر کرتا رہا ہے’’لیکن یہ تاثرنفس امّارہ کی خواہشات میں اضافہ کرتا رہا ہے، یہی طبقہ غزلوں میں رومانیت کا رنگ بھرکے لوگوں کو ایک خاردار راستے کی طرف مائل کرتا رہا ہے اوراس کی زندگی بے مقصد اوربے راہ ہوکر مقصدحیات کی سعادت سے محروم رہ جاتا ہے‘‘ دوسراحلقہ ان سعادت مند ادباء وشعراء کارہا جواپنے کلام میں وہ انداز اختیار کرتے رہے جس سے تخلیق انسانی کا مقصدعظیم نمایاں ہو اور ایسے کلام ان لوگوں کے نزدیک دل سے وابستہ رہے ہیں کہ اس کا اثرتاحیات ہی نہیں بلکہ بعدحیات بعد باقی رہتا ہے، ایسے شعراء وادباء انسانیت کے لئے روحانی سوغات پیش کرتے رہے ہیں۔
اسی دوسری نوع میں جناب حیرتؔ بستوی بھی اپنی خصوصیات کے ساتھ شامل ہیں، ان کی ادبی کاوشیں ایسے افکارو خیالات پرمشتمل ہیں جن سے استفادہ کرکے روح انسانیت باسلامت رہے، اسی فکرکو لے کرزیرنظر مجموعۂ کلام ’’شعاع حرم‘‘ سامنے ہے ،جس میں حرم کی اضافت سے شعاع کا تعلق اتنی کرنوں کے ساتھ ضیاء بارہے کہ جوبھی اس طرح نظراٹھاکردیکھے اس کا دل سعادت مندی کے لئے بے قرار ہوجائے گا اورایک خاص بات یہ ہے کہ اس مجموعہ کے مشمولات میں ترکیب اورالفاظ کی سادگی اورروانی میں کوئی درشتی نہیں، یعنی ہر شعرایک واضح کرن اورشعاع ہے جومقصدکی طرف نگاہ و دل کوپہنچادیتی ہے، یہ حیرتؔ صاحب کی پختہ کاری اورفکری روانی کی ایک اچھی مثال کہی جائے گی، بہت سے شعراء نے تعلیم دین کے لئے اپنے کلام میں گراں قدر نمونے پیش کئے ہیں لیکن ترکیب اوراستعارات وکنایات میں سادہ لوح قارئین کوالجھن میں ڈال دیاہے، لیکن یہ مجموعہ جو’’شعاع حرم‘‘ کے نام سے زیرتبصرہ ہے اپنے طرزبیان اورمعانی کے اعتبارسے ایساہے کہ ناخواندہ شخص بھی اس روحانی پیغام کوسن کرجھوم اٹھے گا اوراس کے مواد پراس کا دل محوہوجائے گا۔
اس مجموعہ میں توحید پرنظموں کے گرانقدر اورروح افزاء صفحات ہیں جن سے الوہیت ،ربوبیت کی تلقین قرآنی آیات کی روشنی میں ہوتی ہے اورزندگی کے خاردارصحراء میں گزرتے ہوئے اس طرزبیان کے ذریعہ ہرمومن بے خوف وخطراپنی منزل مراد حاصل کرسکے گا اورپھررسالت جس کی شہادت مومن کے لئے لازم ہے اس پرمعنی خیز اشعارسے اس طرح آراستہ کیاہے کہ شہادتین کا لفظ اپنی معنویت ظاہر کررہا ہے ،حمد ونعت کے علاوہ بہت سے اعمال صالحہ جن کی تلقین کتاب وسنت میں درج ہے ان پرالگ الگ عنوان سے متفرق اشعاردرج ہیں، یہ متفرقات درحقیقت ایک یادوشعرپرمشتمل ہیں مگر معنویت کے اعتبارسے بہت وسیع ہے ایسے ہی جیسے کسی باغ میں کوئی ایک پھول ہواوروہ اپنی خوشبو سے پورے خیاباں کو معمور کردیتا ہے بعض مفرداشعار توموقع اورمحل کی مناسبت سے ضرب المثل کے طورپر پیش کیاجاسکتاہے۔
حیرتؔ بستوی صاحب اپنی حیات کی آٹھویں دہائی میں پہنچ چکے ہیں جوخاکسار مجازؔ اعظمی سے دوسال کم ہے لیکن الحمدللہ ابھی وہ تحریروتقریر میں رواں دواں ہیں اورراقم الحروف اپنی کیفیت اوربے کسی اورکمزوری صرف دوشعرمیں عرض گزار ہے
خالی متاع زیست سے جب ظرف ہوگیا
تحلیل آہِ سردمیں ہرحرف ہوگیا
اب گرمئ حیات کا کیا خواب دیکھنا
جودل کہ پہلے دل تھا وہی برف ہوگیا
یہ آخر سطرمحترم حیرتؔ بستوی صاحب کی خدمت میں پیش کرتے ہوئے ان کے مجموعۂ کلام پردلی مبارک بادبہ خلوص دل پیش کررہاہوں ،اللہ آپ کے اس ادبی اورروحانی کارنامے کوباقیات صالحات میں شامل کرے اورباسعادت انسانوں کواس شعاع سے منورکرے۔(آمین)

***

حضرت ابن عمررضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا تم میں سے کوئی شخص یہ نہ کرے کہ کسی آدمی کو اس کی مجلس سے اٹھاکر پھرخود اس پربیٹھ جائے ،لیکن تم مجلس میں فراخی اور گنجائش پیداکرو اورحضرت ابن عمررضی اللہ عنہما کامعمول تھا کہ جب کوئی آدمی آپ رضی اللہ عنہ کی خاطرمجلس سے اٹھ کھڑا ہوتاتوآپ رضی اللہ عنہ اس جگہ نہ بیٹھتے۔(بخاری ومسلم)

No comments:

Post a Comment