Monday, April 4, 2011

jan.feb-2011مولانا عبدالکریم ندوی کاانتقال پُرملال

وفیات


مولانا عبدالکریم ندوی کاانتقال پُرملال

علمی اوردینی حلقوں میں یہ خبردکھ کے ساتھ پڑھی جائے گی کہ دارالعلوم ششہنیاں(سدھارتھ نگر) کے سابق پرنسپل اورمعروف مدرس مولانا عبدالکریم ندوی رحمہ اللہ ایک طویل علالت کے بعد۳۱؍جنوری ۲۰۱۱ء ؁ کواپنے وطن ششہنیاں میں انتقال کرگئے، انا للہ واناالیہ راجعون۔
مولاناعبدالکریم ندوی ایک مستندعالم دین،کہنہ مشق مدرس اورمعاملہ فہم منتظم تھے، زندگی کا بیشتر حصہ تعلیم وتدریس میں گذارا،بالخصوص آپ اپنی جوانی کے قیمتی ایام دارالعلوم ششہنیاں کی تعمیروترقی میں صرف کئے اوردوتین مراحل میں ایک لمباوقت دارالعلوم کے صدرالمدرسین کی حیثیت سے گذارا، اورکافی دنوں تک مفکرملت مولاناعبدالجلیل رحمانی رحمہ اللہ بانی دارالعلوم کے دست وبازو بن کران کے معاون اورمعتمدخاص رہے، اس دوران جب مولانارحمانی نے دارالعلوم ششہنیاں سے ایک علمی وفکری رسالہ’’مصباح‘‘ کااجراء کیا توموصوف نے نائب ایڈیٹر کی حیثیت سے تدریس وانتظام کے ساتھ ماہنامہ کی ترتیب وتصحیح کی اضافی ذمہ داری بھی نبھائی اوراس میں مضامین لکھتے رہے، ’’مصباح‘‘ بعض اسباب سے بہت دیرتک جاری نہ رہا مگر وہ اس زمانہ میں جماعت کے موقرعلمی مجلات میں شمار ہوتاتھا اوراس کے مستقل مضمون نگاران میں مولاناعبدالجلیل رحمانی رحمہ اللہ کے علاوہ مولاناعطاء اللہ حنیف بھوجیانی، مولانامحمداسماعیل سلفی، شیخ الحدیث علامہ عبیداللہ رحمانی مبارکپوری، مولانا عبدالجبار کھنڈیلوی ،مولاناعبدالجلیل سامرودی اورخطیب الاسلام علامہ عبدالرؤف رحمانی جھنڈانگری رحمہم اللہ جیسے افاضل علماء کرام کے اسماء گرامی شامل ہیں۔
ایک اندازہ کے مطابق مولاناندوی ۳۰۔۱۹۲۹ء میں ششہنیاں میں پیداہوئے، اس وقت گاؤں میں مدرسہ قائم نہ ہواتھا، ابتدائی تعلیم گورامدرسہ میں حاصل کی پھر مفکراسلام مولاناعبدالجلیل رحمہ اللہ کے ایماء پردارالحدیث رحمانیہ دہلی کارخ کیا، ابھی چندہی سال وہاں کے علمی وروحانی ماحول سے مستفید ہوئے تھے کہ تقسیم ہند کا سانحہ پیش آیا، دہلی اجڑگئی، اورساتھ ہی رحمانیہ بندہوگیا اوراس کے بانیان ومنتظمین ترک وطن کرکے سرحد پارچلے گئے، مولانا ندوی نے اس کے بعد اپنی تعلیم دارالعلوم ندوۃ العلماء میں مکمل کیا اور۵۰۔۱۹۴۹ء ؁ میں ندوہ سے فارغ ہوئے،مولاناندوی کے رفقاء درس میں استادمحترم مولانا عزیز احمد ندوی رحمہ اللہ سابق پرنسپل جامعہ رحمانیہ بنارس بھی تھے۔
ویسے موصوف نے دارالعلوم ششہنیاں کے علاوہ، تلکہنا ،دارالہدیٰ یوسف پور اوربانسی وغیرہ میں تدریسی فرائض انجام دئے ہیں، نیز عمر کے آخری مرحلہ میں چندبرس مدرسہ خدیجۃ الکبریٰ کرشنانگر سے وابستہ رہ کربچیوں کوفیضیاب فرمایا ،ان دنوں راقم بھی مذکورہ مدرسہ سے وابستہ تھا اورمرکز التوحید سے شائع ہونے والے مجلہ ’’نورتوحید‘‘ کی ادارت کے فرائض انجام دے رہا تھا، اس مدت میں مجھے مولانا کوقریب سے دیکھنے اورآپ کی گوناں گوں صلاحیتوں سے واقف ہونے کا موقعہ ملا، مدرسہ خدیجۃ الکبریٰ میں تدریس کے دوران فرمائش کرنے پرآپ نے بعض اہم مضامین بھی قلم بند فرمائے اورکچھ عربی مقالات کے ترجمے بھی کئے جوماہنامہ ’’نورتوحید‘‘ میں شائع ہوئے۔
جسمانی طورپر مولانا بڑے نحیف ونزارتھے، گیس اوربلڈپریشر کے مریض تھے، اس لئے تقریبا بیس برسوں سے گھرہی پرمقیم تھے، گذشتہ۹؍سال قبل آپ پر اچانک فالج کا حملہ ہوا اوراس کے بعدمستقل صاحب فراش ہوگئے، اس طویل علالت میں آپ کی اہلیہ، اولاد واحفاد اوراہل خانہ نے خدمت کاحق اداکیا اورآپ کی تمام ضروریات کاخیال رکھا خصوصا نظافت اورصفائی ستھرائی کاحددرجہ اہتمام کیا، اللہ تعالیٰ ان سب کو جزائے خیردے۔(آمین)
مولانا کی وفات سے چندروزقبل برادرم مولانامطیع اللہ مدنی استاد مدرسہ خدیجۃ الکبریٰ کے جواں سال صاحبزادے حافظ فوزان احمدرحمہ اللہ کے جنازہ میں شرکت کے بعدراقم نے مولاناکی عیادت کی سعادت حاصل کی،باوجودکہ حافظہ جواب دے رہا تھا بتانے پر پہچانا، سلام کاجواب دیا اور جزاک اللہ کہا۔
اللہ تعالیٰ مولاناندوی کی خدمات کو قبول فرمائے، ان کے درجات بلند کرے اور آپ کی بشری لغزشوں اورخطاؤں سے درگذرفرماتے ہوئے آپ کوجنت الفردوس میں جگہ دے، اللھم اغفرلہ وأرحمہ وعافہ وأعف عنہ۔
قارئین سے مولانا کی نمازجنازہ غائبانہ اوردعاء مغفرت کی درخواست ہے۔

(عبد المنان سلفیؔ )

مولانا مطیع اللہ مدنی  کو جواں سال بیٹے کے انتقال کاصدمہ

علمی وجماعتی حلقوں میں یہ اندوہناک خبرنہایت ہی رنج وغم کے ساتھ پڑھی جائے گی کہ جماعت کے معروف عالم دین اورماہنامہ ’’نورتوحید‘‘کے ایڈیٹر جناب مولانا مطیع اللہ مدنیؔ ؍حفظہ اللہ کے فرزند ارجمند عزیزم حافظ فوزان احمدسنابلی دل کا دورہ پڑنے سے۲۷؍جنوری۲۰۱۱ء ؁ بروزجمعرات تقریباً نوبجے صبح اچانک انتقال کرگئے، انا للہ واناالیہ راجعون۔
عزیزم فوزان رحمہ اللہ کی ولادت ۱۹۸۸ء ؁ میں ہوئی ،ولادت سے لے کرعنفوان شباب کی دہلیز پر قدم رکھنے تک مولانا موصوف نے ایک مثالی باپ کاکردار نبھایااوراپنے اس لاڈلے کے ذہن ودماغ کواسلامی سانچے میں ڈھالنے کی کامیاب کوشش کی ،اسی جذبہ صادقہ کی تکمیل کی خاطر اپنے اس جگرگوشہ کودینی تعلیم کے حصول میں لگایااوراپنے گاؤں ششہنیاں کے مکتب کی تعلیم کے بعد حفظ قرآن کریم کے لئے جامعۃ التوحید بجوا، نیپال میں داخل کیا، وہیں پر انھوں نے حفظ کی تکمیل کی،اس کے بعد جامعہ اسلامیہ سنابل میں داخلہ دلوایا،جہاں پر آٹھ سال گذارکرآنعزیز نے متوسطہ سے فضیلت تک کی تعلیم مکمل کی اورہمیشہ امتیازی نمبرات سے کامیاب ہوتے رہے اور پچھلے سال وہیں سے فراغت حاصل کی۔
سال رواں ۲۰۱۱ء ؁ کے آغاز میں مہبط وحی مکہ مکرمہ میں سعودی وزارت اوقاف و اسلامی امورکے زیراہتمام منعقدہونے والے۹؍روزہ عالمی مقابلہ حفظ و قرأۃ وتفسیر قرآن کریم میں شرکت کی اورزیارت حرمین شریفین کی سعادت سے سرفراز ہوکر۱۰؍جنوری ۲۰۱۱ء ؁ کو وطن واپس آئے، اس سفر کے دوران عالم اسلام کی معروف یونیورسٹی جامعہ اسلامیہ مدینہ طیبہ بھی گئے اوروہاں داخلہ کے لئے انٹرویو بھی دیا ،مگر اللہ کی مشیت کچھ اور تھی جس کا عینی مشاہدہ لوگوں نے کیا سچ اورحقیقت ہے (وماتشاء ون إلا أن یشاء اللہ)
مورخہ۲۶؍جنوری ۲۰۱۱ء ؁ کوموضع دودھونیاں بزرگ(سدھارتھ نگر) میں واقع نسواں مدرسہ ’’فاطمہ الزہراء ‘‘میں فریضہ تدریس انجام دینے کی بات طے ہوئی تھی اس لئے ۲۷؍جنوری کی صبح باپ بیٹے آگے پیچھے گھرسے نکلے، ان کے والد گرامی اپنے مقرعمل مدرسہ خدیجۃ الکبریٰ(کرشنا نگر) پہونچ کر معمول کے مطابق اپنی گھنٹیاں پڑھانے لگے اور آں عزیزرحمہ اللہ بھی مدرسہ فاطمہ الزہراء پہونچ کر پڑھانے کی تیاری اوربعض زیردرس کتابوں کامطالعہ کررہے تھے کہ یکایک سینے میں دردکااحساس ہوااورآہستہ آہستہ طبیعت بگڑنے لگی، مدرسہ کے موجودذمہ داروں اوراساتذہ نے اپنی پوری ذمہ داری نبھائی اورفوراً علاج کے لئے بڑھنی بلاک لے کر آئے لیکن ڈاکٹر کے پاس پہنچنے سے پہلے ہی راستے میں ان کی روح قفس عنصری سے پروازکرچکی تھی۔
عزیزم کی دلفگارموت نے سب کے قلوب واذہان کو جھنجھوڑکررکھ دیا، جس نے جہاں سناوہ ہکابکارہ گیا اورہر ایک کی زبان پر یہی شعر تھا ؂
یہ پھول اپنی لطافت کی داد پانہ سکا
کھِلا ضرور، مگرکھِل کے مسکرا نہ سکا

چونکہ مولاناموصوف کی نرینہ اولاد میں یہ سب سے بڑے تھے،خلیق وملنسار اور باوقارہونے کے ساتھ ساتھ باپ کے خوابوں اورمستقبل کے عزائم کو عملی جامہ پہنانے اور ان کے علم کے حقیقی وارث بھی تھے اس لئے مولانا مدنی کو بہ نسبت اورلڑکوں کے ان سے کچھ زیادہ ہی انس تھا ، اسی بے پناہ محبت کا اثرتھاکہ جب آپ نے اپنے لخت جگر کے ناگہانی انتقال کی خبراچانک سنی توبے قابوہوگئے،رنج وغم اور دردوکرب کا ایسا ہوش ربا منظرتھاکہ وہاں موجود بعض حضرات مولانا کے تعلق ہی سے خوفزدہ ہوگئے،مگر کچھ دیر بعد آپ نے خود کو قابومیں کیا اوربہت سارے غمخواروں کو دیکھ کر قدرے تسلی ہوئی توصرف ایک ہی لفظ باربار دہراتے رہے’’ اے اللہ!تیرا فیصلہ مجھے منظورہے میرے بیٹے کی مغفرت فرما‘‘ ۔
بڑھنی وکرشنانگرکے مقامی ہمدردوں کے علاوہ مدرسہ خدیجۃ الکبریٰ کے رئیس محترم شیخ عبداللہ مدنی؍حفظہ اللہ اوران کے ’’مرکزالتوحید‘‘سے وابستہ تمام ذمہ داران،کارکنان، معلمین ومعلمات نیز ہمارے جامعہ سراج العلوم السلفیہ کے جملہ مشائخ کرام ان کے اس غم میں برابرکے شریک رہے، بذریعہ ایمبولینس آں عزیز کا جسدخاکی ان کے آبائی وطن موضع ششہنیاں (سدھارتھ نگر)لے جایا گیا اوربعدنماز عصرتقریبا ۴؍بجے ڈاکٹرشیخ عبدالقیوم محمدشفیع بستوی حفظہ اللہ کی امامت میں قرب وجوار کے عوام وخواص، جمعیت وجماعت کے مقتدرحضرات، دینی مدارس ومراکز کے ذمہ داران اورعلاقہ کے مسلم سیاسی لیڈران کی ایک بڑی تعداد نے نمازجنازہ اداکی اورہزاروں سوگواروں نے باچشم نم سپردخاک کیا۔
بارالٰہا! ان کی تمام بشری لغزشوں کوصرف نظر فرماتے ہوئے ان کے تمام حسنات کوشرف قبولیت بخشے اورتمام پسماندگان خصوصاً والدین محترمین کو صبرجمیل کی توفیق دے۔(آمین)

No comments:

Post a Comment