Wednesday, April 13, 2011

Jan.feb-2011-شعریات اقبال کے ارتقائی مراحل

ادبیات
راشد حسن فضل حق مبارکپوری
متعلم جامعہ سلفیہ،بنارس
شعریات اقبال کے ارتقائی مراحل

حیات اقبال

قرآن کریم نے شاعرکی حیثیت وحقیقت پرقَلَّ مادل کے مصداق نہایت جامع تجزیہ کیاہے، اس کی وجہ یہ تھی کہ مخالفین آپ  کو شاعر اورمجنوں کہاکرتے تھے، وہ کیوں نہ کہتے کہ قرآن میں شاعری کی اعلیٰ ترین خوبیاں بدرجۂ کمال موجود تھیں، کنائے، استعارے، تشبیہیں، محاورات وتعبیرات، مسجع ومقفیٰ عبارتیں، دل نشیں اسلوب، دلکش انداز بیان سے اس کی آیتیں آراستہ وپیراستہ تھیں، قرآن مجید نے شعر وشاعری پر تنقید کی، لیکن اچھے شاعروں کی مدح سرائی بھی کی ہے، جوایمان ،عمل صالح کے پیکر اورذکر کثیر کرنے والے ہوں، جوشاہیں مزاج اورمومنانہ جذبات سے متصف ہوں، نبی شاعرتونہیں تھے، مگراچھے اشعارکے قدرداں ضرورتھے، شاعررسول حضرت حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ، امام شافعی رحمہ اللہ، حافظ ابن حجر کے الگ الگ دواوین ہماری بات کو مزید پختہ کررہے ہیں، امرؤ القیس پراللہ کے رسول  کی تنقید ’’اشعرالشعراء وقائدھم إلی النار‘‘کامطلب یہ تھاکہ شاعری کی تمام خوبیوں کے باوصف ایک شاعرایمان وعمل سے عاری بھی ہوسکتا ہے، اس قسم کے شعراء بے شمار ولاتعداد ہیں، لیکن قرآن کی میزان پرکھرے اترنے والے شعراء کو انگلیوں پرگناجاسکتا ہے، عطار ، رومی ، حالی ، سعدی ، اوراقبال بقیہ بیشتر شعراء کامعیار وہی ہے ،جس پہ قرآن نے نکیر کی ہے۔
اقبال کے افکار ونظریات کے تنوع وبوقلمونی کی کوئی حدنہیں، اس بحرذخّار کو ایک کوزے میں بند کرنا نہایت مشکل کام ہے، اب ہم مختصراً ’’حیات اقبال‘‘ پرروشنی ڈالیں گے، تاکہ فنکارکی زندگی سامنے ہو، اورافکار سمجھنے میں مددملے۔
*سرزمین کشمیر کا سرہمیشہ فخرسے اونچارہے گا،کہ اس نے فطری مناظر کے برگ وبارکی پرداخت کے ساتھ ایک ایسے برہمن خانوادے کو اپنی آغوش شفقت میں پالا ہے، جس کی شاخوں سے ایسا گل نمودار ہوا، جس نے دبستان علم وفن کواپنی خوشبو سے معطر اوراپنی وسعت فکر ونظرسے مردہ دلوں میں زندگی کی روح پھونک دی، جس سے آگے چل کر دنیا شاعر مشرق علامہ ڈاکٹر سرمحمد اقبال کے نام سے آشنا ہوئی، اقبال کو اپنی برہمن زادگی پرفخر نہیں تھا، بلکہ جوکچھ ان کوورثے میں ملاتھا، اس پرفخر تھا(۱)چنانچہ پطرس بخاری کو مخاطب کرتے ہوئے کہاتھا(۲)
میں اصل کاخاص سومناتی آبامیرے لاتی ومناتی
توسیدھا ہاشمی کی اولاد میرے کفِ خاک برہمن زاد
ہے فلسفہ میرے آب وگل میں پوشیدہ ہے ریشہ ہائے دل میں
کشمیر ہی میں برہمن خانوادے کا ایک خوش بخت شخص ۱۵ویں صدی میں مشرف بہ اسلام ہوا، جس کی اولاد میں ایک فردمحمد رفیق نامی تھا، جسے اقبال کا جدامجد ہونے کا شرف حاصل ہے، بعض نامساعد حالات نے ترک وطن پر مجبور کیا، چنانچہ’’سیالکوٹ‘‘کا بودوباش کے لئے انتخاب ہوا، ڈاکٹراقبال کے والد شیخ نورمحمد بہت زیادہ اللہ والے، نیک طبیعت، صالحیت پسند اورتقویٰ شعارتھے، مذہبی دیانتداری، واخلاقی پاکیزگی کے سبب قدرکی نگاہ سے دیکھے جاتے تھے، تصوف کا خمیران کے رگ وپے میں پیوست کرگیاتھا، چنانچہ اقبال جاوید کو مخاطب کرتے ہوئے اسی کی طرف اشارہ کرتے ہیں
غارت گرد یں ہے یہ زمانہ ہے اس کی نہاد کا فرانہ
جس گھرکا مگرچراغ ہے تو ہے اس کا مذاق عارفانہ (۳)
ڈاکٹر صاحب کے والد شیخ نورمحمد کے دل میں اسلام سے کس درجہ محبت تھی، اس کا اندازہ ایک اقتباس سے ہوتاہے، مولانا عبدالسلام ندویؔ نے اقبال کی زبانی ایک واقعہ نقل کیاہے:
’’جب میں سیالکوٹ میں پڑھتا تھا، توصبح اٹھ کر روزآنہ قرآن پاک کی تلاوت کرتا تھا، والد محترم اپنے اورادووظائف سے فرصت پاکر آتے، اورمجھے دیکھ کر گذرجاتے، ایک دن صبح کو میرے پاس سے گذرے، توفرمایا کبھی فرصت ملی تو تم کو ایک بات بتاؤ ں گا، بالآخر انھوں نے ایک مدت کے بعد یہ بات بتائی، اورایک دن صبح جب میں حسب دستور قرآن کی تلاوت کررہاتھا، تووہ میرے پاس آئے، اورفرمایا: بیٹا!کہنایہ تھاکہ جب تم قرآن پڑھو تویہ سمجھ کر پڑھو کہ یہ قرآن تم ہی پراتراہے، یعنی اللہ تعالیٰ خود تم سے ہم کلام ہے، (۴)اسی پس منظر کاایک شعر واقعہ کی یاد دلاتا ہے
تیرے ضمیر پہ جب تک نہ ہونزول کتاب
گرہ کشاہے نہ رازی نہ صاحب کشاف
آپ کی والدہ بھی پاکیزہ طبیعت،عبادت گذار خاتون تھیں، ڈاکٹر صاحب کی تربیت میں بڑانمایاں کرداررہا ہے، اقبال نے بھی اپنی والدہ کے غم میں بڑافکر انگیز ودردوکرب سے لبریز مزید برآں ان کی خوبیوں کے تذکرے کے ساتھ ایک طویل مرثیہ لکھاہے،چنانچہ تربیت اوران کی نیکی کی طرف اشارہ ہے
تربیت سے تیری میں انجم کا ہم قسمت ہوا گھرمیرے اجداد کا سرمایۂ عزت ہوا
دفترہستی میں تھی زرّیں ورق تیری حیات تھی سراپا دین ودنیا کا سبق تیری حیات
آخرمیں اپنی دعاؤں سے مرثیہ کااختتام کرتے ہیں
مثل ایوان سحر مرقد فروزاں ہوتیرا نورسے معمور یہ خاکی شبستاں ہوتیرا
آسماں تیری لحد پہ شبنم افشانی کرے سبزۂ نورستہ اس گھرکی نگہبانی کرے (۵)
اقبال کے آباء انیسویں صدی کے آغاز میں سیالکوٹ آئے، اقبال کے جدامجد محمدرفیق سیالکوٹ کے محلہ کھٹیکاں کے ایک مکان میں فروکش ہوئے، یہ وہ دور تھا، جب کہ راجہ رنجیت سنگھ نے سیالکوٹ پر(۱۸۰۷ء) حملہ کرکے قبضہ جمالیاتھا، اقبال بن نورمحمد بن محمد رفیق بن جمال الدین سیالکوٹ کی سرزمین پر۳ذی قعدہ ۱۲۹۴ھ  مطابق ۹نومبر ۱۸۷۷ء  میں پیداہوئے۔ (۶)
اقبال کو اوج کمال تک پہونچانے میں گھرکے ماحول نے غیرمعمولی کردار اداکیا، اس کے علاوہ آغاز ہی میں آپ کو ایک باصلاحیت ،زبان وادب سے روشناس اوراس کا عمدہ مذاق رکھنے والا استاد ملا، اوراس نے اقبال پر زبان و ادب کاگہرا نقش چھوڑا، فکرونظر کوجلاملی، مولوی سید حسن سے پہلے مولوی غلام حسین سے ابتدائی تعلیم کا سفرشروع ہواتھا، لیکن مولوی میرحسن سے والد کے دیرینہ تعلقات کی بناپر مکتب کے استاد مولوی میرحسن قرارپائے، مولوی میرحسن اس زمانہ میں زبان وادب،اسلامیات وتصوف کے جیدعالم مانے جاتے تھے، ان کوعربی،فارسی، اردوکے بیش بہااوربے شمار اشعارلب زبان رہتے تھے، وہ عام مذہبی علماء کی طرح خشک مزاج نہ تھے، بلکہ خوش اخلاقی، وسعت قلب ونظر، علم میں گیرائی، میدانِ تدریس میں مہارت کے ساتھ خلوص ووفاء علم وعمل میں یکسانیت ان کی نمایاں اوراہم خوبیاں تھیں، ان کے پاس جوبھی طالب علم جاتا، اس کے اندربھی وہی جو ہرپیدا کرنے کی کوشش کرتے، زبان وادب سے لگاؤ اوردلچسپی کے ساتھ مضمون کی قدرومنزلت دل میں بٹھادیتے، ادب کا عمدہ مذاق طالب علم کے ذہن پرچھوڑجاتے، اس کافائدہ یہ ہوتا کہ طالب علم کے دل میں بھی اس فن کا احترام اورسیکھنے کا صحیح جذبہ پیدا ہوجاتا، زہے نصیب اقبال کی تربیت کا سامان بھی عینی طورسے انھیں بزرگوار کے ہاتھوں ہوا، جس کا اثرزندگی بھررہا، انھوں نے اقبال کے اندراسلامیات سے ایسا گہرا عشق پیداکردیاتھا، کہ وہ آخری عمر تک پختہ ترہوتا چلاگیا، اور تاعمر یہ استاد وشاگردی کاپرخلوص تعلق قائم رہا، اقبال میں نہایت والہانہ انداز میں بڑی عقیدت ومحبت کے ساتھ احسان شناسی کے پھول اپنے استاد پر نچھاور کرتے ہیں
وہ شمع بارگہہ خاندان مرتضوی رہے گامثل حرم جس کا آستان مجھ کو
نفس سے جس کے کھلی میری آرزوکی کلی بنایا جس کی مروت نے نکتہ داں مجھ کو
دعایہ ہے کہ خداوندآسماں وزمیں کرے پھراس کی زیارت سے شادماں مجھ کو(۷)
*مولوی میرحسن کے پاس اقبال تعلیم حاصل کرتے رہے، پھرلائق استاد کی تحریک پرہوشمند باپ نے اپنے فرزندارجمند کو ’’اسکاچ مشن ہائی اسکول‘‘ میں داخلہ کرادیا، کچھ دنوں بعدخود استاد محترم کی اس میں تقرری ہوگئی۔
اسکول سے منسلک ہونے کے بعدبھی مشفق استاد سے دینی تعلیم میں تبحرپیدا کرتے رہے، استاد سے شرفِ تلمذ میں یہاں بھی کوئی چیز آڑ نہ بنی، شاگردنے آداب شاگردی کا ایسا غیرمعمولی لحاظ اوراستاد نے خلوص تدریس کا ایسا بے لوث حق اداکیا، کہ انھیں دونوں کی مرکب ساخت کوبعدکی دنیا نے اقبال سے علامہ اورشاعرمشرق اورحکیم اورفلسفی جانا، اوریہی دراصل اقبال کی زیست کی خشت اول تھی، اوریہ ایسی مضبوط اورٹھوس اساس تھی، کہ بڑے بڑے مہیب طوفان بھی اقبال کے پائے ثبات میں ارتعاش توکجاجنبش تک پیداکرنے میں ناکام رہے، بلکہ ایسے وقت میں اقبال کے پایۂ استقلال دوچند ہوجاتا تھا، مغرب میں جانے کے بعداقبال وہاں کی پیرکیف فضاؤں میں بدمست نہیں ہوگئے، بلکہ اس کے خلاف نفرت وعداوت اورایمانی جوش وجذبہ تلاطم خیز طوفان کی طرح ان کے دل میں موجزن ہوگیا، یہ نتیجہ تھا اسی خشت اول کا کہ تاثیریا بھی اس میں کجی کے آثار نظرنہیں آئے، یہ پھل تھا کتاب وسنت کے اس شجرکا جس کی تخم ریزی ،آب پاشی اورپھر خوشہ چینی، بچپن میں ان کے والد نے نہایت عرق ریزی وجانفشانی سے کی تھی، یہی وجہ ہے کہ جب بلندیوں نے اقبال کو ’’سر‘‘ کے خطاب کے ذریعہ استقبال کرناچاہا، تواس شرط پرقبول کیا، کہ ہمارے استاد کوبھی شمس العلماء کا لقب دیاجائے، انگریز کے اس سوال پر کہ ان کی کوئی کتاب ہے، ؟ اقبال کاجواب تھا، کہ میں خود ان کی چلتی پھرتی کتاب ہوں، چنانچہ اقبال نے بچپن میں جس طرح عزت دی تھی، اسی طرح علامہ بننے کے بعد کمال عظمت میں پہلے ان کے سرپر شمس العلماء کاتاج رکھا، پھرسرکا لقب قبول کیا ؂
مجھے اقبال اس سیدکے گھرسے فیض پہونچاہے
پلے جو اس کے دامن میں وہی کچھ بن کے نکلے ہیں
اقبال ۱۸۸۷ء  میں پرائمری ۱۸۹۰ء  میں مڈل اور۱۸۹۲ء  میں میٹرک کے امتحان میں امتیازی نمبرات سے کامیاب ہوئے،اس نمایاں کامیابی کی وجہ سے انھیں وظیفہ کاحقدار قراردیا، اقبال ابھی اسی اسکول میں تھے، کہ وہ ’’اسکاچ مشن‘‘ اسکول سے بدل کرکالج ہوگیا، چنانچہ اقبال نے وہیں سےF.A. کی تعلیم مکمل کی، چونکہ اس اسکول میں آگے کے مراحل تعلیم کا نظم نہیں تھا، اس لئے اقبال ۱۸۹۵ء ؁ میں لاہور پہنچ کر B.A.میں داخلہ لیا، اور۱۸۹۷ء  میں شاندار،نمایاں کامیابی کے بعد وظیفہ ’’اسکالرشپ‘‘ کے مستحق قرارپائے، چونکہ آپ عربی انگریزی دونوں زبانوں میں اول نمبر سے کامیاب ہوئے تھے، اس لئے آپ کو طلائی تمغوں سے نوازاگیا، جس زمانے میں اقبال لاہورگورنمنٹ کالج میں داخل ہوئے تھے، اسی زمانہ میں پروفیسر آرنلڈ جو اس سے قبل علی گڈھ یونیورسٹی میں تھے، توعلامہ شبلی رحمہ اللہ نے ان سے مغربی علوم سیکھا، اورانھوں نے شبلی رحمہ اللہ سے اسلامیات پڑھی، اس لئے ان میں اسلامیات کا عمدہ ذوق پیداہوگیاتھاوہاں سے سبکدوش ہوکر لاہورمیں فلسفہ کے پروفیسر ہوگئے، اقبال کا اختیاری مضمون چونکہ فلسفہ تھا، اس لئے انھیں آرنلڈ جواعلیٰ درجے کا فلسفی تھا، فائدہ اٹھانے کا سنہری موقع ہاتھ آیا، اقبال نے بھی اس کا حق اداکردیا، اوران کی صحبت نے فلسفہ میں گہرائی وگیرائی اوراس کا صحیح ذوق پیداکردیا۔
پروفیسر آرنلڈ اوراقبال دونوں سلجھی ہوئی طبیعت کے مالک تھے، اورفلسفی استاد نے جلدہی اقبال کی قابلیت کا اندازہ کرلیا، اوراس کند تلوار کوصیقل کرنے اوراس نادرگوہرکو لائق بنانے میں غیرمعمولی محنت صرف کی، چنانچہ پروفیسر اکثرہم نشینوں میں اقبال کی تعریف یوں کیاکرتے تھے۔
’’ایسا شاگرد استاد کو محقق اورمحقق کومحقق تربنادیتاہے‘‘(۸)
اس تعلیم وتربیت کا حاصل یہ ہوا کہ اقبال تعلیم کی تکمیل کے فوراً بعد ہی اورنیٹیل کالج لاہورمیں فلسفہ تاریخ وسیاست کے لکچرار منتخب ہوگئے۔
* بلندیوں کے اس مقام تک پہونچنے میں جہاں اقبال کے گھرکی پاکیزہ تربیت، ماں باپ کی غایت درجہ کو شش رہی ہے، وہیں اقبال کے بنانے میں مولوی میرحسن کابھی غیر معمولی کرداررہا ہے، اوراس میں اقبال کی اپنی ذہانت وخوش خلقی بھی ساتھ رہی، اورپھراوپر سے ایک ماہرفلسفہ’’پروفیسر آرنلڈ‘‘ کی کوششوں کابھی انکارنہیں کیاجاسکتا، اس معاملے میں اقبال بھی حساس واقع ہوئے ہیں، قدردانی میں کوئی دقیقہ فروگذاشت نہیں اٹھاتے، چنانچہ جب پروفیسر آرنلڈ ۱۹۰۴ء ؁ میں ولایت چلے گئے، تواقبال نے بڑی کرب انگیز نظم لکھی، مطلع میں کہتے ہیں ؂
جابسا مغرب میں آخراے مکاں تیرا مکیں آہ مشرق کی پسندآئی نہ اس کو سرزمیں
آگیا آج اس صداقت کامیرے دل کویقیں ظلمت شب سے ضیائے روزفرقت کم نہیں
پھرآگے ان کے علم کی وسعت وہمہ جہتی کی طرف اشارہ کرتے ہیں ؂
توکہاں ہے اے کلیم ذِروۂ سینا ء علم
تھی تیری موجِ نفس بادِ نشاط افزائے علم
اب کہاں وہ شوقِ رہ پیمائی صحرائے علم
تیرے دم سے تھا ہمارے سرمیں بھی سودائے علم
اب اقبال بے قابو ہوجاتے ہیں، اوران کے پاس جانے کا عزم کرلیتے ہیں ؂
کھول دے گا دستِ وحشت عقدۂ تقدیر کو
توڑکر پہونچوں گا میں پنجاب کی زنجیر کو (جاری)

***
حوالے وحواشی:۔


(۱)بعض لوگو ں کویہ مغالطہ ہوگیا ہے کہ اقبال کو برہمن زادگی پرفخرتھا، ایسانہیں ہے انہیں اس کافخرنہیں تھا، بلکہ جو ورثے میں ملاتھا، اس کا فخرتھا، کیونکہ ۴۰۰سال قبل ان کے جداعلیٰ ایمان لائے تھے اورپھر متروکہ اعتقاد کی کوئی اہمیت نہیں، اس لئے اقبال کو اپنے اسلاف کے برہمن ہونے پر کیافخرہوسکتاہے۔(تفصیل کے لئے دیکھئے: زندہ رودجاوید اقبال ص:۳۵اقبال اکادمی پاکستان)،(۲) پطرس بخاری اقبال کے زمانے میں آل انڈیا ریڈیو کے ڈائرکٹرتھے، فلسفہ پراقبال کے ساتھ ان کی بحث ہوئی، چنانچہ اقبال نے طنزیہ لہجے میں دوسرے دن ۱۵اشعار کی یہ نظم سنائی، یہ نظم بعنوان’’ ایک فلسفہ زدہ سیدزادے کے نام‘‘(کلیات اقبال ضرب کلیم ص:۱۲)(۳) ضرب کلیم، جاوید اقبال سے خطاب،(۴) اقبال کاملمولاناعبدالسلام ندوی ص:۳،شبلی اکیڈمی اعظم گڈھ۔،(۵)بانگ درا؍والدۂ مرحومہ کی یادمیںص:۱۷۲، تا ۱۸۰،کلیات اقبال’’اردو‘‘مطبوع کتب خانہ حمیدیہ گڑھیا، اسٹریپ جامع مسجد دہلی۔،(۶)اقبال کی تاریخ پیدائش کا مسئلہ بڑامختلف فیہ رہا ہے، چنانچہ تحقیقات سامنے آئیں ہیں، مثلاً ۱۸۷۲ء ؁ ،۱۸۷۳ء ؁،۱۸۷۴ء ؁ ،۱۸۷۵ء ؁ ،۱۸۷۶ء  ،۱۸۷۷ء ؁ ،تک ذکر ہے،حکومت ہند نے ۱۸۷۳ء ؁ کی ولادت تسلیم کی ہے، اس کے بعدپاکستان حکومت نے نومبر ۱۸۷۷ء ؁ کوقبول کیاہے۔(اقبال کامل؍عبدالسلام ندوی؍۷۶، نقوش اقبال ؍ابوالحسن علی ندویؔ ،۱۸۷۷ء ؁ ،انسائیکلوپیڈیا آف بڑنیکا وغیرہ اس کے علاوہ ’’زندہ رود‘‘ میں حقیقی بحث کی گئی ہے، جس پر ہم نے اعتماد کیاہے۔،(۷)یہ نظم’’التجائے مسافر‘‘ کے نام سے ’’نظام الاولیاء‘‘کے دربارمیں سفرانگلستان کے وقت پڑھی ۱۹۰۵ء ؁ کازمانہ تھا۔(۸) ذکراقبال ؍عبدالمجید سالک ص:۱۷

No comments:

Post a Comment