Sunday, February 20, 2011

یہاں ہرگام پر دھوکہ بعنوان حقیقت ہے-Dec-2010

مولاناخورشیداحمدسلفی


یہاں ہرگام پر دھوکہ بعنوان حقیقت ہے

آج سے چاردہائی قبل مشرقی یوپی کے ایک اسلامی شاعرجناب فاروق بانس پاروی نے عصرحاضرکی سیاست پر تبصرہ کرتے ہوئے کہاتھا
رفیق کارآگے بڑھ یہ دنیائے سیاست ہے یہاں ہرگام پر دھوکہ بعنوان حقیقت ہے
آج سے تین دہائی قبل کی سیاست بساغنیمت تھی ،اس وقت سیاست سے وابستہ افراد اصول پسنداورخیالات ونظریات کے پرستارتھے، وہ اپنے نظریات کے فروغ اوران کی بالادستی کے لئے جدوجہد کرتے تھے اور اپنا تن من دھن سب کچھ اسی راستے میں صرف کردیتے تھے۔
ہندوستان میں مجاہدین آزادی کی تابناک تاریخ ہے ،مولانا ابوالکلام آزاد مولانامحمدعلی جوہر،مولاناحسرت موہانی ،مولانا محمدابراہیم میرسیالکوٹی،مولانا ثناء اللہ امرتسری،مولانامحمود الحسن دیوبندی، گاندھی جی، جواہرلعل نہرووغیرہ کے کارنامے اظہرمن الشمس ہیں آزادی کے بعدخالص اصول کی سیاست کرنے والو ں میں ڈاکٹر رام منوہرلوہیا، جے پرکاش نرائن، مرارجی ڈیسائی، راج نرائن اورایسے لیڈران گذرے ہیں جنھوں نے سرمایہ داری اورکمیونزم کے بالمقابل سماجواد کواپنا یا اوراس کی ترقی واستحکام کی لڑائی لڑتے رہے، ان لیڈران قوم نے عہدہ ومنصب اورمالی مفاد کی کبھی کوئی پرواہ نہیں کی اوراثرورسوخ کااستعمال کرکے کبھی بھی کوئی منفعت حاصل نہیں کی چہ جائیکہ دھوکہ دہی اورگھپلہ وگھوٹالہ میں ملوث ہوئے ہوں، ان کی شبیہ اچھی اورصاف ستھری تھی ان کے کردار اوراخلاق پرکوئی داغ ودھبہ نہیں تھا، فاروق بانس پاروی نے اس صاف ستھری سیاست پر مذکورہ بالاشعر کے ذریعہ ضرب لگائی تھی اب آج اکیسویں صدی میں وہ ہوتے توکیا کہتے اللہ ہی بہتر جانے۔
اس وقت پڑوسی ملک ہندوستان میں بدعنوانیوں اور گھپلوں کابڑا زوروشور ہے اوراتنے زیادہ گھپلے ہورہے ہیں کہ ان کوشمار نہیں کیاجاسکتا اورنہ ان تک رسائی اورصحیح معلومات ہی فراہم ہوسکتی ہے ،اس لئے کہ اہل سیاست، انتظامیہ مقنّنہ، عدلیہ کے اکثرافراد اس میں ملوث نظرآتے ہیں چنانچہ سپریم کورٹ کے ایک ریٹائرڈ جج کے ذریعہ خودسپریم کورٹ اورہائی کورٹ کے جج صاحبان کے تعلق سے جوتیکھے ریمارکس آئے ہیں وہ بیحد چونکادینے والے ہیں، بدعنوانیوں کا زلف لیلی کی طرح ایک سلسلہ دراز ہے جوختم ہونے کا نام نہیں لے رہاہے، اس وقت پورے ملک ہی نہیں پوری دنیامیں2جی اسپیکڑمگھوٹالہ کی گونج سنائی دے رہی ہے اوروہاں ایوان سیاست میں ایک بھونچال آگیا ہے یہ 2جی اسپیکڑم گھوٹالہ کیاہے؟ مرکزی وزیر مواصلات اے راجہ کے ذریعہ ٹیلی کام کمپنیوں کوٹھیکہ دہی کے معاملہ میں حکومت کو دھوکہ دہی اور سرکاری خزانہ کو نقصان پہونچانے کا معاملہ ہے، یہ گھوٹالہ ایک لاکھ پچہتر ہزار کروڑروپئے کا ہے، یہ اتنی بڑی رقم کامعاملہ ہے کہ اگرراست طورسے اس کو شمارکیاجائے توکم ازکم اردوہندی اورعربی میں تواس کے لئے گنتی ہی موجود نہیں ہے اورنہ کلکولیٹرمیں اس کو سمونے کی وسعت ہے ایسی بدعنوانیاں نامعلوم کتنی ہوئی ہوں گی جومنظرعام پر نہیں آئیں چوریاں تو کبھی کبھار پکڑی جاتی ہیں بدعنوانیاں سے توپردہ اکا دکا ہی اٹھ پاتا ہے بے ایمانیاں توبمشکل ہی طشت ازبام ہوپاتی ہیں، کیونکہ یہ سب کچھ کرنے والے بڑے شاطر اورعیار ہوتے ہیں چوطرفہ ناکہ بندی کردیتے ہیں ،اپنے کارناموں پر تہ درتہ پردہ ڈال دیتے ہیں کہ عام آدمی توعام رہا خواص تک بلکہ خصوصی ایجنسیوں کی رسائی وہاں تک قریب قریب ناممکن ہوتی ہے ۔
بہرحال 2 جی اسپیکڑم بدعنوانی کا معاملہ مشہور سماج وادی نیتا ڈاکٹر سبرامنیم سوامی کے ذریعہ کسی طرح منظرعام پر آیا، کافی دباؤ اورلے دے کے بعد اے راجہ تووزارت سے رخصت ہوگئے لیکن منموہن سرکار کوبڑی مشکلوں میں ڈال گئے اس گھوٹالہ کے ذریعہ اپوزیشن کو الگ ایشو مل گیا ،چنانچہ اپوزیشن کی سب سے بڑی جماعت بھارتیہ جنتاپارٹی تال ٹھونک کرمیدان میں اترپڑی دیگرپارٹیوں نے بھی اس کاساتھ دیا اورحدتویہ ہے کہ کمیونسٹ بھی اس کی راگ میں راگ ملانے لگے چنانچہ انھوں نے آسمان سرپر اٹھالیا اورحالیہ سرمائی اجلاس کو انھوں نے نہیں چلنے دیا، پورے اجلاس میں کوئی کام کاج نہیں ہوا، جوازیہ بتلایاگیاکہ بدعنوانیوں کے مختلف معاملات خاص طورسے 2جی اسپیکڑم کے ذریعہ جوقومی خزانہ کوغیرمعمولی نقصان پہونچایا گیا اس کی تفتیش کسی عام طریقہ سے کرائی نہیں جاسکتی ہے لہذا اس معاملہ کی جانچ ہندوستانی پارلیمنٹ کی مشترکہ کمیٹی (جے.پی.سی.) سے کرائی جائے ،حکومت کا موقف ہے کہ گھوٹالہ کی تفتیش پارلیمنٹ کی ایک مستقل کمیٹی پبلک اکاؤنٹس (پی.اے.سی) کررہی ہے اوراس کے علاوہ سی.بی.آئی. انفورسمنٹ ڈائریکٹوریٹ(ای.ڈی.) انکم ٹکس محکمہ اوردیگر ایجنسیاں کررہی ہیں مگر بی.جے.پی. کا اصرارہے کہ وہ سرمائی اجلاس میں اپوزیشن کے متحدہ احتجاج کامیاب تجربہ کے بعد پارلیمنٹ کے بجٹ اجلاس میں احتجاج جاری رکھے گی، یہ جوکچھ ہوا اورہورہا ہے یہ درست نہیں ہے پارلیمنٹ کے ۲۳ دنوں میں محض پونے تین گھنٹے ہی کام ہوسکا، باقی اوقات پارلیمنٹ تعطل کا شکار رہی، ایک تخمینہ کے مطابق اس تعطل اوربحران کی وجہ سے تقریباً ڈیڑھ سوکروڑروپئے کانقصان ہواہے، وہ معززممبران جوقوم کے غم میں ڈنرکھانے سے نہیں تھکتے اس نقصان پر نہ توشرمندہ ہیں اورنہ ہی انھیں اس کا کوئی افسوس ہے کیونکہ بہرحال یہ نہ توان کی گاڑھی کمائی کی بربادی ہے اور نہ ہی انھیں اس الاؤنس سے محروم رہناپڑاہے جو پارلیمانی اجلاس کے دوران ان کوملتا ہے۔
اس پورے ہنگامہ آرائی اورتعطل وبحران کی ذمہ دار بھارتیہ جنتاپارٹی ہے، جوبدعنوانی کاپتہ لگانے اوربدعنوانی کے مرتکب وزیرکو سزادلانے کی لڑائی میں سب سے آگے نظر آرہی ہے جبکہ خودبھارتیہ جنتاپارٹی کے اتحاد (این.ڈی.اے.) والی سرکاری پربدعنوانی کا داغ تابوت گھوٹالہ کی شکل میں لگ چکاہے، اورخود اس کے کئی ممبران پارلیمنٹ سوال کرنے کے عوض رشوت لیتے ہوئے گرفتارہوئے اوران کی ممبری ختم ہوئی ہے یہی نہیں بلکہ اس کے صدربنگارولکشمن بھی رشوت لیتے ہوئے ٹی.وی.اسکرین پر دکھائے گئے ہیں ،اب نہ معلوم کس منہ سے وہ بدعنوانی کے خلاف لڑائی لڑرہی ہے اور اس دوران جبکہ اس کی یہ لڑائی شباب پرتھی مدھیہ پردیس میں بی.جے.پی. سرکار کے وزیراعلیٰ یدیوریا پربدعنوانی کاالزام لگ چکاہے ؂
کعبہ کس منہ سے جاؤ گے غالبؔ شرم تم کومگرنہیں آتی

برائی برائی ہے چاہئے کوئی بھی انجام دے، برائی کی مذمت ہی نہیں اس کو جڑسے اکھاڑپھینکنے کی کوشش قابل تائید ولائق تحسین ہے اوراس کے خلاف لڑنے والوں کی ہرطرح مددہونی چاہئے ،لیکن سوال اٹھتا ہے کہ اپنے دوراقتدارمیں بی.جے.پی. نے کیونکر بدعنوان سیاست دانوں کو برداشت کیا، اگروہ اصول پرست ہی تھی تواس نے اپنے اصولوں کو کرسی کی خاطر کیوں قربان کیا، اوراگروہ محب وطن اوردیس بھگت تھی تواس وقت اس کی دیس بھگتی کوکیوں گھن لگ کیاتھا، اورجو دم خم آج دکھا رہی ہے، وہ طاقت کہاں چلی گئی تھی، اس پورے ڈرامے کا اگر گہرائی سے تجزیہ کیاجائے تودوباتیں سامنے آتی ہیں پہلی تویہ کہ سنگھ پریوار سے جڑی تنظیمیں پورے ملک میں بدامنی پھیلاکر اورجگہ بجگہ بم دھماکہ کراکے بے گناہوں اورمعصوموں کا خون بہاکر مسلمانوں کوبدنام کرنے کی ایک سازش رچ رکھی تھی اوراپنے اسی منصوبہ کے مطابق انھوں نے اجمیر، حیدرآباد کی مکہ مسجد، مالیگاؤں وغیرہ بم دھماکہ کرائے الزام مسلمانوں پرگیا، بہت سے بے گناہ مسلمان گرفتار ہوئے ان کوجیل کی سلاخوں کے پیچھے ڈالاگیا، ذہنی وجسمانی ایذائیں دی گئیں، ان کی کردارکشی کی گئی اورمالی اعتبار سے ان کے کنبوں کی حالت قابل رحم ہوگئی، مقدمہ کی پیروی اوران کوباعزت بری کرانے میں ان کی پراپرٹیاں تک فروخت ہوگئیں ،داڑھی وٹوپی دہشت گردی کی پہچان کے طورپر دیکھی جانے لگی، اس طرح بڑی حد تک شدت پسند مسلم مخالف تنظیمیں اپنے ناپاک مقاصد میں کامیاب ہوتی نظرآنے لگیں، لیکن اللہ کے یہاں دیرہے اندھیرنہیں،بالآخر حقیقت سے پردااٹھا اوروہی تنظیمیں وہی افراد جوالزام مسلمانوں پرلگارہے تھے خودان کااپنا قصور نکل آیا، اورثابت ہواکہ اجمیر، مالیگاؤں، مکہ مسجد حیدرآباد وغیرہ کے بم دھماکے انھوں نے کرائے اب یہ تنظیمیں دفاعی پوزیشن میں آچکی ہیں اوربدامنی ودہشت گردی کا سراہی نہیں سیدھامعاملہ ان سے جڑچکا ہے، وزیرداخلہ مسٹرپی چدمبرم نے ہندودہشت گردی کی بات کہہ کر ایک بڑی حقیقت کا اعتراف کیاہے، اسی طرح اگروکی لیکس کے انکشافات کی صحت کو تسلیم کیاجائے توکانگریس کے جنرل سکریٹری مسٹرراہل گاندھی کابیان کہ ملک کو سب سے بڑا خطرہ ہندودہشت گردی سے ہے ایک بڑی صداقت کا جرأت مندانہ اظہار ہے۔
اس محاذ آرائی کے پیچھے دوسرا مقصد یہ نظرآتا ہے کہ بی.جے.پی. جواپنا اثرورسوخ کھوچکی ہے اوراس کی مقبولیت کا گراف بہت نیچے آچکا ہے خود اس کے اندرکافی انتشار برپا ہے اورلیڈرشپ سے اس کے ارکان کا اعتماد کمزور ہوتاجارہا ہے ،اس کو کوئی ایشوچاہئے جس کے ذریعہ وہ اپنی تنظیم کو مضبوط کرنے کے ساتھ ساتھ عوام میں اپنی ساکھ بناسکے اورآنے والے الیکشن میں کانگریس کو راست ٹکردے سکے، گویا اس ہنگامہ آرائی کے ذریعہ وہ ایک تیرسے دو شکارکرنا چاہتی ہے اولا تو بدعنوانی کے خاتمہ کے خلاف جنگ چھیڑکر وہ اپنی ذیلی تنظیموں پرلگے دہشت گردی کے الزام سے عوام کی توجہ دوسری طرف موڑنا چاہتی ہے تاکہ اس کی جوکرکری ہورہی ہے اس سے اس کو سکون ملے ،دوسرے یہ کہ کانگریس کوبد نام کرکے اقتدار پرقبضہ جمانا چاہتی ہے۔
اس پورے منظرنامہ سے براہ راست مجھے کچھ لینا دینانہیں ہے اورنہ اس خامہ فرسائی سے کسی کی تائید اورصفائی پیش کرنا اورکسی دوسرے پر فرد جرم عائد کرنا ہے کیونکہ ؂
ان کا جوکام ہے وہ اہل سیاست جانیں میراپیغام محبت ہے جہاں تک پہونچے

میں توصرف یہ کہناچاہتا ہوں کہ یہ بے ایمانی، بداخلاقی، بدکرداری، رشوت خوری،خیانت، دغابازی، اور گنہگاری کی ذہنیت کہاں سے اورکیونکر پیداہورہی ہے، اس کا سیدھا جواب ہے کہ اس پرشکنجہ کسنے کے لئے کوئی مضبوط ضابطہ اخلاق نہیں ہے اورجوکچھ ہے یا توکمزور ہے یاپھر اس پرعمل نہیں ہوپارہا ہے ضرورت ہے کہ مضبوط ضابطہ اخلاق وضع کیاجائے اورسیاست کاروں کواس کی کسوٹی پر پرکھا جائے،مضبوط شعبہ احتساب ہو، جوبااختیار ہو اورجرم ثابت ہونے پرہمیشہ کے لئے ان کو سیاست سے رخصت کردیاجائے ساتھ ہی مالی تاوان عائد ہووغیرہ وغیرہ۔
موجودہ دورکے سیاست دانوں کوخلفاء راشدین رضوان اللہ علیہم اجمعین کی سیرتوں کامطالعہ کرایاجائے ،بھلے ہی وہ مسلمان نہ ہو، جب وہ مغربی مفکروں اورسیاست دانوں کی سیرتوں کا مطالعہ کرسکتے ہیں تواسلام کے پیروؤں کا مطالعہ کرنے میں کون سی قباحت ہے اوریہ بھی ایک حقیقت ہے کہ جب تک دنیا ہمارے ان بزرگوں کی سیرتوں سے روشنی حاصل نہیں کرے گی وہ اندھیرے میں بھٹکتی رہے گی، ہمارے خطیب الاسلام علامہ عبدالرؤف رحمانی رحمہ اللہ نے خلفاء راشدین کے عہدمیں جوخوشحالی اورفارغ البالی ،حسن انتظام اوررعایا پروری تھی اس پرمشتمل ایک نہایت عمدہ تالیف بنام’’ ایام خلافت راشدہ‘‘مرتب فرمایا تھا جس میں بڑے ایمان افروزواقعات اورتبصرے ہیں اس سے خلیفہ اول سیدناابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کا ایک واقعہ مشتے نمونے ازخروارے کے طورپر درج کررہا ہوں:
ایک مرتبہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی زوجہ محترمہ نے کسی میٹھی چیز کے کھانے کی خواہش ظاہر کی توصدیق اکبرنے فرمایا: میرے پاس کسی میٹھی چیز کے پکانے کی رقم نہیں ہے، مجبوری ہے اس جواب کے بعد زوجہ محترمہ روزمرہ خرچ میں سے تھوڑا تھوڑا روزانہ بچایا اور اس سے گھی اورشکر کے لئے تھوڑی سی رقم بنائی جب صدیق اکبر کے سامنے وہ رقم پیش ہوئی توفرمایا یہ پیسہ کہاں سے آیا، انھوں نے اپنی روزمرہ کفایت شعاری ایک چٹکی روزانہ بچت کا ذکر فرمایا، آپ نے وہ رقم ان سے لے لی اوربیت المال کے خرانچی کے پاس لے جاکر کہا’’ھذا الفضل عن قوتنا‘‘ اتنی رقم ہمارے خرچ سے زائد ہے اسے بیت المال میں داخل کرو اورآئندہ ایک چٹکی کی مقدار ہمارے وظیفہ سے کم کردو۔ (ایام خلافت راشدہ ، بحوالہ: اشہر مشاہیرالاسلام ج اول ص:۹۳)
آج کے اہل سیاست کو اگرمذہب واخلاق کا سبق پڑھایا جائے اورصحابہ کرام کی بے نظیر سیرتوں کامطالعہ کرایاجائے توشاید کرپشن اوربدعنوانی میں کچھ کمی آئے۔ ***

No comments:

Post a Comment