Saturday, February 19, 2011

مہمانوں کی تکریمDec-2010

سعود اختر عبدالمنان سلفیؔ


مہمانوں کی تکریم

دین اسلام ایک فطری نظام حیات ہے ،اس نے عقائد سے لے کرحقوق ومعاملات تک تمام امور میں اپنے متبعین کی رہنمائی بڑے واضح انداز میں کی ہے، قرآنی تعلیمات و احکام کے ساتھ اللہ کے آخری پیغمبرﷺ نے خوداس پر عمل پیرا ہو کر اس کی مثال قائم فر مائی ، انھیں حقوق میں ایک حق مہمانوں کا بھی ہے جس کا تعلق حقوق العباد سے ہے ،رسول اکرمﷺ نے مہمانوں کے ساتھ حسن سلوک، ان کی عزت وتوقیر اورخدمت کرنے کی بڑی فضیلت بیان کی ہے ،ایک مقام پررسول اکرمﷺنے مہمان کی عزت واحترام اورخدمت کرنے کوجزء ایمان بتاتے ہوئے فرمایا: ’’من کان یؤمن باللہ والیوم الآخر فلیکرم ضیفہ‘‘(۱)جوشخص اللہ اوریوم آخرت پر ایمان رکھتا ہو اسے اپنے مہمان کی عزت کرنی چاہئے، دوسری جگہ ارشاد فرمایا: ’’من کان یؤمن باللہ والیوم الآخر فلیکرم ضیفہ جائزتہ... ‘‘(۲)جو شخص اللہ اوریوم آخرت پرایمان رکھتا ہو تواسے اپنے مہمان کی عزت کرتے ہوئے اس کا حق اداکرنا چاہئے، صحابۂ کرام نے عرض کیا کہ یارسول اللہﷺ !اس کا حق کیاہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ایک رات اورایک دن( یعنی اپنی بساط کے مطابق ایک دن بہترضیافت کرے) اورمہمان نوازی تین دن ہے ،اور اس سے زائد صدقہ ہے، ایک اورمقام پر آپ ﷺ نے اس شخص سے بھلائی کی نفی کی ہے جو مہمانوں کی ضیافت کے وصف سے عاری ہو،ارشاد نبوی ہے: ’’لا خیر فیمن لا یضیف‘‘۔(۳)
اللہ رب العالمین نے قرآن مجید میں بھی دومقامات پرمہمانوں کی عزت وضیافت کاذکرکیا ہے جس سے مہمانوں کی تکریم کی اہمیت ثابت ہوتی ہے، سورۂ ذاریات میں اللہ تعالیٰ نے ان مہمان فرشتوں کا
(۱)صحیح بخاری، کتاب الأدب، باب من کان یؤمن باللہ....وصحیح مسلم، کتاب الإیمان، باب الحث علی إکرام الجار والضیف ولزوم الصمت إلا من خیر۔
(۲)صحیح بخاری ،کتاب الأدب، باب إکرام الضیف وخدمتہ ایاہ بنفسہ وصحیح مسلم، کتاب اللقطۃ، باب الضیافۃ.
(۳)مسند الإمام أحمد بن حنبل ۴؍۱۵۵ علامہ البانی نے اس حدیث کو صحیح قراردیا ہے: سلسلۃ الأحادیث الصحیحۃ۲۴۳۴،وصحیح الجامع الصغیر وزیادتہ۲؍۷۴۹۲۔
کاذکرکیا ہے جوقوم لوط کو عذاب دینے کے موقعہ پرسیدنا ابراہیم علیہ السلام کے پاس انسانی شکل میں گئے تھے اور انھیں ایک صالح اولاد کی بشارت بھی دی تھی، اس موقعہ پرآپ نے ان فرشتوں کو پردیسی اور اجنبی سمجھ کر ان کی عزت وتکریم میں ایک پلا ہوا بچھڑا بھون کرپیش کیا، جس کانقشہ قرآن نے یوں کھینچا ہے: (ھل اتاک حدیث ضیف إبراہیم المکرمین إذدخلوا علیہ فقالوا سلٰما، قال سلام قوم منکرون، فراغ إلی أھلہ فجاء بعجل ثمین فقربہ إلیہم قال ألا تأکلون)(الذاریات:۲۴۔۲۷)
ترجمہ: کیاتیرے پاس ابراہیم کے معزز مہمانوں کی بات پہونچی ہے جب وہ ان کے پاس گئے توانھوں نے سلام کیا،حضرت ابراہیم علیہ الصلاۃ والسلام نے بھی جواب میں کہا سلام (اورکہا) انجانے لوگ ہیں، پھراپنے گھرکی طرف چلے اورایک پلا ہوابچھڑا (بھون کر) لائے اوراسے ان کے قریب کیا اورفرمایا تم کھاتے کیوں نہیں؟۔
دوسرے مقام پراللہ تعالیٰ نے دوسرے مہمان فرشتوں کا تذکرہ کیاہے جو خوبروانسانوں کی شکل میں حضرت لوط کے پاس ان کے قوم کی سیاہ کاریوں اورفعل شنیع کے باعث ان کی بستیوں کوالٹنے کے سلسلے میں گئے تھے اورجب بدقماش وبدطینت لوگوں نے ان کے ساتھ بھی برائی کے ارتکاب کاارادہ کیا ،تو حضرت لوط علیہ السلام نے اپنی قوم سے کہاکہ مجھے میرے مہمانوں کے بارے میں رسوامت کروارشاد ربانی ہے:
(وجاء ہ قومہ یھرعون إلیہ ومن قبل کانوا یعملون السیئات قال یٰقوم ھؤلاء بناتی ھن أطہرلکم فأتقواللہ ولاتخزون فی ضیفی ألیس منکم رجل رشید)(ھود:۷۸)
ترجمہ:لوط کے پاس ان کی قوم دوڑتی ہوئی آئی اوراس سے پہلے بھی وہ بُرائیوں کاارتکاب کرتے تھے، حضرت لوط علیہ الصلاۃ والسلام نے فرمایا: اے میری قوم !یہ میری بیٹیاں تمہارے لئے زیادہ پاکیزہ ہیں، پس اللہ سے ڈرو اورمجھے میرے مہمانوں کے بارے میں رسوانہ کرو، کیا تم میں سے کوئی بھی سمجھ دارآدمی نہیں ہے؟۔
متذکرہ بالا آیات کریمہ واحادیث شریفہ سے معلوم ہواکہ جوبھی مہمانوں کی عزت وتوقیر کرے گا وہ سرخرووبامراد اورحقیقی معنوں میں مومن ہوگا، اورجوشخص مہمانوں کے حقوق کی ادائیگی میں تغافل اورکوتاہی کرے گا اس کاایمان ناقص اورخام ہوگا ۔میرے مسلمان بھائیو!آپ کہاں ہیں اورکس چیز کے حصول میں کھوئے ہوئے ہیں ؟کیا آپ نے انبیاء کرام علیہم السلام،صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور اسلاف عظام رحمہم اللہ کے طرزعمل کو یکسر فراموش کردیا؟ وہ قرآن جواللہ کانازل کردہ بابرکت کلام اورآپ کا دستورحیات ہے، جس کی حفاظت کی خاطر اپنی جان کو قربان کرنے کے لئے تیاررہتے ہیں اور جس پر آپ کا ایمان کامل ہے وہ ببانگ دہل آپ کودرس دے رہا ہے کہ اپنے مسلمان بھائیوں کی ضیافت کرو اورگرم جوشی کے ساتھ ان کا خیرمقدم کرو ، کیا آپ نے ام سلیم اورابوطلحہ رضی اللہ عنہماکے واقعہ کو بھلادیا کہ گھرمیں سوائے بچوں کے کھانے کے کچھ اورنہیں ہے لیکن رسول اکرمﷺ کے مہمان کو گھرلے جاتے ہیں، بچوں کو بہلاپھسلاکر سلادیتے ہیں اورمہمان کوکھانا کھلادیتے ہیں، لاکھوں رحمتیں نازل ہوں ام سلیم وابوطلحہ تم پر ،کیا درس تم دونوں نے اپنے اخلاف کودیا،بہانہ سے چراغ بجھاکر مہمان کے سامنے کھانا چن دیا گیا، حضرت ابوطلحہ بھی مہمان کے ساتھ کھانے میں شریک ہوئے،لیکن بیوی کی سکھائی ہوئی ترکیب کے مطابق ہاتھ کھانے تک اور پھر منہ تک تولے جاتے مگر نوالہ نہ اٹھاتے اورنہ کھاتے، تاکہ مہمان کوکھانے کی کمی کا احساس نہ ہو۔(۱)
قارئین کرام! یہ لمحۂ فکریہ ہے ان لوگوں کے لئے جواپنے آپ کوحقیقی مسلمان،کتاب وسنت کاسچا علمبرداراور متمسک بالکتاب والسنۃ ہونے کا دعویٰ توکرتے ہیں لیکن روزمرہ کے طرز عمل سے معاملہ اس کے برعکس نظرآتا ہے، یعنی ’’دعوی ایمانی اورکام شیطانی‘‘
آج کے اس ترقی یافتہ دورمیں مہمانوں کا خندہ پیشانی سے استقبال ،بہ طیب خاطراور خوش دلی سے ان کی مہمان نوازی،وسعت واستطاعت بھر ان کے آرام وآسائش کاخیال اور ان کے ساتھ حسن سلوک تودرکنار بلکہ مشاہدہ یہ ہے کہ مہمان کو دیکھتے ہی لوگوں کے تیوربدل جاتے ہیں، ضیافت سے بچنے کی خاطر جھوٹ موٹ کے ہزاروں بہانے ڈھونڈنا شروع کردیتے ہیں، اہل خانہ کی بیماری وعدم موجودگی کا رونا رونے لگتے ہیں ۔یہ مذموم روش ہر طبقہ میں موجود ہے اور مسلمانوں کی اکثریت مہمانوں کو دیکھ کر بغلیں جھانکتی اور ان کو ’’عذاب اللہ‘‘ سمجھتی ہے، میرے خیال میں فطری بخل کے بعداس کی ایک بڑی وجہ ضیافت میں بیجا تکلف ہے، اگر لوگ سادگی پسند بن جائیں اور ضیافت کے لئے اپنی طاقت سے زیادہ خود پر بوجھ نہ ڈالیں ،اور مہمان بھی قناعت پسندی کی روش پر گامزن ہوجائیں تو بہت ممکن ہے کہ لوگ مہمانوں کو باعث زحمت نہ قرار دے کر انھیں رحمت و برکت کا سبب سمجھنے لگیں،اللہ تعالیٰ ہم سب کو مہمانوں کی تکریم اور حسب استطاعت ان کی ضیافت کی توفیق بخشے اور ہمیں بخل و کنجوسی اور تکلف و تصنع سے بھرے طرز معاشرت سے نجات دے ۔(آمین)
***
(۱) صحیح بخاری، کتاب مناقب الأنصار، باب قول اللہ عزوجل: (ویؤثرون علٰی أنفسھم ولوکان بہ خصاصۃ)وکتاب تفسیرالقرآن، باب ویؤثرون علیٰ أنفسھم۔۔۔ الآیۃ.

No comments:

Post a Comment