Saturday, February 19, 2011

ماہ محرم اوریوم عاشوراءDec-2010

مولاناوصی اللہ عبدالحکیم مدنی
استاد کلیہ عائشہ صدیقہ،کرشنانگر

ماہ محرم اوریوم عاشوراء سے متعلق
ضعیف و موضوع روایات

ہجری سال کاپہلامہینہ محرم الحرام ہے ،اس مہینے میں ہمارے نبیﷺ نے نفلی روزوں کے علاوہ کسی اورچیز کااہتمام کیاہے اورنہ ہی اپنے اصحاب کوکرنے کاحکم ہی دیا ہے، اکثرخطباء ملت اورواعظین قوم جواپنے سینے کے زورسے اس مہینے کے فضائل ومناقب بیان کرتے ہیں ان کی تقریروں کا درومدار امت میں منتشر ضعیف اورموضوع روایات ہیں جنھوں نے بدعتوں کوسنتوں میں تبدیل کردیاہے، متقدمین ومتاخرین محدثین کرام بالخصوص علامہ ابن الجوزی اورامام البانی نے ان حدیثوں کواپنی اپنی کتابوں میں تفصیل سے بیان کیاہے افادۂ عام واصلاح کی خاطر ان میں سے بعض مشہور احادیث پیش خدمت ہیں:
*حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہﷺ کا ارشاد گرامی ہے ’’من صام یوم عرفۃ،کان لہ کفارۃ سنتین،ومن صام یوما من المحرم فلہ بکل یوم ثلاثون یوما‘‘-
جس نے عرفہ کے دن روزہ رکھا تویہ اس کے لئے دوسال کا کفارہ ہوگا اورجس نے ماہ محرم کے ایک دن کا روزہ رکھا تواس کا ہردن تیس دن کے برابر ہوگا۔
اس حدیث کو امام طبرانی نے ’’المعجم الصغیر‘‘میں روایت کیاہے اوربقول امام منذری ’’وھوغریب واسنادہ لاباس بہ‘‘یہ حدیث غریب ہے اوراس کی اسناد میں کوئی مضائقہ نہیں ہے۔ (یعنی ان کا اشارہ اسناد حدیث کی توثیق کی جانب ہے)
محدث عصرعلامہ محمدناصرالدین البانی نے امام منذری کے اس حکم پر تعاقب کرتے ہوئے اپنی کتاب ’’ضعیف الترغیب والترھیب، (۱؍۳۱۲)‘‘میں اسے موضوع قراردیتے ہوئے فرماتے ہیں کہ ’’ھذا خطاء فاحش لاادری کیف وقع لہ؟....‘‘یہ امام منذری کی بہت بڑی غلطی ہے مجھے یہ نہیں معلوم کہ وہ اس غلطی کے کیسے شکارہوگئے ،جب کہ اس حدیث کی سند میں ’’سلام الطویل‘‘کذاب اور ’’لیث بن ابی سلیم‘‘جیسے مختلط راوی موجودہیں....‘‘۔
*حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مرفوعا مروی ہے کہ ’’من أوسع علی عیالہ وأھلہ یوم عاشوراء ،أوسع اللہ علیہ سائر سنتہ‘‘جوشخص عاشوراء کے دن اپنے اہل وعیال پر(کھانے میں)کشادگی کرے گا تواللہ تعالیٰ اس پرپورے سال کشادگی کرے گا۔
اس حدیث کوامام بیہقی نے کئی سندوں سے روایت کیاہے اوراس حدیث کی استنادی حیثیت کوبیان کرتے ہوئے کہتے ہیں ’’وھذہ الأسانید وإن کانت ضعیفۃ،فھی اذاضُم بعضھا إلی بعض اخذت قوۃ‘‘یعنی یہ تمام سندیں گرچہ ضعیف (کمزور)ہیں لیکن ایک دوسرے کوملانے سے تقویت ہوجاتی ہے۔
شیخ البانی نے اس حدیث کو’’ضعیف‘‘کہاہے اوراس کی وارد تمام سندوں کے بارے میں کہاہے کہ ’’وطرقہ کلھا واھیۃوبعضھا اَشدضعفا من بعض‘‘یعنی اس کی تمام سندیں واہی (کمزور)ہیں اوربعض سندیں ضعف کے اعتبارسے شدید ہیں۔(الضعیفۃ:۶۸۲۴)
*معلوم یہ ہواکہ مجردکثرت طرق کی بناء پربعض اہل علم کااسے حسن کہنا اوراس پرعمل کرنے کی عام دعوت دینا درست نہیں ہے۔
*خطباء اورواعظین قوم کی زبان زد حدیث ’’وَھُوَ الْیَوْمُ الَّذِیْ استَوَتْ فِیْہِ السَّفِیْنَۃُ عَلَی الْجُودِیِّ فَصَامَہُ نُوْحٌ شُکْرًا‘‘یوم عاشوراء وہ دن ہے جس میں کشتی نوح علیہ السلام جودی پہاڑی پر ٹھہری تھی، چنانچہ حضرت نوح علیہ السلام نے شکرانے کے طورپر اس دن کا روزہ رکھا۔
اس حدیث کوامام احمدنے اپنی مسند (۱۴؍۳۳۵)میں روایت کیا ہے لیکن سلسلہ اسناد میں ایک راوی عبدالصمد بن حبیب ہے جوکہ ضعیف ہے اوردوسرا راوی شبیل بن عوف ہے جوکہ مجہول ہے۔
* ’’وَفِیْ یَوْمِ عَاشُوْراءَ تَابَ اللّٰہُ عَزَّوَجَلَّ عَلیٰ أدَمَ عَلَیْہِ السَّلَامُ وَعَلٰی مَدِیْنَۃِ یُوْنُسَ، وَفِیْہِ وُلِدَ اِبْرَاہِیْمُ عَلَیْہِ السَّلَامُ‘‘
یوم عاشوراء کواللہ نے حضرت آدم کی توبہ قبول کی، اسی طرح یونس علیہ السلام کے شہروالوں پربھی اللہ تعالیٰ نے اسی دن خصوصی توجہ فرمائی اوراسی میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کی پیدائش ہوئی۔
اس حدیث کوامام طبرانی نے روایت کیاہے اوراس کی سند کے بارے میں امام ہیثمی نے (مجمع الزوائد ۳؍۱۸۸)میں لکھتے ہیں کہ اس میں ایک راوی ’’عبدالغفور‘‘ہے جوکہ متروک ہے۔
*حضرت ابن عباس مرفوعاً بیان کرتے ہیں ’’صُوْمُوْا یَوْمَ عَاشُوْرَاءَ ،وَخَالِفُوْا فِیْہِ الْیَھُوْدَ، وَصُوْمُوْا قَبْلَہُ یَوْماً اَوْبَعَدَہُ یَوْماً‘‘تم یوم عاشوراء کا روزہ رکھو اور اس میں یہود کی مخالفت کرو اوراس سے ایک دن پہلے یااس کے ایک دن بعدکا روزہ رکھو۔
اس حدیث کو امام احمدنے اپنی( مسند۱؍۲۴) اوربیہقی نے ’’السنن الکبریٰ ۴؍۲۸۷) میں روایت کیاہے اس کی سندمیں ابن ابی لیلیٰ اورداؤد بن علی دونوں راوی ضعیف ہیں،البتہ امام احمد شاکر کی تحقیق کے مطابق اس کی اسناد صحیح ہے جیساکہ شیخ محترم ڈاکٹر حافظ محمداسحاق زاہد مدنی ؍حفظہ اللہ نے اپنی کتاب ’’زادالخطیب‘‘(۱؍۸۰)میں نقل کیاہے۔واللہ اعلم بحقیقۃ الحال

No comments:

Post a Comment