Sunday, February 20, 2011

تقدیر کا مسئلہ؟Dec-2010

ڈاکٹرسیدسعیدعابدی

صدرشعبۂ اردو،جدہ ریڈیو،سعودی عرب
تقدیر کا مسئلہ؟

مسئلہ: روشنی کے ایک محترم قاری میرے نام اپنے گرامی نامہ میں تحریر فرماتے ہیں:
’’قضا وقدر پرایمان ارکان ایمان میں سے ایک لازمی رکن ہے، ہمیں قضاوقدر پرایمان ہے، تاہم کچھ سوالات ذہن میں خلش پیداکررہے ہیں، جن کا اطمینان بخش جواب پانے کے لئے آپ سے رجوع کررہا ہوں۔
یہ بات صحیح احادیث میں وارد ہے کہ انسان کے پیدا ہونے سے پہلے اس کی تقدیر لکھ دی جاتی ہے، جس میں دیگر امورکے علاوہ یہ بات بھی شامل ہے کہ وہ جنتی ہوگا یا جہنمی، دیگراحادیث سے بھی معلوم ہوتاہے کہ اللہ تعالیٰ نے زمین وآسمان کوپیداکرنے سے پہلے مخلوقات کی تقدیریں لکھ دی تھیں۔
اس حوالے سے سوال یہ ہے کہ جب میری تقدیرمیں لکھ دیاگیا کہ میں جنتی ہوں یادوزخی مجھ سے حساب کیوں لیاجارہا ہے، جب اللہ نے مجھے پیدا کرنے سے پہلے میری تقدیر میں لکھ دیاہے کہ خداناخواستہ وہ مجھے جہنم میں ڈالے گا توپھراس میں میراکیا قصورہے؟
دوسری طرف یہ بتایاجاتا ہے کہ انسان کو عمل کی آزادی دی گئی ہے (لا إکراہ فی الدین) اوراس طرح کی دیگر نصوص ہمیں بتاتی ہیں کہ انسان کوآزادئ انتخاب حاصل ہے، چاہے خیرکے کام کرے اوراللہ کی جنت پائے، چاہے برے کام کرے اوراس کی سزاپائے، اگریہ صحیح ہے توپھراللہ کا’’علم ازلی‘‘ کہاں ہے، جب اس نے مجھے انتخاب کی آزادی دی ہے تواس کا مطلب یہ ہے کہ ہم نے اللہ سے وہ علم چھین لیاجس سے وہ متصف ہے۔
دونوں باتوں میں ہمیں تضاد معلوم ہورہا ہے، یہ سوال توخاصا پرانا ہے کہ انسان ’’مخیر ہے یامُسیر‘‘ مگر جدید دورمیں اسے دوبارہ اٹھایا جارہا ہے، ہمیں امید ہے کہ اس کے متعلق تسلی بخش، عام فہم اورآسان جواب دیں گے۔
جواب: انسان کے پیداہوتے ہی اس کے باطنی اعضاء جیسے دماغ، دل، پھیپھڑے، جگراورگردے اپنے وظائف اداکرنا شروع کردیتے ہیں، اورزندگی کی آخری سانس تک ان کا یہ عمل جاری رہتا ہے، ان کو یہ اعمال انجام دینے یا ان کو ان سے بازرکھنے پرخود ان کے مالک انسان کوکوئی قدرت حاصل نہیں ہوتی اوریہ انسان کے خالق اور رب اللہ تعالیٰ کی مشیت سے ہوتاہے۔
لیکن اس کے برعکس انسان کے خارجی اعضاء جیسے ہاتھ، پاؤں، آنکھیں، اور کان اپنے وظائف اداکرنے کے لئے اپنے مالک انسان کے اراۂ واختیار کے پابند ہوتے ہیں اوریہ بھی اللہ تعالیٰ کی مشیت سے ہوتاہے۔
انسان کے باطنی اورخارجی اعضاء کی حرکت وعمل کی جومثال اوپردی گئی ہے اس کوایک معمولی عقل ودماغ رکھنے والا آدمی بھی سمجھتا ہے۔
میں نے اوپرجومثال دی ہے، وہ اللہ تعالیٰ کی مشیت، جس کے تحت ہرچیز کووجود ملتا ہے اورحضرت انسان کے ارادۂ وعمل میں فرق کو واضح کرنے کی غرض سے دی ہے۔
اب ایک قدم اورآگے بڑھایئے اوراللہ تعالیٰ کی مشیت کوذہن میں تازہ رکھئے، اللہ تعالیٰ نے کچھ کاموں کے کرنے کاحکم دیا ہے، اورکچھ کاموں سے منع فرمایا ہے، اچھے کام کرنے پرجزا اوربرے کاموں کے ارتکاب پرسزا کی وعیدسنائی ہے، اس سلسلے میں نہایت موٹی سی اورروزمرہ کی مثال ملاحظہ فرمایئے:
۱۔اللہ تعالیٰ کی یاد، اس کی کتاب کی تلاوت اوردین ودنیا کے لئے مفید اور نفع بخش کتابوں کا مطالعہ۔
۲۔اپنے بھائیوں کی غیبت، مخرب اخلاق اوربدعقیدگی کی ترغیب دینے والی کتابوں کا مطالعہ اورہنسی مذاق۔
ایک دوسرے سے مختلف اورمتضاد مذکورہ اعمال بھی انسان اللہ تعالیٰ کی مشیت سے انجام دیتاہے ،لیکن کیا ان کوانجام دیتے ہوئے وہ اسی طرح مجبورہوتا ہے جس طرح انسان کے باطنی اعضاء اپنے وظائف انجام دیتے ہوئے مجبور ہوتے ہیں یااس کو اسی طرح کا ارادہ واختیار حاصل ہوتا ہے جس طرح کا ارادۂ واختیار اسے اپنے جسم کے خارجی اعضاء کوحرکت دیتے یا ان کواستعمال کرتے وقت حاصل ہوتاہے؟ اس سوال کا جواب ہرشخص کومعلوم ہوگا۔
اسلامی معاشرہ میں یونانی فلسفہ کے داخل ہونے کے نتیجہ میں جب عقل کو غیرمعمولی اوراس کی بساط سے بڑھ کر اہمیت دیجانے لگی توایسے عقلیت پسند پیداہوگئے جنھوں نے اسلام کے غیبی امورخصوصیت کے ساتھ اسلامی عقائد کو عقل کی میزان میں رکھ کر تولنا شروع کردیا، اوراللہ تعالیٰ کی ذات وصفات سے لے کرقضا وقدر کے مسائل پر عقلی بحثیں شروع ہوگئیں اورقرآنی آیات اورصحیح احادیث کی من مانی تأویلیں کی جانے لگیں ۔
تقدیر کے مسئلے سے تعرض کرنے والے یوں توبہت سے فرقے پیداہوگئے ،لیکن ان میں دو فرقوں کوخصوصی شہرت حاصل ہوگئی ایک ’’قدریہ‘‘ کے نام سے معروف ہوا اوردوسرے کو’’جبریہ‘‘ کے نام سے شہرت ملی۔
’’قدریہ‘‘ نے یہ نعرہ لگایا کہ تقدیرالٰہی کاکوئی وجود نہیں ،بندہ اپنے ارادہ وقدرت میں آزاد ہے اوراس کے اعمال میں اللہ تعالیٰ کی مشیت اورتخلیق کاکوئی عمل دخل نہیں۔
’’جبریہ‘‘ کا دعوی ہے کہ بندہ اپنے افعال میں مجبورمحض ہے اوروہ جوحرکت کرتا ہے وہ ایک رعشہ زدہ مریض کی حرکت کے مانند ہے۔
ایک عجیب بات یہ ہے کہ قدیم زمانے سے آج تک تقدیرکا مسئلہ اٹھانے والوں نے ہمیشہ اس کو دینی امورسے خاص رکھا ہے اوروہ بھی صرف’’منفی‘‘ پہلوسے اورجیساکہ سوال میں آتا ہے کہ جب اللہ نے مجھے پیدا کرنے سے پہلے میری تقدیرمیں یہ لکھ دیاہے کہ وہ مجھے جہنم میں ڈالے گا توپھراس میں میراکیا قصورہے؟ کوئی یہ نہیں پوچھتا کہ جب میرے مقدرمیں جنت لکھ دی گئی ہے تومیں اس کا مستحق کیوں قراردیا گیا؟ یہ دراصل ’’میٹھا میٹھا ہپ اورکڑوا کڑوا تھو‘‘ والی بات ہوئی اصولی بحث نہ ہوئی حالانکہ اس مسئلے میں سب سے زیادہ مشہور حدیث میں چاربنیادی چیزوں کا ذکرآیا ہے، رزق، موت، بدبختی اورخوش بختی۔(بخاری:۳۲۰۸،۶۵۹۴،مسلم ۲۶۴۳)
قرآن پاک ہمیں بتاتا ہے کہ یہ توغلط کاروں اورشرک کاارتکاب کرنے والوں کا شیوہ رہا ہے کہ وہ غیراللہ کی عبادت پراللہ تعالیٰ کی مشیت سے استدلال کرتے تھے، ارشاد الٰہی ہے:
مشرکین کہتے ہیں’’ اگراللہ چاہتا تو نہ ہم اورنہ ہمارے باپ دادا اس کے سواکسی اورکی عبادت کرتے اورنہ اسی کے حکم کے بغیر کسی چیزکوحرام ٹھہراتے، ایسے ہی بہانے ان سے پہلے کے لوگ بھی بناتے رہے ہیں، توکیا رسولوں پر صاف صاف بات پہنچا دینے کے سواکوئی اوربھی ذمہ داری تھی۔(النحل:۳۵)
سورۃ الزمر میں اللہ تعالیٰ نے واضح فرمایا ہے کہ لوگوں کے شرک وکفر سے اس کاکوئی نقصان نہیں ہے اس کی ذات توغنی اوربے نیاز ہے ارشادربانی کاترجمہ ہے:
’’اگر تم کفرکروگے تواللہ تم سے بے نیاز ہے، وہ اپنے بندوں کے لئے کفر کوپسند نہیں کرتا اور اگرتم شکر کروگے تووہ اس کو تمہارے لئے پسند کرتاہے...‘‘۔
اس آیت مبارکہ میں کفرکے بالمقابل ’’ایمان‘‘ کے بجائے شکر کی تعبیر اختیار کی گئی ہے جس سے یہ بتانا مقصود ہے کہ کفردرحقیقت ناشکری، احسان فراموشی اورکفر انِ نعمت ہے، نیز یہ کہ اللہ کی مشیت اورچیز ہے اوررہنا اور چیز۔
پورے قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ نے کہیں یہ نہیں فرمایا ہے کہ وہ ایمان وعمل صالح سے موصوف کسی انسان کو اپنی مشیت سے دوزخ میں ڈال دے گا، بلکہ اس نے اپناقانونِ جزا وسزا اس طرح کے اسلوب میں بیان کیاہے۔
درحقیقت جو مجرم بن کراپنے رب کے پاس حاضر ہوگا اس کے لئے جہنم ہے جس میں وہ نہ جیے گا نہ مرے گا اورجو اس کے حضور مومن کی حیثیت سے حاضر ہوگا جس نے نیک عمل کئے ہوں گے، توایسے لوگوں کے لئے بلند درجات ہیں سدا بہار باغات ہیں جن کے نیچے نہریں بہ رہی ہوں گی، ان میں وہ ہمیشہ رہیں گے اوریہ ہے جزا اس شخص کی جوپاکیزگی اختیار کرے‘‘۔(طہ:۷۴۔۷۶)
اللہ تعالیٰ کاعلمِ ازلی، اس کی مشیت، اس کی تقدیر اورقضا وقدرایک ہی حقیقت کی مختلف تعبیریں ہیں، اوران میں اوراللہ تعالیٰ کی عطاکردہ اس آزادئ ارادہ اوراس آزادئ عمل میں کوئی تضاد نہیں ہے جواس نے انسانوں کوعطا کی ہے۔
چونکہ اللہ تعالیٰ اس کائنات کا خالق اوررب ہے اس لئے اس کائنات کی ہرچیز کے بارے میں اس کے وجود سے پہلے اس کا علم ہونا ضروری ہے عقائد کی زبان میں ہم اس بات کو یوں کہتے ہیں:دنیا کی تخلیق سے پہلے وہ خالق تھا، کائنات کووجود بخشنے سے پہلے وہ رب تھا اوراپنی مخلوقات کوپیداکرنے سے پہلے اس کو علم تھا کہ وہ کیاکریں گے، کیونکہ خلق، ربوبیت اورعلم اس کی صفات ہیں اوروہ جن صفات سے موصوف ہے وہ سب ازلی ہیں‘‘۔
تقدیر کے مسئلے میں اسلامی عقیدے کا خلاصہ درج ذیل ہے:
۱۔ تقدیر اللہ تعالیٰ کے رازوں میں سے ایک ایسا راز ہے جس کواللہ تعالیٰ نے اپنے لئے خاص کرلیاہے، اس سے اس کے حددرجہ مقرب بندے بھی آگاہ نہیں ہیں، نہ فرشتے اورنہ رسول۔
۲۔تقدیر کے مسئلے میں کھوج کر ید اوربحث ومباحثہ کاحاصل حیرانی اورتذبذب کے سواکچھ نہیں، کیونکہ یہ عقل کی رسائی اورگرفت سے باہرہے، اسی وجہ سے حدیث میں اس سے نہایت سختی کے ساتھ روک دیاگیا ہے، چنانچہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ہم تقدیر کے مسئلے میں بحث کررہے تھے کہ ہمارے درمیان رسول اللہﷺ تشریف لے آئے اورہماری باتیں سن کر آپ کا چہرۂ مبارک غصے سے اس طرح سرخ ہوگیا گویا آپ کے رخساروں پرانار کے دانے نچوڑدئے گئے ہوں اورآپ نے فرمایا:
’’کیا تمھیں انہی باتوں کاحکم دیاگیا ہے؟ کیا میں اسی لئے تمہاری طرف رسول بناکر بھیجاگیا ہوں؟تم سے پہلے کی قومیں بھی جب اس مسئلے میں بحث ومباحثہ کرنے لگیں تو ہلاک ہوگئیں، میں تم پرلازم کرتا ہوں کہ اس مسئلے میں جھگڑا نہ کرو‘‘۔(ترمذی :۲۱۳۳)
۳۔انسانوں سے وابستہ اوران سے نسبت رکھنے والے اعمال کی دوقسمیں ہیں،ایک قسم توان اعمال کی ہے جن میں ان کو اختیارحاصل ہے اوردوسری وہ جن میں وہ ارادہ واختیار نہیں رکھتے۔
جن اعمال میں انسان مغلوب الارادہ اورغیرمختارہے، ان میں اس کی پیدائش ، وفات، طویل اورپستہ قدہونا، رنگ، جنس اورخوبصورتی اوربدصورتی داخل ہے۔
رہے وہ اعمال جن میں انسان ارادہ واختیار رکھتا ہے، اس کا حرکت کرنا، چلنا بیٹھنا، بات کرنا، خاموش رہنا، کسب معاش کے لئے تگ ودوکرنا، خیر اورنیکی کے کام کرنا، برے اعمال اوردنگہ وفساد کا ارتکاب کرنا وغیرہ ہیں، یہ ایسے اعمال ہیں جن کے بارے میں ہرانسان اپنی فطرت اورمزاج سے یہ محسوس کرتا ہے کہ وہ ان کے کرنے اورنہ کرنے دونوں میں مختارہے۔
۴۔بندوں کومشیت اورقدرت بھی حاصل ہے ،ارشاد الٰہی ہے:(وقل الحق من ربکم فمن شآء فلیؤمن ومن شآء فلیکفر)اے نبی! کہدو، حق تمہارے رب کی طرف سے ہے، سوجس کاجی چاہے ایمان لائے، اورجس کا جی چاہے کفرکرے۔(الکہف:۲۹)
اورسورۃ التغابن میں ارشاد ربانی ہے:(فاتقوا اللہ ما استطعتم)اپنے مقدوربھراللہ سے ڈرو۔(۱۶)
یہ دونوں آیتیں یہ صراحت کررہی ہیں کہ بندوں کومشیت بھی حاصل ہے اورقدرت بھی، لیکن ان کی یہ مشیت اورقدرت اللہ تعالیٰ کی مشیت کے تابع ہے:(وما تشاؤون إلا أن یشاء اللہ رب العالمین)اورتم نہیں چاہ سکتے مگریہ کہ اللہ رب العالمین چاہے۔(التکویر:۲۹)
یہاں یہ بتانا تحصیل حاصل ہے کہ اللہ تعالیٰ کی مشیت کے تابع ہونے سے بندے کی مشیت معدوم نہیں ہوتی، قرآن جوکچھ بتانا چاہتا ہے وہ یہ ہے کہ بندے کی مشیت بے لگام نہیں ہے اوراگر اس کی مشیت اللہ تعالیٰ کی مشیت کے تابع نہ ہوتی اور ہرانسان کویہ قدرت حاصل ہوتی کہ جوکچھ وہ کرناچاہے کرگزرے توساری دنیا کا نظام درہم برہم ہوجاتا۔
۵۔ تقدیر سابق پرتکیہ کرکے عمل سے کنارہ کشی جائزنہیں ہے، کیونکہ صحابۂ کرام نے رسول اللہ ﷺ سے عرض کیا، اے اللہ کے رسول! کیاہم پہلے جوکچھ لکھ دیاگیا ہے اس پربھروسہ کرلیں اورعمل ترک نہ کردیں؟ تورسول اللہﷺ نے فرمایا:
’’تم لوگ عمل جاری رکھواس لئے کہ ہرشخص کے لئے وہی راہ آسان کردی گئی ہے جس کے لئے اس کی تخلیق ہوئی ہے ،اگروہ نیک بخت ہے تواس کے لئے سعادت و کامرانی کی راہ پرچلنا آسان کردیاجائے گا اوراگروہ بدبخت ہوگا تواس کے لئے شقاوت وبدبختی کی راہ پرچلنا آسان کردیاجائے گا، آپ نے یہ آیتیں تلاوت فرمائیں:
جس نے مال دیا، اللہ کا تقویٰ اختیار کیا اوربھلائی کوسچ مانا اس کوہم آسان راستے کے لئے سہولت دیں گے جس نے بخل کیا، بے نیازی برتی اوربھلائی کوجھٹلایا اس کوہم سخت راستے کے لئے سہولت دیں گے ۔(الیل:۵)
۶۔یہ دنیادارالعمل اوردارالاسباب ہے جوقومیں اللہ تعالیٰ کے فراہم کردہ اسباب ووسائل کواستعمال میں لاتی ہیں اللہ تعالیٰ ان کو عروج وسربلندی سے نوازتا ہے دنیا کے ایک بہت بڑے رقبہ پر۶صدیوں تک حکومت کرنے والے مسلمانوں نے جب اللہ تعالیٰ کے عطاکردہ اورفراہم کردہ اسباب ووسائل کواستعمال میں لاناترک کردیا اورتقدیرالٰہی اورمشیتِ خدا وندی کی غلط تاویلیں کرنے لگے تونہ صرف ان سے اقتدارچھین لیاگیا، بلکہ وہ عروج وسربلندی سے انحطاط وتنزل کی پستی میں پھینک دئے گئے اورروٹی، ٹوپی اور جوتی تک میں اغیار کے محتاج ودست نگر ہوگئے، کیونکہ اللہ تعالیٰ کا یہ فیصلہ ہے کہ:
’’اللہ کسی قوم کے حال کو نہیں بدلتا جب تک وہ خود اپنے اوصاف کو نہیں بدل دیتی‘‘۔(الرعد:۱۱)
۷۔دنیا میں قدرتی آفات بھی مشیت الٰہی سے آتے ہیں اوروبائی امراض اوربیماریوں کے پیچھے بھی تقدیرالٰہی کا رفرماں ہوتی ہے، مگران سے بچاؤ کی تدبیر مشیت الٰہی کے خلاف نہیں ہے، شام کے سفرمیں جب خلیفۂ دوم حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ ’’سرغ‘‘ کے مقام پرپہنچے توان کو خبرملی کہ شام میں شدید’’طاعون‘‘ پھیلا ہوا ہے آپ نے مہاجرین اورانصار کے لوگوں سے اس مسئلے میں مشورہ کیا کہ آیا وہ طاعون زدہ علاقے میں داخل ہوں یاواپس جائیں تولوگ کوئی دوٹوک مشورہ نہ دے سکے اور اختلاف میں پڑگئے، اس پرآپ نے فتح مکہ کے موقع پرمسلمان ہونے والوں سے مشورہ کیا توانھوں نے متفقہ طورپر واپسی کا مشورہ دیا اس لئے حضرت عمر نے سفرجاری رکھنے کے بجائے واپسی کا اعلان کردیا اس پرجلیل القدرصحابی اورشام کی فوج کے قائد حضرت ابوعبیدہ بن جراح رضی اللہ عنہ نے فرمایا:کیا اللہ کی تقدیر سے بھاگ رہے ہو؟عمر نے اس کانہایت بلیغ اوراسلامی عقیدہ کاترجمان جواب دیا ،فرمایا:’’نعم نَفِرُّ من قدراللّٰہ إلی قدراللّٰہِ‘‘ہاں ہم اللہ کی تقدیر سے اللہ کی تقدیر کی طرف بھاگ رہے ہیں‘‘۔
بعدمیں حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ آئے توانھوں نے اس مسئلے میں رسول اللہﷺ کی ایک حدیث سنائی کہ،اگر تم کسی زمین میں طاعون کی خبرسنو تواس میں داخل مت ہو اوراگر کسی زمین میں،جس میں تم پہلے سے ہوطاعون پھوٹ پڑے، تواس سے مت نکلو‘‘۔(بخاری ۵۷۲۸،۵۷۲۹، ۵۷۳۰، مسلم ۲۲۱۹)
۸۔ اوپر میں یہ بتا چکاہوں کہ تقدیرایک ایسا غیبی معاملہ ہے جس کے کسی بھی گوشے سے اللہ تعالیٰ نے اپنے کسی بھی بندے کومطلع نہیں فرمایا ہے حتی کہ کوئی بھی انسان خوداپنی تقدیر کے بارے میں بھی کچھ نہیں جانتا، جبکہ ہرانسان یہ جانتا ہے کہ اس سے کون سا عقیدہ وعمل مطلوب ہے اورکون سانہیں اوریوم الحساب میں ہرشخص سے صرف اس کے عقیدہ وعمل کے بارے میں سوال ہوگا اس کی تقدیر کے بارے میں نہیں ایسی صورت میں تقدیر کے مسئلے میں کوئی ذہنی یاقلبی خلش شیطانی ہتھکنڈوں کے سوا کیاکچھ اورہوسکتی ہے؟جبکہ دنیاوی امورمیں یہ خلش پیدانہیں ہوتی اورکاروبار حیات جاری رہتا ہے۔

***

No comments:

Post a Comment