Sunday, February 20, 2011

مولاناعبدالصبور ندویؔ

مدیر سہ ماہی،’’ترجمان السنۃ‘‘رچھا

أسالیب تفسیر

أسالیب ،اسلوب کی جمع ہے،اسلوب کی تعریف ہے، مفسرکا وہ طریقہ یامنہج جواسے اس کے ہدف تک لے جائے۔
مفسر، تفسیر کرتے وقت ایک خاص طریقہ اختیار کرتاہے جودوسرے مفسرسے مختلف ہوسکتا ہے، جیسے کوئی مفسر پہلے نص ذکر کرتا ہے پھرمفردات،پھر آیات کااجمالی معنیٰ بیان کرتا ہے ،پھراس سے احکامات مستنبط کرتا ہے اورترتیب آیات کالحاظ کرتے ہوئے ایک ایک آیت کی تفسیر بیان کرجاتا ہے، بعض دوسرے مفسرین نص ذکرکرنے کے بعدمفردات کے معانی اورآیت کے اجمالی معنیٰ کو مدغم کردیتے ہیں اوربعض مفسرین ترتیب قرآن کالحاظ کئے بغیر کسی ایک موضوع کے تحت تمام آیات یکجا کردیتے ہیں، کبھی مفسراپنی رائے کااظہار بھی کرتا ہے اورکبھی مختلف آراء کے درمیان موازنہ کرتے ہوئے کسی رائے کوراجح بھی قراردیتا ہے، تواس طرح طریقے اوراسلوب مختلف ہوجاتے ہیں، اوران کی تعداد چارتک پہونچتی ہے:
(۱) تفسیر تحلیلی (۲) تفسیراجمالی (۳) تفسیر مُقَارِن (۴) تفسیر موضوعی
۱۔تفسیرتحلیلی:۔ وہ اسلوب ،جہاں مفسر مصحف کی ترتیب کے مطابق بعض آیات کو یکجا کرکے یا پوری سورت یا پورے قرآن کولے کرتفسیرکرتاہے، ہرلفظ کا معنیٰ واضح کرتاہے، آیات میں موجود بلاغت کی شکلیں بیان کرتاہے، اسباب نزول آیت میں وارد احکام، اور اس کے تفصیلی معنی کی توضیح کرتاہے۔
خصوصیات:۔(۱)تفسیر کایہ قدیم ترین اسلوب ہے، تفسیرجب اپنے ابتدائی مرحلے میں تھی، اس وقت مفسرین چند آیتیں یکجاکرکے، ہرناحیہ سے اس کے معانی کی معرفت حاصل کرتے اورلوگوں کے سامنے اس کی توضیح کرتے، پھرآگے بڑھتے، حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کاکہناتھا:’’ہم میں سے کوئی شخص جب دس آیتوں کی تفسیرسیکھتا ، تواس وقت تک وہ آگے نہیں بڑھتا تھا، جب تک اس کے معانی کو اچھی طرح سمجھ نہیں لیتا اوراس پرعمل نہ کرلیتا‘‘۔(تفسیر طبری:۱؍۸۰)
مشہور تابعی ابوعبدالرحمن السلمی رحمہ اللہ کہتے ہیں مجھے جن لوگوں نے قرآن پڑھایا اورسکھایا ،وہ نبیﷺ کے تربیت یافتہ تھے اورکہتے تھے کہ جب دس آیات پڑھتے تواس کے معانی کے ساتھ عمل کرنا بھی سیکھتے، توہم نے قرآن اورعمل ایک ساتھ سیکھا۔(تفسیر طبری۱؍۸۰) اورتابعین نے بھی اسی طرزپر تفسیر سیکھی اوران کے اساتذہ صحابہ ہی تھے۔
(۲)اکثراورمشہور تفاسیر کا اسلوب یہی رہا ہے، قدیم زمانے میں اورآج بھی بیشتر مؤلفین یہی اسلوب اختیاکرتے ہیں ،جیسے تفسیر طبری، خازن، ثعلبی، واحدی، بغوی، ابن عطیۃ، شوکانی، اورابن کثیر وغیرہم۔
(۳) اس اسلوب میں اختصار اورطویل دونوں طرح کی تفسیریں مل جائیں گی، کسی مفسر نے قرآن کی پوری تفسیر صرف ایک جلد میں کردی اورکسی نے تیس سے زائد جلدوں میں کیا۔
(۴) مفسرین نے اس اسلوب کے اختیارکرنے میں منہج کا خیال نہیں رکھا، ان کے درمیان ایک بڑا منہجی فرق صاف نظرآتا ہے، کسی نے تفسیر بالمأثور اوراہل سنت والجماعت کا منہج اختیار کیا، توکسی نے تفسیر بالرأی کے علاوہ دوسرے راستے بھی اپنائے، کسی نے اپنی ذاتی دلچسپی کے چلتے تاریخ، قصص اور اسرائیلیات کی جھڑی لگادی، توکسی نے بلاغت کے وجوہ بیان کرنے پر پورا وقت صرف کردیا، کسی نے سائنسی تشریح کرنی مناسب سمجھا توکسی نے فقہی احکامات پرپوری توجہ صرف کی، کسی نے نحوی وصرفی مسائل کو اجاگر کرنے کی کوشش کی، تو بعض دوسروں نے علم کلام، فلسفہ اورصوفیوں کی مصطلحات پربحث کی۔
یہ خیال آسکتا ہے کہ اتنے مختلف راستے اورمناہج، پھربھی تفسیر تحلیلی، ہاں، اس اسلوب کے رنگ مختلف ضرورہوسکتے ہیں، لیکن چونکہ ایک ایک آیت کی علیحدہ تفسیر کا اہتمام کیاگیا ہے، اگرچہ وہ کسی بھی منہج کے مطابق ہوں، انہیں تفسیر تحلیلی ہی کہاجائے گا۔
۲۔تفسیراجمالی:۔ ایسااسلوب جس میں مفسرکئی آیتوں کویکجاکرکے مصحف کی ترتیب کے ساتھ اجمالی معنیٰ بیان کرتا ہے اورآیات کے اہداف کاخلاصہ پیش کرتا ہے، آسان عبارت کااہتمام ہوتاہے تاکہ پڑھنے اورسننے والے دونوں آسانی سے سمجھ سکیں۔
دوسرے لفظوں میں کہہ سکتے ہیں کہ مفسر، قرآن کی ترتیب وتسلسل کے مطابق ایک ایک سورت کواختیار کرتاہے، پھرہرسورت میں آیات پر مشتمل کئی مجموعے بناتاہے، جہاں وہ ہرمجموعہ کی اجمالی تفسیر اس انداز میں کرتا ہے کہ اس کے معانی اورمقاصد کھل کرسامنے آجائیں، کبھی وہ بعض الفاظ کو نص اورتفسیر کے درمیان نقطۂ اتصال بناتا ہے اورثابت کرتا ہے کہ اس کی تفسیر نص قرآن کے سیاق ہی میں ہے۔
تفسیراجمالی کومعنوی ترجمہ بھی کہاجاسکتا ہے، اس لئے کہ مفسریہاں لفظی بحث نہ کرکے معنوی مفہوم پرتوجہ دیتا ہے اورحسب ضرورت سبب نزول اورقصوں کوبھی ذکر کرتا ہے۔
یہ اسلوب عموماً آج کل ریڈیو اورٹیلی ویژن چینلوں میں دیکھنے کو ملتا ہے، جہاں مسائل واحکام اوراختلافی بحث سے صرف نظر کرکے لوگوں کے لئے اجمالی مفہوم بیان کیاجاتا ہے جوعوام الناس کے ذہن وفکر کے عین مطابق ہوتاہے۔
اس اسلوب میں بھی بہت سی تفسیریں لکھی گئیں اورلکھی جارہی ہیں،مثال کے طورپہ ملاحظہ ہو:
۱۔تفسیر کلام المنان عبدالرحمن بن سعدی
۲۔ التفسیر فی أحادیث التفسیر محمدالمکی الناصری
۳۔ تفسیر الأجزاء العشرۃ الأولیٰ محمود شلتوت
۳۔ تفسیر مُقَارِنْ:۔ وہ اسلوب جس میں مفسرکسی آیت یا متعددآیات کی تفسیر کا ارادہ کرتا ہے تووہ آیت کے موضوع سے متعلق نصوص اکٹھاکرتا ہے، چاہے وہ قرآن میں دوسری جگہ وارد آیتیں ہوں، یا موضوع سے متعلق احادیث نبویہ ہوں، چاہے وہ صحابہؓ، تابعین اورمفسرین کے اقوال وآراء ہوں یا اس کے متعلق آسمانی کتابوں میں وارد باتیں ہوں، سب کو مفسریکجاکرتا ہے، پھران نصوص اورآراء کے درمیان موازنہ کرتاہے، سب کے دلائل پیش کرتا ہے، اور قوی دلیل کی بنیاد پر (جسے مفسر نے سمجھاہو) بعض رائے کو راجح اوربعض کو مرجوح قراردیتاہے۔
ظاہر ہے آراء ونصوص کے درمیان موازنہ اوراس میں پیداہونے والے اختلافات کوختم کرنے کی کوشش کرنا، آسان کام نہیں ہے مگر اس اسلوب نے مفسرین کے لئے راہیں کشادہ کردیں اورانھوں نے مقارنہ وموازنہ کاکام انجام دیا، موازنہ ومقارنہ کی نوبت کیوں پڑی؟ آیئے اس کی وجہ جاننے کی کوشش کرتے ہیں:
۱۔ قرآن کی ایک نص کاموازنہ دوسری قرآنی نص سے کرنا، چاہے دونوں نصوص اپنے معانی میں متفق ہوں یا ظاہر میں مختلف ہوں، مگرموضوع ایک ہی ہو، اس قسم کو اصطلاح میں علم تأویل مشکل القرآن کہتے ہیں، تودونص قرآن کے درمیان کاموازنہ ہوتا ہے تاکہ معانی بالکل واضح ہوجائیں، کیونکہ کبھی ایسا ہوتا ہے کہ قرآن کی ایک آیت کسی مسئلہ کو ادھورا بیان کرتی ہے، مگردوسری جگہ دوسری آیت اس مسئلے کومکمل کردیتی ہے، دونوں نص کی عبارتیں مختلف ہوتی ہیں، کسی آیت کا ایک ہی موضوع پر ذکر کہیں اختصار کے ساتھ ہواتودوسری جگہ اس کی تفصیل ہوتی ہے، کہیں عموم کاذکر ہے تودوسری جگہ اسی حکم کو خاص بھی کردیاگیا ہے، وغیرہ وغیرہ، صحابہ کے تفسیری منہج میں اس کی مثالیں بیان کی جاچکی ہیں، اسی طرح قصوں کو بھی یکجاکردیا جاتا ہے، جس کے نصوص قرآن میں جابجابکھرے ہوتے ہیں، اس سے واقعات کے ربط وتسلسل میں بڑی مددملتی ہے۔
۲۔ نص قرآنی اور حدیث نبوی کے مابین موازانہ، حدیث رسول ﷺ قرآنی نصوص کے ساتھ عموماً متفق ہوتی ہے، کبھی کبھی ظاہری اختلاف دیکھنے کومل سکتا ہے، تاویل مشکل القرآن اورمشکل الحدیث کے متعلق کتابیں ملاحظہ کی جاسکتی ہیں ۔(دراسات فی التفسیر الموضوعی،د؍أحمد العمری ص:۴۶)
۳۔کبھی نص قرآنی اورتوریت وانجیل کے نصوص کے مابین موازنہ کیاجاتا ہے، تاکہ قرآن کی فضیلت، اس کی امتیازی خصوصیات اورسابقہ آسمانی کتابوں پراس کی سطوت کاثبوت دیاجاسکے، یہاں مفسر تحریف وتغییر کے اسباب بھی بیان کرتا ہے، تحریف کے نتیجہ میں باہمی اختلافات کابھی ذکرہوتا ہے، وہ ان واقعات کی نشاندہی کرتا ہے جوہوبہو قرآن اورکتب سابقہ میں وارد ہوئے ہیں، اس انداز کی تالیفات کثرت سے میسر ہیں، مگرجس کوسب سے زیادہ شہرت ملی وہ مورس بوکائے کی تالیف’’قرآن توریت، بائبل اورسائنس‘‘ہے اس کے علاوہ ابراہیم خلیل کی تالیف’’ محمد ﷺ توریت ،انجیل اورقرآن میں‘‘کوبھی شہرت ملی۔
۴۔ کبھی مفسرین کے اقوال کے مابین موازنہ ہوتا ہے، مفسر ایک ہی آیت کے ضمن میں مختلف مکاتب فکر کے مفسرین کی رائے ذکرکرتا ہے، جہاں ہرایک کی دلیل کا ذکر،اس پرجرح ونقد اورراجح ومرجوح کے بیان کاسلسلہ بھی چلتا ہے۔
قدیم مفسرین میں یہ انداز امام المفسرین علامہ طبری رحمہ اللہ نے اپنایاہے، جہاں وہ اہل رائے وتأویل کے افکار ودلائل بیان کرکے آراء کے مابین موازنہ کرتے ہیں، پھرکسی کو ضعیف اورکسی کو راجح قرارد یتے ہیں۔
۴۔تفسیر موضوعی:۔یہ تفسیر کا وہ اسلوب ہے جہاں مفسرنہ تومصحف کی ترتیب کاخیال رکھتا ہے اورنہ ہی ہرآیت کی تفسیربیان کرتا ہے، ایک موضوع کے تحت قرآن کی آیات یکجاکرکے اس کی تفسیربیان کرتاہے، اس کی تعریف یوں کی جاسکتی ہے:کسی ایک مسئلہ یاموضوع کے تحت قرآنی آیات کا جمع کرنا، پھراس کی ایک ساتھ تفسیر کرنا، اورقرآنی مقاصدکی توضیح کے ساتھ احکام مستنبط کرنا، (کبھی مفسرصرف ایک سورت تک ہی محدود رہتا ہے)
اسلام کے ابتدائی عہد میں ہی تفسیر موضوعی کی بنیادپڑچکی تھی، مگراصطلاح میں اس اسلوب کانام چودھویں صدی ہجری میں پڑا، اورجامع ازہرمصر میں سب سے پہلے تفسیر موضوعی کوایک مضمون کی حیثیت سے شامل نصاب کیاگیا اور اب تمام بلاد عرب میں بحیثیت مستقل مضمون پڑھایاجارہا ہے۔
تفسیر موضوعی کی شکلیں:۔سلف صالحین سے تفسیر موضوعی کی تین شکلیں ثابت ہیں:
۱۔ قرآن کی تفسیر صرف قرآن سے:۔ ایک موضوع کے تحت آیات کوجمع کریں اورآیات کی تفسیر صرف آیات سے کریں، یہ اعلیٰ درجہ کی تفسیر ہے، اللہ کے نبیﷺ صحابہ کے سامنے اکثرقرآن کی تفسیر قرآن سے ہی کرتے، مثال کے طورپہ مفاتح الغیب کی تفسیر پوچھی گئی (وَعندہ مفاتح الغیب لایعلمھا إلاَّ ھو)(الأنعام:۵۹)توآپ ﷺ نے فرمایا: غیب کی پانچ کنجیاں ہیں(إن اللہ عندہ علم الساعۃ ویُنَزِّلُ الْغَیْثَ وَیَعْلَمُ مَافِی الأرْحَام وَمَاتَدْرِی نَفْسٌ مَا ذَا تَکْسِبُ غَدًا، وَمَا تَدْرِی نَفْسٌ بأیِّ أرضٍ تَموتُ، إنَّ اللّٰہَ عَلِیْمٌ خَبِیْرٌ)(لقمان: ۳۴)اللہ تعالیٰ کے پاس قیامت کا علم ہے، بارش بھی وہی برساتا ہے، رحم مادرمیں کیا (بچہ،بچی) ہے؟ اس کا علم بھی صرف اللہ کو ہے، انسان کل (آئندہ) کیاکمائے گا؟ کس زمین پر اس کی موت ہوگی؟ انسان نہیں جانتا(لیکن) اللہ کو سب معلوم ہے اوراس کی خبربھی ہے۔
صحابۂ کرام متشابہہ آیات کو بھی یکجا کرکے ایک آیت کی دوسری آیت سے تفسیرکی کوشش کرتے، اورجب کہیں بات سمجھ میں نہ آتی، فوراً رسول اللہﷺ سے رجوع کرتے اورآپ ﷺ اس کی تفسیر بیان کردیتے۔
۲۔ احکام سے متعلق آیات کی تفسیر:۔قدیم مفسرین کی ایک جماعت نے فقہی احکام ومسائل سے متعلق خصوصی تفسیر کا اہتمام کیاہے مگرتفسیر موضوعی کا اسلوب ترک نہیں کیا، بعض مشہور تفاسیر اس ضمن میں درج ذیل ہیں:
۱۔ الجامع لأحکام القرآن للقرطبی
۲۔احکام القرآن للجصّاص
۳۔ أحکام القرآن لابن العربی
۴۔ نیل المرام من تفسیر آیات الأحکام لمحمد صدیق حسن
۳۔ أشباہ ونظائر:۔ مفسر،قرآن کریم کے کسی ایک کلمہ(لفظ) کو اختیار کرتا ہے، پھراس لفظ کی پورے قرآن میں نشاندہی کرتا ہے، اورجہاں جس معنیٰ میں استعمال ہواہے اس کی توضیح کرتا ہے اس طرح قاری کو قرآنی کلمات کی مختلف دلالات اورمعانی کا علم ہوجاتا ہے، اس سلسلہ کی چند تفاسیر ملاحظہ فرمائیں:
۱۔ الأشباہ والنظائر فی القرآن الکریم، مقاتل بن سلیمان
۲۔ التصاریف، یحیٰ بن سلام
۳۔ بصائر ذوی التمییز فی لطائف الکتاب العزیز، الفیروزآبادی
۴۔ نزھۃ الأعین النواظرفی علم الوجوہ والنظائر، ابن الجوزی
عموماً تفسیر موضوعی کا یہ رنگ لغوی پہلو پر محیط ہوتا ہے، جہاں کلمات کی وحدت کے ساتھ اس کے مختلف معانی پر غوروخوض ہوتاہے۔
۴۔ تفسیری اسٹڈیز:۔ علمائے تفسیر صرف قرآن کے لغوی معانی کے بیان پراکتفاء نہیں کرتے، بلکہ ایک موضوع کے متعلق آیات جمع کرکے اس کی تحقیق کرتے، گہرائی کے ساتھ مطالعہ کرتے پھرآیات کے اصول ومعانی بیان کرتے، جیسے نسخ، قَسم، امثال وغیرہ موضوعات پر آیات جمع کرتے، کسی نے ناسخ اورمنسوخ سے متعلق تمام آیتیں یکجاکردیں، اوردلائل سے واضح کیا کہ ناسخ کون ہے اورمنسوخ کون؟ کسی نے ان آیات کوجمع کیا جن کے مابین ظاہری تعارض نظرآتا تھا، پھر ان کی توضیح کی اورتعارض کو دورکیا، کسی نے امثال وحِکَمْ سے متعلق آیات جمع کیں، توکسی نے آیات قَسم جمع کی، اوران آیات کے مقاصد پربھرپور روشنی ڈالی، اس کڑی کی چند کتابیں ملاحظہ ہوں:
۱۔ الناسخ والمنسوخ، أبوعبیدۃ القاسم بن سلام
۲۔ تأریخ مشکل القرآن، ابن قتیبۃ
۳۔ أمثال القرآن، الماوردی
۴۔ التبیان فی أقسام القرآن، ابن القیم
۵۔ مجازالقرآن، العزّ بن عبدالسلام
تفسیرموضوعی کی ان شکلوں کو جاننے کے بعدیہ واضح ہوگیا کہ تفسیر موضوعی کی اصطلاح اگرچہ بعدکی ہے لیکن صحابہ نے اورعلمائے سابقین نے اس پربہت کام کیاہے، عصرحاضرمیں اس موضوع پرخوب کام ہورہا ہے اب توقرآنی لائبریری بھی ڈی.وی.ڈی. میں دستیاب ہے ،جہاں اس موضوع پربے شمار کتابیں موجود ہیں، یقیناًتفسیر موضوعی کا میدان انتہائی زرخیز ہے، اب بھی باحثین اورعلوم القرآن سے شغف رکھنے والوں کے لئے اس میدان میں کام کی گنجائش ہے، اورمشہور فرانسیسی مستشرق جول لابوم کی یہ کتاب’’تفصیل آیات القرآن الکریم‘‘ مرجع کا کام کرے گی، انھوں نے قرآن کریم کی آیات کو 350موضوعات کے تحت جمع کردیا ہے، اس کی تفسیرنہیں کی ہے، لیکن اس میں مزید موضوعات کا اضافہ بھی ہوسکتا ہے، یادرہے اب تک تفسیر موضوعی سے متعلق کوئی ایسی کتاب سامنے نہیں آئی ہے جوپورے قرآن پرمشتمل ومحیط ہو۔
تفسیر موضوعی کے اقسام:
تفسیر موضوعی کی تین قسمیں بنتی ہیں:
پہلی قسم:۔ مفسر‘قرآن کریم میں موجود کسی ایک لفظ کواختیار کرتاہے، پھراس کے متعلق تمام آیات یکجا کرتا ہے، چاہے وہ اصل کلمہ ہوں یا اس کے مشتقات ، پھر اس کی تفسیر کرتا ہے اورقرآنی کلمہ کے مدلولات سے متعدد معانی کا استنباط کرتا ہے، جیسے ’’الحق‘‘ ’’العبادۃ‘‘ وغیرہ۔ اشباہ ونظائر کی تفسیری کتب نے اسی رنگ کا اہتمام کیاہے مگروہ صرف لفظی دلالت تک محدود رہتے ہیں، لیکن بعض مفسرین نے اس دائرہ کو وسیع کیا، اورمختلف مقامات پروارد ایک ہی کلمہ کے مابین ربط کوواضح کیا، اگرچہ ہرجگہ اس کلمہ کا معنی مختلف تھا، پھربلاغت اوراعجاز قرآنی کے وجوہات بھی بیان کئے، اخیرمیں نہایت دقیق استدلالات کے ذریعہ اس قسم کی تفسیر کو نیا آہنگ عطاکیاگیا۔
چند تفسیروں کے اسماء ملاحظہ کریں:
۱۔ کلمۃ’’الحق‘‘ فی القرآن الکریم،للشیخ محمدبن عبدالرحمن الراوی
۲۔المصطلحات الأربعۃ فی القرآن(الالہ ،الربّ،العبادۃ،الدین)لأبی الأعلی المودودی۔
۳۔ ’’الحمد‘‘ فی القرآن الکریم،للدکتور محمدخلیفۃ
۴۔ تأملات حول وسائل الإدراک فی القرآن الکریم(الحس، والعقل، والقلب، واللب،والفؤاد،للدکتور محمدالشرقاوی.
دوسری قسم:۔ کسی ایک مسئلہ یا قضیہ کے متعلق تمام آیات کا یکجاکردینا، پھراس کو مختلف اسالیب کے ذریعے پیش کرنا، جمع کردہ آیات کا تجزیہ، اس پرمناقشہ اوربحث وتعلیق کے بعد قرآن کریم کا حکم بیان کرنا۔
تفسیر موضوعی کی یہ وہ مشہور قسم ہے، جس پر سب سے زیادہ کتابیں لکھی گئیں، اوربحث وتحقیق کابہت بڑاکام ہواہے، اس میں مفسر کوصرف موضوع سے بحث ہوتی ہے ،علم قراء ات، اعراب، بلاغت وغیرہ سے کوئی واسطہ نہیں ہوتا، جب مطلقاً تفسیر موضوعی کانام لیا جاتا ہے، تویہی قسم مراد ہوتی ہے۔
اس قسم کے متعلق ہرزمانے میں تفاسیر لکھی گئیں، واضح رہے کہ اعجاز قرآنی، ناسخ منسوخ، امثال وقصص، جدل وقسم کے موضوعات بھی اسی قسم سے تعلق رکھتے ہیں، دورحاضرمیں اس قسم پر مزید موضوعات کااضافہ ہواہے، معاشرت، اقتصاد اورسیاست پربھی کام ہواہے، چندکتابوں کے نام ملاحظہ ہوں:
۱۔ آیات الجھاد فی القرآن الکریم :کامل سلامۃ الدُقس
۲۔ المال فی القرآن :محمود غریب
۳۔ دستور الأخلاق فی القرآن :ڈاکٹر محمدعبداللہ دراز
۴۔القرآن والطب :محمد وصفی
۵۔ التربیۃ فی کتاب اللہ :محمود عبدالوہاب
۶۔التفسیر العلمی للآیات الکونیۃ فی القرآن:حنفی أحمد
تیسری قسم:۔ کسی ایک موضوع پرکسی ایک سورت میں بحث وتحقیق کرنا، یہاں مفسر صرف ایک سورت کے دائرے میں رہ کرتفسیر بیان کرے گا۔

یہ حقیقت ہے جب مفسر کسی موضوع پرایک ہی سورت کے اندراپنے کومحدود کرلے گا، تودائرہ کاتنگ ہونا، لازم آئے گا، حالانکہ قرآن کریم کی ہرسورت اپنی علیحدہ شناخت اوراہمیت رکھتی ہے، اس کا ایک خاص ہدف ہوتا ہے، اس ہدف کی دقیق توضیح ،لطیف مناسبت اوربلاغی تصویر کومفسر عیاں کرتاہے۔

اس ضمن میں سید قطب رحمہ اللہ کی تفسیر کو امتیازی حیثیت حاصل ہے، سورتوں کے مقاصد اوراہداف کوبیان کرنے کا خصوصی اہتمام کیاہے، چنانچہ وہ ہرسورت کے لئے ایک مقدمہ قائم کرتے ہیں، جس میں سورت کے موضوعات واہداف کی توضیح ہوتی ہے، پھروہ اسی محور کوسامنے رکھ کرتفسیر کرتے ہیں، انھوں نے تفسیر کو انوکھا رنگ عطاکیا، جو کہیں اورنہیں ملتا ہے۔

اس قسم کی چند تفسیریں ملاحظہ فرمائیں:

۱۔ تصور الألوھیۃ کما تعرضہ سورۃ الأنعام:ڈاکٹر ابراہیم الکیلانی

۲۔ قضایا العقیدۃ فی ضوء سورۃ قٓ: کمال محمد عیسیٰ

۳۔قضایا المرأۃ فی سورۃ النساء: ڈاکٹر محمد یوسف

۴۔ سورۃ الواقعۃ ومنھجھا فی العقائد:محمود غریب

تفسیر موضوعی کے اسالیب وخصوصیات بکثرت ہیں، اسی اختصار پر اکتفاکیا جارہا ہے۔

وصلی اللہ علی نبینامحمد وبارک علیہ وسلم تسلیما.

***

No comments:

Post a Comment