Saturday, February 19, 2011

بے غرض،بے لوث ہرخدمت کوکرجاتی ہے ماںDec-2010

راسیہ نعیم ہاشمی


بے غرض،بے لوث ہرخدمت کوکرجاتی ہے ماں

ایک ننھا بچہ اپنی ماں کے پاس باورچی خانے میں آیاجہاں وہ شام کاکھانا بنارہی تھی اوراسے ایک چٹھی حوالے کی،ماں نے چھٹی کھول کر پڑھی لکھاتھا:

*لان کی گھاس کاٹنے کے لئے.............................................۵روپئے

*کمرے کی صفائی کے لئے.................................................۵روپئے

*سوداسلف لاکردینے کے لئے.............................................۵روپئے

*آپ کی غیر موجودگی میں چھوٹے بھائی کی نگرانی کرنے کے لئے......۱۰روپئے

*امتحان میں اچھے نمبرات لانے کے لئے.................................۱۰ روپئے

جملہ................... .................................۳۵روپئے

ماں نے صفحہ پلٹا اوراس کے اوپرلکھا:

*تمہاری بیماری آزاری میں تمہارے لئے راتوں میں جاگنے ،تیمارداری کرنے اورتمہارے لئے دعائیں مانگنے کے لئے..................کوئی معاوضہ نہیں۔

*تمہاری نافرمانیوں کی وجہ سے مجھے پہنچنے والی تکالیف کے لئے....کوئی معاوضہ نہیں۔

*خوف سے بھری راتوں میں اپنی بانہوں کے محفوظ سہاروں سے تمہیں پُرسکون رکھنے کے لئے ..........کوئی معاوضہ نہیں۔

*تمہارے کھلونے ،کپڑوں اورکھانے کاخیال رکھنے کے لئے ......کوئی معاوضہ نہیں۔

*......توان تمام کوجمع کرنے کے بعدمیری محبتوں اورخدمتوں کے لئے......کوئی معاوضہ نہیں

بچے نے جب ماں کی تحریر پڑھی تواس کی آنکھوں سے آنسورواں ہوگئے، وہ ماں سے لپٹ گیا، اس نے قلم اٹھایا اورکاغذپرلکھا:
اس بے لوث پیار کابے حد شکریہ جس کااحسان زندگی بھرچکایانہ جاسکے گا۔
یقیناًدنیامیں جتنے بھی رشتے ہیں ان سب میں ایک دوسرے کے لئے کوئی نہ کوئی غرض چھپی ہوتی ہے لیکن صرف ماں اورباپ کی محبت ہی بے غرض ہوتی ہے، خاص کرماں وہ ہستی ہوتی ہے جوکسی صلہ کی امید سے بے نیاز اپنی بے غرض وبے لوث چاہت لٹاتی رہتی ہے، جب کہ بچے ہردورمیں اس کے احسان کے بدلے میں ہمیشہ اسے تکلیف سے ہمکنار کرتے ہیں
جب چھوٹے ہوتے ہیں توچھوٹی چھوٹی نافرمانیاں اس کی دل آزاری کاسبب بنتی ہیں، نوجوانی میں اپنی من مانی کرکے اسے تکلیف پہنچائی جاتی ہے اورپھرجب وہ خودمختار ہوجاتے ہیں اورماں بوڑھی ہوجاتی ہے توگویا اس کی کوئی حیثیت ہی نہیں رہتی، چھوٹی چھوٹی ضرورتوں کے لئے اسے اپنے بچوں کے آگے ہاتھ پھیلانا پڑتاہے، کبھی تواس کی ضرورتوں کونظرانداز کردیاجاتاہے، اگرضرورتیں طوعاً وکرہاً پوری کربھی دی جائیں توایسے جیسے بہت بڑا احسان کیاجارہا ہو،کبھی اس کی چھوٹی موٹی خواہشات پوری کرنے کے لئے پیسہ نہیں ہوتا ،توکبھی اس کے پاس بیٹھ کر دلجوئی کرنے کے لئے وقت نہیں ملتا۔
ماں کی عظمت کو محض تحریروں وتقریروں کے ذریعہ بیان کرنے کا طریقہ کافی پراناہوچکاہے، ماں کی عظمت کس درجہ ہے یہ توآپ سب ہی جانتے اورمانتے ہوں گے لیکن صرف جان لینے یادل میں مان لینے سے بات نہ بنے گی، اب کی بار’’مدرس ڈے‘‘کے موقع پر اس عظیم ترین ہستی کے احسان کے بدلہ میں اسے یہ احساس دلائیں کہ آپ کو اس کی عظمتوں کااعتراف ہے، یہ صرف کہنے سے نہیں ہوگا،بلکہ اسے عمل کے ذریعہ ثابت کرکے دکھائیں، سب سے پہلے اپنی ماں کے احکام کوبلاچوں وچرابجالائیں، ان کی نافرمانی نہ کریں، اعلیٰ تعلیم حاصل کرکے ان کاسہارا بننے کی کوشش کریں، جب آپ اپنے پیروں پرکھڑے ہوجائیں تو انھیں بے سہارانہ کریں اورنہ ہی ملازماؤں وغیرہ جیسی بیساکھیوں کے حوالے کریں، ان کا اسی طرح سہارا بنیں جس طرح بچپن ولڑکپن میں وہ آپ کا سہاراہوا کرتی تھیں، کوئی ایسی بات نہ کریں جوان کی دل آزاری کا سبب بنتی ہو، حتی الامکان انھیں خوش رکھنے کی کوشش کریں، یادرکھیں ماں کی خوشنودی پرہی دنیا وآخرت کی کامیابی کادارومدار ہے کیونکہ ماں کی دعاؤں کی بدولت ہی آپ دنیا میں کامیابی حاصل کرپائیں گے اورجہاں تک آخرت میں کامیابی کاسوال ہے توجنت توہے ہی ماں کے قدموں کے نیچے!
ہرعبادت، ہرمحبت میں نہاں ہے اک غرض
بے غرض، بے لوث ہرخدمت کوکرجاتی ہے ماں

No comments:

Post a Comment