Saturday, February 19, 2011

خاتم النبیین کاپیغام امت کے نامDec-2010

مولاناشفیع اللہ عبدالحکیم مدنیؔ

استاد جامعہ سراج العلوم السلفیہ،جھنڈانگر،نیپال

خاتم النبیین کاپیغام امت کے نام

ارشاد ربانی ہے:(فلیحذرالذین یخالفون عن أمرہ أن تصیبھم فتنۃ أو یصیبھم عذاب الیم)(النور:۶۳)
ترجمہ: سنو!جولوگ حکم رسول کی مخالفت کرتے ہیں انھیں ڈرتے رہناچاہئے کہ کہیں ان پرکوئی زبردست آفت نہ آپڑے یاانھیں کوئی دردناک عذاب نہ پہونچے۔
عرفات کے میدان میں رسول اکرمﷺ نے اونٹنی پرسوارہوکرارشاد فرمایا:’’ ألا وإنیّ فرطکم علی الحوض‘‘لوگو سنو! میں حوض کوثرپرتمہارا میرسامان ہوں گا، ’’وأکاثرکم الأمم‘‘ اور اپنی امت کی کثرت پرتمام امتوں کے درمیان فخرکروں گا، ’’فلا تُسُوِّدُواوجھِی‘‘پس تم مجھے رسوانہ کردینا(یعنی اللہ تعالیٰ کی نافرمانیاں کرکر، بدعتی اور مشرک بن کر کل قیامت کو اللہ تعالیٰ کے سامنے مجھے شرمسارنہ کرنا’’اَلاَ وَ اِنِّی مُسْتَنْقِذ اُناساً ومُسْتَنْقِذٌ مِنِّی اُناسٌ‘‘یہ ٹھیک ہے کہ اللہ کے اذن سے پائی ہوئی میری شفاعت سے بہت سے لوگ دوزخ سے چھوٹ جائیں گے اورایسے لوگ بھی ہوں گے جومجھ سے جُدا کردیئے جائیں گے،کہ ان کے لئے اللہ مجھے اذن شفاعت نہیں دے گا، ’’فأقولُ یاربِّ اُصَیحَابِی‘‘میں کہوں گا اے میرے پروردگار!یہ تومیری امت کے لوگ ہیں انھیں بھی حوض کوثرسے پینے اورمجھے ان کی شفاعت کرنے کی اجازت دے،(فَیَقُولُ اِنَّکَ لَا تَدرِی مَا احد ثوابعدک‘‘اللہ تعالیٰ فرمائے گا اے میرے رسول! تم نہیں جانتے کہ انھوں نے تیرے بعدکون کون سے نئے مسئلے (دین میں) نکالے تھے۔(ابن ماجہ، کتاب الفتن، ص:۱۳۰۰ حدیث نمبر۳۹۴۴)
حجۃ الوداع کے خطبے میں نبی اکرمﷺ نے صاف فرمایا کہ میری امت کے کچھ لوگ حوض کوثرکے پانی اورمیری شفاعت سے محروم کردیئے جائیں گے میں اللہ سے عرض کروں گا بارالٰہا! یہ تومیری امت کے لوگ ہیں یعنی لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ پڑھنے والے ہیں نمازی، حاجی، زکوٰتی، تہجد گذار ہیں، انھیں کوثرکاپانی پینے دے اور مجھے ان کی شفاعت کی اجازت دے دے تو اللہ تعالیٰ فرمائے گا نہ ان لوگوں کوآبِ کوثرملے گا نہ تجھے ان کی شفاعت کی اجازت دی جائے گی،کیونکہ انھوں نے تیری وفات کے بعددین کامل میں نئے نئے مسئلے نکالے تھے، گھرسے ثواب کے وعدے دے دے کر خانہ ساز کارِ ثواب جاری کئے تھے، یہ بدعتی لوگ ہیں پھرنبی اکرمﷺ ان اہلِ بدعت پر سخت ناراض ہوں گے اورسُحقاً سُحقاً فرمائیں گے یعنی دورہوجاؤ ،دورہوجاؤ، میرے کامل دین اسلام میں تم نے نئے نئے مسائل گھڑے ،بدعتیں نکالی تھیں۔(صحیح مسلم ۱؍۲۱۸)
اہل بدعت کا کوئی عمل قبول نہیں ہوتا: ۔رسول اکرمﷺ فرماتے ہیں ’’لایقبل اللہ لصاحب بدعۃٍ صوماً ولا صلاۃً ولاصدقۃً ولاحجاً ولاعمرۃً، ولاجھادًا ویخرج من الإسلام کماتخرج الشعرۃ من العجین‘‘(ابن ماجہ، حدیث نمبر۴۹)
اللہ تعالیٰ بدعتی آدمی کا نہ روزہ قبول کرتا ہے نہ نماز، نہ زکوٰۃ وخیرات ، نہ حج و عمرہ اورنہ ہی جہاد اوربدعتی دائرہ اسلام سے ایسے نکل جاتا ہے جیسے بال گوندھے ہوئے آٹے سے نکل جاتا ہے۔
مسلمان بھائیو اوربہنو! بدعت کا کام کرنے سے ڈرو، خوف کرو، کانپ جاؤ کہ اہل بدعت کی نمازیں ،روزے، حج زکوٰۃ وخیرات، عمرے وجہاد اوردوسری بیشمار نیکیاں اللہ قبول نہیں کرتا، خبردار وہ کام دین کا کام یاثواب کا کام جان کرہرگز نہ کریں جونبی اکرمﷺ نے نہ کیا ہو یانہ کرنے کوکہاہو۔
بدعت کا مطلب نبی اکرمﷺ کی زبان سنئے:ارشاد فرماتے ہیں:’’من أحدث فی أمرنا ھذا مالیس منہ فھو ردٌّ‘‘(صحیح بخاری ۹؍۱۳۲، صحیح مسلم ۳؍۱۳۴۴)
جس شخص نے ہماری (مکمل) شریعت میں کوئی نیا طریقہ ،مسئلہ نکالا جس کا ہم نے کوئی (قولی، فعلی) حکم نہ دیا ہو تووہ نیاطریقہ، مسئلہ مردود اورناقابل قبول ہے۔
دوسری روایت کے الفاظ اس طرح ہیں:’’ من عمل عملاً لیس علیہ أمرنا فھو رد‘‘یعنی جس نے کوئی ایسا کام کیا جس پہ ہمارا حکم نہیں ہے تووہ مردود ہے۔
امام نووی رحمہ اللہ اس حدیث کی تشریح فرماتے ہیں:یہ حدیث اسلام کا ایک عظیم قاعدہ ہے، یہ نبی اکرمﷺ کے جامع کلمات میں سے ایک ہے، یہ ہرطرح کی بدعت اورخودساختہ امورکی تردید میں صریح ہے۔
دوسری روایت میں مفہوم کی زیادتی ہے اوروہ یہ کہ بعض پہلے سے ایجادشدہ بدعتوں کوکرنے والے کے خلاف اگرپہلی روایت بطور حجت پیش کی جائے تووہ بطور عناد کہے گا کہ میں نے توکچھ ایجادنہیں کیا، لہذا اس کے خلاف دوسری روایت حجت ہوگی، جس میں یہ کہاگیا ہے کہ ہرنئی چیز مردودہے خواہ کرنے والے نے اسے ازخود ایجاد کیا ہو یا اس سے پہلے اسے کوئی ایجاد کرچکا ہو(شرح مسلم للنووی ۱۲؍ ۱۶)
پیارے بھائیو! خدا را بغیر سند حدیث اورسنت کے کسی مسئلہ کو نہ اپنائیں،اور نہ ہی عمل میں لائیں، جس پر ’’مہر محمدی‘‘ لگی ہوئی ہو اسی کو حاصل کریں، کھوٹے سکے دوزخ کے شعلے ہیں، ان سے ہزارباربچیں نبی اکرمﷺ نے فرمایا:’’کل محدثۃ بدعۃ وکل بدعۃ ضلالۃ وکل ضلالۃ فی النار‘‘(صحیح مسلم ۲؍۵۹۲)
ہرنیا کام(دین میں)بدعت ہے، اورہربدعت گمراہی ہے اورہرگمراہی (بدعت) دوزخ میں لے جانے والی ہے۔
علمائے سوء ومشائخ نونے استحصال زرکے لئے صدہانئے نئے مسئلے دین میں کارِ ثواب کہہ کر جاری کررکھے ہیں اورسادہ لوح مسلمان انھیں نیک کام سمجھ کراپنارہے ہیں، اچھی طرح یادرکھیں کہ جس شخص نے کسی امتی کے بنائے ہوئے مسئلے پر عمل کیا وہ بدعتی ہوگا اور اللہ رب العالمین بدعتی پر اس قدر ناراض ہوجاتا ہے کہ اس سے دوسرے فرائض نماز، روزہ وغیرہ بھی قبول نہیں کرتا، آخر کیوں؟ غورکریں کہ ملک میں سکے حکومت کے جاری کئے ہوئے ہوتے ہیں جن سے لین دین ہوتا ہے اوراگرکوئی شخص جعلی سکہ بناکر سرکاری سکوں میں ملادے اوراسے رواج دے توایسے شخص کی سزاقانون میں سزائے موت یا کالاپانی یا عمرقید وغیرہ ہے، اتنی سخت سزا محض چار آنہ آٹھ آنہ بنانے پر کیوں؟ اس لئے کہ اس نے حکومت کا مقابلہ کیاہے جوبغاوت ہے کیونکہ سکہ بنانا اور اسے رائج دینا صرف حکومت کاکام ہے، ایسے ہی مسائل کا اجراء صرف پیغمبرکا کام ہے امتی کا کام پیغمبری سکوں کورواج دینا ہے نہ کہ خودسکہ سازی کرناپھر جوامتی سکہ سازی کرتا ہے وہ پیغمبر کامقابلہ کرتا ہے ’’حکومت‘‘کاباغی ہے اس لئے دین میں سکہّ سازی کرنے والے (بدعتی) کی سزایہ ہے کہ اللہ رب العالمین اس کاکوئی عمل ہی قبول نہیں کرتا اورقیامت کے دن دوزخ میں جھونکا جائے گا۔
زندگی کو غنیمت جانیں آج ہرقسم کے شرکیہ عقیدوں اوربدعت کے کاموں سے توبہ کرلیں اورآئندہ پکے مومن موحد بن کرسنت خیرالوریٰ کے مطابق عمل شروع کردیں گے نبی اکرمﷺ نے فرمایا ہے کہ جس شخص نے میری سنت سے محبت کی اس نے مجھ سے محبت کی اورجس نے( سنت کواپناکر) مجھ سے محبت کی وہ جنت میں میرے ساتھ ہوگا۔
خاتم النبیین کاحکم امت کے نام:۔حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اکرمﷺ نے فرمایا’’لاتجعلوا قبری عیداً‘‘(أبوداؤد،کتاب المناسک،:باب زیارۃ القبور،۲۰۴۲ احمد۲؍۳۶۷)
میری امت خبردار!میری قبرکو میلہ گاہ نہ بنانا یعنی میری قبرپر عرس نہ کرنا، میلہ نہ لگانا، میلا د نہ کرنا، سالگرہ نہ منانا، دورحاضرکے پیروں، فقیروں ،گدّی نشینوں اور پیٹ بھرو مولویوں سے ہم با ادب پوچھتے ہیں کہ وہ داورِ محشر شافع کوثرکے حضورجواب دہی کے وقت کو سامنے رکھ کر بتائیں کہ جب سیدالکونین والثقلین کی قبرپاک پرعرس، میلہ، نذر، نیاز، سجدہ، طواف، چلہ کشی اور دعاء والتجا منع درمنع ہے، حرام اورشرک ہے توآپ لوگوں کا اپنے آباء واجداد اوربزرگوں کی قبروں پرمیلے عرس کرنے، نذروں، نیازیں اورچڑھا وؤں کے ہزاروں روپے کھانے، سادہ دل مسلمانوں کو قبروں کے طواف وسجود کرانا، اورانھیں صاحبِ قبرسے استمداد کے لئے حکم دینا، کیونکر رَوا ہوگیا؟
یادرکھیں! کہ قرآن اورسنت کی سچی بات سنانے والے ہر وہابی کی پھبتی کس کرجان چھڑانے سے قیامت کے دن جان نہیں بچے گی آہ ؂
بجھ گیا وہ شعلہ جومقصود مہر پروانہ تھا
قارئین کرام! یہ سن کرحیران وششدر ہوں گے کہ جیسے کاروباری کمپنیاں دفترکھولتی ہیں، کلرک اورایجنٹ رکھتی ہیں اوربزنس کارس یانڈنس (کاروباری خط وکتابت) کرتی ہیں بالکل اسی طرح اجمیر میں خواجہ معین الدین چُستی رحمۃ اللہ علیہ کی قبرکے سجادہ نشینوں نے بزنس لائن پردفاتر کھول رکھے ہیں، ٹائپ شدہ خطوط اورمطبوعہ اشتہاروں کے ذریعہ خواجہ معین الدین چُستی علیہ الرحمۃ کی قبرکی تجارت کا ایڈورٹائزمنٹ کیاجارہا ہے ،اجمیرکا ایک مطبوعہ خط پیش خدمت ہے ،خط کی ایک طرف اردوعبارت ہے اوردوسری طرف انگریزی زبان میں شائع کرنے والے پیر سید معشوق علی ازدرگاہ اجمیر ہیں۔
اردومیں مسلمانوں کودعوت دی گئی ہے کہ وہ رجب کے مہینے میں اجمیرآئیں کہ اس ماہ میں فریادرس بیکساں، شہنشاہ ہندوستاں خواجہ معین الدین چُستی کاعرس منعقد ہوتا ہے،اے عقیدت مندانِ خواجہ آؤ اورسرکارِ غریب نواز میں حاضر ہوکراپنی جھولیاں گوہرمقصود سے بھرلو ؂
ہردرد کی ملی ہے دواان کے نام سے دیتا ہے ہرمراد خدا ان کے نام سے
خط کی دوسری طرف انگریزی میں مسلمانوں کوبُلانے کے لئے جنتی دروازے سے گزرنے کی خوشخبری دی گئی ہے ملاحظہ ہو:
DURINGURS SHARIF THE JANNATI DARWAZA OF ROUZA
MUBARAK REMAIN SOPENES CONTINUESLY FOR SIX DAYS
عُرس شریف کے دوران میں روضۂ مبارک کا جنتی دروازہ چھ دنوں تک کھلا رہتا ہے۔
کس قدرجسارت ہے کہ ایک فرضی جنتی دروازہ بناکر لوگوں کو اس دروازے سے گزارکرجنت کا سرٹیفکٹ دیا جاتا ہے اوراس سرٹیفکٹ کی سینکڑوں روپئے فیس وصول کی جاتی ہے، شاباش سپوتو!

No comments:

Post a Comment