Sunday, February 20, 2011

دارالعلوم ندوۃ العلماءDec-2010

شمیم احمدندوی

دارالعلوم ندوۃ العلماء
فکرونظرمیں تبدیلی کا سفر
(تیسری قسط)

یہ صلاحیت ہندوستان کے طول وعرض میں پھیلے ہوئے سینکڑوں ہزاروں دینی مدارس میں نہیں تھی جوصدیوں پرانے درس نظامی کے مرتب کردہ نصاب اورسینکڑوں سال سے جاری فرسودہ تعلیمی نظام کو سینہ سے لگائے بیٹھے تھے اوراس سے سرموانحراف کو پسند نہ کرتے تھے، گویا ملانظام الدین کا مرتب کردہ نصاب نہ ہو بلکہ کوئی وحی آسمانی ہوکہ جس سے ذرا سا اعراض وانحراف عذاب الٰہی کو دعوت دینے کے مترادف ہوتا،یہ صلاحیت دارالعلوم دیوبند میں بھی نہیں تھی جو ندوۃ العلماء سے ۲۶ ؍سال پہلے قائم کیا جاچکا تھا، آج بھلے ہی یہ دعوی کیاجائے کہ اس کے بانیان اوراولین فارغین زہد وورع ، خشیت وللہیت، ایثار وقربانی ،دینی غیرت وحمیت، اخلاص وتقوی کا پیکر اوررسوخ فی الدین کا اعلیٰ نمونہ تھے، لیکن کسی قوم کی رہنمائی کے لئے صرف زہد وتقوی اورنیک نیتی کافی نہیں ہے، بلکہ غزارت علم ، وسعت نظر،انقلابی فکر اور آفاقی مطالعہ کی ضرورت ہوتی ہے اور دنیاکے بارے میں، معاصرتنظیموں کے بارے میں، دشمنان اسلام کے عزائم کے بارے میں اوراسلام کے خلاف ہونے والی سازشوں کے بارے میں نہ صرف وسیع معلومات درکارہوتی ہیں بلکہ آنے والی نسلوں کو ان علمی اسلحوں سے لیس کرنے کی ضرورت ہوتی ہے جن سے وہ اسلام دشمن طاقتوں کامقابلہ کرسکیں، دورجدید کے چیلنجوں سے نبردآزما ہوسکیں اورمسیحی وصہیونی فتنہ پردازیوں اورعالمی ٹھگوں کی فریب کا ریوں کا پردہ چاک کرسکیں ، جب کہ دارالعلوم دیوبند کے فکری تنگ نائے میں نہ اس کی گنجائش تھی نہ اس کے قدیم نصاب میں اس کا کوئی پائیدارحل اورامت مرحوم کے مرض کا علاج اوراس کے دردکا درماں ہی تھا، اوراس کا پرانا طریقہ درس اورنظام تعلیم وتربیت اس صلاحیت سے عاری تھا کہ ایسے بالغ نظر اورنکتہ سنج اورنکتہ شناس علماء پیداکرسکے جوروشن خیال ہوں،زمانہ کی نبض پرجن کا ہاتھ ہو، جن کی نگاہ قدیم وجدید کی مصنوعی سطحی تقسیم سے بالا ترہو اورسب سے بڑھ کر یہ کہ وہ تعصب وتنگ نظری اورمسلکی منافرت سے پاک ہوں، بلکہ اس کے برعکس اگر منتسبین دیوبند معاف فرمائیں توعرض کرنے کی جسارت کروں کہ ایک طرف اس کا نصاب درس اورنظام تعلیم وتربیت کچھ اس قسم کا تھا جو بڑی تعداد میں کنویں کے ایسے مینڈک تیار کرنے میں مصروف تھا جودنیا کے بارے میں عالمانہ بے خبری کاشکارہوں اورصرف دارالعلوم کی چہاردیواری کوکل کائنات سمجھنے پر مصرہوں اورجوان فنون قدیمہ اور علوم فرسودہ کی حفاظت کوہی مکمل ایمان سمجھتے ہوں جن کی افادیت گزرتے زمانہ کے ساتھ مشکوک ہوچکی تھی اورجوعصر جدید کی روشنی اور جدید ایجادات واکتشافات سے فائدہ اٹھانے کوبھی کفرواسلام کامعاملہ سمجھتے ہوں، چہ جائے کہ ان اختراعات وایجادات اوردنیا کی ترقیات میں کوئی کرداراداکرسکیں جب کہ شاعرمشرق نے اس کی اہمیت وافادیت بتاتے ہوئے تقلید پر بھی بھرپور چوٹ کردی ہے ؂
جوعالم ایجادمیں ہے صاحب ایجاد
ہردور میں کرتا ہے طواف اس کازمانہ
تقلید سے ناکارہ نہ کراپنی خودی کو
کراس کی حفاظت کہ یہ گوہرہے یگانہ
اوربات محض شاعرانہ تخیل پرمبنی نہیں ہے بلکہ قرآنی تعلیمات بھی ہمیں تسخیر کائنات پرابھارتی ہیں اورکائناتی حقیقتوں میں غوروفکر کرنے کی دعوت دیتی ہیں، اور’’ذکروفکر صبحگاہی‘‘ ،قرآن میں تدبراورتخلیق کائنات میں تفکر کو ایک ساتھ ذکر کرکے ’’درکفِ جام شریعت درکف سندان عشق‘‘کی طرح دونوں کی اہمیت کواجاگر کیاگیاہے، اوریہ ایک مومن کی شان ہی ہے دیوبندی فکرکی طرح خارج ازاسلام نہیں ہے، ارشادباری تعالیٰ ہے (الذین یذکرون اللہ قیاماً وقعوداً وعلی جنوبھم ویتفکرون فی خلق السمٰوات والأرض ربنا ماخلقت ھٰذا باطلاً سبحانک فقناعذاب النار‘‘۔(آل عمران:۱۹۱)
ترجمہ :اورجواللہ تعالیٰ کاذکرکھڑے اوربیٹھے اوراپنی کروٹوں پرلیٹے ہوئے کرتے ہیں اورآسمان وزمین کی پیدائش میں غوروفکر کرتے ہیں اورکہتے ہیں اے ہمارے پروردگار! تونے یہ بے فائدہ نہیں بنایا ،توپاک ہے ،پس ہمیں آگ کے عذاب سے بچالے۔
اورقرآن میں غورکرنے اورعبرت وموعظت حاصل کرنے کی دعوت اللہ تعالیٰ نے بایں الفاظ دی ہے(أفلا یتدبرون القرآن ام علی قلوب اقفالھا)(محمد:۲۴)
ترجمہ:کیا یہ قرآن میں غوروفکر نہیں کرتے، یا ان کے دلوں پر ان کے تالے لگ گئے ہیں۔
ایک اسلامی دانشورنے بجاطورپر یہ بات کہی ہے کہ ہم اگراپنے ذہنوں کو محدود کرلیں، نئے زمانہ کی ایجادات اورروشنی کا داخلہ وہاں بند کردیں اورصرف شرعی علوم پراکتفاء کرلیں توانسانیت کی عظیم ترخدمت کے قابل نہیں رہ جائیں گے، انھوں نے کیا خوب کہا کہ ہم اگرفقط پانی کی حقیقت پرصرف فقیہانہ حیثیت سے نظر ڈالیں توبے دھڑک یہ فتوی دے سکتے ہیں کہ کون ساپانی طاہر، مطہر،غیرمکروہ اورکون ساپانی نجس ہے، لیکن ہم اگردنیاوی علوم کے لئے اپناسینہ کشادہ رکھیں اورسائنسی علوم کو بھی حاصل کرلیں توگندے جوہڑاورمتعفن نالہ کے پانی کووضو اورپینے کے قابل بناسکتے ہیں، اب ہمیں یہ فیصلہ کرنا ہے کہ کون ساعلم زیادہ مفید ہے اورانسانیت کے لئے کارآمد، یعنی وہ علم جوصرف پانی کے طاہر ونجس ہونے کا فیصلہ کرسکے یا وہ علم جونجس پانی کو قابل استعمال بناسکے۔( مذہب کی حقیقت )
جب کہ درس نظامی کے اس پرانے طریقہ تعلیم میں علوم عقلیہ کا سرے سے کوئی گزر نہ تھا جسے دارالعلوم دیوبند اوراس کے ہم خیال مدارس حرزجان بنائے ہوئے تھے، حالاں کہ عقلی علوم کا حصول اورفلکیات وطبیعیات کا مطالعہ ہی ہمارے اوپران کا ئناتی حقائق کو آشکارا کرتا ہے جن کوجانے بغیرصحیح معنی میں خالق کائنات کی معرفت بھی نہیں حاصل ہوسکتی ،خودباری تعالیٰ کا ارشاد ہے(إن فی خلْق السمٰوات والأرض واختلاف اللیل والنھار والفلک التی تجری فی البحر بما ینفع الناس وما أنزل اللہ من السماء من ماء فأحیا بہ الأرض بعدموتھا وبث فیھا من کل دابۃ وتصریف الریاح والسحاب المسخربین السماء والأرض لآیات لقوم یعقلون)(سورۂ بقرہ:۱۶۴)
ترجمہ: آسمانوں اورزمینوں کی پیدائش، رات دن کا ہیرپھیر، کشتیوں کا لوگوں کونفع دینے والی چیزوں کو لئے ہوئے سمندروں میں چلنا، آسمان سے پانی اتار کرمردہ زمین کو زندہ کرنا، اس میں ہرقسم کے جانوروں کو پھیلادینا، ہواؤں کے رخ بدلنا، اوربادل جوآسمان وزمین کے درمیان مسخرہیں ان سب میں عقلمندوں کے لئے قدرت الٰہی کی نشانیاں ہیں۔
غورکریں توخود ہی یہ نتیجہ اخذ کرسکتے ہیں کہ قدرت الٰہی کی یہ نشانیاں انھیں عقلمندوں کے لئے ہیں جواپنی عقلوں کوکائنات میں غوروفکر کے لئے استعمال کرتے ہیں نہ کہ ان کو رچشموں کے لئے جواپنے ذہن ودماغ کاہرروزن سختی کے ساتھ صرف اس لئے بند کردیتے ہیں کہ کہیں ان میں عصری علوم کی روشنی نہ داخل ہوجائے، اللہ رب العزت نے توصاف ارشاد فرمایا ہے کہ (سنریہم آیاتنا فی الآفاق وفی أنفسھم حتی یتبین لھم، أنہ الحق)(حآ سجدۃ:۵۳)
ترجمہ:عنقریب ہم انھیں اپنی نشانیاں آفاق(عالم) میں بھی دکھائیں گے، اورخود ان کی اپنی ذات میں بھی یہاں تک کہ ان پر کھل جائے کہ حق یہی ہے۔
توبتائیں کہ کیا آفاق وانفس کی حقیقتوں میں غوروتدبر کئے بغیر ہمیں اللہ کی نشانیاں اور اس کی صحیح معرفت حاصل ہوسکتی ہے؟
عصری علوم کے دیگرفوائد ،انسانیت کی خدمت کے لئے مفید ایجادات اورسائنس وٹکنالوجی کا نفع بخش استعمال توجانے دیجئے ہمیں ان علوم عقلیہ کے بغیر رب ذوالجلال کابہترڈھنگ سے عرفان ہی نہیں حاصل ہوسکتا ہے، انفس وآفاق کی انھیں حقیقتوں میں غوروفکر کے بعدلینن جیسے اشتراکی،دہریہ اورملحد کو وجودباری تعالیٰ کا اعتراف کرنا پڑا تھا، اوربسترمرگ پر اس کوکہنا پڑاتھا ؂
اے انفس وآفاق میں پیداترے آیات حق یہ ہے کہ ہے زندہ وپائندہ تری ذات
میں کیسے سمجھتا کہ توہے یاکہ نہیں ہردم متغیرتھے خردکے نظریات
آج آنکھ نے دیکھا تووہ عالم ہوا ثابت میں جس کوسمجھتا تھا کلیساکے خرافات

قرآن کریم میں بے شمار ایسی آیات موجود ہیں جونہ صرف انفس وآفاق میں غوروتدبر کی دعوت دیتی ہیں بلکہ تسخیر کائنات کے لئے مہمیز کا کام کرتی ہیں، اورقرون وسطیٰ کے مسلمانوں نے اوراندلس وبغداد کے مسلم سائنسدانوں نے انھیں آیات قرآنیہ میں غورکرکے بنی نوع انسان کے لئے بے شمار، کارآمد اورنفع بخش چیزیں ایجاد کیں اور اندلس کی اسلامی یونیورسٹیوں نے یورپ کی نشأۃ ثانیہ کا راستہ ہموارکیا۔
اس وقت ہمارا موضوع نہ توسائنس وٹکنالوجی ہے ،نہ مسلم سائنس دانوں کی سائنسی خدمات اورنہ مسلم سائنسدانوں کی بعض اہم ایجادات اورفلکیات وطبیعیات، ریاضی ، طب، علم کیمیا ، معدنیات، نباتات وحیوانات اورتاریخ نگاری و جغرافیہ دانی کے علاوہ زمینی اصلاحات سے متعلق ان کی معرکۃ الآراء تصانیف اوران کے اہم سائنسی کارنامے ،لیکن اگران عظیم الشان علوم وفنون کو۔جن میں سے بعض کے موجد ہونے کا فخربھی مسلمانوں کوحاصل ہے۔ اہل دیوبند ’’علوم اغیار‘‘ کہہ کرنظر انداز اوران کوشجر ممنوعہ قراردے کر اپنے یہاں ان کا داخلہ بند کردیں توکم ازکم انھیں علوم کی بہترڈھنگ سے تعلیم دیں اورمطلوبہ اہداف کوپورا کریں جن کے لئے اس کاقیام عمل میں آیا ہے یعنی اسلامی ورثہ کی حفاظت، اسلام کی ترویج واشاعت اوردین وشریعت کا صحیح فہم وادراک توپرانے اور ازکار رفتہ نصاب اورتنگ نظری پرمبنی سوچ کے ساتھ اس ہدف کوحاصل کرنابھی جوئے شیرلانے سے مشکل کام ہے، اس نصاب کے ساتھ ’’اسرار شریعت‘‘ اور ’’رموز دین‘‘کی تہ تک پہونچنا بھی ممکن نہ تھا جن کے اصل مطلوب ہونے کا دعوی کیاجاتا ہے، ورنہ دیوبند کے قابل فخر اورمایہ نازسپوت مولانا حسین احمدمدنی رحمہ اللہ یہ کبھی نہ کہتے کہ ’’ملت وطن سے ہے‘‘ یعنی بالفاظ دیگر وطن کے بغیرملت کا وجود بے معنی ہے، ملت کا اس قدر محدود تصور یا ملت کی اس قدر لا یعنی تشریح کوئی بھی ایسا شخص پیش نہیں کرسکتا جو ملت کے مفہوم سے آشنا اور ملی مفادات کو ہرفائدہ پرترجیح دیتاہو۔ اسی وجہ سے علامہ اقبال نے اس پر بروقت گرفت کی اوراپنے عام انداز سے ہٹ کر کوئی لگی لپٹی رکھے بغیر واضح الفاظ میں نام کی صراحت کے ساتھ کہہ دیا ؂
عجم ہنوز نہ داند رموزدیں ورنہ زدیوبند حسین احمد ایں چہ بوالعجبی است
سرودبرسر منبر کہ ملت ازوطن است چہ بے خبرزمقام محمدِ ﷺ عربی است
بہ مصطفی بہ رساں خویش راکہ دیں ہمہ اوست اگربہ اونہ رسیدی تمام بولہبی است
جونظام تعلیم اتنی استعدادبھی نہ پیداکرسکے کہ آدمی محمدعربیﷺ کے مقام ومرتبہ سے واقف ہوسکے اورجو آدمی کواس لائق بھی نہ بنا سکے کہ وہ فیصلہ کرسکے کہ ملت اوروطن میں کسے قابل ترجیح قراردیاجائے، اس سے کسی بہترنتیجہ کی امیدکیوں کر کی جاسکتی ہے،لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس تعلیمی ماحول کے پروردہ اشخاص سے اس سے زیادہ کی توقع کی بھی نہیں جاسکتی ،دعوی وہ خواہ کچھ بھی کرلیں۔
یہاں دوباتیں ممکن ہیں، ایک توجمعیت علماء پر ابتداء سے ہی کانگریس نوازی اوراس کی کاسہ لیسی کی پالیسی حاوی رہی ہے، توعین ممکن ہے کہ اسی کے زیراثرمولانا حسین احمدمدنی رحمہ اللہ نے کانگریس کوخوش کرنے کے لئے ملت کووطن کے تابع کرکے ’’مادروطن‘‘ کی عظمت کا اعتراف کرلیا ہوتا کہ خودان کی عظمت ووطن پرستی کا اعتراف کانگریسی حلقوں میں کیاجائے اوراس کے ذریعہ وہ حقیر دنیاوی فوائد اورمادی مصالح حاصل کرسکیں جوبہرحال کسی عالم دین کے شایان شان نہیں، اوردوسرا امکان یہ بھی ہے کہ وہ واقعی’’ رموزدیں‘‘اور’’ملت‘‘ کے حقیقی مفہوم سے آشنا نہ ہوں اوردونوں چیزیں ان کے مرتبہ ومقام سے میل نہیں کھاتیں۔
میری نظرمیں پہلی بات زیادہ قرین قیاس اس بناپر لگتی ہے کہ دیوبندی مکتب فکرکی ابتدا سے پالیسی حکومت وقت کو خوش کرنے اورکانگریس کے قیام کے بعداس کی تعریف میں رطب اللسان رہنے کی ہی رہی ہے ،اس سلسلہ میں اہل دیوبند نے عام مسلمانانِ ہند کے مفادات کوبھی بارہا نظرانداز کیاہے اوردیگر ملی تنظیموں اورجمعیات واداروں نے اس کی اس پالیسی سے اختلاف بھی کیاہے ،ندوۃ العلماء کے پچاسی سالہ جشن تعلیمی کے فوائد وبرکات سے شہ پاکر اس کی تقلید میں دارالعلوم دیوبند میں بھی صدسالہ جشن تعلیمی کا اہتمام کیاگیا، اس پروگرام کا افتتاح وہاں کے علمائے ذی وقار اوران کے مفتیان عالی مقام نے اس وقت کی وزیراعظم ہند اندراگاندھی سے کرایاتھا۔ اس بات کوہندوستان کے طول وعرض میں موجود بعض علماء دین نے ناگوارخاطر محسوس کیاتھا اورتیکھے تبصرے کئے تھے کہ یہ چیزاتنے بڑے دینی ادارہ کے شایان شان نہیں کہ اس کے ایک خالص دینی وعلمی پروگرام کے افتتاح کی سعادت ایک غیرمسلم عورت کوحاصل ہواوراسٹیج پرجس کے پہلومیں بیٹھنے پرعلماء دین مجبورہوں(یا اپنی خوش بختی وسعادت سمجھیں؟) مولانا سیدابوالحسن علی ندوی رحمہ اللہ جواس پروگرام میں مدعوتھے اورجنھیں افتتاحی پروگرام میں شرکت کرنی تھی اس بات پراپنی ناپسندیدگی کااظہارکیا اوردیوبند حاضری میں قصداً اتنی تاخیر فرمائی کہ اندراگاندھی پروگرام کاافتتاح کرکے واپس چلی جائیں، اپنی خود نوشت سوانح حیات’’کاروان زندگی‘‘ میں انھوں نے یہ بات مفصلاً ذکرکی ہے کہ دلی سے دیوبند جاتے ہوئے جب انھوں نے سرکاری ہیلی کاپٹرکو دیوبند کی جانب سے آتے ہوئے دیکھا اور ان کے رفقائے سفرنے بتایاکہ غالباً اسی ہیلی کاپٹرسے اندرا گاندھی واپس آرہی ہیں تواللہ کا شکراداکیا کہ دیوبند کے اس دینی پروگرام میں اندراگاندھی کاسامنا کرنے یا اسٹیج پر ساتھ بیٹھنے (کے گناہ) سے وہ محفوظ رہے،اس بات سے مولانا مرحوم کے انقباض یاناگواری خاطر کو توسمجھاجاسکتا ہے لیکن اندراگاندھی سے اس قدر احترازسمجھ سے بالاترہے، سوائے اس کے کہ اسے کسرنفسی یااظہار تقوی سے تعبیرکیاجائے، ورنہ ہمیں بھی یہ بات معلوم ہے اورخودمولانا سیدابوالحسن علی ندوی رحمہ اللہ نے اپنی خود نوشت میں ایک سے زائد باراپنی قیام گاہ واقع تکیہ کلاں رائے بریلی میں اندراگاندھی کی آمد، ان کے استقبال اورمختلف ملکی وسیاسی مسائل پرتبادلہ خیال کاذکرکیا ہے ،حتی کہ مولانا مرحوم کے زنان خانہ میں اندراگاندھی کے داخلہ اورخالص گھریلو انداز اورماحول میں ان کے استقبال اوروقت گزاری کاذکرکیا ہے، واضح ہوکہ رائے بریلی ہی اندراگاندھی کاحلقۂ انتخاب تھا اورمولاناسید ابوالحسن علی ندوی رحمہ اللہ جیسے مفکراسلام اورعالمی شہرت یافتہ عالم دین اسلام، اسلامی اسکالر وباقار واحترام، مسلمانان ہند کی نظروں میں مقبول خاص وعام اورہرمکتب فکرمیں یکساں قابل احترام شخصیت سے تعلقات استوار رکھنا اوران کی حمایت حاصل کرنا اندراگاندھی کی مجبوری بھی تھی اورضروت بھی، اور مولانامرحوم کاان سے ملنا، اپنے گھرپر ان کا استقبال کرنا اور گھرآئے مہمان کی طرح خاطر مدارات کرنا اورفرائض میزبانی انجام دیناکچھ بھی معیوب نہیں، اورنہ ہی میں نے اس کاذکر ازراہ عیب جوئی واستنکارکیاہے، لیکن دیوبند کے اجلاس میں ان کا سامناکرنے سے بچنے کی مصلحتیں سمجھنے سے ضرورقاصرہوں۔(جاری)

***

1 comment:

  1. ملتیں مذہب سے نہیں بنتیں ، یہ بات حسین احمد مدنی نے جب کہی تب بھی ٹھیک تھی اور آج تو ثابت ہو چکی۔علامہ اقبال کا تصورِ ملت کتنا ناقص تھا پاکستان کی تاریخ اس کا ثبوت ہے ، مذہب کو سیاست کے لیے استعمال کیا گیا اور اس کی اخلاقی تعلیم کو پس پشت ڈال دیا گیا نتیجہ دہشت گردی سے خودکش دھماکوں تک آگیا

    ReplyDelete