Saturday, June 11, 2011

مغربی ایشیا ء کا سیاسی انقلاب march 2011 Editorial

شمیم احمدندویؔ
مغربی ایشیا ء کا سیاسی انقلاب
اورحکومتِ سعودیہ عربیہ کی بعض خدمات 
تیونس میں عوامی انقلاب سے حوصلہ پاکر (جس میں صدر زین العابدین بن علی کو بالآخر راہ فرار اختیار کرنے اورملک سے جلاوطنی پرمجبور ہوناپڑااوران کی فوجیں ان کا تاج وتخت اوراقتدار بچانے میں ناکام ثابت ہوئیں) مصری عوام بھی سڑکوں پرآگئے اوران کے پرامن احتجاج اورعوامی اتحاد نے دیکھتے ہی دیکھتے حسنی مبارک کواقتدار سے بے دخل کردیا اورمحض ڈھائی ہفتوں کے عوامی مظاہروں اورقاہرہ کے تحریر اسکوائر پرفروکش وخیمہ زن عوام کی مستقل مزاجی نے حسنی مبارک کی ۳۰سالہ آمریت کاخاتمہ کردیا، ساتھ ہی کئی دیگرعرب ممالک اورمشرق وسطیٰ میں بھی عوامی انقلاب کی آہٹ سنائی دینے لگی، جس کی ابتدا توافریقی عرب ملکوں سے ہوئی اورتیونس ومصرکے کامیاب عوامی انقلاب کے بعدلیبیا والجزائر براہ راست عوامی غم وغصہ کی زدمیں ہیں، لیکن مغربی ایشیاء کے کئی دیگرعرب ممالک بھی جن میں سردست بحرین ویمن کا نام لیاجاسکتا ہے، سیاسی اصلاحات اورعوامی حقوق کی بحالی کے مطالبات کے لئے احتجاجات ومظاہروں کاسامناکررہے ہیں جن کے نتیجہ میں مستقبل قریب میں بھی مزید کچھ ملکوں میں اگرحکومتوں کی تبدیلی کی خبریں آئیں توتعجب نہیں ہوناچاہئے۔
مصروتیونس میں حالات نے جس طرح بھی کروٹ بدلی اورعوامی غم وغصہ نے وہاں کی حکومتوں کوزیروزبرکیا اسے انقلاب فرانس یاانقلاب روس کی طرح عوامی انقلاب کانام نہیں دیاجاسکتا ،بلکہ اسے ان دونوں ملکوں کے مطلق العنان حکمرانوں اورآمریت پسندوں کے خلاف کامیاب عوامی جدوجہد توکہاجاسکتا ہے لیکن ان دونوں افریقی عرب ملکو ں میں سارا سیاسی ڈھانچہ یاطرز حکومت یکسرتبدیل ہوجائے گا یہ رائے قائم کرنا ابھی جلدبازی ہوگی، یعنی وہاں اسلام پسندوں کا غلبہ ہوجائے گا اورایک مثالی اسلامی حکومت قائم ہوجائے گی، یاعوامی خواہشات اورجمہورکی رائے کامکمل احترام کیاجائے گا، یا مختلف سطحوں پرپنپ رہی بے چینی کا خاتمہ ہوجائے گا ،یاغربت وافلاس کی چکی میں پس رہے عوام خوش حالی وفارغ البالی کی دہلیز پر قدم رکھ دیں گے، یاپھر بین الاقوامی سطح پر ان ملکوں کی عزت ووقار میں اضافہ ہوجائے گا، یا امت مسلمہ کی عظمت رفتہ کی بحالی کے لئے یہ ممالک یاسیاسی تبدیلیوں کے منتظردیگرممالک کوئی موثرکردار اداکرنے کے قابل ہوسکیں گے، یہ اوران جیسی بے شمار باتوں کوفی الحال خوش فہمی کے سواکچھ نہیں کہاجاسکتا، وہاں اقتدارکی تبدیلی توضرور ہوئی ہے لیکن ابھی انتقال اقتدارکی کارروائیوں کوپوراہونے اورعوام کی مرضی کی حکومتیں منتخب ہونے میں وقت بھی لگ سکتا ہے ،اوریہ سب کچھ خواب وسراب بھی ثابت ہوسکتا ہے، بہرحال یہ توآنے والا وقت ہی بتائے گا جب سیاسی تبدیلیوں کی یہ تصویرپوری طرح صاف ہوگی، اور یہ بھی ضروری نہیں کہ جوبھی نئی حکومت تشکیل پائے وہ عوام کی امیدوں پر کھری اترے اوران کی خواہشات کااحترام کرے کیونکہ بسااوقات حکومتوں کی تبدیلی کاعمل نقصان کا سوداہوتا ہے اورنئی حکومت سابقہ حکومت سے بھی بدترثابت ہوتی ہے، ماضی قریب میں کئی ممالک میں ہونے والی سیاسی تبدیلیوں کے نتیجہ میں جوبھی حکومتیں بلندوبانگ دعووں کے ساتھ عالم وجودمیں آئیں انھوں نے عوام کومایوس ہی کیا، صرف مصرہی کی مثال لیں توواضح ہوگا کہ شاہ فاروق کاتختہ پلٹ کرجمال عبدالناصر نے زمام اقتدار سنبھالنے کے بعدکیسے دعوے کئے تھے؟ اور کس طرح اسرائیلی فوجوں سے صرف ۶دن کی جنگ میں شکست کھاکر ان کی ساری فوجی قوت کی قلعی کھل گئی؟ اورکس طرح ہزیمت خوردہ ہوکروہ اسرائیل کے سامنے سپرانداز ہوگئے؟ اورکس طرح انھوں نے مصرکی اسلامی شناخت کوختم کرکے صرف عربیت کی پہچان پر اصرارکیا؟ اورکس طرح بیرونی دشمنوں اورخطرات سے مقابلہ میں ناکام ہوکرانھوں نے صرف اسلام پسندوں اورالاخوان المسلمون کوختم کرنے پر اپنی ساری توجہ مرکوز کردی؟ اس طرح دنیا کے تمام مسلمانوں کی جانب سے لعنت کاطوق اپنے گلے میں لٹکالیا اورپھرہرمحاذ پر ناکام ہوکراورعوامی خواہشات کاگلاگھونٹ کربالآخر گوشہ گمنامی میں غرق ہوکراس دارفانی کوخیرباد کہا، اس موقع پر مجھے یادآرہا ہے کہ کرنل ناصرکے انتقال کی خبرجس دن شہ سرخیوں کے ساتھ روزنامہ قومی آواز میں شائع ہوئی تواس دن ہم نے اپنے تاریخ کے استاد ماسٹرعرشی صاحب مرحوم سے ناصرکے بارے میں کچھ جاننے کی خواہش کی ہمارے یہ استاد ایک قادرالکلام شاعربھی تھے انھوں نے کچھ دیر زیرلب گنگنانے کے بعدبرجستہ یہ شعرکہا ؂
مجھ سے کیاپوچھتے ہواس کوخداسے پوچھو
ناصری دورکو خون شہداء سے پوچھو
اس وقت میں دارالعلوم ندوۃ العلماء کے مدرسہ ثانویہ میں درجہ ہشتم کاطالب علم تھا، انور السادات صدرناصرکے جانشین ہوئے، بوقت جانشینی بلندوبانگ دعوے بھی بہت کئے گئے اورتوقعات کی لمبی فہرست بھی تھی، اورامیدتھی کہ مصراپنی فوجی قوت اور خطہ میں اپنی جغرافیائی واسٹریٹجک اہمیت کی بناپر عالم اسلام کی سیاسی قیادت اوراس کی عظمت رفتہ کی بازیافت کے لئے آگے آئے گا، لیکن اسرائیل کے سامنے سرنگوں ہوکراورامریکی مفادات کی تکمیل کرکے انھوں نے پوری ملت اسلامیہ کا سوداکرلیا اوراس طرح مسلمانان عالم کی خواہشات کاگلاگھونٹ دیا، ان کے سیکورٹی گارڈوں ہی میں سے کسی اہل کارنے جب ان کی زندگی کا چراغ گل کردیا توپھرامیدکی شمع روشن ہوئی کہ شایدحسنی مبارک اس صورت حال کو تبدیل کریں گے اورعالم اسلام کی خواہشات کااحترام کرتے ہوئے اوراسلامی غیرت وحمیت کامظاہرہ کرتے ہوئے اسرائیل وامریکہ پرانحصار ترک کردیں گے، لیکن انھوں نے اپنے ۳۰؍سالہ دوراقتدار میں کیا کیا؟ یہ بتانے کی ضرورت نہیں کہ یہ ہماری حالیہ سیاسی تاریخ کاایک المناک باب ہے، اوراب جوعبوری فوجی حکومت قائم ہوئی ہے وہ اپنے پیش روکی خارجہ پالیسی میں کوئی تبدیلی کرے گی، اس کاامکان کم ہی ہے ، جب کہ اس نے ابھی تک اسرائیل سے کئے گئے معاہدوں اورامریکہ کے ساتھ تعلقات کوبدستورباقی رکھنے کے عزائم کا اظہارکرہی دیا ہے، اس لئے خطہ کی سیاسی صورت حال بین الاقوامی سطح پریکسرتبدیل ہوکراسلام پسندوں کی خواہشات کے مطابق ہوجائے گی یہ سوچنا قبل ازوقت ہے، اسی طرح صدام کے بعد عراق اورطالبان کے بعدافغانستان بلکہ پرویزمشرف کے بعدپاکستان، یہ سب نسبتاً غیرمحفوظ ہی ہوئے ہیں اوران ممالک میں کسی خوش گوارتبدیلی کی امیدیں خاک میں مل چکی ہیں ،اس لئے مصرمیں اب حسنی مبارک کے بعد سب کچھ بہترہی ہوجائے گا، کوئی ضروری نہیں، خاص طورسے مصرمیں آغاز شورش کی بے چینی کے بعد اب اسرائیل کا اطمینان وبے فکری اورابتدائی حواس باختگی کے بعداب امریکہ کااظہار اطمینان یہ بتانے کے لئے کافی ہے کہ انھیں بھی اب کسی بڑے انقلاب یا اسلام پسندوں کے حق میں سیاسی تبدیلی کا اندیشہ نہیں ہے اورامریکہ دوسرے ملکوں کے اندرونی معاملات میں براہ راست یابالواسطہ مداخلت کرنے اورانقلابات کواپنے حق میں موڑنے میں پرانی مہارت رکھتا ہے۔
مغربی ایشیاء اورافریقی عرب ممالک کے حالیہ سیاسی منظرنامہ کودیکھتے ہوئے ملک وبیرون ملک کی خبررساں ایجنسیوں اورذرائع ابلاغ نے خاص طورسے اردوپرنٹ میڈیا نے اس پورے خطہ کی سیاسی صورت حال کا تجزیہ یا مستقبل کے لئے پیشین گوئی کرنے میں کچھ زیادہ ہی عجلت وبے صبری کامظاہرہ کیاہے اورکسی استثنا ء کے بغیرتمام ہی عرب اسلامی ملکوں کو اس عوامی ہلچل یا سیاسی تبدیلی کالقمہ بنانے کے لئے اپنی رائے دینی شروع کردی ہے،کبھی اشارتاً اورکبھی صراحتاً ،خاص طورسے سعودی وکویتی حکومت کونشانہ بنانا شروع کردیا ہے، اورجہاں ہرمحاذ پرخاموشی اورامن وسکون ہے وہاں بھی ملک گیرسطح پر کچھ نہ کچھ ہونے یاحکومت کی تبدیلی کے لئے اپنی نیک خواہشات کااظہارکردیاہے۔
درحقیقت سعودی حکومت کے ساتھ یہ ان کی دیرینہ رشک ورقابت کانتیجہ ہے اور خالص اسلامی خطوط پراستواراس موحد حکومت کے ساتھ ان کے بغض وحسد کے جذبات کااظہار ہے، جس سے ان کی نیتیں طشت ازبام ہوتی ہیں، اوراس کے پس پردہ وہ نام نہاد مسلمان ہوتے ہیں جوسعودی حکومت کی اصلاح عقائد کی کوششوں اورشرک وبدعات کی بیخ کنی کی اس کی کاروائیوں کوناپسندکرتے ہیں، ورنہ سعودی فرماں رواؤں نے اپنی اس فلاحی حکومت اوررفاہی مملکت کے ذریعہ ہرسطح پرجوکارہائے نمایاں انجام دئے ہیں اور ملک میں ہی نہیں بلکہ دنیا میں اسلام کی بالادستی کویقینی بنایاہے ان کی ان کا میاب کوششوں کوآب زرسے لکھاجانا چاہئے اورہرطرف سے اس کی ستائش ہونی چاہئے اوراس کی دینی وملی خدمات کااعتراف کیاجانا چاہئے ،لیکن براہوا رشک وحسد اور بغض وعناد کا کہ اس کی یہ عظیم الشان خدمات ہمارے برصغیر میں موجود ایک مخصوص طبقہ کو بالخصوص اوردنیا میں موجود اس ذہنیت کے پروردہ لوگوں کو بالعموم نظرنہیں آتیں۔
دنیا کے بیشتر ملکوں میں بالعموم اضطراب وبے چینی اورعوامی سطح پر بے اطمینانی کا ایک ہی اہم سبب ہوتا ہے، اوروہ حکومتوں کاعوامی مسائل سے چشم پوشی ، غربت وبے روزگاری، اقتصادی بدحالی اورعوام کو درکارضروری سہولیات کی فراہمی میں ناکامی، ان ضروریات کی فہرست طویل ہوسکتی ہے اورملکوں کے حالات کے حساب سے مختلف بھی، لیکن بجلی سڑکیں، مواصلات، تعلیم ،صحت، پینے کا صاف پانی، رہائشی مکان، مناسب نرخوں پر اشیائے خوردونوش کی دستیابی اورروزگار وغیرہ بنیادی ضروریات ہیں جن کی تکمیل کے لئے ہرشہری اپنی حکومت سے توقع رکھتا ہے، اورملک کا الفرا اسٹرکچر درست رکھنا اورضروری وسائل کو بروئے کار لاکرترقیاتی کاموں کو انجام دینا ہرحکومت کے فرائض میں شامل ہوتا ہے، اسلامی ممالک میں ایک اہم ضرورت کااضافہ ہوجاتا ہے کہ وہ حکومت ایسے وقت اپنے مسلم عوام کی توقعات پرپوری اترسکتی ہے جب وہاں اسلامی شریعت کی بالادستی ہو،حکمراں خودبھی پابند شرع ہوں اورعوام کوبھی دینی فرائض پرکاربندرکھیں اورانھیں اپنے مذہبی رسوم کی ادائیگی اور اسلامی تہذیب وثقافت پر عمل کی نہ صرف آزادی بلکہ حکومت کی سرپرستی بھی انھیں حاصل ہو،ساتھ ہی وہ حکومت تمام دنیا کے مسلمانوں اورمسلم حکومتوں کے ساتھ اسلامی اخوت کی بنیادوں پرتعلقات استواررکھے اورعالم اسلام کے مسائل سے باخبر اوران کے حل میں دلچسپی رکھے، دشمنان اسلام اورمسلم دشمن طاقتوں کے ساتھ کوئی خفیہ یا علانیہ سازباز کرکے مسلم کازکونقصان نہ پہونچائے، بلکہ پوری دنیا میں اسلام کے فروغ اوراس کی بالادستی کے لئے کوشاں ہو اورپوری مسلم امت کے ساتھ ہمدردی رکھتے ہوئے ان کودرپیش سیاسی معاشی اوردینی مسائل کے حل میں پیش پیش ہو، آیئے ہم ان خطوط یا ان رہنما اصولوں کی روشنی میں جائزہ لیں کہ سعودی عرب کی موجودہ حکومت اس معیار پرپوری اترتی ہے یانہیں۔
کسی بھی ملک کی معیشت اوراس کے اقتصادی وسائل اس کی ترقی واستحکام کے لئے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ،بانئ حکومت سعودیہ ملک عبدالعزیز رحمہ اللہ نے اپنے ملک میں غیرملکی کمپنیوں اورماہرین کے ذریعہ پٹرول کے ذخائر دریافت کئے اورمستقبل میں دنیا کی ترقیات میں اس کے کردارکی اہمیت کا بروقت ادراک کیا، ان کی دوراندیشی اورجہد ولگن کا نتیجہ ہے کہ آج سعودی عرب دنیا میں پٹرول کی پیداوار میں اول مقام رکھتا ہے، اور پٹرول سے ہونے والی آمدنی کا ملکی معیشت کی مضبوطی میں سب سے نمایاں کردار ہے،لیکن بے دریغ حاصل ہونے والی اس دولت خداداد اور زرسیال کا استعمال سعودی حکمرانوں نے صرف پرآسائش وپرتعیش زندگی گزارنے اورعیش وعشرت کے مزے لوٹنے کے لئے نہیں کیاہے، بلکہ عوام کا معیارزندگی بلند کرنے اور انھیں ہرطرح کی شہری سہولیات فراہم کرنے میں اس دولت کا بے دریغ استعمال کیا ہے، اورخزانوں کے منہ کھول دئے ہیں، یہ توذرائع ابلاغ کی کارستانی یا ان کا خبث باطن ہے جوسعودی حکومت کے عظیم الشان کاموں سے صرف نظرکرکے یک طرفہ طورپر سعودی حکمرانوں وشاہی خاندان کے افراد کے عیش وعشرت کی داستانوں کو انتہائی مبالغہ آمیزی کے ساتھ منظرعام پرلاتے ہیں اوران کوعیاش طبع اور دولت کا حریص ثابت کرنے کے لئے ایڑی چوٹی کا زورصرف کرتے ہیں، یہ صحیح ہے کہ اسلام میں سادگی وجفاکشی اورزہد کی زندگی کوپسندیدہ ومستحسن قراردیا گیا ہے ،لیکن حلال ذرائع سے حاصل کی ہوئی دولت کے ذریعہ دنیاوی آسائشوں کا حصول اورآرام وراحت کی زندگی گزارنا قطعاً حرام وناجائز نہیں ہے ، بشرطیکہ آدمی یا دالٰہی اورخوف خدا سے غافل نہ ہو، پھربھی دولت کی ریل پیل سے اگرشاہی خاندان کے افراد کی نجی زندگیاں متاثر ہورہی ہیں اوروہ اسراف وفضول خرچی کرتے ہوئے جاد�ۂاعتدال سے ہٹ رہے ہیں تواس کی تائید بہرحال نہیں کی جاسکتی، دنیاوی دولت وثروت اپنے ساتھ جوخرابیاں لاتی ہیں اس سے یہ خاندان بھی یکسرمحفوظ نہیں ہے، لیکن ساتھ ہی اس خاندان کودین کی بیش قیمت اورلافانی دولت بھی حاصل ہے جس سے یہ خاندان بالکل ہی مادرپدرآزاد نہیں ہواہے،اللہ اوراس کے بندوں کے حقوق کی ادائیگی میں اس نے شرعی اصولوں کی پوری طرح رعایت وپاسداری کی ہے اوریہ خاندان دین ودنیا کا جامع ہوکراورصراط مستقیم پرگامزن رہ کر اسلامی ملکوں کے دیگرفرماں رواؤں اوران کے اہل خاندان کے لئے ایک چشم کشامثال ہے جہاں اقتدار پرقابض مٹھی بھرلوگ ملکی وسائل کوبے تحاشا لوٹ کرملکی معیشت کودیمک کی طرح چاٹ رہے ہیں اورعوام کو مفلس وقلاش اوربالکل ہی کنگال بنادینے کی روش پرگامزن ہیں، جن کی آنکھوں میں نہ شرم ہے اورنہ عوام کی حالت زار کے لئے جذبہ ترحم، ساتھ ہی شرعی اصولوں کو اس طرح پامال کیاہے کہ بعض اسلامی ملکوں میں شریعت پر عمل پیراہونا غیرمسلم ملکوں حتی کہ یورپ وامریکہ سے بھی زیادہ مشکل ہے ،لیکن سعودی فرماں روؤاں نے ملکی وسائل اورآمدنی کے ذرائع میں اپنے شہریوں کوبھی شریک رکھا ہے اوران سے پوری طرح فائدہ اٹھانے کا ان کو موقع عنایت کیا ہے اورملکی آمدنی کابیشتر حصہ اپنے شہریوں کی فلاح وبہبود اوران کو زیادہ سے زیادہ سہولیات بہم پہونچانے میں صرف کیاہے۔
پورے ملک میں وسیع وکشادہ اورخوبصورت شاہراہوں کا جال بچھا کرایک جگہ سے دوسری جگہ آمدورفت اورنقل وحمل کو بہت آسان کردیاہے اورتمام چھوٹے بڑے شہروں کوجوڑدیا ہے، پہاڑوں کو تراش کر انھیں ہموار کیا ہے ،یاان کے اندرایسی سرنگیں بنائی ہیں کہ عش عش کرنے کا جی چاہتا ہے، سمندروں کے سینہ کو چیرکر خوبصورت گزرگاہیں اوردیدہ زیب پل بنائے ہیں، سعودی عرب اوربحرین کے درمیان تعمیر اسی طرح کا ایک کشادہ اورطویل وعریض پل جہاں انجینئرنگ اورفن تعمیر کے ایک شاہکار کی حیثیت رکھتا ہے وہیں سعودی حکام کی اولوالعزمی کی داستان زبان حال سے سنارہا ہے، سچ ہے ؂
اولوالعزمان دانشمند جب کرنے پہ آتے ہیں
سمندرپاٹتے ہیں کوہ سے دریابہاتے ہیں
طویل وعریض شاہراہوں پربرقی روشنیوں کا انتظام ،سفرکو خطرات سے پاک بنانے کے لئے حفاظتی چوکیوں کا اہتمام، امن وقانون کی بالادستی،قانون نافذ کرنے والے اداروں کی چابکدستی ،ٹریفک کنٹرول کا بے مثال نظام ،پبلک ٹرانسپورٹ کا ہرقدم پرانتظام اور پوری دنیا میں سب سے فائق وبرتر اورمثالی امن وامان، پانی کی فراوانی اوربجلی وٹیلی فون کی قابل رشک خدمات کے ساتھ اندرون ملک پانی سے بھی سستا پٹرول ان سب آسائشوں اورسہولیات نے سفرکو آسان وپرلطف بنادیا ہے، واضح ہوکہ اس وقت سعودی عرب میں پوری دنیا میں سب سے سستا پٹرول یعنی صرف ۶۰ ہللہ سعودی میں ایک لیٹرپٹرول دستیاب ہے،جو ہندوستانی سکوں میں تقریباً ۷؍روپئے ہوتا ہے۔
پوری دنیا اس وقت دہشت گردی کی لپیٹ میں ہے جس میں کچھ توحقیقی ہے اورکچھ فرضی وبناوٹی اورخواہ مخواہ کا واویلا پس ازمرگ اورپروپیگنڈہ ،لیکن اگردنیا میں کوئی ملک اس سے سب سے زیادہ محفوظ ہے اورعام شہریوں کی زندگیاں مامون ہیں تووہ سعودی عرب ہے، جہاں مثالی امن وامان سے لوگ متمتع ہورہے ہیں ،معمولی چوری ڈکیتی رہزنی اورلوٹ مارکی وارداتوں پرپولیس وانتظامیہ کی چوکسی سے مکمل قابوپالیا گیا ہے، لوگوں کے سکون واطمینان اورامن وامان کاحال یہ ہے کہ قیمتی سازوسامان سے بھری ہوئی دوکانوں کوبسااوقات کھلی چھوڑکر نماز کے لئے قریبی مسجد میں چلے جاتے ہیں اورانھیں چوری کا اندیشہ نہیں ہوتا، عام لوگوں کی جان ومال اورخواتین کی عزت وناموس جس قدریہاں محفوظ ہے دنیا کے کسی بھی ملک میں اس کا تصور نہیں کیاجاسکتا۔
سعودی عرب کا بیشتر علاقہ وسیع صحراؤں چٹیل میدانوں ،خشک وبے رنگ پہاڑوں، سنگلاخ وادیوں اوربنجر زمینوں پرمشتمل ہے جہاں کچھ عرصہ قبل پانی اورسبزہ کی بے انتہا قلت تھی، اسی لئے اسے وادی غیرذی ذرع کہاجاتا تھا جوسیدنا ابراہیم علیہ السلام کے ان الفاظ کی بدولت اسے حاصل ہواتھا جوانھوں نے اپنی بیوی وبچے کو مکہ میں چھوڑتے ہوئے دعائیہ کلمات کے طورپر کہے تھے اورجسے قرآن نے محفوظ رکھا ہے انھوں نے کہا تھا(ربنا انی اسکنت من ذریتی بواد غیرذی زرع عند بیتک المحرم)
لیکن سعودی حکومت نے اسی’’ وادی غیرذی ذرع‘‘ کواپنی اولوالعزمیوں اورسعودی انجینئروں نے اپنی فن کا رانہ صلاحیتوں سے رشک جنت بنادیا ہے اوراس بنجر زمین میں پانی وسبزہ کی بہتات ہوگئی ہے، سعودی حکومت چونکہ اپنے عوام کے مسائل کوحل کرنے اورخدمت خلق کافریضہ انجام دینے میں خصوصی دلچسپی رکھتی ہے اس لئے ان کی اولین ضروریات کی تکمیل ومسائل کو ترجیحی بنیادوں پرحل کرتی، ہے اسی کا نتیجہ ہے کہ اس خشک وبے آب وگیاہ ملک میں کہیں بھی پانی کی قلت کا سامنا نہیں ہے اوروہ دنیا کے ان چندملکوں میں سے ایک ہے جہاں صاف وشفاف وشیریں پانی حفظان صحت کے اصولوں کے مطابق فراوانی سے دستیاب ہے، اسی طرح غذائی پیداوار اوراجناس سے قدرتی طورپر محروم ہونے کے باوجود اس نے اپنے شہریوں کے لئے جس طرح اعلیٰ اقسام کے غلہ جات، میوہ جات اورتازہ پھل وسبزیاں ہرموسم اوردنیا کے ہرخطہ کی جس بہتات کے ساتھ ان کی حصولیابی کویقینی بنایا ہے دیکھ کر یقین نہیں ہوتا اوریہ ساری چیزیں انتہائی معقول قیمت اورسستے نرخوں پرہرجگہ دستیاب اورعام آدمی کی پہونچ میں ہیں، سعودی شہریوں کونہ کبھی ناقابل برداشت مہنگائی کا سامنا کرنا پڑتا ہے اورنہ اشیائے ضروریہ کی نایابی کا، حکومت وبلدیہ کے حسن انتظام کاحال یہ ہے کہ موسم حج اوررمضان میں عازمین حج ومعتمرین کی ایک بہت بڑی تعداد کی میزبانی کا مکہ مکرمہ، مدینہ منورہ اورجدہ وغیرہ کوشرف حاصل ہوتا ہے، خاص طور سے مکہ مکرمہ میں مقامی آبادی کے علاوہ ۲۰لاکھ سے ۴۰لاکھ آدمی بیک وقت موجود ہوتے ہیں، لیکن اشیائے خوردونوش کی کبھی قلت نہیں ہوتی ،تجارتی مراکز، دوکان وبازار ضر وری سازوسامان سے بھرے ہوتے ہیں اوربآسانی ہرشخص کودستیاب ہوتے ہیں، حکومت کی خوش انتظامی اورزراعت کی طرف اس کی خصوصی توجہ کا نتیجہ ہے کہ جہاں کبھی گیہوں کی کاشت کا تصورنہیں تھا وہ گیہوں کی پیداوار میں خودکفیل ہوچکا ہے اورشہریوں کوانتہائی سستی قیمت پرآٹا ومیدہ وروٹیاں میسر ہیں، ہوٹلوں میں بالعموم سالن کے ساتھ روٹیاں بلاقیمت دی جاتی ہیں۔
اس وقت جب دنیا کے بیشترملکوں کے لوگ کمرتوڑمہنگائی وبیروزگاری سے نیم جاں ہونے کے باوجود طرح طرح کے ٹیکسوں سے بے حال ہیں وہیں سعودی عربیہ کا حال یہ ہے کہ وہاں انکم ٹیکس، پراپرٹی ٹیکس، سیلز ٹیکس، ایکسائز ڈیوٹی، امپورٹ، کسٹم ڈیوٹی، محصول وچونگی اور مختلف ناموں اورحیلوں وبہانوں سے دنیا میں طرح طرح کے ٹیکسز لئے جانے کا جورواج ہے سعودی عرب میں یہ مفقود ہے، دنیا کے دیگر ملکوں کاحال یہ ہے کہ عوام کے خون پسینہ کی کمائی اورمحنت ومشقت سے حاصل کی ہوئی نان شبینہ تک پرحکومت کی حریصانہ نظرہوتی ہے اورمختلف ناموں سے ٹیکس لگاکر ان کی کمائی پرڈاکے ڈالتی ہے، پھریہ پیسہ بدعنوان سیاست دانوں اور رشوت خور آفیسروں کی جیب میں پہونچ جاتا ہے اورعوام شہری سہولیات بجلی، پانی ا ورسڑکوں تک کوترستے ہی رہ جاتے ہیں جب کہ سعودی عرب میں یہ ساری سہولیات انتہائی اعلیٰ معیارپر بلامعاوضہ مہیا کی جاتی ہیں۔
حکومت لوگوں کوباعزت روزگار فراہم کرنے کے لئے بھی سنجیدگی کے ساتھ ضروری اقدامات کرتی ہے اورفیکٹری وکارخانے لگانے کے لئے بھی ان کی حوصلہ افزائی کرتی ہے، لوگوں کو اپنا ذاتی کاروبار کرنے کے لئے نہ صرف یہ کہ طویل المعیاد اورآسان قسطوں پربلاسودی قرضے دئے جاتے ہیں بلکہ حد تویہ ہے کہ ’’جولوگ پابندی وقت کے ساتھ معاہدوں کے مطابق اپنے سرکاری قرضوں کی ادائیگی امانت ودیانت اوراحساس ذمہ داری کے ساتھ کرتے ہیں سرکاری بنک ان کے قرضوں کی آخری قسطیں اکثرمعاف بھی کردیا کرتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ لوگوں کا کاروبار پھل پھول رہا ہے اورلوگ خوش حالی وفارغ البالی اوربے فکری واطمینان کی زندگی گزاررہے ہیں اوردن دونی رات چوگنی ترقی کررہے ہیں، اوروہاں دولت کی ریل پیل نظرآتی ہے ،یہ سب حکومت کی فلاحی اسکیموں اورترقیاتی منصوبوں کا نتیجہ ہے کہ اس نے ملکی دولت پر تمام شہریوں کا حق تسلیم کیا ہے ورنہ ظاہر ہے کہ ملک اگرپٹرول وگیس اورمعدنیات کی دولت سے مالا مال ہے تویہ پٹرول عام آدمی کے گھرسے نہیں نکلتا لیکن حکومت نے اپنے وسائل میں تمام شہریوں کوشریک رکھا ہے اوران کو بہتر وقابل رشک زندگی دینے کے لئے قابل رشک ہی سہولیات فراہم کی ہیں، اورسرکاری آمدنی میں سے بیشتر حصہ کروڑوں اربوں ڈالر سالانہ کی شکل میں انھیں کے معیارزندگی کو بہتربنانے کے لئے صرف کررہی ہے۔
طبی سہولیات ،تعلیم کے شعبہ جات اورصحت وصفائی پربھی حکومت اربوں ڈالر سالانہ صرف کرتی ہے اوراپنے شہریوں کو بیشتر خدمات مفت فراہم کرتی ہے، غرض کہ اس نے ہرمحاذ پرجوقابل ذکر پیش رفت کی ہے اوررفاہ عام اورخدمت خلق کی بنیادوں پرجوکارہائے نمایاں انجام دئے ہیں اس کے لئے ہرمسلمان کے دل سے دعانکلتی ہے اوریہی وجہ ہے کہ سعودی عوام اپنے فرماں رواؤں سے دل کی گہرائیوں سے محبت کرتے ہیں ،ان کے خلاف بغاوت توبڑی چیز ہے، کینہ وکدورت کا بھی تصورنہیں کرسکتے، لیکن براہومذہبی تعصب اورملحدانہ ذہنیت کا کہ مغربی ایشیاء اورشمالی افریقہ کے بعض عرب اسلامی ملکوں میں آئی تبدیلی کی لہر اوربے چینی کے اظہار اورعوامی مظاہروں کوسعودی عرب پربھی بلاجواز اوربلاسبب منطبق کرنا چاہتے ہیں۔
سعودی حکومت پر کیچڑ اچھالنے والے میری دانست میں دوطرح کے لوگ ہوتے ہیں ایک تو سطوربالا میں مذکورایک خاص فکر سے تعلق رکھنے ،مشرکانہ اعمال ورسوم انجام دینے اورقبروں سے گہری عقیدت رکھنے والے وہ لوگ ہیں جنھیں سعودی حکومت کی اصلاح عقائد کی کوششیں اورتوحید کے غلبہ کے لئے اس کے اقدامات ایک آنکھ نہیں بھاتیں اورقبے گرائے جانے کے صدموں سے یہ قبورپرست ابھی تک نہیں نکل سکے ہیں، اورمختلف موقعوں پر اس فلاحی حکومت کے خلاف زہر افشانی کرتے ہی رہتے ہیں، پھربھلا یہ نادرموقع وہ کہاں چھوڑنے والے تھے ،دوسرے وہ مغرب زدہ اوراشتراکیت زدہ بزعم خود دانشور طبقہ ہے جومغربی طرز حکومت اوروہاں قائم جمہوریت سے بے طرح متاثر ہے اوروہ مغربی نظام جمہوریت کوہی انسانیت کی معراج سمجھتا ہے اورانسانیت کی سیاسی ترقی کا بام عروج صرف جمہوریت کے قیام میں ہی پوشیدہ سمجھتا ہے ،یہ طبقہ دراصل سب سے زیادہ فریب خوردہ ہے اوریہ طبقہ پتہ نہیں احمقوں کی کس جنت میں رہتا ہے، جسے جمہوریت کی خرابیاں اوراس کے مفاسد خوداپنے ملک ہندوستان میں نظرنہیں آتے، یہ اظہار خیال کے لئے تفصیل کاطالب موضوع ہے ان شاء اللہ اس موضوع پر ایک تقابلی جائزہ کی شکل میں ’’السراج‘‘ کے انھیں صفحات میں کچھ باتیں عرض کی جائیں گی، ساتھ ہی سعودی حکومت نے دینی وعلمی محاذوں پر جوبیش قیمت ونمایاں خدمات انجام دی ہیں ان پر بھی کچھ مزید روشنی ڈالی جائے گی ،کیونکہ سعودی حکومت کی نوع بنوع خدمات ایسی نہیں ہیں کہ انھیں چند صفحات میں سمیٹا جاسکے بہت اختصار کے ساتھ بھی اگرعرض حقیقت کیاجائے تودفتردرکار ہے (لہذا بشرط صحت وزندگی کچھ باتیں آئندہ شمارہ میں)
***

No comments:

Post a Comment