Saturday, June 11, 2011

انبیاء کرام کا دعوتی منہج اوراسلوب march 2011

عبدالمنان سلفیؔ
انبیاء کرام کا دعوتی منہج اوراسلوب
چونکہ دعاۃ و مبلغین انبیاء کرام علیہم السلام کے دعوتی مشن کے امین ہیں اس لئے کاردعوت کی انجام دہی کے لئے ضروری ہے کہ وہ انبیاء کرام کا اسوہ ونمونہ اپنے پیش نظر رکھیں ،خصوصاً امام الانبیاء، سیدالمرسلین جناب محمدرسول اللہ ﷺ کے اسلوب دعوت کو حرز جان بنائیں جنھیں ساری دنیائے انسانیت کے لئے رحمۃ للعالمین بناکر مبعوث کیاگیا اوربشیرونذیر قراردے کرتمام بنی نوع انسان کو اللہ کے دین کی جانب دعوت کی ذمہ داری آپ کو دی گئی :(یَآ اَیُّھَا النَّبِیُّ اِنَّا اَرْسَلْنَاکَ شَاھِدَاً وَّمُبَشِّرَاً وَّنَذِیْرَاً وَّدَاعِیَاً اِلَی اللّٰہِ بِاِذْنِہٖ وَسّرَاجَاً مُّنِیْرَاً)(الأحزاب:۴۵،۴۶)(ترجمہ: اے نبی! یقیناہم نے آپ کو (رسول بناکر) گواہیاں دینے والا،خوشخبریاں سنانے والا، آگاہ کرنے والا بھیجا ہے اور اللہ کے حکم سے اس کی طرف بلانے والا اور روشن چراغ) اورپھراس فرمان باری کے ذریعہ تمام احکام کی بندوں تک تبلیغ آپ کے ذمہ کی گئی: (یَآاَیُّھَاالرَّسُوْلُ بَلِّغْ مَآاُنْزِلَ إِلَیْکَ مِنْ رَّبِّکَ فَإِنْ لَّمْ تَفْعَلْ فَمَا بَلَّغْتَ رِسَالَتَہٗ وَاللّٰہُ یَعْصِمُکَ مِنَ النَّاسِ)(المائدۃ: ۶۷)(ترجمہ: اے رسول! جو کچھ بھی آپ کی طرف آپ کے رب کی جانب سے نازل کیا گیا ہے‘ پہنچادیجئے، اگر آپ نے ایسا نہ کیا تو آپ نے اللہ کی رسالت ادا نہیں کی، اور آپ کو اللہ تعالی لوگوں سے بچائے گا) ۔
پھرنبی اکرمﷺ نے تقریباً ۲۳؍برس کا زمانہ فریضۂ دعوت وتبلیغ میں پورے اخلاص اورتندہی کے ساتھ صرف کیا اوردین کی ہرچھوٹی بڑی بات اللہ کے بندوں تک پہونچادی، اور دین آپ کے ذریعہ مکمل ہوگیا، بالآخرنبی اکرمﷺ نے فرمایا’’إنی قد ترکتکم علی المحجۃ البیضاء لیلھا کنھارھا لایزیغ عنھا إلا ھالک‘‘یعنی میں تمھیں روشن شاہراہ پر چھوڑے جارہا ہوں ،اس کی راتیں بھی اس کے دن کی مانند روشن ہیں۔ اور حجۃ الوداع کے موقعہ پر جب صحابہ کرامث کے جم غفیر کو مخاطب کرکے نب ی کریمﷺ نے ان سے سوال کیا کہ’’اَلا ھل بلَّغتُ؟‘‘ یعنی کیا میں نے دین تم تک پہنچادیا؟ توسارے صحابہ کرام نے بیک زبان اقرارکرتے ہوئے جواب دیا’’بلیٰ قدبلَّغتَ وأدّیتَ ونَصَحْتَ‘‘جی ہاں!کیوں نہیں، آپ نے دین ہم تک بلا کم و کاست پہونچادیا، فریضۂ تبلیغ اداکردیا اور خیر خواہی فرمائی۔ اور اس لئے ہرداعی إلی اللہ کے لئے ضروری ہے کہ وہ امام الانبیاء ،سیدالرسل اورداعی اعظم کی زندگی کواپنے داعیانہ عمل کے لئے اسوہ اورنمونہ قراردے کرمنہج، اسلوب اورطرق ووسائل میں آپ کا تتبع کرے تاکہ داعی کی دعوتی کاوش ثمربار اورنتیجہ خیز ثابت ہوسکے ورنہ اس کے بغیردعوت کے میدان میں کامیابی ناممکن ہے۔
نبی کریمﷺ نے دعوت وتبلیغ کے سلسلہ میں جومنہج، اسلوب اورطریقہ اختیار کیا ان سب کی رہنمائی من جانب اللہ تھی اور نبی کریمﷺ نے انھیں امورپراپنی دعوت کی بنیاد رکھ کر مخلصانہ کوشش فرمائی، بالآخر آپ کی دعوت نتیجہ خیز اورکامیاب ہوئی۔
قرآن کریم کامطالعہ کرنے سے یہ اندازہ بہ آسانی کیاجاسکتا ہے کہ مختلف سورتوں میں جابجا نبی کریمﷺ کودعوتی آداب اوراسالیب بتائے گئے ہیں اورطرق وسائل کی جانب آپ کی بھرپور رہنمائی فرمائی گئی ہے، اس لئے اس تعلق سے واردآیات کریمہ کو سامنے رکھے بغیر اس موضوع پر گفتگو تشنہ رہے گی، لہذا میں نے داعی کے اوصاف واخلاق اوردعوتی اسالیب وطرق کی وضاحت کے سلسلہ میں نبی کریمﷺ کی احادیث مبارکہ اورآپ کے اسوۂ حسنہ کے ساتھ ان آیات کوبھی اپنے پیش نظررکھاہے ۔
بصیرت وعلم:۔قرآن کریم میں نبی کریمﷺ کی زبان سے یہ اعلان کرایاگیا کہ : (قُلْ ھٰذِہٖ سَبِیْلِیٓ اَدْعُو إِلَی اللّٰہِ عَلٰی بَصِیْرَۃٍ اَنَا وَمَنِ اتَّبَعَنِی وَمَا اَنَا مِنَ المُشْرِکِیْنَ)(یوسف:۱۰۸)(آپ کہہ دیجئے کہ میری راہ یہی ہے۔میں، اورمیرے فرمان بردار اللہ کی طرف بلارہے ہیں،پورے یقین اوراعتماد کے ساتھ اوراللہ پاک ہے اورمیں مشرکوں میں نہیں)معلوم ہوا ہے اللہ کے راستہ کی جانب دعوت کے لئے علم وبصیرت اور اس کے ساتھ اس دعوت کی صداقت پرکامل یقین ضروری ہے۔
امام بخاری رحمہ اللہ نے اپنی صحیح کے اندرفرمان باری(فاعلم أنہ لا إلہ إلا اللہ)سے استدلال کرتے ہوئے باب باندھا کہ ’’باب العمل قبل القول والعمل‘‘گویا قول یعنی دعوت اور عمل سے پہلے علم کی ضرورت ہے۔
ہمارے نبیﷺ جس دین کی طرف لوگوں کو بلارہے تھے اس کی صداقت وحقانیت پرآپ کومکمل یقین تھا اس کا انداز داعی اعظم ﷺ کے اس جواب سے بخوبی کیاجاسکتا ہے کہ جب سرداران مکہ نے ایک موقعہ پر آپ کے چچا ابوطالب پردباؤ ڈالا توچچا متاثر ہوئے بغیر نہ رہے اورکہہ بیٹھے کہ’’ بیٹے! میرے اوپر میری طاقت سے زیادہ بوجھ نہ لادو‘‘توآپ غمزدہ ہوگئے اورآپ کو یہ ظاہری سہارا بھی خطرہ میں نظرآیا، مگراس نازک موقع پرآپ نے پورے اعتماد ووثوق سے کہا’’یا عم واللہ لووضعوا الشمس فی یمنی والقمرفی یسری علی أن أترک ھذا الأمر حتی یظہرہ اللہ أو أھلک فیہ ماترکتہ‘‘(یعنی اے میرے چچا جان، اللہ کی قسم اگریہ لوگ میرے داہنے ہاتھ میں سورج اوربائیں میں چاند بھی رکھ دیں تاکہ میں اس کارِ دعوت سے رک جاؤں تومیں کبھی اپنی دعوت بند نہیں کرسکتا،یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ اسے غلبہ عطا فرمادے یا اس راستہ میں میری جان ہی چلی جائے)(سیرت ابن ہشام)
اس واقعہ میں داعی کے لئے یہ سبق بھی مضمر ہے کہ حالات کتنے ہی ناسازگار کیوں نہ ہوجائیں ایک مخلص داعی کو کبھی بھی نہ دل برداشتہ ہوناچاہئے اور نہ ہی اپنے فریضہ سے غافل ہونا چاہئے۔
حکمت ،موعظۂ حسنہ اورمجادلۂ احسن:۔ دعوتی اسلوب کی جانب رہنمائی فرماتے ہوئے نبی ﷺ کو حکم دیاگیا کہ(اُدْع إِلٰی سَبِیْلِ رَبِّکَ بِالحِکْمَۃِ وَالمَوْعِظَۃِ الحَسَنَۃِ وَجَادِلْھُمْ بِالَّتِی ھِیَ اَحْسَنُ)( اپنے رب کی راہ کی طرف لوگوں کو حکمت اور بہترین نصیحت کے ساتھ بلایئے اوران سے بہترین طریقہ سے گفتگو کیجئے) (النحل:۱۲۵)یہ آیت کریمہ کار دعوت کے لئے ا صل الاصول کی حیثیت رکھتی ہے جس میں نبی کریمﷺ کو یہ ہدایت کی گئی ہے کہ دعوتی فریضہ کی انجام دہی میں حکمت، موعظۂ حسنہ اورجدال أحسن کا طریقہ اختیار کیجئے۔
گوکہ لفظ حکمت کے متعددمعانی علماء ومفسرین نے ذکرکئے ہیں تاہم ان تمام معانی میں جو مفہوم قدرے مشترک کے طورپرپایاجاتا ہے وہ یہ ہے کہ ’’وضع الأشیاء فی مواضعھا‘‘یعنی مناسب اسلوب اورلب ولہجہ میں اپنی دعوت مدعو کے سامنے پیش کرنا کہ وہ متنفرہونے کے بجائے اس سے متاثرہوجائے۔
موعظۂ حسنہ اورجدال احسن یہ دونوں بھی حکمت کے وسیع مفہوم میں داخل ہیں ،مگرمزید وضاحت کے مقصدسے اوران کی اہمیت دوبالاکرنے کے لئے ان کاذکرعلیحدہ بھی کیاگیا۔
موعظۂ حسنہ کامطلب یہ ہے کہ مخاطب اورمدعو سے ایسے اسلوب اورلب ولہجہ میں گفتگو کی جائے کہ اس کا دل نرم پڑجائے اوروہ خیرقبول کرنے کے لئے آمادہ بھی ہوجائے، موعظۂ حسنہ اللہ کی نعمتوں کی تبشیر وعذاب الٰہی سے انذار کے ذریعہ بھی ممکن ہے۔
جدال احسن کامفہوم یہ ہے کہ مدعو کے شکوک وشبہات عقلی ونقلی دلائل سے دور کئے جائیں، اپنی دعوت کی تائید میں واضح دلیلیں پیش کی جائیں اوراس موقعہ پربیجا شدت سے احتراز کیاجائے۔
حکمت کامفہوم سمجھنے کے لئے اس واقعہ سے بخوبی رہنمائی مل رہی ہے ،ایک صحابی نے آپ ﷺ سے زنا کی اجازت مانگی تھی اورآپ ﷺ نے بڑی حکمت کے ساتھ انھیں سمجھادیا اورفرمایا کہ ٹھیک ہے، کیا تم اپنی ماں ،خالہ، پھوپھی اور بہن وغیرہ سے یہ بیہودہ حرکت کرسکتے ہو؟ صحاب�ئ رسول نے کہا ہرگز نہیں ،کیا کوئی اپنی ماں، خالہ بہن وغیرہ سے بدکاری کرسکتا ہے،؟ اس پر آپﷺ نے فرمایا آخر جس سے تم زنا کروگے وہ بھی توکسی کی ماں، خالہ،بہن اوربیٹی وغیرہ ہی ہوگی، پھرآپ ﷺنے ان کی عصفت وعفت کی حفاظت کے لئے دعا دی ،نبی کریمﷺ نے اپنی دعوت میں ان اصولوں کاپورا لحاظ رکھا اور مکمل حکمت ودانائی سے آپﷺ نے لوگوں کواللہ کے دین کی طرف بلایا، اس لئے ہرداعی کے لئے ضروری ہے کہ وہ نبی کریمﷺ کی اقتداء کرتے ہوئے دعوت کے ان بنیادی اصولوں پرضرور توجہ دے۔
مدعو کے ساتھ خیرخواہی:۔ نبی کریمﷺ لوگوں کی ہدایت کے لئے بڑے حریص اورفکرمند رہتے تھے، قرآن کریم کی متعدد آیات میں آپ کی اس فکرمندی کاتذکرہ آیا ہے مثلا(فَلَعَلَّکَ بَاخِعٌ نَّفْسَکَ عَلٰیٓ آثَارِھِمْ إِنْ لَّمْ یُؤْمِنُوْا بِھٰذَا الحَدِیْثِ اَسَفًا)(پس اگر یہ لوگ اس بات پر ایمان نہ لائیں توکیا آپ ان کے پیچھے اس رنج میں اپنی جان ہلاک کرڈالیں گے) (کہف:۶) (فَلَعَلَّکَ بَاخِعٌ نَّفْسَکَ اَنْ لاَّ یَکُوْنُوْا مُؤمِنِیْنَ)(ان کے ایمان نہ لانے پرشاید آپ تواپنی جان کھودیں گے) (الشعراء:۳)(فَلاَ تَذْھَبْ نَفْسَکَ عَلَیْہِمْ حَسْرَاتٍ إِنَّ اللّٰہَ عَلِیْمٌ بِمَا یَصْنَعُوْنَ)(پس آپ کو ان پرغم کھاکھاکر اپنی جان ہلاکت میں نہ ڈالنی چاہئے)(فاطر:۸)
اس لئے ہرداعی کے اندرمدعو کے لئے خیر خواہی کا جذبہ ہوناچاہئے اوراسے ان کی ہدایت کی فکرہمہ وقت ہونی چاہئے۔
نرم خوئی، شفقت، رأفت ورحمت اوراخلاق عالیہ :۔نبی کریمﷺ کی شان میں اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:(وماارسلناک إلا رحمۃ للعالمین) (الأنبیاء:۱۰۷)( ہم نے آپ کو تمام جہاں والوں کے لئے رحمت بناکر بھیجا)چنانچہ عالمین کے لئے آپ کی رافت ورحمت کے مظاہر آپ کی سیرت طیبہ میں بکھرے پڑے ہیں،مثلاً:
*مشرکین کی جانب سے ہزار تکلیفیں اور مصیبتیں جھیلنے کے باوجود ان کے لئے بددعانہ کرنا اسی رحمت کا حصہ تھا۔
*طائف میں آپ کو ستایا گیا،اللہ کے حکم سے فرشتے اہل طائف کو عذاب دینے کے لئے حاضرہوئے ،مگرآپ نے رحمت کا مظاہرہ کرتے ہوئے اہل طائف کو معاف کردیا۔
*ہجرت کے موقعہ پر انعام کی لالچ میں سراقہ بن مالک نے آپ کا تعاقب کرکے آپ کے اوپرحملہ کرنا چاہا مگر ناکامی ہوئی پھرسراقہ کو آپ کی صداقت کا علم ہوگیا، امان طلب کی، آپ نے انھیں معاف کردیا، پھروہ مشرف بہ اسلام ہوگئے۔
*اپنے محبوب چچا حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کے قاتل وحشی بن حرب کو فتح مکہ کے موقعہ پر معاف فرمادیا، حالانکہ چچا کے قتل پرآپ کو بے حدصدمہ ہواتھا۔
*فتح مکہ کے موقعہ پر آپ نے عام معافی کااعلان کیا ’’لاتثریب علیکم الیوم فاذھبوا أنتم الطلقاء‘‘یعنی آج تمہارے خلاف کوئی داروگیرنہیں ہے، جاؤتم سب آزاد ہو،فتح مکہ ہی کے دن جب بعض صحابہ رضی اللہ عنہم نے انتقام کی بات کہی اوراعلان کیا ’’الیوم یوم الملحمۃ‘‘یعنی آج خون بہانے کا دن ہے ،توآپ نے اس کے جواب میں فرمایا’’الیوم یوم المرحمۃ‘‘آج رحم وکرم کادن ہے۔
*صحیح مسلم ’’کتاب البرباب النھی عن لعن الدوابّ‘‘میں آپ ﷺکا فرمان ہے’’إنی لم أبعث لعّانا وانما بعثت رحمۃ‘‘یعنی میں لعنت کرنے والا بناکرنہیں بھیجا گیا ہوں میں تورحمت بناکر مبعوث کیا گیا ہوں،نیز آپ ﷺنے فرمایا’’إنما أنا رحمۃ مھداۃ‘‘یعنی میں رحمت مجسم بن کرآیا ہوں جواللہ کی طرف سے اہل جہاں کے لئے ایک ہدیہ ہے۔ (صحیح الجامع الصغیر رقم:۲۳۴۵)’’عن انس قال قال النبی ﷺ یسّروا ولا تعسروا بشروا ولاتنفروا‘‘یعنی تم آسانی پیداکرو سختی نہ کرو، خوش خبری دونفرت نہ پھیلاؤ۔
نبی کریمﷺ کی دعوت کی کامیابی آپ کی بے مثال شفقت ورحمت کی مرہون منت ہے جیساکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:(فَبِمَا رَحْمَۃٍ مِّنَ اللّٰہِ لِنْتَ لَھُمْ وَلَوْکُنْتَ فَظَّاً غَلِیْظَ الْقَلْبِ لَانْفَضُّوْا مِنْ حَوْلِکَ ،فَاعْفُ عَنْھُم وَاسْتَغْفِرْلَھُمْ وَشَاوِرْھُمْ فِی الأَمْرِ فَاِذَاعَزَمْتَ فَتَوَکَّلُ عَلَی اللّٰہِ إِنَّ اللّٰہَ یُحِبُّ الْمُتَوَکِّلِیْنَ)(یعنی اللہ تعالیٰ کی رحمت کے باعث آپ ان پر نرم دل ہیں، اوراگر آپ بدزبان اورسخت دل ہوتے تویہ سب آپ کے پاس سے چھٹ جاتے، سوآپ ان سے درگذرکریں اوران کے لئے استغفار کریں اورکام کا مشوردہ ان سے کیا کریں، پھرجب آپ کا پختہ ارادہ ہوجائے تواللہ تعالیٰ پر بھروسہ کریں، بیشک اللہ تعالیٰ توکل کرنے والوں سے محبت کرتاہے) (آل عمران:۵۹)
رافت ورحمت، عفوودرگذر اورمدعوکے لئے ہمدردی وغم گساری دعوت کی کامیابی کے بنیادی شرائط میں سے ہیں،اس آیت کریمہ میں نبی کریمﷺ کو دعوت کے باب میں مسلمانوں سے مشورہ اورصحیح نتیجہ پر پہونچنے کے بعد اللہ کے اوپر توکل کاحکم دیاگیا ہے، دعاۃ کویہ نکتہ بھی اپنے پیش نظررکھنا چاہئے، عامۃ المسلمین سے مشورہ کے بعدکاردعوت انجام دینے پر اس کے بہتر نتائج برآمدہونے کی توقع ہے۔
عفوودرگذرکی چند مثالوں کی جانب اشارہ کیا گیا، کچھ اورواقعات سے یہ دعوتی اسلوب مزید واضح ہورہا ہے۔
*واقعہ ،ثمامہ بن أثال: ثمامہ یمامہ کے حاکم تھے،قبل ازاسلام رسول اللہ ﷺ سے سخت بدگمان تھے اورانھیں آپ ﷺ سے شدید نفرت تھی، لیکن گرفتار ہونے کے بعد جب مسجد نبوی کے ایک ستون سے انھیں باندھاگیا اور چند دنوں تک انھوں نے آپ کے اخلاق کا قریب سے مشاہدہ کیا تومتاثرہوئے بغیرنہ رہ سکے ،اللہ کے رسول ﷺ آتے جاتے ان کی خیریت دریافت فرماتے،ایک دن آپ نے سوال فرمایا کہ ثمامہ کیا حال ہے؟ تمھیں اپنے بارے میں کیا امید ہے ؟ثمامہ نے جواب دیاکہ’’إن تقتل تقتل ذادم وإن تنعم تنعم علی شاکر‘‘آپ ﷺ نے ان کے رہائی کا حکم دیا پھروہ ایمان لائے اورمحبت وعقیدت سے بھرپور جملے کہے کہ اے اللہ کے رسول! آج سے پہلے اس روئے زمین پر میری نظرمیں آپ سے زیادہ مبغوض اورناپسندیدہ کوئی نہ تھا مگر اب آپ کی شخصیت میرے دل میں روئے زمین پر سب سے زیادہ محبوب ہے ۔
*ایک دیہاتی کے مسجدنبوی میں پیشاب کاواقعہ:۔
یہ واقعہ بڑا مشہورہے کہ ایک بار مسجد کے آداب وفضائل سے ناواقف ایک دیہاتی صحابی مسجد نبوی میں آئے ،انھیں پیشاب کی حاجت محسوس ہوئی اوربلاتکلف مسجد کے گوشہ میں بیٹھ کرپیشاب کرنے لگے، صحابہ کرام کی نظرپڑی توانھوں نے ڈانٹ ڈپٹ شروع کی ،مگراللہ کے نبیﷺ نے سب کوخاموش کیا اورفرمایا :’’دعوہ واھریقوا علی بولہ ذنوباً من ماء أوسجلا من ماء فإنما بعثتم میسرین ولم تبعثوا معسرین‘‘۔یعنی انھیں فارغ ہولینے دو اورپیشاب کی جگہ ایک ڈول پانی ڈال دو اس لئے کہ تم آسانی پیداکرنے واے بناکربھیجے گئے ہونہ کہ سخت گیر اورشدت پسند، پھرآپ نے اعرابی صحابی کوبڑی نرمی سے بتایا یہ مسجدیں نماز اوراللہ کے ذکرکے لئے بنائی گئی ہیں ،ان میں پیشاب پائخانہ مناسب نہیں ہے۔
عفوودرگزرکی ایک اورمثال:
*حضرت جابررضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ ہم نجد کی جانب رسول اللہﷺ کے ساتھ غزوہ میں نکلے ،سفرکے دوران ایک جگہ دوپہر کوپڑاؤ ڈالاگیا ،لوگ چھوٹے چھوٹے جنگلی درختوں کے سایہ میں پھیل گئے ،نبی کریمﷺ نے ایک درخت پراپنی تلوار لٹکادی اورآرام فرمانے لگے، اتنے میں ایک کافرآیا اورآپ کی تلوار ہاتھ میں لے کر کرخت لہجے میں گویا ہوا’’من یمنعک منی؟یعنی اب آپ کومجھ سے کون بچائے گا؟اللہ کے رسول ﷺ نے بڑے اطمینان سے فرمایااللہ،پھرتلواراس کے ہاتھ سے چھوٹ کرگرگئی ، آپ ﷺنے تلوار اٹھالیا اورصحابہ کرام کواس حادثہ سے باخبرکیامگرآپ نے اس گستاخ کافرکو کوئی سزانہ دی،صحیح بخاری میں حضرت جابرکے الفاظ ہیں:’’ ثم لم یعاقبہ‘‘(متفق علیہ) (جاری)

No comments:

Post a Comment