Saturday, June 11, 2011

نیپال میں قادیانیت اوراس کا تدارک march 2011

مولانا مطیع اللہ حقیق اللہ مدنی
استاد مدرسہ خدیجۃ الکبریٰ کرشنانگر

نیپال میں قادیانیت اوراس کا تدارک

اللہ تعالیٰ نے دنیا میں انسانیت کی ہدایت ورہنمائی اوردعوت الی الحق کے لئے بہت سے انبیاء ورسل کومبعوث فرمایا،ذریت آدم میں دس صدیوں کے بعدجب شرک کاظہورووقوع ہوا تودعوت توحیدکے لئے اپنا پہلا رسول بناکرنوح علیہ السلام کوبھیجا اس کے بعدانبیاء ورسل کا ایک تسلسل رہا، مختلف قوموں میں اللہ تعالیٰ اپنے مختلف نبیوں اوررسولوں کوان کی ہدایت کے لئے بھیجتا رہا، یہاں تک کہ انبیاء ورسل کے اس زریں سلسلہ کومحمدبن عبداللہﷺ کوخاتم النبین بناکرانھیں پرختم کردیا۔
محمدﷺ پرختم نبوت کاعقیدہ واضح اسلامی عقائد میں سے انتہائی اہم ترین عقیدہ ہے اس پرقرآن کریم، احادیث نبویہ صحیحہ اوراجماع امت کی دلیلیں بصراحت دلالت کرتی ہیں جس میں کوئی خفا وغموض نہیں ہے۔
قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتاہے:(ماکان محمد أباأحد من رجالکم ولکن رسول اللہ وخاتم النبین وکان اللہ بکل شئی علیما)(الأحزاب:۴۰)
ختم نبوت محمد ﷺ پردلالت کرنے والی احادیث صحیحہ میں سے بعض احادیث ملاحظہ فرمائیں: ’’قال رسول اللہﷺ کانت بنوإسرائیل تسوسھم الأنبیاء کلما ھلک نبی خلفہ نبی آخر وأنہ لانبی بعدی وسیکون خلفاء فیکثرون‘‘بنواسرائیل کی سیاست وقیادت اوررہنمائی انبیاء کرتے تھے، جب کسی نبی کاانتقال ہوجاتا کوئی دوسرانبی اس کا جانشین قرارپاتا، یادرہے میرے بعدکوئی بھی اوردیگر نبی نہیں ہوگا، ہاں خلفاء رسول ہوں گے اوروہ خوب زیادہ ہوں گے۔
’’عن أبی ھریرۃ قال قال رسول اللہﷺ وإنہ سیکون فی أمتی کذابون ثلاثون کلھم یزعم أنہ نبی وأنا خاتم النبین لانبی بعدی‘‘میری امت میں تیس کذاب بڑے ظاہرہوں گے،ان میں سے ہرایک کا گمان ہوگا کہ وہ نبی ہے، میں ہی خاتم النبین ہوں میرے بعدکوئی اورنبی نہیں ہوگا۔
’’عن أبی ھریرۃ عن النبی ﷺ قال: مثلی ومثل الأنبیاء کمثل رجل بنی بنیانا فأحسنہ وأجملہ فجعل الناس یطیفون بہ یقولون مارأینا بنیانا أحسن من ھذا إلا ھذہ اللبنۃ فکنت أنا اللبنۃ‘‘میری اورانبیاء کی مثال اس شخص کی طرح ہے جس نے ایک عمارت بنائی اسے حسین وجمیل بنایا لوگ اس کے گردچکرلگانے لگے اورکہنے لگے کہ ہم نے ا سے حسین عمارت نہیں دیکھی مگر یہ اینٹ (کیوں نہ لگائی گئی؟)میں ہی اینٹ ہوں۔(رواہ مسلم)
’’عن جابر عن النبیﷺ قال: مثلی ومثل الأنبیاء کمثل رجل بنی داراً فأتمھا وأکملھا إلا موضع لبنۃ فجعل الناس یدخلونھا ویتعجبونھا منھا ویقولون لولاموضع اللبنۃ قال رسول اللہﷺ فأنا موضع اللبنۃ جئت فختمت الأنبیاء‘‘جابر سے مروی ہے نبیﷺ نیفرمایا: میری مثال اورانبیاء کی مثال اس آدمی کی سی ہے جس نے ایک گھرکی تعمیرکی، اسے پوراکیا اورکامل بنایامگر ایک اینٹ کی جگہ(باقی رکھا) لوگ اس گھرمیں داخل ہونے لگے۔ اس پرتعجب کرنے لگے اورکہنے لگے۔اینٹ کی جگہ کیو ں نہیں (پُرکی گئی)رسول اللہﷺ نے فرمایا:میں ہی اینٹ کی جگہ ہوں میں آگیا میں نے انبیاء پرمہر لگادی ہے۔(رواہ مسلم)
اسلامی تاریخ کے مختلف ادوارمیں اب تک بہت سے کذاب ومفتری اوردجال پیداہوئے جنھوں نے دروغ سے نبوت کا جھوٹا دعوی کیا۔
اسود عنسی، مسیلمہ کذاب، سجاح اوردیگرکذابوں اورافترا پردازوں نے اپنی نبوت کادعوی پیش کیا اوریوں رسول اللہﷺ کی پیشین گوئی ثابت ہوئی کہ اس امت میں کذاب یعنی جھوٹوں کاظہورہوگا جویہ کہیں گے کہ وہ نبی ہیں،مگریہ اٹل حقیقت ہے کہ نبی امی ﷺ ہی رسول اللہ اورخاتم النبین ہیں ان کے بعدکوئی دوسرانبی نہیں ہے۔
ہندوستان کی سرزمین پرایک صدی پیشتر پنجاب کے ایک گاؤں قادیان میں ایک مفتری کذاب ظاہرہوا جس کانام مرزاغلام احمد قادیانی تھا،شروع میں اس نے متکلم اسلام اورمناظراسلام کے طورپر اپنی سرگرمیوں کاآغاز کیا۔
چالاک وچابک دست مرزانے اپنی کتاب براہین احمدیہ کی طباعت اورنشروتوزیع کے لئے امدادوتعاون کی اپیل کا اشتہارواعلان کرناشروع کیا اوربراہین احمدیہ کے بعض اجزاء کی طباعت اوراشاعت عمل میں آئی اوراس میں متضاد آراء واقوال نظرآئے اورفکرونظر میں مشبوہ شخصیت نظرآئی چندہی ایام کے بعدخوداپنی ذات سے متعلق اس شخص نے متعددمتضاد دعوے ظاہر کرناشروع کیا، بالآخر اس نے اپنی نبوت کا جھوٹا دعویٰ کیا چونکہ اس کام کے لئے انگریز حکومت سے اس کی سازباز ہوچکی تھی افراد کی خرید ہوچکی تھی ان کے قلب وضمیر کاسودامکمل ہوچکا تھا اس کے اتباع پیداہوتے گئے۔
اس کذاب ومفتری کاخوب چرچاہوا بڑاغلغلہ رہا،ہندوستان کی سرزمین میں اس کے اتباع کی ایک بہت مختصر تعداد اس کے گردجمع ہوگئی جسے قادیانی اشتہار بہت بڑی تعدادا بناتارہتاہے، جملہ اہل حق نے اس کذاب وافتراپرداز کی جھوٹی نبوت کا انکارکیا اوراس کی تردید وابطال میں بساط بھرکوششیں صرف کیں، جماعت اہل حدیث کے سربرآوردہ علماء میاں سیدنذیرحسین محدث دہلوی ،مولاناابوسعید محمد حسین بٹالوی، مولانا محمدابراہیم سیالکوٹی،مولاناابوالقاسم محمدسیف بنارسی، مولانامحمد بشیر سہسوانی، مولانا قاضی محمدسلیمان سلمان مصنورپوری ،مولاناعبداللہ معمار، مولاناحبیب اللہ کلرک،مولانا عبداللہ روپڑی اورفاتح قادیان مولانا ابوالوفاء ثناء اللہ امرتسری رحمۃ اللہ علیہ نے اس جھوٹے متبنئ قادیان کاناطقہ بندکردیا اورہرمحاذ پر اس کوشکست فاش دی۔
بالآخریہ انگریزوں کاغلام مرزاغلام احمد قادیانی 1908میں اپنی ہی بددعاؤں کے نتیجہ میں بدترین موت کا شکارہوا، تحریک ختم نبوت مؤلفہ ڈاکٹرمحمدبہاؤالدین میں پوری تاریخ مدون ہے، اس کوملاحظہ کرسکتے ہیں۔
علماء کرام نے بالیقیں مرزاغلام احمدقادیانی کی جھوٹی نبوت کے سارے تاروپود بکھیرکر رکھ دیا، پھربھی قادیانی اپنے مسموم افکار اورباطل نظریات کوسادہ لوح مسلمانوں میں پھیلانے کی کوشش میں مصروف عمل رہے، وہ اپنے تمام ترمادی وسائل وامکانیات کوبروئے کار لاکراپنی باطل فکرکورواج دینے کی تمام ترجدوجہد کرتے رہے، تاکہ مسلمان اپنے حقیقی دین اوراپنے صحیح عقائدسے پھرجائیں اورارتداد کے شکارہوجائیں قادیانیت کی نشرواشاعت میں ہمیشہ اغیار بالخصوص انگریزوں نے ان کی مددکی ہے اورآج بھی یہ سلسلہ جاری ہے، یہ اپنے رفاہی وانسانی عمل کے ذریعہ فقراء ومساکین کواپناہمنوا بنانے میں بعض حدتک کامیاب ہیں۔
اس متبنئ قادیان کے پیروکار اس کے دورمیں پیداہوئے اوراس کے عہدمیں اوربعدکے عہد میں صوبہ پنجاب میں تھوڑے سے پیداہوئے اوربعض بڑے شہرو ں میں قادیانی افرادپائے گئے، اس کے عبرت ناک انجام اوربدترین موت کے بعدبھی قادیانی فرقہ کے پیروکار کم وبیش پیدا ہوتے رہے اورمرورایام کے ساتھ دنیا کے کچھ دیگر ممالک بالخصوص بعض افریقی ممالک میں بالاخص اقتصادی وعلمی وثقافتی طورپر پسماندہ خطوں میں یہ ’’احمدیہ‘‘ فرقہ کے مشتبہ نام سے بتدریج پھیلتے رہے اورسلفیوں کی اصلاحی کوششوں کے نتیجے میں ختم بھی ہوتے رہے۔
احمدیہ کا لقب اس لئے اختیار کیا گیاتاکہ سادہ لوح ،ناخواندہ مسلمانوں کودھوکہ دے کراپنی باطل جماعت میں شامل کرناان کے لئے �آسان ہو،اورانھیں باطل ومسموم افکارکاشکاربنالیا جائے۔
اس وقت امریکہ یورپ آسٹریلیا، برطانیہ اوراسرائیل سے انھیں خصوصی مددملتی ہے، ان کی سرگرمیاں جاری ہیں اوریہود ونصاریٰ اوردیگر منحرف اورگمراہ نظریات کے حامل اشخاص وتنظیمات کی انھیں تائید حاصل ہے۔
یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ ہندوستان کے پڑوسی پسماندہ ملک نیپال میں قادیانیت اپنی تمام تر فتنہ سامانیوں،تمام ترخرابیوں اوربہرنوع برائیوں کے ساتھ پھیل رہی ہے، مرزائی قادیانی اپنے فاسد افکاراورباطل نظریات کوسادہ لوح مسلمانوں میں پھیلانے کی کوشش میں مصروف عمل ہیں۔
وہ اپنے تمام ترمادی وسائل وامکانیات بروئے کارلاکراپنی فکرکورواج دینے کی تمام تر جدوجہد کررہے ہیں، تاکہ مسلمان اپنے حقیقی دین اوراپنے عقائد سے پھرجائیں اورارتداد کے شکارہوجائیں یہ اپنے رفاہی وانسانی عمل کے ذریعہ فقراء ومساکین کواپناہمنوا بنانے میں کسی نہ کسی حد تک کامیاب ہیں۔
اس وقت نیپال کے بعض شہروں ،قصبات اورگاؤں میں ان کی سرگرمیاں جاری ہیں اوریہاں پرقادیانیت پھیل رہی ہے، نیپال کے مشہورصنعتی وتجارتی شہربیرگنج ضلع پرسا اوراس کے پاس پڑوس کے کئی گاؤں میں قادیانیت کی اشاعت ڈھکی چھپی بات نہیں ہے۔
چونکہ وہاں پرمسلمان علمی ثقافتی اوراقتصادی طورپر حددرجہ پسماندہ ہیں،ان کی اقتصادی پسماندگی کافائدہ اٹھاکر قادیانیت کے مبلغین جاہل وناخواندہ لوگوں کواپنے دام تزویر میں پھانسنے میں کامیاب ہیں، اس بابت وہاں سے بہت پہلے سے ناپسندیدہ خبریں موصول ہوتی رہی ہیں۔
اس طرح مشرقی نیپال میں قادیانیت پھیل رہی ہے ،معاملہ یہاں تک پہنچ چکا ہے کہ براٹ نگرکے صنعتی ایئریا میں ایک پوری آبادی قادیانیت کے جال میں گرفتار ہوچکی ہے، نیپال کے پہاڑی خطوں میں حالات مزید بدترہیں جہاں کے مسلمان اسلام اوراس کے عقائد حقہ سے بے خبرہیں، چند باطل رسوم ورواج کو ہی دین سمجھتے ہیں، وہ غیراسلامی تہذیب وثقافت سے بہت حد تک متاثر ہیں،ان کی اپنی اسلامی ودینی شناخت نہیں ہے اس لئے وہ اس باطل فکرسے متاثر ہوکرمتاع غرور سے فریب کھاکراپنی دینی واسلامی شناخت کی حفاظت کرنے میں ناکام ہیں اورقادیانیت کوگلے لگا نے میں حرج نہیں محسوس کررہے ہیں، پوکھرانامی شہرجواپنی قدرتی خوبصورتی ،دلکش مناظرکے لئے مشہور ہے اور سیاحوں کاعظیم مرکز ہے، اس میں قادیانیوں کادعوتی وتبلیغی سنٹرقائم ہے۔
اسی طرح نیپال کی راجدھانی کاٹھمنڈومیں’’ جماعت احمدیہ‘‘ کے نام سے ان قادیانیوں کی تنظیم موجوداورسرگرم عمل ہے اوریہ تنظیم وہاں کے سرکاری دفاتر میں رجسٹرڈ ہے۔
لمبنی کے علاقہ میں بھی قادیانی مبلغ پہنچے اور وہاں پربھی وہ ہاتھ پاؤں مارنے کی کوشش کرتے نظرآئے، دین وعقیدہ کے لئے یہ زہرقاتل اورمہلک بیماری اس ملک کے اطراف واکناف میں سرایت کرتی جاری ہے، نیپال میں علم وتعلیم کی صورت حال آج بھی کچھ زیادہ بہترنہیں ہے، جامعات ومدارس گنتی میں یقیناًبہت زیادہ ہیں نتائج واثرات کے اعتبارسے چندہی ادارے قابل شمارہیں۔
دعوت وارشاد کاکام یقیناًجاری ہے مگراس کادائرہ اورمقدار بہت محدود ہے دعوتی حالت کچھ زیادہ تسلی بخش نہیں ہے غیروں میں دعوت صفر کے درجہ میں ہے، بدعقیدہ خرافاتی مسلمانوں بالخصوص پہاڑیوں کی وادیوں میں بسنے والے ناخواندہ طبقہ میں بھی دعوت کاکام نہ کے برابر ہے ان وادیوں میں دیگرغیر مسلم تنظیمیں بالخصوص عیسائی، بودھسٹ اورقادیانی تنظیمیں سرگرم عمل ہیں۔
سدباب کی فکر خال خال لوگوں میں ہے اس فتنۂ قادیانیت کی تردید وابطال اوراس کی انتشارکی روک تھام کے لئے جس قدرمنصوبہ بند کوشش کی ضرورت ہے اس کافقدان ہے، بعض اسلامی تنظیمیں اوردینی ادارے اوران سے وابستہ اہل علم کبھی کبھی اس فتنہ کی سرکوبی کے لئے کچھ کوششیں ضرور کرتے رہے ہیں۔
لیکن حقیقی معنوں میں وہ اس سلسلہ کی بہت کامیاب کوشش نہیں قراردی جاسکتی ہے کوششیں معمولی ہیں جب کہ فتنہ بہت ہولناک نیزخطرناک ہے یہ بڑی مہلک بیماری ہے جودن بدن ملک کے بعض اطراف میں پھیلتی جارہی ہے۔
۱۴۱۸ھ ؁ کی بات ہے جب نیپال میں ایک اہم ترین کمیٹی’’ نیپال رفاہی کمیٹی‘‘ کے نام سے قائم ہوئی تھی، اس کمیٹی کے زیرنگرانی مدرسہ مخزن العلوم رمول ضلع سرہانیپال میں ’’ریفریشرکورس‘‘ برائے ائمہ و دعاۃ کا انعقاد عمل میں آیاتھا۔
اس ریفریشرکورس میں مولانا عبدالمنان عبدالحنان سلفی مدیرماہنامہ’’السراج‘‘ جھنڈانگر نے ’’قادیانیت‘‘کے موضوع پر ایک انتہائی جامع وقیع مقالہ پیش کیاتھا، یہ مقالہ اولاً مجلہ ’’السراج‘‘ جھنڈانگر میں قسط وارشائع کیاگیا اوراسی مقالہ کوکتابی شکل میں زیورطباعت سے آراستہ کرکے منصہ شہود پرلایا گیا ،یہ فتنۂ قادیانیت کو سمجھنے میں بڑی ممدوتعاون کتا ب ہے، کاش اس کتاب کا ہندی اوراس طرح نیپالی زبان میں ترجمہ ہی کردیاجاتا اوراسے نیپالی زبان جاننے والے مسلمانوں بالخصوص پہاڑی مسلمانوں میں وسیع پیمانہ پر تقسیم کیاجاتا تواس فتنہ کا سدباب کرنے میں کافی تقویت ملتی ،اوراہل زبان نیپالی حضرات اس فتنہ کی زہرناکیوں اوراس کی عظیم خطرناکیوں سے آگاہ ہوتے اوریوں وہ قادیانی مبلغین کے دام فریب کاشکارنہ ہوتے۔
اسی طرح بعض اوقات کچھ اہل علم اوردعاۃ کی جانب سے بھی اس فتنہ کے ردوابطال کی بابت کچھ کوششیں بھی دیکھنے میں آئی ہیں، انھوں نے اپنی تقریروں اوربعض مقالات کے ذریعہ نیپال کی مسلم امت کواس بڑے خطرہ سے آگاہ کیاہے۔
ایک دفعہ لمبنی کے علاقہ میں ایک قادیانی مبلغ پہنچا، اس نے پہلے اپنے آپ کو ایک مسلمان اورپڑھالکھا عالم ظاہرکیا، اس نے لمبنی کے انتہائی حساس مقام پر پرسا نامی چوراہا پربنی جامع مسجد اہل حدیث میں خطبہ جمعہ دینے میں کامیابی حاصل کی، کئی خطبات دیا پھر بالآخر اس نے بال وپرنکالنا شروع کیا اوربتدریج اپنے باطل افکار ومسموم خیالات کااظہار کرناشروع کیا۔
بالآخر پتہ چلاکہ یہ قادیانی مبلغ ہے جواس حساس ترین علاقہ میں لوگوں کو اپنی باطل فکر کو پھیلانے پرمامورہوا ہے، اس کے بعدہی ضلع کپل وستو وروپندیہی کے علماء اہل حدیث نے اس کے زیغ وضلال کوآشکاراکیا اوراس کو وہاں سے راہ فرار اختیار کرنے پرمجبورکردیا۔
مگرواقعہ کا یہ انتہائی تاریک پہلو اس وقت سامنے آیا کہ کچھ جاہل وناسمجھ لوگ اس کی ہمنوائی کرتے نظرآئے۔
نیپال میں قادیانیت اوراس کے باطل افکار وفاسد نظریات اورخبیث عقائد کے ردوابطال اوراس گمراہ کن فتنہ کی سرکوبی کے لئے درج ذیل تجاویز پیش خدمت ہیں۔
۱۔ علم وعقیدہ کے باب میں نمایاں علماء کی ایک کمیٹی تشکیل دی جائے جو ہرممکنہ وسائل و امکانیات کو بروئے کار لاکراس فتنہ کی سرکوبی کرنے اوراسے جڑسے اکھاڑنے کی سنجیدہ کوششیں کرنے میں لگ جائے اوراس کے عمل میں استمراروتسلسل ہو۔
۲۔ مقامی زبان میں اس موضوع پربحوث ومقالات اورکتابیں لکھی جائیں اورمختصر جامع کتابوں کو ملک میں وسیع پیمانے پر تقسیم کیاجائے تاکہ لوگوں کواس فتنہ اوراس کی تباہ کاریوں کی جان کاری ہوجائے۔
۳۔ باصلاحیت اسلامی مبلغین کی ٹیم تیارکی جائے جو اپنے خطبات ودروس کے ذریعہ لوگوں میں صحیح اسلامی عقائد کوبیان کریں، عقیدہ ختم نبوت کی وضاحت کریں اورمسلمانوں کی دینی وایمانی زندگی میں اس کی اہمیت کو آشکاراکریں، ساتھ ہی لوگوں کے سامنے قادیانیت کی حقیقت واضح کریں،اس کے اندرزیغ وانحراف کومدلل طورپرسامنے لائیں، بالخصوص ایسے علاقوں میں جہاں پرقادیانی مشن کی سرگرمیوں کاوجود ہے۔
۴۔ ان علاقوں میں جہاں قادیانیت نے اپنابال وپر نکالنا شروع کردیاہے، اسلامی مکاتب کاقیام عمل میں لایاجائے بالخصوص پہاڑی خطوں میں جہاں پرجہالت وناخواندگی عام ہے جب علم وعقیدہ سے آراستہ وپیراستہ نسل تیار ہوگی توقادیانیوں کے لئے ان کے اندراپنے مسموم افکار اورباطل خیالات کی نشرواشاعت ممکن نہ ہوگی، تعلیم یافتہ ہونے کی صورت میں وہ حق وباطل کی تمیز کرسکیں گے اورگمراہی کی دعوت دینے والوں سے چوکنارہیں گے، گمراہ گران میں بآسانی گمرہی پھیلانے میں کامیاب نہیں ہوسکتا کیونکہ علم ومعرفت ایک ڈھال ہوتی ہے۔
۵۔ نیپال میں موجود مسلمانوں کواس فتنہ کی سرکوبی کے لئے اپنی صفوں اوراپنی کوششوں میں اتحاد ویکجہتی پیداکرنا چاہئے، سب سے زیادہ کامیاب کوشش خطباء وائمہ کی ہوسکتی ہے انھیں اس کے لئے تیار کیا جائے اورخطبے کا موضوع بنایا جائے اوراس فتنے کے خلاف عام فتوی شائع کیاجائے اورمساجد کے ذریعے جمعہ کے دن تقسیم کرایاجائے،مساجد کے ذریعہ ہی ہرمسلمان کو قادیانیت کے بطلان سازش اورخطرے سے آگاہ کیاجاسکتا ہے۔
۶۔ اسلامی عقیدہ بالخصوص عقیدہ ختم نبوت خاتم النبیین ﷺ کے موضوعات پر مساجد میں دروس کااہتمام ہوناچاہئے، اس طرح ان دروس میں قادیانی کذاب اوراس کے بڑے جانشینوں کے افکارو خیالات کے زیغ وضلال ان کے انحرافات وخرافات اور تلبیسات کومدلل طورپر بیان کرناچاہئے۔
۸۔ سابق علماء اہل حدیث بالخصوص مولانا ثناء اللہ امرتسری ومولانا محمد ابراہیم سیالکوٹی اور مولانا ابوالقاسم سیف بنارسی وغیرہم کے بعض رسائل وکتب کی طباعت کابھی اہتمام ہوناچاہئے،ردّقادیانیت میں ان کی تحریروں کاخلاصہ مقامی زبان میں تیار کرکے طباعت سے آراستہ کرنے کا اہتمام کیاجائے۔
۹۔ نیپال کے جامعات ومدارس کی ذمہ داری ہے کہ اس فتنہ کے سدباب کے لئے توجہ مبذول کریں اوراس سمت حقیقت پسندانہ قدم اٹھائیں۔ ***

No comments:

Post a Comment