Saturday, June 11, 2011

دارالعلوم ندوۃ العلماء (پانچویں قسط) march 2011

شمیم احمدندویؔ
دارالعلوم ندوۃ العلماء
(پانچویں قسط)
گذشتہ چنداقساط میں دارالعلوم ندوۃ العلماء کے اغراض ومقاصدپر روشنی ڈالتے ہوئے ان حالات وظروف کا قدرے تفصیل سے تذکرہ ہوا ،جوندوہ جیسے ایک منفرد ادارہ کے قیام کے محرک ہوئے اوراس ماحول کا بھی ضمناً تذکرہ ہوا جومسلکی عصبیت اورتعصب وتنگ نظری کی پیداوارتھے اورجن کی آبیاری خدمت دین کے نام پر قائم یہ دینی مدارس کررہے تھے اورجس کا نمونہ ہندوستان کے طول وعرض میں جابجا دیکھاجاسکتا تھا، حقیقت تویہ ہے کہ یہ مایوس کن حالات صرف ہندوستان کے ساتھ خاص نہیں تھے بلکہ پورا عالم اسلام تعلیمی انحطاط اورتربیتی زوال کے ساتھ ہی اخلاقی پستی کی اس انتہا کوپہونچ چکاتھاکہ چھوٹی موٹی اصلاحات اس صورت حال کو تبدیل کرنے کے لئے کافی نہیں تھیں،بلکہ اس کے لئے پورا نظام تعلیم وتربیت اورپورا نصاب درس اورطریقہ تدریس بدلنے کی ضرورت تھی، اسی طرح لوگوں کے فکرونظر کا زاویہ درست کرنے اورذہنوں سے تعصب وتنگ نظری کو نکالنے کی بھی اسی قدرضرورت تھی جتنی خودتعلیمی سلسلوں کو جاری رکھنے کی، جب کہ ادھر حال یہ تھا کہ لوگ تعلیم کے روایتی طریقوں اور نصاب کے قدیم اصولوں سے سرموانحراف بھی کفر واسلام کامعاملہ سمجھتے تھے۔
اس صورت حال اوراس کے نتائج ونقائص کی وضاحت کرتے ہوئے متعددبار دارالعلوم دیوبند کا ذکرکرنا پڑا ،ایسا ازراہ تنقید وتنقیص نہیں ہوانہ ہی کسی ذاتی عنادوپرخاش کی بنا پربلکہ ایسا صرف اس بناپر ہواکہ جس وقت دارالعلوم ندوۃ العلماء کا قیام عمل میں آیا اس وقت دارالعلوم دیوبند ہی ایک ایسا قابل ذکرادارہ تھا جومسلمانان ہند کی اکثریت کی نمائندگی کرتا تھا اوران کی عظمت رفتہ کی بازیافت کے لئے صدق دل سے کوشاں بھی تھا اورقدیم علوم اسلامیہ کی حفاظت اوران کی ترویج واشاعت کے لائق تحسین عمل پرکاربند بھی ،لیکن چونکہ طریقہ کارزمانہ کی تیز رفتار ترقی سے میل نہیں کھاتا تھا اورپرانے روایتی ہتھیاروں سے جدید وخودکاراسلحوں سے لیس دشمنوں اورخوداعتمادی سے لبریز مخالفین کامقابلہ نہیں کیاجاسکتا تھا اس لئے نتائج خاطر خواہ نہیں نکل رہے تھے اوراس کی بنیادی وجہ یہی تھی کہ اس کے فرسودہ نصاب تعلیم اورازکار رفتہ طریقہ تدریس میں یہ صلاحیت ہی نہ تھی کہ دین کے ایسے پرجوش داعی ومبلغ پیداکرے جوپوری دنیا میں اسلام کا اس کے واحد دین برحق ہونے کی حیثیت سے پراثرومدلل انداز میں تعارف کراسکیں اوراسلام کی شبیہ کوداغدار کرنے والی دشمنان اسلام کی کوششوں کابھرپور جواب دے سکیں ، اس لئے ضرورت تھی کہ دین کے ایسے باخبر شارحین وترجمان تیارکئے جائیں جواحساس مرعوبیت کو بالائے طاق رکھ کر زمانہ کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرنے کی جسارت کرسکتے ہوں اورزمانہ کی نبض پران کا اس طرح ہاتھ ہوکہ اس کے قدم سے قدم ملاکر نہیں بلکہ اس سے دوقدم آگے رہ کر اس کی رہنمائی کافریضہ انجام دے سکتے ہوں اورجو اسلام کے قدیم ورثہ کی حفاظت کرکے صرف اس کے دفاع کرنے پراکتفانہ کریں بلکہ آگے بڑھ کر دشمنان اسلام کے منصوبوں کوخاک میں ملانے کی صلاحیت رکھتے ہوں، لیکن حق تویہ ہے کہ دارالعلوم دیوبند یا اسی کے طرز پرقائم اداروں کا نظام تعلیم وتربیت اس سے فروترتھا کہ ان سے ایسے ارفع واعلیٰ مقاصد کی تکمیل کی توقع کی جاتی، وہ تومسجد کے حجروں کے مکین ، خانقاہوں وتکیوں میں گوشہ نشین ایسے عافیت پسند وعزلت گزیں صرف نام نہاد علمائے دین پیداکرسکتا تھا ، جنھیں تبلیغ دین کے عصری تقاضوں کا علم نہ ہواورنہ اس کے لئے درکارضروری وسائل سے وہ باخبرہوں، بلکہ اس کے برعکس وہ حالات حاضرہ کے بارے میں عالمانہ بے خبری کے شکارہوں اوراس لاعلمی پر جنھیں فخربھی ہو،ایسے ہی مسکین لوگوں کامذاق اڑاتے ہوئے ابلیس نے انھیں مخاطب کرتے ہوئے کہا ہے ؂
میں کھٹکتاہوں دل یزداں میں کانٹے کی طرح
توفقط اللہ ہو ،اللہ ہو،اللہ ہو
افسوس کامقام یہ ہے کہ دین کی تبلیغ ودعوت اوراس کی ترجمانی وحفاظت کے ناقص تصور نے دین کی نشرواشاعت کی راہ میں کتنی رکاوٹیں ومشکلات کھڑی کی ہیں اوراس کے دعوتی مشن کو کس قدرنقصان پہونچایا ہے اسلام کے نام لیواؤں اوراس کے نام نہاد بہی خواہوں نے اس تلخ حقیقت کا ادراک کرنے میں بہت دیرکردی اوراس تغافل شعاری کی اسلام کوبھاری قیمت چکانی پڑی۔
دین کا صحیح فہم وشعورنہ ہونے اور اس کے ناقص علم ومعرفت کوہی کل دین سمجھنے کا نتیجہ بسااوقات کس قدرافسوسناک ہوسکتا ہے اس کو ذیل کی اس تاریخی حقیقت سے کسی حد تک سمجھاجاسکتا ہے جسے مولانا شبلیؒ نے اپنے ایک مضمون’’ندوۃ العلماء کیا کررہاہے‘‘میں اخبار’’حبل المتین‘‘ مورخہ ۱۰؍اگست ۱۹۰۶ء ؁ کی اشاعت کا ایک اقتباس نقل کرتے ہوئے بیان کیاہے اوراپنے اس دردوالم کوبھی ظاہر کیاہے جو رموز دیں اوراسرارشریعت کوصحیح ڈھنگ سے نہ سمجھنے اور اسلام کی دعوت کومثبت انداز میں پیش نہ کرسکنے کی وجہ سے اسلام کو برداشت کرناپڑاہے ،ان کی تحریر کا خلاصہ یہ ہے کہ ایک زمانہ تھا کہ روسی قوم بت پرست تھی،شہنشاہ روس ولاڈیمبر اسلام کی طرف مائل تھا اوراسلام کی خوبیوں کا معترف ومداح بھی،اسلام کی خوبیوں کامعترف ومداح اور اسلام سے متاثر ہونے کا نتیجہ یہ تھا کہ اس نے پوری روسی قوم کے ساتھ مذہب اسلام کا انتخاب کرنے کا فیصلہ کرلیا تھا،لیکن اسلام کی تعلیمات کا ذراگہرائی سے جائزہ لینا چاہتا تھا، اس کے لئے اس نے ایک جلسہ کا انعقادکیا اوردیگرکئی مذاہب کے عالموں کے ساتھ علمائے اسلام کوبھی دعوت دی، جوصاحب اس غرض کے لئے قازان سے تشریف لائے ان کی ناقص معلومات اورمذہب اسلام کے بارے میں ان کے ادھورے تصورکا یہ عالم تھا کہ انھوں نے اسلام کے تمام عقائد اور فلسفہ میں سے صرف یہ مسئلہ منتخب کرکے پیش کیا کہ’’اسلام میں سورکاگوشت کھانا حرام ہے‘‘ اورصرف یہی مسئلہ بتاکر اس پراس قدرزوردیا کہ شہنشاہ روس نے غصہ میں آکران کو دربارسے نکلوا دیا اورعیسائی مذہب قبول کرلیا جس کا نتیجہ یہ ہواکہ اس کے ساتھ اس کی قوم کے ۹کروڑ آدمی یکلخت عیسائی ہوگئے اوراسلام لانے سے محروم رہ گئے۔
ہم اپنے دل کی تسلی کے لئے کہہ سکتے ہیں کہ اللہ نے اس کو اوراس کی قوم کو ہدایت نہیں دی توکوئی کیا کرسکتا ہے اوراللہ نے اسلام اس کے مقدرمیں نہیں لکھاتھا تووہ کیسے اس دین برحق کوقبول کرلیتا؟ لیکن کیا واقعی کسی ایسی قوم پر اسلام پیش کرنے کا یہ انداز درست تھا جومائل بہ اسلام بھی ہو؟ اورکیا واقعی دنیا میں اسلام صرف یہی بتانے کے لئے آیا تھا کہ سورکاگوشت کھاناحرام ہے؟ کیا اسلام میں عقائد، احکامات،توحید رسالت، قیامت ،حشرونشر ،جزاوسزا ،اخلاق ومعاملات، اورفلسفہ حیات سے متعلق مکمل رہنمائی موجودنہیں ہے؟ لیکن اس کے لئے ضروری ہے کہ اسلام کے عقائد وفلسفہ سے متعلق مکمل معلومات ہو اوراللہ کی طرف دعوت کا پراز حکمت ومصلحت اور موعظۂ حسنہ کا جوقرآنی طریقہ ہے اس کابھی علم ہو، اسی بے خبری وجہالت کا نتیجہ ہے کہ پوری روسی قوم جس کی آبادی اس وقت بھی ۹کروڑتھی دائرہ اسلام میں داخل ہوتے ہوتے رہ گئی، اوریہ صرف ایک روایتی عالم دین کی غلط فکرکے نتیجہ میں ہوا، جس نے ممکن ہے کسی ایسے ہی مدرسہ سے تحصیل علم کیا ہو جہاں مکمل اسلام کے سمجھنے وسمجھانے اورمعلومات فراہم کرنے پرزورنہ دیا جاتا ہو ،ذراتصور کیجئے کہ اس وقت اگر۹کروڑ آدمی مشرف بہ اسلام ہوگئے ہوتے توآج وہ اسلام کے لئے کتنی بڑی طاقت ہوتے، اسی مسلسل مضمون کی کسی قسط میں ذکر ہواکہ ڈاکٹرامبیڈکر نے اپنے ۲۰؍لاکھ حواریوں کے ساتھ اسلام قبول کرنے کا ارادہ کیا لیکن مسلمانوں کے باہمی اختلافات اورمذہبی چپقلشوں کے بارے میں سن کراس ارادہ سے بازرہا اوربودھ مذہب قبول کرلیا، اسی طرح شہنشاہ روس نے اپنے ۹کروڑحواریوں کے ساتھ اسلام قبول کرنے کا ارادہ کیا لیکن محروم رہ گیا، ایک واقعہ میں جہاں مذہبی عناد اورمسلکی منافرت اس کی ذمہ دارہے تودوسرے واقعہ میں اسلامی تعلیمات کی غلط تعبیر وتشریح اوراسلام کی غلط ترجمانی وپیش کش اس کی ذمہ دارہے جواسلام کے بارے میں جہالت وناواقفیت کانتیجہ ہے اسی لئے ندوۃ العلماء کے بالغ نظر اورنکتہ سنج ونکتہ شناش بانیان نے ندوۃ العلماء کے قیام کے دواہم مقاصد’’ رفع نزاع باہمی‘‘ اور’’اصلاح نصاب‘‘ قراردیا تھا ،روشن ضمیر وروشن خیال ،زمانہ سے باخبر اوروسیع النظر علماء کی تیاری وقت کی کتنی بڑی ضرورت ہے اوراس سے غفلت وبے اعتنائی کس قدرخسارہ کا موجب ہوسکتی ہے اس بات کو سطوربالا میں ذکر اس عبرت ناک واقعہ سے کسی حد تک سمجھا جاسکتا ہے اوریہی وہ چیز تھی جس کا احساس ندوۃ العلماء کے بابصیرت بانیان نے بروقت کرلیاتھا۔
ایسانہیں ہے کہ دینی مدارس کی زبوں حالی کا یہ حال صرف ہندوستان تک محدود رہا ہو اور باقی خطۂ ارض اس سے محفوظ ومامون ہو، بلکہ رونا تواسی بات کا ہے کہ عالم اسلام میں موجودان دینی اداروں کا حال بھی اس سے کچھ مختلف نہ تھا جوحکومت کی سرپرستی میں چل رہے تھے اوران سے بھی وہ توقعات پوری نہیں ہورہی تھیں کہ ان کے فارغین دین ودنیا کا جامع اورقدیم صالح اورجدید نافع کا مرقع ہوں اوراخلاق فاضلہ اور خصائل عالیہ کا دلکش نمونہ، بلکہ وہاں بھی اخلاقی انحطاط، قدروں کے زوال اورپست ہمتی کا وہی عالم تھا کہ ان سے تبلیغ دین کی کسی بہترخدمت کی توقع نہیں کی جاسکتی تھی اورنہ ہی ان سے یہ امید کی جاسکتی تھی کہ وہ توحید کی آواز دنیا کے دوردراز گوشوں تک پہونچا سکیں گے اوران کے ممبرومحراب اعلاء کلمۃ اللہ کی صداؤں سے گونجیں گے۔
یہ حال مصروشام کا بھی تھا اورارض فلسطین کا جسے انبیاء کی سرزمین ہونے کا شرف حاصل تھا اورجہاں کی سرزمین اسلام کے اولین مجاہدین اور غازیان دین اورداعیان اسلام کے والہانہ استقبال اورورود مسعودکی گواہ تھی، اوریہی حال ترکی کابھی تھا جوخلافت اسلامیہ کا آخری حصار اوراسلام کے عروج واقبال کی آخری علامت تھا، علامہ اقبال نے اسی صورت حال پراپنے دردوکرب کااظہار بایں الفاظ کیاہے ؂
سنی نہ مصروفلسطین میں وہ اذاں میں نے
دیا تھا جس نے پہاڑوں کورعشۂ سیماب
وہ سجدہ روح زمین جس سے کانپ جاتی تھی
اسی کو آج ترستے ہیں منبر ومحراب
ندوۃ العلماء کے قیام سے کچھ پہلے علامہ شبلی نعمانی رحمہ اللہ نے مئی ۱۸۹۲ء ؁ میں بعض بلاد اسلامیہ مصروشام ،اردن ولبنان اورترکی وفلسطین وغیرہ کا دورہ کیاتھا، جن میں ترکی اورمصرکے مختلف شہروں میں ان کا نسبتاً طویل قیام رہا تھا، انھوں نے جہاں ان مقامات میں واقع کتب خانوں اوران میں موجود بعض نادر قلمی نسخوں سے استفادہ کیاتھا وہیں ان شہروں میں موجود دینی مدارس کا قریب سے مشاہدہ کیا تھا اوران کی ابتری وزبوں حالی کودیکھ کرانتہائی کبیدہ خاطر بھی ہوئے تھے، بلکہ خون کے آنسو رونے پرمجبور ہوئے تھے،ان کے ہونہار اور قابل شاگرد علامہ سیدسلیمان ندوی رحمہ اللہ نے ان کے دلی احساسات اورقلبی تاثرات کوحیات شبلی میں بایں الفاظ قلمبند کیاہے:
یہاں کے نئے طرز کے اسکولوں اورکالجوں کودیکھ کر مولانا کو جوخوشی ہوئی اسی قدریہاں کے پرانے عربی مدرسوں کو دیکھ کران کو تکلیف ہوئی، بلکہ یہاں تک ان کی رائے ہوئی کہ موجودہ تعلیمی پستی اس حد کو پہونچ گئی ہے کہ اس کے مقابلہ میں ہمارے ہندوستان کی تعلیم غنیمت ہے، خود مولاناکا بیان ہے کہ ’’اس سفر میں جس چیز کا تصورمیری تمام مسرتوں اورخوشیوں کوبرباد کردیتا تھا وہ اس قدیم تعلیم کی ابتری تھی، قسطنطنیہ میں مولانا کے علم کے مطابق عربی اورمذہبی علوم کے طالبان کے رہنے کے حجرے تنگ و تاریک ،صحن مختصر، مکانات بند، ذریعہ آمدنی زکوٰۃ وخیرات ہیں‘‘۔(حیات شبلی ۱۹۸۱ء ؁)
بایں ہمہ مولانا نے ان مدرسوں کودیکھ کر ترکوں کی اس علمی فیاضی کا اعتراف کیا کہ وہ ہرچند کم حیثیت سہی تاہم آج سینکڑوں علمی یادگاروں کا وجود توہے، اور انصاف یہ ہے کہ یہ مدرسے جس زمانہ کی یادگارہیں اس وقت کی تہذیب وتمدن کے لحاظ سے ناموزوں بھی نہیں، ہمارے ہندوستان میں تواس وسعت وفراخی کے ساتھ کہ بجائے خودایک اقلیم ہے حکومت اسلام کی چھ سوسالہ مدت کی ایک علمی یادگاربھی نہیں، اس تفاوت حال کا سبب توظاہر ہے کہ ترکوں کی اسلامی سلطنت باقی تھی(افسوس کہ بیسویں صدی کے اوائل میں ۱۹۲۴ء ؁ میں اس کابھی خاتمہ ہوگیا) اورہندوستان کی اسلامی سلطنتیں بربادہوچکی تھی، بہرحال یہ تودل کے بہلانے کی باتیں ہیں لیکن واقعہ یہ ہے کہ قدیم مدارس کی اس حالت کودیکھ کر ان کو(علامہ شبلی کو) بڑادرد ہوا ۔(حیات شبلی)
مصطفی کمال پاشا کے ہاتھوں ترکی میں خلافت اسلامیہ کا خاتمہ کرکے سیاسی انقلاب برپاکرنا پھرمذہبی وتمدنی انقلاب کے نام پر ملک کوایک لادینی سلطنت بنادینے ،اسلام کو حکومت کامذہب نہ قراردے کر فردکاذاتی معاملہ بنادینے اور اسلامی اقداروروایات کولٹانے اوراسلامی آثار ومعتقدات کو ختم کرنے کی کوششوں میں اس کو جوعدیم المثال کامیابی ملی وہ بھی اسی قدیم تعلیم کی ابتری کانتیجہ تھا،کیونکہ وہ تعلیم ملک اورابنائے وطن کا وہ ذہن ومزاج بنانے اوران کی کردارسازی کرنے میں ناکام رہی جوملک کواسلامی خطوط پرلے جانے اوراس کے اسلامی تشخص کی حفاظت کرنے کے لئے ضروری تھی،عربی زبان ورسم الخط کومٹانے، مائک سے اذان پرپابندی عائد کرنے اورہرقدیم کو مٹاکر ہرجدید کوگلے لگانے کا جوشوق اوروالہانہ وارفتگی جنون کی حد تک مصطفی کمال میں پیدا ہوئی وہ اسی شدید ردعمل کانتیجہ تھی جودینی مدرسوں کی کوتاہ علمی، بے توفیقی اورپست ہمتی کی وجہ سے پیداہواتھا، اس نے یہ فرض کرلیاتھا کہ یہ دینی مدارس ملک وقوم کے لئے کچھ تعمیری خدمات انجام دینے کے بجائے اس کے قوائے ذہنی کوکند کرنے اوراس کو پستی وتنزلی کی طرف لے جانے کا باعث ہیں، اگران مدارس نے اپنافرض ملک کی ضروریات کوسامنے رکھ کر اورزمانہ کے تقاضوں سے ہم آہنگ ہوکر انجام دیا ہوتا اوردین وملت کی سربلندی اوراسلام کی عظمت کے لئے کٹ مرنے والا ایک طاقتورعنصر بنانے کے مقصدپرکاربند ہوا ہوتا تومصطفی کمال جیسے لادین شخص کواپنے مقاصد میں کامیابی نہیں ملی ہوتی جوترکی اورترک قوم کے لئے کتناہی فائدہ مندرہے ہوں لیکن اسلامی نقطۂ نظر سے یہ سراسر خسارہ کا سوداتھا۔
یہ حال صرف ترکی یا قسطنطنیہ کا نہیں تھا، بلکہ مصروشام اورفلسطین ولبنان ہرجگہ اسی بات کا رونا اوراسی تعلیمی ابتری کا نظارہ تھا جومولاناشبلی رحمہ اللہ نے اپنے سفرمصروشام اورزیارت بلاداسلامیہ کے موقع پر کیا، بیروت اورقاہرہ جیسے شہروں میں واقع مدارس کی حالت اس سے بھی ابتر اوردگرگوں تھی، مصرمیں مولانا شبلی کوجس دیارکی زیارت کی سب سے زیادہ آرزو وتمناتھی اورجس میں مولانا کی سب سے زیادہ دلچسپی تھی وہ یقینی طورپر جامعہ ازہر تھا جوپوری دنیا میں مسلمانوں کی سب سے قدیم دانش گاہ اور ان کی عظمت رفتہ کا نشان تھا، لیکن سب سے زیادہ تکلیف ان کو اسی کی زیارت سے ہوئی، انھوں نے وہاں جامع ازہرمیں ایک ماہ سے زیادہ قیام کیااور اس کی سرگرمیوں اورنشاطات کابہت قریب سے مشاہدہ کیا اوروہ جس نتیجہ پرپہونچے اس کااظہار انھوں نے ان الفاظ میں کیا:
’’مجھ کواپنے تمام سفرمیں جس قدرجامعہ ازہرسے مسلمانوں کی بدبختی کا یقین ہواکسی اورچیز سے نہیں ہوا، ایک ایسا دارالعلوم جس میں دنیا کے ہرحصہ کے مسلمان جمع ہوں جس کا سالانہ خرچ دوتین لاکھ سے کم نہ ہو جس کے طالب علموں کی تعداد ۱۲ہزار سے متجاوز ہو( اخراجات کے اعدادوشمار یا تخمینہ اورطلباء کی تعداد تقریباً سوا سوسال پہلے کی ہے جوآج جامعہ ازہرکے مصارف کڑوروں سالانہ ہیں اورطلباء کی تعداد پچاس ہزار سے زائد ہے) اس کی تعلیم وتربیت سے کیا کچھ امیدیں نہیں ہوسکتیں تھیں، لیکن افسوس کہ بجائے فائدہ پہونچانے کے لاکھوں مسلمانوں کوبرباد کرچکا ہے اورکرتا جاتا ہے، تربیت ومعاشرت کا جوطریقہ ہے اورجس کامیں ابھی ذکرکرچکا ہوں اس سے حوصلہ مندی بلند نظری ،جوش وہمت غرض کہ تمام شریفانہ اوصاف کا استیصال ہوجاتا ہے میں نے یہاں ایسے طلباء دیکھے جن کے عزیز اورنہایت قریبی عزیز(چچا ماموں وغیرہ) خوداسی شہرمیں بڑے بڑ ے معزز عہدوں پرفائز ہیں اوران کی تمام ضروریات کے متکفل بھی ہیں تاہم چونکہ طلباء ازہرمیں رہتے ہیں اس لئے ان کو بازارمیں ہاتھ پھیلاکر روٹیاں لیتے ذرا بھی شرم نہیں آتی، طالب علموں کی دنائت اورپست حوصلگی کا یہ حال ہے کہ بازار میں چندپیسے کی ترکاری بھی خریدتے ہیں توسبزی فروش کو قسم دلاتے جاتے ہیں ’’برأس سیدنا الحسین‘‘ یعنی تجھ کو ہمارے سردارحسین کے سرکی قسم واجبی قیمت بتلانا، کیااس قسم کے تربیت یافتہ لوگوں سے یہ امید کی جاسکتی ہے،کہ وہ اسلام کی عظمت وشان بڑھائیں گے، ہمارے ملک میں اس طرح کے جومدرسے ہیں ازہر ان سے بھی گیا گزراہے‘‘۔ (حیات شبلی مولفہ مولاناسید سلیمان ندوی ۱۸۸،مطبوعہ دارالمصنفین شبلی اکیڈمی اعظم گڈھ)
صرف اسی پربس نہیں بلکہ طلباء کی خود داری وحوصلہ مندی پرضرب کاری لگانے کے لئے ازہرمیں یہ طریقہ بھی اختیار کیاگیا تھا،کہ طلباء کو دارالعلوم کی جانب سے صرف روٹیاں ملتی تھیں، سالن نہیں، طلباء بھک منگوں کی طرح بغیر کسی برتن یارومال کے یہ روٹیاں ہاتھ پھیلاکر حاصل کرتے تھے، پھرانھیں میں سے کچھ روٹیاں نان بائی کے ہاتھ چند پیسوں میں بیچ کراس کا سالن خریدتے تھے، نان بائی یاسالن بیچنے والوں کی دوکانیں مسجد کے باہرہی بازار میں تھیں، بھکاریوں اوربے وقعت فقیروں کی طرح بازارمیں دورویہ بیٹھ کرروٹیوں کے حصول وفروخت کا یہ دل گداز منظر روز کاہوتا تھا،جوشاید ارباب مدارس ان کی دینی غیرت بلکہ انسانی عظمت وخودداری کا خاتمہ کرنے کے لئے ضروری سمجھتے رہے ہوں، لیکن اس طرح کے برتاؤ کے بعدکیا طلبائے مدارس کے اندروہ بلند نظری وعلوہمتی اوروہ خودداری اوربلند حوصلگی پیداہوسکتی ہے جودنیا میں بڑے کام انجام دینے اوربڑے بڑے معرکے سرکرنے کے لئے ضروری ہیں،یہی وجہ ہے کہ ان طلباء نے وہ مطلوبہ نتائج کبھی نہیں دئے جن کی ان سے بلاوجہ توقع کی جاتی تھی اور اسی تعلیم اورتربیت اوردین کے تقاضوں سے ناواقفیت کانتیجہ تھا کہ قوم مسلم پوری دنیا میں تخلف وپسماندگی اورزوال وادبارکی شکارہوتی چلی گئی، آج بھی ہندوستان وبرصغیر میں بعض دینی مدارس کایہی ماحول ہے اوراس کا مشاہدہ ان مدارس میں بخوبی کیاجاسکتا ہے جہاں قدیم نظام تعلیم وتربیت رائج ہے، ارباب مدارس سمجھتے ہیں کہ طلباء کی ذہنی وجسمانی صلاحیتوں کوتباہ کرکے اوران کی بلند ہمتی کو پست ہمتی میں تبدیل کرکے ان طلباء کو زیادہ کا رآمد اورمفید بنایاجاسکتا ہے اوران سے زیادہ بہترخدمت لی جاسکتی ہے ،اسی لئے قدم قدم پران کی نفس کشی بلکہ کردار کشی کی جاتی ہے اوران کے حوصولوں کومہمیز کرنے کی بجائے ان کے حوصلوں کوطرح طرح کے حربوں کے ذریعہ پست کرنے کی کوشش کی جاتی ہے ،حالانکہ حکیم مشرق کے الفاظ میں میرکارواں کا توشہ ہوناچاہئے ؂
نگہ بلند، سخن دلنواز، جاں پرسوز
یہی ہے رختِ سفرمیرکارواں کے لئے
جامعہ ازہر کودیکھ کر مولاناشبلی نے جس قلق واضطراب اورجس دلی کرب واذیب کا اظہارکیا تھا اسی کا نتیجہ تھاکہ جامعہ ازہرکے نصاب اورانداز تعلیم وتربیت میں اصلاحات کی تحریک ان کے سفرقاہرہ کے بعدچلائی گئی اوراس کے نصاب ونظام میں بہت کچھ اصلاح وترمیم کا کام کیاگیا، علامہ رشید رضامصری نے اس کے لئے اپنے زیر ادارت شائع ہونے والے مجلہ’’المنار‘‘ میں اس پرمسلسل مضامین لکھے اوراپنی اصلاحی تحریک کی افادیت اوراس کی تائید وحمایت کے لئے دنیائے اسلام کی جن تین اہم شخصیات کے نام انھوں نے پیش کئے اوران کا حوالہ دیا انھیں میں ایک نام مولانا شبلی کا بھی تھا جودین ودنیا کے جامع ہونے کے ساتھ ایک مستند ماہرتعلیم اور ملت کے نبض شناس بھی تھے،آج جامعہ ازہر اپنی بعض خامیوں یاکمیوں کے باوجود یہ حیثیت رکھتا ہے کہ پوری دنیا کے مسلمان اپنی تعلیم کے حوالہ سے بجاطورپر اس پرناز کرسکتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ موجودہ امریکی صدربراک حسین اوبامہ نے جب پوری دنیا کے مسلمانوں کومخاطب کرکے دنیائے اسلام اوردنیائے عیسائیت کے درمیان پنپ رہی غلط فہمی یابڑھ رہی دوری کا ازالہ کرنا چاہا تو انھیں جامعہ ازہر سے بہترپلیٹ فارم اس کے لئے نہیں ملا۔
جامعہ ازہرمیں توبہت کچھ اصلاحات کاعمل ہوگیا ،لیکن کیا ہندوستان کے بعض دینی مدارس اس پرغورکرنے کی ضرورت سمجھیں گے ؟یہ تونہیں کہاجاسکتا کہ یہ مدارس آج بھی اسی ہٹ دھرمی کی روش پرقائم ہیں اورنصاب تعلیم میں کسی طرح کی ترمیم انھیں منظورنہیں کیونکہ جوانگریزی زبان کسی زمانہ میں وہاں شجر ممنوعہ تھی وہ بھی اب داخل نصاب ہے اورتاریخ عالم اورجغرافیہ وریاضی جیسے مضامین بھی کسی حد تک پڑھائے جارہے ہیں، لیکن ابھی بھی طریقہ درس اورنظام تربیت میں مزید اصلاحات کی ضرورت ہے ،جوطلباء کی صلاحیتوں کوغلط سمت میں ضائع کرنے کی طرف لے جاتا ہے اوران سے وہ تعمیری کام نہیں ہوپاتا جس کی آج حقیقی ضرورت ہے۔(جاری)
***

No comments:

Post a Comment