Saturday, June 11, 2011

کیا اختلافِ امت رحمت ہے؟ March 2011

ڈاکٹرسیدسعیدعابدیؔ
صدرشعبۂ اردو ریڈیو،جدہ

کیا اختلافِ امت رحمت ہے؟
مسئلہ: ۔ایک صاحب میرے نام اپنے خط میں تحریر فرماتے ہیں:
ہم کچھ دوست بیٹھے گفتگو کررہے تھے اورہمارا موضوعِ گفتگو مسلمانوں کے درمیان پائے جانے والے فکری، عقائدی اورمسلکی اختلافات تھا، ہم اس سوال کا جواب تلاش کرنے میں لگے ہوئے تھے کہ جب ہمارا مأخذِرشد وہدایت اللہ کی کتاب اوراس کے رسول ﷺ کی سنت ہے توپھر ہمارے درمیان یہ اختلافات کیوں ہیں؟ جنھوں نے ہماری ہوااکھاڑدی ہے اورہمیں اتناکمزور بنادیا ہے کہ جوچاہتا ہے ہم پرچڑھ دوڑتا ہے اورہمارے دین، ہماری کتاب اورہمارے رسول فداہ ابی وامی ﷺ کا مذاق اڑاتا ہے، مگرہم میں کوئی ایسا نظر نہیںآتا جواس کودنداں شکن جواب دے سکے۔
ہم اسی اُدھیڑ بن میں تھے کہ ایک اورصاحب آگئے اورہماری گفتگو میں شامل ہوگئے، یہ نووارد چہرے مہرے سے عالم دین لگ رہے تھے اوران کا پہناوا یہ بتارہا تھا کہ ’’عالم باعمل‘‘ ہیں انھوں نے فرمایا:
’’آپ لوگ جس مسئلے میں الجھے ہوئے ہیں اورامت کے جن اختلافات سے پریشان ہیں وہ تورحمت ہیں، کیونکہ رسولِ رحمت ﷺ نے اپنے ایک ارشاد مبارک میں امت کے اختلافات کورحمت بتایا ہے۔
رسول اکرمﷺ کے ارشاد مبارک کا لفظ سن کر ہم سب خاموش ہوگئے مگریہ بات ہمارے حلق سے نیچے نہیں اتری؟
جواب: ۔امت کے اندرپیداہونے والے اختلافات کو جس روایت کی بنیادپر رحمت قرار دیاجاتا ہے و ہ باطل اورجھوٹ ہے، رسول اکرمﷺ کاارشاد مبارک نہیں ہے، حافظ جلال الدین سیوطی رحمہ اللہ جن کو ضعیف، منکر اورموضوع روایات کا سراغ لگانے میں یدطولی حاصل تھا اورجو فضائل ومناقب سے متعلق کسی باطل اور موضوع روایت کو بڑی مشکل سے باطل اور موضوع کہنے پرآمادہ ہوتے تھے، انھوں نے بھی یہ اعتراف کیا ہے کہ اس روایت کی کوئی سند نہیں ملتی، نہ صحیح اورنہ من گھڑت، انھوں نے یہ روایت اپنی مشہور کتاب ’’الجامع الصغیر‘‘ میں نقل کی ہے اوراس کے آگے لکھا ہے:
’’اس کاذکر نصرمقدسی نے ’’الحجۃ ‘‘میں اوربہیقی نے ’’الرسالہ الاشعریہ‘‘ میں کسی سند کے بغیرکیا ہے، اورحلیمی، قاضی حسین اورامام الحرمین جوینی وغیرہ نے اس کو نقل کیاہے، ممکن ہے کہ حفاظ حدیث کی بعض کتابوں میں اس کی تخریج ہوئی ہو اوروہ ہم تک نہ پہنچی ہو‘‘۔(ص:۳۴ ح ۲۳۰)
حافظ سیوطی کے قول کا مطلب یہ ہے کہ اگرچہ اس روایت کا کوئی سرپیرنہیں ہے لیکن توقع ہے کہ وہ حدیث کی کسی مستند کتاب میں منقول ہوئی ہوگی جوکتاب یا وہ روایت ہمارے علم میں نہیں آسکی، دوسرے لفظوں میں حافظ سیوطی کے نزدیک بے بنیاد ہونے کے باوجود یہ روایت قابل اعتبار ہے۔
زیربحث روایت کے الفاظ ہیں:اِخْتِلافُ أمَّتِی رَحْمَۃٌ‘‘میری امت کا اختلاف رحمت ہے۔
اوپر کی وضاحت سے اتنی بات تومعلوم ہوگئی کہ یہ روایت نہ رسول اکرمﷺ کا ارشاد مبارک ہے، نہ کسی صحابی، تابعی اورتبع تابعی کا قول، اب رہا اس کا مفہوم تو وہ کتاب وسنت کی صریح تعلیمات کے خلاف ہے، کیونکہ اللہ اوراس کے رسولﷺ نے اتفاق اوراتحاد کی دعوت دی ہے اوریہ جھوٹی روایت افتراق، اختلاف اور انتشار کی دعوت دے رہی ہے، کتاب وسنت میں اختلاف اورتفرقے کو سابقہ اقوام خاص طورپر بنواسرائیل کی مذموم صفت قراردے کر اس کو ان کے لئے موجب ہلاکت بتایا گیا ہے اوراہل ایمان کو ان کے نقش قد م پرچلنے سے روکا گیاہے ،جبکہ یہ باطل روایت اختلاف کو رحمت قراردے کر اس کی ترغیب دے رہی ہے۔
میں ان اسباب پرروشنی ڈالنے سے پہلے جواسلامی تعلیمات اوراس کے مزاج اور روح کی منافی اس روایت کے رواج پانے کے پیچھے کارفرما رہے، ایسی بعض آیات قرآنی اوراحادیث نبوی پیش کردینا چاہتا ہوں، جن میں اختلاف سے منع فرمایا گیاہے اوراس کو موجب ہلاکت وبربادی قراردیاگیاہے۔
قرآن پاک میں سب سے زیادہ جس قوم کا ذکر آیا ہے وہ بنواسرائیل یعنی یہودی ہیں باربار ان کے جرائم، ان کی دنیا پرستی، ان کے کفران نعمت، انبیاء کے ساتھ ان کے مجرمانہ طرز عمل اورحق کوجان لینے اورپہچان لینے کے بعداس کی مخالفت کے واقعات کوبارباربیان کیا گیا ہے تاکہ مسلمانوں کو ان کے نقش قدم پرچلنے سے بازرکھاجائے۔
سورۂ آل عمران میں اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو صریح لفظوں میں یہ حکم دیتا ہے کہ وہ ان لوگوں کی روش اختیار کرنے سے باز رہیں جنھوں نے واضح تعلیمات مل جانے کے بعد اختلاف کیا:
تم ان لوگوں کی طرح مت ہونا جوفرقوں میں بٹ گئے اورواضح ہدایات پاجانے کے بعداختلافات میں مبتلا ہوگئے اوریہ وہ لوگ ہیں جن کے لئے اس دن بہت بڑا عذاب مقدرہے جس دن کچھ چہرے سفید وروشن ہوں گے اورکچھ سیاہ۔(۱۰۵۔۱۰۶)
سورہ البقرہ میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ بنواسرائیل میں اختلافات کاسبب یہ نہیں تھاکہ ان کو حق کا علم حاصل نہیں تھا، بلکہ ان کے اندرحق آجانے کے بعداختلافات پیداہوئے ،ارشاد الٰہی ہے:
انھوں نے اللہ کی کتاب میں واضح ہدایات مل جانے کے بعدمحض سرکشی اورزیادتی کے جذبے سے اختلاف کیا۔(۲۱۳)
سورۃ الانعام میں اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ ﷺ کو مخاطب کرکے فرمایا ہے کہ یہ اہل کتاب جنھوں نے اپنے دین کو ٹکڑے ٹکڑے کرڈالا ہے ان سے آپ کا کوئی تعلق نہیں ہے، ارشاد ربانی ہے:
درحقیقت جنھوں نے اپنے دین کو ٹکڑے ٹکڑے کردیا ہے اورگروہوں میں بٹ گئے ہیں ان سے تمہارا کوئی واسطہ نہیں ہے، ان کامعاملہ اللہ کے سپرد ہے ،وہی ان کو بتائے گا کہ وہ اس دنیا میں کیا کچھ کرتے رہے تھے۔(۱۵۹)
اسی سورۂ الانعام میں اللہ تعالیٰ نے یہ بھی واضح فرمادیا ہے کہ سیدھا راستہ ایک ہی ہے جس کی اتباع کرنی چاہئے، ارشاد الٰہی ہے:
اوربیشک یہ ہے میرا راستہ سیدھا، لہذا تم لوگ اسی کی اتباع کرو اوردوسرے راستوں پرمت چلو، ورنہ وہ تم کو اس کے راستے سے دورکردیں گے، یہ ہے وہ ہدایت جوتمہارے رب نے تمہیں کی ہے تاکہ تم اللہ کے غضب سے بچ سکو۔(۱۵۳)
اللہ تعالیٰ انسانوں کا خالق ہے اورصرف وہی جانتا ہے کہ انسان کی کامیابی اور فلاح کن کامو ں کے کرنے اورکس طریقۂ زندگی کے اختیار کرنے میں مضمر ہے ،لہذا اس نے جس طرح سابقہ اقوام میں اپنے نبی اوررسول مبعوث فرمائے تھے تاکہ وہ اس راہ کی نشاندہی کردیں جواللہ کی رضا اورخوشنودی کے حصول اوردنیا اورآخرت میں بنی نوع انسان کی کامیابی اورفلاح کی جانب لے جاتی ہے، ٹھیک اسی طرح اس نے اپنا آخری نبی اوررسول بھیج کر اوراس پراپنی کتاب نازل کرکے اپنی سیدھی اورپسندیدہ راہ بتادی ہے اوراپنے آخری نبی اوررسول ﷺ پراپنی وحی خفی نازل کرکے اپنے اس آخری دین اورطریقۂ زندگی کے تمام احکامات واضح فرمادئے ہیں اورنبی کی سیرت اورسلوک کی شکل میں اس راہ اوردین پرچلنے کے عملی طریقے بھی بتادئے ہیں تاکہ لوگ اپنی ذاتی پسنداورذوق یاخواہشات نفس کی پیروی کرکے گذشتہ اقوام کی طرح گمراہ ہونے سے بچ سکیں، چنانچہ نبی آخرالزماں محمدﷺ نے اپنی امت کوبارباراختلافات سے دوررہنے کی تاکید فرمائی ہے، چنداحادیث کاترجمہ درج ذیل ہیں:
’’حضرت عبداللہ بن عمروبن عاص رضی اللہ عنہا سے روایت ہے، کہتے ہیں:ایک دن میں دوپہرکے وقت رسول اللہﷺ کی خدمت میں حاضرہوا توآپ نے دوآدمیوں کی آوازیں سنیں جن میں کسی آیت کے مفہوم کے بارے میں اختلاف ہوگیاتھا، اس وقت رسول اللہﷺ اس حال میں ہمارے پاس آئے کہ آپ کے چہرے سے غصہ عیاں تھا اورآپ نے فرمایا:
’’درحقیقت تم سے پہلے کے لوگ اللہ کی کتاب کے بارے میں اختلاف کرکے ہی ہلاک ہوئے‘‘۔(صحیح مسلم ح ۶۷۷۶)
’’حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے،کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہﷺ کوفرماتے ہوئے سناہے:’’میں نے جس چیز سے تم لوگوں کوروک دیاہے، اس سے بچو اورجس چیز کاحکم دے دیا ہے اس پراپنی قدرت کے مطابق عمل کرو، درحقیقت تم سے پہلے کے لوگوں کو ان کے کثرت سوال اورانبیاء کے معاملے میں ان کے اختلافات نے تباہ کیاہے‘‘۔(مسلم ۶۱۱۳)
’’حضرت سعدبن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبیﷺ نے فرمایا ہے:مسلمانوں میں اس شخص کا جرم سب سے بڑا ہے جس نے کسی ایسی چیز کے بارے میں سوال کیا جوحرام نہیں تھی اوراس کے سوال کی وجہ سے حرام ہوگئی ‘‘۔(بخاری۷۲۸۹، مسلم۶۱۱۶)
’’حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبیﷺ نے فرمایا:میں نے تم لوگوں کوجس چیز ۔کتاب وسنت۔ پرچھوڑاہے اسی پرمجھے باقی رہنے دو۔ یعنی مجھ سے سوالات نہ کرو۔ کیونکہ تم سے پہلے کے لوگ اپنے سوالوں اوراپنے انبیاء کے معاملے میں اپنے اختلافات ہی کی وجہ سے ہلاک ہوئے ہیں،لہذا جب میں تمہیں کسی چیز سے منع کروں تواس سے بازرہو اورجس چیز پرعمل کا حکم دوں تواس کواپنی استطاعت کے مطابق انجام دو‘‘۔(بخاری ۷۲۸۸، مسلم ۶۱۱۵)
رسول اکرم ﷺ کے مذکورہ ارشادات کامطلب ہے کہ کتاب وسنت میں جن باتوں کاحکم دے دیاگیا ہے ان پر عمل کیاجائے اورجن باتوں سے منع کردیاگیا ہے ان سے بازرہاجائے، نہ اپنے ذوق وپسند سے نئے نئے احکام بنائے جائیں، نہ کتاب وسنت کے واضح اورصریح نصوص کی من مانی تاویلات کرکے امت میں اختلافات پیدا کئے جائیں اورنہ فرضی اموراورمسائل کے بارے میں سوالات کئے جائیں۔
یہاں یہ سوال کیاجاسکتا ہے کہ دین کے بہت سے امور اورمسائل کے بارے میں صحابۂ کرام رضوان اللہ علیہم اورائمہ اسلام رحمہم اللہ کے درمیان اختلافات کاپتہ چلتا ہے توکیا یہ اختلافات مذموم نہیں تھے؟
اس سوال یا اس اشکال کاجواب یہ ہے کہ صحابۂ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے اندرہمیں ان کے جن اختلافات کی مثالیں ملتی ہیں وہ دراصل ان کی کتاب وسنت کی تعلیمات کی مخالفت کانتیجہ نہیں تھیں، بلکہ نصوصِ کتاب وسنت کی عدم موجودگی کی صورت میں ان کے اجتہادات کانتیجہ تھیں، اورجوں ہی ان کو درپیش مسئلہ سے متعلق قرآن پاک یاحدیث سے کوئی دلیل مل جاتی تووہ اپنے اجتہادی فیصلے سے رجوع کرلیتے۔
ٹھیک یہی حال ان ائمہ اسلام کا بھی تھا جن سے فقہی اسکول منسوب ہیں، اوران کے درمیان ہمیں جواختلافات ملتے ہیں وہ یا تو ان کے اجتہادات کانتیجہ تھے، اور اجتہاد میں انسان ہروقت صحیح نقطہ پر نہیں پہونچتا بلکہ کبھی صحیح اوردرست نقطہ پرپہونچتا ہے توکبھی غلطی کرجاتا ہے، لہذا ان کے لئے توان اجتہادی نتائج پرعمل کرنا درست تھا، کیونکہ وہ اس سے زیادہ کے مکلف نہیں تھے، مگران کے بعدآنے والوں کے لئے ان ائمہ کے اجتہادی احکام پر عمل کرنا جائز نہیں تھا، جب تک وہ یہ نہ دیکھ لیتے کہ ان کے اجتہادی نتائج کتاب وسنت کے مطابق ہیں یانہیں، مگرعمل کی دنیا میں جوکچھ ہوا وہ یہ کہ فقہی کتابوں میں مدون احکام کو وہی حیثیت دے دی گئی جوکتاب وسنت کی نصوص کوحاصل ہے، اس طرح اہل الرائے اوراہل نقل یا اہل حدیث کے نام سے دومتوازی اسکول بن گئے۔
دوسری اہم چیز جوفقہی کتابوں میں نمایاں ہے وہ یہ ہے کہ ان میں مدون بہت سارے مسائل اوراحکام ایسی روایتوں سے مأخوذ یا ان پرمبنی ہیں جن کی ائمہ حدیث کے نزدیک کوئی بنیاد نہیں ہے، یاوہ بے حد ضعیف اورناقابل اعتبار اورموضو ع ہیں اوراس کا اعتراف خودان فقہی اسکولوں سے تعلق رکھنے والے محدثین نے کیا ہے، اس کے باوجود ان پر نہ صرف عمل جاری ہے بلکہ صحیح حدیثوں پرعمل کرنے والوں کوگمراہ اورروایت پرست کہا جاتا ہے۔
اس طرح مسلمانوں کے درمیان فقہی اختلافات کی خلیج وسیع سے وسیع ترہوتی گئی اورفقہی مسلکوں نے وہ شکل اختیار کرلی جومختلف ادیان کی ہے اورہرمسلک سے وابستہ لوگ اپنے ائمہ کی وہی تقلید کرنے لگے جوصرف رسول اکرم ﷺ کے حق میں جائزہے۔
اورفقہی اختلافات کوصحیح ثابت کرنے کے لئے ایسی روایتیں گھڑکر لوگوں میں پھیلادی گئیں جن میں اختلافات کو رحمت قرارد یاگیا ہے، یا جن میں صحابۂ کرام میں سے ہرصحابی کی اقتداء کومشروع قراردیاگیا ہے تاکہ تقلید کو صحیح ثابت کیاجائے، اس طرح کی من گھڑت روایتوں میں سے ایک روایت کے الفاظ ہیں:’’أَصْحَابِی کَالنُّجُوْمِ، بِأیِّھِم اقْتَدَیْتُمْ اھْتَدَیْتُم‘‘میرے اصحاب ستاروں کی مانند ہیں، ان میں سے جن کی بھی اقتدا کرو گے ہدایت یاب رہو گے‘‘۔
یہ روایت اپنی سند اورمتن دونوں کے اعتبار سے جھوٹ ہے، اس کی روایت امام ابوعمر یوسف بن عبداللہ نمری قرطبی معروف بابن عبدالبررحمہ اللہ نے اپنی مشہور کتاب:’’جامع بیان العلم وفضلہ‘‘ میں متعددسندوں سے کی ہے، اوراس کوناقابل اعتبار قراردیا ہے۔(ص:۱۵۶،۱۶۶، ۱۷۸، ۱۸۱ج ۲)
اسی طرح امام ابو محمد علی بن احمدبن حزم رحمہ اللہ نے’’الاحکام فی أصول الأحکام‘‘میں اس روایت کو رسول اللہﷺ سے منسوب جھوٹی روایت قراردیا ہے۔(ص:۶۸۱ج ۲)کیونکہ اس کی سند میں ضعیف ،بے حد ضعیف، منکر، متروک اورکذاب راوی جمع ہوگئے ہیں۔
اوراس روایت کامتن اورمضمون اپنی سند سے زیادہ فاسد اورکتاب وسنت کی تعلیمات کے صریح خلاف ہے، کیونکہ مسلمانوں کے مقتدیٰ اورپیشوا صرف رسول اللہﷺ ہیں، آپ اپنی زندگی میں مسلمانوں کے مقتدیٰ تھے اورآپ کی وفات کے بعد اللہ کی کتاب اورآپ کی سیرت پاک اورآپ کی سنت مطہرہ مسلمانوں کے لئے مأخذ رشد وہدایت ہے ،آپ کے علاوہ کوئی بھی امام، عالم، بزرگ اورصالح انسان نہ مسلمانوں کا مقتدیٰ تھا اورنہ ہوگا۔(تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو الکامل ص:۳۷۶، ۳۷۷ج۲، المؤتلف والمختلف ص:۱۷۷۸،ج ۴، الاکمال ص ۲۷،ج ۷، التأریخ الکبیر ص۲۷۸،ج ۲، التقریب ص ۲۰۱، لسان المیزان ص ۱۵۶ج ۲، میزان الاعتدال ص ۴۲۷،ج ۱)
بعض صوفیاء نے اس روایت کے بارے میں جویہ فرمایا ہے:’’اس حدیث کی صحت میں اگرچہ محدثین کے نزدیک کلام ہے، لیکن اہل کشف کے نزدیک یہ صحیح ہے‘‘ تویہ صوفیا کی ’’بڑ‘‘ ہے، شریعت کی نظرمیں اس کشف کا کوئی وزن نہیں اورنہ کسی حدیث کی صحت وسقم معلوم کرنے کے لئے اس کاکوئی اعتبار ہے اس لئے کہ کشف شرعی مأخذ اورشرعی دلیل نہیں ہے، یہاں یہ واضح کردینا مناسب ہوتا ہے کہ ائمہ اسلام نے بلا استثناء اپنی تقلید سے منع فرمایا ہے اورکتاب وسنت کی اتباع کی دعوت دی ہے۔
اسی طرح تمام ائمہ اسلام نے عموماً اورامام شافعی رحمہ اللہ نے خصوصاً یہ صراحت کی ہے کہ اگرائمہ اسلام میں سے کسی کا کسی بات پر عمل رہا ہو، پھراسی کونبیﷺ کی کوئی ایسی حدیث معلوم ہوجائے جواسی کے عمل کے خلاف ہو تواسی پریہ فرض ہے کہ وہ اپنے عمل سے کنارہ کش ہوکرفوراً اس حدیث پر عمل شروع کردے‘‘۔(الرسالہ ص:۲۷۸)
اورشمس الائمہ امام محمد بن احمد سرحسی رحمہ اللہ اپنے ’’اصول‘‘ میں تحریر فرماتے ہیں:’’اگرکسی صحابی کا عمل کسی حدیث کے خلاف ہے تواس کا سبب یہ ہے کہ وہ حدیث ان کو معلوم نہیں رہی ہوگی، لہذا اس حدیث کے خلاف ان کاعمل اس حدیث کے حجت ہونے پراثرانداز نہیں ہوسکتا، بلکہ وہ حجت تھی اورحجت رہے گی، اسی طرح اگرکسی حدیث پر عمل ہورہا ہو اورنبیﷺ سے اس کی نسبت صحیح ہو، تواس وجہ سے اس پرعمل ترک نہیں کیا جائے گا کہ اس کے خلاف ایک ایسے شخص کا عمل ہے جونبیﷺ سے فروترہے اور اس کے عمل کی یہ توجیہ کی جائے گی کہ اس پروہ حدیث مخفی تھی، اگروہ اس کو معلوم ہوتی تووہ اپنے اس عمل سے رجوع کرلیتا، لہذا جس شخص کو صحیح سند سے مروی کوئی حدیث پہنچ جائے اس پر یہ فرض ہے کہ اس کی پیروی کرے‘‘۔(ص:۸، ج ۲)
حدیث کی حجیت اورتقلید شخصی کے بطلان کی اس سے بڑی دلیل اورکیا ہوسکتی ہے ،لیکن متأخرین فقہائے احناف کی کتابوں میں تقلید پرجس قدر زوردیاگیا ہے اور قدیم ائمہ کے اقوال اورآراء کو صحیح ثابت کرنے کے لئے جو فلسفیانہ اورمناظرانہ اسلوب اختیار کیاگیا ہے اس کی اس اسکول کے ائمہ کے طرزعمل سے تائید نہیں ہوتی چنانچہ شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ ’’الانصاف فی بیان سبب الاختلاف‘‘میں تحریر فرماتے ہیں:
’’اسی طرح بعض لوگ اس وہم میں مبتلا ہیں کہ مذہب حنفی کی بنا ان ہی جدلی بحثوں پرقائم ہے ، جوالمبسوط، الہدایۃ اورالتبیین وغیرہ کتابوں کے صفحات میں پھیلی ہوئی ہیں، وہ نہیں جانتے کہ ان کے مذہب کی بنا ان منطقی بحثوں پرنہیں ہے،ان کے اندر بحث وجدال کے اس طرز کی ابتدا تودراصل معتزلہ سے ہوئی ہے جسے متأخرین نے اس خیال سے اختیار کرلیاتھا کہ فقہی مباحث میں اس قسم کی باتوں کی بھی گنجائش ہے، نیز اس سے طلباء کے ذہنوں میں تیزی اوروسعت پیدا ہوگی‘‘۔(ص:۱۲۷،۱۲۸)
عام طورپرفقہی مباحث سے امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کی جوتصویر ابھرتی ہے وہ یہ کہ ان کا سارا مدارقیاس ورائے پرتھا اوروہ حدیث کو کوئی خاص اہمیت نہیں دیتے تھے لیکن اس جلیل القدرامام کی سیرت کے سنجیدہ اورغیر جانبدارانہ مطالعہ سے جوحقیقت سامنے آتی ہے وہ یہ ہے کہ موصوف حدیث کو بنیادی شرعی مأخذ مانتے تھے، صحت حدیث سے متعلق ان کے اندرجو شدت تھی تواس کا سبب یہ تھا کہ ’’کوفہ‘‘ موضوع اور جھوٹی روایات کا گڑھ تھا اوریہ بات معلوم ہے کہ ہرانسان اپنے ماحول کی پیداوار ہوتا ہے ، لہذا اگر احادیث کی سند اورمتن سے متعلق دوسروں سے زیادہ کھوج کرید کرتے تھے توان کا ایسا کرنا بالکل قدرتی امرتھا ورنہ جن احادیث کی نسبت نبیﷺ سے ثابت ہے ان کے آگے سرتسلیم خم کردیتے تھے حتی کہ وہ ’’خبرواحد‘‘ کو اسی طرح شرعی حجت مانتے تھے جس طرح وہ جمہور محدثین کے یہاں حجت ہے۔
اس مضمون کا مسک الختام اس واقعہ کے ذکرسے کرناچاہتاہوں جوامام طحاوی رحمہ اللہ نے امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے احترام حدیث سے متعلق نقل کیاہے، تحریر فرماتے ہیں:
امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ اورمشہور محدث امام حماد بن زید رحمہ اللہ کے درمیان ایمان میں کمی بیشی کے مسئلے پرگفتگو ہورہی تھی، دوران گفتگو امام حماد نے ان سے وہ حدیث بیان کی جس میں حضرت ابوموسی اشعری رضی اللہ عنہ نے رسول اللہﷺ سے سوال کیاہے کہ:’’یَارَسُوْلَ اللّٰہِ! أَیُّ الإسْلَامِ أَفْضَلُ؟‘‘اے اللہ کے رسولﷺ! کون سا اسلام افضل ہے؟ پوری حدیث بیان کرنے کے بعدامام حماد بن زید رحمہ اللہ نے امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کومخاطب کرکے فرمایا:
’’کیاآپ دیکھتے نہیں کہ انھوں نے رسول اللہﷺ سے پوچھا ہے کہ کون سا اسلام افضل ہے؟ یعنی اسلام میں درجات ہیں۔
جس وقت امام حماد حدیث بیان کررہے تھے امام ابوحنیفہ بالکل خاموش رہے اس پران کے شاگردوں میں سے ایک نے ان سے کہا:’’ابوحنیفہ! کیا آپ ان کو جواب نہیں دیں گے؟یہ سوال سن کر امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ نے جوکچھ فرمایا وہ سونے کے پانی سے لکھے جانے کے قابل ہے، فرمایا:’’میں ان کو کیا جواب دوں وہ تو یہ بات رسول اللہﷺ کی نسبت سے بیان کررہے ہیں‘‘۔(شرح العقیدۃ الطحاویۃ ص:۳۵۱)
***

No comments:

Post a Comment