شمیم احمدندویؔ
اس عوامی احتجاج کے پیچھے کوئی منصوبہ بندی تھی اورنہ نتائج کی کوئی پیش بندی، بلکہ انجام وعواقب کی پرواکئے بغیرآتش نمرودمیں بے خطرکودپڑنے کی ایک مثال تھی، اس آگ کو سردکرنے اورعوامی جوش وجنون کوٹھنڈاکرنے کے لئے دنیا کے دیگر مطلق العنان فرمارواؤں اورسخت گیر آمروں کی طرح حسنی مبارک نے فوج کا استعمال کرنے کی کوشش کی، لیکن فوج نے نہتھے عوام پرگولیاں برسانے سے انکار کردیا ،یہ فوج کے کردار کا ایک قابل قدرنمونہ تھاکہ فوج ملک کے بیرونی دشمنوں سے لڑنے کے لئے تشکیل دی جاتی ہے نہ کہ پرامن مظاہرین کوگولیوں سے بھوننے کے لئے، شاید فوج کوبھی یہ سوچ کرشرم آئی ہوکہ وہ سب سے بڑے بیرونی دشمن اسرائیل کاتودودوبڑی جنگوں میں کچھ بگاڑنہ سکی اب عوام کے سینوں کو آسان ٹارگٹ سمجھ کران پرطبع آزمائی کرے تواس پراسے تمغہ شجاعت نہیں مل سکتا، لیکن حقیقت یہی ہے کہ اس نے اپنا انسانی واخلاقی فرض اداکیا، اس مصری انقلاب کی سب سے خاص بات یہی کہی جاسکتی ہے کہ جہاں ہزارطرح کی اشتعال انگیزیوں کے بعداوران کے جذبات کو سمجھنے سے انکار کے بعدبھی عوام نے بغیرکسی قابل ذکرقیادت کے جس صبر وتحمل کا مظاہرہ کیا اورامن پسندشہری ہونے کاثبوت دیا اورکسی طرح کے تشددکی راہ نہ اپنائی وہیں فوج نے طاقت کا بیجا استعمال نہ کرکے لاکھوں کی بھیڑ پراندھا دھند فائرنگ کرکے اپنے خلاف اس روایتی تصورکو ختم کیا جس کے لئے وہ دنیا میں بدنام ہے، ان دونوں کا کردارقابل ستائش ہے اوربغیرکسی بڑے خون خرابہ کے اس طرح کاپرامن انقلاب دنیا میں کم ہی آتا ہے، حالانکہ پرامن احتجاج کے چنددنوں بعدہی حسنی مبارک حکومت کی تائید وحمایت میں بھی ایک گروہ سامنے آیاتھا (جس کی حقیقت پرسے ابھی پردہ اٹھناباقی ہے) اس نے مظاہرین پر پتھراؤ بھی کیا اوران کو مشتعل کرنے والے اقدامات بھی کئے اوروقتی طورپر لگتا تھا کہ مظاہرین دومتحارب گروہوں میں تقسیم ہوگئے ہیں اورباہم دست وگریباں ہوکر ان کاحکومت مخالف مظاہرہ ناکام ہوجائے گا، لیکن اس کے برعکس انھوں نے صبروتحمل کا بے مثال مظاہرہ کیا اوراشتعال انگیزی کی ان دانستہ حرکتوں کے بعد بھی ایک حدسے آگے نہ بڑھے، اوراپنے عزائم کو منطقی انجام تک پہونچاکر دم لیا اورثابت کردیا کہ عدم تشدد کے ذریعہ بھی دنیا میں بڑے بڑے سیاسی انقلاب لائے جاسکتے ہیں، اورجابروظالم حکومتوں کاتختہ پلٹاجاسکتا ہے ،ہندوستان میں مہاتماگاندھی نے اسی کوہتھیار بناکرانگریزوں کو اس ملک سے بوریہ بسترگول کرنے پر مجبور کردیاتھا، کاش دنیا کے مختلف خطوں میں تشددوخون خرابہ پرآمادہ بعض تنظیموں، ماؤنوازوں، نکسل وادیوں اوراُلفا وغیرہ کی سمجھ میں یہ نکتہ آجائے ۔
اس موقع پرغورکرنے کامقام یہ ہے کہ آخروہ کیا وجہ تھی یا وہ کون سے اسباب تھے جنھوں نے انجام وعواقب سے بے پرواہوکرمصری عوام کوحکومت کے خلاف سینہ سپر ہوجانے کا حوصلہ بخشااوران کووہ جرأت رندانہ عطاکی کہ انھوں نے حکومت وقت کے ایوانوں کولرزہ براندام کردیا، ان میں سے ایک وجہ دنیاوی وسیاسی ہے اور ایک وجہ ملی واخلاقی ہے ،دنیاوی اسباب کا تجزیہ کیاجائے تواس ناقابل تصورحقیقت پرسے پردہ اٹھے گا کہ مصرقدرتی وسائل اورزرخیز وزرعی زمینوں سے مالامال ہے،نہرسویز سے ہونے والی آمدنی اورسیاحوں کی آمدورفت زرمبادلہ کے حصول کابیش بہا ذریعہ ہے، لیکن عوام نان شبینہ کے محتاج اورغربت وافلاس کے شکارہیں، اس کے پیچھے حکومت کی ناقص اقتصادی پالیسیاں اوربدعنوان سیاست دانوں کی عیش کوشیاں ہیں، قدرے تفصیل سے جائزہ لیں توبخوبی یہ حقیقت آشکاراہوگی کہ جہاں مصر کاایک بڑاعلاقہ دنیا کے چندزرخیز خطوں اورسونااگلنے والی زمینوں پرمشتمل ہے،جوروئی کی پیداوار کے سلسلہ میں دنیا کے اندر سرفہرست ہے اورآج دنیا میں اس کے لئے جوانگریزی کالفظ’’کاٹن‘‘ مستعمل ہے‘ وہ دراصل مصری یا عربی لفظ قُطُن کی بگڑی شکل ہے، دریائے نیل پوری دنیا میں صاف وشیریں پانی کے لئے اول مقام رکھتا ہے اوراس پانی سے سیراب ہونے والی فصلیں پیداوار وکوالٹی میں اپناجواب نہیں رکھتیں، اسی دریائے نیل اورزرخیز زمینوں کو دیکھ کرفرعون نے خدائی کا دعوی کردیاتھا اورکہاتھا:(ألیس لی ملک مصروھٰذہ الأنھار تجری من تحتی)حضرت یوسف علیہ السلام کے زمانہ میں جب خطہ کے بیشترممالک ایک طویل ۷سالہ عرصہ پر مشتمل قحط کا شکارہوئے تویوسف علیہ السلام کے حسن تدبیرودو ر اندیشی کے سبب اورمصر کی انھیں زرخیز زمینوں کی بدولت علاقہ کے کئی ملکوں کے باشندوں کاپیٹ بھرا اوروہ بھکمری کا شکارہوکرایڑیاں رگڑرگڑکر مرنے سے محفوظ رہے، حضرت عمرفاروق رضی اللہ عنہ کے زمانۂ خلافت میں جب جزیرہ العرب پرقحط مسلط ہوااورمدینہ کے باشندے بھوک سے مرنے لگے توحضرت عمرفاروق کے سامنے مصرسے غذائی کمک طلب کرنے کے سوا کوئی چارہ نہ تھا، حضرت عمروبن عاص رضی اللہ عنہ گورنرمصرسے غلہ طلب کیاگیا اورکچھ تاخیر ہونے پرسختی سے ہدایات دربارخلافت سے جاری ہوئیں توانھوں نے جواب دیا کہ میں غلوں سے لدااونٹوں کاقافلہ تیارکرکے بہت جلد بھیج رہا ہوں اوروہ اتنا بڑاہوگا کہ اس قافلہ کا پہلااونٹ مدینہ میں داخل ہوجائے گا اورآخری اونٹ مصرسے نکل رہاہوگا، ان کی اس بات میں مبالغہ ہوسکتا ہے لیکن اس سے یہ بات سمجھی جاسکتی ہے کہ مصرغذائی پیداوار میں نہ صرف خودکفیل تھا بلکہ قرب وجوار کے علاقوں کاپیٹ بھرنے کی صلاحیت رکھتا تھا، اسی قحط کے موقع پر حضرت عمررضی اللہ عنہ نے گورنرمصرعمروبن عاص رضی اللہ عنہ سے کہاتھا کہ تمھیں مصر اور عرب کے درمیان بحری راستہ نکالنا ہوگا تاکہ دوبارہ اس طرح کی افتاد پڑنے پربلاتاخیر مصرسے غذائی امداد دارالسلطنت مدینہ کو بھیجی جاسکے، آج اس فاروقی خواب کوہم حقیقت کے روپ میں نہرسوئزکی شکل میں دیکھ رہے ہیں ساتھ ہی مصرکی غذائی پیداواری صلاحیت کومحسوس کررہے ہیں۔
مصرقدرتی وسائل اورپٹرولیم وقدرتی گیس کے ذخائر سے بھی مالامال ہے جواس کی آمدنی کاایک بڑا ذریعہ ہے اس کااندازہ صرف اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ اسی حالیہ مزاحمتی تحریک کے دوران جب گیس پائپ لائن کو نقصان پہونچایا گیا توصرف وہ پائپ لائن جواسرائیل تک جاتی تھی اس کووقتی طورپر بندکردیاگیا،اس کے نتیجہ میں اسرائیل کویومیہ ۲۰؍لاکھ ڈالرکا نقصان ہوتارہا ،دورونزدیک کے اورملکوں کوجوگیس سپلائی کی جاتی رہی اس سے ہونے والی آمدنی کوسمجھاجاسکتا ہے ،نہرسوئز مصرکی اقتصادیات میں خصوصی اہمیت کی حامل ہے یہ ایک سیاسی ہتھیاربھی ہے اورمصری معیشت کی مضبوطی میں اس کا نمایاں کرداربھی ہے، صدرجمال عبدالناصر نے اپنی حکومت میں ایک بارجب اس کو قومیانے کااعلان کیا تھا تودنیا میں تہلکہ مچ گیاتھا جیسے کہ شاہ فیصل مرحوم نے پٹرول کوایک کارگرہتھیار کے طورپراستعمال کا اعلان کرکے دنیا کے متعددملکوں اورمغربی طاقتوں میں کہرام مچادیاتھا اوران کواسرائیل نوازی کی بھاری قیمت چکانے پرمجبورکردیا تھا، نہرسوئز سے مصرکوسالانہ اربوں ڈالرکی آمدنی ہوتی ہے، صرف ۲۰۱۰ء میں سوئز سے ہونے والی آمدنی ۴؍ارب ۷۰کروڑ ڈالرتھی جوبحری جہازوں سے وصول ہونے والے محصولات کی شکل میں تھی،یہ ایک اضافی آمدنی ہے جومصری معیشت کومضبوطی فراہم کرتی ہے ساتھ ہی پورپ وایشیاء کے درمیان اس مختصرترین آبی گزرگاہ کی تعمیرسے دنیا کی تجارت اورجہازوں کی آمدورفت ونقل حرکت کوایک نیاموڑ مل گیا اوروقت ووسائل کی بے پناہ بچت بھی ،واضح ہوکہ فرانسیسی انجینئروں کے ذریعہ اس نہر کی تعمیرسے قبل پورپ سے آنے والے بحری جہاز پورے براعظم افریقہ کا چکرلگاکرآنے کے لئے مجبورتھے ،جس میں وقت ووسائل کاناقا بل برداشت ضیاع ہوتا تھا۔
مصری اقتصادیات کورواں دواں رکھنے کے لئے تیسرااہم ذریعہ سیاحت اورپوری دنیا سے آنے والے سیاحوں کی آمدورفت ہے ،جوفراعنہ مصرکی حیرت انگیز دنیا اور وہاں موجود پیرامیٹس(اہرام) کی دیدارکے لئے سالانہ کروڑوں کی تعدادمیں آتے ہیں اورمصری حکومت کومختلف صورتوں میں اربوں ڈالردے کرجاتے ہیں ،مصرکا شمار دنیا کے ان چندملکوں میں ہوتا ہے جہاں سب سے زیادہ سیاح آتے جاتے ہیں۔
ان سب ذرائع آمدنی کے نتیجہ میں مصری معیشت کو دنیا کی چندمضبوط ترین معیشتوں میں سے ایک ہوناچاہئے، دنیا کے مختلف ملکوں کے ساتھ تجارت، اسرائیلی مفادات کے تحفظ کی قیمت اورامریکی مراعات بھی اربوں ڈالر کی شکل میں ملتی ہے، اس طرح مصر اوروہاں کے عوام کو خوش حال ہوناچاہئے، لیکن معاملہ اس کے برعکس ہے ،نہ تومصر کاشمارٹھوس ومضبوط اقتصادی بنیادیں رکھنے والے ملک میں ہوتا ہے نہ ہی وہاں کے عوام خوش حال اوروسائل عیش سے مالامال ہیں،بلکہ عالمی معیشت میں اس کا نمبر۱۳۷ واں ہے اوروہ افریقی ممالک جو غربت وافلاس کی تصویر ہیں ان میں بھی اس کوکوئی نمایاں مقام حاصل نہیں ہے، بلکہ حیرت ہوتی ہے یہ جان کر کہ افریقی ممالک میں بھی فی کس آمدنی کے حساب سے یہ غربت میں سرفہرست ہے صرف’ کانگو‘کے عوام غربت میں اس سے آگے یعنی غریب ترہیں، یہاں کی شرح نموصرف ساڑھے ۴فیصدہے جب کہ مہنگائی کی شرح اس سے تین گنی رفتار سے بڑھ رہی ہے اوروہ ۱۳؍فیصد ہے اس طرح عوام کی غربت میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے، اورمختلف جائزوں کی مختلف رپورٹوں کے مطابق ۱۵فیصد سے ۴۰فیصدتک لوگ خط افلاس سے نیچے زندگی بسرکررہے ہیں اوران کو درکارضروری وسائل زندگی بھی حاصل نہیں، صرف دارالحکومت قاہرہ میں دس لاکھ ایسے مفلوک الحال لوگ ہیں جن کاگزربسر لوگوں کی امداد پرہے یاوہ باقاعدہ گداگری کاپیشہ اپنائے ہوئے ہیں جن میں سے بعض لوگ تولوگوں کے دست عنایت کے محتاج ہوکر مستقل طورپر قبرستانوں میں مقیم ہیں، تقریباً ۱۰فیصد لوگ بے روزگار ہیں یعنی ان کا کوئی ذریعہ معاش نہیں ہے،پھرسوال یہ پیداہوتا ہے کہ سطوربالامیں مذکورملکی آمدنی کے بعض اتنے اہم ذرائع سے حاصل ہونے والی دولت کہاں جاتی ہے؟اس کاسیدھاجواب یہ ہے کہ ملک میں لوٹ کھسوٹ ،بدعنوانی اورملکی دولت کاتصرف بیجا عام ہے اوریہ چند خاندانوں اورحکومت پرحاوی اجارہ داروں اورمطلق العنان آمریت پسندوں تک محدود ہے، اورعوام استحصال بیجا کا شکارہوکر اس سے بڑی حد تک محروم ہیں، تازہ ترین خبروں کے مطابق مصری صدرحسنی مبارک(جواب سابق ہوچکے ہیں)کی جودولت سوئزبنک میں موجود ہے‘ بنک نے ایک حالیہ فیصلہ میں ان کی تمام دولت اوراثاثے منجمد کردئے ہیں، جس کا مصری عوام نے دل سے استقبال کیاہے،صحیح اعدادوشمار توپیش کرنا شاید آسان نہ ہو،لیکن ایک اندازہ کے مطابق حسنی مبارک کی دولت ۷۰ارب امریکی ڈالرسے زائد ہوگی جودنیا کے مختلف ملکوں کے بنکوں اورغیر منقولہ جائدادوں کی شکلوں میں موجود ہے یہ دولت دنیا کے امیرترین آدمی بل گیٹس کی دولت سے بھی زائد ہے جومفلس وقلاش عوام کا خون چوس کراورملکی وسائل کولوٹ کرحاصل کی گئی ہے، اس لوٹ کھسوٹ پرعوام کے اندراضطراب وبے چینی کا پیداہونا ایک یقینی امراورلازمی نتیجہ ہے، حسنی مبارک نے عوام کے باغیانہ تیوردیکھ کراپنے بیٹے اور ولی عہدسلطنت جمال مبارک کوکچھ روزقبل اپنے اہل خانہ کے ساتھ ملک سے رخصت کردیاہے، کہایہ جارہا ہے کہ اس نے تقریباً ۱۰۰سوٹ کیسوں میں اپنی دولت کاایک بڑا حصہ لے کرراہ فراراختیار کیاہے، ابھی کچھ روزقبل جب تیونس میں آئی سیاسی تبدیلی کے نتیجہ میں وہاں کے مطلق العنان فرماں روا زین العابدین بن علی کو ملک چھوڑنے پرمجبورہوناپڑاتوان کی عیش پرست بیوی ملکی بنکوں سے جودولت نکلواکرلے گئی اس میں صرف سونا ڈیڑھ ٹن تھا، اوردنیا کے دیگر ملکوں میں جمع شدہ دولت اورجائدادیں اس کے علاوہ ہیں، اگریہ صرف افسانہ نہیں ہے توعوام کی مجبوری ولاچاری اورحکومت کے وسائل معیشت کااس بے دردی سے استحصال سمجھاجاسکتا ہے جواسی طرح کی بے اطمینانی پیداکرتا ہے جس میں حکومتیں زیروزبرہوجاتی ہیں۔
مصری عوام کاپیمانہ صبر جب لبریز ہوگیا تووہ اپنے غم وغصہ کے اظہارکے لئے حکومت کی فوری برخواستگی کا مطالبہ لے کرسڑکوں پرآگئے اورملکی کام کاج ٹھپ کردیا، جس کے نتیجہ میں اسٹاک مارکیٹ کوبندکردیاگیا اورملکی معیشت کو یومیہ تقریباً ۳۰کروڑ ڈالرکا نقصان ہوتا رہا ہے، لیکن وہ حسنی مبارک کی اقتدارسے بے دخلی سے کم کسی بات کومنظور کرنے پر راضی نہ تھے، اوپرمذکوربے اطمینانی وبے چینی کی یہ صرف ایک وجہ تھی جس کا تعلق عوام کی اقتصادیات اوردنیاوی زندگی کی سہولیات سے ہے، لیکن عالم اسلام کے تناظرمیں اگردیکھاجائے تودوسری وجہ اس سے بھی بڑی اوردوررس نتائج کی حامل ہے جس نے عالم اسلام کی نظروں میں مصری حکومت کی بے حسی، غزہ کے مسلمانوں کے حق میں بے رحمی وشقاوت قلبی ،عام مسلمانوں کے مسائل سے لاتعلقی اورامریکی حکومت کے سامنے سجدہ ریزہونے کی بے غیرتی کوواضح کردیاہے۔
وہ اسرائیلی جس کا وجود عالم اسلام اورعالم عرب کے سینہ میں پیوست ایک خنجرکی طرح ہے جس کادرداور جس کی کسک ہرمسلمان اپنے دل میں محسوس کرتا ہے، دنیا کے نقشہ پر اس کی موجودگی ہی حق وانصاف کا مذاق اڑانے کے لئے کافی ہے ،چہ جائیکہ فلسطینی مسلمانوں پر اس کے روح فرسا مظالم اورعورتوں وبچوں میں تمیز کئے بغیراس کاطاقت کااندھا دھند استعمال ،غزہ کی ناکہ بندی اورمسجد اقصیٰ کی بے حرمتی، یہ ساری حرکتیس مسلمانان عالم کے لئے ناقابل برداشت ہیں ،لیکن مصری حکومت کی بے شرمی وبے غیرتی کے سوااسے کیا کہیں گے کہ اسی اسرائیل سے مصر نے محبت کی پینگیں بڑھائیں اورالفت کے تعلقات استوارکئے اوراس سے کچھ مراعات یامالی فوائد حاصل کرنے کے لئے اس کی جارحیت اورظلم وسرکشی کی عملاً تائید کی، اورجب اسرائیل نے غزہ کی بے سبب ناکہ بندی کی توجغرافیائی اعتبارسے مصردنیا کا واحد ملک تھا جواپنی گزرگاہ کھول کرغزہ کے ستم رسیدہ مسلمانوں کو راحت پہونچا سکتا تھا،لیکن اس نے ان مظلومین سے اظہارہمدردی ویکجہتی کے بجائے اسرائیلی مظالم کی تائید کی اوران کوسسک سسک کر جینے کے لئے مجبور کیا اوراسرائیل کے لئے سامان فرحت اورمسلمانوں کے لئے سامان ذلت ونکبت مہیا کیا، حالانکہ پوری دنیا کے مسلمان ہی نہیں انصاف پسندانسان اس ظلم وبربیت پرچیخ اٹھے تھے، ترکی نے امدادی بحری جہاز سے ان کوراحت پہونچا نے کی کچھ کوشش کی تھی، لیکن اسرائیل نے اس کا کیا حشرکیا ؟بتانے کی ضرورت نہیں ،لیکن اس درندگی کے مظاہرہ پربھی مصرخاموش رہا، اوراس طرح وہ خماربارہ بنکوی کے اس شعر کی تصویر بنا
ارے اوجفاؤں پہ چپ رہنے والے
خموشی جفاؤں کی تائید بھی ہے
یوں تومصر نے انورالسادات کے زمانہ ہی میں اپنی پٹری بدل لی تھی اوراسرائیل وامریکہ کی دوستی ہی میں اپنے لئے سامان عزت تلاش کرنا شروع کردیا تھا اورایسا اس وقت تھا جب وہ اسرائیل کوسبق سکھانے کی پوری صلاحیت رکھتا تھا، ۱۹۷۳ء میں رمضان المبارک میں ہونے والی مصر اسرائیلی جنگ میں اس نے اپنی اس صلاحیت کوثابت بھی کردیا تھا اوراسرائیل کے ناقابل تسخیر ہونے کی پول کھول دی تھی، لیکن پھرانورالسادات مغربی طاقتوں کے بچھائے ہوئے جال میں پھنس گئے اورکیمپ ڈیوڈ معاہدہ کے ذریعہ کچھ حقیردنیاوی فوائد حاصل کرنے کی کوشش کی، لیکن اصلاً اسرائیل وامریکہ کے مفادات کوپورا کیا اوراسرائیل کوتحفظ فراہم کیا، اس طرح وہ اسرائیل جوعرب ممالک کے خطرات میں گھراہونے کی وجہ سے پوری دنیا میں سب سے زیادہ اپنے دفاع پرخرچ کرتا تھا جو اس کی مجموعی قومی آمدنی کا ۳۰فیصد حصہ تھا،لیکن مصر سے اس کے سمجھوتہ کے بعداس کادفاعی بجٹ محض۸فیصد رہ گیا، اس طرح اس کی وہ رقم جو فوجی تیاریوں پرخرچ ہوئی تھی، دیگرترقیاتی منصوبوں پرخرچ ہونے لگی اوراس کی معیشت کونہ صرف استحکام حاصل ہوا بلکہ علاقہ میں اسے سازشوں کا جال بچھانے کی مہلت بھی ملی جویہودیوں کی بدنام زمانہ خصلت ہے، اس طرح خطہ میں اسرائیلی داداگیری اورریشہ دوانی کا مصرنہ صرف بڑی حد تک ذمہ دار ہے بلکہ اگریہ کہاجائے کہ سب کچھ اس کی رضامندی سے ہوتا رہاہے توغلط نہ ہوگا۔
بعدمیں انورالسادات کوجب قتل کردیا گیا توموہوم سی امید تھی کہ شاید اب مصر کی خارجہ پالیسی اسرائیل کے تئیں بدلے گی اوروہ عالم اسلام کے مسلمانوں کے غم میں اپنے کو شریک سمجھے گا، لیکن ہوا اس کے برعکس، حسنی مبارک کے آنے پر عالم اسلام کی رسوائی کا مزید سامان ہوا اورانھوں نے مصر کوامریکی مفادات کے آگے بالکل ہی گروی رکھ دیا اوروہ بھی امریکی امداد کے نام چند حقیر ٹکوں کے حصول کے لئے جس سے مصری معیشت کواستحکام ملاہویا نہ ملاہو لیکن حسنی مبارک کے ذاتی اکاونٹ کوکافی استحکام ملا۔
عالمی پیمانہ پرملی مفادات کونظرانداز کرکے امریکی واسرائیلی مفادات کاآلہ کاربننا حسنی مبارک کا دوسرا سب سے بڑا جرم تھا، جس کی انھیں سزاملنی ہی چاہئے، اورعوامی غصہ کا ابلتا ہوا لاوا ان سے ہی حقیقت منوارہاہے کہ خودغرضی ومفادپرستی اورجبرواستحصال کی پالیسی ہمیشہ کامیاب نہیں ہوسکتی،اورفوجی قوت کے ذریعہ عوامی جذبات کودبانے کی کوششیں ہمیشہ نتیجہ خیز ثابت نہیں ہوسکتیں، اب تازہ ترین صورت حال یہ ہے کہ حسنی مبارک تاج وتخت سے دستبردار ہوکرملک یابیرون ملک کی کسی نامعلوم منزل کو روانہ ہوچکے ہیں اورمصری عوام کوابھی اپنی منزل کی تلاش ہے، فی الحال اقتدار کا محورفوجی قیادت ہے جوجمہوری طریقوں سے انتقال اقتدار کی کوششوں میں تعاون کرتی ہے یاپھرامریکہ کے اشاروں پر ناچتی ہے ؟یہ دیکھنا ابھی باقی ہے۔
مصرکے حالیہ سیاسی بحران کا ایک شاخسانہ یہ ہے کہ اس عوامی احتجاج کے دوران جس پریشانی واضطراب کا مظاہرہ اسرائیل وامریکہ اورمغربی ممالک نے کیا اس قدر شدید فکر وتشویش اوربے چینی وگھبراہٹ کامظاہرہ شاید حسنی مبارک کی طرف سے بھی نہ ہواہوجوآخرتک پورے طمطراق سے اپنے اس موقف پراڑے رہے کہ وہ ستمبرسے قبل استعفیٰ نہیں دے سکتے، اور فوری استعفیٰ کی صورت میں ملک کو درپیش خطرات وسیاسی بحران سے عوام کو خوف زدہ کرنے کی کوشش کرتے رہے، لیکن اس انقلابی صورت حال اورملک میں سیاسی تبدیلی کی اس لہرسے اگرکوئی ملک صحیح معنوں میں پریشان ہوا تووہ اسرائیل تھا اوراگر کسی ملک کوصحیح معنوں میں تشویش ہوئی تووہ امریکہ تھا ،لیکن حسنی مبارک نے نوشتہ دیوارخواہ پڑھا ہویانہ پڑھاہو لیکن امریکہ واسرائیل نے وہ تحریر ضرورپڑھ لی تھی جو’’تحریر اسکوائر‘‘پرعوام اپنے جوش ولولہ اورجذبۂ حریت سے لکھ رہے تھے، عوامی جذبات کو نظرانداز کرنا امریکہ کے لئے آسان نہ تھا جودنیا میں جمہوریت کا سب سے بڑا پاسبان سمجھاجاتا ہے اورجوبزعم خود حقوق انسانی کا سب سے بڑا محافظ اورامن کا پیامبر ہے، اس لئے براک اوبامہ نے چشم زدن میں حسنی مبارک کی پشت پناہی اوربیجا طرف داری سے ہاتھ کھینچ لئے اوران کو جانے کا پیغام دے دیا، تاکہ ایک طرف عوام کے غم وغصہ کوسردکیا جاسکے اوران کو اپنا ہم نوا وہم خیال بنایاجاسکے تاکہ امریکی سازشوں سے مصرکازمام اقتدارجوبھی سنبھالے‘ اسے مصری عوام اپنا سمجھیں ،لیکن درحقیقت وہ امریکی واسرائیلی مفادات کا ویسا ہی خیال رکھے جیسا کہ اس کے پیش رو رکھتے آئے ہیں،اسرائیل کی تشویش کو اس پوری صورت حال کی روشنی میں بآسانی سمجھاجاسکتا ہے، جسے اب صرف معاہدہ کیمپ ڈیوڈ ہی کی نہیں بلکہ اپنا وجودباقی رکھنے کی فکرہے، اورامریکہ بھی خطہ میں اپنا ایک طاقت ور حلیف کھونا کبھی پسند نہیں کرے گا، اوراپنی من پسندحکومت بنانے کے لئے کچھ بھی کرنے کے لئے تیاررہے گا، اس لئے فی الحال یہ کہنا اتناآسان نہیں کہ حسنی مبارک کی اقتدارسے بے دخلی کے بعد سارے معاملات خوش اسلوبی سے طے ہوجائیں گے اورنہ ہی یہ کہاجاسکتا ہے کہ اب مصرکا جو نیا حکمراں آئے گا وہ عوام کی توقعات پرپورا اترے گا، ہم صرف نیک خواہشات کا اظہار ہی کرسکتے ہیں۔
(نوٹ)مصروتیونس کے سیاسی انقلابات سے شہ پاکر بعض اردووہندی اخبارات یاالیکٹرانک و پرنٹ میڈیا نے تمام ہی عرب ممالک بشمول سعودی عرب وکویت میں بھی سیاسی بے چینی کی موجودگی یاحکومت کی تبدیلی کی پیشین گوئی شروع کردی ہے جوبالکل ہی مہمل ولغوبات ہے اوراس کا حقیقت سے دورکا بھی تعلق نہیں ہے، سعودی عرب میں عوام کو جوشہری سہولیات میسرہیں اورامن وامان کا دوردورہ ہے اس کادنیا کے کسی دوسرے ملک میں تصوربھی نہیں کیاجاسکتا ،جس کی وجہ سے عوام خوش حال وفارغ البال اور اپنے طرزحیات سے مطمئن ومسرور ہیں، اوراس سے بہترکسی فلاحی ورفاہی ریاست کے وہ متمنی وطلب گار نہیں ہیں ،یہ ایک مستقل موضوع ہے، ان شاء اللہ اگلے شمارہ میں اس پراظہار خیال کیاجائے گا۔
***
مصرمیں عوامی انقلاب
اوراسرائیل وامری4159صرمیں عوامی بے چینی واضطراب اورحکومت وقت کی اسلام دشمن پالیسیوں سے اختلاف جب اپنی آخری حدوں کو چھونے لگا تواس کے نتیجہ میں عوامی غم وغصہ کا وہ سیلاب امڈپڑا جوقاہرہ کی’’ تحریر اسکوائر‘‘‘ سے ہوتا ہوا صدارتی محل تک جاپہونچا ،جس میں نہ صرف جبرواستبداد پرمبنی پالیسیاں اورجمہوری اقدارکی حفاظت میں ناکام قوانین خس وخاشاک کی طرح بہہ گئے،بلکہ حسنی مبارک کا تاعمرحکمرانی کاخواب بھی چکنا چورہوگیا، عوام کے جوش وخروش اوران کے غم وغصہ کوسرد کرنے کی مرحلہ وارتدابیر جو حاکمان وقت کی جانب سے اپنائی گئیں وہ ناکام ثابت ہوئیں، اوروہ حسنی مبارک جنھیں اپنے ۳۰؍سالہ دوراقتدار میں کبھی عوام کی خواہشات جاننے کی نہ فکرہوئی اورنہ ہی انھوں نے عوام کو اس قابل سمجھا کہ کسی بھی مسئلہ میں ان کی رائے معلوم کرنے کی کوشش کریں، وہ صرف دوہفتہ کے پرامن احتجاج کے دوران کئی کئی بارانھیں مخاطب کرنے یاپرکشش اعلانات کے ذریعہ ان کا غصہ سردکرنے کی کوشش پرمجبورہوئے، انھوں نے اقتدارسے اپنی دست برداری کا بھی اعلان کیا اورستمبرمیں صدارتی انتخابات کے ذریعہ انتقال اقتدارکے لئے اپنی اور اپنے بیٹے کی امیدواری کے امکانات کوبھی مستردکیا، کابینہ کوبھی تحلیل کیا اوراصلاحات کا وعدہ بھی، اختیارات کوتقسیم کرنے کے اعلانات بھی کئے اورترغیب وتحریض کے روایتی ہتھکنڈے اپنائے،فوجی جوتوں کی دھمک سے ان کو دہشت زدہ کرنے کی کوشش بھی کی اورٹیکنوں وبکتربندگاڑیوں کی نمائش سے خوف زدہ کرنے کی تدبیر بھی، فوجی ہیلی کاپٹروں کے ذریعہ ان کے دلوں میں لرزہ طاری کرنے کا منصوبہ بھی بنایا اورملک میں لاقانونیت کے انجام بدسے بھی ڈرایا، اورآخرمیں انٹلی جنس سربراہ عمرسلیمان کواپنے اختیارات سونپ کروقتی طورپر یہ ہنگامہ فروکرنے کی کوشش کی، لیکن ان کی نہ توکوئی تدبیر کارگرہوئی اورنہ کوئی ہتھکنڈہ کام آیا اور عوام کاسیل رواں حسنی مبارک کے اقتدارسے فوری طورپر بے دخل کئے جانے سے کم پرکوئی بھی تجویز ماننے اورکوئی بھی حل قبول کرنے پر تیار نہ ہوا، اوروعدہ فرداکوقبول کرکے یاستمبر تک کے لئے اس معاملہ کو معرض التوامیں ڈالنے کی تجاویز کومنظورکرکے وہ کوئی خطرہ مول لینے یاکوئی دھوکہ کھانے کے لئے تیار نہ تھے کہ ممکن ہے آج انھوں نے جس بے نظیراتحاد کا ثبوت دیاہے،گذرتے وقت کے ساتھ اس میں کمی آجائے اوران کی صفوں میں وہ اتحاد باقی نہ رہے جس کامظاہرہ انھوں نے پورے صبروتحمل سے کیا ہے اورجس کا مشاہدہ دنیانے ٹیلی ویژن اورانٹرنیٹ کے ذریعہ کیاہے،اس عوامی احتجاج کی‘ جس نے ایوان اقتدار اورقصرصدارت میں زلزلہ برپاکردیا ‘سب سے خاص بات یہ سمجھی جارہی ہے کہ اس کا نہ توکوئی باضابطہ لیڈر وقائد تھانہ ہی کوئی اپوزیشن پارٹی اس کی پشت پرتھی، مختلف اوقات میں مختلف لوگوں کے نام سامنے آتے رہے، کبھی سابق عالمی توانائی ایجنسی کے سربراہ محمدمصطفی البرادعی کے ہاتھ میں قیادت کی باگ ڈوررہی توکبھی الاخوان المسلمون کوان احتجاجات کاذمہ دار سمجھاگیا، لیکن باضابطہ طورپرکسی ایک نام یاتحریک پراتفاق رائے نہیں کیاجاسکتا،وہ صرف عوامی غم وغصہ کی آگ تھی جوبرسوں سے ان کے سینوں میں بھڑک رہی تھی اوریہ حکومت مصرکے فیصلوں کے خلاف ایک لاواتھا جوعرصہ سے پھٹ پڑنے کے لئے بے تاب تھا۔اس عوامی احتجاج کے پیچھے کوئی منصوبہ بندی تھی اورنہ نتائج کی کوئی پیش بندی، بلکہ انجام وعواقب کی پرواکئے بغیرآتش نمرودمیں بے خطرکودپڑنے کی ایک مثال تھی، اس آگ کو سردکرنے اورعوامی جوش وجنون کوٹھنڈاکرنے کے لئے دنیا کے دیگر مطلق العنان فرمارواؤں اورسخت گیر آمروں کی طرح حسنی مبارک نے فوج کا استعمال کرنے کی کوشش کی، لیکن فوج نے نہتھے عوام پرگولیاں برسانے سے انکار کردیا ،یہ فوج کے کردار کا ایک قابل قدرنمونہ تھاکہ فوج ملک کے بیرونی دشمنوں سے لڑنے کے لئے تشکیل دی جاتی ہے نہ کہ پرامن مظاہرین کوگولیوں سے بھوننے کے لئے، شاید فوج کوبھی یہ سوچ کرشرم آئی ہوکہ وہ سب سے بڑے بیرونی دشمن اسرائیل کاتودودوبڑی جنگوں میں کچھ بگاڑنہ سکی اب عوام کے سینوں کو آسان ٹارگٹ سمجھ کران پرطبع آزمائی کرے تواس پراسے تمغہ شجاعت نہیں مل سکتا، لیکن حقیقت یہی ہے کہ اس نے اپنا انسانی واخلاقی فرض اداکیا، اس مصری انقلاب کی سب سے خاص بات یہی کہی جاسکتی ہے کہ جہاں ہزارطرح کی اشتعال انگیزیوں کے بعداوران کے جذبات کو سمجھنے سے انکار کے بعدبھی عوام نے بغیرکسی قابل ذکرقیادت کے جس صبر وتحمل کا مظاہرہ کیا اورامن پسندشہری ہونے کاثبوت دیا اورکسی طرح کے تشددکی راہ نہ اپنائی وہیں فوج نے طاقت کا بیجا استعمال نہ کرکے لاکھوں کی بھیڑ پراندھا دھند فائرنگ کرکے اپنے خلاف اس روایتی تصورکو ختم کیا جس کے لئے وہ دنیا میں بدنام ہے، ان دونوں کا کردارقابل ستائش ہے اوربغیرکسی بڑے خون خرابہ کے اس طرح کاپرامن انقلاب دنیا میں کم ہی آتا ہے، حالانکہ پرامن احتجاج کے چنددنوں بعدہی حسنی مبارک حکومت کی تائید وحمایت میں بھی ایک گروہ سامنے آیاتھا (جس کی حقیقت پرسے ابھی پردہ اٹھناباقی ہے) اس نے مظاہرین پر پتھراؤ بھی کیا اوران کو مشتعل کرنے والے اقدامات بھی کئے اوروقتی طورپر لگتا تھا کہ مظاہرین دومتحارب گروہوں میں تقسیم ہوگئے ہیں اورباہم دست وگریباں ہوکر ان کاحکومت مخالف مظاہرہ ناکام ہوجائے گا، لیکن اس کے برعکس انھوں نے صبروتحمل کا بے مثال مظاہرہ کیا اوراشتعال انگیزی کی ان دانستہ حرکتوں کے بعد بھی ایک حدسے آگے نہ بڑھے، اوراپنے عزائم کو منطقی انجام تک پہونچاکر دم لیا اورثابت کردیا کہ عدم تشدد کے ذریعہ بھی دنیا میں بڑے بڑے سیاسی انقلاب لائے جاسکتے ہیں، اورجابروظالم حکومتوں کاتختہ پلٹاجاسکتا ہے ،ہندوستان میں مہاتماگاندھی نے اسی کوہتھیار بناکرانگریزوں کو اس ملک سے بوریہ بسترگول کرنے پر مجبور کردیاتھا، کاش دنیا کے مختلف خطوں میں تشددوخون خرابہ پرآمادہ بعض تنظیموں، ماؤنوازوں، نکسل وادیوں اوراُلفا وغیرہ کی سمجھ میں یہ نکتہ آجائے ۔
اس موقع پرغورکرنے کامقام یہ ہے کہ آخروہ کیا وجہ تھی یا وہ کون سے اسباب تھے جنھوں نے انجام وعواقب سے بے پرواہوکرمصری عوام کوحکومت کے خلاف سینہ سپر ہوجانے کا حوصلہ بخشااوران کووہ جرأت رندانہ عطاکی کہ انھوں نے حکومت وقت کے ایوانوں کولرزہ براندام کردیا، ان میں سے ایک وجہ دنیاوی وسیاسی ہے اور ایک وجہ ملی واخلاقی ہے ،دنیاوی اسباب کا تجزیہ کیاجائے تواس ناقابل تصورحقیقت پرسے پردہ اٹھے گا کہ مصرقدرتی وسائل اورزرخیز وزرعی زمینوں سے مالامال ہے،نہرسویز سے ہونے والی آمدنی اورسیاحوں کی آمدورفت زرمبادلہ کے حصول کابیش بہا ذریعہ ہے، لیکن عوام نان شبینہ کے محتاج اورغربت وافلاس کے شکارہیں، اس کے پیچھے حکومت کی ناقص اقتصادی پالیسیاں اوربدعنوان سیاست دانوں کی عیش کوشیاں ہیں، قدرے تفصیل سے جائزہ لیں توبخوبی یہ حقیقت آشکاراہوگی کہ جہاں مصر کاایک بڑاعلاقہ دنیا کے چندزرخیز خطوں اورسونااگلنے والی زمینوں پرمشتمل ہے،جوروئی کی پیداوار کے سلسلہ میں دنیا کے اندر سرفہرست ہے اورآج دنیا میں اس کے لئے جوانگریزی کالفظ’’کاٹن‘‘ مستعمل ہے‘ وہ دراصل مصری یا عربی لفظ قُطُن کی بگڑی شکل ہے، دریائے نیل پوری دنیا میں صاف وشیریں پانی کے لئے اول مقام رکھتا ہے اوراس پانی سے سیراب ہونے والی فصلیں پیداوار وکوالٹی میں اپناجواب نہیں رکھتیں، اسی دریائے نیل اورزرخیز زمینوں کو دیکھ کرفرعون نے خدائی کا دعوی کردیاتھا اورکہاتھا:(ألیس لی ملک مصروھٰذہ الأنھار تجری من تحتی)حضرت یوسف علیہ السلام کے زمانہ میں جب خطہ کے بیشترممالک ایک طویل ۷سالہ عرصہ پر مشتمل قحط کا شکارہوئے تویوسف علیہ السلام کے حسن تدبیرودو ر اندیشی کے سبب اورمصر کی انھیں زرخیز زمینوں کی بدولت علاقہ کے کئی ملکوں کے باشندوں کاپیٹ بھرا اوروہ بھکمری کا شکارہوکرایڑیاں رگڑرگڑکر مرنے سے محفوظ رہے، حضرت عمرفاروق رضی اللہ عنہ کے زمانۂ خلافت میں جب جزیرہ العرب پرقحط مسلط ہوااورمدینہ کے باشندے بھوک سے مرنے لگے توحضرت عمرفاروق کے سامنے مصرسے غذائی کمک طلب کرنے کے سوا کوئی چارہ نہ تھا، حضرت عمروبن عاص رضی اللہ عنہ گورنرمصرسے غلہ طلب کیاگیا اورکچھ تاخیر ہونے پرسختی سے ہدایات دربارخلافت سے جاری ہوئیں توانھوں نے جواب دیا کہ میں غلوں سے لدااونٹوں کاقافلہ تیارکرکے بہت جلد بھیج رہا ہوں اوروہ اتنا بڑاہوگا کہ اس قافلہ کا پہلااونٹ مدینہ میں داخل ہوجائے گا اورآخری اونٹ مصرسے نکل رہاہوگا، ان کی اس بات میں مبالغہ ہوسکتا ہے لیکن اس سے یہ بات سمجھی جاسکتی ہے کہ مصرغذائی پیداوار میں نہ صرف خودکفیل تھا بلکہ قرب وجوار کے علاقوں کاپیٹ بھرنے کی صلاحیت رکھتا تھا، اسی قحط کے موقع پر حضرت عمررضی اللہ عنہ نے گورنرمصرعمروبن عاص رضی اللہ عنہ سے کہاتھا کہ تمھیں مصر اور عرب کے درمیان بحری راستہ نکالنا ہوگا تاکہ دوبارہ اس طرح کی افتاد پڑنے پربلاتاخیر مصرسے غذائی امداد دارالسلطنت مدینہ کو بھیجی جاسکے، آج اس فاروقی خواب کوہم حقیقت کے روپ میں نہرسوئزکی شکل میں دیکھ رہے ہیں ساتھ ہی مصرکی غذائی پیداواری صلاحیت کومحسوس کررہے ہیں۔
مصرقدرتی وسائل اورپٹرولیم وقدرتی گیس کے ذخائر سے بھی مالامال ہے جواس کی آمدنی کاایک بڑا ذریعہ ہے اس کااندازہ صرف اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ اسی حالیہ مزاحمتی تحریک کے دوران جب گیس پائپ لائن کو نقصان پہونچایا گیا توصرف وہ پائپ لائن جواسرائیل تک جاتی تھی اس کووقتی طورپر بندکردیاگیا،اس کے نتیجہ میں اسرائیل کویومیہ ۲۰؍لاکھ ڈالرکا نقصان ہوتارہا ،دورونزدیک کے اورملکوں کوجوگیس سپلائی کی جاتی رہی اس سے ہونے والی آمدنی کوسمجھاجاسکتا ہے ،نہرسوئز مصرکی اقتصادیات میں خصوصی اہمیت کی حامل ہے یہ ایک سیاسی ہتھیاربھی ہے اورمصری معیشت کی مضبوطی میں اس کا نمایاں کرداربھی ہے، صدرجمال عبدالناصر نے اپنی حکومت میں ایک بارجب اس کو قومیانے کااعلان کیا تھا تودنیا میں تہلکہ مچ گیاتھا جیسے کہ شاہ فیصل مرحوم نے پٹرول کوایک کارگرہتھیار کے طورپراستعمال کا اعلان کرکے دنیا کے متعددملکوں اورمغربی طاقتوں میں کہرام مچادیاتھا اوران کواسرائیل نوازی کی بھاری قیمت چکانے پرمجبورکردیا تھا، نہرسوئز سے مصرکوسالانہ اربوں ڈالرکی آمدنی ہوتی ہے، صرف ۲۰۱۰ء میں سوئز سے ہونے والی آمدنی ۴؍ارب ۷۰کروڑ ڈالرتھی جوبحری جہازوں سے وصول ہونے والے محصولات کی شکل میں تھی،یہ ایک اضافی آمدنی ہے جومصری معیشت کومضبوطی فراہم کرتی ہے ساتھ ہی پورپ وایشیاء کے درمیان اس مختصرترین آبی گزرگاہ کی تعمیرسے دنیا کی تجارت اورجہازوں کی آمدورفت ونقل حرکت کوایک نیاموڑ مل گیا اوروقت ووسائل کی بے پناہ بچت بھی ،واضح ہوکہ فرانسیسی انجینئروں کے ذریعہ اس نہر کی تعمیرسے قبل پورپ سے آنے والے بحری جہاز پورے براعظم افریقہ کا چکرلگاکرآنے کے لئے مجبورتھے ،جس میں وقت ووسائل کاناقا بل برداشت ضیاع ہوتا تھا۔
مصری اقتصادیات کورواں دواں رکھنے کے لئے تیسرااہم ذریعہ سیاحت اورپوری دنیا سے آنے والے سیاحوں کی آمدورفت ہے ،جوفراعنہ مصرکی حیرت انگیز دنیا اور وہاں موجود پیرامیٹس(اہرام) کی دیدارکے لئے سالانہ کروڑوں کی تعدادمیں آتے ہیں اورمصری حکومت کومختلف صورتوں میں اربوں ڈالردے کرجاتے ہیں ،مصرکا شمار دنیا کے ان چندملکوں میں ہوتا ہے جہاں سب سے زیادہ سیاح آتے جاتے ہیں۔
ان سب ذرائع آمدنی کے نتیجہ میں مصری معیشت کو دنیا کی چندمضبوط ترین معیشتوں میں سے ایک ہوناچاہئے، دنیا کے مختلف ملکوں کے ساتھ تجارت، اسرائیلی مفادات کے تحفظ کی قیمت اورامریکی مراعات بھی اربوں ڈالر کی شکل میں ملتی ہے، اس طرح مصر اوروہاں کے عوام کو خوش حال ہوناچاہئے، لیکن معاملہ اس کے برعکس ہے ،نہ تومصر کاشمارٹھوس ومضبوط اقتصادی بنیادیں رکھنے والے ملک میں ہوتا ہے نہ ہی وہاں کے عوام خوش حال اوروسائل عیش سے مالامال ہیں،بلکہ عالمی معیشت میں اس کا نمبر۱۳۷ واں ہے اوروہ افریقی ممالک جو غربت وافلاس کی تصویر ہیں ان میں بھی اس کوکوئی نمایاں مقام حاصل نہیں ہے، بلکہ حیرت ہوتی ہے یہ جان کر کہ افریقی ممالک میں بھی فی کس آمدنی کے حساب سے یہ غربت میں سرفہرست ہے صرف’ کانگو‘کے عوام غربت میں اس سے آگے یعنی غریب ترہیں، یہاں کی شرح نموصرف ساڑھے ۴فیصدہے جب کہ مہنگائی کی شرح اس سے تین گنی رفتار سے بڑھ رہی ہے اوروہ ۱۳؍فیصد ہے اس طرح عوام کی غربت میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے، اورمختلف جائزوں کی مختلف رپورٹوں کے مطابق ۱۵فیصد سے ۴۰فیصدتک لوگ خط افلاس سے نیچے زندگی بسرکررہے ہیں اوران کو درکارضروری وسائل زندگی بھی حاصل نہیں، صرف دارالحکومت قاہرہ میں دس لاکھ ایسے مفلوک الحال لوگ ہیں جن کاگزربسر لوگوں کی امداد پرہے یاوہ باقاعدہ گداگری کاپیشہ اپنائے ہوئے ہیں جن میں سے بعض لوگ تولوگوں کے دست عنایت کے محتاج ہوکر مستقل طورپر قبرستانوں میں مقیم ہیں، تقریباً ۱۰فیصد لوگ بے روزگار ہیں یعنی ان کا کوئی ذریعہ معاش نہیں ہے،پھرسوال یہ پیداہوتا ہے کہ سطوربالامیں مذکورملکی آمدنی کے بعض اتنے اہم ذرائع سے حاصل ہونے والی دولت کہاں جاتی ہے؟اس کاسیدھاجواب یہ ہے کہ ملک میں لوٹ کھسوٹ ،بدعنوانی اورملکی دولت کاتصرف بیجا عام ہے اوریہ چند خاندانوں اورحکومت پرحاوی اجارہ داروں اورمطلق العنان آمریت پسندوں تک محدود ہے، اورعوام استحصال بیجا کا شکارہوکر اس سے بڑی حد تک محروم ہیں، تازہ ترین خبروں کے مطابق مصری صدرحسنی مبارک(جواب سابق ہوچکے ہیں)کی جودولت سوئزبنک میں موجود ہے‘ بنک نے ایک حالیہ فیصلہ میں ان کی تمام دولت اوراثاثے منجمد کردئے ہیں، جس کا مصری عوام نے دل سے استقبال کیاہے،صحیح اعدادوشمار توپیش کرنا شاید آسان نہ ہو،لیکن ایک اندازہ کے مطابق حسنی مبارک کی دولت ۷۰ارب امریکی ڈالرسے زائد ہوگی جودنیا کے مختلف ملکوں کے بنکوں اورغیر منقولہ جائدادوں کی شکلوں میں موجود ہے یہ دولت دنیا کے امیرترین آدمی بل گیٹس کی دولت سے بھی زائد ہے جومفلس وقلاش عوام کا خون چوس کراورملکی وسائل کولوٹ کرحاصل کی گئی ہے، اس لوٹ کھسوٹ پرعوام کے اندراضطراب وبے چینی کا پیداہونا ایک یقینی امراورلازمی نتیجہ ہے، حسنی مبارک نے عوام کے باغیانہ تیوردیکھ کراپنے بیٹے اور ولی عہدسلطنت جمال مبارک کوکچھ روزقبل اپنے اہل خانہ کے ساتھ ملک سے رخصت کردیاہے، کہایہ جارہا ہے کہ اس نے تقریباً ۱۰۰سوٹ کیسوں میں اپنی دولت کاایک بڑا حصہ لے کرراہ فراراختیار کیاہے، ابھی کچھ روزقبل جب تیونس میں آئی سیاسی تبدیلی کے نتیجہ میں وہاں کے مطلق العنان فرماں روا زین العابدین بن علی کو ملک چھوڑنے پرمجبورہوناپڑاتوان کی عیش پرست بیوی ملکی بنکوں سے جودولت نکلواکرلے گئی اس میں صرف سونا ڈیڑھ ٹن تھا، اوردنیا کے دیگر ملکوں میں جمع شدہ دولت اورجائدادیں اس کے علاوہ ہیں، اگریہ صرف افسانہ نہیں ہے توعوام کی مجبوری ولاچاری اورحکومت کے وسائل معیشت کااس بے دردی سے استحصال سمجھاجاسکتا ہے جواسی طرح کی بے اطمینانی پیداکرتا ہے جس میں حکومتیں زیروزبرہوجاتی ہیں۔
مصری عوام کاپیمانہ صبر جب لبریز ہوگیا تووہ اپنے غم وغصہ کے اظہارکے لئے حکومت کی فوری برخواستگی کا مطالبہ لے کرسڑکوں پرآگئے اورملکی کام کاج ٹھپ کردیا، جس کے نتیجہ میں اسٹاک مارکیٹ کوبندکردیاگیا اورملکی معیشت کو یومیہ تقریباً ۳۰کروڑ ڈالرکا نقصان ہوتا رہا ہے، لیکن وہ حسنی مبارک کی اقتدارسے بے دخلی سے کم کسی بات کومنظور کرنے پر راضی نہ تھے، اوپرمذکوربے اطمینانی وبے چینی کی یہ صرف ایک وجہ تھی جس کا تعلق عوام کی اقتصادیات اوردنیاوی زندگی کی سہولیات سے ہے، لیکن عالم اسلام کے تناظرمیں اگردیکھاجائے تودوسری وجہ اس سے بھی بڑی اوردوررس نتائج کی حامل ہے جس نے عالم اسلام کی نظروں میں مصری حکومت کی بے حسی، غزہ کے مسلمانوں کے حق میں بے رحمی وشقاوت قلبی ،عام مسلمانوں کے مسائل سے لاتعلقی اورامریکی حکومت کے سامنے سجدہ ریزہونے کی بے غیرتی کوواضح کردیاہے۔
وہ اسرائیلی جس کا وجود عالم اسلام اورعالم عرب کے سینہ میں پیوست ایک خنجرکی طرح ہے جس کادرداور جس کی کسک ہرمسلمان اپنے دل میں محسوس کرتا ہے، دنیا کے نقشہ پر اس کی موجودگی ہی حق وانصاف کا مذاق اڑانے کے لئے کافی ہے ،چہ جائیکہ فلسطینی مسلمانوں پر اس کے روح فرسا مظالم اورعورتوں وبچوں میں تمیز کئے بغیراس کاطاقت کااندھا دھند استعمال ،غزہ کی ناکہ بندی اورمسجد اقصیٰ کی بے حرمتی، یہ ساری حرکتیس مسلمانان عالم کے لئے ناقابل برداشت ہیں ،لیکن مصری حکومت کی بے شرمی وبے غیرتی کے سوااسے کیا کہیں گے کہ اسی اسرائیل سے مصر نے محبت کی پینگیں بڑھائیں اورالفت کے تعلقات استوارکئے اوراس سے کچھ مراعات یامالی فوائد حاصل کرنے کے لئے اس کی جارحیت اورظلم وسرکشی کی عملاً تائید کی، اورجب اسرائیل نے غزہ کی بے سبب ناکہ بندی کی توجغرافیائی اعتبارسے مصردنیا کا واحد ملک تھا جواپنی گزرگاہ کھول کرغزہ کے ستم رسیدہ مسلمانوں کو راحت پہونچا سکتا تھا،لیکن اس نے ان مظلومین سے اظہارہمدردی ویکجہتی کے بجائے اسرائیلی مظالم کی تائید کی اوران کوسسک سسک کر جینے کے لئے مجبور کیا اوراسرائیل کے لئے سامان فرحت اورمسلمانوں کے لئے سامان ذلت ونکبت مہیا کیا، حالانکہ پوری دنیا کے مسلمان ہی نہیں انصاف پسندانسان اس ظلم وبربیت پرچیخ اٹھے تھے، ترکی نے امدادی بحری جہاز سے ان کوراحت پہونچا نے کی کچھ کوشش کی تھی، لیکن اسرائیل نے اس کا کیا حشرکیا ؟بتانے کی ضرورت نہیں ،لیکن اس درندگی کے مظاہرہ پربھی مصرخاموش رہا، اوراس طرح وہ خماربارہ بنکوی کے اس شعر کی تصویر بنا
ارے اوجفاؤں پہ چپ رہنے والے
خموشی جفاؤں کی تائید بھی ہے
یوں تومصر نے انورالسادات کے زمانہ ہی میں اپنی پٹری بدل لی تھی اوراسرائیل وامریکہ کی دوستی ہی میں اپنے لئے سامان عزت تلاش کرنا شروع کردیا تھا اورایسا اس وقت تھا جب وہ اسرائیل کوسبق سکھانے کی پوری صلاحیت رکھتا تھا، ۱۹۷۳ء میں رمضان المبارک میں ہونے والی مصر اسرائیلی جنگ میں اس نے اپنی اس صلاحیت کوثابت بھی کردیا تھا اوراسرائیل کے ناقابل تسخیر ہونے کی پول کھول دی تھی، لیکن پھرانورالسادات مغربی طاقتوں کے بچھائے ہوئے جال میں پھنس گئے اورکیمپ ڈیوڈ معاہدہ کے ذریعہ کچھ حقیردنیاوی فوائد حاصل کرنے کی کوشش کی، لیکن اصلاً اسرائیل وامریکہ کے مفادات کوپورا کیا اوراسرائیل کوتحفظ فراہم کیا، اس طرح وہ اسرائیل جوعرب ممالک کے خطرات میں گھراہونے کی وجہ سے پوری دنیا میں سب سے زیادہ اپنے دفاع پرخرچ کرتا تھا جو اس کی مجموعی قومی آمدنی کا ۳۰فیصد حصہ تھا،لیکن مصر سے اس کے سمجھوتہ کے بعداس کادفاعی بجٹ محض۸فیصد رہ گیا، اس طرح اس کی وہ رقم جو فوجی تیاریوں پرخرچ ہوئی تھی، دیگرترقیاتی منصوبوں پرخرچ ہونے لگی اوراس کی معیشت کونہ صرف استحکام حاصل ہوا بلکہ علاقہ میں اسے سازشوں کا جال بچھانے کی مہلت بھی ملی جویہودیوں کی بدنام زمانہ خصلت ہے، اس طرح خطہ میں اسرائیلی داداگیری اورریشہ دوانی کا مصرنہ صرف بڑی حد تک ذمہ دار ہے بلکہ اگریہ کہاجائے کہ سب کچھ اس کی رضامندی سے ہوتا رہاہے توغلط نہ ہوگا۔
بعدمیں انورالسادات کوجب قتل کردیا گیا توموہوم سی امید تھی کہ شاید اب مصر کی خارجہ پالیسی اسرائیل کے تئیں بدلے گی اوروہ عالم اسلام کے مسلمانوں کے غم میں اپنے کو شریک سمجھے گا، لیکن ہوا اس کے برعکس، حسنی مبارک کے آنے پر عالم اسلام کی رسوائی کا مزید سامان ہوا اورانھوں نے مصر کوامریکی مفادات کے آگے بالکل ہی گروی رکھ دیا اوروہ بھی امریکی امداد کے نام چند حقیر ٹکوں کے حصول کے لئے جس سے مصری معیشت کواستحکام ملاہویا نہ ملاہو لیکن حسنی مبارک کے ذاتی اکاونٹ کوکافی استحکام ملا۔
عالمی پیمانہ پرملی مفادات کونظرانداز کرکے امریکی واسرائیلی مفادات کاآلہ کاربننا حسنی مبارک کا دوسرا سب سے بڑا جرم تھا، جس کی انھیں سزاملنی ہی چاہئے، اورعوامی غصہ کا ابلتا ہوا لاوا ان سے ہی حقیقت منوارہاہے کہ خودغرضی ومفادپرستی اورجبرواستحصال کی پالیسی ہمیشہ کامیاب نہیں ہوسکتی،اورفوجی قوت کے ذریعہ عوامی جذبات کودبانے کی کوششیں ہمیشہ نتیجہ خیز ثابت نہیں ہوسکتیں، اب تازہ ترین صورت حال یہ ہے کہ حسنی مبارک تاج وتخت سے دستبردار ہوکرملک یابیرون ملک کی کسی نامعلوم منزل کو روانہ ہوچکے ہیں اورمصری عوام کوابھی اپنی منزل کی تلاش ہے، فی الحال اقتدار کا محورفوجی قیادت ہے جوجمہوری طریقوں سے انتقال اقتدار کی کوششوں میں تعاون کرتی ہے یاپھرامریکہ کے اشاروں پر ناچتی ہے ؟یہ دیکھنا ابھی باقی ہے۔
مصرکے حالیہ سیاسی بحران کا ایک شاخسانہ یہ ہے کہ اس عوامی احتجاج کے دوران جس پریشانی واضطراب کا مظاہرہ اسرائیل وامریکہ اورمغربی ممالک نے کیا اس قدر شدید فکر وتشویش اوربے چینی وگھبراہٹ کامظاہرہ شاید حسنی مبارک کی طرف سے بھی نہ ہواہوجوآخرتک پورے طمطراق سے اپنے اس موقف پراڑے رہے کہ وہ ستمبرسے قبل استعفیٰ نہیں دے سکتے، اور فوری استعفیٰ کی صورت میں ملک کو درپیش خطرات وسیاسی بحران سے عوام کو خوف زدہ کرنے کی کوشش کرتے رہے، لیکن اس انقلابی صورت حال اورملک میں سیاسی تبدیلی کی اس لہرسے اگرکوئی ملک صحیح معنوں میں پریشان ہوا تووہ اسرائیل تھا اوراگر کسی ملک کوصحیح معنوں میں تشویش ہوئی تووہ امریکہ تھا ،لیکن حسنی مبارک نے نوشتہ دیوارخواہ پڑھا ہویانہ پڑھاہو لیکن امریکہ واسرائیل نے وہ تحریر ضرورپڑھ لی تھی جو’’تحریر اسکوائر‘‘پرعوام اپنے جوش ولولہ اورجذبۂ حریت سے لکھ رہے تھے، عوامی جذبات کو نظرانداز کرنا امریکہ کے لئے آسان نہ تھا جودنیا میں جمہوریت کا سب سے بڑا پاسبان سمجھاجاتا ہے اورجوبزعم خود حقوق انسانی کا سب سے بڑا محافظ اورامن کا پیامبر ہے، اس لئے براک اوبامہ نے چشم زدن میں حسنی مبارک کی پشت پناہی اوربیجا طرف داری سے ہاتھ کھینچ لئے اوران کو جانے کا پیغام دے دیا، تاکہ ایک طرف عوام کے غم وغصہ کوسردکیا جاسکے اوران کو اپنا ہم نوا وہم خیال بنایاجاسکے تاکہ امریکی سازشوں سے مصرکازمام اقتدارجوبھی سنبھالے‘ اسے مصری عوام اپنا سمجھیں ،لیکن درحقیقت وہ امریکی واسرائیلی مفادات کا ویسا ہی خیال رکھے جیسا کہ اس کے پیش رو رکھتے آئے ہیں،اسرائیل کی تشویش کو اس پوری صورت حال کی روشنی میں بآسانی سمجھاجاسکتا ہے، جسے اب صرف معاہدہ کیمپ ڈیوڈ ہی کی نہیں بلکہ اپنا وجودباقی رکھنے کی فکرہے، اورامریکہ بھی خطہ میں اپنا ایک طاقت ور حلیف کھونا کبھی پسند نہیں کرے گا، اوراپنی من پسندحکومت بنانے کے لئے کچھ بھی کرنے کے لئے تیاررہے گا، اس لئے فی الحال یہ کہنا اتناآسان نہیں کہ حسنی مبارک کی اقتدارسے بے دخلی کے بعد سارے معاملات خوش اسلوبی سے طے ہوجائیں گے اورنہ ہی یہ کہاجاسکتا ہے کہ اب مصرکا جو نیا حکمراں آئے گا وہ عوام کی توقعات پرپورا اترے گا، ہم صرف نیک خواہشات کا اظہار ہی کرسکتے ہیں۔
(نوٹ)مصروتیونس کے سیاسی انقلابات سے شہ پاکر بعض اردووہندی اخبارات یاالیکٹرانک و پرنٹ میڈیا نے تمام ہی عرب ممالک بشمول سعودی عرب وکویت میں بھی سیاسی بے چینی کی موجودگی یاحکومت کی تبدیلی کی پیشین گوئی شروع کردی ہے جوبالکل ہی مہمل ولغوبات ہے اوراس کا حقیقت سے دورکا بھی تعلق نہیں ہے، سعودی عرب میں عوام کو جوشہری سہولیات میسرہیں اورامن وامان کا دوردورہ ہے اس کادنیا کے کسی دوسرے ملک میں تصوربھی نہیں کیاجاسکتا ،جس کی وجہ سے عوام خوش حال وفارغ البال اور اپنے طرزحیات سے مطمئن ومسرور ہیں، اوراس سے بہترکسی فلاحی ورفاہی ریاست کے وہ متمنی وطلب گار نہیں ہیں ،یہ ایک مستقل موضوع ہے، ان شاء اللہ اگلے شمارہ میں اس پراظہار خیال کیاجائے گا۔
***
No comments:
Post a Comment