Wednesday, May 11, 2011

تفسیری مناھج jan-feb 2011

مولاناعبدالصبور ندویؔ
مدیر’’ترجمان السنۃ‘‘رچھا

تفسیری مناھج
قسط(۱)
صحابۂ کرام زمانۂ وحی کے شاہد تھے، نبی اکرمﷺ سے انھوں نے قرآن کی تفسیرسیکھی ،پہلے وہ قرآن کی تفسیرقرآن ہی کے ذریعے کرتے، نہ ملنے کی صورت میں سنت رسول کی طرف رجوع ہوتے اوراگروہاں بھی انھیں کسی آیت کی تفسیرنہ ملتی تواجتہاد کرتے، اوروہ اجتہاد واستنباط سب سے زیادہ اہل تھے۔
جوں جوں اسلامی خلافت کاحدوداربعہ بڑھتاگیا، عربی کے علاوہ دوسری زبانوں کاچلن اسلامی ملک میں عام ہوتاگیا، مختلف مذاہب وعقائد کے حامل افراد دائرہ اسلام میں ضرور داخل ہوئے، مگران میں سے ایسے بہت تھے جن پرسابق دین کا اثر باقی رہا، پھرجب انھوں نے قرآن کوہاتھ لگایا توغیرمستند تفاسیر کومرجع بنایا، نتیجہ یہ ہواکہ تفسیرکے کئی بدعتی رنگ وجودمیں آئے، لوگوں کامنہج اورطریقہ بدلتاگیا، اورتفسیر کی مختلف شکلیں بنتی گئیں۔
بعض مفسرین نے اصل مصادرکی طرف رجوع کرکے اپنا منہج بلندرکھا، توبعض نے صرف عقلی تفسیرپراکتفاکیا، آپ ملاحظہ کرسکتے ہیں کہ فن نحو کے ماہر کی تفسیرمیں نحوکا غلبہ نظرآتاہے، فقیہ جب تفسیرکرتاہے تواس کے اصول وفروع پرزیادہ توجہ صرف کرتاہے، مؤرخ قصص وواقعات کواپنا محوربناتاہے، اورفلسفی تفسیرکے اندرحکماء وفلاسفہ کے اقوال، اورشبہات وجوابات کاطومارلگادیتاہے، اس طرح کئی منہج وجود پذیر ہوتے ہیں، ذیل کی سطورمیں متعدد تفسیری مناہج پربحث کی گئی ہے۔
1۔(تفسیر بالمأثور کامنہج)
ابتداء:۔ اللہ تعالیٰ فرماتاہے(وأنزلنا إلیک الذِّکْرَ لِتُبَیِّنَ لِلنَّاسِ مَا نُزِّلَ اِلَیْھِم وَلَعَلَّھُمْ یَتَفَکَّرُوْنَ)(النحل:۴۴)ہم نے قرآن مجید کوآپ ﷺپرنازل کیاتاکہ آپ لوگوں پر (اس کے پیغام ومعانی) واضح کرکے بتادیں، شایدوہ غوروفکر کرنے والے بن جائیں۔
اسی لئے صحابہ رضی اللہ عنہم قرآن کی تفسیرقرآن سے یاپھرسنت سے،یانہ ملنے کی صورت میں اجتہاد کرتے، پھرتابعین کرام رحمہم اللہ نے صحابہ سے تفسیری سرمائے کو کثرت کے ساتھ پھیلایا، لوگوں تک منتقل کیا، اسی لئے اس قسم کی تفسیر کو’’تفسیربالمأثور‘‘ یا’’تفسیر بالمنقول‘‘ کہاجاتاہے۔
صحابہ کی ایک تعداد نے تفسیر بالمأثور کاخصوصی اہتمام کیا اوراس فن میں مشہور ہوئے،چند کے نام ملاحظہ فرمائیں:ابوبکر، عمرفاروق، عثمان، علی، عبداللہ بن مسعود، عبداللہ بن عباس،عبداللہ بن زبیربن العوام، أبوموسی الاشعری، زید بن ثابت، أبی بن کعب، عائشہ رضی اللہ عنہم اجمعین۔
اسی طرح تابعین کی ایک بڑی تعداد نے اس تفسیر کااہتمام کیا، چند کے اسماء درج ذیل ہیں:
مجاہدبن جبر، سعیدبن جبیر، قتادۃ بن دعامۃ السدوسی، زید بن أسلم، محمدبن کعب القرظی، ابوالعالیۃ الریاحی، عطاء بن أبی رباح، عکرمہ غلام ابن عباس، حسن بصری، سعیدبن مسیب،رحمہم اللہ تعالیٰ۔
ضعف روایت کے اسباب:۔تفسیربالمأثور کی سنداگر صحیح ہے تواس کے قبول کرنے اوراس کی اشاعت میں کوئی قباحت نہیں، لیکن اس تفسیرمیں بھی ضعیف وموضوع روایات شامل ہوگئی ہیں، لہذا کسی بھی تفسیرکوبیان کرتے وقت محتاط رہناچاہئے اس لئے کہ بہت سی احادیث گھڑکر نبی ﷺ کی جانب منسوب کرکے اس تفسیرمیں داخل کی گئی ہیں، اس لئے ہرروایت کوقبول کرنے یا بیان کرنے سے قبل اس کی صحت وضعف کی جانچ پرکھ کرلینی چاہئے، تفسیربالمأثور میں ایسی روایات کیسے داخل ہوگئیں، آیئے ان کے اسباب پر روشنی ڈالتے ہیں:
۱۔حدیث کا گھڑنا:۔ گمراہ فرقوں اورمنحرف مسالک کے وجود نے تفسیربالمأثور میں موضوع روایات کا داخلہ کرایا، اس لئے وہ اپنے پراگندہ افکاروعقائد کوقرآن کریم سے ثابت کرناچاہتے تھے، پھرجب قرآنی نصوص ان کے نظریات کی تائید نہیں کرتے ،تواحادیث گھڑتے اورتفسیرمیں شامل کردیتے، جیساکہ معتزلہ، روافض(شیعہ) اورغالی صوفیوں نے اپنی مطلب برآری کے لئے حدیثیں وضع کیں اورنبی اکرمﷺ پرکذب وافتراء کی کوئی نظیرباقی نہ رکھی۔
دشمنان اسلام نے جب مجاہدین اسلام کے آگے سپرڈالی، ان سے جنگ کرنے میں بے بس اورلاچاری محسوس کی، توظاہری طورپہ انھوں نے ہتھیار ڈال دئے، دکھاوے کے لئے اسلام قبول کرلیا، مگراپنی ریشہ دوانیوں کے ذریعے اسلامی شریعت وخلافت کو زک پہونچائی، لاکھوں حدیثیں گھڑیں، کبھی شریعت کے چشمۂ صافی کوگدلا کرنے کے لئے ،کبھی خلیفۂ وقت کی ہمدردی حاصل کرنے کے لئے اورکبھی سیاسی اثرورسوخ کے لئے۔
۲۔اسرائیلی روایات:۔ یہ سب جانتے ہیں کہ قرآن کریم نے کثرت کے ساتھ انبیاء کرام اورسابقہ قوموں کے حالات وواقعات سے ہمیں روشناس کرایاہے، اس کا مقصد صرف اتناہے کہ ہم ان حالات ونتائج سے عبرت ونصیحت پکڑیں نہ کہ ان واقعات کی تفصیل میں جاکر باریکیاں تلاش کرکے اپناوقت ضائع کریں۔
لیکن فطری طورپہ ایسا ہوسکتا ہے کہ انسان کہانی کو مکمل طورپہ جاننے کی کوشش کرے، چنانچہ جو نئے اسلام میں داخل ہوتے اورقرآن میں انبیاء کے واقعات پڑھتے، توان کی تفصیل جاننے کے لئے یہود ونصاری سے رابطہ کرتے اورتوریت وانجیل میں مذکور مکمل کہانی سے واقفیت حاصل کرتے، پھروہی تفصیلی تفسیر قرآن میں داخل کردی جاتی تھی جسے ہم’’اسرائیلیات‘‘ کے نام سے جانتے ہیں اوریہ بھی جانتے ہیں کہ توریت اور زبور میں بارہا تحریف وتبدیلی ہوچکی ہے، وہ اصلی حالت پربرقرار نہیں ہیں، ایسی حالت میں اسرائیلی روایتوں کے سلسلے میں تین شکلیں بنتی ہیں:
(ا)اگراسرائیلی روایات شریعت اسلامیہ کے احکام کی تائید میں ہیں توان روایات کوہم قبول کریں گے۔
(ب)اگرکسی حکم میں اسرائیلی روایت شریعت محمدیہ کی مخالفت کرتی ہے توایسی روایت کابیان کرنا یاتسلیم کرلیناجائزنہیں، یہ مردودہے۔
(ج) بعض ایسے واقعات یااحکام ہوسکتے ہیں جن کی شریعت اسلامیہ نہ توتائید کرتی ہے اورنہ ہی مخالفت، یعنی ان کے سچے یاجھوٹے ہونے کاہمیں علم نہیں ہے، ایسی صورت میں توقف اختیار کریں گے اورایسی بے فائدہ چیزوں میں بحث وتمحیص سے پرہیز کریں گے۔
معلوم ہواکہ اسرائیلی روایات کے چلن کے سبب تفسیر بالمأثور میں بلاتحقیق بے شمار روایتیں داخل کردی گئیں۔
۳۔سندوں کاعدم اہتمام:۔ تفسیر بالمأثور میں صحابہ کی مرویات کوسندوں کے ساتھ بیان کرنے کاہتمام تھا، لیکن جب فتنوں نے سراٹھایا، اوراسلامی ممالک میں حکومت سے لے کر عام لوگ اس سے محفوظ نہ رہ سکے، بعض مفسرین نے سندوں کے بغیرتفسیر بیان کرنا شروع کیں، جہاں صحیح اورضعیف کی تمیز باقی نہ رہی، اس لئے سندوں کی معرفت کوعلماء نے واجب قراردیا تاکہ اصلی ونقلی نیز صحت وضعف کے مابین فرق واضح رہے۔
تفسیربالمأثور کی تدوین:۔صحابۂ کرام کے زمانہ میں تفسیربالمأثور نے تدوین وتالیف کی شکل اختیار نہیں کی تھی، بلکہ روایت اورتلقین (سینہ بہ سینہ) ہی تفسیر کاذریعہ تھی، تابعین کے عہد میں جب تعلیم عام ہوئی توکثرت کے ساتھ لکھنے والے بھی وجود میں آئے، اورایک جماعت نے تفسیر کوتحریری جامہ عطاکیا۔
علامہ ابن تیمیہ رحمہ اللہ اورابن خلکان رحمہ اللہ کاکہناہے کہ سب سے پہلی تفسیر تصنیف کی گئی، وہ عبدالملک بن جریج رحمہ اللہ(۸۰ھ۔۱۵۰ھ) کی تفسیر ہے۔ (وفیات الأعیان۲؍۳۳۸)
لیکن ہم قطعیت کے ساتھ یہ نہیں کہہ سکتے کہ پہلی تفسیر عبدالملک بن جریج کی ہی ہے ،ان سے پہلے بھی تالیفی ثبوت ملتے ہیں، جیساکہ عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ نے اپنی تفسیر اپنے شاگرد مجاہدبن جبررحمہ اللہ کواملاء کروائی تھی(تفسیرابن کثیر۱؍۳) سعیدبن جبیررحمہ اللہ(م۸۶ھ) نے عبدالملک بن مروان کی ہدایت پرتفسیر کو صحیفہ کی شکل میں جمع کیاتھا، أبوالعالیہ الریاحی(م۹۰ھ) نے حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کی تفسیر کوتحریری شکل میں جمع کیاتھا، اسماعیل بن عبدالرحمن السُّدّی (م ۱۲۷ھ) اورزیدبن أسلم(م۱۳۶ھ) نے تفسیرکوکتابی شکل دی تھی۔
لیکن ان لوگوں نے مکمل تفسیر نہیں کی تھی، جبکہ ابن جریج کی تفسیرپورے قرآن پرمشتمل تھی، لیکن اس سے زیادہ کامل اورمفصل تفسیرجولوگوں تک پہونچی ،وہ تفسیر ابن جریرطبری رحمہ اللہ(م۳۱۰ھ) ہے جوتفسیربالمأثور کے باب میں منفرد حیثیت کی حامل ہے۔
تفسیر بالمأثور کی اہم تالیفات ملاحظہ فرمائیں:
۱۔جامع البیان عن تأویل آی القرآن: ابن جریرالطبری(م۳۱۰ھ)
۲۔تفسیرالقرآن العظیم : ابن ابی حاتم الرازی(م۳۲۷ھ)
۳۔بحرالعلوم : ابواللیث السمرقندی(م۳۷۵ھ)
۴۔الکشف والبیان عن تفسیرالقرآن: أبواسحاق الثعلبی(م۴۲۷ھ)
۵۔معالم التنزیل : أبومحمد حسین بن الفراء البغوی(م۵۱۶ھ)
۶۔المحررالوجیز فی تفسیرالکتاب العزیز: أبوعطیہ الاندلسی(م۵۴۶ھ)
۷۔تفسیرالقرآن العظیم: ابن کثیرالدمشقی(م۷۷۴ھ)
۸۔الجواھر الحسان فی تفسیرالقرآن:عبدالرحمن الثعالبی(م۸۷۶م)
۹۔الدُّرُّالمنشورفی التفسیربالمآثور:جلال الدین السیوطی(م ۹۱۱ھ)
۱۰۔فتح القدیر الجامع بین فنی الروایۃ والدرایۃ من التفسیر:محمد ابن علی الشوکانی(م۱۲۵۰ھ)
۱۱۔أضواء البیان فی إیضاح القرآن بالقرآن: محمدأمین الشنقیطی (م۱۳۹۳ھ)
2۔فقہی تفاسیر کامنہج:
اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید بڑ ی حکمتوں اورمقاصد کے ساتھ نازل کیا، مجموعی طورپہ دواہم مقصدتھے:
۱۔عقیدہ کی تصحیح ۲۔سلوک کی درستگی
چنانچہ عقائد کے متعلق آیات نے قاعدوں اورضابطوں کووجود بخشا، اورارکان ایمان کوبنیاد بناکرقاعدوں کوسلامتی عطاکی گئی۔
دوسرے مقصدکاتعلق احکام کے متعلق آیات سے ہیں، بندوں کو گمراہی سے بچانے کے لئے اللہ تعالیٰ نے احکام بتلادئے ہیں، تاکہ انہی آیات کے ذریعے سارے فیصلے بھی کئے جائیں اورحکمراں راہ سے نہ بھٹکیں۔
اگردیکھاجائے توپوراقرآن چاہے وہ قصوں کے متعلق آیات ہوں یا أمثال کے ،چاہے تنبیہ کے متعلق آیات ہوں یاوعدوعید کے متعلق، ان دونوں رکن(عقیدہ کی تصحیح اورسلوک کی درستگی) پرمحیط ہے اورکسی بھی حالت میں کوئی آیت ان دونوں رکن کے دائرے سے باہرنہیں نکلتی ۔(اتجاہات التفسیرفی القرآن الرابع عشر۲؍۴۱۶)
اس میں کوئی شک نہیں کہ قرآنی نصوص کسی مسئلہ یاحکم کی بیشترحالات میں مکمل تصویربیان نہیں کرتے، بلکہ سنت نبویہ اس کی تفصیل فراہم کرتی ہے، لیکن حدیث نبوی بھی ایک ہی درجے پرقائم نہیں ہے، صحت وضعف کے مراتب ہیں، کون سی حدیث رسول اللہﷺ سے ثابت ہے یانہیں؟ انہی امورکو لے کر علماء کے درمیان اختلافات رونماہوئے، قرآنی نصوص کی دلالت کااختلاف ،احادیث کے صحیح اورضعیف ہونے کا اختلاف، قرآن وسنت کومربوط کرکے ایک ہی درجے میں رکھنے کااختلاف سامنے آیا، جس نے دماغ کوحرکت دل، اجتہاد واستنباط کاراستہ ہموارہوا، قیاسات اورمفروضات کی ٹوکریاں کھلیں، جس کانام فقہ رکھاگیا، اوراس کی بنیاداسلام کے ابتدائی دورمیں پڑچکی تھی۔(اتجاہات التفسیر فی القرآن الرابع عشر۲؍۴۱۶)
صحابۂ کرام قرآن کریم میں تدبر اورغوروفکر کیاکرتے تھے، اس سے احکامات ومسائل مستنبط کرتے،کبھی وہ متفق ہوتے اورکبھی کسی مسئلہ میں اختلاف بھی کربیٹھتے،مثال کے طورپہ:ایک خاتون جس کے شوہرکا انتقال ہوگیا اوروہ حمل سے ہے، اس کی عدت کیاہوگی؟ قرآن کی آیت ہے(وَالَّذِیْنَ یُتَوَفَّوْنَ مِنْکُم وَیَذَرونَ أزواجا یَتَرَبَّصْنَ بأنفسھن أربعۃ أشھُر وعشرا)جن خواتین کے شوہروفات پاجائیں، ان کی عدت چارمہینہ دس دن ہے۔(البقرہ:۲۳۴)دوسری جگہ پروارد ہوا: (وَاُولٰتُ الأحْمَالِ أجَلُھُنَّ أن یَضَعْنَ حَمْلَھُنَّ)حمل والیوں کی عدت یہ ہے کہ اپنے بچہ کوجن دیں(الطلاق:۴)علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ بن ابی طالب اورعبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کامسلک ہے کہ ایسی خاتون عدت کے لئے بڑی مدت کواختیار کرے گی، یعنی اگر وضع حمل میں چارمہینہ دس دن سے زیادہ مدت درکاہے تواس کی عدت وضع حمل قرارپائے گی، اوراگر وضع حمل میں چارمہینہ دس دن سے کم مدت باقی ہے، تب وہ وضع کے بعد بھی عدت میں رہے گی اورچارمہینہ دس دن پوراکرے گی۔
لیکن عبداللہ بن مسعودؓ،ابوہریرہؓاورابوسلمہؓ کامسلک ہے کہ وضع حمل ہی اس کی عدت ہوگی، چاہے وہ مدت چارمہینہ سے زیادہ ہویا کم، اس لئے کہ سورۂ طلاق کی آیت بعدمیں نازل ہوئی ہے اورسورہ بقرہ کی پہلے ،توآیت طلاق حکم کو خاص کردیتی ہے جبکہ سورۂ بقرہ میں حکم عام ہے۔
اسی طرح میراث کے باب میں’’ثُلث ‘‘(ایک تہائی)کامسئلہ بھی اختلاف کاسبب بنا،قرآن کریم کی اس آیت میں’’فإن لم یکن لہ ولد وورثہ اَبَواہُ فَلِاُمِّہ الثُّلُثُ‘‘اگرمیت کے اولادنہ ہوں، ماں باپ وارث بنتے ہوں تواس کی ماں کے لئے تیسراحصہ ہے(النساء:۱۱)اس مسئلہ میں عمرفاروقؓ،عثمانؓ، عبداللہ بن مسعودؓ،زید بن ثابتؓ،علی بن ابی طالب،ائمہ اربعہ اورجمہور علماء کہتے ہیں: بقیہ تہائی حصہ اس صورت میں ہے جب ماں باپ کے ساتھ بیوی یاشوہر (دونوں میں سے کوئی ایک) وارث بن رہے ہوں، ماں اورباپ مذکراورمونث ہیں ایک جہت سے، جبکہ دوسری جہت سے (فلذکرمثل حظ الأنثیین)کے تحت مسئلہ اس طرح بنے گا:اوریہی مسئلہ صحیح وراجح ہے۔
اگرمتوفی شوہرہے:12                                           اگرمتوفی بیوی ہے:6
بیوی۱
۳۴
ماں
شوہر
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ اورمعاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ثلث سے مراد تمام مال کا تہائی حصہ ہے،ان کے مطابق مسئلہ اس طرح بنے گا:
اگرمتوفی شوہر ہے: ۱۲ اگرمتوفی بیوی ہے:6
بیوی
شوہر
یہ فقہی اختلاف بعدکے فقہاء کے لئے بیج بن گیا، پھراس کے بعدہرفقہی مسلک کے متبعین احکام سے متعلق آیات کی تفسیر مخصوص اصولوں کے مطابق کرنے لگے، اوراس قدر تفسیرلکھی جانے لگی کہ آپ کے لئے فقہی کتابوں اورفقہی تفاسیر میں تمیز کرنامشکل ہوجائے گا۔
جس طرح متعددفقہی مسالک نے جنم لئے، اسی طرح تفسیریں بھی متعدد ومختلف ہونے لگیں ذیل میں بعض مسالک کی اہم تفاسیر کاذکرکیا جارہاہے:
*مسلک حنفی:
۱۔تفسیرأحکام القرآن:أبوبکرالرازی،جصاص کے نام سے مشہور ہیں، تین جلدیں۔
۲۔التفسیرات الأحمدیۃ فی بیان الآیات الشرعیۃ:ملا جیون، ایک جلد میں ہے۔
*مسلک مالکی:
۱۔تفسیرأحکام القرآن:أبوبکر بن العربی، چارجلدوں میں ہے۔
۲۔الجامع لأحکام القرآن: أبوعبداللہ القرطبی،دس ضخیم جلدوں میں ہے۔
*مسلک شافعی:
۱۔أحکام القرآن:ابوبکرالبیہقی نے امام شافعی کے نصوص سے جمع کیاہے، ایک جلدمیں
۲۔أحکام القرآن: إلکیا الھراسی،دوجلدوں میں ہے۔
۳۔الإکلیل فی استنباط التنزیل:السیوطی، ایک جلدمیں ہے
۴۔القول الوجیز فی أحکام الکتاب العزیز: أحمدبن یوسف الحلبی.
*مسلک حنبلی:
۱۔زادالمسیر فی علم التفسیر:ابن الجوزی،نوجلدوں میں ہے، واضح رہے یہ تفسیرمکمل طورپہ فقہی نہیں ہے، لیکن آیات احکام میں جومسائل مستنبط کئے ہیں، وہ امام احمد بن حنبل کی ترجمانی کرتے ہیں۔
۲۔نیل المرام فی تفسیرآیات الأحکام:محمدصدیق حسن خاں، ایک جلدمیں ہے
۳۔روائع البیان فی تفسیر آیات الأحکام:محمدعلی الصابونی، دوجلدوں میں ہے
۴۔تفسیرآیات الأحکام:مناع القطان.
نوٹ: مذکورہ بالا مفسرین میں بیشترنام ایسے ہیں جو کسی مسلک خاص کے مقلدنہ تھے، بلکہ ان کا تفسیری منہج ائمہ اربعہ کے فقہی منہج سے قرب کی بنیادپر کئی حصوں میں بانٹ دیاگیاہے۔ (جاری) **

No comments:

Post a Comment