Wednesday, May 11, 2011

اربابِ دینی مدارس کی خدمت میں jan-feb 2011

مولانا شفیع اللہ عبدالحکیم مدنیؔ
استاد جامعہ سراج العلوم السلفیہ،جھنڈانگر،نیپال

اربابِ دینی مدارس کی خدمت میں
بلاشبہ دینی مدارس دین کے قلع ہیں ،جہاں فکرونظر اسلامی قالب میں ڈھلتے اورننھے قائدین ملت پروان چڑھتے ہیں، تاہم دینی مدارس کے کئی پہلو اصلاح طلب ہیں،تعلیمی نصاب ،وسائل تعلیم اسالیب وتربیت، طلباء واساتذہ کے حقوق اوران کے روشن مستقبل کی منصوبہ بندی،ملازمین کے واجبات وذمہ داریاں، انتظامی وادارتی قوانین اوارن جیسے دیگرموضوعات وابستگان دینی مدارس کی علمی توجہ کے متقاضی ہیں۔
ہمارے سماج ومعاشرہ میں کتنے افراد ایسے ہیں کہ جواپنے نونہال بچوں کومکمل دینی تعلیم سے آراستہ کرناچاہتے ہیں مگرمدارس عربیہ کے ماحول کوپسماندہ پاکراپنے نیک ارادوں سے پھسل جاتے ہیں، ایسے لوگوں کونہ اساتذہ کامعیار زندگی اپیل کرتا ہے نہ طلبہ کا رہن سہن نہ ہی رہائشی کمرے نظام قیام وطعام بھی حفظان صحت وصفائی کے اصول وآداب سے بالکل عاری، اس قسم کا غیرمعیاری ماحول مستقبل کے علماء خطباء اورائمہ مساجد کی نفسیات واخلاقیات پر اثر انداز ہوتاہے، عزت نفس، خودداری اوربے باکی اورحق گوئی جیسی خصال حمیدہ مرجھاجاتی ہیں اوران کے اندرزبان کھولنے کی جرأت وہمت نہیں ہوتی اورنہ ہی اپنی بات ذمہ داران مدارس سے کہہ سکتے ہیں ،اس وقت مدارس اسلامیہ کاجوحال ہے وہ بہت ہی ناگفتہ بہ ہے یہ حقیقت بھی ہمارے لئے سوالیہ نشان ہے کہ ہمارے مدارس کے فضلاء مختلف شعبہ ہائے زندگی میں احساس کمتری کا شکارکیوں رہتے ہیں؟ اورعصر حاضرمیں تعلیم نام کی کوئی چیزنہیں صرف کمپیوٹرکی طرف بھاگ دوڑ اورپوری توجہ اسی کی طرف مرکوز ہوکر رہ گئی اب طلباء کا صورت حال یہی ہے کہ ان جامعات ومدارس میں داخلہ لیاجائے جہاں مکمل آزادی کے ساتھ کمپیوٹر وغیرہ سیکھنے کی کلی اجازت ہواور کسی قسم کی کوئی پابندی نہ ہو آخر کیوں؟
کتنے علماء کرام ہیں جو انہی مدارس وجامعات سے فارغ ہوکر درس وتدریس کاکام انجام دے رہے ہیں صرف یہی نہیں بلکہ کلیدی عہدہ ومناصب پر فائز ہیں مگرمدارس وجامعات کی پسماندگی اور مسکنت کے باعث اپنے جگرگوشوں کومدارس کا رُخ کرنے نہیں دیئے، اگرمدارس کے ظاہری ماحول کے معیارسے بدظن ہوکر کوئی اپنے بچے کو حافظ قرآن یا عالمِ دین نہ بناسکا توارباب مدارس بتلائیں کہ اس کا گناہ کس پر ہوگا؟
بعض ارباب مدارس کا یہ خیال کہ طلباء دیہاتی ماحول کی پیداوار ہوتے ہیں پسماندہ علاقوں اورغریب خاندانوں سے ان کا تعلق ہوتا ہے لہذا ان کو کسی طرح سے دووقت کاکھانا اورسونے کے لئے جگہ کا بندوبست کردیں بس یہی کافی وافی ہے، یہ ایک سطحی اورغیر ذمہ دارانہ سوچ وفکر ہے۔
ان سطورکے تحریر کرنے کامقصد کسی بھی مدرسے کے ذمہ داران کی حوصلہ شکنی اوران کی مساعی جمیلہ کی تنقیص ہرگز مطلوب نہیں ہے ،صرف احساس ذمہ داری کوبیدارکرنا ہے کہ اساتذہ وطلباء کے معیارزندگی کوبہترسے بہتر بنایا جائے، کیونکہ طلباء وطالبات نبوت کے وارث اورملت کے مستقبل ہیں ان سے قوم کی بہت ساری امیدیں اورآرزوئیں وابستہ ہیں، اسی طرح اساتذہ یہ تعلیم وتربیت کے معیار ہیں ان ہی کے دَم سے درس وتدریس اورتربیت وتزکیہ کانظام قائم ہے ،نئی نسل کاسراپا نبوت کے چشمۂ حیواں سے جوڑتے اس کے شعور کوبیدارکرنے اورافکار وخیالات کوجِلا بخشتے ہیں۔
تعلیم وتربیت کوئی آسان کام نہیں بلکہ بڑامشکل اورصبرآزما کام ہے، مدارس کے ساتھ ایک بڑاالمیہ ہے کہ اسے تربیت یافتہ اساتذہ ومربین میسرنہیں ہوتے آخر کیوں؟
ارباب مدارس اورملت کے بہی خواہوں کی خدمت میں اساتذہ وطلباء کے معیارزندگی کوبہتربنانے کے لئے چندتجاویز پیش خدمت ہیں اگراس جانب اپنی توجہ عالی مبذول کریں توان شاء اللہ اس کا نتیجہ بہت ہی بہتر نکلے گا۔
اساتذہ کے متعلق انتظامیہ نظام تعلیم کا ایک اہم رکن ہے اوراسی پر تعلیم وتربیت کی عمارت قائم ہے اس کی حیثیت بنیادکی سی ہے اگربنیاد پکی ہوگی توعمارت بھی پائیدار اورٹھوس ومستحکم ہوگی، انتظامیہ کویہ بات اچھی طرح ذہن نشین کرلینی چاہئے کہ مدارس قائم کئے جاتے ہیں تعلیم وتربیت کے لئے پیغام رسالت عام کرنے کے لئے اورنبی کی وراثت تقسیم کرنے کے لئے اس لئے سب پر اساتذہ وطلباء کو ترجیح حاصل ہونی چاہئے، اساتذہ کا احترام اوران کی حیثیت کا خیال ،استاد جس قدرذہنی اورنفسیاتی طورپر آسودہ حال ہوگا اسی قدر وہ اپنے فرائض تدریسی کی ادائیگی میں یکسو ہوگا اورنہایت ہی اخلاص وللہیت کے ساتھ زیورعلم سے آراستہ کرے گا۔
(۱) استاد کا مشاہرہ اتناہوکہ وہ فکرمعاش سے آزاد ہوکراپنے ادائے واجب میں مشغول رہے مادیت ومہنگائی کے اس دورمیں اساتذہ وٹیچرکئی کئی جگہوں پر ٹیوشن کرکے اپنے اخراجات پورے کرتے ہیں، ان حالات میں اساتذہ سے یہ توقع رکھناکہ وہ خوب اچھی طرح سے مطالعہ کرکے مسندتدریس پرجلوہ افروز ہوں اورخوب اچھے انداز سے طلباء کوزیورعلم سے مزین کریں،یہ آرزوئے عبث ہے۔
کتاب وسنت میں علماء ربّانی کا کتنا بڑا مقام ومرتبہ ہے مگرمولویوں کا ایک بڑا طبقہ بڑاہی ناتواں، کمزور ،محتاج، بے بس، غریب ومفلس اورستم زدہ ہے ان کی کوئی قیمت ہی نہیں ہے،یہ بالکل بے قیمت ہیں۔
مولویوں کی تنخواہ کامعیار کس قدرسطحی ہے مت پوچھئے، مسلمانوں کے لئے لمحۂ فکریہ ،کتاب وسنت میں جن کا اتنااونچا مقام ہے اورجن کا اتنا اعلیٰ واشرف کام ہے ان کی کچھ بھی قدر وقیمت نہیں جبکہ ازروئے شرع جن کی کوئی حیثیت نہیں دنیاوالے عزت وقدرکی نگاہوں سے دیکھتے ہیں اوران کی تنخواہیں بھی اچھی خاصی رہتی ہیں آخرایسا کیوں؟ علماء دین اپنی بدحالی وپریشانی سے تنگ آکراگرکوئی غلط پیشہ اختیار کرنے پرمجبور ہوں گے تواس کا اصل ذمہ دارکون ہوگا آخرکیوں معمولی تنخواہ دے کران کو گداگری پرمجبور کیاجاتا ہے اورپھرسماج ومعاشرہ میں انھیں کیوں گری ہوئی نگاہ سے دیکھاجاتاہے۔
کیا ہم نہیں دیکھتے کہ ہرسال جامعات ومدارس سے ہزاروں کی تعداد میں طلبہ فارغ التحصیل ہوتے ہیں لیکن آخرامامت وخطابت اوردرس وتدریس کی ذمہ داری سنبھالنے سے کوسوں دوربھاگ رہے ہیں کوئی سلائی، کڑھائی، پرس، ودیگر دنیاوی کام کو اختیار کررہاہے اس لئے کہ یہ اپنے اساتذہ کرام جن کی صلاحیت وصالحیت سے استفادہ کررہے ہیں انھیں دیکھ رہے ہیں کہ قلت تنخواہ سے دوچار ہوکرنہایت ہی تنگ دستی اور کسمپرسی کی حالت سے گزررہے ہیں وہ طلبہ جنھیں کچھ شعور ہے وہ دن رات اسی فکر ودُھن میں سرگرداں ہیں کہ اس ہوش رُبا مہنگائی میں ہم لوگ اپنی زندگی کیسے گزارے گیں، اہل وعیال کی کفالت کیسے کریں گے، بلاشک وشبہ یہ ایک اچھی سوچ وفکرہے ان کی سوچ کی داد دینی چاہئے اورہمت افزائی کرنی چاہئے۔
یقین مانیں وہ دن دورنہیں مکاتب، مدارس،مساجد اوردعوت وتبلیغ کے دفاتر ومراکز میں قحط الرجال پڑچکا ہے آئے دن اخبارات میں ضرورت اساتذہ وغیرہ کے اشتہارات شائع ہوتے ہیں تلاش بسیار کے باوجود نایاب ہیں ایک وقت ایسا آجائے گا کہ گاؤں میں کوئی جمعہ کا خطبہ دینے اورجنازہ کی نماز پڑھانے والا نہیں ملے گا کرایہ پر لاکرپڑھوانا ہوگا۔
افسوس کامقام ہے کہ بعض جامعات ومدارس میں استاد کی تنخواہ ایک خاں ساماسے بھی کم ہوتی ہے اورخان ساماکے ساتھ جومراعات وسہولیات دی جاتی ہے سوال یہ ہے کہ آخرایسا کیوں؟ اس کا بڑے ہی طمطراق کے ساتھ جواب دیاجاتا ہے کہ چونکہ مولوی بہت مل جائیں گے مگریہ نہیں مال پائیں گے اس وجہ سے ایسا رویہ اختیار کیاجاتا ہے۔
(۲) دوسری تجویز یہ ہے کہ اساتذہ کے لئے مناسب معیارکی رہائشیں تعمیر کی جائیں اور فیملی کوارٹرتیار کرائے جائیں تاکہ آنے جانے والے اساتذہ یسکوہوکر بچوں کے ساتھ رہ کرخوشگوار ماحول میں زندگی گذارسکیں اورتدریسی خدمات اطمینان وسکون کے ساتھ اداکرسکیں۔
تیسری تجویز یہ ہے کہ انتظامیہ کے ذہنوں میں اساتذہ کامقام ومرتبہ کاادراک بہرحال موجود رہنا چاہئے وہ اساتذہ کو ایک عام ملازم وچپراسی کی حیثیت سے نہ دیکھیں بلکہ دل سے ان کی توقیر وتکریم کریں، کیونکہ دین اسلام میں علماء کی جتنی عزت عطاکی گئی ہے شاید ہی کسی اوردین میں ہومگر حیف صدحیف کہ اس دین کے ماننے والے اورجامعات ومدارس کے فارغ ہونے والے مستند علماء اپنے اساتذہ کو ذلیل اوربے وقعت کرنے میں کسی قسم کی کوئی کسرنہیں چھوڑتے اورہمیشہ ان کا یہ مطمح نظررہتا ہے کہ کہاں موقع ملے ہم انھیں رسواکریں۔
یقین مانیں کہ جس قوم کے افراد میں اساتذہ کے بارے میں خیرخواہانہ جذبات پائے جاتے ہیں وہاں سے خیروبکرت کے سوتے ابلتے ہیں اورجہاں ان کی توہین وتذلیل کی جاتی ہے وہاں سے بتدریج خیر وبرکت اٹھالی جاتی ہے اوربالآخر وہ انحطاط کے شکارہوجاتے ہیں پھرجب ماحول بگڑجاتا ہے توبن نہیں پاتا۔
(۴)چوتھی تجویز یہ ہے کہ ارباب مدارس اوراساتذہ کے درمیان ایک ایسا ضابطہ عمل واخلاق طے ہوناچاہئے جس میں فریقین کے حقوق وواجبات کاتعین ہو اورامانت وخلوص کے ساتھ معاہدے کی پاسداری ہو،اس سے اساتذہ کو قدرے ذہنی تحفظ حاصل ہوگا اساتذہ میں بے چینی واضطراب کا ایک سبب یہ بھی ہوتا ہے کہ انھیں مدرسے میں اپنی بقاء وتحفظ کی ضمانت میسرنہیں ہوتی کوئی آئے کچھ بھی کہہ کرچلاجائے کوئی توجہ دینے والانہیں۔
(۵) بحث وتحقیق اورتالیف وتصنیف کا شغف رکھنے والے اساتذہ کی ہرممکن مالی طورپرحوصلہ افزائی کی جائے اوران کی تحقیقی مقالوں کی نشرواشاعت کا بندوبست ہوبلکہ ہونایہ چاہئے کہ اصحاب قلم وقرطاس اساتذہ کو مختلف علمی وتحقیقی مشاریع بطور ہدف دیئے جائیں اوراس کام کے لئے مناسب اعزازیہ مقرر ہو، یادرہے کہ عالیشان عمارتوں کی تعمیروترقی سے کہیں زیادہ علمی ،فکری، معنوی،روحانی اخلاقی اورنفسیاتی اقدارکی آبیاری کی فکر دامن گیرہونی چاہئے۔
(۶) کسی ناگہانی مصیبت وصدمہ یاکسی خوشی وغمی کے موقع پر استاذ کی مالی واخلاقی اعانت کی جائے اس طرح سے اس پرایک طرح کا اس کا احسان عظیم ہوگا اورآپ کا وہ شکرگذار اوراحسان مند رہے گا اورجواس کے ذمہ فرائض وواجبات ہوں گے اس کودلجمعی کے ساتھ انجام دے گا، اورسال کے آخرمیں استاد کی کارکردگی کا جائزہ لے کر مناسب طورسے دلجوئی ہونی چاہئے۔
یہ چند تلخ حقائق اورگزارشات ہیں امید کہ ارباب مدارس اورقوم وملت کے ہمدرد سنجیدگی کے ساتھ اس پرغوروفکر کریں گے اوراصحاب فکرونظر اورارباب علم وبصیرت اپنی اوراپنے اہل وعیال کی روزمرہ کی ضروریات زندگی کوسامنے رکھ کر علماء کرام کی بے چینی، اضطرابی اورذہنی انتشار کاازالہ کرنے کی سعی پیہم کریں گے، تاکہ یہ قوم وملت کے رہنما اپنے بال بچوں کی صحیح تعلیم وتربیت اورشادی بیاہ اورجائز مطالبات کو پوراکرسکیں گداگری اوربھیک مانگنے کی اورمعاشرتی وسماجی مشکلات کے بھنورسے نکل سکیں پھریہ حضرات نہ صرف دوسرے لوگوں کو اللہ کے راستے میں خرچ کرنے کی ترغیب دلائیں بلکہ خودبھی اس میں دل کھول کر حصہ لے سکیں اورتعلیمی تدریسی تبلیغی دعوتی اصلاحی رفاہی معاشرتی غرضیکہ ہرطرح کے فرائض وخدمات بے لوث ہوکرنہایت ہی خوش اسلوبی کے ساتھ انجام دے سکیں۔
اگراس جانب ہم مل بیٹھ کراس مسئلے اورقضیے کاحل نہ ڈھونڈ سکے تواس کا انجام کیاہوگا وقت بتائے گا،اللہ رب العالمین سے دعاہے کہ ارباب مدارس ،اساتذہ وطلباء کو نیک سمجھ عطافرمائے اورمدارس اسلامیہ کی حفاظت وصیانت فرمائے اوردن دونی رات چوگنی ترقی عطا فرمائے۔( آمین)
***


No comments:

Post a Comment