Wednesday, May 11, 2011

موبائل فون کے آداب jan-feb 2011

مولاناصفات عالم محمدزبیرتیمی (کویت)
موبائل فون کے آداب
موبائل فون عصرحاضر کی ایجادات واختراعات میں سے ایک گرانقدر اور بیش قیمت نعمت ہے جس کے دستیاب ہونے سے لوگوں کے اندر بہت ساری سہولتیں پیدا ہو گئی ہیں ، اِس سے وقت اور مال کی بچت ہوتی ہے ، انسان سفر کی مشقتوں سے بچ جاتاہے ، آج سارے آلات جدیدہ میں سب سے زیادہ اسی کااستعمال ہورہا ہے ،ہم جہاں کہیں بھی ہوں موبائل فون ہمارے ساتھ ہوتا ہے ،بلکہ حقیقت تویہ ہے کہ اس کے بغیر ہمارا اٹھنا بیٹھنا مشکل سا ہوگیا ہے۔
لیکن یہ بھی المیہ ہے کہ موبائل فون ہمارا اچھا خاصا وقت ضائع کر رہا ہے اور برائیوں کے فروغ کا بھی ذریعہ بنتا جا رہا ہے۔آج موبائل کمپنیوں نے اپنی تجارت کو فروغ دینے کے لیے موبائل فون میں مختلف سہولتیں دے رکھی ہیں ،کیمرے کی سہولت ہے ،ویڈیوکی سہولت ہے، انٹرنیٹ کی سہولت ہے ، بلوتوتھ کی سہولت ہے ،جس سے ہماری نوجوان نسل کی خاص طور پربری حالت ہوتی جاری ہے ،فحش گانے ان کی میموری کا لازمی حصہ ہوتے ہیں ،ان کا اچھا خاصا وقت موبائل کی سہولتوں سے فائدہ اٹھانے میں ضائع ہوتا ہے ، والدین اپنی محنت سے کمائی ہوئی رقم ان کی تعلیم پرخرچ کرتے ہیں لیکن وہ مطلوبہ نتائج حاصل نہیں کرپاتے ، موبائل کمپنیاں سستے ترین کال ریٹس اور کبھی ’’فلاں وقت سے فلاں وقت تک مفت کال ‘‘کی سہولت فراہم کرتی ہیں ،جس کا نتیجہ ہے کہ لوگ راتوں رات جگتے ہیں ،وقت کی قیمت کا کوئی پاس ولحاظ نہیں کرتے ، اور گھنٹوں بات کرکے محنت کی کمائی ہوئی دولت کو داؤ پر لگاتے ہیں ۔اسی طرح اس سے صحت کا بھی نقصان ہوتاہے کیونکہ جدید سائنس کاکہناہے کہ موبائل فون کا حد سے زیادہ استعمال دل اور دماغ کی بہت خطرناک بیماریوں کا پیش خیمہ ثابت ہو سکتا ہے۔
حالانکہ یہ اور اس جیسی دوسری نعمتوں کے استعمال کے وقت ایک مسلمان کو اللہ کا شکر بجا لانا چاہئے اور ایک حد میں رہتے ہوئے اسکا جائز استعمال کرنا چاہیے اور ناجائز استعمال سے بچنا چاہئے ، کیونکہ کل قیامت کے دن ہم سے ایک ایک نعمت کے بارے میں پوچھا جانے والا ہے (ثُمَّ لَتُسْأَلُنَّ یَوْمَءِذٍ عَنِ النَّعِیْم)ِ (سورۃ التکاثر 8) ’’ پھرتم سے قیامت کے دن نعمتوں کے بارے میں ضرور سوال کیا جائے گا ‘‘۔ اس لیے ایک انسان کو چاہیے کہ وہ بحیثیت مسلمان اپنی زندگی کے سارے معاملات میں اللہ کے رسول ا اور آپ کے اصحاب کو اپنااسوہ اور نمونہ بنائے ۔ سفیان ثوری ؒ نے بہت پتے کی بات کہی ہے اِنِ اسْتَطَعْتَ أنْ لا تُحِکَّ رَأسَکَ اِلا بِأثَرِ فَافْعَلْ ( الجامع لأخلاق الراوی وآداب السامع ص 142)’’اگر تمہارے لیے ممکن ہو سکے کہ کسی اثر کی بنیاد پر ہی اپناسرکھجلاؤ تو ایسا کر گذرو ‘‘۔ مفہوم یہ ہے کہ ایک مسلمان کا ہر عمل چاہے اس کا تعلق دنیاوی امور سے ہی کیوں نہ ہوسنت نبوی کا آئینہ دار ہونا چاہیے تو موبائل فون کے تعلق سے بھی ضرورت پڑتی ہے کہ اُس کے استعمال کے آداب کو ہم جانیں ۔تو لیجئے ذیل میں موبائل فون سے متعلقہ چند آداب پیش خدمت ہیں :
فون کرنے سے پہلے نمبر کی تحقیق کرلینی چاہیے:
فون کرنے سے پہلے نمبرجانچ کر لیناچاہیے کہ واقعی یہ فلاں شخص کا نمبر ہے ، تاکہ ایسا نہ ہو کہ کسی دوسرے کا نمبر ڈائل ہوجائے اور آپ اُس کے لیے ناگواری کا باعث بن جائیں، اگر کبھی غیر شعوری طور پر ایسا ہوجاتا ہے تو نرم لہجے میں ان سے معذرت کرلی جائے کہ ’’معاف کیجئے گا ، غلطی سے آپ کا نمبر ڈائل ہو گیا ‘‘۔
فون کرتے وقت شرعی الفاظ کا استعمال کیا جائے:
مثلاً جب بات کرنا شروع کریں تو کہیں السلام علیکم ، اسی طرح فون اٹھانے والا بھی السلام علیکم کے ذریعہ گفتگو کی ابتداء کرے کیونکہ سلام میں پہل کرنا بہتر ہے ۔
بالعموم لوگ فون کرتے یا اٹھاتے ہوئے ’’ہلو ‘‘ ’’ہلو‘‘کہتے ہیں‘یہ اسلامی آداب کے خلاف ہے ۔ اسلام نے ہمیں یہ تعلیم دی ہے کہ جب ہم کسی سے ملیں تو السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہکہیں، اس کا اطلاق بالمشافہ ملاقات پر بھی ہوگا ، خط وکتابت پربھی ہوگا اور فون پر بھی ہوگا ۔
پھر’’ ہلو‘‘ کہنے کی وجہ سے جہاں ایک طرف غیروں کی مشابہت لاز م آتی ہے، وہیں ایک آدمی بے پناہ اجروثواب سے محروم بھی ہو جاتا ہے ، امام بخاری نے الادب المفرد میں حضرت ابوہریرہؓ سے بیان کیا ہے کہ ایک آدمی اللہ کے رسول ا کے پا س سے گذرا تو اس نے کہا السلا م علیکم آپ نے فرمایا : اِسے دس نیکیاں ملیں ، دوسرا آدمی گذرا تو کہا : السلام علیکم ورحمۃ اللہ آپ نے فرمایا : اِسے بیس نیکیاں ملیں، تیسرا آدمی گذرا تو اس نے کہا : السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ، آپ نے فرمایا : اِسے تیس نیکیاں ملیں ۔( حسنہ الالبانی فی تخریج مشکاۃ المصابیح 4566)
اس حدیث کو پیش نظر رکھتے ہوئے اگر ہم فون پر اسلامی طریقہ کو اپنائیں اور السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ کہیں توہم صرف فون کرنے پرتیس نیکیوں کے حقدار ٹھہرتے ہیں ۔
سلام کرنے کے بعد اپنا تعارف کرایاجائے :
مثلاً یوں کہے کہ’’ میں فلاں بول رہا ہوں‘‘الا یہ کہ جس سے اس قدر شناسائی ہو کہ آواز فوراً پہچان میں آجاتی ہو ،ایسی جگہ تعارف کرانے کی ضرورت نہیں ۔ کچھ لوگوں کی عادت ہوتی ہے کہ بات کرتے وقت پوچھنے لگتے ہیں کہ’’ آپ نے مجھے پہچانا ؟‘‘ اِس سے آدمی حرج میں پڑجاتا ہے اگر کوئی صراحۃ کہہ دیا کہ ’’ نہیں‘‘ تو لیجئے! اب خیریت نہیں رہی اُسے کوسنا شروع کردیں گے کہ’’ آپ تو بڑے آدمی ہیں مجھے کیوں کر پہچانیں گے‘‘ حالانکہ وہ بندہ دل کا صاف ہوتا ہے اور ایسی بات سن کر اسے تکلیف ہوجاتی ہے ۔
یہ کہنا بھی غلط ہے کہ انہوں نے میرا نمبر محفوظ نہیں رکھا ۔میں کہتاہوں حسن ظن سے کام لیں،ممکن ہے اسکے سیٹ میں جگہ خالی نہ ہو،پھراِس انداز میں پوچھنابھی تو اسلامی اد ب کے خلاف ہے ، نام بتانے میں آخر کیا جاتا ہے ؟۔
بخاری ومسلم کی روایت ہے حضرت جابربن عبداللہؓ کہتے ہیں أتیتُ النبیَّ صلی اللہ علیہ وسلم فی دَینٍ کان علٰی أبی فدققتُ البابَ فقال: من ذا ؟ فقلتُ: أنا ، فقال : أنا أنا کأنہ کرھہا ’’میں اللہ کے رسول ا کے پاس ایک قرض کے سلسلے میں مدد کے لیے آیا جسے میرے باپ نے لی تھی اور آپ کو آواز دی تو آپ نے فرمایا : کون؟ میں نے کہا: ’’أنا ‘‘ یعنی میں ہو ں ۔ اللہ کے رسول ا نکلے تو یہ کہہ رہے تھے [ أنا ، أنا ] ’’میں، میں‘‘ گویاکہ آپ نے اس طرح کے جواب پر ناپسندیدگی کااظہار فرمایا ‘‘۔ کیونکہ ’’میں ‘‘ کہنے سے کوئی بات سمجھ میں نہیں آتی ۔
آج بھی کتنے لوگوں کی عادت ہوتی ہے کہ جب دروازے پر دستک دیں گے اور آپ اُن سے پوچھیں کہ’’کون‘‘ ؟ تو کہیں گے ’’میں‘‘۔بھئی ! ’’میں‘‘ کہنے سے کیا سمجھ میں آئے گا ، نام بتاؤ۔۔۔لہذا فون کرنے والے کو چاہیے کہ وہ سب سے پہلے اپنا نام بتائے تاکہ جس سے بات کررہا ہے وہ حرج میں نہ پڑے اور فوراً پہچان لے۔
جسے فون کر رہے ہوں اس کے احوال کی رعایت کریں:
ممکن ہے وہ آدمی اپنے ذاتی کام میں مشغول ہویا ایسی جگہ پر ہو جہاں فون اٹھانا اُس کے لیے مناسب نہ ہو۔ ایسی صورت میں اگر جواب نہ ملا ، یا جواب میں جلد بازی پائی گئی یا گرم جوشی سے جواب نہ مل سکا توفون کرنے والے کو چاہیے کہ اس کے تئیں حسن ظن رکھے اور اس کے لیے عذر تلاش کرے۔ اُسی طرح جسے فون کیا گیا ہے اُس کے لیے بھی مناسب ہے کہ اگر وہ ایسی جگہ موجود ہے جہاں فون کا جواب نہیں دے سکتا تو وہ موبائل کو سائلنٹ کر دے پھر بعد میں عذر پیش کرتے ہوئے ری کال کرے یا جلدی سے بتا دے کہ وہ ایسی جگہ پرہے جہاں فون کا جواب نہیں دے سکتا ،یہ دل کی صفائی کا اچھا طریقہ ہے ۔
پھرRing دینے میں شرعی آداب کو ملحوظ رکھناچاہیے ، تین بار فون کی گھنٹی بجنے کے باوجود اگر فون نہیں اٹھایا گیا تو سمجھ لینا چاہیے کہ اجازت نہیں ہے اور کال کو کسی دوسرے وقت کے لیے مؤخر کردینا چاہیے ،کتنے لوگ جواب نہ ملنے پر بار بارRing دیتے ہیں بلکہ کچھ لوگ توجواب نہ ملنے پر غصہ ہوجاتے ہیں اور جلدبازی میں اوٹ پٹانگ بول دیتے ہیں
اس مناسبت سے مجھے ایک واقعہ یاد آرہا ہے ،میرے ایک قریب ترین ساتھی نے مجھے ایک مرتبہ انٹرنیشنل کال کیا ۔ میں اُس وقت نماز میں تھااور میرا موبائل سائلنٹ میں تھا ، جب میں نے نماز سے فارغ ہوکر موبائل دیکھا تو اُس میں 10 مس کال تھے اور ایکsms تھا جس میں لکھا تھا ’’ اگر آپ کو میرا فون کرنا گراں گزرتا ہے تو اشارہ کردیں ۔ رب کعبہ کی قسم ! میں آپ کو کبھی فون نہ کروں گا ‘‘ ۔
دیکھا ! یہ جلد بازی کا نتیجہ ہے ، انہوں نے فوراً نتیجہ اخذ کرلیا کہ میں دانستہ جواب نہیں دے رہا ہوں حالانکہ حقیقت کچھ اور تھی،میں نماز میں تھا ۔ لہذا جلدبازی میں کوئی بات نہ کہنی چاہیے جس سے بعدمیں سبکی ہو ۔۔۔اُسی طرح جسے فون کر رہے ہوں اُس کی طرف سے جواب نہ ملنے پرہمیشہ حسن ظن رکھنا چاہیے۔
فون کرنے کے لیے مناسب وقت کا انتخاب کیاجائے :
ہروقت ایک شخص فون کا جواب دینے کے لیے تیار نہیں رہتا ، کبھی گھریلو مشغولیات ہوتی ہیں ، کبھی کام کے تقاضے ہوتے ہیں۔ بالخصوص ایسے اشخاص سے بات کرتے وقت مناسب وقت کا خیال رکھنا بہت ضروری ہے جن کے اوقات بہت قیمتی ہوتے ہیں۔ کتنے لوگ دیر رات میں فون کرتے ہیں جس وقت ایک آدمی سویا ہو تا ہے، ظاہر ہے اِس سے نیند خراب ہوتی ہے اور کچھ لوگوں کو ایسا عمل سخت ناگوار گذرتا ہے ۔ لہذا فون کرنے کے لیے مناسب وقت کی رعایت بہت ضروری ہے ۔
فون کرنے کی مدت کا بھی تعین رکھنا چاہئے :
کتنے ایسے لوگ ہیں جو فون کرنے بیٹھتے ہیں تو گھنٹوں باتیں کرتے رہتے ہیں ، ایک مسلمان زندگی کے کسی بھی شعبے میں افراط سے کام نہیں لیتا ۔ فون پر ہمارے جتنے پیسے برباد ہو رہے ہیں اگر اس میں سے ہلکی سی کٹوتی کرلیں تو میں سمجھتا ہوں‘ کتنے غریبو ں کا بھلا ہو سکتا ہے۔
بہرکیف عرض مدعایہ ہے کہ فون پر ہذیان گوئی، بیکار گفتگو اور ضیاع وقت سے پرہیز کرنا چاہیے۔ فون ضرورت کے تحت استعمال کیا جائے اُسے طفلِ تسلی نہ بنایا جائے ۔
جب مسجد میں داخل ہوں تو موبائل فون بند کردیں یا سائلنٹ میں کردیں:
اگرآپ کوکسی وزیر یا بادشاہ سے ملنے کاموقع مل جائے توپہلی فرصت میں آپ اس کے پاس جانے سے پہلے اپنے موبائل فون کو بند کردیں گے یا سائلنٹ میں کردیں گے مباداکہ دوران ملاقات اس کے بجنے سے ناگواری محسوس ہو ۔جب انسان سے ملنے سے پہلے اتنا اہتمام کیا جاسکتا ہے تو مسجد‘ جوکہ اللہ کا گھرہے اوراس کے نزدیک سب سے پیاری جگہ، جہاں لوگ اپنے رب سے سرگوشی کرنے آتے ہیں، ظاہر ہے مسجد میں داخل ہونے سے پہلے موبائل فون کو سب سے پہلے سائلنٹ میں کردینا چاہیے ، تاکہ خشوع وخصوع سے نماز ادا کی جاسکے ،اور فون کے رِنگ سے دوسرے نمازیوں کی نمازیں بھی متاثر نہ ہوں، لیکن بھول چوک انسانی فطرت ہے ،اس لیے اگر لاعلمی میں موبائل فون کھلا رہ گیا اور بحالت نماز کال آگئی تو فوراً موبائل فون بند کر دینا چاہیے بلکہ بند کرنا ضروری ہے کیونکہ اس سے لوگوں کی نمازیں متاثر ہوتی ہیں۔ کتنے لوگ فون آنے پر موبائل بند نہیں کرتے اور مسجد میں دوسروں کی نمازیں خراب کرتے رہتے ہیں جوقطعاً مناسب نہیں۔
اسی طرح جو آدمی غیرشعوری طور پر موبائل فون بند کرنا بھول گیا اُسے معذور سمجھنا چاہیے اور خواہ مخواہ اس کے ساتھ سخت کلامی سے پیش نہیں آناچاہیے ۔ کیا ہم دیکھتے نہیں سرکارِ دوعالم اکا اسوہ کیاتھا؟ ایک دیہاتی مسجد نبوی کے ایک کونہ میں پیشاب کرنے بیٹھ جاتا ہے ۔ صحابہ کرام اُسے ڈانٹتے ہیں تو اللہ کے رسول ا انہیں منع کر دیتے ہیں،پھر جب وہ پیشاب سے فارغ ہو جاتا ہے تو آپ ایک بالٹی پانی منگواتے ہیں اورحکم دیتے ہیں کہ اُس گندگی کی جگہ پر بہا دیا جائے ۔ اُس کے بعد فر ماتے ہیں فانما بعثتم میسرین ولم تبعثوا معسرین (رواہ البخاری) ’’ تم آسانی کرنے کے لیے بھیجے گئے ہو سختی کر نے کے لیے بھیجے نہیں گئے ‘‘۔
مجلس میں بیٹھ کر بات نہ کریں:
اگر آپ معززشخصیات کی مجلس میں بیٹھے ہوں اور اُسی بیچ کال آجائے تو مناسب ہے کہ ایسی جگہ پر موبائل کو آہستہ سے سائلنٹ کر دیں اور اگرکوئی ضروری کال ہوتو اجازت لے کر باہر نکل جائیں۔بڑوں کی مجلس میں بیٹھے ہوئے فون کا جواب دینے لگنا مناسب نہیں ۔ ہاں! اگر دوست واحباب کی مجلس ہو‘ تو مجلس کے اندر ہی بات کرنے کی گنجائش ہے ،بشرطیکہ اجازت لے لی جائے ۔
موبائل فون عام جگہوں پر نہ رکھے جائیں :
کیونکہ ہوسکتا ہے کہ کوئی دوسرا اُسے اٹھاکر استعمال کرنے لگے یا بچے کسی ایسے شخص کو فون لگا دیں جنہیں فون نہیں کرنا چاہیے تھا ۔ یا ہوسکتا ہے کہ اُس میں کوئی راز کی بات ہو جسے دوسروں کا جاننا پسند نہ کرتے ہوں، یا ایسے ایس ایم ایس یا فوٹوز ہو ں جو آپ کے اہل خانہ کے ہوں اور دوسرا غلط نظریہ سے اُسے دیکھنے اور سوچنے لگے ۔ اِن سارے شبہات سے بچنے کا واحد طریقہ یہی ہے کہ موبائل فون ہر جگہ نہ رکھا جائے ۔ اُسی طرح ایک شخص کو چاہیے کہ دوسرے کا موبائل فون اُس کی اجازت کے بغیر استعمال نہ کرے اور اگر اجازت ملنے پر استعمال کرتا بھی ہے تو اُسی حد تک جس حد تک اُسے اجازت ملی ہے ۔
گھر میں گارجین کے رہتے ہوئے نوجوان بچیوں کو فون اٹھانے نہ دیا جائے:
اِس سے بچیوں میں بے راہ روی کے امکانات زیادہ ہوتے ہیں بلکہ آئے دن اس طرح کے واقعات پیش آرہے ہیں اورہماری عزت وآبرو کا خون ہو رہا ہے ۔بلکہ مردوں کی موجودگی میں عورتیں فون نہ اٹھائیں ۔ ہاں! ضرورت کے تحت فون اٹھایا جا سکتا ہے لیکن عورتیں فون اٹھاتے وقت نرم لہجہ میں بات نہ کریں ایسا نہ ہو کہ بیمار دل انسان دل میں کسی طرح کا غلط خیال بٹھالے ۔ ذرا غور کیجئے کہ اللہ تعالی نے نبی پاک اکی بیویوں کو حکم دیا کہ جب وہ دوسروں سے بات کریں تو دبی زبان میں بات نہ کریں:
’’ اے نبی کی بیویو! اگر تم پرہیزگاری اختیار کرو تو نرم لہجے سے بات نہ کرو کہ جس کے دل میں روگ ہو ‘ وہ کوئی خیال کرے اور ہاں! قاعدے کے مطابق کلام کرو‘‘۔
ذرا غورکیجیے کہ وہ عہد نبوت میں تھیں، لوگوں کی ماؤں کی حیثیت رکھتی تھیں ، اُنکے تئیں کسی کے دل میں غلط خیال بیٹھ نہیں سکتا تھا اُس کے باوجود یہ حکم دیا جا رہا ہے،اِسی سے اندازہ لگایاجاسکتا ہے کہ ہماری بہنیں اور بیٹیاں اِس حکم کی کس قدر مخاطب ہو ں گی ۔ ہمیں یہ باور کرنا، چاہئے کہ شریعت دراصل فطرت کی آواز ہے، فطری طور پر عورت کی آواز میں دلکشی، نرمی اور نزاکت پائی جاتی ہے۔ اِسی لیے عورتوں کو یہ حکم دیا گیا کہ مردوں سے گفتگو کرتے وقت ایسا لب ولہجہ اختیار کیا جائے جس میں نزاکت اور لطافت کی بجائے سختی اور روکھاپن ہو‘ تاکہ کسی بدباطن کے دل میں بُرا خیال پیدا نہ ہو۔
سن شعور کو پہنچنے سے پہلے بچوں کوبھی فون اٹھانے نہ دیا جائے :
اگر بچے ہوشیار ہوں تب بھی انہیں فون اٹھانے کا طریقہ سکھانے کے بعد ہی فون اٹھانے کی اجازت دیں ۔ بسااوقات ایسا ہوتا ہے کہ آپ کسی اہم ضرورت سے کسی کے ہاں فون کریں فون اٹھانے والا گھر کا بچہ ہوگا جو اپنے انداز میں بات کرتا ہوتا ہے ۔ منٹوں کے بعد بات سمجھ پاتا ہے اور کبھی وہ بھی نہیں سمجھ پاتا کچھ خبیث طبیعت کے لوگ تو بچوں سے راز کی باتیں بھی معلوم کرنے لگتے ہیں ۔ ظاہر ہے اِس کا واحد علاج یہ ہے کہ بالکل چھوٹے بچوں کو فون اٹھانے نہ دیا جائے ۔
فون کی آواز آن کرنا یا آواز رکارڈ کرنا منع ہے:
گفتگو کرنے والے کی بات کو ریکارڈ کرنا یاموبائل کی آواز سب کے سامنے آن کردینا تاکہ اسے دوسرے بھی سنیں‘ غلط ہے بلکہ ایک طرح کی خیانت ہے ۔ کتنے لوگوں کی عادت ہوتی ہے کہ جب انہیں کوئی فون کرتاہے تو اس کی آواز کو ریکارڈ کرنے لگتے ہیں یا آواز کھول دیتے ہیں تاکہ حاضرین اس کی گفتگو سنیں ۔ایسا کرنا سراسر غلط ہے ۔ کوئی دانا ایسا نہیں کرسکتا ۔ ہاں اگر بات کرنے والے سے اجازت لے لی جائے ، اور گفتگو سب کے لیے مفید ہو تو ایسی صورت میں آواز کھولنے میں کوئی حرج نہیں ۔
علامہ ڈاکٹر بکر ابوزید ؒ اپنی کتا ب ’’أدب الھاتف ‘‘ میں لکھتے ہیں لایجوز لمسلم یرعی الأمانۃ ویبغض الخیانۃ أن یسجل کلام المتکلم دون اذنہ وعلمہ مھما یکن نوع الکلام دینیا أو دنیویا ’’ایسامسلمان جوامانت کی رعایت کرتا ہو اور خیانت کو ناپسند کرتا ہو‘ اس کے لیے قطعاً جائز نہیں کہ گفتگو کرنے والے کی بات کو اس کی اجازت اوراسکے علم کے بغیر ریکارڈ کرلے، چاہے گفتگو جس نوعیت کی ہو‘ دنیوی ہو یا دینی جیسے فتوی اور علمی مباحث وغیرہ ‘‘
رنگ ٹونز کے طور پر عادی گھنٹی کا استعمال کریں :
موبائل فون میں عادی ٹونز کا استعمال ہوناچاہیے ،بالعموم لوگ موسیقی یا نغمے والی ٹونز رکھنا پسند کرتے ہیں حالانکہ سب سے پہلے تو یہ حرام ہے ،پھردینی مزاج رکھنے والے اور سنجیدہ طبیعت کے لوگ اسے اچھا نہیں سمجھتے ،ایسے لوگوں کواس سے اذیت اور تکلیف ہوتی ہے ، بالخصوص جب مساجد یا لوگوں کے اجتماعات میں ایسے نغمے سنے جائیں تو اس کی قباحت مزید بڑھ جاتی ہے ۔
اس کے برعکس پچھلے چند سالوں سے دینی مزاج رکھنے والے افراد نے قرآنی آیات کو رنگ ٹون کے طور پر استعمال کرنا شروع کیا ہے ،حالانکہ ایسا کرنا بھی صحیح نہیں ہے ،عصر حاضر کی متعدد فتوی کمیٹیوں نے اس کی حرمت کا فتوی دیا ہے جن میں مفتئ مصر ،سعودی عرب کے کبار علماء ،اور رابطہ عالم اسلامی کی اسلامی فقہ اکیڈمی قابل ذکر ہے ، کیونکہ اس میں قرآن کی بے حرمتی کا پہلو پایا جاتا ہے جیسے بیت الخلا ء میں فون آجائے یا لہوولعب کے اڈے پر رِنگ دینے لگے ،اسی طرح اگر رنگ دیتے وقت فون اٹھالیاجاے تو بسااوقات آیت منقطع ہوکر رہ جاتی ہے ،یا الفاظ ادھورے رہ جاتے ہیں جس سے معنی کچھ کا کچھ ہوجاتا یا مبہم رہ جاتا ہے ، اگر ایک آدمی سنجیدگی سے غور کرے تو اسے خود سمجھ میں آجاے گا کہ واقعی اس سے قرآنی آیات کی بے حرمتی ہوتی ہے ، کوئی عقل مند آدمی یہ تو نہیں کہہ سکتا کہ اس میں قرآنی آیات کی تعظیم وتکریم ہے جبکہ ہمیں حکم ہے کہ قرآنی آیا ت کی تعظیم وتکریم کریں، کیونکہ یہ ہمارے خالق ومالک کا کلام ہے جو ہماری ہدایت کے لیے اترا ہے ۔
***

No comments:

Post a Comment