Thursday, May 12, 2011

دارالعلوم ندوۃ العلماء jan-feb 2011

شمیم احمدندویؔ
دارالعلوم ندوۃ العلماء
(چوتھی قسط)
دارالعلوم دیوبند اوراس کے سیاسی افکارونظریات کے ایک پہلوکی مختصرسی جھلک گذشتہ سطورمیں پیش کی گئی جس سے کم ازکم ایک بات صراحتاً ثابت ہوتی ہے کہ کس طرح شریعت کے تقاضوں کوسیاسی مفادات پرقربان کیاجاتارہا اوروہ بھی ایسے لوگوں کے ذریعہ جوبزعم خود شریعت کے سب سے بڑے شارح اور ترجمان اوردین مصطفوی کے پاسبان بنے رہے ہیں اورعوام کی نظروں میں راست بازی، پاکدامنی اورتقوی وطہارت کی بلندیوں پرفائز رہے ہیں، لیکن انھوں نے بسااوقات شریعت اوراس کی تعلیمات کو کس طرح مجروح ونظرانداز کیا ہے اورقرآنی ہدایات کو کس طرح پامال کیاہے اسے آنجہانی وزیراعظم اندراگاندھی سے ہی تعلق رکھنے والی ایک مثال سے بخوبی سمجھاجاسکتا ہے جن کا تذکرہ گذشتہ قسط میں کیاگیا۔
بات شروع ہوئی تھی دارالعلوم دیوبند کے صدسالہ جشن تعلیمی کا اس وقت کی وزیراعظم اندراگاندھی کے ذریعہ افتتاح کرائے جانے سے، اوراس پر مفکراسلام مولانا سیدابوالحسن علی ندوی رحمہ اللہ کے انقباض اورناگواری خاطرسے ہوتے ہوئے موصوفہ کے حلقہ انتخاب رائے بریلی اورمولانا رحمہ اللہ کے وطن مالوف تکیہ کلاں تک اس کا سلسلہ دراز ہوگیا، ہمیں ان تمام باتوں میں ربط وتعلق تلاش کرنے کے لئے اندراگاندھی کی موت کے موقعہ پر رونما ہونے والے ایک غیر معمولی واقعہ کو ذہن میں رکھنا پڑے گا جس سے اس فکرکو سمجھنے میں مددملے گی جس پر دارالعلوم دیوبند جیسے دینی مدارس کے ذمہ داران عمل پیراتھے، اور جواظہارمرعوبیت اوراحساس کمتری کا ایک ناخوشگوارنمونہ ہے، بھلے ہی انھوں نے جھوٹے سچے واقعات اور بے سروپا حکایات کی تشہیر کے ذریعہ اپنے اردگرد حق گوئی وبیباکی اورجرأت ایمانی کا ایساحصارکھینچ رکھا ہو جس سے اہل ایمان کو مرعوب کرنے ورکھنے میں ہمیشہ کامیاب رہے ہوں ورنہ حقائق ومشاہدات اس جرأت گفتار اوررفعت کردارکی قلعی کھولتے رہے ہیں جن کا شدومدسے پروپیگنڈہ کیا جاتاہے،چنانچہ اندراگاندھی کی موت کے معاً بعد کے بعض خلاف شرع حرکات کا مشاہدہ کرنے اوران اسباب ومحرکات کاجائزہ لینے سے اسی تصورکی تصدیق ہوتی ہے جس کا تعلق محض عمومی سیاسی وابستگی سے نہیں بلکہ اس تملق پیشگی سے ہے جودینی غیرت وحمیت کے سراسر منافی ہے لیکن جسے بعض دینی حلقوں نے معیوب تک نہیں سمجھاہے۔
یہ سطور لکھے جانے تک ہندوستان اندراگاندھی کی ۲۶ویں برسی روایتی جوش وخروش سے مناچکا ہے اوران کے غیرمعمولی عزم وہمت اورآہنی ارادوں کو خراج تحسین پیش کرچکاہے، ہمیں موصوفہ کے سیاسی تدبر اوربالغ نظری سے اس وقت کوئی غرض نہیں، نہ ہمارایہ موضوع ہے لیکن جوچیز ہم اپنے باشعور قارئین کویاددلاناچاہتے ہیں اس کاتعلق ضرورہمارے اس موضوع سے ہے، وہ یہ کہ ۳۱؍اکتوبر ۱۹۸۴ء ؁ کواندراگاندھی کوجب ان کے ہی ایک سکھ باڈی گارڈ نے اندھا دھند گولیاں برساکرخاک وخون میں تڑپادیا جوگولڈن ٹیمپل پرہونے والی فوجی یلغار کے خلاف جوش انتقام میں اندھاہوچکا تھا،جب ان کی آخری رسومات اداکی جارہی تھیں اوردیدارعام کے لئے ان کا شَورکھا جاچکاتھا توجہاں ان کی آتماکی شانتی کے لئے ہندوپجاری وپنڈت اپنے مذہبی اشلوک پڑھ رہے تھے وہیں کچھ ایمان فروش مولوی دعائے مغفرت میں مصروف تھے حتی کہ قرآن خوانی کا بھی باقاعدہ اہتمام کیاگیا اور’’قل شریف‘‘ اورسورۂ یٰسین پڑھ کر ان کے لئے ایصال ثواب کیاگیا، معاملہ چونکہ ایک برسراقتدار وزیراعظم کا تھا اس لئے قومی ٹی وی پہ یہ پروگرام براہ راست نشرکیاجارہا تھا ،اس موقع پر ٹی وی ناظرین نے باقاعدہ قرآن پڑھ کر جوقاریوں کے سامنے کھلے ہوئے نظر آرہے تھے بعض لوگوں کودعائے مغفرت میں مصروف دیکھا اوربآواز بلند ان کے لئے سورگ میں جانے کی دعا کرتے ہوئے سنا، ان مولویوں میں سے بعض کا تعلق جمعیۃ علمائے ہند یابالفاظ دیگر جماعت دیوبند سے تھا جوغالباً وہاں اپنی شناخت کے لئے کوئی بینربھی لگائے ہوئے تھے، ایسے ہی دین فروش مولویوں نے قرآن کوبازیچۂ اطفال بنارکھا ہے اورنئی شریعت نہ بھی ایجادکریں توقرآن کی اہانت اوراس کی تعلیمات کو پس پشت ڈالنے جیسے جرم کا عملاً بارہا ارتکاب کیاہے، اس حرکت کی کتنی ہی بڑی سیاسی توجیہ کی جائے یا اسے مصلحت اندیشی قراردی جائے لیکن یہ بہرحال شریعت کی روح کے منافی اورقرآنی احکامات کی صریح خلاف ورزی ہے اوراس کی توقع دیوبندی مکتب فکرسے تعلق رکھنے والے افراد سے نہیں کی جاسکتی جن کے بارے میں عوام کی والہانہ عقیدت کاحال یہ ہے کہ وہ ان کی ’’تردامنی‘‘ کے بارے میں یہ گمان رکھتے ہیں کہ اگروہ دامن نچوڑدیں توفرشتے وضوکے لئے ٹوٹ پڑیں۔
قرآن میں توصاف صاف ارشاد باری تعالیٰ ہے(لاتصل علی أحد منہم مات أبدا ولاتقم علی قبرہ)’’اگرکوئی ان(منافقین) میں سے مرجائے توکبھی بھی اس کی نمازجنازہ نہ پڑھو اورنہ ہی اس کی قبرپرکھڑے ہو‘‘ (التوبۃ : ۸۴)واضح ہوکہ یہ حکم توان منافقین کے بارے میں نازل ہوا جوبظاہر مسلمان تھے اورکلمہ ونماز اوراسلامی شعائر کا ظاہری طورپر اقرارواہتمام کرتے تھے گرچہ ان کے قلوب اس سے خالی تھے، پھرکفارومشرکین کے بارے میں اس حکم کی سختی کو سمجھاجاسکتا ہے اورایسانہیں ہے کہ صرف قبرپرقیام اور نمازجنازہ پڑھنے سے منع کیاگیا ہے بلکہ کسی بھی انداز میں دعائے مغفرت کی بھی ممانعت ان الفاظ میں وارد ہوئی ہوئی (استغفرلھم اولا تستغفرلھم‘ ان تستغفر لھم سبعین مرۃ فلن یغفراللہ لہم ذلک بانھم کفروا باللہ ورسولہ، واللہ لایھدی القوم الفاسقین)’’آپ ان کی مغفرت طلب کریں یا نہ کریں اوراگرسترباربھی دعائے مغفرت کریں توبھی اللہ ایسے لوگوں کی مغفرت ہرگزنہیں کرے گا، اس لئے کہ انھوں نے اللہ اوراس کے رسول کے ساتھ کفرکیا ہے اوراللہ تعالیٰ فاسقوں کوہدایت سے نہیں نوازتا‘‘(التوبۃ: ۸۰)اس صریح حکم کے ہوتے ہوئے ایک مشرکہ کے لئے دعائے مغفرت شریعت مطہرہ کے ساتھ کتنا سنگین مذاق ہے، اس کی جسارت یاتووہ لوگ کرسکتے ہیں جنھیں اپنے’’سواداعظم‘‘ ہونے کازعم ہے یاپھروہ لوگ کرسکتے ہیں جو ایسے تعلیمی ماحول کے پروردہ ہیں جہاں صحیح معنوں میں شریعت کی روح کوسمجھنے پر زورنہیں دیاگیا، اوراگرگہرائی میں جاکرجائزہ لیاجائے تواس حقیقت کا ادراک مشکل نہیں کہ ساراقصور اس نصاب تعلیم کاہے جوآدمی کوروایات کا پابند توبنادیتا ہے لیکن اس کے اندرروح شریعت اور ’’رموز دین‘‘ کوسمجھنے کی صلاحیت نہیں پیداکرتا، اسی لئے علامہ اقبال علیہ الرحمہ نے ؂
عجم ہنوز نہ داند’’رموز دیں‘‘ ورنہ
زدیوبند حسین احمدایں چہ بوالعجبی است
کی بھپتی کسی ہے نیز اسرارشریعت کوسمجھے بغیر محض روایات کی پاسداری کوامت کے لئے مہلک قراردیتے ہوئے کہاہے ؂
حقیقت خرافات میں کھوگئی یہ امت روایات میں کھوگئی
جب دینی مدارس سے ہی ایسی کفریہ حرکات کا ارتکاب اورخلاف شرع امورکا صدورہونے لگے توعام آدمی اپنے دردکادرماں اوراپنی پریشاں نظری کاعلاج ڈھونڈنے کہاں جائے گا سچ ہے ؂
چوں کفراز کعبہ برخیزد کجاماندمسلمانی
جن مدارس کو کلمہ حق کی ترویج واشاعت کامرکز ہوناچاہئے وہی اپنے حقیر مفادات کی قربان گاہ پرشریعت کو بھینٹ چڑھانے لگ جائیں اورجن مدارس کو حق گوئی وبے باکی کی تعلیم کے لئے مثالی نمونہ بننا چاہئے وہ مصلحت اندیشی ومفاد پرستی کے خول میں بندہوجائیں توپھراعلاء کلمۃ اللہ کا فریضہ کون اداکرے گا اورصدائے حق کہاں سے بلند ہوگی؟ سچ ہے ؂
گلا توگھونٹ دیا اہل مدرسہ نے ترا
کہاں سے آئے صدالا الہ الااللہ
دین کے ناقص تصور اور شریعت کے ادھورے فہم کا ہی نتیجہ ہے کہ آج وقتا فوقتا دیوبند سے ایسے فتاوے منظرعام پر آجاتے ہیں جن کی وجہ سے نہ صرف یوبند بلکہ پوری ملت اسلامیہ ہندیہ برادران وطن کی نظروں میں تماشا اورطنز وتعریض اور استہزاء وتضحیک کانشانہ بن جاتی ہے، ملکی میڈیا توایسے معاملات کو اچھالنے کے لئے تیاربیٹھاہی رہتا ہے جواسے بعجلت تمام لے اڑتا ہے، پھرشروع ہوتا ہے وضاحتوں وتردید کا دوراورایک اچھے خاصے تعلیم یافتہ طبقہ کی وہ صلاحیتیں جو کسی تعمیری کام میں صرف ہوتیں وہ سب لایعنی کاموں میں ضائع ہوتی ہیں۔
یہ بات درست ہے کہ ملک کا الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا اس کے لئے کم قصوروارنہیں ہوتالیکن اس کے لئے مواقع یہی مدارس فراہم کرتے ہیں جوشریعت کی باریکیوں، دین کے تقاضوں اورملت کی مصلحتوں سے کماحقہ واقف نہیں ہوتے، ماضی قریب وبعیدکی اس طرح کی بے شمار مثالوں سے صرف نظرکرتے ہوئے اگرصرف حال کی ایک تازہ ترین مثال کو سامنے رکھنے پراکتفاء کیاجائے توبخوبی اس بات کا علم ہوگا کہ عجلت میں دئے گئے بیانات یاذاتی مفادات کے تحت کئے گئے اقدامات کانتیجہ مسلمانان ہند کے حق میں کس قدرتباہ کن ہوسکتا ہے اس کا شاید انھوں نے تصوربھی نہ کیاہو، دارالعلوم دیوبند کے چندروزہ مہتمم جناب غلام محمدوستانوی صاحب نے یہ بیان دے کرملی حلقوں میں ہلچل مچادی اوراضطراب وبے چینی کی لہردوڑادی کہ گجرات کے وزیراعلی نریندرمودی ملک کے مقبول وپسندیدہ وزیراعلیٰ ہیں اوران کی ریاست گجرات میں مسلمان خوش حال ومطمئن ہیں ان سطورمیں نہ تو نریندرمودی کے بارے میں کچھ تبصرہ کرنے کی ضرورت ہے نہ گجرات کے مظلوم مسلمانوں کی حالت زار پربلکہ فقط یہ کہنے پراکتفا کروں گا کہ دارالعلوم دیوبند کے مہتمم اگرگجرات وملک کے دیگرخطوں کے ستم رسیدہ مسلمانوں کی اشک شوئی نہیں کرسکتے ہیں توکم ازکم ان کے زخموں پر نمک پاشی تونہ کریں اورگجرات کے بدنام زمانہ فسادات کے شکاروہ مسلمان جوآج بھی پناہ گزین کیمپوں میں کسمپرسی کی زندگی گزارنے پرمجبورہیں ان کی مجبوری ولاچاری کا اس طرح مذاق تونہ اڑائیں، ہوسکتا ہے کہ انھوں نے تن تنہا خودکو ہی پورے گجرات کا مسلمان سمجھ رکھا ہو جن کا وہاں وسیع کاروبارہے اوروہ خودکافی خوشحال ہیں، لیکن اتنے بڑے دینی ادارہ کا سب سے بڑے منصب پرفائز شخص سے ملک کے مسلمان بجاطور پریہ توقع رکھتے ہیں کہ وہ ان کی مظلومیت وناانصافی کے خلاف آوازبلند کرنے کی جرأت سے اگرمحروم بھی ہے توکم ازکم حکومت کے مظالم اورزیادتیوں کی علانیہ تائید تونہ کرے ،یہ ہوسکتا ہے کہ غلام وستانوی صاحب کی یہ ذاتی رائے ہو،لیکن جب کوئی شخص کسی بڑے دینی ادارہ کے کلیدی منصب پرفائز ہوتا ہے تواس کی ذاتی رائے خالص ذاتی نہ رہ کرملت کی آواز بن جاتی ہے، اوریہ بھی ہوسکتا ہے کہ انھوں نے اپنے ذاتی مفادات پرملی مفادات کوترجیح دی ہو اوریہ بات اس سے بھی مذموم ترہے کہ وہ اپنے تبصروں کی خامیوں سے واقف ہی نہ ہوں۔
کہاجاسکتا ہے کہ دارالعلوم ندوۃ العلماء شریعت کے ناقص تصور کی ایسی ہی خامیوں کو دورکرنے اورایک معتدل ومتوازن نصاب تعلیم ونظام تربیت کونافذ کرنے کے لئے قائم کیاگیا تھا اوربعض قدروں میں زوال کے باوجود آج بھی اسلامی سماج اورعلمی وفکری دنیا میں اپنا منفردوممتاز ومقام رکھتا ہے، یہی وجہ ہے کہ ندوۃ العلماء کبھی بھی ایسے گمراہ کن بیانات یالایعنی فتوؤں کی وجہ سے سرخیوں میں نہیں آیا نہ ہی اس نے کبھی حاکمان وقت کے کسی دباؤ کو قبول کیا اور ان کے اشارہ چشم وابرو کامحتاج رہا، بلکہ جہاں اس بات کا ادنیٰ سا امکان پیداہوا کہ اسے کبھی بھی مستقبل قریب یابعید میں حکومت کی مداخلت بیجا کوبرداشت کرناپڑسکتا ہے تواس نے اس امکان کاہی دروازہ بندکردیا تاکہ آزادانہ طورپروہ تعلیم کی ترویج واشاعت اورملت کی مثبت رہنمائی کا فریضہ انجام دے سکے، اس ضمن میں فقط دومثالوں پراکتفاکرتاہوں۔
مولانا ابوالکلام آزاد جودارالعلوم ندوۃ العلماء کے باقاعدہ طالب علم توکبھی نہیں رہے لیکن انھوں نے ندوہ سے اورمولانا شبلی نعمانی سے کافی اکتساب فیض کیا اور’ الندوہ‘کے معاون مدیرہونے کے زمانہ میں ہی ان کی تحریری وصحافتی صلاحیتوں کو جلاپانے کاموقع ملا، وہ اپنی شخصیت کی اس تعمیر میں ندوہ کے کردارکے معترف بھی تھے اوراپنے عروج کے زمانہ میں اس کے اوپرکافی مہربان بھی اوراس کے مسائل ومشاکل کے حل کرنے میں خصوصی طورپرتوجہ بھی کرتے تھے، انھوں نے جب آزادی کے بعد ملک کی وزارت تعلیم کا قلمدان سنبھالا۔جنھیں ملک کا پہلا وزیرتعلیم ہونے کا فخربھی حاصل ہے۔ ‘توندوۃ العلماء کے ساتھ خصوصی ربط وتعلق کی بناپر انھوں نے اپنے وزارتی اختیارات اورذاتی اثرورسوخ کے ذریعہ اسے فائدہ پہونچانے کا ارادہ کیا اورگورنمنٹ آف انڈیا کی وزارت تعلیم سے یہ تجویز منظورکرائی کہ’’ پورے ملک میں حکومت کے اخراجات پرایک ماڈل عربی کالج کاقیام عمل میں لایاجائے جس کے لئے دارالعلوم ندوۃ العلماء سے زیادہ موزوں کوئی دانش گاہ نہیں جہاں پہلے سے ہی عربی زبان وادب کی تعلیم اورقدیم نصاب تعلیم کی خرابیوں کی اصلاحات پرکافی زورصرف کیاجاتا ہے‘‘، اگرندوہ کے ارباب حل وعقد اس تجویز کوقبول کرلیتے تواس ’’مثالی عربی درسگاہ‘‘ کے تمام تراخراجات حکومت برداشت کرتی اورنامکمل عمارتوں (درسگاہوں ، دارالاقاموں، کتب خانوں اور دفاتر وغیرہ)کی تعمیرات کی حکومت تکمیل کرادیتی اس طرح ندوہ کے ذمہ داران فراہمی سرمایہ کی ایک بڑی درد سری سے بچ جاتے، بظاہر یہ ایک بڑی ہی پرکشش اوردلآویز تجویز تھی،جس سے فوری طورپر ندوہ ترقی کے بام عروج پرپہونچ سکتا تھا اورعالم اسلام میں اس کی شہرت کو چارچاند لگ سکتے تھے، لیکن ندوۃ العلماء کے دوراندیش ناظم ڈاکٹر سیدعبدالعلی صاحب برادرگرامی مولانا سیدابوالحسن علی ندوی رحمہ اللہ اور حال سے زیادہ مستقبل پرنظر رکھنے والے ان کے رفقاء اور دردمندان ملت نے اس تجویز کو خوش اسلوبی کے ساتھ مسترد کردیا ،اگرآج کے تناظر میں اس فیصلہ کودیکھاجائے تواسے عجلت میں اٹھایا ہوا غیردانشمندانہ قدم کہاجائے گا کیونکہ اب نہ صرف حالات وظروف بلکہ اخلاقی قدریں بھی تبدیل ہوگئی ہیں، اوراب صرف وقتی فوائد، جلب منفعت اورمادی منافع پرہی مدارس کی نظررہتی ہے اوریہ چیز اوریہ تصورمدارس کے مقاصد قیام سے کہاں کہاں متصادم ہوتی ہے اس کی طرف توجہ کی فرصت کم ہی ملتی ہے، بہرحال مذکورہ بالا پیش کش آئی تھی مولانا ابوالکلام آزاد کی جانب سے جن کے اخلاص ودردمندی اورنیک نیتی ہی نہیں ملت کی تئیں فکرمندی سے انکارنہیں کیاجاسکتا تھا، لیکن اس کے باوجود ندوہ کی مجلس انتظامی کی ایک باقاعدہ میٹنگ میں یہ تجویز منظورکی گئی کہ اس پیش کش کوقبول کرنے سے بایں انداز معذرت کردیا جائے کہ مولانا ابوالکلام آزاد کوناگوار بھی نہ محسوس ہواورندوہ اس کوقبول کرکے اس حکومت کاممنون احسان بھی نہ ہوجس کی پالیسیاں ابھی مسلمانان ہند کے حق میں واضح بھی نہیں ہیں، بہرحال مستقبل کے انھیں اندیشوں کے تحت اس پیش کش کوخوش اسلوبی سے مسترد کردیاگیا کہ آج وزارت تعلیم کے منصب پرمولانا ابوالکلام آزاد جیسی پرکشش شخصیت فائز ہے جو ندوہ کے مقصدقیام سے واقف بھی ہیں اوراس سے پوری طرح متفق بھی اورجن کی حیثیت خاندان کے ایک سرپرست اعلی کی سی ہے اورجوخود ندوہ کے مستقل رکن انتظامی ہیں اوران کے ہوتے ہوئے اس کے کسی ایک شق میں بھی حکومت کی مداخلت کاکوئی امکان نہیں، لیکن کل کوئی دوسرا شخص وزیرتعلیم ہوسکتا ہے جوضروری نہیں کہ مسلمان ہو اوریہ بھی ضروری نہیں کہ مولانا آزاد جیسی دردمندی واخلاص کے جذبات سے مالامال ہو۔لہذا اس بات کوخارج ازامکان نہیں قراردیاجاسکتا کہ کل بھی حکومت یااس کی وزارت تعلیم اس کی آزادی کومحدود کرکے اس میں بیجا مداخلت نہیں کرے گی، مستقبل کے انھیں اندیشوں اورخدشات کوسامنے رکھ کراس کے بابصیرت ارکان عاملہ نے اس پیش کش کوقبول نہیں کیا، کیاآج کے دیگردینی وملی تعلیمی ادارے بھی اسی اخلاقی جرأت ،بالغ نظری اوردوراندیشی کامظاہرہ کرسکتے ہیں جہاں حقیر مالی مفادات کے لئے سب کچھ قربان کردینے، ہرخوبی وانفرادیت سے دستبردارہونے اوراپنے بنیادی مقاصدتک کونظرانداز کرنے کے مظاہر عام ہیں۔
دوسری مثال اورسامنے رکھیں اورغورکریں کہ ندوۃ العلماء کس طرح صرف ہندوستان ہی نہیں عالم اسلام کے مسائل کواپنامسئلہ اوراس کا درداپنادردسمجھتارہا ہے اورہمیشہ عالم اسلام کے مصائب میں ذہنی طورپر شریک رہاہے اور ؂
’’تیرادرد ،دردِتنہا،مراغم ،غمِ زمانہ ‘‘
کی مجسم تصویربنارہا ہے اوربارہا اس نے اس میں اپنے ذاتی مفادات کونظرانداز کیاہے، ۱۹۰۸ء ؁ سے ندوۃ العلماء کوحکومت ہند کی انگریزسرکار کی جانب سے ایک معقول تعلیمی گرانٹ جاری تھا، جوکسی انتظامی یاتعلیمی مداخلت کے بغیر تھا اورندوہ کو اسے قبول کرنے میں اپنے کسی امتیاز وخصوصیت سے محروم نہیں ہوناپڑتاتھا، لیکن ایک حقیرسی رقم کے لئے اسے ایک ایسی غیراسلامی حکومت کاممنون احسان ہوناپڑتا تھا جوترکی کی اس اسلامی حکومت سے برسرپیکار تھی جو خلافت عثمانیہ کی حیثیت سے مسلمانوں کی عظمت کاآخری نشان تھی، ارباب ندوہ کا ضمیرنہیں گوارہ کرتا تھا کہ جوحکومت دنیا میں مسلمانوں کی عظمت رفتہ کے آثار کو مٹانے پر تلی ہو اس کے کسی احسان وانعام کوقبول کریں ،حالانکہ یہ احسان نہیں ان کاحق تھا، لیکن مجلس انتظامیہ نے ایک قرارداد منظورکرکے اسے بند کرنے کا فیصلہ کیا اورحکومت کواس کی اطلاع دے دی کہ ہم آئندہ سے حکومت کی یہ امداد قبول کرنے سے معذورہیں۔
دارالعلوم دیوبند اور اس کے نقش قدم پر چلنے والے مدارس اوردارالعلوم ندوۃ العلماء اوراس کے وضع کردہ اصولوں کواپنانے والے مدارس کے درمیان یہ فرق بڑاواضح ہے ،ندوہ کے دیگر قابل ذکراوصاف میں سے ایک نمایاں وصف ہمیشہ رہاہے کہ اس نے حکومت وقت کی چاپلوسی یا اس کی خوشامد پسندی سے ہمیشہ گریزکیاہے، اورسیاسی نوعیت کی فتوی بازیوں سے بھی ہمیشہ پرہیز کیا ہے جس کی وجہ سے عامۃ الناس میں بھی اورحکومت کی نظرمیں بھی اس کا وقارواحترام ہمیشہ باقی رہاہے اوراسی وجہ سے کبھی میڈیا یا سرکاری اہل کاروں کویہ جرأت نہیں ہوئی ہے کہ اسے طنزوتضحیک کا نشانہ بناسکیں اوراس کے کسی فیصلہ یارائے کوسڑکوں پراچھال سکیں جب کہ بدقسمتی سے دیوبند اس وصف سے محروم رہا ہے اوراس کی حیثیت ندوۃ العلماء کی طرح ہرسطح پرغیرمتنازعہ نہیں رہی ہے کیونکہ اس نے عوام کوسیاسی مشو رے دے کراپنی متنازعہ سیاسی وابستگیوں کوظاہر کرکے اپنی حیثیت اوروقار کو مجروح کیاہے۔
(جاری)
***

No comments:

Post a Comment