Thursday, May 12, 2011

رسول اکرمﷺ کی ولادت سے ایک ہزار سال قبل مدینہ منورہ میں آپ کے لئے مکان کی تعمیر؟ jan-feb 2011

ڈاکٹرسیدسعیدعابدی
صدرشعبۂ اردو،جدہ ریڈیو،سعودی عرب
رسول اکرمﷺ کی ولادت سے ایک ہزار سال قبل
مدینہ منورہ میں آپ کے لئے مکان کی تعمیر؟
مسئلہ: ایک صاحب اپنے خط میں تحریر فرماتے ہیں:
میں نے ایک اردورسالے میں پڑھاہے کہ ہجرت کے بعدرسول اللہﷺ نے مدینہ طیبہ میں حضرت ابوایوب انصاری رضی اللہ عنہ کے مکان میں اس لئے قیام فرمایاتھا کہ درحقیقت وہ آپ ہی کامکان تھا نہ کہ حضرت ابوایوب انصاری رضی اللہ عنہ کا جس کی تفصیل درج ذیل ہے:
آنحضورﷺ کی ولادت سے تقریباً ایک ہزارسال پہلے ایک بہت بڑا بادشاہ گزرا ہے جس کانام تبع بن حسان تھا، وہ زبورکا پیروکار تھا اور بہت نیک انسان تھا ایک دفعہ تقریبا ڈھائی لاکھ افراد کوساتھ لے کرمکہ مکرمہ میں حاضرہوا، اورکعبہ پرریشمی غلاف چڑھایا، واپسی پرجب اس کا گزراس جگہ سے ہواجہاں اب مدینہ آباد ہے تواس کے ساتھ سفرکرنے والے چارسو علماء نے خواہش ظاہرکی کہ ہم یہاں مستقل طورپر قیام کرناچاہتے ہیں ،بادشاہ نے وجہ پوچھی، توانھوں نے بتایا کہ ہماری مذہبی روایات کے مطابق یہ جگہ ایک عظیم نبی احمدﷺ کی جلوہ گاہ بنے گی، ہم یہاں اس لئے رہنا چاہتے ہیں کہ شاید ہمیں اس نبی کی دیدار اورخدمت کی سعادت حاصل ہوجائے، نیک دل بادشاہ نے نہ صرف یہ کہ انھیں اجازت دیدی بلکہ سب کے لئے مکانات بھی تعمیر کروائے اوررہائش کی جملہ ضروریات مہیا کردیں۔
پھرایک مکان خصوصی طورپر نبوایا اورآنے والے نبی کے نام ایک خط لکھا جس میں اقرار کیاکہ میں آپ پر ایمان لاچکاہوں اوراگر آپ کاظہورمیری زندگی میں ہوگیا تومیں آپ کا دست مبارک بن کررہوں گا،اس کے بعدیہ دونوں چیزیں، مکان اورخط اس عالم کے حوالہ کردیں جو ان میں سب سے زیادہ متقی اورپرہیز گار تھا اورکہا کہ فی الحال تم اس مکان میں رہو اوریہ خط سنبھال کررکھو، اگرتمہاری زندگی میں ان نبی کا ظہورہوگیا تویہ دونوں چیزیں ان کے حوالہ کردینا ورنہ اپنی اولاد کو وصیت کرجانا۔
اس وصیت پرنسلاً بعدنسلٍ عمل ہوتا رہا اوردونوں چیزیں اس پرہیز گار انسان کی اولاد میں منتقل ہوتی رہیں،اسی طرح ایک ہزار سال کا طویل عرصہ گزرگیا اب اس مرد صالح کی اولاد میں سے حضرت ابوایوب انصاری رضی اللہ عنہ اس مکان کے محافظ ونگہبان تھے اور خط بھی انہی کے پاس محفوظ تھا۔
پھرجب اس مکان کے حقیقی مالک ووارث ﷺ رونق آرائے بزم عالم ہوئے اورابوایوب ان پرایمان لائے توابولیلی کو خط دے کرمکہ بھیجا کہ آپ کی خدمت میں پیش کردیں، ابولیلی نے اس سے پہلے آنحضرت ﷺ کو نہیں دیکھا تھا مگر آنحضرت ﷺ کی نگاہوں سے توکوئی شئی اوجھل نہ تھی، ابولیلی پرنظر پڑتے ہی ارشاد فرمایا:’’تم ابولیلی ہو اورتبع اول کاخط لے کرآئے ہو؟‘‘۔
دراصل اللہ تعالیٰ نے ابوایوب رضی اللہ عنہ والے مکان کو اولین جلوہ گاہ مصطفی ﷺ کے طورپر اس لئے منتخب فرمایا تھا کہ وہ مکان بنایا ہی آپ کے لئے گیا تھا، جو ایک ہزار سال سے اپنے حقیقی وارث کی راہ تک رہا تھا.....‘‘۔
جواب: اس واقعہ کا نہ کوئی سر ہے اورنہ پیر بلکہ ان لوگوں کے ذہنوں کی اختراع ہے جواللہ کی کتاب اورصحیح احادیث میں بیان کردہ سیرت پاک کے واقعات کوکافی تصورنہیں کرتے اس واقعہ کا ذکر علامہ شیخ احمد بن محمدقسطلانی رحمہ اللہ متوفی ۹۲۳ھ نے اپنی مشہور کتاب’’ المواھب اللدنیہ‘‘ میں مختصراً کیا ہے اورحوالہ مشہور سیرت نگار محمد بن اسحاق کی کتاب’’المبتدا‘‘کا دیاہے، لیکن یہ واقعہ نقل کرنے کے بعدانھوں نے لکھا ہے: ’’اسی طرح یہ واقعہ’’تحقیق النصرہ‘‘ میں بیان کیاہے۔
اس عبارت سے معلوم ہوتا ہے کہ قسطلانی نے یہ واقعہ براہ راست ’’المبتدا‘‘سے نہیں نقل کیاہے بلکہ شیخ زین الدین بن حسین مراغی کی کتاب ’’تحقیق النصرۃ فی تاریخ دارالھجرۃ‘‘ سے نقل کیاہے جس میں ابن اسحاق کی کتاب’’المبتدأ‘‘ کاحوالہ دیاگیاہے۔
قسطلانی رسول اکرمﷺ کی ہجرت مدینہ اورحضرت ابوایوب انصاری رضی اللہ عنہ کے مکان میں رونق افروز ہونے سے متعلق صحیح روایات کے ذکرکے بعدلکھتے ہیں:
’’ابن اسحاق نے ذکرکیاہے کہ ابوایوب کے اس مکان کی تعمیرنبی ﷺ کے لئے’’تبع اول‘‘ نے اس وقت کی تھی جب وہ مدینہ سے گزراتھا اوروہاں چارسوعلماء کو چھوڑ دیاتھا اورنبی ﷺ کے نام ایک مکتوب لکھ کر ان علماء میں سب سے بڑے عالم کو دیتے ہوئے اس سے یہ طلب کیاتھا کہ اس کو نبی ﷺ کی خدمت میں پیش کردینا، اس کے بعدیہ مکان ایک شخص سے دوسرے کو منتقل ہوتا رہا یہاں تک کہ حضرت ابوایوب رضی اللہ عنہ کی تحویل میں آگیا جومذکورہ عالم کی اولاد میں سے تھے اوراہل مدینہ کے جن لوگوں نے رسول اللہﷺ کی نصرت وحمایت کی تھی وہ سب انہی علماء کی اولاد تھے جن کو ’’تبع اول‘‘ نے مدینہ میں چھوڑدیا تھا، اس طرح رسول اللہ ﷺ خود اپنے مکان میں اترے تھے نہ کہ کسی اورکے مکان میں ۔(ص:۳۱۱۔۳۱۲ ج۱)
یہ واقعہ مزید تفصیلات کے ساتھ علامہ محمد زرقانی بن عبدالباقی رحمہ اللہ متوفی ۱۱۲۲ھ نے اپنی کتاب’’شرح علی المواھب اللدنیہ‘‘ میں کیاہے۔
علامہ قسطلانی اورزرقانی کا شمار مصرکے ممتاز علماء میں ہوتا ہے، ان دونوں کوتاریخ وسیرکے علاوہ حدیث کا بھی گہرا اوروسیع علم حاصل تھا، چنانچہ شیخ قسطلانی کی شرح بخاری: ’’ارشاد الساری إلی شرح صحیح البخاری ‘‘اورزرقانی کی’’مختصر المقاصد الحسنۃ للسخاوی‘‘ کو بڑی شہرت حاصل ہے۔
لیکن چونکہ ان دونوں بزرگوں کا نہ صرف یہ کہ تصوف سے تعلق تھا بلکہ ان کا شمار ان صوفیا میں ہوتا تھا جو’’راہ سلوک‘‘ ہی کو راہ نجات یا ’’راہ وصال‘‘ سمجھتے ہیں اس لئے ان کی کتابوں میں بے بنیاد اورمبالغہ آمیز واقعات کی بھرمار ہے اوراس سلسلے میں ’’المواھب اورشرح المواھب‘‘ دونوں سیرت کی ان کتابوں میں سرفہرست ہیں جن میں رسول اکرم فداہ ابی وامی ﷺ کی سیرت پاک کے صحیح اور مستند واقعات کے ساتھ ایسے بے شمار واقعات بھی ہیں جوبالکل بے بنیاد اور من گھڑت ہیں۔
قسطلانی اورزرقانی نے مذکورہ واقعہ محمدبن اسحاق کی کتاب’’ المبتدأ‘‘ سے لیاہے جیساکہ اوپربیان کیاجاچکا ہے اورمحمدبن اسحاق نے اس کی کوئی سند نہیں بیان کی ہے اوراگر وہ اس کی سند بیان بھی کرتے تواپنی ثقاہت کے مختلف فیہ ہونے کی وجہ سے ان کی یہ سند زیادہ سے زیادہ ’’حسن‘ کے درجے کو پہنچتی، اب جبکہ یہ واقعہ انھوں نے سند کے بغیر بیان کیا ہے اس لئے اورسیرت ابن ہشام میں ان کے حوالہ سے بیان کردہ واقعہ سے بالکل مختلف ہونے کی وجہ سے ’’ساقط الاعتبار‘‘ ہوجاتا ہے،اسی سبب سے مشہور سیرت نگارعلامہ ابومحمد عبدالملک بن ہشام بن ایوب حمیری نے اپنی کتاب: سیرت ابن ہشام میں اس کاکوئی ذکرنہیں کیاہے جبکہ وہ محمد ابن اسحاق کی روایات ہی پرمبنی ہے اوراس میں جہاں سیرت پاک کے واقعات سند کے ساتھ بیان ہوئے ہیں وہیں بہت سارے واقعات سند کے بغیر بیان ہوئے ہیں ، بہرحال ابن ہشام کی سیرت میں اس واقعہ کے مذکور نہ ہونے سے دوباتیں معلوم ہوتی ہیں،یا تواس واقعہ کی نسبت ابن اسحاق سے صحیح نہیں ہے یا یہ اپنے باطل ہونے کی وجہ سے اس قابل نہیں تھا کہ وہ اس کواپنی کتاب میں نقل کرتے۔
البتہ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے فتح الباری (ص:۱۷۵۴،ج ۲) میں صیغۂ تمریض ’’کہاجاتاہے‘‘ کے ساتھ لکھا ہے کہ’’جب تبع نے حجاز پرلشکر کشی کی تواس کا گزر یثرب سے ہوا جہاں اس کے پاس چارسو یہودی علماء آئے اوراس کو بیت اللہ کی تعظیم کے وجوب سے آگاہ کرتے ہوئے اس کویہ بھی بتایا کہ ایک نبی مبعوث ہونے والے ہیں جن کا مسکن یثرب ہوگا، یہ سن کرتبع نے ان کی تکریم کی اوربیت اللہ کی تعظیم اس پر غلاف چڑھاکر کی اورایک خط لکھ کراس کو ان علماء میں سے ایک کے حوالہ کرتے ہوئے کہا کہ اگراس کو آنے والے نبی کا زمانہ ملے تووہ یہ خط ان کی خدمت میں پیش کرے، کہاجاتا ہے کہ ابوایوب اسی شخص کی اولاد میں سے تھے، ابن ہشام نے اس کو اپنی کتاب ’’التیجان‘‘ میں بیان کیاہے اورحافظ ابن عساکر نے تاریخ دمشق میں تبع کے ذکر کے ضمن میں اس واقعہ کا ذکر کیاہے‘‘۔
اولاً توحافظ ابن حجر نے ’’کہاجاتاہے‘‘ کے ذریعہ اس کے ضعیف اورناقابل اعبتارہونے کی طرف اشارہ کردیاہے ،ثانیاً انھوں نے جہاں یہ لکھا ہے کہ تبع کا یہ سفرحجاز اس پرلشکر کشی کی غرض سے تھا وہیں انھوں نے ابن ہشام کی کتاب’’التیجان‘‘کے حوالہ سے یہ بھی صراحت کردی ہے کہ مدینہ آمد پراس کے پاس مدینہ کے چارسویہودی علماء حاضرہوئے، جبکہ المواھب اورشرح المواھب میں یہ دعوی کیاگیا ہے کہ یہ علماء اس کے ساتھ تھے اورانھوں نے اس سے اپنی اس خواہش کااظہار کیاتھا کہ ان کو وہاں رہنے دے۔
واضح رہے کہ ’’شرح المواھب‘‘ اور’’سائل‘‘ کے ذکرکردہ رسالے میں یہ دعویٰ کیاگیا ہے کہ مدینہ سے گزرنے والا وہ بادشاہ ’’تبع اول بن حسان حمیری ‘‘تھا اور یہ واقعہ رسول اللہﷺ کی ولادت مبارکہ سے ایک ہزار سال پہلے گزرا ہے اورمذکورہ رسالے میں یہ اضافہ ہے کہ ‘‘ وہ زبورکا متبع اوربڑا صالح انسان تھا، جبکہ سیرت ابن ہشام اوردوسری کتابوں میں محمد ابن اسحاق کے حوالہ سے کسی سند کے بغیر جوواقعہ بیان کیا گیا ہے اس میں یہ صراحت ہے کہ مدینہ سے گزرنے والا وہ بادشاہ دوسرا تبع تھا جس کانام:’’تبان اسعد ابوکرب‘‘ تھا اورتبع اول کانام زیدبن عمروتھا اوروہ اہل مدینہ سے لڑنے کے لئے وہاں گیاتھا،تاکہ وہ ان کو تباہ کردے، لیکن اس کے پاس بنوقریظہ کے دوماہرعالم آئے اوراس کو ایسا کرنے سے منع کیا اور جب تبع نے ان سے اس کا سبب دریافت کیا توانھوں نے اس کوبتایا کہ مدینہ آخری زمانے میں قریش میں پیداہونے والے نبی کا دارالہجرت بننے والا ہے یہ سن کروہ مدینہ کو تباہ کرنے سے بازرہا اوران کا دین قبول کرلیا، پھریمن جاتے ہوئے وہ مکہ مکرمہ گیا وہاں بیت اللہ کا طواف کیا اورکعبہ پرغلاف چڑھایا اوران دونوں یہودی عالموں کولے کر یمن واپس گیا ۔(سیرت ابن ہشام ص:۱۹۔۲۹،ج ۱،الہدایۃ والنہایۃ ص:۵۲، ۵۵ج ۲،الکامل ص:۱۱۸، معالم التنزیل ص:۱۱۷۷،۱۱۷۸)
دراصل تبع یمنی قبیلہ حمیر کے بادشاہوں کا لقب تھا تبع کی جمع تبابعہ آتی ہے، یہ لوگ بت پرست تھے(ابن ہشام ص:۲۳،ج ۱) یہ صیفی بن سبأ اصغربن کعب بن زید کی اولاد تھے۔ (جمہرۃ انساب العرب ص:۴۳۸)ان کا عہد حکومت ۱۱۵ ؁ قبل مسیح سے ۵۲۵ھ ؁ تک رہا (تاریخ آداب العرب ص:۷۹، ج۱، تفہیم القرآن ص:۵۶۹، ج ۷۴) ان کا نسب نامہ محفوظ نہیں ہے اس میں بہت اختلاف پایاجاتا ہے اوران کی تاریخ کے بہت کم واقعات ایسے ہیں جوصحیح ہیں ۔(جمہرۃ انساب العرب ص:۴۳۹)
ایک حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ ان میں سے ایک تبع مسلمان ہوگیا تھا یعنی اس نے ابن ابراہیم علیہ الصلاۃ والسلام قبول کرلیا تھا، حدیث کے الفاظ ہیں:’’لا تَسُبُّوْا تَبَّعًا، فَاِنَّہُ قَدْ أسْلَمَ‘‘تبع کو برامت کہو، کیونکہ وہ مسلمان ہوگیاتھا۔
یہ حدیث حضرت سہل بن سعد ساعدی، عبداللہ بن عباس اور عائشہ رضی اللہ عنہم سے مروی ہے جوانفرادی سندوں سے توضعیف ہے مگرتمام سندوں سے اس کو حسن درجہ حاصل ہے (ملاحظہ ہوالصحیحہ ص:۵۴۸، ۵۲۹،ج ۵) اس حدیث کی ایک سند میں مسلمان ہونے والے تبع کا نام’’اسعد‘‘ آیا ہے جس کاذکر اوپرتبان اسعد ابوکرب کے نام سے آیا ہے یہ تبع اول نہیں، بلکہ تبع ثانی تھا۔
اوپرکی وضاحتوں سے معلوم ہواکہ تبع اول یاتبع دوم کسی کا بھی زمانہ رسول اللہﷺ کی ولادت مبارکہ سے ایک ہزارسال پہلے نہیں تھا بلکہ ان کے عہدحکومت کی ابتداء ۱۱۵ ؁ قبل مسیح میں ہوئی اس طرح تبع اول کازمانہ نبی کریمﷺ کی ولادت سے ۶۸۵ سال قبل قرارپاتا ہے اورجوتبع ایمان لے آیاتھا اس کازمانہ نبیﷺ کی پیدائش سے ۶سوسال پہلے ہوسکتا ہے۔
دوم مدینہ کے جن عالموں کے ہاتھوں اس نے دین ابراہیم قبول کیا وہ مدینہ کے دویہودی عالم تھے نہ کہ چارسوعالم۔
اورمدینہ میں حضرت ابوایوب انصاری رضی اللہ عنہ جس مکان میں مقیم تھے نہ وہ مکان تبع اورغیرتبع نے نبیﷺ کے لئے تعمیرکیاتھا اورنہ حضرت ابو ایوب کا تعلق ان علماء میں سے کسی سے تھا، کیونکہ وہ علماء یہودی تھے جبکہ حضرت ابوایوب رضی اللہ عنہ قوم سبا سے نسبت رکھتے تھے، جس کی تفصیل درج ذیل ہے:
۴۵۰ء ؁ یا ۴۵۱ء ؁ میں سلہ مأرب کے پھٹنے سے جوبہت بڑاسیلاب آیا اس کی وجہ سے قوم سبا کا ایک شخص عمروبن عامراپنے بال بچوں کو لے کروہاں سے نکل بھاگا ،اس کے تین بیٹوں میں سے ایک بیٹے ثعلبہ کی اولاد میں ایک شخص حارثہ تھا جس کے دوبیٹے ایک ہی بیوی قبیلہ بنت ارقم کے بطن سے تھے، ان میں سے ایک کانام اوس اوردوسرے کانام خزرج تھا، اسی آخرالذکر خزرج کی اولاد سے حضرت ابوایوب انصاری رضی اللہ عنہ کاتعلق تھا۔(ملاحظہ ہو: السیرۃ النبویہ فی ضوء المصادر الاصلیہ ص:۵۹اور سیرت سرورعالمﷺ ص:۶۷۹،ج دوم)
حضرت ابوایوب انصاری رضی اللہ عنہ کا نسب نامہ بیان کرنے سے قبل یہ واضح کردینا چاہتاہوں کہ ایک صحیح حدیث میں قوم سبأ کے نقل مکانی کرنے کا ذکرآیاہے، حضرت فروہ بن مسیک مرادی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہتے ہیں: ایک صاحب نے رسول اللہﷺ سے عرض کیا:اے اللہ کے رسولﷺ !سبأکیاہے؟ زمین یا عورت؟نبیﷺ نے فرمایا:
سبأ نہ زمین ہے اورنہ عورت، بلکہ وہ ایک مردکانام ہے جس کے دس عرب لڑکے پیدا ہوئے، ان میں چھ نے یمن میں سکونت اختیار کی اورچارنے شام کارخ کیا،جنھوں نے شام کا رخ کیا وہ لخم، جذام، غسان اورعاملہ ہیں اورجویمن میں باقی رہے وہ ازد، اشعری، حمیر،حذحج، انمار اورکندہ ہیں۔ (ابوداؤد، ح ۳۹۸۹،ترمذی ۳۲۲۲ اورابن ماجہ ح۱۹۴)
حضرت ابوایوب رضی اللہ عنہ کانام خالد تھا ان کانسب نامہ ہے:خالد بن زیدبن کُلیب بن ثعلبہ بن عبدعوف بن غنم بن مالک بن نجار بن ثعلبہ بن خزرج(جمہرۃ انساب العرب ص:۳۴۸ ، سیر أعلام النبلاء،ص:۵۱، ج ۳،الإصابہ ص:۴۰۵،ج ۱)
یعنی حضرت ابوایوب انصاری رضی اللہ عنہ کسی یہودی عالم کی اولادنہیں تھے،ہجرت کے موقع پر جب رسول اللہﷺ مدینہ میں رونق افروز ہوئے توہرشخص کی یہ خواہش تھی کہ اس کوآپ کی میزبانی کاشرف حاصل ہو،مگرآپ اونٹنی پرسوار رہے اورلوگوں سے فرماتے رہے کہ اونٹنی کا راستہ چھوڑدو کیونکہ یہ مامورہے،جب وہ بنی مالک بن نجار کے محلے میں پہنچی توٹھیک اس جگہ جاکربیٹھ گئی جہاں مسجدنبوی ہے، مگرنبیﷺ اس سے اترے نہیں پھروہ اٹھی اورکچھ دورچل کر دوبارہ اسی جگہ پلٹ آئی اوروہیں بیٹھ گئی، اس وقت نبیﷺ اس پرسے اترگئے اورلوگوں سے فرمایا:’’ہمارے اہل میں سے کس کاگھریہاں سے قریب ہے؟ حضرت ابوایوب انصاری رضی اللہ عنہ نے عرض کیا،اے اللہ کے رسولﷺ! میرا، یہ میراگھر ہے اوریہ میرا دروازہ ہے‘‘۔(صحیح بخاری ح ۳۹۰۶،۳۹۱۱)
اس حدیث میں یہ صراحت ہے کہ اونٹنی مسجد نبوی کی جگہ بیٹھی تھی اوردوسری چیزیہ ہے کہ نبیﷺ کے سوال پرحضرت ابوایوب انصاری رضی اللہ عنہ نے یہ عرض کیا:یہ میراگھرہے اگران کا گھرنبیﷺ کے لئے تعمیرکیاگیا ہوتا جیساکہ’’ المواھب، شرح المواھب ‘‘اورمذکورہ رسالے میں دعوی کیاگیا ہے، تووہ یہ عرض کرتے کہ اے اللہ کے رسولﷺ! یہ ہے آپ کاگھر جوایک ہزارسال سے آپ کا انتظار کررہا ہے، اورخودنبیﷺ اپنے اہل میں سے کسی قریب کے گھرکی بابت نہ دریافت فرماتے، بلکہ یہ فرماتے :میراگھرکہاں ہے؟۔
یادرہے کہ نبیﷺ نے ’’اپنااہل‘‘ جوفرمایاتھا وہ اس لئے کہ وہ بنونجار کا محلہ تھا اوریہیں آپ کا ددھیال تھا کیونکہ آپ کی پردادی سلمی بنت عمروبن زید کا تعلق بنونجار سے تھا۔
مذکورہ روایت میں یہ دعویٰ کیاگیا ہے کہ تبع کے ساتھ ڈھائی لاکھ فوج اورچارسو علماء تھے یہ دعوی خود اس روایت کے باطل اور من گھڑت ہونے پردلالت کرتاہے، کیونکہ اس زمانے میں یمن کے کسی بادشاہ کی معیت میں اتنی بڑی فوج کاہونا ناممکنات میں سے ہے، اس سے پانچ صدی بعدابرہہ مکہ پرچڑھائی کے لئے ۶۰ہزار سے زیادہ فوج نہیں جمع کرسکاتھا!! ***

No comments:

Post a Comment