Monday, May 9, 2011

Jan.feb-2011-ویلنٹائن ڈے: ایک جائزہ

مولاناریاض احمدسراجی


ویلنٹائن ڈے: ایک جائزہ

اس روئے زمین پرمختلف ادیان وملل کے ماننے والے موجود ہیں اورہرایک کے اپنے کچھ مخصوص عادات واطوار اورشعائر ہیں جن سے ایک دوسرے کے مابین فرق وامتیازہوتاہے، چنانچہ انھیں ادیان میں سے ساری دنیا کے لئے اللہ تعالیٰ کابھیجاہوا پسندیدہ دین اسلام ہے، اس کے بھی اپنے کچھ عادات وشعائر اورمظاہرہیں جن سے وہ غیروں سے ممتاز ہے، جس طرح غیرادیان کے اندرسال میں کچھ خوشی کے دن مقرر ہیں ،اسی طرح اسلام کے اندر بھی خوشی کے دن مقررہیں،اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کے لئے سال کے اندرخوشی کے دودن (عیدالفطر وعیدالاضحی) متعین فرمائے ہیں، اسلام کے اندران دوعیدوں کے علاوہ اورکوئی شرعی عیدنہیں ہے،اسلام مسلمانوں کوان دوعیدوں کے علاوہ نہ توکسی دوسری عیدکے ایجاد کی اجازت دیتا ہے اورنہ ہی غیروں کی عیدوں میں شرکت کی اجازت دیتاہے اس لئے کسی مسلمان کے لئے یہ قطعاً جائز نہیں کہ وہ اپنی طرف سے کوئی خوشی کا دن ایجاد کرے یاغیروں کی خوشیوں میں شامل ہو اوراگر کوئی شخص ایساکرتا ہے تواس کا یہ عمل بدعت قرارپائے گا اوروہ مبتدع شمار ہوگا اوراگرکوئی شخص غیروں کی عیدمیں شرکت کرتا ہے تووہ آثم وگنہگار ہوگا۔
یہ بات تاریخی حقائق سے ثابت ہے کہ جزیرۂ عرب کے اندر اہل کتاب سکونت پذیرتھے ، یہاں تک کہ حضرت عمرفاروق رضی اللہ عنہ نے اپنے عہد خلافت میں جزیرہ عربیہ سے ان کا مکمل صفایا کردیا اورانھیں نکال بھگایا، نیزمدینہ منورہ کے اندریہود آباد تھے اورنبی کریمﷺ نے ان سے مصالحت کی تھی یہ لوگ مدینہ کے اندراپنا تہوار مناتے تھے لیکن قطعا یہ ثابت نہیں ہے کہ مسلمانوں نے ان کے تہواروں میں شرکت فرمائی ہو، یہ اس بات پر صریح دلیل ہے کہ اسلام نے انھیں غیروں کی عیدوں اورتہواروں میں شرکت سے منع فرمایا تھا ،ورنہ وہ لوگ شرعی مانع ورکاوٹ نہ ہونے کی بناپر طبیعتا ان کی عیدوں میں شامل ہوتے، مسلمان عہدرسالت سے اسی چیز پرقائم رہے لیکن جب حضرت عمررضی اللہ عنہ کا زمانہ آیا توکچھ لوگ تفریحا ان کا تہوار دیکھنے جانے لگے ،چنانچہ حضرت عمراوردوسرے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے انھیں اس سے روک دیا۔(اقتضاء الصراط المستقیم ملخص لابن تیمیہ؍۲۰۷)
دورحاضرمیں غیرمسلم اقوام اپنے عادات واطوار، تہذیب وثقافت مسلمانوں کے اندررائج کرنے کی پوری کوشش میں مصروف ہیں ،اورآج کے یہ مسلمان شریعت سے کورے ونابلدہونے کے ناطے ان کے دام میں پھنستے چلے جارے ہیں، انھیں تہواروں میں سے ایک تہوار’’ویلنٹائن ڈے‘‘ کے نام سے منایاجاتا ہے، بہترہوگا کہ مزید کچھ لکھنے سے قبل اس کاتاریخی پس منظر ذکرکردیاجائے۔
تاریخی پس منظر:۔ پادری ویلنٹائن تیسری صدی عیسوی کے اواخرمیں رومانی بادشاہ کلاودیس ثانی کے زیرحکومت رہتاتھا کسی نافرمانی کی بناپربادشاہ نے پادری کو جیل کے حوالے کردیا، جیل میں جیل کے ایک چوکیدار کی لڑکی سے اس کی شناسائی ہوگئی اوروہ اس کا عاشق ہوگیا، یہاں تک کہ اس لڑکی نے نصرانیت قبول کرلیا اوراس کے ساتھ اس کے ۴۶ رشتہ داربھی نصرانی ہوگئے، وہ لڑکی ایک سرخ گلاب کا پھول لے کراس کی زیارت کے لئے آتی تھی، جب بادشاہ نے یہ معاملہ دیکھا تواسے پھانسی دینے کاحکم صادرکردیا، پادری کو جب یہ پتا چلا تواس نے یہ ارادہ کیا کہ اس کا آخری لمحہ اس کی معشوقہ کے ساتھ ہو،چنانچہ اس نے اس کے پاس ایک کارڈ ارسال کیا جس پرلکھاہوا تھا’’نجات دہندہ ویلنٹائن کی طرف سے‘‘ پھراسے ۱۴؍فروری ۲۷۰ء ؁ کو پھانسی دے دی گئی، اس کے بعد یوروپ کی بہت سی بستیوں میں ہرسال اس دن لڑکوں کی طرف سے لڑکیوں کوکارڈ بھیجنے کا رواج چل پڑا، ایک زمانہ کے بعد پادریوں نے سابقہ عبارت کو اس طرح بدل دیا، ’’پادری ویلنٹائن کے نام سے‘‘ انھوں نے ایسا اس لئے کیا تاکہ پادری ویلنٹائن اوراس کی معشوقہ کی یادگار کوزندہ وجاوید کردیں۔(عقیدہ وعبادات اورعادات کے متعلق بعض مخالفات واغلاط مؤلف:عطاء الرحمن ضیاء اللہ ص:۶۳،۶۴)
عصرحاضرمیں پوری دنیا کے اندراس دن کو بڑی شدومد کے ساتھ منایا جاتا ہے، لڑکے اورلڑکیاں اس دن کا بہت اہتمام کرتی ہیں، ویلنٹائن کارڈ بھیجے جاتے ہیں، اس دن کی مبارکبادی دی جاتی ہے تحفوں اورہدیوں کا تبادلہ ہوتاہے خصوصا سرخ گلاب کے پھول پیش کئے جاتے ہیں، اوررقص وسرود کی محفلیں رچائی جاتی ہیں،اس طرح سے سماج کے اندرفسق وفجور فحاشی وبے حیائی کو رواج دیاجاتا ہے۔
حیف صدحیف! ہماری قوم کانوجوان طبقہ بھی اس بیماری کی چپیٹ میں ہے، ہمارے نوجوان بھائی اوربہنیں بھی غیروں کی تقلید میں اس غلط کام میں برابرکے شریک ہیں حالانکہ یہ ایک عیسائی عقیدہ ہے، بنابریں کسی مسلمان کے لئے’’ویلنٹائن ڈے‘‘ منانا یا اس کی محفلوں میں شرکت کرنا یاویلنٹائن کارڈ بھیجنا، یا سرخ گلاب بھیجنا یاتحفے اورہدیے ارسال کرنا یا کسی بھی طریقے سے اس میں شرکت کرنا قطعا جائزنہیں ہے۔
اللہ رب العالمین قرآن کریم کے اندر اپنے نیک بندوں کی تعریف بیان کرتے ہوئے فرماتا ہے(والذین لایشھدون الزوروإذامرواباللغو مرواکراما)(الفرقان:۷۲)اورجولوگ جھوٹی گواہی نہیں دیتے اورجب کسی لغوچیز پران کا گزرہوتاہے توشرافت سے گزرجاتے ہیں،اورجولوگ جھوٹی گواہی نہیں دیتے اورجب کسی لغوچیز پران کا گزرہوتاہے توشرافت سے گزرجاتے ہیں، بہت سارے تابعین کرام نے الزورکی تاویل’’أعیادالمشرکین‘‘سے فرمائی ہے یعنی رحمن کے بندوں کی ایک خوبی یہ بھی ہے کہ مشرکوں کی عیدوں میں شرکت نہیں فرماتے ہیں۔
(إقتضاء الصراط المستقیم ص:۱۹۴،إغاثۃ اللھفان ص:۲۲۱)
اس آیت کریمہ میں اللہ رب العالمین نے مشرکوں کی عیدوں کی مذمت کی ہے اوراسے ’’زور‘‘سے تعبیرکیا ہے اوران لوگوں کی مدح سرائی کی ہے جوان کی عیدوں میں شرکت سے پرہیز کرتے ہیں،معلوم ہواکہ جومشرکوں کی عیدوں میں شرکت کرتا ہے وہ عنداللہ مبغوض ہے اس لئے ہمیں اس سے اشداجتناب کی ضرورت ہے ۔
حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ’’إیاکم ورطافۃ الأعاجم وأن تدخلوا علی المشرکین یوم عیدھم فی کنائسھم‘‘عجمی زبان میں گفتگو کرنے اورمشرکوں کی عیدوں میں، ان کے کنیسوں میں داخل ہونے سے بچو۔
(إقتضاء الصراط المستقیم ص:۱۹۴)
أمیرالمؤمنین نے جب لوگوں کو مشرکوں کی عیدوں میں شمولیت اوران کے کنیسوں میں جانے سے روک دیا توپھرآپ کافرمان ان لوگوں کے بارے میں کیاہوسکتا ہے جومکمل طورسے انھیں کاکام انجام دیتے ہیں؟!!
اسی طرح عصرحاضرکے علماء کرام نے اس کی حرمت کے فتوے صادر فرمائے ہیں اورمسلمانوں کو ایسی عیدوں سے دوررہنے کی تلقین کی ہے۔
اللہ تعالیٰ سے دعاہے کہ مولیٰ ہمیں اتباع رسولﷺ کی توفیق دے اورآپ ﷺکے طریقہ وسنت پر چلائے ،غیروں کی تقلید اوربدعات وخرافات سے بچائے اورحسن عمل کی توفیق دے۔(آمین)

No comments:

Post a Comment