Wednesday, May 11, 2011

جشن عیدمیلاد النبیﷺ کی شرعی حیثیت jan-feb 2011

سعوداختر عبدالمنان سلفیؔ
استادجامعہ سراج العلوم السلفیہ،جھنڈانگر

جشن عیدمیلاد النبیﷺ کی شرعی حیثیت
نبی کریم حضرت محمد مصطفی ﷺ کی بعثت سے قبل دنیاکی حالت انتہائی ناگفتہ بہ تھی، انسانیت ظلم وجور، قتل وغارت گری ،تعدی وسرکشی کی چکی میں پس کرچُرمرارہی تھی، فسق وفجور، شرک وبت پرستی،اوہام وخرافات ،ضلالت وجہالت، بدعقیدگی وبدشگونی عام تھی اورلوگ توحید کویکسرفراموش کرچکے تھے، الغرض پوری دنیا تاریکیوں کا آماجگاہ بن چکی تھی، کسی طرف روشنی کی کوئی امیدنہ تھی کہ یکایک معبود برحق کوسسکتی بلکتی انسانیت پرترس آیا اورفاران کی چوٹیوں پر سے چراغ مصطفوی کو روشن فرماکرپوری دنیاکوجگمگایا،اورحضرت ابراہیم علیہ السلام کی دعاکو شرف قبولیت بخشتے ہوئے انسانوں کوانسانیت کے اوج ثریا پرگامزن کرنے کے لئے ایک داعی حق کو مبعوث فرمایا جس نے اپنی روشن تعلیمات اورحسن عمل وکردار سے پوری دنیا کو منورکردیا، اوراس طرح انسانیت کو ایک مرتبہ پھراپنا متاع گم گشتہ مل گیا،درودوسلام نازل ہواللہ کے اس برگزیدہ نبی اورمستودہ صفات پیغمبر پر۔زیر نظرمضمون میں اسی نبی برحق کا ذکرجمیل ہے اوران کی یادگارمیں منائے جانے والے’’جشن عیدمیلاد النبی‘‘ کی شرعی حیثیت اجاگر کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔
نبی کریمﷺ کی تاریخ ولادت:۔ جشن عیدمیلاد النبیﷺ کی شرعی حیثیت بیان کرنے سے قبل مناسب معلوم ہوتا ہے کہ ہم یہ جان لیں کہ آپﷺ کی ولادت باسعادت کب ہوئی؟ تواس سلسلہ میں مورخین اورسیرت نگاروں میں اختلاف ہے، اکثر سیرت نگاروں نے تحقیق کے ساتھ ۹؍ربیع الاول ۱ ؁عام الفیل کو آپ کا یوم پیدائش ہوناذکر کیاہے جیساکہ علامہ شبلی نعمانی لکھتے ہیں:چمنستان دہرمیں بارہا روح پرور بہاریں آچکی ہیں، چرخ نادرۂ کارنے کبھی کبھی بزم عالم میں اس سروسامان سے سجائی کہ نگاہیں خیرہ ہوگئیں لیکن آج (یعنی ۹؍ربیع الأول) کی تاریخ وہ تاریخ ہے جس کے انتظارمیں پیرکہن سال سردمہر نے کروڑوں برس صرف کردیئے.........یعنی یتیم عبداللہ ،جگرگوشۂ آمنہ ،شاہ حرم، حکمران عرب، فرمانروائے عالم، شاہ کونین عالم قدس سے عالم امکان میں تشریف فرمائے عزت واجلال ہوئے‘‘ ۔ (سیرت النبیﷺ ۱؍۱۷۰،۱۷۱)
مولانا اکبرشاہ خاں نجیب آبادی اپنی کتاب ’’تاریخ اسلام‘‘ میں لکھتے ہیں ’’۹؍ربیع الأول عام الفیل ۴۰جلوس کسری نوشیرواں مطابق ۲۲؍اپریل ۵۷۱ء ؁ بروزدوشنبہ بعدازصبح صادق اورقبل ازطلوع آفتاب آنحضرت ﷺ پیداہوئے‘‘۔(تاریخ اسلام ۱؍۷۶)
علامہ قاضی محمدسلیمان سلمان منصورپوری رحمہ اللہ فرماتے ہیں’’ہمارے نبیﷺ موسم بہارمیں دوشنبہ کے دن۹؍ربیع الأول عام الفیل مطابق ۲۲؍اپریل ۵۷۱ھ ؁ مطابق یکم جیٹھ ۶۲۶ ؁ بکر می کومکہ معظمہ میں بعداز صبح صادق وقبل ازنیرّ عالم تاب پیداہوئے۔(رحمۃ للعالمین ص:۴۰)
مولاناصفی الرحمن مبارکپوری رحمۃ اللہ علیہ رقمطراز ہیں:’’رسول اللہﷺ مکہ میں شعب بنی ہاشم کے اندر۹؍ربیع الأول ۱ ؁ عام الفیل یوم دوشنبہ کو صبح کے وقت پیداہوئے‘‘۔(الرحیق المختوم:ص:۸۳)
مصرکے نامور ماہرفلکیات اورمشہور ومعروف ہیئت داں محمود پاشا فلکی نے بھی یہ تحقیق پیش کی ہے کہ آپ ﷺ کی صحیح تاریخ پیدائش ۹؍ربیع الأول ہی آتا ہے ۔(بحوالہ سیرت النبیﷺ ۱؍۱۷۱،۱۷۲)
امام سہیلی نے نقل کیا ہے کہ ’’ہاتھی ماہ محرم میں آیا تھا اورآپﷺ اس واقعہ کے پچاس دن بعد پیداہوئے تھے، جب کہ عام امام سہیلی اورمحمد بن اسحاق کے بقول جمہور اہل علم کامشہور مسلک یہی ہے ‘‘۔
(سیرت ابن ہشام اردو۱؍۱۸۲وسبل الہدی والرشاد فی سیرۃ خیرالعباد۱؍۳۳۶)
اسی طرح بعض سیرت نگاروں نے ۲؍ربیع الأول ،کسی نے آٹھ، کسی نے بارہ کسی نے سترہ اورکسی نے اٹھارہ اوربعض نے بائیس ربیع الأول کہا‘‘۔(البدایۃ والنہایۃ۲؍۲۶۰)
متذکرہ بالااقوال سے معلوم ہواکہ ۹؍ربیع الأول ہی آپﷺ کی صحیح تاریخ پیدائش ہے ۔
عیدمیلادالنبیﷺ کا موجد وزمانہ ایجاد:۔ عیدمیلادالنبیﷺ کوساتویں صدی ہجری ۶۲۵ھ ؁ میں سلطان صلاح الدین ایوبی کے بہنوئی اورموصل کے قریبی شہراربل کے گورنر ملک مظفر ابوسعید کو کبری نے رواج دیا۔ (البدایۃ والنہایۃ ۱۳؍۱۳۷،الحاوی للسیوطی۱؍۱۸۹، ومسئلہ میلاد اسلام کی نظرمیں ص:۵۵)
اسی طرح فتاوی حافظ ابوالخیر سنحاوی میں ہے ’’مولد شریف کاذکرقرون ثلاثہ مفضلہ میں سلف میں سے کسی سے منقول نہیں یہ بعدکی ایجاد ہے۔(بحوالہ ماہ ربیع الأول اورحب نبوی کے تقاضے ص:۲۵)
حافظ ابن حجر نے بھی اسی طرح لکھا ہے:تواریخ اورمجوزین مولد کے رسائل سے ثابت ہوتا ہے کہ ۶۰۴ھ ؁ میں مولودایجاد ہوا، اورشہر موصل میں ایک مجہول الحال شخص شیخ عمربن محمدملانے ایجادکیا اورصاحب اربل (سلطان مظفر ابوسعید) کوکبری نے اس کی اقتداء کی۔( سیرت شامی بحوالہ ماہ ربیع الأول اورحب نبوی کے تقاضے ص:۲۶)
شامی کی تحریر سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ شاہ اربل نے عمربن محمد کی اقتداء کی تھی اوراصل موجد عمربن محمد تھا، اورحقیقت یہی ہے کہ عمربن محمدایک غریب اورمفلوک الحال شخص تھا، اس لئے وہ اپنے اس فعل کو شہرت نہ دے سکا اورشاہ اربل نے اسے خوب شہرت دی حتی کہ دوردورملکوں میں بھی اس کومشہورکیا، اسی وجہ سے بعض مورخین نے اسی کواس کاموجد قراردے دیا ۔
(حسن المقصدفی عمل المولد للسیوطی بحوالہ ماہ ربیع الأول اورحب نبوی کے تقاضے ص:۲۶)
میلاد کے جوازکا فتوی اوراس موضوع پرسب سے پہلی تالیف:۔میلاد کے جواز کافتوی اوراس موضوع پرسب سے پہلی تالیف ’’ابوالخطاب بن دحیہ‘‘ کی ہے جس کانام ’’التنویر فی مولد البشرالنذیر‘‘ ہے جس کو اس نے’’ ملک مظفر‘‘کے سامنے پیش کیا اوراس نے اسے ایک ہزار اشرفیاں انعام دیں ۔ (مسئلہ میلاد اسلام کی نظرمیں ص:۵۵)
’’التنویر فی مولد البشر النذیر‘‘کے مصنف کے سلسلہ میں محدثین کی آراء:۔ حافظ ابن حجررحمۃ اللہ علیہ اس مصنف سے متعلق لکھتے ہیں:’’ابن نجارکہتے ہیں میں نے تمام لوگوں کواس کے جھوٹ اور ضعیف ہونے پر متفق پایا‘‘۔(لسان المیزان ۲؍۲۹۵)’’وہ ائمہ دین اورسلف صالحین کی شان میں گستاخی کرنے والا اورخبیث زبان والا تھا، بڑااحمق اورمتکبرتھا اوردین کے کاموں میں بڑابے پرواہ تھا‘‘۔(لسان المیزان ۴؍۲۹۶)
علامہ جلال الدین سیوطی رحمۃ اللہ علیہ اپنی کتاب’’تدریب الراوی فی شرح تقریب النووی‘‘میں اقسام وضاعین احادیث کے بیان میں فرماتے ہیں:’’بعض لوگ ایسے ہیں جواپنی عقل ورائے سے فتوی دیتے ہیں اورجب ان سے دلیل مانگی جاتی ہے توپریشان ہوکرحدیث وضع کرلیتے ہیں، اورمشہور ہے کہ ابن دحیہ بھی یہی کیاکرتا تھا کہ جب اس کو کوئی دلیل نہیں ملتی توایک حدیث اپنے مطلب کے موافق بنالیتا جیساکہ مغرب کی نماز قصر پڑھنے کی حدیث وضع کی‘‘۔(تدریب الراویفی شرح تقریب النواوی۱؍۲۸۶)
عیدمیلاد النبی کی شرعی حیثیت:۔ مسلمانان عالم ،بالخصوص برصغیر کے مسلمانوں کاایک طبقہ بارہ ربیع الأول کوعیدمیلاد النبی کے نام سے جشن مناتا ہے،جس کی شریعت میں کوئی گنجائش نہیں،اورنہ ہی قرون ثلاثہ مفضلہ سے ثابت ہے جیساکہ مجوزین خودلکھتے ہیں:’’مولد شریف کا ذکرکرناایک شخص سے بھی اگلوں سے قرون ثلاثہ میں ثابت نہیں، یہ بعدکی ایجاد ہے۔(فتاوی حافظ ابوالخیر سنحاوی بحوالہ فتح الموحد)
اسی طرح علامہ ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ’’ الفتاوی المصریۃ‘‘ میں لکھتے ہیں:شرعی تہوار چھوڑکر دوسری عیدیں منانا، محفلیں رچانا جیساکہ ربیع الأول کی بعض راتوں میں ہوتا ہے جسے ولادت رسول کی رات کہاجاتا ہے یا اسی رجب کی پہلی رات یا ۱۸؍ذی الحجہ یا رجب کے پہلے جمعہ یا ۸؍شوال جسے جاہل لوگ’’ عیدالأبرار‘‘ کہتے ہیں یااس جیسے دوسرے ایام کی یہ ساری محفلیں اورجشن ان بدعتوں میں سے ہیں جنھیں سلف صالحین میں سے کسی نے بھی نہیں کیاہے اورنہ ہی انھوں نے مستحب جاناہے‘‘۔(الفتاوی المصریہ ۱؍۳۱۲) نیز اقتضاء الصراط المستقیم میں اس سے متعلق رقمطراز ہیں:’’سلف صالحین نے ایسی عیدنہیں منائی جب کہ اسے منانے کا تقاضہ بھی موجود تھا اورکوئی چیز مانع بھی نہیں تھی، اگریہ محض بھلائی ہوتی یاخیر کا پہلوکسی بھی اعتبار سے ہوتا توسلف صالحین رضی اللہ عنہم ہم سے زیادہ حقدارتھے کہ اسے مناتے کیونکہ وہ رسول اکرمﷺ سے شدیدمحبت وتعظیم کرتے تھے اور وہ خیرکے حصول پرحددرجہ حریص تھے‘‘۔(اقتضاء الصراط المستقیم:۳۳۳)
علامہ تاج الدین فاکہانی لکھتے ہیں: ’’محفل میلاد کی کتاب وسنت میں سے کوئی دلیل نہیں جانتا اورعلماء امت جو متقدمین کے آثار کی اتباع کرنے والے اوردین کے پیشوا ہیں،ان سے بھی یہ عمل منقول نہیں ہے، یہ توبدعت ہے ،جسے جھوٹوں اورمکاروں نے ایجاد کیا ہے، اسے محض نفس پرستی کے نتیجہ میں لوگ بجالاتے ہیں اوراس کا اہتمام لوگوں کا مال لوٹنے والے کرتے ہیں‘‘۔
(المورد فی الکلام عن المولدص:۲۰،۲۲بحوالہ دین کامل ص:۳۳۹)
اوریہ بات مسلّم ہے کہ اس عمل کا ثبوت نہ توکتاب وسنت میں ہے اورنہ ہی اس کاثبوت ان صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اورتابعین واتباع تابعین رحمہم اللہ سے ہے جن کے سلسلے میں اللہ کے رسولﷺ نے فرمایا تمام لوگوں میں سے بہترین میرے زمانہ کے لوگ ہیں، پھر جواس کے بعد کے ہیں اورپھرجو ان لوگوں کے بعدہیں۔(بخاری مع الفتح ۷؍۱۰کتاب فضائل الصحابۃ باب فضائل اصحاب النبیﷺ...۳۶۵۰؍۳۶۵۱)
اسی طرح سے اس کا ثبوت نہ ان ائمہ کرام سے ہے جن کی فقہی بصیرت پرامت کونازہے، اورمختلف مسائل میں جن کی تقلیدبھی کی جاتی ہے،بلکہ اس کا وجود ساتویں صدی کے اوائل میں ہوا جیساکہ تفصیل اوپرذکرہوا۔
اگرجشن عیدمیلاد النبی نبی کریم ﷺ سے محبت کے اظہار کامسنون طریقہ ہوتا تواس کے سب سے زیادہ حقدار وہ صحابۂ کرام تھے جنھیں اپنے نبی سے اتنی محبت تھی جس کا ہم تصورنہیں کرسکتے، نبی کریمﷺ سے صحابہ کی محبت دیکھنی ہو توصلح حدیبیہ کے موقعہ پر قریش کے سفیرعروہ بن مسعود ثقفی کابیان ملاحظہ کیجئے اوردیکھئے کہ جب وہ قریش کے پاس واپس گئے تو صحابہ کی اپنے نبی سے محبت کا نقشہ کن الفاظ میں کھینچا ،عروہ نے کہا’’اے میری قوم!اللہ کی قسم میں بڑے بڑے بادشاہوں سے مل چکا ہوں، میں نے قیصروکسریٰ اورنجاشی جیسے بادشاہ دیکھے ہیں لیکن اللہ کی قسم میں نے ایساکوئی بادشاہ نہیں دیکھا جس کی اس کے ساتھی اتنی تعظیم کرتے ہوں، جتنی تعظیم محمدﷺ کے ساتھی، ان کی کرتے ہیں، اللہ کی قسم! اگروہ کھنکھارتے بھی ہیں توان کے منہ سے نکلنے والابلغم ان کے کسی نہ کسی ساتھی کی ہتھیلی ہی میں گرتاہے، جسے وہ اپنے چہرے اورجلد پرمل لیتاہے اورجب وہ کوئی حکم دیتے ہیں توان کے ساتھیوں میں سے ہرایک کی یہ کوشش ہوتی ہے کہ وضووالاپانی اسے مل جائے، اورجب وہ آپس میں گفتگو کرتے ہیں توان کے پاس اپنی آوازوں کوپست رکھتے ہیں، اوران کی تعظیم کی بناء پر ان کی نظروں سے نظرنہیں ملاتے۔(بخاری مع الفتح۵؍۴۰۱ کتاب الشروط ،باب الشروط فی الجہاد ۲۷۳۱،۲۷۳۲)
نبیﷺ سے اتنی عقیدت ومحبت رکھنے والے صحابۂ کرام سے یہ عمل ثابت نہیں ہے، اس لئے اس کے بدعت ہونے میں کوئی شبہ نہیں، نبی کریمﷺ نے امت کو ان صحابہ کے نقش قدم پرچلنے کی وصیت اورتاکید فرمائی، فرمان نبوی ہے:’’پس تم پر میری اورمیرے ہدایت یافتہ خلفاء راشدین کی سنت پرعمل پیراہونا ضروری ہے، اس سنت کو مضبوطی کے ساتھ پکڑے رہو اوردین میں نئی نئی باتیں داخل کرنے سے بچو اوردین میں ایجاد کی جانے والی ہر بات بدعت، اورہربدعت گمراہی اورہرگمراہی جہنم میں لے جانے والی ہے‘‘۔(صحیح؍أبوداؤد کتاب السنۃ،باب فی لزوم السنۃ ۴۶۰۷،ترمذی کتاب العلم عن رسول اللہﷺ ،باب ماجآء فی الأخذ بالسنۃ.....۲۶۷۶،إبن ماجۃ، باب إتباع سنۃ الخلفاء الراشدین المھدین۴۲،۴۳)
ایک روایت میں ہے کہ ’’بدترین کام وہ ہیں جو(دین میں) ایجاد کئے گئے اورہربدعت گمراہی ہے۔(مسلم مع النووی ۶؍۳۹۲،کتاب الجمعہ، باب رفع الصوت فی الخطبۃ ومایقول فیھا۲۰۰۲)
ایک اورروایت میں ہے’’ یہود اکہترفرقوں میں اورنصاری بہترفرقوں میں بٹ گئے اور یہ امت تہترفرقوں میں بٹ جائے گی اوران میں سے ایک کے سواباقی سب جہنمی ہوں گے، صحابہ کرام نے پوچھا کہ وہ نجات پانے والا فرقہ کون سا ہوگا؟ توآپﷺ نے ارشاد فرمایا: نجات وہ لوگ پائیں گے جن کا عمل مجھ جیسااورمیرے صحابہ جیساہوگا۔(صحیح؍أبوداؤد کتاب السنۃ، باب شرح السنۃ ۴۵۹۷،إبن ماجہ،کتاب تعبیرالرویاء، باب إفتراق الأمم ۳۹۹۱،۳۹۹۲)
متذکرہ بالااحادیث سے یہ بات روزروشن کی طرح عیاں ہوجاتی ہے کہ آپﷺ نے کتاب وسنت کے بعدخلفاء راشدین اورعام صحابہ کے طریقہ کار کومعتبرقراردیاہے اورجب ہم صحابہ کرام کی زندگی میں جھانکتے ہیں توکہیں بھی اس کاوجود نہیں ملتا،بنابریں عیدمیلادالنبی کو بدعت کہنے میں ہمیں ذرابھی تامل نہیں۔
اسلام میں عیدوں کی تعداد:۔ ابتداء اسلام سے امت میں سالانہ صرف دوعیدوں کاتصور تھا، حضرت انس بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ جب مدینہ تشریف لائے توان کے یہاں سال میں دودن مقررتھے جن میں وہ خوشیاں مناتے تھے، نبیﷺ نے ان سے پوچھا یہ دودن کیسے ہیں؟ انھوں نے کہا:زمانہ جاہلیت سے ہم ان دنوں میں کھیلتے اورخوشی مناتے چلے آرہے ہیں،آپﷺ نے فرمایا’’اللہ تعالیٰ نے تم کو ان کے بدلے میں دوبہتردن عطافرمادیئے ہیں اوروہ ہیں عیدالفطر اورعیدالاضحی کے دن۔(صحیح؍النسائی، کتاب صلاۃ العیدین ۱۵۵۶)
ان عیدوں کے علاوہ نبی کریمﷺ نے اہل اسلام کے لئے جمعہ کے دن کوہفتہ کی عیدقراردیا جیساکہ اللہ کے رسولﷺ کاارشادگرامی ہے ’’یہ دن عیدکادن ہے، جسے اللہ تعالیٰ نے صرف مسلمانوں کے لئے عیدکادن بنایاہے، لہذاجو شخص نمازجمعہ کے لئے آئے تووہ غسل کرے اوراگر خوشبومیسر ہو توضرور لگالے اورتم پر مسواک کرنا لازم ہے‘‘۔(صحیح؍إبن ماجۃ،کتاب إقامۃ الصلوات والسنۃ فیھا ،باب ماجآء فی الزینۃ یوم الجمعۃ۱۰۹۸)
مذکورہ بالا احادیث سے معلوم ہواکہ اسلام میں سالانہ عیدیں دوہیں(۱) عیدالفطر (۲)عیدالأضحی اورایک ہفتہ واری عیدکا تصورہے، لہذا اب اگر ان کے علاوہ کسی اوردن کوعیدقراردیاجائے تووہ بدعت ہوگی ۔
رسول اکرمﷺ کی تشریف آوری کاعقیدہ:۔ میلادیوں کے یہاں یہ مسلم عقیدہ ہے کہ میلاد کی محفلوں میں آپﷺ بذات خودتشریف لاتے ہیں ،اسی بناء پروہ درودوسلام کے وقت قیام کرتے ہیں،اللہ کے رسولﷺ بلاشبہ وفات پاچکے ہیں، قرآن احسن کی شہادت اس کے لئے کافی ہے (إنک میت وإنھم لمیتون)(الزمر:۳۰)اور جووفات پاگیا اس کا اس دنیا میں لوٹنا ناممکن ہے،جیساکہ اللہ تعالیٰ کافرمان ہے(ثم إنکم بعدذٰلک لمیتون، ثم إنکم یوم القیامۃ تبعثون) (المومنون:۱۶) ’’پھر اس کے بعد تم مرجاتے ہو پھرتمہیں قیامت کے روزاٹھایا جائے گا‘‘۔اورنبی کریم ﷺ کا فرمان ’’میں قیامت کے دن اولاد آدم کا سردارہوں گا اورسب سے پہلے میری قبرکا منہ کھولاجائے گا، سب سے پہلے میں شفاعت کروں گا اورسب سے پہلے میری شفاعت قبول کی جائے گی۔(صحیح مسلم مع النووی ۱۵؍۳۹،کتاب الفضائل، باب تفضیل نبیناﷺ علی جمیع الخلائق۵۸۹۹)
مذکورہ نصوص شرعیہ سے یہ بالکل واضح ہے کہ آپﷺ وفات پاچکے ہیں اورقیامت کے دن سب سے پہلے آپ قبر سے نکلیں گے توپھر مجلسوں میں آپ ﷺ کی شرکت فرمانے کا دعویٰ بے بنیادہے ۔
عیدمیلاد النبی کرسمس ڈے کی نقالی:۔نصاری حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے یوم پیدائش پربطورعید وتہوارجشن مناتے ہیں اورمحفل سرودمنعقدکرتے ہیں، میلادیوں نے بھی انھیں کے طرز عمل کواپنایا اورجوکچھ وہ اپنی محفلوں میں انجام دیتے ہیں، خوب جوش وخروش کے ساتھ عشق نبوی کا دعوی کرتے ہوئے یہ حضرات بھی وہی سب کچھ کرتے ہیں بلکہ بسااوقات ان سے بھی بازی لے جاتے ہیں ،جبکہ یہ بے چارے جس ذات اقدس کی جھوٹی محبت کا دم بھرتے ہیں انھوں نے خوداس سے بیزاری کا اظہار کیاہے اورفرمایا ’’من تشبہ بقوم فھومنھم‘‘۔( حسن صحیح ؍أبوداؤد،کتاب اللباس باب فی لبس الشھرۃ ۴۰۳۱)
جس نے کسی قوم کی مشابہت اختیار کی پس وہ انھیں میں سے ہے،نیز فرمایا ’’لیس منا تشبہ بغیرنا ولاتشبہوا بالیھود ولابالنصاری‘‘۔
(حسن؍ترمذی،کتاب الإستئذان باب ماجآء فی کراھیۃ إشارۃ الیدبالسلام۲۶۹۵)
وہ ہم میں سے نہیں جس نے ہمارے لئے کسی اورکی مشابہت اختیارکی تم نہ مشابہت اختیارکرو یہودکی اورنہ ہی نصاری کی۔
میلادیوں کا حدیث پاک سے طرز استدلال:۔قائلین عیدمیلادالنبی اپنے دعویٰ کے ثبوت میں بزعم خویش ایک مضبوط دلیل پیش کرتے ہیں اوروہ صحیح مسلم کی ایک حدیث ہے جس میں آپ ﷺ کے دوشنبہ کے دن روزہ رکھنے کاذکر ہے، آپ کا فرمان ہے ’’إنہ یوم ولدت فیہ‘‘۔ (صحیح مسلم مع النووی۸؍۲۹۲،۲۹۳،کتاب الصیام، باب استحباب صیام ثلاثۃأیام.....۲۷۳۹)
یعنی یہ وہ دن ہے جس میں میری پیدائش ہوئی ،یقیناًاس حدیث پرکوئی کلام نہیں اورہم اس حدیث کو وحی غیرمتلو کادرجہ دیتے ہیں لیکن ان کا اس حدیث سے عیدمیلاد النبی کے جوازپر استنباط نہایت ہی کمزور ،چندوجوہات کے سبب باطل ہے، اللہ کے رسول ﷺ کی عادت مبارکہ تھی کہ آپﷺ دوشنبہ کا روزہ کوشش کرکے رکھتے تھے لیکن یہ بھی یادرہے کہ انھیں احادیث میں جمعرات کے روزہ کابھی ذکر ہے جیساکہ حدیث میں ہے کہ’’ دوشنبہ اورجمعرات کا روزہ کوشش کرکے رکھتے تھے‘‘(صحیح؍ ترمذی، کتاب الصوم، باب ماجآء فی یوم الإثنین والخمیس۷۴۵) اورایک روایت میں ہے کہ حضرت اسامہ نے آپ ﷺسے ان ایام میں روزہ رکھنے کاسبب دریافت کیاتوآپﷺ نے فرمایا کہ دوشنبہ اورجمعرات کو اعمال اللہ کے حضور پیش کئے جاتے ہیں اورمیں یہ بات پسند کرتاہوں کہ میرے اعمال اس حال میں پیش کئے جائیں کہ میں روزہ سے ہوں۔(صحیح؍ترمذی، کتاب الصوم، باب ما جآء فی یوم الإثنین والخمیس ۷۴۷)
مذکورہ احادیث سے معلوم ہواکہ دوشنبہ وجمعرات کے دن روزہ رکھنے کا سبب یہ ہے کہ ان ایام میں اللہ کے حضور بندوں کے اعمال پیش کئے جاتے ہیں اوراس میں دوشنبہ کے روزہ کے لئے ایک اضافی سبب یہ بھی تھاکہ اسی دن آپ کی پیدائش ہوئی۔
مقام غور ہے کہ اگرآپ یوم پیدائش کی خاطر یہ روزہ رکھتے توصرف دوشنبہ ہی کو رکھتے جمعرات کونہ رکھتے، پھردوشنبہ کاروزہ بھی سا ل میں ایک مرتبہ جوکہ آپﷺ کی تاریخ ولادت کے موافق ہوتا،آپﷺ نے ۱۲ ربیع الأول کوروزہ نہیں رکھا، آپﷺ نے دوشنبہ کا روزہ رکھا، جوہرماہ میں چاریاپانچ مرتبہ آتا ہے اس بناء پربارہ ربیع الأول کو کسی عمل کے لئے خاص کرلینا یہ شریعت سازی ہے اس لئے اگرکوئی عشق رسول کا دم بھرنے والاہے توپھروہ ہرہفتہ میں پیرکے دن روزہ رکھنا اپنی عادت بنالے جوکہ ایک حد تک ناممکن ہے۔
اگرکوئی شخص رسول اکرمﷺ کی نعمت ولادت پربطورشکرانہ محفل منعقدکرتا ہے توہم عرض کریں گے کہ بھئی عقل ونقل کا تقاضہ ہے کہ شکربھی اسی نوع کاہو جس نوع کا شکرہمارے نبیﷺ نے کیا، لیکن یہ کہاں کا انصاف ہے کہ آپﷺ نے اس دن روزہ رکھا اورہم مجلسیں منعقد کرکے طرح طرح کے پکوان وشیرینوں سے اپنی زبان کو تلذذبخشیں، اورمردوخواتین کے اختلاط کے ساتھ نغمہ وسروداورقوالیوں کی محفلیں منعقد کریں۔
جب نبی کریمﷺ نے اپنی ولادت اورتخلیق اورتمام انسانوں کی طرف بشیرونذیر ہوکرمبعوث ہونے کے شکریہ میں دوشنبہ کے دن کاروزہ رکھا توکیا آپﷺ نے اس کے ساتھ کسی محفل اورتقریب کا اہتمام بھی کیا؟جیساکہ میلادی لوگ کرتے ہیں اگرنہیں تو پھریہ مردوزن کے اختلاط،مدحیہ اشعار ونغمے اورقوالیوں کا سند جواز کس نے عنایت فرمایا؟ کیا یہ شریعت سازی نہیں؟ جبکہ شریعت کا صریح حکم ہے’’اوررسول اللہﷺ جوتم کودیں اس کولے لو اورجس سے تم کو منع کریں اس سے بازرہو‘‘۔(حشر:۷)
نیز فرمایا:(یا ایھاالذین آمنوا لاتقدموا بین یدی اللہ ورسولہ)(الحجرات:۱) ’’اے ایمان والو! اللہ ورسول کے حکم سے آگے نہ بڑھو‘‘۔
مذکورہ آیات سے معلوم ہواکہ اللہ ورسول نے جن چیزوں کے کرنے کا حکم دیاہے ان پرسختی سے عمل پیراہواجائے اورجن چیزوں سے منع کیا ہے ان سے گریز کیاجائے اللہ کے رسولﷺ کے ایک فرمان سے یہ مسئلہ مزید واضح ہوجاتا ہے کہ جس چیزکاحکم امت کو نہیں دیاگیا یہ کوئی بھول چوک نہیں بلکہ بطوررحمت ہے،’’اللہ تعالیٰ نے کچھ حدودمقررکئے ہیں تم ان سے تجاوزمت کرو، اورتمہارے لئے کچھ فرائض مقررکئے ہیں انھیں ضائع مت کرو، اورکچھ چیزیں حرام کی ہیں ان کی حرمت کوپامال نہ کرو، اورکچھ چیزیں بغیرکسی بھول کے یوں ہی تمہارے اوپررحم کرتے ہوئے چھوڑدی ہیں ان کو قبول کرلو اوران کے بارے میں کھودکریدمت کرو‘‘۔(حسن؍سنن دارقطنی ۵۰۲)
حرف آخر:۔ پورے مطالعہ کا ماحصل ونچوڑ یہی ہے کہ عیدمیلادالنبی کا شریعت مطہرہ سے کوئی تعلق نہیں، اس لئے میں اسلامی بھائیوں سے نہایت ہی ادب واحترام کے ساتھ گذارش کرتاہوں کہ ایسے لغو اورواہیات اعمال سے گریز کریں جن کا شریعت مطہرہ سے کوئی تعلق نہیں اورآپ نبیﷺ کی سچی محبت کے علمبرداربن جائیں جس میں ہمارا اخروی فائدہ ہوگا ان شاء اللہ۔
***

No comments:

Post a Comment