Wednesday, November 24, 2010

NOVEMBER-2010 ایک مشفق استاد کی رحلت

راشد حسن فضل حق مبارکپوری

طالب جامعہ سلفیہ بنارس
ایک مشفق استاد کی رحلت

رمضان المبارک کی چھٹی گذارنے کے بعد جب مادر علمی جامعہ سلفیہ واپس پہونچا توقدرے تاخیرسے’’سراجی اخوان‘‘ نے استاد محترم مولانا خیراللہ اثری رحمہ اللہ کے سانحۂ ارتحال کی خبردی، یہ خبراہل علم وفضل کے لئے عموماً اوروابستگان دامن جامعہ سراج العلوم السلفیہ،جھنڈانگر کے لئے خصوصاً بڑی المناک اورہوش رباتھی، بہت ساری آنکھوں کو رُلاگئی اوربہت سے دلوں کو تڑپاگئی، کچھ دیرتک یقین کرنامشکل تھا کہ ایک شخص جس نے ابھی جوانی کی دہلیز سے پوری طرح قدم بھی نہیں نکالاتھا کیونکر اس نے اپنی جان جان آفریں کے حوالہ کردی، پھراس خبر کو بھی اسی طرح قبول کرنا پڑا جس طرح آج سے تقریبا ایک سال قبل استادالاساتذہ علامہ ڈاکٹرمقتدیٰ حسن ازہری رحمہ اللہ کے سلسلے میں یقین کرچکے تھے، پرانے بادہ کشوں کا یہ سلسلۂ سفر آخرت جمعیت وجماعت بلکہ امت مسلمہ کے لئے افسوسناک والم انگیز بھی ہے اورناقابل تلافی بھی، ساتھ ہی ساتھ قرب قیامت کی نشانی بھی۔موت کی حقیقت سے انکارنہیں کیاجاسکتا ،لیکن ناگہانی اوراچانک کی اموات‘ وہ بھی ایسے لوگوں کی جو دین کی خدمت میں لگے ہوئے ہوں، جن سے امت کی توقعات وابستہ ہوں، اور جن سے کوئی انسان قریب ہوتا ہے تواس کا اثرانسان کے قلب وضمیرپرپڑنا یقینی اور فطری ہے، مولاناخیراللہ اثری رحمہ اللہ جامعہ اثریہ دارالحدیث مؤ کے فارغ التحصیل تھے، اورجامعہ سراج العلوم السلفیہ جھنڈانگر کے باوقار، بااخلاق اورباصلاحیت استاد تھے، جامعہ کے انتظامی امورسے بھی دلچسپی رکھتے تھے، مجلہ’’السراج‘‘ کے آفس سکریٹری،پروف ریڈر اور سرکولیشن مینیجر بھی تھے، دہلی میں ’’عظمت صحابہ‘‘کے موضوع پر منعقدہ آل انڈیا اہل حدیث کانفرنس میں آپ سے آخری ملاقات ہوئی تھی، خودہی بڑھ کر آپ نے مصافحہ کیا، کیا معلوم تھا یہ آخری دیدار وملاقات ہے، انسان قضاء وقدر کے سامنے کس قدر بے بس ولاچار ہے کہ اسے کچھ نہیں معلوم کل کیا ہونے والا ہے ،کچھ دیرگفتگو ہوتی رہی، پھرہم جدا ہوگئے، شاید ہمیشہ کے لئے۔
مجھے آپ کا ایک ادنی شاگرد ہونے کا فخر حاصل ہے، آپ اساتذہ وطلبہ دونوں کے مابین مقبول و محترم تھے، پر مزاح بھی تھے اورشفیق ومہربان بھی، ان کی شفقت وعنایت تمام طلبہ کے لئے عام تھی، انداز تدریس ممتاز تھا، مشکل مسائل کو طلبہ کے ذہن میں آسانی سے اتارنے کا سلیقہ تھا، ایک بات کو تکرارکے ساتھ سمجھاتے تاکہ ذہن کے نہاں خانوں میں محفوظ ہوجائے، مجھے یادہے کہ آپ نے ہمیں ابتدائی کتابوں میں، تقویۃ الایمان،کتاب الصرف، اوردیگر صرف ونحو کی کتابیں پڑھائی ہیں، صرف ونحو اردو وفارسی ادب کا خاصامذاق رکھتے تھے، طلبہ انھیں صرفی اورفارسی ادب کا ماہرکہتے تھے، پڑھاتے وقت طلبہ کی لیاقت وطبیعت کا خاص لحاظ رکھتے تھے، کبھی کبھی مسائل کو دیہاتی زبان میں سمجھاکر ماحول کو پُرلطف وخوشگوار بنادیتے،دوران درس مختلف قسم کے لطیفوں کے ذریعہ طبیعت میں انبساط پیداکرنے کا گُرانھیں معلوم تھا، راقم ان کا ایک قریبی شاگرد ہونے کی حیثیت سے کہہ سکتا ہے کہ اس وقت عربی زبان میں ترکیبی حیثیت سے جوآسانی محسوس ہورہی ہے وہ اسی تخم اول کا نتیجہ وثمرہ ہے، ’’متوسطہ ثانیہ‘‘ میں جب میراپہلا مضمون مجلہ’’السراج‘‘ میں شائع ہوا، اس وقت خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہ تھا، اس کی تصحیح آپ ہی نے کی تھی، اس کے بعدآپ رحمہ اللہ کا اعتماد مجھ پربہت بڑھ گیا، سایۂ شفقت بھی دوسروں کے مقابلے میں درازہوگیا، اعتماد ویقین کی دیوار اس قدراونچی کہ اگرکبھی کسی دفتری اور انتظامی مصروفیت کی وجہ سے خود کلاس میں نہ آتے توکہہ دیتے کہ راشد لویہ نوٹ طلبہ کو لکھوادینا ،اورکچھ غموض ہوگا تواس کو سمجھادینا، یہ ایک چھوٹے طالب علم کے لئے بہت بڑی بات تھی، ایک مرتبہ میں مولاناابوالحسن علی ندوی رحمہ اللہ کی کوئی کتاب پڑھ رہا تھا ،اس میں فارسی کا ایک شعر گذرا، میں اسے لے کر شیخ کے پاس گیا، توانھوں نے شفقت سے بٹھاکر سمجھایا، وہ کوئی بھی بات سمجھاتے جب تک انھیں یقین نہ ہوجاتا کہ میں سمجھ گیا تب تک وہ سمجھاتے رہتے، سوالات پربہت خوش ہوتے ،مخاطب کرتے تواس سے پہلے بیٹا ضرور لگاتے۔
مادرعلمی جامعہ سراج العلوم جھنڈانگر کے اکثراساتذہ کا ذہن اسی طرح سلجھا ہوا سنجیدہ تھا، سب کے اندرابھی بھی بہت زیادہ سادگی ،تواضع، عاجزی وانکساری پائی جاتی ہے، آج کے دورمیں علم کے ساتھ ساتھ عمل بہت ہی اہم اورغیرمعمولی ہے، صلاحیت کے ساتھ صالحیت کا درجہ بہت بلند ہے، ساتھ ہی ساتھ اخلاق واطوار اگرمشفقانہ وکریمانہ ہوں توپھر کیاکہنا، افسوس کہ آج جہاں مدارس میں اساتذہ وطلبہ میں بہت ساری برائیاں وخرابیاں جنم لے رہی ہیں،وہیں غیبت وچغل خوری، حسد وعداوت ،نفرت وتعصب جیسی خبیث بیماریاں ان کے شجرہائے اخلاق وکردار کو دیمک کی طرح کھاکر کھوکھلا کررہی ہیں، مگرشاید ہی کسی کو اس کا احساس ہو، اللہ کا شکر ہے کہ جامعہ کے اساتذہ ’’ولاازکی علی اللہ أحدا‘‘ کافی حد تک ان سب چیزوں سے محفوظ ہیں، دوران درس یاتقریر ہم نے متعدد کبار اساتذہ کی آنکھوں میں آنسو د یکھے ہیں ،وہاں کے اساتذہ رحیم وشفیق بھی تھے، ہماری بہت ساری طفلانہ شرارتوں سے صرف نظر کیاہے، درس وغیرہ میں بیجاسوالات کوبہت انگیز کیاہے، یہ سب باتیں جب یاد آتی ہیں تواپنی نادانی پر افسوس ہوتا ہے اوران تمام مخلص اساتذۂ کرام کے لئے دل کی گہرائیوں سے دعائیں نکلتی ہیں، اس تحریر کے ذریعہ ہم ان تمام سے اپنے روشن مستقبل کے لئے دعاکی درخواست کرتے ہیں،بہرکیف ذہن کے اوراق پریادوں کے بہت سارے نقوش مرتسم ہیں ،جن کے تذکرے کایہاں موقع نہیں، کسی اورمناسبت سے ان کاتذکرہ کیاجائے گا ،ان شاء اللہ۔
اخیرمیں ہم اپنے مرحوم استاد محترم کے لئے دعاگو ہیں کہ اللہ تعالیٰ ان کی بشری کوتاہیوں اور انسانی لغزشوں کو درگذر کرکے جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام دے، پسماندگان کو صبرجمیل عطاکرکے اورمادرعلمی کوہمیشہ قائم ،دائم اورسرسبز وشاداب رکھے۔(آمین)

No comments:

Post a Comment