Wednesday, November 24, 2010

OCTOBER-2010مولانا خیراللہ اثری کا سانحۂ ارتحال

عبدالمنان سلفی

ماہنامہ ’’ السراج‘‘ کے آفس سکریٹری اور سرکولیشن مینیجر

مولانا خیراللہ اثری  کا سانحۂ ارتحال

۲۲؍رمضان المبارک ۱۴۳۱ھ ؁ مطابق ۲؍ ستمبر۲۰۱۰ء ؁ بروزجمعرات ‘ میں جامعہ سراج العلوم السلفیہ،جھنڈانگر کی جامع مسجد میں ظہر کی نماز اداکرکے فارغ ہوا،مسجدہی میں میرے کرم فرما دوست الحاج آفاق احمد عرف چرچل صاحب مل گئے جومحترم ناظم جامعہ حفظہ اللہ کی عیادت کے لئے تشریف لائے تھے،مسجد سے نکل کرچند منٹ دفترمیں ان کے ساتھ گذارکرجیسے ہی میں اوپراپنی رہائش گاہ پہونچا میرے موبائل فون کی گھنٹی بجی مگرخراب نیٹ ورک کے سبب جیب سے موبائل نکالتے نکالتے رابطہ منقطع ہوگیا، دیکھا تواسکرین پر’’خیراللہ اثری‘‘ لکھا تھا، کمرہ سے باہرنکل کرمیں نے فوراً کال بیک کیا تاکہ نیٹ ورک مل جائے اوربات ہوسکے، گھنٹی بجی اورفون ریسیوہوا، میں نے سلام کیا، جواب دیا گیا مگرآواز برادرم مولاناخیراللہ اثری کے علاوہ کسی اورکی تھی، فون ریسیو کرنے والے صاحب نے اپنا تعارف کرایا ’’میں عبدالرحیم امینی بول رہا ہوں‘‘ اوردوسرے ہی لمحہ یہ وحشت ناک خبرمیری سماعت سے ٹکرائی کہ’’مولانا خیراللہ کامدراس میں انتقال ہوگیا‘‘ سن کرکلیجہ دھک سے ہوگیا،مجھے اپنے کانوں پریقین نہ آیا، میں نے حواس باختہ ہوکرپوچھا آپ کیاکہہ رہے ہیں؟ امینی صاحب نے وہی بات دہرائی، میرا وجود لرزنے لگا اورانا للہ وانا الیہ راجعون پڑھتے ہوئے میں نے مختصر سوال کیا کہ کیسے؟ اس لئے کہ اس ناگہانی خبرپر اول وہلہ میں مجھے کسی سفری حادثہ کا شبہ ہوا،جواب میں امینی صاحب نے بتایا اچانک اورآنافاناً، دوروز قبل انھیں معمولی بخارآگیا تھا اورپیچش کی شکایت تھی، یہ بتاتے ہوئے امینی صاحب نے مجھ سے پوچھ لیا کہ کیا کیا جائے؟ جلدی بتایئے، میں نے جواب دیا کہ بغیران کے گھروالوں سے مشورہ کئے ہم تنہا کوئی فیصلہ نہیں کرسکتے، اورفون بند ہوگیا، میں نے جامعہ کے دفتری ماسٹرعبدالحسیب صاحب کو فون کیا جوجامعہ ہی کے ایک کام سے چنروٹہ تھے،چند منٹ پہلے انھیں اس حادثہ کی اطلاع برادرم مولاناعبدالواجد فیضی کے فون سے ہوچکی تھی، میں نے انھیں فوراً جامعہ پہونچنے کی ہدایت کی، اس کے بعد مولانا عبدالواجد فیضی کو فون کیا، فون ریسیوکرتے ہی وہ رونے لگے،پھر میرے ضبط کا بندھن بھی ٹوٹ گیا اور ہم دونوں کی ہچکیاں بندھ گئیں،بالآخر میں نے دل پر پتھر باندھ کر کہا’’میرے بھائی! اب صبرکریں ،کیا کرناہے اس پر غورکریں اور سردست آپ اپنی اہلیہ کے ساتھ مولاناخیراللہ اثری رحمہ اللہ کے گھر فوراً پہونچ کران کے بچوں کو سنبھالیں‘‘، میں نے نہ چاہتے ہوئے محترم ناظم جامعہ سے مل کر مناسب تمہید اورحکمت عملی کے ساتھ انھیں بھی اس حادثہ سے باخبر کیا، موصوف ان دنوں صاحب فراش تھے اور محض چند دنوں قبل دل کا بائی پاس آپریشن کراکے واپس آئے تھے اور ڈاکٹر کی ہدایت کے مطابق مکمل آرام کررہے تھے، مگرادارہ سے متعلق اس حادثہ سے باخبر کرنابھی ضروری تھا، موصوف نے غم وافسوس کااظہار کرتے ہوئے فرمایا کہ اگر ان کے اہل خانہ ان کاجنازہ گھرلانے کے خواہش مند ہیں تونعش لائی جائے، اس سلسلہ میں جوبھی اخراجات ہوں گے ادارہ برداشت کرے گا، اس سے ہمیں بڑاسکون ملا اورآگے فیصلہ کرنے میںآسانی ہوئی۔
پھرمدراس، دہلی اور ممبئی کے احباب نیز دیگر مخلصین سے برابر رابطہ کر کے مشورہ لیتا رہا ،بالآخر مولانا عبدالواجدفیضی اور بعض دیگر احباب کی رائے پر مولانا اثری رحمہ اللہ کا جنازہ وطن لانے کی بات مدراس کے اخوان جماعت کے سامنے رکھی گئی،مگر بعض قانونی پیچیدگیوں نیز صحیح شرعی نقطۂ نظر کے پیش نظر قبیل مغرب ہم سب نے مدراس کے اخوان جماعت کوانھیں مدراس ہی میں دفن کرنے کی اجازت دے دی ،چنانچہ بعدنماز عشاء ہزاروں فرزندان توحیدنے مسجد مبارک(اہل حدیث) دھوبی پیٹ میں ان کی نماز جنازہ اداکی اورقریبی قبرستان میں ان موحدین نے اپنے غریب الدیاربھائی کو سپردخاک کر دیا اور تدفین سے فراغت کے بعدان سب نے تراویح کی نماز اداکی ،انا للہ واناالیہ راجعون۔
برادرم مولاناخیراللہ اثری جامعہ سراج العلوم کی سفارت کے سلسلہ میں جنوبی ہند کے دورہ پرتھے، وہ ہم ساتھیوں میں نسبتاً نہایت تندرست اورصحت مند تھے، انھیں سگر، بلڈپریشر، یاقلب وغیرہ سے متعلق کوئی مزمن اور مہلک بیماری نہ تھی، سفرپر روانہ ہونے سے قبل رمضان کے پہلے عشرہ میں وہ جامعہ تشریف لائے تھے، دوشب انھوں نے یہاں قیام کیا تھا اور پوری طرح چاق وچوبند اورنشیط تھے، تاہم جاتے جاتے انھوں نے ماسٹر عبدالحسیب صاحب سے یہ کہہ دیا تھا کہ’’ اب’’السراج‘‘ کی ذمہ داری مجھ سے نہ اٹھائی جاسکے گی اس لئے اس کام کے لئے کوئی آدمی تلاش کرلیجئے‘‘، اوربالآخر ان کی بات پوری ہوگئی اوراس ذمہ داری سے وہ ہمیشہ کے لئے دست کش ہوکرہم سے رحضت ہوگئے۔
مولاناخیراللہ اثری جامعہ سراج العلوم السلفیہ کے قدیم ،فرض شناس ،بااصول اورمخلص استاد اورکارکن تھے، خطیب الاسلام علامہ عبدالرؤف رحمانی رحمہ اللہ کے دورنظامت میں ان کی تقرری ۱۹۹۸ء ؁ میں ماہنامہ’’السراج‘‘ کے آفس سکریٹری اورمیرے معاون کے طورپر ہوئی تھی پھرکچھ ہی دنوں بعد شعبۂ عربی کی بعض گھنٹیوں کی تدریس بھی موصوف کے ذمہ کردی گئی، اس طرح موصوف تقریباً ۱۳؍برسوں تک جامعہ کی خدمت کرتے رہے بلکہ خدمت کرتے ہوئے اس دنیا سے رخصت ہوگئے، اللہ تعالیٰ ان کی خدمات کو قبول فرمائے۔(آمین)
مولاناخیراللہ اثری اسم بامسمّی اورسراپا خیرتھے،وہ ٹھاٹ باٹ اورکروفر سے کوسوں دوررہتے تھے، میرے اپنے اندازے کے مطابق ان کی پیدائش ۱۹۵۰ء ؁ سے ۱۹۵۴ء ؁ کے درمیان کی ہوگی، مڑلا، بنگائی ضلع روپندیہی نیپال میں انھوں نے جناب رحمت اللہ کے گھرمیں آنکھیں کھولیں اورجلد ہی ماں اورباپ دونوں کی شفقت سے محروم ہوگئے، ابتدائی تعلیم آبائی وطن ’مڑلا ‘اور ضلع مہراج گنج کے’ ببھنی‘ گاؤں میں ہوئی، ان کی ہمشیرہ (جو عمر میں ان سے بڑی تھیں)کی شادی ہندوستان کے سرحدی ضلع مہراج گنج میں آنندنگر۔نوتنواں روٹ کے اسٹیشن لچھمی پورکے قریب’’ بنواٹاری‘‘ بستی میں ہوئی تھی، شفقت پدری ومادری سے محروم ہونے کے بعدان کی ہمشیرہ نے انھیں سنبھالا اوراپنے ساتھ انھیں ’’بنواٹاری‘‘ لے گئیں اوران کی تعلیم وتربیت کی ذمہ داری احسن طریقہ سے نبھائی، موصوف نے جامعہ اسلامیہ فیض عام مؤ اورجامعہ اثریہ دارالحدیث مؤ میں تعلیم پائی اور آخرالذکر ادارہ سے سند فراغت حاصل کی، فراغت کے وقت ان کی عمر بہت کم تھی اس لئے مزید تعلیم حاصل کرنے کا خیال ان کے دل میں آیا، جامعہ سلفیہ بنارس بھی گئے تھے مگرچند دنوں بعدوہاں سے چلے آئے، پھرجامعہ سراج العلوم السلفیہ،جھنڈانگر آکر آٹھویں جماعت میں داخل ہوگئے اور یہاں سے بھی سندفراغت حاصل کی۔
آپ کی ہمشیرہ اوربہنوئی محمدمقیم صاحب نے آپ کاہرطرح خیال رکھا، تعلیم سے آراستہ کرنے کے بعد آپ کی شادی بھی کرائی اوراپنے گھر کئی سالوں تک رکھا، کافی دنوں بعدمولانااثری نے نیپال میں اپنی زمین جائیداد فروخت کرکے اپنی بہن ہی کے گاؤں بنواٹاری میں زمین خرید کر ایک مکان بنایا اوربچوں کے ساتھ اس میں سکونت پذیرہوگئے۔
فراغت کے بعد علاقہ ہی کے کسی مدرسہ میں تدریسی فریضہ انجام دیا، پھر۱۹۸۰ء ؁ میں دہلی کے اندرجب مولاناعبدالحمید رحمانی حفظہ اللہ نے معہدالتعلیم الاسلامی کی داغ بیل ڈالی تو اس کے ابتدائی مدرسین اورکارکنوں میں مولانا عبدالعزیز سلفی، مولاناعبدالواجد فیضی(ماہنامہ نوائے اسلام) کے ساتھ مولانا خیراللہ اثری بھی تھے، ۱۹۹۴ء۔۱۹۹۳ء کے تعلیمی سال میں جب بحیثیت مدرس میری بھی تقرری معہد میں ہوئی توکم وبیش ایک برس ان کے ساتھ رہنے کا موقعہ ملا، مگرجلد ہی یہ تینوں حضرات ایک ساتھ معہد سے علیحدہ ہوگئے اورچاہ رہٹ کی ایک مسجد میں فروکش ہوکر وہاں سے ماہنامہ’’ نوائے اسلام‘‘ کااجراء کیا، مولانا عبدالعزیز سلفی(عزیزعمرسلفی) پرچہ کے مدیرمسؤل ،مولاناعبدالواجد فیضی نائب مدیر اورمولاناخیراللہ اثری (ابن رحمت اثری) معاون مدیر مقررہوئے، اوران تینوں نے بڑی جانفشانی اور محنت سے نوائے اسلام کو پورے ہندوستان اورنیپال میں متعارف کرایا، جولوگ انھیں قریب سے جانتے ہیں انھیں پتہ ہے کہ یہ انھیں تینوں کا حوصلہ بلکہ ناقابل تسخیرعزم تھا کہ سخت ناموافق حالات سے یہ قطعاًنہ گھبرائے اور اللہ کے فضل و احسان کے بعداپنے خلوص، اخلاق اور بے پناہ محنت اورلگن کے سبب مقصد میں کامیاب ہوئے، اس راستے میں انھو ں نے کیا کیا مصیبتیں جھیلیں؟ کتنی مخالفتوں کا سامنا کرناپڑا؟ چاہ رہٹ کی مسجد میں کتنی راتیں ان تینوں نے بغیرکھائے پئے گذاریں ؟یہ لمبی داستان ہے، اس کے ذکر کی نہ یہاں ضرورت ہے نہ موقع،برادرم مولانا خیراللہ اثری کے سلسلہ میں لکھتے ہوئے یہ باتیں بے ساختہ نوک قلم پرآگئیں۔
بھوکے پیاسے، معاوضہ اورتنخواہ سے بے نیازیہ تینوں دیوانے ایک مقصد کے لئے کئی برس لگے رہے،مگر بعد میں مولاناخیراللہ اثری کے لئے بلاتنخواہ رہنا مشکل ہوگیاکہ وہ بال بچوں والے تھے اور بہن بہنوئی کے یہاں رہتے تھے، مجبوراً اپنے رفیقوں کا ساتھ چھوڑا اور وطن آکر غالباً ببھنی مدرسہ میں ملازمت کرلی۔
دوسال معہد میں گذارکر جب میں مدرسہ قاسم العلوم گلرہا بلرام پورآیا تووہاں شعبۂ عالیہ میں ایک مدرس کی جگہ خالی ہوئی، میں نے مولاناخیراللہ اثری کو بلالیا ،ان کی تقرری ہوگئی اور سرکاری اسکیل کے مطابق ان کی تنخواہ جاری ہو گئی، واضح رہے کہ یہ مدرسہ حکومت اترپردیش سے امدادیافتہ ہے ، کم وبیش چار پانچ برس وہاں وہ میرے ساتھ جماعت رابعہ اورخامسہ تک کتابیں پڑھاتے رہے۔
تعلیمی سال۹۰۔۱۹۸۹ء میں جب میں قاسم العلوم سے علیحدہ ہوکر ماہنامہ نورتوحید جھنڈانگرسے وابستہ ہوا اور مدرسہ خدیجۃ الکبریٰ میں پڑھانے لگا توچندماہ بعدمولانااثری نے بھی اپنی سرکاری ملازمت چھوڑدی اورکہا کہ میں ’’آپ کے بغیر گلرہا نہ رہ سکوں گا‘‘، پھر وہ مولانا عبدالحفیظ ندویؔ کی نظامت میں چلنے والے ادارہ المعہد الاسلامی بڈھی ضلع سدھاتھ نگر چلے گئے اوربزرگ عالم دین اور معروف مدرس اور شاعر مولانا عبدالشکور دورؔ صدیقی رحمہ اللہ کے ساتھ وہاں دوایک برس پڑھاتے رہے، ادھرماہنامہ نورتوحید میں مجھے اپنی معاونت کے لئے کسی تجربہ کار اور پڑھے لکھے شخص کی ضرورت پیش آئی ، ان پرنظر پڑی اورمشورہ کے بعدانھیں بلالیا گیا۔
شوال ۱۴۱۶ھ مطابق مارچ۱۹۹۶ء ؁ تک میں ماہنامہ نورتوحید اورمدرسہ خدیجۃ الکبریٰ جھنڈانگرسے وابستہ رہا، تب تک یہ بھی وہاں رہے، مگرجب شوال ۱۴۱۶ھ ؁ میں راقم وہاں سے علیحدہ ہواتوکچھ دنوں بعدموصوف نے بھی اپنا بوریہ بستر باندھ لیا اورالدارالسلفیہ کولہوئی مہراج گنج میں پڑھانے لگے اورتعلیم کے ساتھ بحیثیت صدرمدرس وہاں کے نظم وانصرام کو بھی سنبھالا۔
یکم صفر ۱۴۱۷ھ مطابق ۱۶؍جون۱۹۹۶ء ؁ میں میری تقرری جامعہ سراج العلوم جھنڈانگر میں ہوئی، ۱۹۹۸ء ؁ کے اوائل میں میرے معاون مولوی خورشید احمدسراجیؔ بغرض ملازمت قطرچلے گئے، توبعض اساتذہ کے مشورہ سے ماہنامہ’’السراج‘‘ کے آفس سکریٹری، پرو ف ریڈر اور سرکولیشن منیجر کے طورپر ان کی تقرری ہوئی اوراس وقت سے آخری دم تک وہ جامعہ کی خدمت پورے خلوص، محنت اورلگن کے ساتھ کرتے رہے۔
مولانا خیراللہ اثری کومیں تقریباً ۳۰؍سالوں سے جانتا ہوں اور اس مدت میں کم وبیش ۲۵؍برس ان کے ساتھ رہنے اورانھیں قریب سے دیکھنے اوران کی صلاحیتوں کوجاننے کاموقعہ ملا، وہ اسم بامسمی نہایت شریف النفس انسان تھے ،قداورکاٹھی تومعمولی تھی مگر اللہ نے انھیں بے شمار صلاحیتوں سے نواز رکھا تھا، سب سے بڑی خوبی یہ تھی کہ وہ ایک بالغ نظر،فرض شناس، بااصول اورمحنتی شخص تھے، اپنی ذمہ داری احسن طریقہ سے انجام دینے کی کوشش کرتے تھے، تدریس اورتربیت مقدس پیشہ ضرورہے،مگریہ مشکل اور پتّہ ماری کا کام ہے، موصوف ان دونوں میں کامیاب تھے، تدریس کے گُر سے انھیں بخوبی واقفیت تھی ، جوپڑھاتے طلبہ کے ذہن میں نقش کردیتے تھے، انتقال کے بعد ان کے کئی شاگردوں نے جن میں بعض فارغ ہوچکے ہیں اس کی شہادت دی ہے، طلبہ کی تربیت بھی وہ سلیقہ سے کرتے تھے، بابو، بھیہ کہہ کر انھیں سمجھاتے، اگرناراض بھی ہوتے توکبھی آپے سے باہر نہ ہوتے ۔
جہاں تک مضامین اورکتابوں کے پروف پڑھنے اوراصلاح کی بات ہے توکم ازکم میں نے اتنا باریک بیں پروف پڑھنے والا اپنی زندگی میں نہیں دیکھا ہے، ہم اگرکسی تحریر کو دس بار بھی پڑھ کر اصلاح کرتے اورآخری بار ان کی نظر اس پر پڑتی توپوراصفحہ سرخ ہوجاتا، اورکچھ توبڑی فاش غلطیاں سامنے آتیں، یہی وجہ ہے کہ ہم لوگ کوئی بھی اہم تحریرانھیں دکھائے بغیر چھپنے کو نہ بھیجتے تھے، بالعموم حضرات علماء کرام لکھنے میں کوما، فل اسٹاپ، ندائیہ، اورسوالیہ رموزاوراشاروں کااہتمام کم کرتے ہیں، مگر مجال کیا تھی کہ مولانا خیراللہ کے سامنے سے کوئی تحریر ان کمیوں کے ساتھ نکل جائے، وہ اس پر سخت نکیر کرتے تھے، اردوقواعد پر بھی وہ گہری نظررکھتے تھے، بلکہ تذکیروتانیث کے سلسلہ میں ہم انھیں مرجع تصور کرتے تھے، وہ بتاتے اورحوالہ کے طورپر مستند اردوفارسی لغت کی کتاب بھی دکھاتے، کسی کی تحریر میں کوئی جھول ہوتا یا کوئی جملہ سمجھ میں نہ آتا تواس پر نشان لگاکرپوچھتے، ہم اپنے طورپر اس کو درست کرتے اوراگروہ مطمئن نہ ہوتے توہم ان کے اعتراض سے دامن بچانے کے لئے اسے حذف کرنے ہی میں عافیت سمجھتے۔
ان کے علاوہ ہمارے رفقاء میں جنرل نالج کی معلومات انھیں سب سے زیادہ تھی، تاریخ، جغرافیہ، کھیل، کھلاڑی، ٹرینوں کی آمدورفت کا شیڈول، روٹ اوراوقات کی انھیں پوری جانکاری رہتی تھی اوربلاجھجھک وہ ہرمسئلہ حل کردیتے تھے، بہرحال میرے مخلص دوست اورمعاون مولاناخیراللہ اثری اپنی ان متعدد اورگوناں گوں خوبیوں ،صلاحیتوں اور اصول پسندی کے سبب ہم سب کی نظروں میں تو محترم تھے ہی بعض بڑے نامورعلماء بھی ان سے محبت کرتے تھے۔
برادرم مولانااثری ہماری اپنی مادری زبان کے اعتبارسے بچوں کے ’’گُدیا‘‘ تھے اوراساتذہ واسٹاف کے بچوں سے بھرپورمحبت کرتے تھے، خصوصاً میرے بچوں کو انھوں نے کبھی یہ احساس نہ ہونے دیاکہ وہ ان کے حقیقی اور سگے چچانہیں ہیں، وہ سب کوکھلاتے، گودلیتے اورپیارکرتے، میرے چھوٹے بچے،پوتے پوتیاں اور نواسے اگرکسی روزکسی وجہ سے ان کے پاس نہ پہونچ پاتے توکسی کے ذریعہ منگالیتے یا خودگھر پہونچ کرلے آتے، جب وہ مدرسہ میں رہتے توہم اہل خانہ بچوں کے سلسلہ میں مطمئن رہتے کہ بچے اگر نیچے کھیل رہے ہیں تو چچاکی نظرمیں ہوں گے، ان کی یہی محبت تھی کہ جب میں نے باچشم نم بچوں کوان کے سانحۂ ارتحال کی خبردی توچھوٹے بڑے سب پھوٹ پھوٹ کر روپڑے اورگھرمیں کہرام سامچ گیا، اورشام کو تعزیت کے لئے جب میں اہلیہ اور جامعہ کے بعض اساتذہ و اسٹاف کے ساتھ ان کے گھر جانے کے لئے تیار ہواتو اکثر بچے اوربچیاں ان کے گھرجانے کے لئے بہ اصرار تیار ہوگئے۔
یہ حسن اتفاق ہی کہاجائے گا کہ گذشتہ سال برادرم مولاناخیراللہ اثری ،برادرم مولانا عبدالواجد فیضی اور راقم نے اپنے اہل خانہ کے ساتھ حج بیت اللہ کا پروگرام بنایا، ہم تینوں کا سفرآگے پیچھے ہوا،مگر رہائش ایک ہی علاقہ میں رہی اور ہمیں حرم مکی میں بیشتراوقات ایک ساتھ گذارنے کی سعادت حاصل ہوئی، میرے ساتھ میراشیرخواربچہ سعدسلمہ بھی تھا جو پہلے سے مولانا اثری سے مانوس تھا، حرم شریف میں اس کی دیکھ ریکھ کی پوری ذمہ داری مولاناخیراللہ اثری ہی کے سر تھی جس سے ہمیں بڑاسکون ملا، اسی طرح حرمین شریفین خصوصاً مدینہ طیبہ میں قیام کے دوران آں رحمہ اللہ نے مولانا عبدالواجد فیضی کی زبردست خدمت ومعاونت فرمائی، اللہ تعالیٰ ان کی خدمات قبول فرمائے، ان کی بشری خطاؤں اور لغزشوں کودرگذر کرے اور ان کی مغفرت فرماکر اعلیٰ علیین اورجنت الفردوس میں جگہ دے۔(آمین)
مولاناخیراللہ اثری کے پسماندگان میں اہلیہ کے علاوہ تین بیٹے اورپانچ بیٹیاں ہیں ،بڑے بیٹے عاصم سلمہ، حافظ قرآن اورجامعہ خیرالعلوم ڈمریا گنج سے فارغ ہیں ، ان کا داخلہ خوش قسمتی سے جامعۃ الامام محمدبن سعود الإسلامیۃ،ریاض اورجامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ دونوں جگہ ہوا، مولانااثری بہت خوش تھے اورہم لوگوں سے مشورہ کے بعدجامعہ اسلامیہ بھیجنے کا فیصلہ کرچکے تھے، مگرکسے پتہ تھاکہ بیٹے کے روانہ ہونے سے پہلے وہ خودہی رخصت ہوجائیں گے، عاصم سلمہ جلدہی جامعہ اسلامیہ جانے والے ہیں،بڑی بیٹی یاسمین کلیہ عائشہ صدیقہ جھنڈانگرمیں فضیلت سال آخرکی طالبہ ہے اوردیگر بچے اوربچیاں بھی تعلیم کی راہ میں ہیں، اللہ تعالیٰ ان سب کی حفاظت فرمائے اورانھیں علم کی دولت سے نواز کر مولانااثری کے لئے صدقہ جاریہ بنائے۔(آمین)اللھم اغفرلہ وارحمہ وعافہ واعف عنہ واکرم نزلہ ووسع مدخلہ۔
*استاد گرامی مولاناخیراللہ اثری گوناں گوں خوبیوں کے مالک تھے، حسن اخلاق کے اعتبار سے بھی وہ ممتاز تھے، ان کے پڑھانے کا انداز بھی بہت نرالاتھا، خاص طورپرجماعت رابعہ میں ترجمۂ قرآن جب پڑھاتے توایک ایک آیت کی اس طرح تفسیر بیان کرتے کہ ہم طلبہ کہنے پہ مجبور ہوجاتے کہ کورس میں ترجمہ داخل ہے یاتفسیر؟(فیروز احمد،جماعت سادسہ)
*استاد محترم سے میں نے پانچ سال تک مسلسل استفادہ کیا اورجماعت اولیٰ سے خامسہ تک ان سے مختلف علوم وفنون کی کتابیں پڑھیں، آپ ایک باکمال استاد اورمشفق مربی ہونے کے ساتھ باحوصلہ اور خوش مزاج انسان تھے، آج درسگاہ یاماہنامہ’’السراج‘‘ کے دفترسے گذرتے ہوئے ان کی یاد دل کوتڑپاتی ہے، اللہ تعالیٰ ان کی خدمات قبول فرمائے۔آمین۔(محمداسحٰق افضل حسین، عالمیت سال آخر)
*استاد محترم الحاج مولاناخیراللہ اثری رحمہ اللہ کی وفات سے ہمیں سخت صدمہ ہوا، آپ بڑے مشفق استاد اور مربی تھے، جوپڑھاتے محنت سے پڑھاتے اورسبق ہم طلبہ کے ذہن میں بٹھادیتے ۔
(حافظ نصیب اللہ، عالمیت سال آخر)
*استاد مکرم مولاناخیراللہ اثری صاحب کے اچانک رحلت فرماجانے کا مجھے صدمہ ہے، آپ اچھے اخلاق کے خوگر مثالی استاد تھے۔(شفیق الرحمن ،عالم آخر)
*ہمارے استاد اثری صاحب ،صاحب فضل وکمال انسان تھے، کئی سال ہمیں ان سے استفادہ کاموقعہ ملا، وہ بڑی شفقت کا برتاؤ کرتے۔(شمس القمر ،عالم سال آخر)
*استا دمحترم کی اصول پسندی اورحسن اخلاق سے میں بیحد متاثر ہوں،ان کی وفات کا ہمیں بہت غم ہے اللہ تعالیٰ ان کی مغفرت فرمائے۔(آمین)(وسیم اختر، عالم سال آخر)

1 comment:

  1. allah tala ustade muhtaram ki khidmat ko qobul farmaye aur jannatul ferdous me jagah de

    ReplyDelete