Wednesday, November 24, 2010

NOVEMBER-2010شفاعت کا اسلامی عقیدہ

ڈاکٹرسیدسعیدعابدی

جدہ ،سعودی عرب

شفاعت کا اسلامی عقیدہ

مسئلہ: ایک صاحب میرے نام اپنے خط میں لکھتے ہیں:

مسلمانوں میں ‘چاہے وہ علماء ہوں یا عوام‘ شفاعت کا یہ عقیدہ عام ہے کہ اس دارالعمل۔دنیا۔ کے بعد دارالجزاء۔آخرت۔ میں جب لوگوں کا حساب کتاب ہوگا اس دن رسول اکرمﷺ اپنے گنہگار اورمعصیت کار امتیوں کو اوربزرگان دین، صلحائے امت اورپیرومرشد اپنے خطاکار پیروکاروں اور مریدوں کواللہ سے سفارش کرکے عذاب اورسزاسے بچالیں گے، بلکہ سلوک اورتصوف کی کتابوں میں تویہاں تک لکھا ہوا ملتا ہے کہ جب حساب کتاب کے موقع پر بزرگانِ دین اورمرشدوں اورپیروں کی بخشش کااعلان کردیاجائے گا اورفرشتوں کوحکم ہوگا کہ ان کو ان کے حسبِ مراتب جنتوں میں داخل کردیں تووہ اس وقت تک جنت میں اپنے گھروں میں جانے سے انکار کردیں گے جب تک کہ ان کے پیروکاروں اورمریدوں کے حق میں بھی وہی فیصلہ نہیں کردیاجائے گا اورجس طرح وہ اس دنیا میں ان کے ساتھ تھے اسی طرح ان کوجنت میں بھی ان کی معیت کا حق نہیں دے دیاجائے گا۔
جواب: شفاعت سے متعلق سائل نے مسلمانوں میں زبان زداور پھیلے ہوئے جس عقیدے کے بارے میں سوال کیاہے وہ کتاب وسنت سے مأخوذ اسلامی عقیدہ نہ ہونے کے باوجود مسلمانوں میں عام ہے اوران کی گمراہی کا بہت بڑا سبب بناہوا ہے ،اس مسئلے میں صحیح اسلامی عقیدہ جاننے سے پہلے ہمارے لئے چند نہایت اہم اوربنیادی باتوں کا جان لینا ضروری ہے۔
۱۔رسول اکرمﷺ سے پہلے مبعوث ہونے والے انبیاء اوررسولوں کا عمومی طورپر اورنبیﷺ کا خصوصی طورپر اپنی امت کے بعض خطاکاروں کے لئے اللہ تعالیٰ سے شفاعت اورسفارش کرنااللہ کی کتاب اوراس کے رسولﷺ کی حدیثوں سے ثابت ہے اور یہ اسلامی عقیدہ کا ایک حصہ ہے، لیکن یہ شفاعت اللہ تعالیٰ پران کا حق نہیں‘ بلکہ اللہ کی طرف سے ان کی تکریم اوراس کے فضل وانعام سے عبارت ہے۔
۲۔کتاب وسنت میں اللہ کے نبیوں اوررسولوں کے علاوہ اس کے نیک اورصالح بندوں کو بھی اس تکریم اورانعام سے نوازے جانے کی خبردی گئی ہے۔
۳۔اللہ کے جن گنہگاراورخطا کاربندوں کو ان کے نبیوں، رسولوں اورنیک وصالح لوگوں کی شفاعت سے سرفراز کیاجائے گا ان کے لئے مؤحد ہوناشرط ہے، کسی بھی درجے میں کسی شرک کامرتکب اس حق کا مستحق نہیں ہوگا، کیونکہ یہ اللہ کا اٹل اوردوٹوک فیصلہ ہے کہ’’ مشرک کی بخشش نہیں‘‘۔
۴۔نبیوں اوررسولوں کے علاوہ ہرامت کے ان نیک اورصالح لوگوں کا تعین خوداللہ تعالیٰ کرے گا جن کو شفاعت کرنے کی اجازت دی جائے گی، ہرکوئی اپنے آپ کسی بھی شخص کے حق میں شفاعت کرنے کا مجازنہیں ہوگا، اسی طرح وہ اپنے علم اور معرفت کی روشنی میں کسی بھی انسان کی شفاعت کے لئے منہ کھولنے کاحق دار بھی نہ ہوگا بلکہ خود اللہ تعالیٰ ان لوگوں کا تعین کرے گا جن کے حق میں اسے سفارش کی اجازت دی جائے گی۔
شفاعت سے متعلق اوپر جن اہم اوربنیادی باتوں کاتذکرہ کیاگیا ہے، وہ قرآن پاک اور ارشادات رسول ﷺ میں پوری تفصیل سے بیان کردی گئی ہیں، چنانچہ سورۃ البقرہ کی آیت نمبر۲۲۵میں‘جوآیۃ الکرسی کے نام سے معروف ہے، ارشاد الٰہی ہے:(من ذالذی یشفع عندہ إلا بإذنہ یعلم مابین أیدِ یھم وماخلفھم)کون ہے جواس کی جناب میں اس کی اجازت کے بغیرشفاعت کرسکے وہ توجانتا ہے جوکچھ لوگوں کے سامنے ہے اورجوکچھ ان کے پیچھے ہے۔(۲۵۵)
آیت کے آخری فقرے سے ضمناً یہ بات بھی معلوم ہوئی کہ کسی شخص کے حق میں شفاعت اورسفارش کرنے والے کے لئے یہ بھی ضروری ہے کہ وہ اس کے عقیدے اورعمل کے بارے میں مکمل علم رکھتا ہو، جبکہ حقیقت یہ ہے کہ یہ علم صرف اللہ تعالیٰ کوحاصل ہے اوراس کے بندوں میں سے کوئی بھی اس علم سے موصوف نہیں، حتی کہ اس کے برگزیدہ بندے اور آخری رسول محمدﷺ کوبھی یہ علم حاصل نہیں تھا، جیساکہ حوض کوثر کی حدیث سے بصراحت معلوم ہوتاہے، حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبیﷺ نے فرمایا:
’’میں حوض کوثر پرتمہارا پیش روہوں گا، تم میں سے کچھ لوگوں کواٹھایاجائے گا پھرمجھ سے دور کردیا جائے گا، تومیں عرض کروں گا:’’اے میرے رب! یہ تومیرے اصحاب ہیں‘‘ ،جواب دیاجائے گا:’’تجھے نہیں معلوم کہ تیرے بعدانھوں نے کیاکیا نئی چیزیں دین میں داخل کردی تھیں‘‘ ۔
(بخاری :۶۵۷۶ ، مسلم۲۲۹۷)
اس مضمون کی حامل بکثرت احادیث حدیث کی مستند کتابوں میں منقول ہیں جن میں سے بعض میں یہ صراحت ہے کہ رسول اللہﷺ وضوکے روشن نشانات سے اپنی امت کے افراد کوپہچان لیں گے اوران کوکوثر سے بھرے پیالے پیش کرنے کاارادہ ہی کریں گے کہ فرشتے آپ کے اوران کے درمیان حائل ہوجائیں گے اورآپ کو خبردیں گے کہ انھوں نے آپ کے بعد آپ کے دین کوبدل ڈالا اس پر رسول اللہ ﷺ فرمائیں گے:’’جنھوں نے میرے دین کو بدل ڈالا ان کو دور ہٹاؤ‘‘۔
اسلام سے نسبت کا دعوی کرنے والوں کی ایک بہت بڑی تعداد ایسی ہے جوغیراللہ کے آستانوں پر نذریں اورنیاز یں چڑھاتی ہے، قبروں پر سجدے کرتی ہے اوراللہ تعالیٰ کو چھوڑکر یا اس کے ساتھ اولیاء اللہ اوربزرگان دین سے استعانت کرتی ہے اوراس خودفریبی میں مبتلا ہے کہ یہ اللہ کے ہاں بڑا اثرورسوخ رکھتے ہیں، یہ اللہ کے چہیتے اور مقرب بندے ہیں، قیامت کے دن یہ ان کو بحشوا لیں گے اورجنت میں داخل کرواکے ہی چھوڑیں گے، ایسے فریب خوردہ لوگوں کو قرآن پاک کی اُن آیات پرایک نظرڈال لینی چاہئے جن میں روزقیامت کی ہولناکیاں بیان کی گئی ہیں جودن بچوں کو بوڑھا بنادے گا(المزمل:۱۷)جس دن کسی کو بات کرنے کی مجال نہ ہوگی(ہود :۱۰۵) اورجس دن آدمی اپنے بھائی اوراپنی ماں اوراپنے باپ اوراپنی بیوی اوراپنی اولاد سے بھاگے گا(عبس:۳۴،۳۶) اس دن اللہ کی اجازت کے بغیر کوئی متنفس زبان تک نہ کھول سکے گا، سب کواپنی پڑی ہوگی ۔
اوپر جوکچھ عرض کیاگیا ہے اس کا مقصد شفاعت کا عمومی طورپر اوررسول اللہﷺ کی شفاعت کا خصوصی طورپر انکارنہیں ہے ،کیونکہ یہ شفاعت عقیدہ میں داخل ہے اورہمارے اسلاف نہ صرف رسول اکرمﷺ بلکہ دیگرانبیاء، ملائکہ اورمومنین کی شفاعت پرمتفق رہے ہیں، ہم جوکچھ عرض کرنا چاہتے ہیں، وہ صرف یہ ہے کہ شفاعت کسی کا ذاتی استحقاق نہیں ہے، بلکہ یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے بندوں کی تکریم ہے اورقیامت کے دن کوئی بھی اللہ کے اذن کے بغیر کسی کے لئے شفاعت نہیں کرسکتا، اس حکم سے رسول اکرمﷺ بھی مستثنی نہیں ہیں، اس مسئلے میں نبیﷺ کوجوامتیازی خصوصیت حاصل ہے وہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ تمام انبیاء اوررسولوں میں صرف نبیﷺ کواس شفاعت سے سرفراز فرمائے گا جو آپ اللہ تعالیٰ سے لوگوں کاجلد ازجلد حساب کتاب کرکے ان کو حشرکی ہولناکیوں سے نجات دینے کے لئے کریں گے،قرآن پاک میں اس شفاعت کو’’مقام محمود‘‘ سے تعبیرکیاگیا ہے ارشاد ربانی ہے:
اوررات کے ایک حصہ میں تہجد پڑھو جوتمہارے لئے نفل ہے قریب ہے کہ تمہارا رب تمہیں قابل تعریف مقام پر کھڑاکرے۔(اسراء:۷۹)
یہی وہ مقام محمود ہے جس کے لئے ہم اذان کے بعدکی جانے والی دعائے ماثورہ میں اللہ تعالیٰ سے آپ کے لئے درخواست کرتے ہیں، جیساکہ حضرت جابربن عبداللہ رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا ہے:
’’جوشخص اذان سننے کے وقت کہے:’’اللھم ربّ ھذہ الدعوۃ التأمۃ والصلاۃ القائمۃ، آت محمد اً الوسیلۃ والفضیلۃ وابعثہ مقاماً محموداً الذی وعدتہ‘‘
اے اللہ جواس مکمل دعا اوراس قائم ہونے والی نماز کا رب ہے تومحمد ﷺ کو وسیلہ اورفضیلت عطافرما اورجس مقام محمود کا تونے ان سے وعدہ کیاہے اس پرسرفراز فرما، توقیامت کے دن اس کے لئے میری شفاعت واجب ہوجائے گی‘‘۔(بخاری ۴۷۱۹)
واضح رہے کہ مذکورہ بالاحدیث میں جس ’’وسیلہ‘‘ کاذکرآیا ہے اس سے مراد جنت کاایک خاص درجہ ہے، جیساکہ حضرت عبداللہ بن عمروبن عاص رضی اللہ عنہما سے مروی حدیث میں اس کی صراحت ہے،کہتے ہیں کہ انھوں نے نبیﷺ کوفرماتے ہوئے سناہے کہ:
’’جب تم مؤذن کوسنوتوتم بھی وہی کہوجووہ کہتا ہے،پھرمیرے اوپردرود پڑھو، کیونکہ جوکوئی میرے اوپرایک بار درود پڑھے گا اللہ اس کے بدلے اس پر ۱۰؍ رحمتیں نازل فرمائے گا، پھرتم میرے لئے اللہ سے ’’وسیلہ‘‘ مانگو، جوجنت میں ایک درجہ ہے اور وہ اللہ کے بندوں میں سے صرف ایک بندے کے لئے مناسب ہے اورمجھے یہی امید ہے کہ وہ بندہ میں ہی ہوں، اورجس نے میرے لئے وسیلہ مانگا اس کے لئے میری شفاعت واجب ہوجائے گی‘‘۔(مسلم ۳۸۴)
قرآن پاک اورحدیث میں نبیﷺ کے جس مقام محمود کا ذکرآیا ہے اس پرآپ خود سرفراز نہیں ہوجائیں گے اورنہ وہ شفاعت خود کرنے لگیں گے، بلکہ اللہ تعالیٰ آپ کو اس پرسرفراز فرمائے گا اوراس کی اجازت سے آپ وہ شفاعت کریں گے، چنانچہ متعدد احادیث میں اس مقام محمود یاشفاعت کی جوتفصیلات بیان ہوئی ہیں ان کا خلاصہ درج ذیل ہے:
’’قیامت کے دن تمام خلقت ایک ایک کرکے ہرنبی سے شفاعت کی درخواست کرے گی، مگرسب پراللہ تعالیٰ کا اس قدرخوف طاری ہوگا کہ وہ اللہ سے کچھ عرض کرنے سے معذرت کردیں گے، آخرمیں لوگ رسول اللہﷺ کی خدمت میں حاضرہوں گے، اورآپ سے درخواست کریں گے کہ آپ اللہ تعالیٰ سے دعافرمائیں کہ وہ ان کا حساب کتاب کرکے ان کو اس ہولناک مصیبت سے نجات دے، رحمۃ للعالمین فداہ ابی وامی ﷺ تیارہوجائیں گے، آپ اللہ تعالیٰ سے اذنِ باریابی طلب فرمائیں گے اورجب آپ کواذن مل جائے گا توآپ اپنے رب کو دیکھتے ہی سجدے میں گرجائیں گے اورجب تک آپ کا رب چاہے گا آپ سجدے میں پڑے رہیں گے، پھراللہ تعالیٰ آپ سے فرمائے گا، محمد! سراٹھاؤ اورجوکہنا ہے کہو، تمہاری بات سنی جائے گی، تم شفاعت کروتمہاری شفاعت قبول کی جائے، اورتم مانگوتم کو عطاکیاجائے گا، نبی اکرمﷺ فرماتے ہیں:
’’اللہ تعالیٰ میرے دل میں اپنی حمدوثنا کے ایسے کلمات ڈال دے گا جومجھے اس وقت معلوم نہیں ہیں ،اورمیں انہی الہامی کلمات کے ذریعہ اپنے رب کی حمدوثنا بیان کروں گا‘‘۔(بخاری ۷۵۱،مسلم ۴۷۹،۴۸۰)
اس نہایت واضح حدیث سے یہ بات معلوم ہوگئی کہ رسول اللہﷺ اللہ تعالیٰ کے اذن کے بعدہی شفاعت کے لئے زبان کھولیں گے۔
اوپر جوکچھ عرض کیاگیا ہے اس کا تعلق شفاعت کبری یامقام محمود سے ہے، رہی گنہگار مومنین کی بخشش کے لئے نبی اکرمﷺ کی شفاعت، تویہ بدرجہ اولیٰ اللہ تعالیٰ کے اذن کے بغیر نہیں ہوسکتی، کیونکہ براہ راست اوربلااجازت شفاعت اورسفارش اللہ تعالیٰ کے فیصلوں میں مداخلت سے عبارت ہے، اورایسا اعتقاد شرک ہے، جومشرکین رکھتے تھے ان کا دعویٰ تھاکہ وہ اللہ کے ساتھ جن معبودوں کی عبادت کرتے ہیں وہ قیامت کے دن ان کے لئے شفاعت کریں گے اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب عزیز میں ان کے اس اعقتاد کوباطل قراردیاہے، اوریہ بتایا ہے کہ اس کے ہاں کسی بھی شخص کوشفاعت کاحق اوراختیارنہیں حاصل ہے چاہے وہ نبی ہو یاولی۔
آخرت سے متعلق ایک اورنہایت اہم بات ذہن میں تازہ رکھنی چاہئے اوروہ یہ کہ اس عالم الاسباب اوردارالجزاء میں اللہ تعالیٰ نے انسانوں کو امتحان اور آزمائش کے طورپر جواختیارات دے رکھے ہیں وہ سب آخرت میں لے لئے جائیں گے قرآن پاک میں حشرکا نقشہ کھینچتے ہوئے فرمایاگیا ہے:
جس دن سب لوگ ظاہر ہوجائیں گے اوراللہ پران کی کوئی بات چھپی ہوئی نہ ہوگی، آج بادشاہی اوراقتدار کس کاہے؟ ایک اللہ کے لئے جوسب پرغالب ہے آج ہرمتنفس کواس کی کمائی کا بدلہ دیاجائے گا، آج ظلم کاکوئی وجود نہیں ہوگا ،بیشک اللہ حساب لینے میں بہت تیز ہے ۔(المؤمن:۱۶،۱۷)
سورۃ الزمرمیں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
لوگوں نے اللہ کی ویسی قدرنہ کی جیسی قدراس کا حق تھی، قیامت کے دن پوری زمین اس کی مٹھی میں ہوگی اورآسمان اس کے دست راست میں لپٹے ہوئے ہوں گے، پاک اوربالا ترہے وہ اس شرک سے جولوگ کرتے ہیں۔(۶۷)
اورحضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہﷺ کوفرماتے ہوئے سناہے کہ اللہ زمین کواپنی مٹھی میں لے لے گا اورآسمانوں کواپنے داہنے ہاتھ میں لپیٹ لے گا، پھرفرمائے گا میں بادشاہ ہوں کہاں ہیں زمین کے بادشاہ؟ ۔(بخاری ۴۸۱۲،مسلم ۲۷۸۷)
سورۃ الزمر کی مذکورہ بالا آیت مبارکہ کی تفسیر میں حضرت عبداللہ بن عمررضی اللہ عنہما سے جوحدیث مروی ہے اس میں وہ فرماتے ہیں:
رسول اللہﷺ نے منبرپریہ آیت تلاوت فرمائی، اورفرمایا :اللہ فرمائے گا:میں ہوں جبار،میں ہوں متکبر،میں ہوں بادشاہ، میں ہوں بلند وبالا، وہ یہ اپنی ذات کی بڑائی بیان کرتے ہوئے فرمائے گا اوررسول اللہﷺ مسلسل یہ دہراتے رہے یہاں تک کہ منبرآپ کو لے کر لرزنے لگا اورہمیں یہ گمان ہونے لگا کہ وہ آپ کو لے کرگرپڑے گا۔(مسندامام احمد ۵۴۱۴، ۵۶۰۸)
قرآن پاک کی مذکورہ بالا آیات مبارکہ اوراحادیث شریفہ کی روشنی میں قیامت کے دن کی ہولناکی کو چشم تصورسے دیکھئے اورپھر ان لوگوں کے دعؤوں پرغورکیجئے جویہ کہہ کرلوگوں کوگمراہ کررہے ہیں کہ بزرگان دین عموماً اورنبی اکرمﷺ خصوصاً تمام گنہگاروں اورمعصیت کاروں کو ایک ایک کرکے بخشوالیں گے۔
دراصل قرآن اورحدیث میں شفاعت کا جوتصور دیاگیا ہے وہ یہ ہے کہ جہاں یہ شفاعت اللہ تعالیٰ کے اذن سے ہوگی وہیں اس گنہگار کے حق میں ہوگی جومؤحد ہوگا اورجس کا عقیدہ شرک کی ہرطرح کی آلائش اورآمیزش سے پاک ہوگا جیساکہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث میں صراحت ہے، انھوں نے عرض کیا:اے اللہ کے رسول! لوگوں میں آپ کی شفاعت سے کون بہرہ مندہوگا؟ فرمایا: میری شفاعت سے وہ بہرہ مند ہوگا جس نے اس طرح ’’لاإلٰہ إلا اللہ‘‘کہا ہوگا کہ اس کا دل اس عقیدے میں شرک سے پاک ہوگا۔(بخاری ۹۹،۶۵۷۰)
اورجب یہ بات معلوم ہوگئی کہ قیامت کے دن کوئی بھی اللہ تعالیٰ کے اذن کے بغیرشفاعت نہیں کرسکے گا بلکہ جس کواللہ اجازت دے گا اورجس کے حق میں اجازت دے گا وہی کرسکے گا اورصرف اسی کے حق میں کرے گا جس کے لئے اجازت دی جائے گی،ایسی صورت میں اسلامی عقیدہ یہ ہے کہ صرف اللہ تعالیٰ سے یہ دعا کی جائے کہ اے اللہ! توقیامت کے دن اپنے محبوب رسول ﷺ اوربندے کی شفاعت کا مجھے مستحق بنائیو!۔

***

1 comment:

  1. For details about Shifaat
    Plz read this article
    http://pak.net/%D8%A2%D8%AE%D8%B1%D8%AA/%D8%B4%D9%81%D8%A7%D8%B9%D8%AA-%DA%A9%D8%A7-%D8%A7%D8%B3%D9%84%D8%A7%D9%85%DB%8C-%D8%B9%D9%82%DB%8C%D8%AF%DB%81-43624/

    ReplyDelete