Wednesday, November 24, 2010

OCTOBER-2010بابری مسجد ملکیت مقدمہ کافیصلہ عدالتی روایات اورقانونِ انصاف کی شکست

شمیم احمدندویؔ


بابری مسجد ملکیت مقدمہ کافیصلہ
عدالتی روایات اورقانونِ انصاف کی شکست

۶۰؍سال کی طویل عدالتی کاروائیوں، اکتادینے والے انتظار، ثبوت وشواہد کے نام پر ہونے والی دھاندلیوں، تضییع اوقات پرمبنی فضول سماعتوں اوردو دو بارکے التواء کے بعدآخرکاربابری مسجد ملکیت مقدمہ کا فیصلہ ۳۰؍ستمبر کو الہ آباد ہائی کورٹ کی لکھنؤ بنچ نے ہزاروں میڈیا اہل کاروں اورمشتاقان دیدوشنیدکی موجودگی میں سخت حفاظتی بندوبست کے درمیان سنادیا، یہ مقدمہ جس پر ملک کے ایک ارب ۲۵ کروڑافراد کی نگاہیں مرکوز تھیں ملک کا سب سے تاریخی مقدمہ ، سب سے دوررس نتائج کا حامل اورنہ صرف موجودہ بلکہ آئندہ کئی نسلوں کو متاثرکرنے والا قضیہ ثابت ہوسکتا ہے،آئندہ کئی مہینوں بلکہ برسوں تک اس پرتبصرے ہوں گے، اس فیصلہ کے ہرپہلو کا تجزیہ کیاجائے گا، ٹی وی ٹاک شو منعقد کرکے ماہرین قانون اورارباب سیاست کی رائیں لی جائیں گی، اوراس فیصلہ سے متاثرہ فریق آئندہ کا لائحہ عمل اورحکمت عملی طے کرے گا، غرض کہ وہ سب کچھ ہوگا جواس فیصلہ کے مضمرات سے متعلق ہوگا۔
سماعتوں کی روداد ۱۴؍ہزارصفحات میں بند ہے توفیصلہ کی تفصیلات بھی ہزاروں صفحات پرمشتمل ہے، ۳۰؍ستمبر کو پورا ملک گوش برآواز تھا،بازاروں میں موت کا سکوت طاری تھا، دونوں فریقوں کے جذبات میں ہلچل تھی توفیصلہ کے تئیں امید وبیم کی کیفیات حاوی تھیں، تین فاضل ججوں کی بنچ نے فیصلہ میڈیا کے حوالہ کیا، اورپھران کے واسطہ سے پورے ملک تک آنافانا پہونچ گیا، مسلمانوں کواس فیصلہ سے بے حد مایوسی ہوئی اور وہ قلق واضطراب اورحزن وملال کے شکار ہوئے تودوسرا فریق خلاف توقع ملنے والی خوشی سے سرشاراور احساس فتح وکامرانی سے ہمکنار ہوا، یہ فیصلہ قوم مسلم کی امیدوں کے خلاف اوران کے مذہبی جذبات پرایک کاری وارتھا اوران کے قلب وجگر پرایسا زخم لگایاگیا جو شاید برسوں مندمل نہ ہو۔
مسلمانان ہند کو اس ملک میں طرح طرح کے مسائل ومشکلات کاسامنا کرناپڑتا ہے،فرقہ وارانہ منافرت وتشددکاشکار ہونا پڑتا ہے، حکومتوں کی جانبداری اور دوہرے معیار کا تماشا دیکھنا پڑتا ہے، دہشت گردی وانتہا پسندی کا بے سروپا الزام سہنا پڑتاہے، قدم قدم پر حب الوطنی کا سارٹیفکٹ پیش کرنا پڑتا ہے، پھربھی غداروطن کہلائے جانے کا حقدار چاروناچار بننا پڑتا ہے، اوروقتاً فوقتاً یہاں کی سرزمین کو ان بے گناہ مسلم نوجوانوں کی گرفتاریوں کا گواہ بننا پڑتا ہے، جن کے خلاف ’’تہمتوں کے تراشے جانے کاعمل‘‘ اور ’’ان کے سروں پرآرے چلائے جانے‘‘کا فعل روز کامعمول ہے لیکن مسلمانوں کو ان سب زیادتیوں کو نظرانداز کرکے صبر کاتلخ گھونٹ بھی پیناپڑتا ہے۔

ملک کی ریاستی ومرکزی حکومتیں، اضلاع کی انتظامیہ وپولیس ،ملک وریاستوں کی سیکورٹی فورسز، ہردوجگہوں کی تفتیشی ایجنسیاں، اکثریتی طبقہ کی نمائندگی کرنے والا ذرائع ابلاغ، الیکٹرانک وہندی انگریزی پرنٹ میڈیا، ملک کی فضاؤں کواپنے زہرآلود بیانات سے مسموم کردینے والے لیڈران، فرقہ پرست پارٹیاں اورفسطائی طاقتیں، اشتعال انگیزحرکتیں کرنے والے اوراشتعال انگیز عزائم رکھنے والے مٹھی بھروہ لوگ جنھیں اکثریتی طبقہ کی نمائندگی کاجھوٹا دعوی ہے اورملک میں انتہا پسندانہ اوردہشت گردانہ کا روائیاں انجام دے کر یہاں کی فرقہ وارانہ یکجہتی کے ماحول کو سبوتاژکرنے والی بعض تنظیمیں وافراد اورتمام ثبوت وشواہد کو نظرانداز کرکے آنکھ بند کرکے مسلمانوں کو اس کے لئے ذمہ دار ٹھہرانے والی سرکاری وغیرسرکاری ایجنسیاں، مسلمانوں کی بدقسمتی پرمہرثبت کرنے والے مذکورہ بالا کردار اوریہاں کی بساط سیاست پرکھیلی جانے والے شطرنج کے یہ مہرے ایسے تھے جن سے مسلمانوں نے کبھی بھی خیرکی امید نہیں کی اوراپنے دگرگوں حالات میں تبدیلی کے لئے کبھی آس نہیں لگائی، لیکن مذکورہ بالا ساری زیادتیوں وناانصافیوں کے بعدمسلمانوں کی آخری امیدیہاں کی عدلیہ سے وابستہ تھی اورعدلیہ پر جانب داری اورحق تلفی کا انھوں نے کبھی الزام نہیں عائد کیا، کتنے ہی معاملات کا تصفیہ ان کی توقعات کے مطابق ہوا اورکتنے مقدمات کا فیصلہ ان کے حق میں ہوا، کتنے ہی بے قصورنوجوانوں کی بے گناہی ثابت ہوئی اورکتنوں کوانہی عدالتوں نے باعزت بری کیا اورکتنے جھوٹے مقدمات کو اپنے سخت ریمارکس کے ساتھ خارج کیا، کتنی آراضی کافیصلہ ان کے حق میں ہوا اورفریق مخالف کا دعوی مسترد ہوا، مسلمانوں کے قاتلوں ،ان کے خلاف فسادبرپا کرنے والوں، ان کے خون کی ہولی کھیلنے والوں ،ان کی املاک کوتباہ وبرباد کرنے والوں اورفرضی انکاؤنٹروں میں انھیں ہلاک کرنے والوں کوسلاخوں کے پیچھے پہونچایا گیا اور کتنی ہی اونچی شخصیتوں اوراونچی کرسیوں کے مالکوں کوکٹہروں میں کھڑا کیاگیا، غرض کہ نچلی واونچی عدالتوں نے بارہا اپنا فرض غیر جانبدارانہ طریقہ سے اداکیا اورملک کی جمہوریت کی لاج رکھی اور جمہوری قدروں اورآئین ودستور کو پامال ہونے سے بچایا، اورآج اگراس ملک میں جمہوریت زندہ ہے توجیوڈیشری کی اسی آزادی کی بدولت۔
عدلیہ کے اس منصفانہ کردار کا اعتراف کرلینے کے بعد ہم اپنے کو اس کا اہل نہیں پاتے کہ بابری مسجد رام جنم بھومی ملکیت مقدمہ میں الہ آباد ہائی کورٹ کے لکھنؤ بنچ کی جانب سے آئے ہوئے اس فیصلہ پر حرف گیری یانکتہ چینی یہ کہہ کر کریں کہ اس فیصلہ سے دانستہ طورپر انصاف کا خون ہواہے، لیکن حالات کا منصفانہ وغیر جانبدارانہ تجزیہ ہمیں اس نتیجہ پر پہونچنے میں ضرورمدد دے سکتا ہے کہ اس معاملہ میں انصاف کے تقاضے پورے نہیں ہوئے، اورملک وبیرون ملک کے مسلمانوں کو اس سے بڑی مایوسی ہوئی ہے ، مناسب معلوم ہوتا ہے کہ اس فیصلہ سے متعلق دوپہلوؤں کا ذکر اختصار کے ساتھ کردیاجائے تاکہ ماہنامہ ’’السراج‘‘ کے ان صفحات میں محفوظ ہوکرآئندہ کبھی بوقت ضرورت بطور سند کام آسکے۔
ایک تو معززعدالت نے یہ فیصلہ’’آستھا‘‘ اورعقیدت کو بنیاد بناکر کیاہے یااکثریتی طبقہ کی ’’آستھا‘‘ اوران کے جذبات کا اس فیصلہ میں احترام کیاہے، جوتمام دنیا کے عدالتی نظام اورآئینی تقاضوں کے خلاف ہے، عدالتوں کا کام ثبوت و شواہد اورگواہوں وبیانات کی بنیاد پرفیصلہ کرناہے نہ کہ خود اپنے دل یا کسی فریق کے دل کی گواہی کی روشنی میں ،معزز جیوری کا دل کیا کہتا ہے یا اکثریت کے جذبات کا احترام ان سے کس فیصلہ کا مطالبہ کرتا ہے؟ اس کو قطعاً نہ زیربحث لایاجانا چاہئے اورنہ فیصلوں پرجذبات کو اثرانداز ہونے دینا چاہئے، اس سے عدالت کی غیرجانبداری بھی مجروح ہوگی اورآئین کا احترام بھی مشکوک ہوگا، عقیدت واحترام یاذاتی رائے وخیال کا عدالتی فیصلوں میں کس حد تک دخل ہونا چاہئے اس سے متعلق اسلامی تاریخ سے صرف ایک مثال پیش ہے جو اسلامی قانون انصاف کو بخوبی واضح کرتا ہے اورجسے دنیا کے نظام عدالت کے لئے مشعل راہ بنایا جانا چاہئے۔
واقعہ نہایت معروف ہے لیکن اس موقع پراس کا پیش کیاجانا معقول ہے، چوتھے خلیفۂ راشد، داماد رسول اللہﷺ ،یکے ازعشرۂ مبشرہ ،سابقین اولین میں بھی اسبق ترین ،جن کی شجاعت اورصداقت ضرب المثل اورجن کی شرافت وامانت کا دوست دشمن سب کو اعتراف ،یہ ذات گرامی تھی حضرت علی رضی اللہ عنہ کی، انھیں کا زمانۂ خلافت تھا،خودان کی زرہ گم ہوجاتی ہے، تلاش بسیار کے بعدایک یہودی کے پاس سے برآمد ہوتی ہے، یہ طلب کرتے ہیں ،وہ انکارکرتا ہے ،حکومت وسلطنت کے یہ مالک ہیں ،طاقت واختیارات کا سارا وزن ان کے پلڑے میں ہے، اس یہودی سے اپنی زرہ زبردستی چھین لینے میں کوئی چیز مانع نہیں ہے، لیکن ایک ادنیٰ شخص کی طرح قانون کے سبھی تقاضے یہ پورے کرتے ہیں، اپنی زرہ کی ملکیت کا دعویٰ قاضی شریح رحمہ اللہ کی عدالت میں دائر کرتے ہیں، قاضی صاحب اپنی ’’آستھا‘‘ اور اس عقیدت واحترام کی بنیاد پرکوئی فیصلہ نہیں کرتے ہیں جو ان کو خلیفۂ رابع کی ذات سے تھی اورنہ ہی خلیفۂ وقت کی حکومت اوروسیع اختیارات کے مالک ہونے کی فکر اورپرواہ کرتے ہیں، اسلامی قانون انصاف کی ایک شق ہے: ’’البیّنۃ علیٰ من ادَّعی والیمین علی من انکر‘‘یعنی ثبوت مدعی کے ذمہ ہے اورمدعاعلیہ کے اوپرصرف قسم ہے، قاضی صاحب نے اس زریں اصول عدل وانصاف کے تحت حضرت علی رضی اللہ عنہ سے ثبوت وگواہ طلب کیا، حضرت علی رضی اللہ عنہ نے ایک گواہ نواسۂ رسول اوراپنے لخت جگرحضرت حسن رضی اللہ عنہ کو پیش کیا اوردوسرا اپنے غلام قنبررضی اللہ عنہ کو ،قاضی صاحب نے دونوں کی گواہی مسترد کردی یہ کہہ کرکہ میرے نزدیک باپ کے حق میں بیٹے کی گواہی اورآقا کے حق میں غلام کی شہادت قابل قبول نہیں اوراسی کے ساتھ حضرت علی رضی اللہ عنہ کا مقدمہ خارج کردیا، یہ تھا اسلام کاقانونِ انصاف جس میں قاضی شریح نے انصاف کے تمام تقاضے پورے کئے اوراپنے دلی جذبات اورذاتی رائے کوانصاف کے آڑے نہیں آنے دیا ،ورنہ وہ بخوبی جانتے تھے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ جیسی مہتم بالشان شخصیت جواتنی بڑی حکومت وسلطنت کے مالک، عدالت وصداقت کا پیکر اورامانت ودیانت کا جیتا جاگتا نمونہ تھے، ایک حقیرسی زرہ کے لئے جھوٹ نہیں بول سکتے تھے، لیکن پھربھی انھوں نے ثبوت وشواہد کی بنیادپر ان کے خلاف فیصلہ صادرکرنے میں ذرابھی تذبذب وہچکچاہٹ کا مظاہرہ نہیں کیا ،گرچہ ثبوت بھی اپنی جگہ مکمل ودرست تھے لیکن اسلام کا نظام عدل کچھ اورکہتا تھا، فیصلہ ضرورحضرت علی رضی اللہ عنہ کے خلاف ہوا لیکن دنیا میں اسلامی نظام عدل کا بول بالا ہوگیا اوراس جرأت مندانہ فیصلہ کو دیکھ کر یہودی اسیراسلام ہوکرمشرف بہ اسلام ہوگیا، اب بھی اسلام کا نظام عدل عالم انسانیت کے لئے مشعل راہ ہے اورابھی بھی دنیا کواسلام کے عالمگیر مساوات اورعادلانہ نظام حیات سے بہت کچھ سیکھنے کی ضرورت ہے۔
تاریخ اسلام کے روشن صفحات میں ثبت اس منصفانہ فیصلہ کے ذکرسے یہاں محض اسلام کے نظام عدل کا بیان اوراسلام کی برتری کا بکھان مقصودنہیں ہے ،بلکہ دوباتیں بتانا چاہتاہوں اوّل توعدالتوں کے فیصلے اگرآستھا اورعقیدت کی بنیادپر ہونے لگیں تودنیا کا سارا عدالتی نظام چرمراجائے گا اورہندوستان کے ایک ہائی کورٹ کے ذریعہ دئے گئے اس تاریخی فیصلہ کو اگرمن وعن باقی رکھاجائے گا تواقلیتوں کا عدالتوں پرسے بھی بھروسہ اٹھ جائے گا اوردنیا کے لئے ایک ایسی غلط نظیرقائم ہوگی جوثبوت وشواہد کے سارے عمل کو دفتربے معنی بناکر چھوڑے گی اورہندوستانی عدلیہ کی ایک ایسی تصویر سامنے آئے گی جواسے مضحکہ خیز بنادے گی۔
آستھا کی بنیاد پرکیا گیا یہ فصیلہ ایسانہیں ہے جسے صرف مسلمانوں نے ہدف تنقید بنایا ہو بلکہ جہاں تک میں نے سمجھا ہے مسلمانوں سے زیادہ سیکولرمزاج اورانصاف پسند ہندوؤں نے ہی اس کے خلاف صدائے احتجاج بلند کیا ہے، اورمیرے علم واطلاع کے مطابق سب سے پہلے سماج وادی پارٹی کے صدرملائم سنگھ یادو نے اس پر اپنا احتجاجی بیان درج کرایا اوریہ انھیں کو زیب بھی دیتا تھا کہ مسلمانوں میں ان کی شہرت ومقبولیت اسی بابری مسجد کی حفاظت کی وجہ سے ہوئی اوران کی طرف سے عتاب کا نشانہ بھی وہ اسی مسئلہ پر بنے جب بابری مسجد کے قاتل کلیان سنگھ کو گلے لگایا ،لیکن موجودہ حقیقت پسندانہ بیان دے کر انھوں نے اس غفلت وکوتاہی اوراس جرم عظیم کی تلافی کردی جوانھوں نے بابری مسجد کے قاتلوں سے تعلقات استوار کرکے کی تھی، مسلمانوں میں ان کے اس بیان کی عمومی پذیرائی بھی ہوئی اوراستقبال بھی ،یہ بتانے کی مطلق ضرورت نہیں کہ یہ قضیہ ۶۰سال سے زائد عرصہ سے عدالتوں میں زیرسماعت تھا اور’’متنازعہ عمارت‘‘ جسے سوچے سمجھے منصوبہ کے تحت ’’ووادت ڈھانچہ‘‘ مشہور کیاگیا ہمیشہ سے متنازعہ نہیں تھی اورصرف ہندوستان ہی نہیں بیرونی دنیا میں بھی اسے ’’بابری مسجد‘‘کے نام سے جاناجاتا تھا، اس کے لئے کسی گواہ اورثبوت کی ضرورت نہیں تھی، اوریہ بحث بھی بالکل فضول وبے معنیٰ تھی کہ اسے مغل حکومت کے بانی ’’ظہیر الدین بابر‘‘نے بنایا یا اس کے حکم پر اس کے سپہ سالار یاوزیر’’ میر باقی‘‘نے، اوراسے ۱۵۲۵ء ؁ میں تعمیر کیا گیا یا ۱۵۲۸ء ؁ میں، معمار کانام اورسن تعمیر میں اختلاف سے نفس مسئلہ پر کوئی اثر نہیں پڑتا جب کہ معزز عدالتوں نے اپنے قیمتی وقت کا ایک بڑا حصہ اس ’’عقدہ‘‘ کوسلجھانے میں صرف کیا ،جہاں تک میں سمجھتا ہوں کہ عدالتِ عالیہ نے اپنے فیصلۂ حالیہ میں اس نکتہ پر بلاضرورت کافی زوردیا کہ سنی وقف بورڈ یہ ثابت کرنے میں ناکام رہا کہ اس مسجدکو بابر نے ۱۵۲۸ء ؁ میں تعمیرکیا تھا، تعمیرکسی نے بھی کی ہو اور کسی بھی سن میں کی ہو لیکن اس مسئلہ میں کوئی اختلاف کبھی نہیں رہا کہ وہ مسجد تھی اورمسلمان اس میں ۱۹۴۹ء ؁ کی ۲۲؍دسمبر تک باقاعدہ وباضابطہ اور باجماعت نمازپڑھتے رہے ہیں، یعنی اس وقت تک جب تک رات کی تاریکی اور خاموشی میں اس میں بت رکھ کر’’ رام للا‘‘ کے ’’پرکٹ‘‘ ہونے کا ڈرامہ نہیں رچایا گیا تھا، اس کا اعتراف ہندوؤں کوبھی ہے اورسرکاری کاغذات بھی اس کی گواہی دیتے ہیں، عدالتی تفصیلات سے قطع نظریکم جولائی ۱۹۵۱ء ؁ کو ڈپٹی کمشنرفیض آباد نے جوجواب دعوی داخل کیاتھا اس میں اس نے صاف لکھا تھاکہ’’یہ جائداد نزاعی’ بابری مسجد‘کے نام سے مشہور ہے اور۱۵۲۸ء ؁ سے ۱۹۴۹ء ؁ تک اس مسجد میں مسلمان پنج وقتہ نمازپڑھتے آئے ہیں، اس کا استعمال ’’رام چندرجی‘‘ کے مندر کی حیثیت سے کبھی نہیں ہوا،جب کہ ۲۲؍دسمبر ۱۹۴۹ء ؁ میں ’’رام چندرجی ‘‘کی مورتی چوری اورغلط ڈھنگ سے مسجد میں رکھی گئی ہے جوکہ ایک غلط اورغیرقانونی واقعہ ہے جس سے مسلمانوں میں بے چینی پیدا ہوگئی ہے اورنقض امن کاخطرہ ہے‘‘ ایس.پی. فیض آباد’’ کرپال سنگھ‘‘ نے بھی دفعہ 145کے جواب میں اپنی تحقیقاتی رپورٹ میں لکھا’’یہ زمانۂ قدیم سے’ بابری مسجد‘ہے اوریہاں مسلمان ہمیشہ نماز پڑھتے آئے ہیں، ہندوؤں کا اس سے کوئی واسطہ یاسروکارنہیں‘‘۔
میں نے یہاں بطورمثال صرف دوہندوآفیسران کے بیانات درج کئے ہیں ورنہ مسلمانوں کے دعوی کے حق میں ثبوت وشواہد کی کمی نہیں ہے، عدالتی کا روائی کے ۱۵؍ہزار صفحات میں ان کی تفصیلات مل جائے گی اوریہاں ہمیں ان تفصیلات سے اس وقت غرض بھی نہیں، بلکہ اس کے برعکس میں جوبات یہاں کہنا چاہتا ہوں اس کا لب لباب یہ ہے کہ یہ ثابت کرنا مسلمانوں یا سنی وقف بورڈ کاکام اصولی طورپرہے کہاں کہ وہ زمین جہاں بابری مسجد قائم تھی ان کی ملکیت ہے ؟اگر’’متنازعہ عمارت‘‘ بابری مسجد نہیں تھی تو اسے ہندو جنونیوں نے منہدم کیوں کیا؟ پوری دنیا اس عمارت کو بابری مسجدہی کے نام سے جانتی تھی اور وہ مکمل طورپر مسلمانوں کے قبضہ میں اورانھیں کے زیراستعمال تھی ،تواگراچانک ہندوؤں نے اس پراپنا دعوی پیش کردیا تو عدالتی اصولوں کے مطابق اس کا ثبوت بھی توانھیں کے ذمہ ہے، یہ توپوری دنیا کا قانون کہتا ہے اورہندوستان تواس معاملہ میں ایک قدم اورآگے ہے کہ کسی کے ذاتی مکان ودوکان پراگرکوئی کرایہ دار چندسال تک قبضہ جماکر بیٹھ جائے تومالک مکان کو اسے خالی کرانے اوراپنا ثابت کرنے میں ناکوں چنے چبانے پڑجاتے ہیں ،جب کہ بابری مسجد پر ۴۲۱ ؍سال تک مسلمانوں کا قبضہ رہا جنھیں بیک جنبش قلم بے دخل کردیا گیا اورپھر انھیں سے یہ مطالبہ کیاجانا کہ اسے ثابت کریں کہ وہ زمین ان کی تھی، کہاں کا انصاف ہے ؟بابری مسجد کی زمین مسلمانوں کی تھی یاہندوؤں کے دعوؤں کے مطابق رام جنم بھومی تھی یہ مسئلہ ایک تفصیلی مضمون کا طالب ہے اوران صفحات میں یہاں اب اتنی گنجائش نہیں ہے اس لئے ان شاء اللہ اگلے شمارہ میں کسی مستقل مضمون میں اس پر اظہار خیال کیاجائے گا، فی الحال یہ موضوع یہیں چھوڑتے ہوئے اسی سے متعلق دوسرے پہلوپر چند امور کی طرف آتے ہیں۔
استخلاص وطن کے لئے عدیم المثال قربانیاں دینے، ملک کے لئے اپناسب کچھ لٹادینے، سرحدوں کی حفاظت کے لئے سردھڑکی بازی لگادینے اورملک کی تعمیروترقی کے لئے بیش بہا خدمات انجام دینے کے باوجود مسلمان ہمیشہ شک وشبہ کی نظرسے دیکھاجاتا رہا اوراس کی حب الوطنی پرسوالیہ نشان لگایاجاتا رہا ،خاص طورسے حالیہ برسوں میں بے دریغ اس کا رشتہ دہشت گردی اورتشددپسندی اورجارحانہ رجحانات سے جوڑا جاتا رہا ،لیکن حقیقت کیا ہے اس کوجاننے کے لئے حقیقت کو سننے کا حوصلہ بھی چاہئے۔
بابری مسجد ملکیت مقدمہ کا فیصلہ آنے کے بعد اوراس فیصلہ کی روسے سنی وقف بورڈ کا دعوۘ? ملکیت خارج کئے جانے کے بعدپورے ملک کا مسلمان غم واندوہ کے اتھاہ سمندرمیں ڈوب گیا، اس پر رنج والم کے پہاڑ ٹوٹ پڑے ،اس پرحزن وملال کے بادل چھاگئے، اس کے آرزوؤں کا کمل مرجھاگیا، اس کی تمناؤں کا گلاگھونٹ دیاگیا اوروہ خوداپنی شکست کی آوازبن گیا ،لیکن یہ سب کچھ صرف اس کے دلی جذبات کی عکاسی تھی، اس نے کھل کر اپنے غموں کا اظہار بھی نہیں کیا اورذہنی صدمات سے نڈھال ہونے کے باوجود اس فیصلہ پرعلانیہ تبصرہ سے بھی گریز کیا کہ کہیں اس پرتوہین عدالت یاملک کے آئین سے بغاوت کا الزام نہ لگ جائے، مسلمان نہ توجذباتی ہوا،نہ سڑکوں پرنکلا، نہ احتجاجی نعرے لگائے اورنہ کسی توڑپھوڑ کا حصہ بنا،نہ تشددپرآمادہ ہوا،نہ احتجاج کی کوئی بے ضررسی بھی صورت اپنائی ،غرض کہ پوری طرح ملک کا امن پسند شہری ہونے کا ثبوت دیا، اور اپنے ملی قائدین اورمذہبی رہنماؤں کی اپیلوں کاہرطرح احترام کیا، پھربھی ان پر بدامنی پھیلانے اوردہشت گردی میں ملوث ہونے کے الزامات لگتے رہے ہیں، اس کے دل نے آستھا کی بنیادپر کیا گیا یہ فیصلہ توقبول نہیں کیا لیکن اس کی زبان پر تالے پڑے رہے ، وہ حسرت ویاس کی تصویر توبنا لیکن حیران وششدراورمہربہ لب بنارہا، اس کے دماغ میں ہلچل لیکن ہونٹوں پرقفل ،اوراس نے اپنے ایک ایک عمل سے ثابت کردیاکہ وہ عدلیہ کا احترام اورملک کے آئین ودستور کا اکرام کرنا جانتا ہے، ورنہ آستھا اور عقیدت واحترام صرف ہندوؤں کی میراث نہیں، مسجد کے تئیں اس کے جذبات اوراس کے احساسات بھی کسی سے کم نہیں تھے جس کا لحاظ نہیں رکھا گیا، ملک کے مسلمانوں کی تصویر مسخ کرکے انھیں امن وامان کا دشمن قرار دینے کی سازشیں اورسرکاری وغیرسرکاری سطح پر کوششیں ہوتی رہی ہیں لیکن اس حساس ونازک موقع پر انھوں نے صبروتحمل کا مظاہرہ کرکے یہ تصویر پھاڑ کر پھینک دی اور اس تصورکو پیروں کے نیچے پامال کردیا جوان کے بارے میں غلط طورسے قائم کرلیا گیا، انھوں نے ہمیشہ پہلے بھی کہا تھاکہ وہ عدالت کے ہرفیصلہ کا احترام کریں گے اوربعدمیں علانیہ احتجاج نہ کرکے انھوں نے دنیا کو دکھادیا کہ ان کے دل میں عدلیہ کاکیا مقام ہے ، اپنی اس امن پسندی کے لئے وہ اجتماعی طورپر امن کے نوبل پرائز کے حقدار ہیں ،لیکن خیریہ توبہت بڑاعالمی تمغۂ امن ہے، خود ملک نے سرکاری یاغیرسرکاری سطح پر ان کی اس امن پسندی کی کوئی ستائش نہیں کی اوران کی اس خوبی کا کسی طورپراعتراف نہیں کیا، حالانکہ ملک نے شہروں وقصبات، گاؤں ودیہات، چھوٹے بڑے مواضعات اورملک کے حساس مقامات کے لئے غیرمعمولی سیکورٹی اقدامات اورحفاظتی انتظامات کئے تھے اوران پر خطیررقم کے مصارف بھی یقیناًہوئے ہوں گے پورا ملک خدشات اوراندیشہ ہائے فسادات کا شکار بھی اس عرصہ میں رہا ،جس کا ثبوت اسکولوں کالجوں میں چھٹیوں کے اعلانات اورلوگوں کا اسفار میں احتیاط وریزوریشن ٹکٹوں کی بڑے پیمانہ پر واپسی میں دیکھا جاسکتا ہے، اس عرصہ میں پوراملک دہشت زدہ اور غیر یقینی کیفیات کا شکار رہا اورکاروباری حلقوں میں بے چینی واضطراب کا اثرصاف محسوس ہوتا تھا، لیکن داد دینا ہوگا مسلمانوں کی امن پسندی کو اورسارٹیفکٹ دینا چاہئے انھیں محب وطن اور پرامن شہری ہونے کا کہ انھوں نے سارے خدشات کو بے معنی ثابت کردیا اورپورے ملک میں کسی ایک خطہ یامقام پر فساد اور اشتعال انگیزی کا ایک بھی واقعہ رونما نہیں ہوا،اس موقع پرکہاجاسکتا ہے کہ اگرملک میں فرقہ وارانہ فسادات نہیں ہوئے تواس کا کریڈٹ یک طرفہ طورپر صرف مسلمانوں کو کیوں ملے؟ توعرض ہے کہ یہاں پران دونوں کے دوبنیادی فرق کو نظرانداز نہیں کیاجاسکتا، اولا تو فساد یا انتشار یامسلح وپرتشدد احتجاج کا اندیشہ مسلمانوں کی طرف سے ہی ہونا چاہئے تھا کہ فیصلہ ان کے خلاف اورغیرمنصفانہ ڈھنگ سے آیا تھا اوردوسرے فریق کو اپنی توقعات سے بڑھ کر مل گیا تو اسے خاموشی میں ہی عافیت نظرآئی، دوسرے ہندوؤں کے ایک طبقہ نے عدالتی فیصلہ کوماننے سے انکارکیاتھا بلکہ اس جذباتی ایشومیں عدالت کے فیصلہ دینے کے حق کوبھی مستردکردیاتھا، لیکن جب فیصلہ ان کے حق میں آیا تو وہ کون سا احتجاج کرنے کا حق رکھتے تھے، اب کیاحکومت یاپروپیگنڈہ کی دنیا مسلمانوں کی امن پسندی کو خراج تحسین پیش کرے گی اوراس کی خوبیوں کا اعتراف کرے گی ؟آثار وامکانات تونہیں،اسی عدالتی فیصلہ کے بعد بعض اخبارات نے سرخی جمائی’’نہ کسی کی ہارنہ کسی کی جیت‘‘ میں اس میں صرف اتنا اضافہ کرناچاہتا ہوں کہ ہاروجیت کا تجزیہ توپھرکیا جاسکتا ہے لیکن فوری طورپرعام آدمی کے جواحساسات ہیں وہ یہ ہیں کہ عدالتی روایات سے ہٹ کرجویہ فیصلہ کیاگیا اس میں شکست صرف آئین ودستور اورقانونِ انصاف کی ہوئی ہے اوریہی میرے اس اداریہ کا عنوان ہے۔ ***

مولاناابوالبرکات رحمانی کا سانحۂ ارتحال

زیرنظرشمارہ مرتب ہوکر پریس میں جانے کے لئے تیار تھاکہ خانوادۂ میاں محمدزکریا رحمہ اللہ کے گل سرسبد ،عظیم مصلح، بے لوث داعی اور معلم ‘عم گرامی مولاناابوالبرکات رحمانی رحمہ اللہ علم و عمل سے بھر پور ایک طویل اور قابل رشک زندگی گذار کرکم وبیش ۹۰؍برس کی عمرمیں مختصرعلالت کے بعد۶؍اور ۷؍ اکتوبرکی درمیانی شب میں تقریبا سوا گیارہ بجے انتقا ل فرماگئے، اناللہ واناالیہ راجعون۔
عم محترم مولانا ابوالبرکات رحمانی رحمہ اللہ جھنڈانگر کے ایک معروف علمی و دعوتی خانوادہ کے چشم و چراغ اوریہاں کے ولی صفت بزرگ اورمصلح و مربی میاں محمد زکریا رحمہ اللہ کے سب سے بڑے فرزند تھے، شرافت، تقوی، خلوص، للہیت، خود داری،خلق حسن،مہمان نوازی اورذوق عبادت و ریاضت والد بزرگوار سے وراثت میں پائی تھی، پوری زندگی تعلیم و تربیت اور دعوت و اصلاح میں گذار دی، جامعہ سراج العلوم جھنڈانگر میں طویل المدت خدمت کا ریکارڈ قائم کیا اور پورے تسلسل کے ساتھ کم و بیش ۵۲؍ برسوں تک اس سے وابستہ رہ کر تدریس کے ساتھ انتظام و انصرام کی ذمہ داری بھی نبھائی، بڑھاپے کی منزل میں قدم رکھنے کے بعد تقریبا دس برسوں تک مدرسہ خدیجۃ الکبری جھنڈانگر میں بھی بچیوں کو تعلیم و تربیت سے آراستہ کرتے رہے۔ یقیناًآپ کے انتقال سے جھنڈانگر اور مضافات سے ایک طرح برکت اٹھ گئی اور یہاں کے مسلمان ایک ولی صفت بزرگ سے محرو م ہوگئے، اللہم اغفر لہ و ارحمہ و عافہ و اعف عنہ ۔
وفات کی خبر بجلی کی طرح علاقہ میں پھیل گئی اور بڑی تعداد میں آپ کے شاگردوں اور عقیدت مندوں نے نمازجنازہ اور تدفین میں شرکت کی سعادت حاصل کی، ۷؍اکتوبر کو بعد نماز ظہر آپ کی نماز جنازہ آپ کے بھتیجے اور مرکز التوحید کے صدر جناب مولانا عبد اللہ مدنیؔ کی امامت میں جامعہ کی جامع مسجد میں ادا کی گئی جسے آپ نے کم و بیش ۸۰؍ برسوں تک اپنے سجدوں سے آباد رکھا تھا، جنازہ میں ایک ہزار سے زائد فرزندان توحید نے شرکت کی، اس کے بعد مدرسہ خدیجۃ الکبریٰ کی مسجد میں دوبارہ آپ کی نمازجنازہ پڑھی گئی اور آپ کے بھائی جناب مولانا عبد الوہاب ریاضی ؔ صاحب کی امامت میں سیکڑوں طالبات و معلمات سمیت عامۃالمسلمین نے شرکت کی ۔اللہ تعالیٰ آپ کی بال بال مغفرت فرمائے ،آپ کی خدمات کو رفع درجات کا ذریعہ بنائے اور پسماندگان کو صبر جمیل کی توفیق بخشے۔ آمین۔
نوٹ: مولانا رحمانی کی حیات و خدمات پر تفصیلی مضمون آئندہ شمارہ میں ملاحظہ فرمائیں، ان شاء اللہ۔

غم زدہ: عبد المنان سلفی

No comments:

Post a Comment