Wednesday, November 24, 2010

NOVEMBER-2010 عہدوں کی ہوس اوراسلامی احکام

مولانا محمد انورمحمد قاسم سلفی

داعی لجنۃ القارۃ الہندیۃ، کویت

عہدوں کی ہوس اوراسلامی احکام
عہدوں کی حرص کی ممانعت

رسول اکرم  نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی تربیت، قرآن وسنت ، ایمان داری، سچائی اوراخلاص پرکی آپ نے سیاسی اسلوب نہیں اپنایا، لوگوں کو بلند عہدوں کا لالچ نہیں دیا، جس کانتیجہ یہ نکلاکہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے اسلام سے پہلے بھی اورمسلمان ہونے کے بعدبھی کسی عہدے کی تمنا نہیں کی، صحابہ کرام میں حضرت عمربن خطاب رضی اللہ عنہ نمایاں مقام کے حامل ہیں آپ ﷺ نے انھیں بھی عہدے کالالچ نہیں دیا اورنہ ہی منصب پانے کی خواہش ان کے دل میں کبھی ابھری، ہاں زندگی میں ایک مرتبہ بعثتِ نبوی کے بیسویں سال جنگِ خیبر کے دن یہ خواہش ان کے دل میں ابھری،جب سرورِ کائنات  نے یہ اعلان فرمایا:
ترجمہ: میں کل جنگ کا جھنڈاایسے شخص کودوں گا جواللہ اوراس کے رسول ﷺسے محبت کرتا ہے، اللہ اس کے ہاتھوں فتح دلائے گا، وہ اوردیگر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے ساری رات یہ سوچتے ہوئے گذاری کہ وہ خوش نصیب کون ہوگا جس کو کہ جھنڈادیاجائے گا؟ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ’’میرے دل میں امارت کی خواہش صرف اسی دن پیداہوئی‘‘(مسلم:فضائل علی، حدیث33)
ان صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے دل میں یہ خواہش کیا کسی دنیوی امارت کو حاصل کرنے کے لئے ابھری، یا اللہ اوراس کے رسول  کی محبت کے عظیم مقام کو حاصل کرنے کے لئے؟ اگرآپ  صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے لئے امارت کواچھاسمجھتے انھیں اس کی ترغیب دلاتے تو پھر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کیوں دنیوی امارت کی خواہش نہیں کی؟حقیقت تویہ ہے کہ آپ ﷺ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو عہدوں سے نفرت دلاتے اوراس کی حرص رکھنے سے ڈرایا کرتے تھے۔
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں:رسول اللہ  نے فرمایا:
’’تم میں عنقریب امارت کی حرص پیداہوگی جوقیامت کے دن ندامت کا باعث بنے گی، دودھ پلانے والی کیا ہی اچھی اوردودھ چھڑانے والی کیاہی خراب ہے۔(بخاری: حدیث نمبر۷۱۴۸،مسند احمد۲؍۴۰۴۸)
نیز آپ ﷺ نے عہدے کی طلب اور اس کی حرص سے منع کرتے ہوئے حضرت عبدالرحمن بن سمرہ رضی اللہ عنہ سے فرمایا:
’’اے عبدالرحمن! کبھی امارت طلب نہ کرو، کیونکہ اگر یہ تم کو تمہاری مانگ پردی جائے توتم اسی کے حوالے کردئے جاؤ گے، اگر بغیرطلب کے تمہیں عطاہو تواللہ کی مددتمہارے شامل حال ہوگی۔(بخاری: حدیث نمبر۷۱۴۷)
یہ اسلامی قانون ہی بنادیا گیا کہ جوعہدے کی خواہش رکھتا ہے اسے عہدہ نہ دیاجائے۔
حضرت ابوموسی اشعری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: میں اورمیرے دوچچیرے بھائی رسول اللہﷺ کی خدمت میں حاضرہوئے ان میں سے ایک نے کہا:’’اے اللہ کے رسولﷺ !اللہ نے آپ کو جس چیز کا والی بنایا ہے اس میں سے کچھ پرآپ ہمیں امیربنادیں‘‘ دوسرے نے بھی یہی کہا، آپ ﷺ نے فرمایا:’’ہم اس کام پرایسے شخص کو متعین نہیں کرتے جواسے مانگتا یااس کی حرص رکھتا ہو‘‘۔(بخاری: حدیث نمبر۷۱۴۹)
صحیح مسلم کے الفاظ یہ ہیں:’’اے ابوموسی یا اے عبداللہ بن قیس! اس معاملے میں تم کیا کہتے ہو؟ میں نے کہا : اس ذات کی قسم جس نے آپ کو دین حق کے ساتھ مبعوث کیا، میں نہیں جانتا تھا کہ ان کے دل میں کیا ہے؟ اورنہ ہی مجھے یہ احساس تھا کہ یہ آپ سے (حکومتی) کام مانگیں گے‘‘ کہتے ہیں کہ میں آپ ﷺکے سُکڑے ہوئے ہونٹ کے نیچے مسواک کی طرف دیکھ رہا تھا، آپ ﷺ نے فرمایا، ’’ہم اس معاملے میں اس شخص کو عامل نہیں بنائیں گے جو اس کاخواہش مند ہو، لیکن اے ابوموسی تم جاؤ، آپ نے انھیں یمن کا عامل بناکر بھیجا، پھران کے پیچھے معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کو روانہ کیا ‘‘۔(مسلم:باب النہی عن طلب الإمارۃ، حدیث ۱۴،۱۵۔النسائی۸؍۱۹۸)
مسیلمہ کذاب کی ہوس اقتدار
مسیلمہ کذاب رسول اکرمﷺ کی حیات طیبہ میں اپنے متبعین کے ایک بڑے گروہ کے ساتھ مدینہ طیبہ آیا اوراس خبیث کی خواہش تھی کہ رسول اکرمﷺ کی وفات کے بعد وہ عرب کابادشاہ بنے، رسول اللہﷺ اپنے خطیب حضرت ثابت بن قیس رضی اللہ عنہ کے ساتھ اس سے اوراس قوم سے ملاقات فرمائی، اس نے آپ سے اس بات کامطالبہ کیا کہ اگر آپ کی وفات کے بعد زمام حکومت اس کے سپرد کی جائے تو وہ اپنے گروہ کے ساتھ آپ کے دین میں داخل ہوگا، اس وقت رسول اللہ ﷺ کے دست مبارک میں کھجورکی ایک شاخ تھی، آپ نے اسے مخاطب کرتے ہوئے فرمایا:’’اگرتومجھ سے اس شاخ کابھی مطالبہ کرے گا تویہ بھی میں تجھے نہیں دوں گا، اورمجھے یقین ہے کہ تواللہ کے اس (قتل کے) حکم کو پارنہیں کرسکے گا جورب العالمین نے تیرے حق میں مقدرکررکھا ہے اورمیں سمجھتا ہوں کہ تووہی شخص ہے جسے میں خواب دکھایا گیا ہوں، اوریہ ثابت بن قیس رضی اللہ عنہ ہیں جومیری جانب سے تجھے جواب دیں گے‘‘۔(متفق علیہ)
رہی بات اس خواب کی جسے رب العالمین نے رحمۃ للعالمین ﷺ کو مسیلمہ کذاب کے متعلق دکھایا تھا، اس کے متعلق حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ:’’میں نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے پوچھا: رسول اللہ ﷺ نے جومسیلمہ کذاب سے کہاتھا:’’میں سمجھتا ہوں کہ تووہی شخص ہے جسے میں خواب دکھایا گیا ہوں‘‘ ذرا بتلایئے وہ خواب کیا تھا ؟انھوں نے جواب دیا کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:’’میں نے حالت خواب میں دیکھاکہ میرے ہاتھوں میں سونے کے دوکنگن ہیں، یہ دیکھ کر مجھے حیرانی ہوئی اوریہ مجھے بہت برے لگے، تواللہ تعالیٰ نے حالت خواب میں مجھے وحی بھیجی کہ ان دونوں پرپھونک ماریئے، میں نے پھونک مارا تووہ دونوں کنگن اڑگئے ،میں نے اس کی یہ تعبیرلی یہ دونو ں نبوت کے جھوٹے دعویدارہیں جومیری وفات کے بعدنکلیں گے۔(اور وہ دونوں اسود عنسی اورمسیلمہ کذاب ہیں)(متفق علیہ)
ان دونوں نے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے دورمیں خروج کیا اوردونوں قتل کئے گئے، اسود عنسی کو فیروز نے یمن میں قتل کیا اورمسیلمہ کذاب کوقتل کرنے والے، سید الشہداء حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کے قاتل حضرت وحشی رضی اللہ عنہ ہیں جنھوں نے فتح مکہ کے دن اسلام قبول کیا، انھوں نے اسی نیزے سے اس خبیث کو واصل جہنم کیا جس سے انھوں نے سید الشہداء حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کو شہید کیا تھا،اوراعلان فرمایا کہ:میں نے حالت کفرمیں ایک بہترین انسان کو شہید کیا تھا، اب حالت اسلام میں ایک بدترین شخص کو واصل جہنم کرکے اس کا کفارہ اداکردیا ہے‘‘۔(البدایۃ والنہایۃ)
مال اورعہدے کی حرص دین کی تباہی ہے
حضرت کعب بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا :’’ اگردوبھوکے بھیڑئے کسی بکریوں کے ریوڑمیں گھس جائیں تواس قدر تباہی نہیں برپاکریں گے جتنی کہ کسی انسان میں مال دار اورعہدے کی حرص پیدا ہوجائے تویہ دونوں چیزیں اس کے دین کو تباہ کردیتی ہیں‘‘۔(ترمذی)
ایک بزرگ نے کسی چرواہے سے دریافت کیا کہ رسول اللہﷺ نے اپنی اس حدیث میں دوبھوکے بھیڑیوں کاتذکرہ فرمایا ہے، حالانکہ بھیڑیا اگر ایک بھی ہوتو وہ بکریوں کی تباہی کے لئے کافی ہے، چرواہے نے جواب دیا: محترم! حدیث شریف میں دوبھیڑیوں کاتذکرہ اس لئے آیا ہواہے کہ بھیڑیا شکارکے لئے کبھی تنہا نہیں نکلتا، جب بھی نکلتا ہے اپنے ایک دوساتھیوں کو، یااپنی مادہ کو ضرورساتھ رکھتا ہے اوربھوکے بھیڑیوں کاتذکرہ اس لئے فرمایا کہ جب بھیڑیا کاپیٹ بھرارہتا ہے توصرف ایک بکری کوپکڑتا ہے اورا سکا خون پی جاتا ہے، لیکن جب وہ بھوکارہتا ہے توکھاتا ایک بکری کو ہے لیکن مارتاتمام بکریوں کوہے، توگویا کہ دوبھوکے بھیڑیئے بھی بکریوں میں اس قدرتباہی نہیں پھیلاتے جتنی کہ کسی انسان کے دل میں مال اورعہدے کی ہوس اس کے دین کو تباہ وبرباد کردیتی ہے۔
دینی جماعتوں میں اقتدارکی ہوس
(1) پچھلے چند سالوں سے دینی جماعتوں میں طلب اقتدار اورعہدوں کے لئے حرص میں قابل لحاظ ترقی ہوئی ہے اور اس کی ایک بدترین مثال برادر اسلامی ملک افغانستان ہے ،جب کمیونزم کے سرخ ریچھ نے گرم سمندرکے حصول کے لئے اس اسلامی ملک پراپنے پنچے گاڑے، توبلاتفریق مسلک تمام مذہبی جماعتوں نے اس ملک کی آزادی کے لئے اپنا تن، من، دھن سب کچھ قربان کردیا، یہاں تک کہ وہ دن بھی آیا کمیونزم کو ذلت ورسوائی کے ساتھ اس ملک سے بھاگنا پڑا، اوراللہ رب العالمین نے مظلوموں کواس ملک کا حاکم بنایا، مذہبی جماعتوں نے اس ملک کا اقتدار سنبھال لیا، لیکن افسوس کہ جلد ہی عہدوں کی تقسیم نے اختلاف پھرانتشار اورپھرجنگ برپا کردیا اور آپس میں جہاد کے نام پر فساد برپاہوگیا، اوراس ملک کے شہری جواب اسلامی حکومت کی چھترسایہ میں امن وامان کی امید کئے ہوئے تھے، اس قدرتباہ وبربادہوئے جتنا کہ کمیونزم دورحکومت میں بھی نہیں ہوئے تھے۔
اس صورت حال میں کچھ عسکری ایجنسیوں کی مدد سے ایک اورمذہبی ٹولے نے اقتدارحاصل کرلیا، اگرچہ انھوں نے ملک میں امن وانتظام توقائم کیا، لیکن اپنی تنگ نظری کی وجہ سے دیگرمذہبی جماعتوں پرظلم وستم کے پہاڑ توڑنے شروع کردئے ، دیگرجماعتوں کے کئی علماء کے ہاتھ پیرانھوں نے صرف اس جرم میں کٹوادئے کہ وہ اپنے مسلک کی اشاعت میں مصروف ہیں اوراپنے عجیب وغریب فتوؤں سے انھوں نے خواتین کے لئے پڑھنا جائز اور لکھنا ناجائز قراردے دیا تھا، ساتھ ہی جبال ہندوکش نے قدیم غاروں اورپہاڑوں پرگوتم بدھ کے تراشے گئے قدیم مجسمے بھی ان کے مفتی حضرات کی چیرہ دستیوں سے محفوظ نہیں رہ سکے، انھوں نے ان مجسموں کو توڑنے اور غاروں کو تباہ کردینے کی ٹھان لی، دنیا کے تاریخی وثقافتی ورثے کے تمام ماہرین ،جاپان اورچین سے لے کرسری لنکا کے بدھ مذہب کے سارے پیرورکارچیختے چلاتے رہ گئے، لیکن مفتی صاحبان نے اپنی ضدپوری کرکے دکھلائی، اس طرح بیٹھے بٹھائے ساری دنیا کی مخالفت مفت میں مول لی، اوردنیا کی بڑی طاقتیں جومسلم ممالک پرہلہ بولنے کے لئے بہانوں کی تلاش میں تھیں، انھیں یہ بہانہ تومل ہی گیا، باقی بہانے انھوں نے خود گڑھ لئے، نتیجہ یہ ہوا کہ برسراقتدارٹولہ منظرسے پس منظر میں چلاگیا،بقول علامہ اقبال ؂
قوت فکر وعمل پہلے فناہوتی ہے
پھرکسی قوم کی شوکت پہ زوال آتاہے
حالانکہ افغانستان حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے دورمیں فتح ہوا تھا، اوردور صحابہ سے لے کرآج تک وہ مختلف مسلم حکومتوں کے ماتحت رہا، خود سلطان محمود غزنوی، جنھیں بت شکن کے طورپر بڑی شہرت حاصل ہے، انھوں نے بھی اس سے کوئی تعرض نہیں کیا، توجس سے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم بھی خاموش رہے، لیکن ہمارے مفتی صاحبان نے اسے بت پرستی قراردیا۔
مشہوراسلامی ملک مصرحضرت عمررضی اللہ عنہ کے زمانے میں فتح ہوا اس وقت سے لے کرآج تک فرعونوں کی یادگار’’اہرام‘اور’’ابو الہول‘‘کابت وغیرہ موجود ہیں، کسی نے بھی انھیں بت شکنی کے شوق میں ہاتھ نہیں لگایا، بلکہ عباسی خلیفہ ’’ہارون رشید اورمامون الرشید‘‘ نے انھیں توڑنے کا عزم کیا اس وقت کے علمائے کرام نے ان کی اس سعی کو فضول قراردیتے ہوئے اس سے روک دیا۔
(2)ایک اورمسلمان ملک بنگلہ دیش جس میں مدت سے دوخواتین باری باری حکومت کرتی ہوئی چلی آرہی ہیں ، گذشتہ عام انتخابات میں اس ملک کی جماعت اسلامی نے، عورت کی سربراہی کے متعلق تمام اسلامی احکامات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے ،ایک خاتون کا ساتھ دیا اوراس کی سربراہی میں اقتدارمیں شریک ہوگئی، اقتدارکا نشہ چڑھتے ہی اس نے دیگر اسلامی جماعتوں سے انتقام کی پالیسی اپنائی، ان کے سربراہوں پر مختلف الزامات لگاکر جیل بھجوایا اورعالم یہ ہوگیا کہ دیگر مذہبی جماعتوں کوجوسہولتیں گذشتہ سیکولر حکومت میں مہیا تھیں، اسلام پسندوں کی موجودہ حکومت میں ان کا اسی قدرقحط ہوگیا، جب ظلم حد سے بڑھ گیا تونتیجہ یہی نکلا کہ فوج کی حمایت ومددسے ایک سویلین حکومت قائم ہوگئی، جوکہ ملک میں امن قائم کرکے گذشتہ حکومت میں ملک کو پہنچنے والے نقصان کے مداوامیں لگی ہوئی ہے۔
(3)اورافسوس کہ یہی حال فلسطین سمیت ان تمام ممالک کاہے جن میں کسی مذہبی جماعت کو اقتدارمیں شرکت کاموقعہ ملا ہے، اب جماعتوں کے بجائے افراد اورائمہ، مساجد نے بھی اقتدار کے لئے ہاتھ پیرمارنے شروع کردئے ہیں، اوراپنی اپنی مساجد سے سارے ملک پرحکومت واقتدار کے خواب دیکھ رہے ہیں، اورگذشتہ دنوں پاکستان میں اس طرح کی کوششوں سے زبردست فسادظاہر ہوا، اوراللہ تعالیٰ کے گھرکے تقدس کے ساتھ ساتھ کئی مسلمانوں کی قیمتی جانوں کا ضیاع ہوا، اس فساد کے ذمہ دارمذہبی افراد نے اپنے ساتھ ساری دنیا میں اسلام کے نام لیواؤں کوجس طرح ذلیل کیا اورجگ ہنسائی کاموقع دیا افسوس ناک ہی نہیں شرمناک ہے ؂
کس قدر ہیں خطیبان حرم بے توفیق

خود بدلتے نہیں قرآں کو بدل دیتے ہیں

ہوس اقتدار خانہ جنگی کی اصلی وجہ

حافظ ابن حجررحمہ اللہ فرماتے ہیں:مہلب رحمہ اللہ کہتے ہیں:

’’اقتدار کی حرص خانہ جنگی کی اصل وجہ ہے، جس کے سبب خون بہتا ہے اورعصمتیں حلال کرلی جاتی ہیں اوراسی کی وجہ سے زمین میں عظیم فساد برپا ہوتا ہے اوریہ باعثِ ندامت اس لئے ہے کہ صاحبِ اقتدار کے لئے قتل یا موت یا معزول کردئے جانے کی بعدکی زندگی میں داخلہ باعثِ ندامت ہے، کیونکہ اس کے بعداس کے کئے ہوئے جرائم کا تاوان وصول کیاجائے گا ،اقتدارکے مزے عہدے سے علاحدگی کے فوراً بعدختم ہوجاتے ہیں، ہاں اس سے اس حالت کو مستثنیٰ قراردیا جائے گا اگرکسی کو حکمران کی موت کا خدشہ لاحق ہو اواس کے علاوہ کوئی شخص ایسا نہ ہو جو اس شخص کی طرح لائق اورذمہ داری کے بوجھ کو اٹھانے والا ہو‘‘۔(فتح الباری۱۳؍۱۲۶)
بہرحال حکومت اورعدالت یہ ایسے ضروری امورہیں جن کے بغیر مسلمانوں کی زندگی قائم نہیں رہ سکتی، انہیں کے ذریعے مال اورجان کی حفاظت ہوتی ہے ،لیکن اُمراء اورقضاۃ کے تقرر میں رسول اللہﷺ کے طریقے کی پیروی ضروری ہے، یہ مناصب ان لوگوں کو نہ دئے جائیں جوطلب کرتے ہوں، اس کی خواہش رکھتے ہوں اوراپنے آپ کو بطورِ امیدوار کھڑا کرتے ہو، یہ تمام صورتیں عہدے کی رغبت کے زمرے میں آتی ہیں بلکہ ان لوگوں کومنتخب کیاجائے جوعلم، زہد اورتقویٰ کے اعتبارسے ممتازہوں، دینی جماعتوں کے لئے ضروری ہے کہ وہ انبیاء کرام علیہ السلام کے تربیتی اصول سے استفادہ کریں ان کے لئے یہ زیب نہیں دیتا کہ وہ نوجوانوں کی تربیت، قیادت، صدارت اورامارت کی طلب پر کریں، اگرانھوں نے یہ کیا توآپ ﷺ کی ہدایت کی مخالفت کی اورنوجوانوں کوہلاکت میں ڈال دیا اور سب سے بڑھ کریہ کہ رسول اللہﷺ کے منہج کی مخالفت کرکے وہ دنیا وآخرت کی کون سی کامیابی کی امید کررہے ہیں؟۔

***

No comments:

Post a Comment