Wednesday, November 24, 2010

OCTOBER-2010کیا مسجد نبوی کی فضیلت قبرمبارک کی وجہ سے ہے؟

ڈاکٹر سید سعید عابدی


صدرشعبۂ اردو، جدہ ریڈیو، سعودی عرب

کیا مسجد نبوی کی فضیلت قبرمبارک کی وجہ سے ہے؟

مسئلہ: ایک صاحب اپنے خط میں تحریرفرماتے ہیں:

میں نے بعض بزرگوں سے سناہے اورکتابوں میں پڑھا ہے کہ احادیث میں مسجدنبوی شریف کے جوفضائل بیان ہوئے ہیں ان کا سبب اس میں رسول اکرمﷺ کی قبرمبارک کا وجودہے، اسی طرح میں نے قصص الانبیاء میں یہ بھی پڑھا ہے کہ ’’حِجر‘‘میں حضرت اسماعیل اوران کی والدہ ماجدہ حضرت ہاجرہ علیہما السلام مدفون ہیں،لوگوں کاکہنا ہے کہ ’’اگرقبروں پر مسجد یا عمارت بنانا اورمسجد میں کسی کو دفن کرنا حرام ہوتا تومسجد نبوی میں نبی اکرمﷺ کواورآپ سے قبل مسجد حرام میں حضرت اسماعیل، حضرت ہاجرہ اوردوسرے انبیاء اوررسولوں علیہم الصلاۃ والسلام کودفن نہ کیاجاتا؟

جواب: ایک شرعی قاعدہ اوراصول ہے کہ جوچیز باطل پر مبنی اورقائم ہو وہ باطل ہے، اوپرجن باتوں کو بنیاد بناکر مسجدوں میں قبروں کے وجود کو شرعی رنگ دینے کی کوشش کی گئی ہے وہ سب بے بنیاد اورلوگوں کے ذہنوں کی پیداوار ہیں، لہذا ان سے استدلال بھی غلط اورناقابل اعتبارہے۔

رسول اکرمﷺنے اپنی مسجد کے جوفضائل بیان فرمائے ہیں وہ اپنی حیات پاک میں بیان فرمائے ہیں اس دنیا سے رحلت فرمانے کے بعدنہیں، کیونکہ وفات پاجانے کے بعدآپ کے لئے ایساکرنا ممکن نہ تھا، اوروفات پاجانے کے بعدآپ کی تدفین بھی مسجد میں نہیں ہوئی کہ اس کے فضائل کو قبرمبارک سے جوڑا جائے ، بلکہ ام المؤمنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے حجرے میں ہوئی، اس کے بعدجب حضرت عمر اورپھرحضرت عثمان رضی اللہ عنہما کے عہدخلافت میں مسجد نبوی شریف میں توسیع ہوئی تواس وقت بھی قبرمبارک مسجد سے باہررہی اوریہ سلسلہ ۸۸ھ ؁ مطابق ۷۰۶ء ؁ تک جاری رہا یہاں تک کہ ربیع الاول ۸۸ھ ؁ میں اموی خلیفہ ولید بن عبدالملک نے مدینہ کے گورنر حضرت عمربن عبدالعزیز رحمہ اللہ کولکھاکہ امہات المؤمنین کے حجروں کو گراکر ان کی زمین مسجد میں شامل کردی جائے ۔(البدایۃ والنہایۃ ص۴۴۳،ج ۶)اس طرح رسول اللہﷺ کی وفات پر ۷۸؍ برس گزرنے کے بعدآپ کی قبرمسجد کے اندرآگئی، ایسی صورت میں مسجد نبوی کے فضائل قبر کا نتیجہ کیونکر ہوسکتے ہیں؟

یہاں یہ سوال کیاجاسکتا ہے کہ اگرولید بن عبدالملک کا یہ عمل غلط تھا تواس وقت کے علماء نے اس کو ایسا کرنے سے منع کیوں نہ کیا؟ توجہاں تک اس عمل کے غلط ہونے کا مسئلہ ہے تویہ سوفیصد غلط اوررسول اللہﷺ کے ان ارشادات کے خلاف تھا جن میں آپ نے قبروں کو سجدہ گاہیں بنانے سے منع فرمایا ہے، رہی یہ بات کہ اس وقت کے علماء نے اس کو ایسا کرنے سے منع کیوں نہیں کیا؟ تواس کا جواب یہ ہے کہ اگرچہ تاریخ میں صحیح سند سے کوئی ایسا واقعہ مذکورنہیں ہے کہ کسی عالم نے ولید کو امہات المؤمنین کے حجروں کی جانب سے مسجد میں توسیع سے منع کیاہو، لیکن اس وقت کے علماء میں حق کے اظہار واعلان اورباطل کے انکار کی جوبے مثال جرأت موجود تھی اس کی روشنی میں قرین عقل یہی ہے کہ اس وقت کے علماء نے ولید کو ایسا کرنے سے ضرور روکاہوگا، جیساکہ سیدالتابعین حضرت سعید بن مسیب رحمہ اللہ کے بارے میں بیان کیاجاتا ہے کہ انھوں نے اس پراعتراض کیاتھا، واضح رہے کہ۸۸ھ ؁ میں بعض صحابۂ کرام توزندہ تھے لیکن مدینہ میں کوئی صحابی نہیں تھا اوراگر ہوتا بھی توولید جیسے حکمراں کو اس کے فیصلہ سے باز رکھناممکن نہیں تھا۔

ولید کا یہ عمل کہ اس نے رسول اکرمﷺ کی قبرمبارک کو مسجد نبوی میں شامل کردیا اسلام کے توحیدی مزاج اوررسول اللہﷺ کے واضح اورصریح ارشادات کے خلاف تھا، ذیل میں نبی ﷺ کے بعض ارشادات کاترجمہ پیش کیاجارہا ہے:

*’’اللہ لعنت فرمائے یہودیوں پرجنھوں نے اپنے انبیاء کی قبروں کو سجدہ گاہیں بنالیا‘‘،ام المؤمنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہما فرماتی ہیں: اگریہ اندیشہ نہ ہوتا توآپ کی قبرکھلی جگہ بنائی جاتی اورنمایاں رکھی جاتی، لیکن ڈرہواکہ اس کو سجدہ گاہ نہ بنالیا جائے ۔

(صحیح بخاری: ۴۴۴۱، صحیح مسلم :۵۳۱، نسائی: ۲۰۴۶،مسند امام احمد: ۲۵۴۰۷،۲۶۷۰۸)

*’’وہ ایسے لوگ تھے کہ اگران میں کوئی صالح اورنیک مردہوتا اورمرتاتو وہ اس کی قبرپر مسجدبنادیتے اوراس میں تصویربناتے، قیامت کے روز یہ بدترین مخلوق ہوں گے‘‘۔(صحیح بخاری: ۴۲۷،صحیح مسلم: ۵۲۸، نسائی: ۷۰۳، مسند امام احمدج ۶ص۲۴۷۵)

*حضرت جندب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺنے فرمایا ہے: ’’خبردار!تم سے پہلے کے لوگ اپنے انبیاء اورصالحین کی قبروں کو سجدہ گاہیں بنالیا کرتے تھے، خبردار! قبروں کو سجدہ گاہیں مت بنانا، میں تم کو اس سے منع کرتا ہوں ‘’۔(صحیح مسلم: ۵۳۲)

*’’میری قبر کوجشن گاہ اوراپنے گھروں کو قبریں مت بنانا اورمجھ پر درود پڑھتے رہنا، تم جہاں کہیں بھی رہوگے تمہارا سلام مجھے پہنچ جائے گا‘‘۔(سنن ابوداؤد: ۲۰۴۲)

*’’اے اللہ! میری قبرکو بت مت بننے دیجیو، اللہ کی لعنت ہو ان لوگوں پرجنھوں نے اپنے نبیوں کی قبروں کو سجدہ گاہیں بنالیا‘‘ ۔(مسند امام احمد: ۷۳۵۲، طبقات ابن سعد ص:۲۴۱، ۲۴۲،ج ۲،فضائل المدینۃ ص ۶۶،ج ۱، مسند ابویعلی ص:۳۱۲،ج ۱، مسند الحمیدی: ۱۰۲۵،حلیۃ الأولیاء ص :۲۸۲،ج۶ حدیث نمبر:۳۱۷)

اگرمسجد نبوی کی فضیلت اس میں قبرمبارک کے نتیجے میں ہوتی تورسول اللہﷺ اس کو صراحتاً نہ سہی اشارۃ ہی بیان فرمادیتے کیونکہ ایسا کرنا آپ کے فرائض منصبی میں داخل تھا، یا جن حدیثوں میں آپ نے عام قبروں کی زیارت کی اجازت دی ہے اوراس زیارت کامقصد یہ بتایا ہے کہ اس سے موت اورآخرت کی یاد تازہ ہوتی ہے ان میں یہ واضح فرمادیتے کہ’’میری قبر کی زیارت کرتے رہنا اس سے یہ اوریہ برکت حاصل ہوگی اوریہ اوریہ اجروثواب ملے گا‘‘مگر آپ نے ایسانہیں کیا ،بلکہ اس کے برعکس اپنی قبرکوجشن گاہ بنانے اوراس کے پاس جم گھٹالگانے سے منع فرمایا ہے اوراللہ تعالیٰ سے یہ دعاء کی ہے ’’وہ آپ کی قبرکو بت نہ بننے دے‘‘۔

یہاں یہ بتانا تحصیل حاصل ہے کہ رسول اللہﷺ نے ہجرت کے موقع پر مدینہ تشریف لانے کے بعدجوپہلا کام کیا وہ مسجد نبوی کی تعمیر کاکام تھا، دوسرے لفظوں میں اس کی تعمیرہجرت کے بالکل آغاز میں ہوئی ،اس تناظرمیں اگر اس کی فضیلت قبرمبارک سے ماخوذ ہے تواس کامطلب یہ ہواکہ مکمل ۸۸؍برس تک یہ مسجد عام مسجدوں کی طرح رہی اوراس میں اداکی جانے والی نمازیں عام مسجدوں میں اداکی جانے والی نمازوں کی طرح رہیں، اورنبی اکرمﷺ نے جویہ فرمایاہے:’’میری اس مسجد میں ایک نماز مسجد حرام کے سوادوسری مسجدوں میں اداکی جانے والی ایک ہزار نمازوں سے بہترہے‘‘(صحیح بخاری: ۱۱۹،صحیح مسلم: ۱۲۹۴)اس فضیلت کا آغاز ۸۸؍برس بعدہوا، جب ولید نے اس میں قبرمبارک کو داخل کردیا، اس طرح اس ثواب سے رسول اللہﷺ اورانبیاء کے بعدسب سے مقدس جماعت صحابۂ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نعوذ باللہ محروم رہے!!

اوپرکی وضاحتوں کی روشنی میں جن علمائے کرام نے مسجد نبوی کی زیارت کرنے والوں کے لئے نبی اکرمﷺ کی قبرکی زیارت اوراس کی طرف رخ کرکے سلام پڑھنے کو مستحب قرار دیاہے، ان کی یہ بات اپنے پیچھے کوئی شرعی دلیل نہیں رکھتی، ’’مستحب‘‘ ایک شرعی اصطلاح ہے جس سے مراد ایسا عمل ہے جس کے کرنے پرثواب اورنہ کرنے پرکوئی گناہ نہیں ہوتا، اورکسی عمل کومستحب قراردینے کا مجاز اللہ اوررسول کے سواکوئی بھی نہیں ہے، اوررسول اللہﷺ نے کبھی اشارۃً بھی یہ نہیں فرمایا ہے کہ آپ کی وفات کے بعدآپ کی قبر کی زیارت کی جائے اوراس کی طرف رخ کرکے آپ پرسلام پڑھاجائے بلکہ اس کے برعکس احادیث میں یہ صراحت ہے کہ نبی ﷺ پرجہاں کہیں سے بھی درودوسلام پڑھاجائے وہ مخصوص فرشتوں کے ذریعہ آپ کو پہونچادیاجاتا ہے اس مقصد کے لئے آپ کی قبر کی زیارت کے لئے مدینہ طیبہ جانا اورمسجد نبوی میں حاضری دینا ضروری نہیں ہے، البتہ مسجد نبوی کی زیارت اور اس میں نماز پڑھنے کے ارادے سے مدینہ طیبہ کا سفر مشروع ہے، کیونکہ صحیح حدیث میں اس کی صراحت ہے لہذا مسجد نبوی کی زیارت کرنے والوں کے لئے قبر کی زیارت اوراس کے پاس سلام پڑھنا صرف جائز ہے مستحب نہیں ہے۔

چنانچہ اگرایسا کرنا مستحب اورعنداللہ پسندیدہ عمل ہوتا توصحابۂ کرام کے عمل سے اس کا متواترثبوت ملتا جو بہت بڑی تعداد میں مسجد نبوی میں پنجوقتہ نمازیں اداکرتے تھے، جب کہ صرف عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کے عمل سے اس کا ثبوت ملتا ہے کہ جب وہ باہرسے مدینہ منورہ آتے اورمسجد نبوی شریف میں حاضری دیتے توپہلے دورکعتیں تحیۃ المسجد کی اداکرتے پھرقبرنبوی کے پاس جاکر نبی ﷺ پرسلام پڑھتے اس کے بعد ’’السلام علیک یاأبابکر اورالسلام علیک یا ابتا‘‘کہہ کر وہاں سے چلے جاتے ۔ (الصارم المنکی ص: ۸۱)

رہا یہ دعوی کہ حضرت اسماعیل اوران کی والدہ ماجدہ حضرت ہاجرہ علیہما السلام ’’حجر‘‘میں مدفون ہیں تویہ دعویٰ مردودہے، کیونکہ جہاں یہ کسی دلیل پرمبنی نہیں ہے وہیں اس توحید کے منافی ہے جس کے داعی ابوالانبیاء حضرت ابراہیم اوران کے بیٹے حضرت اسماعیل علیہما السلام تھے اورجس توحید کا سب سے پہلا مرکز اللہ تعالیٰ کا گھر کعبۂ مشرفہ ہے۔

واضح رہے کہ ’’حجر ‘‘’’کعبہ مشرفہ‘‘ کے اس گوشے کوکہتے ہیں جوحطیم میں داخل ہے یعنی موجود وقت میں خانہ کعبہ کا جوحصہ عمارت سے باہر ہے اوراس کو مختصردیوار سے گھیردیاگیا ہے اورجس کے باہرسے طواف کیاجاتا ہے اس کانام حطیم ہے اوراسی کے اندر’’حجر‘‘داخل ہے ،حضرت ابراہیم علیہ السلام کی تعمیر کردہ عمارت میں یہ حصہ شامل تھا، لیکن نبی ﷺ کی بعثت سے قبل جب قریش نے خانہ کعبہ کی مخدوش اورسیلاب زدہ عمارت گراکراس کی دوبارہ تعمیرکی تومصارف میں کمی کی وجہ سے اتناحصہ تعمیرنہیں کیا جس کو حطیم کہتے ہیں۔

اس وضاحت کی روشنی میں اگرنعوذ باللہ ’’حجر‘‘میں حضرت اسماعیل اورحضرت ہاجرہ علیہما السلام مدفون ہیں تواس کا مطلب ہے کہ جب ان کی وفات ہوئی توان کولے جاکر کعبہ کے اندردفن کیاگیا،کیاجس انسان کے اندرمعمولی سی بھی ایمانی حس ہوگی وہ یہ تسلیم کرے گا کہ جس عظیم ہستی نے اپنے عظیم باپ کے ساتھ مل کر مرکز توحید ’’کعبہ‘‘تعمیرکیا تھا اسی نے سب سے پہلے اس توحید کے منافی عمل کا ارتکاب کرڈالا۔

درحقیقت جنھوں نے’’ حجر‘‘ میں اورخانہ کعبہ کے صحن میں حضرت اسماعیل ،حضرت ہاجرہ اور متعدد دوسرے انبیاء اوررسولوں کے مدفون ہونے کے واقعات لکھے ہیں وہ مکہ مکرمہ کی سب سے پہلی تاریخ کے مصنف ابوالولید ازرقی احمد بن محمد بن ولید بن عقبہ بن ازرق ہیں ان کی کتاب’’تاریخ مکہ‘‘کی تہذیب وتنقیح ان کے پوتے ابوالولید محمد بن عبداللہ بن احمد ازرقی متوفی ۲۵۰ھ مطابق ۸۶۴ء نے کی ہے۔

ازرقی نے اپنی اس کتاب میں جہاں مسجد حرام اورمنی کی مسجد ’’خیف‘‘ کوقبرستان بنادیا ہے اورمعروف وغیرمعروف تابعین سے مقطوع ،موضوع اورمن گھڑت سندوں سے ایسی روایتیں نقل کی ہیں جن میں ان دونوں مسجدوں میں کثیر تعداد میں انبیاء اوررسولوں کی قبروں کادعویٰ کیا گیا ہے وہیں مکہ مکرمہ کے فضائل سے متعلق بے بنیاد اورمن گھڑت روایات سے اس کو بھردیا ہے، ایک جگہ لکھا ہے:

’’رکن یعنی حجر اسود سے مقام ابراہیم تک اوریہاں سے حجرتک کے درمیانی رقبہ میں ۹۹؍نبیوں کی قبریں ہیں یہ سب حج کے لئے آتے تھے، یہیں ان کی وفات ہوئی اوریہیں وہ مدفون ہوئے‘‘۔(ص:۵۱۵،ج: ۲)

حضرت اسماعیل اورحضرت ہاجرہ علیہما السلام کے بارے میں لکھاہے: ’’جب اسماعیل علیہ السلام کی وفات ہوئی تووہ ’’حجر‘‘میں اپنی ماں کے ساتھ دفن کئے گئے‘‘۔(ص: ۱۰۸،ج: ۱)

دوسری جگہ لکھتے ہیں :’’جب حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما نے کعبہ کی تعمیر نوکی غرض سے حجر میں کھدائی کی توان کو بیت اللہ کی بنیاد میں سرخ پتھر ملے.....اوراس میں ان کو ایک قبرکی جگہ ملی توانھوں نے کہا: یہ اسماعیل علیہ السلام کی قبرہے اورانھوں نے قریش کوجمع کرکے ان سے فرمایا: تم سب گواہ رہو‘‘۔(ص:۲۳۲،۲۳۳،ج: ۱)

یہ تمام روایتیں متن اورمضمون کے اعتبارسے باطل ہونے کے ساتھ ساتھ سند کے اعتبارسے بھی باطل اورمردود ہیں، ان میں سے کوئی بھی روایت مرفوع نہیں ہے یعنی کوئی بھی روایت رسول اللہﷺ کاارشاد نہیں ہے، حتی کہ ان میں سے کسی بھی روایت کی سند تابعین تک قابل اعتبار نہیں ہے، بعض روایتیں توسند سے عاری ہیں اورجن کی سندیں تابعین تک بیان ہوئی ہیں، ان میں سے بعض تابعین مجہول ہیں اورجوسچے اورثقہ ہیں انھوں نے یہ صراحت نہیں کی ہے کہ وہ جوکچھ بیان کررہے ہیں وہ کسی صحابی سے سن کر بیان کررہے ہیں، مزید یہ کہ ان میں سے کوئی بھی حدیث کسی مستند کتاب میں نقل نہیں ہوئی ہے۔

رہا مذکورہ روایتوں کا متن اورمضمون تواس کے باطل ہونے کے دلائل درج ذیل ہیں :

۱۔یہ روایتیں اسلام کے توحیدی مزاج اورروح کے خلاف اوررسول اکرمﷺ کے ان ارشادات سے براہ راست ٹکراتی ہیں جن میں قبروں کو عبادت گاہ اورسجدہ گاہ بنانے سے منع فرمایاگیا ہے۔

۲۔ایک روایت میں حضرت عبداللہ بن زبیررضی اللہ عنہما کے ہاتھوں کعبۂ مشرفہ کی تعمیرنو کے موقع پر کھدائی کے دوران ’’حجر‘‘میں حضرت اسماعیل علیہ السلام کی قبرپانے کا دعوی کیاگیا ہے جب کہ صحیحین اورحدیث کی دوسری مستند کتابوں میں اس واقعہ سے متعلق جوروایات منقول ہیں ‘ان میں حضرت اسماعیل علیہ السلام کی قبرکاکوئی ذکرنہیں ہے،چنانچہ جلیل القدر تابعی حضرت یزید بن رومان رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

’’میں اس وقت وہاں موجود تھا جب ابن زبیر نے کعبہ کی دیواریں گرائیں، اس کی دوبارہ تعمیر کی اوراس میں ’’حجر‘‘ کو شامل کیا، میں نے بنیادوں میں آپس میں جڑے ہوئے پتھروں کی شکل میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کی بنیادیں دیکھی ہیں جوآپس میں ملے ہوئے اونٹوں کے کوہان کی مانند تھیں‘‘۔(صحیح بخاری: ۱۵۸۶، صحیح مسلم: ۳۲۴۵، ۳۲۴۶،نسائی: ۲۹۰۳)

۳۔رسول اللہﷺ کاارشاد ہے:’’اللہ نے زمین پریہ حرام کردیا ہے کہ وہ انبیاء کے جسموں کوکھائے‘‘۔

(ابوداؤد: ۱۰۴۷، ۱۵۳۱، نسائی: ۱۳۷۳، ابن ماجہ: ۱۰۸۵، ۱۶۳۶، صحیح ابن خزیمہ : ۳۳۳۴)

اس حدیث پاک کی روسے تمام انبیاء اوررسولوں کے جسم اطہر ان کی قبروں میں بالکل صحیح سالم موجود ہیں، ایسی صورت میں کیا یہ ممکن ہے کہ حجراسود سے مقام ابراہیم تک اوروہاں سے حجرتک ۹۹؍نبیوں کی تدفین ہوئی ہو؟ ظاہر سی بات ہے کہ نہ وہ ایک وقت میں فوت ہوئے ہوں گے اورنہ ان کی ایک ساتھ تدفین ہوئی ہوگی، ایسی صورت میں جب کسی نبی کی وفات پران کی تدفین کے لئے زمین کھودی گئی ہوگی توپہلے مدفون نبی کی لاش ملنی چاہئے، ایسی صورت میں اتنے مختصر سے رقبہ میں اتنے سارے نبیوں کوایک دوسرے کے اوپردفن کیاگیا ہوگا، بلکہ طرفہ تماشا یہ ہے کہ محمد طاہر کردی نے تو’’التارخ القدیم لمکۃ‘‘ میں یہاں تک دعوی کیاہے کہ ’’رکن یمانی‘‘سے ’’حجر اسود‘‘کے درمیانی حصے میں ۶۳ ؍نبیوں کی قبریں ہیں اورمسجد حرام کے پورے صحن میں ۳۰۰؍نبی مدفون ہیں ۔(ص:۵۰۰ج :۱)

سوال یہ ہے کہ رسول اکرمﷺ کی صحیح حدیث یہ کہہ رہی ہے کہ انبیاء کی لاشیں ان کی قبروں میں محفوظ ہیں، جب کہ تجربات یہ کہہ رہے ہیں کہ مطاف اورحرم کے صحن میں اندرکوئی لاش نہیں ہے، کیونکہ عہدعثمانی اورپھرعہد سعودی میں مسجد حرام کی متعدد بارتعمیر ہوئی ہے، متعددبار حرم کے پورے صحن اورمطاف میں کافی گہرائی تک کھدائی ہوئی ہے اورنئی سعودی توسیع کے موقع پرپورے مطاف کو کافی گہرائی تک کھود کرنیچے خاص قسم کے پائپ ڈالے گئے ہیں اورپورے مطاف میں جدید طرز کے ٹائلس بچھائے گئے ہیں، مگرایساکبھی نہیں ہواکہ کھدائی کے دوران کہیں کسی قبرکا سراغ ہو یا کسی نبی کی لاش ظاہر ہوگئی ہو ورنہ کہرام مچ جاتا، آخرسیکڑوں کی تعداد میں انبیائے کرام کی لاشیں کہاں غائب ہوگئیں؟

کہیں غائب نہیں ہوئیں بلکہ وہ عالی مقام انبیاء اوراللہ کے برگزیدہ بندے وہاں دفن ہی نہیں ہوئے،کیونکہ اگردفن ہوئے ہوتے توزمین کھودتے ہی ان کی لاشیں ظاہر ہوجاتیں ،دراصل یہ روایتیں ان لوگوں کے ذہنوں کی پیداوار ہیں جوانبیاء اورصلحائے امت کی عقیدت میں اس غلو کے شکار ہیں جس غلو میں مبتلاہو کرنصاری نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو نعوذ باللہ اللہ کابیٹا اورالوہیت میں اس کاشریک بنالیا۔

ذیل میں میں دوصحیح واقعات نقل کررہا ہوں جن سے میری اس بات کی مکمل تائید ہوتی ہے کہ’’ حجر ‘‘ میں حضرت اسماعیل اورحضرت ہاجرہ علیہما السلام اورمطاف اورحرم پاک کے دوسرے حصوں میں دوسرے انبیاء علیہم السلام کے مدفون ہونے کا واقعہ جھوٹ ہے ۔

۱۔ اموی خلیفہ ولید بن عبدالملک کے حکم سے مسجد نبوی شریف کی توسیع اوراس میں امہات المؤمنین رضی اللہ عنہن کے حجروں کوشامل کرنے کے لئے جب قدیم عمارت گرائی گئی اورام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے حجرے کی مشرقی دیوارگرائی گئی اوروہاں کھدائی شروع ہوئی توایک ’’پاؤں‘‘ ظاہرہوگیا، لوگ خوف زدہ ہوگئے کہ کہیں رسول اکرمﷺ فداہ ابی وامی ﷺ کامبارک پاؤں نہ ہو، مگرتحقیق سے معلوم ہواکہ وہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا پاؤں ہے، صحیح بخاری میں ہے کہ حضرت عروہ بن زبیر رضی اللہ عنہما نے وہاں پہنچ کراورپاؤں دیکھ کرفرمایا: ’’اللہ کی قسم یہ نبیﷺکا پاؤں مبارک نہیں بلکہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا پاؤں ہے‘‘۔

(صحیح بخاری: ۱۳۹۰،البدایۃ والنہایۃ ص:۴۴۴۳،ج :۶)

۲۔ امام مالک مؤطامیں تحریرفرماتے ہیں:

*حضرت عمروبن جموح اورحضرت عبداللہ بن عمر ورضی اللہ عنہما کی قبرکو سیلاب نے کھول دیاتھا، یہ دونوں غزوۂ احدمیں شریک ہوئے تھے اور اسی میں شہادت سے سرفراز ہوئے تھے اوررسول اللہﷺ کے حکم سے دونوں کو ایک ہی قبر میں دفن کیاگیا تھا، کیونکہ دونوں ایک دوسرے سے قرابتداری رکھنے کے ساتھ ساتھ ایک دوسرے سے شدید محبت رکھتے تھے، ان کی لاشوں کو سیلاب زدہ قبر سے نکال کردوسری جگہ دفن کرنے کے لئے جب قبرکھودی گئی توان کی لاشیں بالکل تازہ تھیں جیسے کل ہی ان کی وفات ہوئی ہو،ان دونوں میں سے ایک جنگ کے دوران زخمی ہوگئے تھے اورزخم پراپناہاتھ رکھ لیاتھا تاکہ خون بندہوجائے اوراسی حال میں ان کی وفات ہوگئی تھی اوراسی حالت میں ان کی تدفین بھی ہوئی تھی، کھدائی کے بعدجب ان کا ہاتھ زخم سے ہٹاکر چھوڑدیا گیا تووہ دوبارہ زخم پر چلاگیا‘‘ ان دونوں کی قبرکھودنے کے واقعہ اورغزوۛ?احدکے درمیان ۴۶ ؍برس کا فاصلہ تھا۔(مؤطا امام مالک ،کتاب الجہاد ،باب الدفن فی قبرواحد ص ۴۰۶،حدیث نمبر:۴۹)

یہاں یہ سوال کہاجاسکتا ہے کہ رسول اللہﷺ کی حدیث میں صرف انبیاء کی جسموں کے محفوظ رہنے کی خبردی گئی ہے اورحضرت عمر، عمروبن جموح اورعبداللہ بن عمرورضی اللہ عنہم نبی نہیں تھے، پھران کی لاشیں ان کی قبروں میں اتنی طویل مدت تک کیوں محفوظ رہیں؟ تواس کا جواب ہے کہ قبروں میں انبیاء اوررسولوں کے جسموں کا محفوظ رہنا تویقینی ہے کیونکہ اللہ کے رسول ﷺ نے اس کی خبردی ہے، رہے شہداء اوردوسرے صالحین تو اللہ تعالیٰ ان میں سے جن کے جسموں کوچاہے محفوظ رکھ سکتا ہے، کیونکہ جتنے انبیاء اوررسولوں کے ناموں کی کتاب وسنت میں صراحت ہے ان کی رسالت پرایمان عقیدے کی صحت کے لئے شرط ہے، لیکن اسلامی غزوات میں قتل ہونے والے تمام لوگوں کوشہید کہنے کے ہم مجاز نہیں ہیں سوائے ان کے جن کے شہید ہونے کی رسول اللہﷺ نے صراحت کردی ہے، البتہ عمومی طورپرنام لئے بغیر ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ ’’اللہ کے دین کی سربلندی کے لئے اس کی راہ میں مارے جانے والے شہید ہیں‘‘۔

ان دونوں واقعات سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ اس دنیا کی زندگی ختم ہوجانے اوروفات پاجانے کے بعد ہرانسان کارشتہ اس دنیا سے کٹ جاتا ہے، نہ وہ اپنے آپ کو کوئی نفع یانقصان پہنچاسکتا ہے نہ دوسروں کو، اورنہ ہی کسی دنیوی آفت کے موقع پر اپنے آپ کو بچاسکتا ہے ،انبیاء اورشہداء کوجوزندگی حاصل ہے وہ برزخی زندگی ہے جس کی حقیقت تک رسائی عقل انسانی کی قدرت سے باہرہے۔

***



No comments:

Post a Comment