Wednesday, November 24, 2010

OCTOBER-2010دارالعلوم ندوۃ العلماء فکرونظر میں تبدیلی کا سفر (پہلی قسط)

شمیم احمدندویؔ


دارالعلوم ندوۃ العلماء

فکرونظر میں تبدیلی کا سفر

(پہلی قسط)

دارالعلوم ندوۃ العلماء عالمی شہرت کا حامل ایک تعلیمی ادارہ ہی نہیں بلکہ ایک دبستان فکر، ایک مکتب خیال اورایک تعلیمی تحریک کانام ہے، اس نے اپنے یوم تاسیس کے صرف چندبرسوں بعدنہ صرف غیر منقسم ہندوستان اوربرصغیر میں بلکہ عالمی سطح پراپنی اہمیت وافادیت منوالی تھی اوراس کے نامور فضلاء اورباکمال فارغین نے زبان وقلم، تقریر وتحریر ،امامت وخطابت، علم وادب ،فکروفن اور اردوعربی صحافت کی دنیا میں اپنی صلاحیتوں کا لوہامنوالیاتھا اورپوری قوم وملت سے خراج تحسین حاصل کیا تھا، انھوں نے اپنی ذہانت وفطانت اورخداداد صلاحیت سے زیادہ ندوۃ العلماء کے ذریعہ مرتب کردہ جدید نصاب درس اور نظام تعلیم وتربیت کی بدولت وہ ذہنی استعداد اورفکری بلندی حاصل کرلی تھی کہ احساس مرعوبیت سے بالاتر ہوکر جدید تعلیم یافتہ طبقہ کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرسکتے تھے اورہرزمانہ کے فتنوں وچیلنجوں کا اپنی غزارت علم اوروسعت مطالعہ کے ذریعہ نہ صرف مقابلہ کرسکتے تھے بلکہ ہرمحاذ پر باطل افکار وخیالات کو شکست فاش سے دوچارکرسکتے تھے، الحاد وتشکیک واستشراق اورفتنہ دہریت وارتداد کو انھوں نے اپنے بلوں میں پناہ لینے پر بارہا مجبورکیا اوراسلام کی حقانیت اوربرتری کو ثابت کیا، انھوں نے اسلام کی حفاظت کے لئے دفاعی انداز اختیار کرنے کے بجائے باطل نظریات کی اساس وبنیاد پر ضرب لگاکر خود انھیں دفاعی پوزیشن میں لاکھڑا کیا، فرزندان ندوہ نے اسلامی کتب خانوں کو اپنی وقیع علمی وتحقیقی کتابوں کے گراں قدر ذخائر سے مالا مال کیا تواسلامی مدارس ودرسگاہوں کو عربی ادب وانشاء ،صرف ونحو، اورلغت وبلاغت کاقابل قدرنصاب تیار کرکے انھیں دوسری طرف دیکھنے سے بڑی حد تک بے نیاز کردیا، اردوصحافت میں گراں قدر اضافہ کرنے کے ساتھ ساتھ عربی صحافت میں بھی اپنے منفرد معیار کے ذریعہ عالم عربی میں بھی ایک ممتاز مقام حاصل کیا اوربرصغیر کو پہلی بارعربی صحافت کے اعلیٰ نمونہ سے روشناس کرایا، غرض کہ اس کے ممتاز فارغین کی گراں قدر خدمات کی فہرست بہت طویل ہے جس کا احاطہ نہ توممکن ہے اورنہ مقصود، لیکن دارالعلوم ندوۃ العلماء کی یہی علمی وادبی خدمات تھیں جن کی وجہ سے حکیم امت اورنباض فطرت شاعر مشرق علامہ اقبال نے جہاں علیگڈھ کو ایک’’معزز پیٹ‘‘قرار دیا تھا وہیں ندوہ کو ’’زبانِ ہوشمند‘‘ سے تعبیر کیا تھا۔

راقم سطور اس ناچیز کو یہ فخرحاصل ہے کہ یہ مایہ ناز ادارہ اس کا مادرعلمی ہے جہاں کی عطربیز فضاؤں اورمشک بار ہواؤں میں اس نے زندگی کے بیش قیمت ماہ وسال گزارے ہیں اورکم وبیش ۱۱؍سال تک یہاں کے علمی وتربیتی ماحول سے استفادہ کیا ہے اوریہاں کے مسند درس پرمتمکن نامور اساتذہ اورعلم وفن کی بلندیوں پرفائز باکمال مدرسین کے سامنے زانوئے تلمذ تہ کرنے کا شرف حاصل کیاہے، اسے یہاں کی ’’بزمِ سلیمانی‘‘ نے قلم پکڑنے کا سلیقہ سکھایا تویہاں کی ’’بزم خطابت‘‘ نے قوت گویائی عطا کی اوروہاں کے تعلیمی وتربیتی ماحول نے اس ناچیز کی شخصیت کی تعمیرمیں مثبت کردار اداکیا، اس کے لئے میں اپنے مادرعلمی اوراپنے مخلص ومشفق اساتذہ اورنگراں ومربیان کے احسانات سے کبھی سبکدوش نہیں ہوسکتا۔

اس اعتراف حقیقت اوراظہار تشکر وامتنان کے ساتھ بعض ایسے تلخ حقائق پرسے پردہ اٹھانا بھی ضروری معلوم ہوتا ہے جن کو دیکھتے ہوئے یہ احساس ہوتا ہے کہ ندوہ کہیں نہ کہیں اپنے اساسی اہداف سے روگردانی کررہا ہے اوربتدریج اپنی منزل سے بھٹکتا جارہا ہے اورجن وسیع تراغراض ومقاصدکے حصول کے لئے اس کا قیام عمل میں آیا تھا وہ کہیں نہ کہیں وقت کے بے رحم فیصلوں کی بھینٹ چڑھتے جارہے ہیں، اور ندوہ کے موجودہ ذمہ داران اوراصحاب بست وکشاد خود اس کے بانیان کے مطمح نظر اورمقاصد سے انحراف کرکے ندوہ کے لئے نئی پالیسیاں وضع کرنے میں لگے ہوئے ہیں جو اس کو دارالعلوم دیوبند کاایک ذیلی ادارہ بناکر اس کی انفرادی حیثیت اورامتیازی شناخت کو بتدریج ختم کرنے کی طرف لے جارہی ہیں اورجس فکر نے ندوہ کو نہ صرف ہندوستان میں بلکہ عالم اسلام میں بہت جلد مقبولیت عطاکردی تھی اس فکر پر گردکی دبیز تہ چڑھ چکی ہے ،حتی کہ آج کی نئی نسل ندوہ ودیوبند کے بنیادی فرق کو سمجھنے سے قاصر ہے طلبائے ندوہ اپنے وضع قطع، اپنی عالمانہ شان، اپنے علمی وقار، اپنی نشست وبرخاست، اپنی وسعت معلومات، اپنے انداز تکلم اوراپنے فکرکی بلندی کی بدولت سینکڑوں اداروں کے طلباء کے درمیان سے پہچانے جاتے تھے،آج زمانہ کے بے رحم ہاتھوں یا ذمہ دارانہ عہدوں پر فائزارباب دانش کے غلط فیصلوں اورناعاقبت اندیشیوں کی بدولت یہ امتیاز ’’من وتو‘‘ مٹ چکاہے، یعنی بڑے افسوس کے ساتھ یہ کہاجاسکتا ہے کہ آج ندوہ کا ایک فارغ التحصیل بھی اسی قدرکنویں کا مینڈک اورہرعلم وفن میں کوراہوتا ہے جوکبھی دیوبند کی پہچان ہواکرتی تھی، جس ندوہ نے مولاناسید سلیمان ندوی، مولانا عبدالسلام ندوی، مولانا مسعودعالم ندوی،مولانا محمد حنیف ندوی، مولانا محمدرئیس ندوی(رئیس الاحرار)مولانا سید ابوالحسن علی ندوی ،مولانا سعیدالرحمن اعظمی ندوی اورمولانا سید محمد رابع حسنی ندوی جیسے علماء وفضلاء، ماہرین فن اوراصحاب طرز ادباء پیدا کئے آج وہ کوئی ایسا جوہر قابل اورنایاب ہیرا پیداکرنے سے کیوں قاصر ہے جس کی چمک دمک سے ماضی کی طرح عالم اسلام کی آنکھیں خیرہ ہوں اور جوعالمگیر سطح پراپنی غیر معمولی قابلیت اورلیاقت سے پہچانا جائے، اس نکتہ پر غورکرنے کی ضرورت ہے، میں اپناذاتی تجربہ احاطۂ تحریر میں لاتے ہوئے حیرت کے جھٹکوں سے ابھرنہیں پاتا ہوں کہ ایک ندوی عالم۔ بڑے کرب کے ساتھ بیان کرناچاہتا ہوں ۔نے میرے ادارہ جامعہ سراج العلوم کی شاخ الہلال پبلک اسکول میں اردومدرس کی حیثیت سے تقرری کی درخواست دی، واضح ہوکہ اس عصری تعلیم کے ادارہ میں اردو بالکل ابتدائی درجات کے مکتب کے معیارکی ہے، اس ۴؍سطری درخواست میں مجھے املاء اورتذکیر وتانیث کی کم ازکم ۸؍غلطیاں نظرآئیں تومجھے ان صاحب کے ندوی ہونے کے دعوی میں شبہ ہوا ،لیکن جب سند کو بطور ثبوت پیش کیاگیا تومجھے اپنی آنکھوں اورندوہ کے گرتے ہوئے معیار پریقین نہیں آیا،جوادارہ محض اس لئے قائم کیاگیا تھاکہ روشن خیال اورزمانہ شناس علماء پیدا کرے، ملت کو مخلص اوربیدار مغز قیادت عطاکرے، باطل تحریکات ونظریات کا پردہ چاک کرے ،اسلام کے خلاف ہونے والی سازشوں اور ریشہ دو انیوں کاپردہ فاش کرے، جوعلم کے قدیم وجدید ہتھیاروں سے لیس ہو، جومذہبی عصبیت اورمسلکی منافرت سے پاک ہو، جس کے فارغین وسیع النظری، ژرف نگاہی اوراتحاد واتفاق کی صفات سے مالامال ہوں، جواپنی تعلیمات سے مختلف فرقہ ہائے اسلامیہ میں باہمی رواداری پیداکرے اور کسی فرقہ اور مکتب فکر کے عقائد واعمال میں رخنہ اندازی کے بغیر سب کو مشترک ملی مفادات کے لئے ایک وسیع پلیٹ فارم مہیاکرے،اس ادارہ میں تنگ نظری وتعصب ،مسلکی منافرت اورمختلف اسلامی فرقوں کے درمیان نزاع وتصادم کے جذبات کی شعوری وغیرشعوری طورپر پرورش کی جارہی ہے جس سے مختلف فرقوں کے درمیان مغایرت ومنافرت کی خلیج روز بروز وسیع ہوتی جارہی ہے اوریہ صورت حال براہ راست ندوہ کے بنیادی اہداف اوراغراض ومقاصد سے متصادم ہے۔

امت مسلمہ کی جس نسل نے بعدکے آنے والے ادوار میں شعوری آنکھیں کھولی ہیں یا ندوہ کے وہ طلباء جو قیام ندوہ کے اسباب ومحرکات اور اس کے تاریخی پس منظرسے واقف نہیں ہیں شاید انھیں یہ ماننے میں بھی آج تامل ہو کہ ذمہ داران ندوہ آج جس طبقاتی کشمکش کے شکار ہیں اوردوسرے فرقوں اورمسلکی رجحانات سے ایک محتاط دوری اورفاصلہ بنائے رکھنے کی روش پرگامزن ہیں وہ اس کے بانیان کی فکرسے میل نہیں کھاتا، جن کے سامنے تاسیس ندوہ کے صرف دومقاصد تھے، بعد کے ادوارمیں حالات وزمانہ کی ضروریات کالحاظ کرتے ہوئے کچھ اورکااضافہ توکیاگیا لیکن یہ دونوں مقاصدہمیشہ سب پرحاوی رہے، اوروہ تھے: (۱)اصلاح نصاب اورنظام تعلیم وتربیت کی جدید کاری(۲) اوردوسرا رفع نزاع باہمی، مناسب معلوم ہوتا ہے کہ ان دونوں مقاصد کی ضرورت واہمیت پر مختصر روشنی ڈال دی جائے،میں ابتداء ثانی الذکرسے کرتا ہوں۔

تاریخ شاہد ہے کہ اسلام کی ترقیات اوراس کی شہرت ونیک نامی کو جس قدر نقصانات باہمی اختلافات سے پہونچے ہیں اس قدرنقصان کوئی بڑے سے بڑا دشمن نہیں پہونچاسکا، ان اختلافات کی بنیاد چاہے سیاسی ہو چاہے مسلکی ومذہبی، اورچاہے نسلی ولسانی ہواورچاہے مسلمان کسی سازش کا شکار ہوکر یابے سبب ہی باہم دست وگریباں ہوئے ہوں، لیکن اس کا نتیجہ ہمیشہ انتہائی ہولناک نکلاہے ،پوری تاریخ اسلام اس کی مثالوں سے پرہے،خواہ سبائیوں کی سازش کے نتیجہ میں خلیفہ ثالث حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کی شہادت کاسانحہ ہو،خواہ حضرت علی وامیرمعاویہ رضی اللہ عنہماکی معرکہ آرائیاں ہوں، یاپھر تاج وتخت کے لئے امویوں اورعباسیوں کی یاعلویوں وعباسیوں کی خوں ریزیاں ہوں ،سب کے نتیجہ میں نقصان صرف امت مسلمہ کاہوا ہے، سلطنت عباسیہ کی بنیادوں کو تاتاریوں کی یلغار اورچنگیز وہلاکو کی افواج ہلانہیں سکتی تھیں ،لیکن شیعہ سنی اختلافات اورحنبلی وشافعی مسلک کے پیروؤں کی خانہ جنگیوں نے ان کاکام آسان کردیا، اسی طرح سے عثمانی فرماں رواؤں کی ترک تازیوں اورمجاہدین اسلام کے تلاطم خیز حملوں کے سامنے جب پورا یورپ بیدمجنوں کی طرح کانپ رہا تھا، اوراس طوفان کا رخ موڑنے کی یورپ کی متحدہ طاقت کے پاس بھی کوئی تدبیرنہ تھی اس وقت مسلم فرماں رواؤں کے باہمی اختلافات اوراسلامی حکومتوں کے آپسی تصادم وٹکراؤ نے ان کو ہمیشہ کے لئے محفوظ کردیا، ایک انگریز مفکرنے یورپ کی بے بسی اور مسلمانوں کی بے حسی پر اس طرح اپنے جذبات کا اظہار کیا جس کا مشاہدہ ایک ناقابل تردید حقیقت کی شکل میں پورے عالم اسلام میں ہورہا تھا، اس نے لکھا’’اسلام کی بڑھتی ہوئی فتوحات کوکسی نے نہیں روکا، لیکن ان کے اندرونی اختلافات کی بناپر یورپ کو نجات ملی، ملت اسلامیہ کی شیرازہ بندی کو منتشر کرنے اوراس کی قوت کو کمزور کرنے کا جس قدر موقع ان کے باہمی اختلافات نے دیا اتنا بیرونی حملوں نے نہیں‘‘۔

طرفہ تماشا تویہ تھا کہ لوگوں نے اللہ کے گھروں کوبھی اکھاڑا بنادیا تھا ،مسجدوں پرلکھاجانے لگا تھا کہ’’یہ حنفیو ں کی مسجد ہے ،یہ شافعیوں کی ،یہ حنبلیوں کی‘‘ حدتویہ کہ دوسرے مسلک کی مسجدوں میں غلاظت تک پھینکنے کی وارداتیں بکثرت ہونے لگی تھیں۔

اٹھارویں وانیسویں صدی میں پورے عالم اسلام میں یہ اختلافات نقطۂ عروج پر پہونچ گئے تھے جبکہ شیعہ سنی اختلافات اورباہمی تصادم ونزاعات کے چھوٹے بڑے واقعات تواسلام کے ابتدائی عہد سے ہی موجودتھے، لیکن ۱۹ویں صدی عیسوی کاہندوستان مسلکی اختلافات اورمذہبی نزاعات کی جوتصویر پیش کررہا تھا وہ بڑی ہی روح فرساتھی اوراس ملک سے اسلام کا ہی قلع قمع کرنے کی تدابیر کے مترادف تھی۔

ندوہ کے ناظم اول مولاناسید محمدعلی مونگیری رحمہ اللہ کی سیرت پرمولانا محمدالحسنی رحمہ اللہ نے ایک کتاب’’تذکرہ مولانامحمد علی مونگیری ‘‘کے نام سے لکھی ہے، اس کتاب میں اس وقت کے حالات کاکچھ نقشہ اورنزاع باہمی کی کچھ تصویر ان الفاظ میں کھینچی ہے’’لوگوں نے ان فقہی مسائل کو جوہمیشہ رہیں گے‘ کفرواسلام کا معرکہ بنادیا تھا اوراس میں وہ شدت اختیار کرلی تھی جوایک مسلمان کو کسی کافریا مرتد کے مقابلہ میں ہونی چاہئے‘‘، اس صورت حال کے پس منظر کو سمجھنے کے لئے سب سے زیادہ قیمتی دستاویز وہ خط ہے جومولانا ابوالقاسم ہنسوی نے اس طوفانی مخالفت سے متاثر ہوکر مولانا سید نذیر حسین(محدث دہلوی) کولکھاتھا، وہ بڑی دلسوزی اورقلق کے ساتھ خط میں ایک جگہ لکھتے ہیں:’’مسائل فروعی میں اس قدر لاونعم، ردوکد اورسب وشتم نے زورپکڑاہے کہ جس کا پایاں نہیں، جنگ وجدل فیما بین شعار اسلام ہوگیا ہے، مسائل اصول ایمانی کہ جس پر بنائے اسلام وایمان ہے‘ مفقود ہیں، ایک زمانہ تھا کہ اہل اسلام کفار واشرار سے مجادلہ ومقاتلہ کرتے تھے اورآمادۛ? ہدم بنائے کفار ومشرکین رہتے تھے ،اب یہ زمانہ ہے کہ باہم مسلمانوں میں خانہ جنگی ہے مسلمان اپنے ہی ہاتھوں اپنی ملت ومذہب اوربنائے اسلام کو گرارہے ہیں، اورباہم ایک دوسرے کو سب وشتم کرتے ہیں‘‘ (تذکرہ مولانا محمد علی مونگیری، مولفہ: مولانا محمد الحسنی)

’’حالت تویہ تھی کہ مناظروں ودشنام طرازی سے آگے بڑھ کر بات مقدمہ بازی اورفوجداری تک جاپہونچی تھی اورمسلمانوں کے مقدمات غیرمسلموں کی عدالتوں میں پیش ہونے لگے تھے جس پر غیرمسلموں کو ہنسنے کاموقع ملتا تھا، دہلی میں کوٹلہ والی مسجد میں صرف آمین بالجہر پرجھگڑا اتنا بڑھا کہ دوالگ پارٹیاں بن گئیں ایک پارٹی چاہتی تھی کہ آمین زورسے کہاجائے اوردوسری چاہتی تھی کہ چپکے سے، اس پرسخت لڑائی ہوئی، متعدد آدمی زخمی ہوئے، پھرمقدمہ چلا اوراس پر ہزاروں روپیہ برباد ہو،ا جس کانتیجہ یہ ہواکہ دونوں پارٹیوں میں ہمیشہ نفرت وعداوت پیداہوگئی جوآج تک ختم نہ ہوئی، اس طرح میرٹھ میں مقلدین وغیرمقلدین کی کشمکش اتنی بڑھ گئی کہ ہائی کورٹ تک مقدمہ پہونچا، اس کے علاوہ علیگڈھ کامشہور مقدمہ زہرخورانی ‘اسی افسوسناک صورت حال کی ایک اورمثال ہے ،مولانا لطف اللہ صاحب کو زہردیاگیا ،مگروہ تکلیفیں اٹھاکر بچ گئے، لاٹھیاں چلیں ،مقدمہ بازی ہوئی ،اوروہ سب کچھ ہوا جومسلمانوں کا سرشرم سے جھکانے کے لئے کافی ہے اورہندوستانی مسلمانوں کی تاریخ کا ایک بدنما داغ ہے‘‘۔ (تاریخ ندوۃ العلماء جلد اول مرتبہ مولانا محمداسحٰق جلیس ندوی رحمہ اللہ)

مسلمانوں کے مختلف فرقوں کے درمیان اجنبیت ومغائرت بلکہ دشمنی وعداوت اوردوسرے مسالک کے ساتھ استہزا وحقارت کارویہ اپنا نے کی ہی مثال ہے کہ آج بھی بعض دیوبندی مسلک کی مساجد میں آمین بالجہر یارفع یدین کرنے اور بسااوقات ننگے سرنماز پڑھنے پرمساجد سے نکالاجاتا ہے، اور نماز باجماعت کی ادائیگی کے حق سے ایک خاص مسلک کے لوگوں کومحروم کردیاجاتا ہے، اس کاتجربہ خودراقم الحروف کوبھی متعدد بارہوچکاہے، جب کہ بریلوی مکتب فکر کی تنگ نظری اور مذہبی عصبیت کا توحال یہ ہے کہ اب بھی ہندوستان وپاکستان میں ۔خال خال ہی سہی۔ ایسی مثالیں سامنے آتی ہیں کہ کسی اہل حدیث کی نماز کی ادائیگی کے بعدمسجدوں کودھل کر پاک کیاجاتا ہے اورحد تویہ ہے کہ بعض مساجد پر لکھاہوا ہے کہ ’’مسجد کے اندرکتوں اوروہابیوں کاداخلہ ممنوع ہے‘‘ وہابیوں سے سلام وکلام نہ کرنا، ان سے مصافحہ کرنے سے نکاح ٹوٹ جانا، ان کاذبیحہ حرام سمجھنا اوران سے تجارتی تعلقات تک رکھنے کے حرام ہونے کا فتویٰ ان مفتیان بے توفیق کی جانب سے جاری کرنے کی مثالیں کم یاب ضرورہیں لیکن نایاب نہیں۔

۱۸۵۷ء ؁ کی ناکام بغاوت کے بعدغیر منقسم ہندوستان پوری طرح انگریزوں کے زیرتسلط آچکاتھا اورجہاں انگریز فتح کے نشہ میں چوراورہندوستان پرقبضہ سے مسرور تھے وہیں مسلمان اپنی حکومت وسلطنت کے چھن جانے سے رنجوراوراحساس شکست وندامت سے دوچارتھے، پھر فتنۛ? ارتدادنے بھی ان کے حواس گم کئے اورشُدھی سنگھٹن نے بھی بھولے بھالے مسلمانوں کو اپنے دامِ تزویر میں پھانسنا شروع کیا، عیسائی مشنریاں بھی ملک میں سرگرم ہوئیں جو جدید فلسفہ اورجدید علم کلام سے لیس اور نئے نظام تعلیم کی پروردہ تھیں، ان تحریکات کا جواب محض قدیم نصاب تعلیم اورعلم کے قدیم ہتھیاروں سے لیس ہوکردینا ممکن نہ تھا ،ایسے میں اولا توسب سے زیادہ ضرورت اس بات کی تھی کہ مسلمان آپس میں اتحاد واتفاق پیداکریں اورمشترک ملی مفادات کے لئے ایک پلیٹ فارم پرآئیں، دوسرے اپنے علم میں وسعت، اپنے طرز فکرمیں جدت اوراپنے مطالعہ میں گہرائی پیداکریں اورعلم وعرفان کے نئے ہتھیاروں سے لیس ہوں ،ورنہ کئی محاذوں پرچھڑی ہوئی لڑائی کا مقابلہ وہ اپنے فرسودہ علم ،دقیانوسی خیالات اورآپسی اختلافات کی بدولت کبھی نہیں کرسکتے، دارالعلوم ندوۃ العلماء کاقیام اسی ضرورت کا احساس اوروقت کے انھیں تقاضوں کاجواب تھا۔ (جاری)

***





No comments:

Post a Comment