Wednesday, November 24, 2010

NOVEMBER-2010ایک متدین،خداترس،حددرجہ امین اور بزرگ عالم دین مولانا ابوالبرکات رحمانی رحمہ اللہ کا سانحۂ ارتحال

شمیم احمدندوی

ایک متدین،خداترس،حددرجہ امین اور بزرگ عالم دین
مولانا ابوالبرکات رحمانی رحمہ اللہ کا سانحۂ ارتحال

جامعہ سراج العلوم السلفیہ جھنڈانگرکے بانی ہمارے داداالحاج نعمت اللہ خاں رحمہ اللہ نے جب اس مدرسہ کی بنیادڈالی تو جھنڈانگر میں ہندوآبادی کی اکثریت تھی، جب کہ مضافات کے مسلم مواضعات میں زیادہ تر بریلوی مکتب فکر کے لوگ آباد تھے،ہمارے داداکی خواہش تھی کہ مسجد ومدرسہ کے جوارمیں راسخ العقیدہ متبع سنت اہل حدیث حضرات آباد ہوں، انھیں کی کوششوں سے بعض اہل حدیث خاندان جھنڈانگر میں آکر مستقل طورسے سکونت پذیرہوئے اوربعض لوگ دادامرحوم کی فیاضی ،سیرچشمی ، دریادلی اوردینداری کو دیکھ کر یہاں رہنے پرآمادہ ہوئے، اس طرح مدرسہ ومسجد کے پڑوس میں صحیح العقیدہ ، کتاب وسنت پرکاربند اوردین پسندلوگوں کی خاصی تعدادہوگئی۔
اسی طرح دادا الحاج نعمت اللہ خاں رحمہ اللہ نے مسجد کی تعمیرکے ساتھ جب یہاں ایک چھوٹا مکتب قائم کیا تواس میں تعلیم وتربیت کا فریضہ انجام دینے کے لئے آپ کی نظرانتخاب ایک ولی صفت بزرگ میاں محمدزکریا رحمہ اللہ پرپڑی جوگرچہ بہت زیادہ تعلیم یافتہ اورسندیافتہ عالم دین تونہ تھے مگرتقوی، خشیت الٰہی ،دین داری اوراتباع سنت کے سبب اپنے ہم عصروں میں ممتاز تھے، میاں محمد زکریا رحمہ اللہ کا آبائی وطن ضلع سدھارتھ نگر کے جنوب مغربی حصہ میں واقع موضع بیت نارتھا، دادا کی خواہش پر میاں صاحب رحمہ اللہ اپنے اہل وعیال کے ساتھ جھنڈانگر نیپال میں آبسے اورمدرسہ کے بالکل پڑوس میں انھوں نے ایک گھرکی تعمیر کی اور پھرمیاں صاحب کے علمی اورروحانی فیوض کا دریا جاری ہواجوساٹھ پینسٹھ سال تک مسلسل روانی کے ساتھ بہتارہا،اس خاندان کی آمد سے مسجدبھی اچھی طرح آبادہوئی اورمدرسہ کو بھی کافی تقویت ملی کہ یہ خاندان دینداروتقوی شعار اوراہل علم کا قدردان تھا، اورخوداس خاندان میں دینی تعلیم کو ہمیشہ اولیت حاصل رہی، ملک گیرشہرت کے حامل مشہور ومعروف عالم دین مولانا عبداللہ مدنی جھنڈانگری انھیں میاں محمدزکریا صاحب رحمہ اللہ کے پوتے ہیں جومرکزالتوحید کے رئیس اورمدرسہ خدیجۃ الکبریٰ کے مؤسس وناظم ہیں اور جو ملک وبیرون ملک اپنی دینی بصیرت ،مسلکی حمیت اوربلند افکار وخیالات کی وجہ سے عوام و خواص دونوں حلقوں میں معروف و مقبول ہیں۔
مولاناابوالبرکات رحمہ اللہ میاں محمدزکریا صاحب رحمہ اللہ کے پانچ بیٹوں میں سب سے بڑے تھے، انھوں نے ابتدائی تعلیم مدرسہ سراج العلوم میں اپنے والد بزرگوار میاں محمدزکریا رحمہ اللہ سے اورفارسی اورعربی کی ابتدائی تعلیم مولانا محمدزماں رحمانی رحمہ اللہ سے حاصل کی، پھرحصول علم کے لئے دارالحدیث رحمانیہ د ہلی تشریف لے گئے مگر اسی سال تقسیم ہند کے سانحہ کے سبب جب دہلی اجڑ گئی تورحمانیہ بھی بند ہوگیا، اس کے بعدموصوف نے جامعہ رحمانیہ بنارس میں داخلہ لیا اوروہیں سے سند فراغت حاصل کی ،فراغت کے معاً بعدمدرسہ سراج العلوم جھنڈانگر میں ابتدائی درجات میں تدریس کے لئے ان کی تقرری ہوئی ،مکتب وابتدائی درجات میں پڑھانے کے لئے جوصلاحیت ،صبرواستقلال اورمحنت درکارتھی وہ ان میں بدرجۂ اتم موجودتھی، اس زمانہ میں ایسے باصلاحیت ،فرض شناس اور محنتی اساتذہ کی بدولت ہی مکتب کی تعلیم کا معیار کافی بلند تھا ،طلبہ سے ان کو اس درجہ محبت تھی کہ میں نے خودمشاہدہ کیاہے کہ تعلیمی وقت ختم ہونے کے بعدبھی بچے ان کو گھیرے رہتے تھے اورمرحوم ان کو کچھ نہ کچھ پڑھاتے یاسمجھاتے ہی رہتے تھے،لیکن بلامعاوضہ، آج کل کی طرح اس وقت بہت زیادہ ٹیوشن پڑھانے کا رواج نہیں تھا، اور ان کو پیسہ کی بہت لالچ بھی نہ تھی ، صرف بچوں کی تعلیم اوراس سے زیادہ تربیت کی فکر تھی جوان کو ہمہ وقت رواں دواں رکھتی تھی۔
اللہ کے فضل و کرم اور میاں محمد زکریا رحمہ اللہ کے بعض بیٹوں کے مختلف طرح کی تجارت اور کاروبار سے وابستہ ہونے کے نتیجہ میں ان کے یہاں جب آسودگی وخوشحالی آئی نیزافراد خانہ کی تعداد میں اضافہ کے باعث قدیم مکان میں تنگی کا احساس ہوا تو ان میں سے کئی ایک نے چند برسوں قبل جھنڈانگر کے دیگرعلاقوں میں زمینیں خرید کر وہاں رہائشی مکانوں کی تعمیر کی اورمدرسہ کاپڑوس ترک کرکے وہاں جا کر آبادہوگئے‘ لیکن مولانا ابوالبرکات صاحب نے ہرآرام وراحت پرمسجد کے پڑوس کو ترجیح دی اوردم واپسیں تک مسجد سے دوری گوارہ نہ کی، ان کا مکان مدرسہ کی شمالی آخری دیوارسے بالکل متصل ہے ،کچھ عرصہ قبل تک ان کے گھر سے ایک وسیع داخلی راستہ سیدھے مدرسہ کے صحن میں آکرنکلتا تھا، لیکن بعدمیں جب اس راستہ سے کچھ شرپسندوں، اوباشوں اورتخریبی عناصر کی آمدورفت شروع ہوئی اورلوگوں کے اسے ایک عام گزرگاہ کی طرح استعمال کرنے کے سبب جب اس سے مدرسہ کا تعلیمی ماحول متاثرہونے لگا تو مدرسہ کی مجلس انتظامیہ کو اسے مجبوراً بند کرنے کافیصلہ کرناپڑا، جس سے واقعتاً سب سے زیادہ تکلیف چچا ابوالبرکات صاحب کو پہونچی، کیونکہ مسجد میں آمدورفت کے لئے ان کا آسان راستہ بندہوگیا تھا اوراب انھیں ایک لمباچکر کاٹ کرمسجد میں آنا پڑتا تھا، واضح ہوکہ مدرسہ کا ایک ذیلی دروازہ انھیں مصلیان مسجد کے لئے صرف نماز کے اوقات میں کھول دیا جاتا تھا، ابتدامیں اس تکلیف وپریشانی کی انھوں نے کئی بارشکایت کی لیکن پرانا راستہ دوبارہ کھولنا مدرسہ کے تعلیمی مصالح کے خلاف تھا اس لئے ان کی اس شکایت کا ازالہ تو نہیں کیا جاسکاپھربھی وہ برابر آخروقت تک جب اعضاء وجوارح میں حرکت اورجسم وجان میں طاقت تھی برابر پنچ وقتہ نماز باجماعت مسجدمیں ہی اداکرتے رہے اور جماعت کے ثواب سے محروم ہونا گوارہ نہ کیا، چندبرسوں قبل ایک بارانھوں نے مجھ سے اپنی اس تکلیف کا ذکرکیا کہ جس راستہ سے میں چکرکاٹ کر مسجد میں آتاہوں اس میں جگہ جگہ گڈھے،گندگی اورپانی ہے نیزروشنی کابھی معقول نظم نہیں ہے جس سے عشاء وفجر کی نمازکے لئے آمدورفت میں مجھ بوڑھے ناتواں کو بڑی زحمت ہوتی ہے، الحمدللہ میں نے صرف ان کی تکلیف کو دیکھ کراس کا ازالہ کردیا، راستہ بھی درست کرایا اورروشنی کا بھی انتظام کیا اورسارا کام اپنی ذاتی نگرانی میں کرایا جس سے اوردیگر راہ گیروں کوبھی سہولت ہوگئی، اگر خدمت خلق کے اس کام میں کوئی ثواب ہے توحقیقتاً اس کے مستحق چچا ابوالبرکات صاحب ہیں جنھوں نے مجھ کواس طرف توجہ دلائی۔
مولانا ابوالبرکات رحمانی کا شمار مدرسہ کے بہت پرانے مدرسین میں ہوتا تھا، ۵۴برسوں تک مدرسہ سراج العلوم میں تدریس کا ان کاطویل المیعاد ریکارڈ ہے جو اب تک ان کے ساتھ خاص ہے،ان کی تعلیم وتربیت سے کئی نسلیں مستفید ہوئی ہیں، اپنے ضعف وپیرانہ سالی کی بناپرمدرسہ سراج العلوم سے سبک دوش ہونے کے بعدبھی ایک عرصہ تک مدرسہ خدیجۃ الکبریٰ کی طالبات کو پڑھاتے رہے، اس طرح گویا کہ بچے اوربچیاں سب ان کے حلقۂ درس میں الگ الگ اوقات میں شامل رہے ہیں اوران کی تعلیم وتربیت سے مستفید ہونے والوں کا ایک بڑاحلقہ پیداہوگیا تھا ۔
اپنے ذاتی رہائشی مکان میں منتقلی سے قبل وہ مدرسہ سے متصل ہمارے ذاتی آبائی مکان کے ایک حصہ میں رہائش پذیر تھے، مجھے اچھی طرح یادہے کہ اپنے بچپن میں جب ہم جھنڈانگر آتے تھے توان کو اور ان کے اہل خانہ کواپنے سے بہت قریب پاتے تھے، اوراکثرایسا ہوتا تھا کہ جب جھنڈانگر میں واقع ہمارے اس گھرمیں ہماری کوئی چچی یادادی مرحومہ نہیں ہوتی تھیں توہم کئی کئی روزتک انھیں کے گھرکھاناکھاتے تھے اور ان کی اہلیہ (والدہ محمودومنظور) مرحومہ بڑی محبت وبڑے اہتمام سے ہمیں کھلاتی پلاتی تھیں، بچپن کے ابتدائی دورمیں‘ میں یہ نہیں جانتا تھا کہ یہ لوگ ہمارے قریبی عزیز نہیں ہیں، پھرہمارے بزرگوں نے اس مکان کوبھی فی سبیل اللہ مدرسہ پروقف کردیا اس طرح آمد ورفت کایہ سلسلہ موقوف ہوگیا۔
مدرسہ کے علاوہ ہمارے خاندان سے بھی ان کے بڑے قریبی روابط تھے، مجھ سے کئی بارذکر کیا کہ ’’آپ کے والد ’’بھیہ عبدالرحیم مرحوم ‘‘اور میں نے ایک ہی دن ایک ساتھ بسم اللہ کی اوراپنی مکتبی تعلیم کا آغاز قاعدہ بغدادی سے کیا، آپ کے والد میرے بچپن کے دوست تھے‘‘ دوسری کسی مجلس میں بھی جب کبھی میراتذکرہ آجاتا توکہتے کہ میرے دوست کا لڑکا ہے، میرے اوپران کا احسان بھی ہے کہ میرے والد مرحوم کی بیماری میں موصوف نے ان کی بڑی خدمت کی تھی، اس کا علم مجھے اپنی والدہ مرحومہ سے ہواتھا اوروہ شروع میں بڑی پابندی سے ان کے لئے عیدمیں جوڑااورکچھ تحائف بھیجا کرتی تھیں اور میں بھی کبھی کبھار ان کی چھوٹی موٹی ضرورت پوری کر دیاکرتا تھا، لیکن بہرحال اس احسان کا حق نہیں اداکرسکا جوانھوں نے میرے والد مرحوم کی خدمت ودیکھ بھال کے ذریعہ کی تھی، اللہ تعالیٰ ان تمام مرحومین کو غریق رحمت کرے۔(آمین)
میرے خاندان اوردادا مرحوم سے انتہائی قریبی مراسم کی بناپر ہی مجھے اپنے خاندان کے بزرگوں، ان کے دینی وعلمی کمالات اورخاندانی کوائف وحالات کا بیشترعلم انھیں کی زبانی ہوا، اسی طرح ابتدا ہی سے مدرسہ کی تعمیروترقی سے ان کو دلی لگاؤ تھا، مدرسہ کے تمام نشیب وفراز اوراس پرپڑنے والی افتاد کا بھی انھیں تفصیلی علم تھا اوراس کے مسائل کے حل میں بھی حتی المقدور ان کی شرکت رہی ہے، مدرسہ اورہمارے خاندان کے ماضی کے حالات سے جس قدر ان کی واقفیت گہری تھی اور بیشترحالات وواقعات کے وہ چشم دید گواہ تھے اسی قدر ان حوادث وواقعات کو سنانے سے بھی ان کوبڑی دلچسپی تھی، مدرسہ کی کون سی عمارت کب تعمیرہوئی؟کون سی عمارت کب گرائی گئی؟ حاجی صاحب مرحوم(ہمارے ولی صفت دادارحمہ اللہ)نے کون کون سی زمین یاعمارت کب وقف کی؟ مدرسہ میں عربی تعلیم کا کب آغاز ہوا؟ مدرسہ کے سالانہ جلسوں میں جماعت کے کن کن اکابرکی شرکت ہوئی؟یہ اوراس طرح کے دیگرکئی واقعات کے متعلق وہ چلتی پھرتی تاریخ تھے اوراپنی ان تاریخی معلومات سے دوسروں کوبھی بڑے ذوق وشوق سے مستفید کیاکرتے تھے۔
وہ جہاں سادگی‘ جفاکشی‘ زہد وورع اوراخلاص وللہیت کاپیکرتھے وہیں قناعت کابھی اعلیٰ نمونہ تھے، ان کی ضروریات بڑی محدود تھیں، مالی حالات کے بہتربنانے کی تمنا، عیش وآرام کی خواہش اور دنیاداری اورحرص وطمع سے ان کا کوئی تعلق نہیں تھا، معمولی موٹا جھوٹا کھانا اورچند سادہ سے جوڑے ان کے لئے کافی ہوتے تھے، غالباً چچامرحوم خطیب الاسلام مولانا عبدالرؤف رحمانی رحمہ اللہ نے اپنی آخری بیماری میں اپنی کوئی شیروانی یا چند جوڑے بطور یادگار ان کو عنایت کئے تھے لیکن میں نے کبھی ان کو شیروانی زیب تن کرتے ہوئے نہیں دیکھا، تاہم اپنے سادہ لباس میں بھی بڑے باوقار لگتے تھے۔
آخری وقت ان کا کافی عسرت وتنگی میں گزرا ،ان کے دونوں بیٹے محمود اورمنظور کسی منافع بخش پیشہ سے وابستہ نہ ہونے کی بناپر بقدر گزارہ بھی آمدنی نہیں کرپاتے تھے، لیکن اپنے آرام کے لئے کبھی حرف شکایت زبان پرنہیں لائے، البتہ بیٹوں کے لئے عزت کی روٹی اورضروریات زندگی کی فراہمی کے خواہشمند ضرورتھے اور کبھی کبھار ان کی نااہلی یا آرام طلبی کی شکایت اپنوں سے کردیا کرتے تھے ۔
اب آخرمیں میں ان تعزیتی سطور میں ان کی امانت ودیانت کی ایک اعلی وارفع مثال کے ذریعہ ان کی سیرت وکردار کی ایک ایسی خوبی کاذکر کرناچاہتا ہوں جوفی زمانہ نایاب نہیں توکمیاب ضرورہے، اورحقیقت یہ ہے کہ اسی خوبی کے اظہاروبیان کے لئے میں نے یہ تعزیتی مضمون قلمبند کرنے کا فیصلہ کیا ہے جس کا علم شاید کم لوگوں کو ہو۔
جامعہ سراج العلوم جھنڈانگر کے متعلق جن قارئین کو تھوڑا بہت بھی علم ہے وہ اس بات سے بخوبی واقف ہوں گے کہ ہمارے جدامجد الحاج نعمت اللہ خاں رحمہ اللہ نے جب اپنے حقیقی بھائیوں کی مددسے ابتدامیں چھوٹا سامدرسہ سراج العلوم کے نام سے قائم کیا تواسی وقت ایک وسیع قطعہ آراضی بلکہ پورا ایک گاؤں سونپور اس مدرسہ پر وقف کردیا تھا جو ان کے تمام ۸؍مواضعات پرمشتمل وسیع زمینداری میں سب سے زرخیز تھا، گویا کہ اسی وقت ان کے ذہن میں یہ خاکہ تھا کہ اس مدرسہ کو ترقی دے کرعالمیت وفضیلت تک تعلیمی سہولیات والے ایک معیاری ومثالی تعلیمی ادارہ میں تبدیل کرناہے ورنہ ایک مکتب کی ضروریات محدود ہوتی ہیں اورانھیں پورا کرنے کے لئے اس قدروسیع وعریض اورزرخیز قطعہ آراضی کی مطلق حاجت نہیں تھی جس کا رقبہ تقریباً ڈھائی سوایکڑہو، لیکن اس سے بانئ مدرسہ ہمارے دادا مرحوم کی عالی ظرفی و سیرچشمی اورمستقبل کے بلند تعلیمی منصوبوں اورعزائم کا علم ضرور ہوجاتا ہے۔
جس وقت اس گاؤں کی خریداری مکمل ہوئی اس وقت نیپال میں اصلاح آراضی(بھومی سدھار) کا کوئی محکمہ اورزمین کی حد بندی کا کوئی قانون نہیں تھا، ہمارے جدامجد، ان کے دوبھائیوں اورمختصرسے خاندان کے چند افراد کے نام ۸؍گاؤں پرمشتمل ہزاروں ایکڑزمین تھی، جب دادا مرحوم نے اس گاؤں یعنی موضع سونپور کو مدرسہ پروقف کرنے کا ارادہ کیا تواسی وقت اس کی ضرورت محسوس ہوئی تھی کہ مدرسہ کے نام اس کی رجسٹری ہوجائے، لیکن مدرسہ اس وقت تک رجسٹرڈ نہ تھا اس لئے یہ کام عملاً ممکن نہ ہوسکا، اس لئے خاندان سے باہر ایک ایسے قابل اعتماد اورامانت دارشخص کی تلاش ہوئی جس پراس وسیع آراضی اورقیمتی زمینوں کے متعلق بھروسہ کیاجاسکے اورزمین کو مامون ومحفوظ کیاجاسکے، خاندان میں سے کسی فرد کے نام کرنا اس وجہ سے مناسب نہ تھا کہ اول توان کے نام زمینیں بہت تھیں اور ملک میں کبھی تحدید آراضی کا قانون بننے کے بعدان کے بحق حکومت ضبط ہونے کا خطرہ تھا، دوسرے آگے چل کرخاندان کے کسی فرد کا دانستہ یا غلط فہمی کی بنیاد پر ان زمینوں پراپنی دعویداری پیش کرنے کا بھی موہوم سا امکان تھا، اس لئے دادا مرحوم نے ان تمام خطرات کے سدباب کے لئے مدرسہ کے تدریسی اسٹاف یاکارکنان میں سے ایک ایسے شخص کی تلاش شروع کی جوپوری طرح سے امین اورقابل اعتماد ہو، ایسے میں ان کی نظرانتخاب چچاابوالبرکات رحمانی پرپڑی جوان کے تمام تدریسی وغیرتدریسی اسٹاف اورقصبہ میں موجود ان کے دوست احباب میں سب سے زیادہ معتمد تھے او رجودادا مرحوم حاجی صاحب رحمہ اللہ کی امانت ودیانت،نیک نفسی، خداترسی اور راست گوئی کے کڑے اصولوں پربارہا اپنے کو کھراثابت کرچکے تھے اورہرطرح کی حرص وطمع اوراستغلال کے مذموم خصائص سے بہت دورتھے، اس لئے ذمہ داران مدرسہ نے یہ قیمتی وزرخیز زمین اوروسیع آراضی ان کے نام بلا ترددکردی جس کی مالیت آج پچیسوں کروڑروپئے سے زائد ہے، انھوں نے بھی زندگی کے ہرمرحلہ میں اپنے کواس بھروسہ کا اہل ثابت کیا اورذمہ داران جامعہ کے اعتماد پر ان کی توقعات سے زیادہ کھرے اترے، اس موقوفہ آراضی کی اپنی ایک تاریخ ہے جوکئی بارنشیب وفراز سے گذری ہے اوراس پرخطرات کے بادل منڈلائے ہیں ،یہ ملک نیپال کی تاریخ کا سب سے بڑا وقف ہے ،یہاں پرہندؤوں کے قدیم مندر، بدھشٹوں کے مٹھ وگمبا، ہندؤوں کی پاٹھ شالا ئیں اورعیسائیوں کے گرجاگھر ومشنری اسکول بڑی تعدادمیں ہیں، اوران میں سے اکثر کے لئے اوقاف (گوٹھی) بھی ہیں،لیکن اتنی وسیع آراضی یاغیرمنقولہ جائداد کسی کے پاس نہیں ہے، ملک میں جب تحدید آراضی یا اصلاح آراضی (بھومی سدھار) کاقانون نافذ ہوا توازروئے قانون ایک نام سے ۲۵؍ بیگہ228۳؍بیگہ پختہ یعنی ۵۶ ۱؍ایکڑ زمین سے زائد نہیں ہوسکتی تھی، جب کہ اس موقع پرچچا ابوالبرکات (جن کا سرکاری کاغذات میں نام ابوالبرکات مومن تھا) کے نام سے 127بیگہ پختہ زمین تھی، اس زمین کی بحق حکومت نیپال ضبطی کا آرڈرآگیا اورکارروائی کاآغاز بھی ہوگیا، کسی طرح ہمارے خاندان کے بزرگوں کو اس کا علم ہوا، ان کے پیروں کے نیچے سے زمین نکل گئی، بھومی سدھار منترالیہ یعنی وزارت اصلاح آراضی کا موقف یہ تھا کہ سیلنگ کا قانون نافذ ہونے کے بعد اب ایک نجی نام سے 28بیگہ پختہ (156ایکڑ) سے زائد جوبھی زمین ہوگی اسے لازماً ضبط کیاجائے گا اورچچا ابوالبرکات کے نام تنہا127؍بیگہ پختہ زمین درج تھی جو معرض خطر میں تھی۔
اس موقع پرہمارے خاندان کے بزرگوں اورمعاملہ فہم افراد نے انتہائی سوجھ بوجھ اوراپنی بیدارمغزی کا ثبوت دیا اورکافی جدوجہد کے بعد مدرسہ کی زمین کو تحفظ فراہم کیا، ان میں ہمارے بڑے چچا عبداللہ مرحوم اوربھائی عبدالرشید خاں صاحب کی خدمات وقربانیاں قابل ذکرہیں، ان میں اول الذکرکو زمینداری کے معاملات اورزمینوں کی نگہداشت کاوسیع تجربہ تھا اورثانی الذکر جواس وقت کلیہ عائشہ صدیقہ جھنڈانگر کے ناظم ہیں اورمسائل کے حل میں غیرمعمولی صلاحیت واہلیت کے حامل ہیں، انھیں دونوں کی کوششوں سے مدرسہ کی آراضی کو خرد برد اورضائع ہونے سے بچایا جاسکا،فللہ الحمد والمنۃ۔
بہرحال یہ زمین ایک عرصہ تک ایک موقوفہ آراضی(جسے نیپالی زبان میں گوٹھی کہتے ہیں) کی حیثیت سے ابوالبرکات مومن کے نام سے سرکاری کاغذات میں درج رہی ہے اورگٹھیا(وقف کنندہ) کی حیثیت سے سرکاری متعلقہ محکموں میں وہی جانے جاتے رہے ہیں جو ایک بڑا منصب بھی تھا اور قانون انھیں وسیع اختیارات کا مالک بنا رہا تھا، لیکن انھوں نے اپنے اس اعلیٰ منصب اوروسیع اختیارات کاکبھی ناجائز استعمال نہیں کیا، نہ ہی کبھی بلیک میلنگ کا راستہ اپنایا جوکہ ان حالات میں اکثردیکھنے میں آتا ہے، بلکہ اس کے برعکس جامعہ کی تعمیروترقی، اس کی تزئین وآرائش، تعلیمی معیار کی بلندی، خرابیوں کی اصلاح اورصفائی ستھرائی سے متعلق ہمیشہ بہی خواہانہ اور ناصحانہ مشورہ دیتے رہے ،اوراپنی کسی رائے پرعمل کرانے کے لئے کبھی اپنی اس حیثیت کا حوالہ نہیں دیا،اورشاید انھیں یہ یادبھی نہ رہا ہوکہ قانونی طورپر ٹرسٹ کے صدرکی حیثیت سے ان کوپوری کمیٹی پرفوقیت حاصل ہے، بلکہ ہمیشہ اس بوجھ کو ایک ملی امانت سمجھتے ہوئے خوشی خوشی اٹھائے رہے، پھرجب جامعہ سراج العلوم رجسٹرڈ ہوگیا اوراس کی کمیٹی بھی رجسٹرڈ ہوگئی اورگوٹھی کے مالکان وٹرسٹیان کی حیثیت سے جامعہ کی اس زمین کو ان کے نام کرنے میں کوئی رکاوٹ نہ رہی توانھوں نے ازخود اس پرزوردینا شروع کیا کہ اب آپ لوگ اس امانت کو واپس لے کرمجھے اس ذمہ داری سے آزاد کردیں کیونکہ میں عمرطبعی کو پہونچ چکاہوں، میری زندگی نہ رہنے پرقانوناً اس ٹرسٹ کی ملکیت میرے بچوں کو منتقل ہوجائے گی اوران کا رویہ آئندہ کیا ہوکچھ کہا نہیں جاسکتا ،اس لئے آپ لوگ میری زندگی ہی میں مجھے اس بارامانت سے سبکدوش کردیں، چنانچہ ضروری کاروائی کی گئی اوراب اس کے ٹرسٹی الحاج نعمت اللہ خاں رحمہ اللہ کے اہل خاندان ہیں جواس زمین کے فی سبیل اللہ وقف کرنے والے تھے۔
اس موقع پر ان کی امانت ودیانت اورصفائی قلب کا نمونہ بخوبی دیکھنے میں آیا کہ انھوں نے نہ تواس سے ناجائز فائدہ اٹھایا، نہ ہی کسی قسم کی مراعات کے طلب گار ہوئے، نہ اپنی کسی خواہش کا اظہارکیا بلکہ مدرسہ کے قانونی مشیرو وکیل نے جہاں کہا وہاں خاموشی کے ساتھ دستخط کردئے یا نشان انگشت ثبت کردیئے اور کبھی بھولے سے بھی اپنی اس حیثیت کا ذکرنہیں کیا کہ کبھی احسان جتانے کے انداز میں کہا ہو کہ میں نے ایسے وقت جامعہ کی کروڑوں کی آراضی کی حفاظت کی جب اس پرخطرات کے بادل منڈلا رہے تھے ،جب کہ ان مواقع پراچھے اچھوں کا ایمان ڈگمگاجاتا ہے اوروہ اپنی شرائط پیش کرنے لگتے ہیں یا مطالبات ومراعات کی فہرست تھمادیتے ہیں، ایسے ہی مواقع پر آدمی کی نیکی وپارسائی اورخداترسی و بے نفسی کی آزمائش ہوجاتی ہے جس پرچچاابوالبرکات رحمانی رحمہ اللہ پورے اترے۔
بہرحال وہ نیک نفس ،فرشتہ سیرت اورریا ونمود سے پاک شخصیت اس دارفانی سے کوچ کرکے خود تاریخ کا حصہ بن چکی ہے جس کی حیثیت جامعہ سراج العلوم السلفیہ،جھنڈانگر اورہمارے خاندانی حالات کے بارے میں ایک چلتی پھرتی تاریخ کی سی تھی۔
اللہ تعالیٰ ان کی طویل تعلیمی ،تدریسی، دعوتی اورتربیتی خدمات قبول فرماکر ان کے درجات بلند کرے اوران کے پسماندگان کوصبرجمیل کی توفیق عطافرماتے ہوئے انھیں ان کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق بخشے۔(آمین)

***

1 comment: